1676046599977_54338125
Open/Free Access
300
ڈاکٹر سید محمود
افسوس ہے کہ ملک و ملت کی وہ شمع جو ایک عرصہ سے جھلملا رہی تھی، ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی اور ڈاکٹر سید محمود صاحب نے ۲۸؍ ستمبر کی صبح کو اس جہاں فانی کو الوداع کہا، ڈاکٹر صاحب جیسی جامع اوصاف شخصیتیں کم پیدا ہوتی ہیں، ان میں مذہب و سیاست، علم و فن اور تہذیب و شرافت کا نہایت متناسب اجتماع تھا، شرافت اور وضعداری کا تو مجسم پیکر تھے، آخر کے چند برسوں کو چھوڑ کر جب وہ بالکل معذور ہوگئے تھے، ان کی پوری زندگی ملک و وطن اور قوم وملت کی خدمت میں گزری، وہ ابتدا سے کانگریسی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے پرانے رفیق تھے، ان دونوں کے تعلقات اتنے عزیزانہ تھے کہ ڈاکٹر صاحب پنڈت جی کے گھر کے ایک فرد سمجھے جاتے تھے، جنگ آزادی میں ان کے دوش بدوش حصہ لیا، اور ان کے ساتھ قید و بند کی مصیبتیں جھیلیں، آزادی کے بعد صوبہ بہار کے راجیہ سبھا کے ممبر تھے، پھر مرکزی حکومت میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ ہوئے، چند سال پہلے تک راجیہ سبھا کے ممبر تھے پھر اپنی معذوریوں کی وجہ سے اس سے بھی الگ ہوگئے تھے ان کا آخری کارنامہ مجلس مشاورت کا قیام ہے، اس کو انھوں نے ہندو مسلم اتحاد، ان دونوں کے درمیان غلط فہمیوں کے ازالہ اور ملک و ملت کی مشترک خدمت کے لیے قائم کیا تھا، اور ابتدا میں بڑی سرگرمی سے اس کے کاموں میں حصہ لیا، اور ضعف پیری کے باوجود ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کیا جس کا ملک کی فضا پر بہت اچھا اثر پڑا، لیکن پھر مجلس مشاورت کی پالیسی میں بعض ارکان سے اختلاف کی بنا پر اس سے الگ ہوگئے، وہ چند دنوں سے شیعہ سنی اتحاد کی کوشش میں تھے۔
وہ اگرچہ ابتدا سے کانگریسی اور اس کے نہایت ممتاز رہنما تھے، اور آخر تک اس پر قائم رہے، لیکن اس سے ان کے مذہبی و ملی جذبہ میں فرق نہیں آیا تھا، ان کے دل میں مذہب و ملت کے لیے بھی وہی تڑپ تھی جو ہندوستان کی آزادی کے لیے تھی، مگر ان کی رائے میں مسلمانوں کے مسائل کا حل اکثریت سے مل کر اور ان کی مدد ہی سے ہوسکتا تھا، مجلس مشاورت کے قیام کا مقصد بھی یہی تھا، جو پورا نہ ہوسکا، وہ عملاً پابند مذہب تھے، ان کو مولانا آسی سکندر پوری سے عقیدت تھی، بلکہ شاید ان سے بیعت بھی تھے، اس لیے ابتدا سے ان پر مذہب کا اثر اور تصوف کا ذوق تھا، اور آخر میں یہ رنگ اور گہرا ہوگیا تھا، مولانا آسی کا عارفانہ کلام بڑے تاثر سے پڑھا کرتے تھے، بزرگوں سے عقیدت رکھتے اور ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔
اس مختصر تحریر میں ان کے اوصاف و کمالات اور سیاسی و قومی خدمات کی تفصیل کی گنجایش نہیں، اس پر بہت سے لکھنے والے لکھیں گے، معارف میں بھی انشاء اﷲ مستقل مضمون لکھا جائے گا، اس وقت دارالمصنفین سے ان کا تعلق دکھانا مقصود ہے، ان کے اور سید صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے بڑے گہرے دوستانہ تعلقات تھے، وہ علمی ذوق بھی رکھتے تھے اس لیے دارالمصنفین سے بھی ان کو بڑا لگاؤ تھا، وہ اس کی مجلس انتظامیہ کے پرانے رکن تھے، پھر اس کے صدر ہوگئے تھے، اور پابندی سے اس کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے، سوگھر پور ضلع اعظم گڑھ میں ان کی قرابت اور جائداد تھی، اس سلسلہ میں بھی ان کا اعظم گڑھ آناہوتا رہتا تھا اور قیام دارالمصنفین میں رہتا تھا، جب تک رہتے بڑی پُرلطف صحبت رہتی، سیاسی، علمی، مذہبی ہر قسم کے مسائل پر گفتگو ہوتی، ان میں ان کے بعض تفردات بھی تھے، ان کا حافظہ بڑا قومی تھا،، ان کا دماغ پرانی یادوں کا خزانہ تھا، اس سے ہم لوگوں کے معلومات میں بھی اضافہ ہوتا تھا، سید صاحب اور مولانا مسعود علی صاحب کے بعد ان کی حیثیت دارالمصنفین کے بزرگ خاندان کی ہوگئی تھی، اور وہ ہم لوگوں سے اپنے عزیزوں ہی کی طرح محبت کرتے تھے۔
ان کی ذات سے دارالمصنفین کو بڑے فوائد پہنچے، انھوں نے اپنے اثر سے ایک مرتبہ دس ہزار اور دوسری مرتبہ پچاس ہزار سعودی عرب سے دلوائے، وہ کہا کرتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ دارالمصنفین مالی حیثیت سے اس قدر مضبوط ہوجائے کہ پھر اس کو کسی کی امداد کی احتیاج باقی نہ رہے، اس کے لیے انھوں نے کویت جانے کا پروگرام بنایا تھا ہم لوگوں نے عرض کیا کہ اس عمر میں آپ سے اتنا لمبا سفر کیسے ہوسکے گا، فرمایا تبدیلی آب و ہوا سے میری صحت زیادہ ٹھیک رہتی ہے، اور زیادہ تر وتازہ رہتا ہوں، ان کا یہ بھی ارادہ تھا کہ دارالمصنفین میں قیام کرکے اپنے پیش نظر علمی کاموں کو پورا کریں گے، دارالمصنفین کے متعلق اور بھی منصوبے تھے، مگر یہ سارے منصوبے دل ہی میں رہ گئے، اور ان کا وقت آخر ہوگیا، وہ پرانی یادگاروں میں تھے، اس لیے کانگریس اور مرکزی حکومت کے ارکان دونوں ان کا احترام کرتے اور ان کی باتوں کا بڑا لحاظ کرتے تھے، مسز اندرا گاندھی خاص طور سے ان کو اپنا بزرگ سمجھتی تھیں، اس اثر سے انھوں نے دارالمصنفین کو بڑا فائدہ پہنچایا، افسوس کہ یہ سہارا ختم ہوگیا لیکن اصلی اور حقیقی سہارا تو ایک ہی ہے۔ وعلیہ التکلان۔
اس ضعف پیری میں بھی جب کہ ان کے قویٰ جواب دے چکے تھے، ان کا دماغ پورا کام کرتا تھا، اور ان کی ہمت، حوصلے اور قوت عمل کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی، مگر ان کے سارے ہم نوا و ہم صغیر اٹھ چکے تھے اور وہ اس انجمن میں اپنے کو تنہا محسوس کرتے تھے، ہندوستان کے حالات سے بھی بہت شکست خاطر تھے اور حسرت و افسوس کے ساتھ ان کا ذکر کیا کرتے تھے، ادھر کئی مہینوں سے ان کی حالت خراب تھی، جولائی میں تو زندگی سے بالکل مایوسی ہوگئی تھی، ان کی حالت سن کر راقم اور صباح الدین صاحب ان کو دیکھنے کے لیے دلی گئے تھے، مگر ہمارے دوران قیام میں برابر بے ہوش رہے، اور ہوش میں ان سے ملاقات نہ ہوسکی، مگر اس کے بعد پھر حالت سنبھل گئی تھی، لوگوں کو پہچاننے اور باتیں کرنے لگے تھے۔
شروع اکتوبر میں بعض ضرورتوں سے پھر ہم دونوں کا دلی سفر ہونے والا تھا، خیال تھا کہ اس مرتبہ ہوش میں ملاقات ہوگی کہ ۲۸؍ ستمبر کی صبح کو دلّی ریڈیو اسٹیشن نے ان کی وفات کی غمناک خبر سنائی اور یہ آرزو دل ہی میں رہ گئی، البتہ ان کے مزار پر حاضری ہوگئی، ان کی وفات دارالمصنفین کے لیے تنہا قومی نہیں بلکہ ذاتی حادثہ بھی ہے، اﷲ تعالیٰ ملک و وطن کے اس خادم اور قوم و ملت کے اس غم خوار کی مغفرت اور عالم آخرت میں مقام محمود عطا فرمائے۔ والبقاء ﷲ وحدہ۔ (شاہ معین الدین ندوی، اکتوبر ۱۹۷۱ء)
ڈاکٹر سید محمود
جناب ڈاکٹر سید محمود․․․․․․ کو․․․․․․ مرحوم․․․․․․ لکھتے وقت قلم تھرتھرا رہا ہے، ہاتھ کانپ رہا ہے، دل رو رہا ہے، ان کی وفات غیر متوقع نہیں ہوئی، انھوں نے کافی عمر پائی، ریڈیو اور اخباروں میں تو ان کی عمر ۸۲ سال بتائی گئی ہے، مگر وہ غالباً اس سے بھی زیادہ عمر کے تھے، لمبی عمر پائی، مگر وہ خود بھی دنیا چھوڑنے کو تیار نہ تھے، اور نہ ہم لوگ ان سے اتنا جلد جدا ہونا چاہتے تھے، وہ مئی کے آخر میں اپنے ڈرائنگ روم میں اپنی پوتی سے پیار محبت کی باتیں کررہے تھے، کہ اٹھے اٹھنے میں پوتی سے ٹکرا کر قالین پر گر پڑے تو ان کے پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی، اسپتال لے جائے گئے، لیکن یہی موت کا بہانہ بن گیا، ٹوٹی ہوئی ہڈی علاج سے تو درست ہوگئی۔ مگر اور دوسرے امراض پیدا ہوتے گئے، پیشاب بند ہوگیا، آپریشن ہوا، ربر کی نلکی سے پیشاب جاری کیا گیا، بے ہوش رہنے لگے، نلکی کے ذریعہ غذا پہنچائی جانے لگی، ہوش آجاتا، تو پہلے کی طرح باتیں کرنے لگتے، صحت کی امید بندھنے لگتی، ان کے تمام اعزہ و اقربا، ان کی عیادت کو جمع ہوگئے، ان کی ایک صاحبزادی پاکستان میں ہیں، وہ آگئیں، ان کے ایک صاحبزادے سید احمد جرمنی میں ہیں، وہ بھی آگئے، وہ دارالمصنفین کے بہت بڑے سرپرست اور مربی رہے، گزشتہ ۵۰ سال سے ان کے تعلقات اس ادارہ سے تھے، اس لئے میں اور شاہ صاحب دونوں ۲۱؍ جولائی کو ان کی عیادت کے لئے دہلی پہنچے، وہاں تین روز قیام رہا، لیکن وہ ہوش میں نہیں آئے، ان سے کوئی بات نہ ہوسکی اور نہ ان کو معلوم ہوسکا کہ ہم لوگ ان کی محبت و شفقت کا حق ادا کرنے آئے ہیں، تین روز کے بعد ہم لوگ بڑی افسردگی کے ساتھ ان کے اعزہ سے رخصت ہوکر واپس ہوگئے، خطوط کے ذریعہ ان کی حالت معلوم ہوتی رہی، کبھی امید زیست ہوجاتی، لیکن ۲۸؍ ستمبر کی صبح کے ریڈیو سے یکایک خبر ملی، کہ وہ اﷲ کو پیارے ہوگئے، آنکھیں اشک بار ہوئیں، دل رویا رواں رواں رویا، رونے کے اسباب تھے، ادھر گزشتہ دس بارہ سال سے انھوں نے دارالمصنفین کو اپنی توجہ اور محبت کا خاص مرکز بنایا تھا، اور بیڑا اٹھایا تھا کہ وہ اپنی وفات سے پہلے دارالمصنفین کے سرمایہ محفوظ کے لئے کئی لاکھ روپے اپنی مساعی جمیلہ سے جمع کرکے رہیں گے، اسی کوشش کے سلسلہ میں سعودی عرب کے سفیر کے ذریعہ سے پچاس ہزار روپے دارالمصنفین کو دلوائے، پھر اسی اکتوبر میں مجھ کو اپنے ساتھ لے کر کویت تشریف لے جانے والے تھے، اس سفر کے لئے تیاری بھی شروع کردی تھی، لیکن خداوند تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ وہ دنیاوی سفر کرنے کے بجائے سفر آخرت کریں، انھوں نے یہ بھی خواہش ظاہر کی تھی کہ اب وہ دہلی چھوڑ کر دارالمصنفین چلے آئیں گے، جہاں رہ کر وہ اپنے علمی کاموں کی تکمیل کریں گے لیکن یہ ارمان ان کے دل ہی دل میں رہ گیا اور وہ سپرد خاک ہوگئے، ان کی وفات سے دارالمصنفین والوں کو ایسا معلوم ہوا کہ اس کا ایک بڑا سہارا ہی نہیں اٹھ گیا، بلکہ بے سہارا ہوگیا۔ جنازے میں ہم لوگوں کی شرکت ممکن نہ تھی، ریڈیو سے خبر ملی کہ شاہ ولی اﷲؒ کے خاندان کے قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے، جنازے میں کافی لوگ تھے، وزراء بھی سفراء بھی، صدر جمہوریۂ ہند کی بھی نمائندگی تھی، وزیراعظم اندرا گاندھی روس میں تھیں، لیکن وہیں سے ان کا پیام تعزیت شائع ہوا، وہ سیاست سے کنارہ کش ہوچکے تھے، آنکھوں کی بینائی بھی کم ہوگئی تھی، بہت اونچا سنتے تھے، فیل پاکی وجہ سے زیادہ دور تک پیدل نہیں چل سکتے تھے، لیکن سفر اور کام کرنے میں جوانوں کو مات کرتے، سفر میں گرمی، سردی، دن اور رات کا مطلق خیال نہ کرتے، ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ کا سفر بے تکلف کرلیتے، مسز اندرا گاندھی سے اپنی بیٹی ہی کی طرح محبت کرتے، گزشتہ انتخاب میں ان کی خاطر اپنی آخری علالت سے گویا تین مہینے پہلے یو۔پی اور بہار کا سفر ایک طوفانی پروگرام کے ساتھ کیا، دہلی سے لکھنؤ، رائے بریلی، فیض آباد، جونپور، غازی پور، پٹنہ، مظفر پور، چھپرہ کا دورہ چند روز میں ختم کرلیا، ان کے ساتھی تو تھک کر ان کو چھوڑتے گئے، لیکن وہ تازہ دم دہلی واپس ہوئے، پھر فوراً اپنے نجی کاموں کے لئے دیوریا، غازی پور، اعظم گڑھ اور جونپور آئے، یہاں سے واپس ہوئے، تو جیسا کہ ذکر آیا ڈرائنگ روم میں اتفاقاً گر پڑے، اور گرے تو پھر نہ اٹھے، وہ تقریباً پانچ مہینے ولنگڈن اسپتال میں رہے، اتنی طویل علالت میں لوگوں نے ان کو نظر انداز نہیں کیا، ان کی عیادت کے لئے صدر وی۔ وی۔ گری۔ وزیراعظم اندرا گاندھی، اور شہر کے اکابر، علماء، اور صلحاء برابر آتے رہے، سعودی عرب کے سفیر ان کی عیادت کے لئے آئے، تو ان کے اعزہ سے فرمایا کہ دنیا میں اگر کوئی بیش قیمت دوا ایسی ملتی ہو جس سے ان کی صحت ہوجائے، تو وہ منگوالی جائے، اس کے اخراجات وہ برداشت کرلیں گے، لیکن کارکنان قضا و قدر کی طرف سے پیام اجل چل چکا تھا، اس لئے کوئی تدبیر کارگر نہ ہوسکی، اور وہ اپنے عزیزوں اور عقیدت مندوں کو اپنا غم منانے اور اپنی خوبیاں یاد کرنے لئے چھوڑ گئے۔
اس مضمون میں ان کی سوانح عمری یا ان کے سیاسی حالات لکھنے کا ارادہ نہیں ہے، وہ مجھ سے برابر کہتے رہے کہ جب وہ دہلی چھوڑ کر دارالمصنفین میں قیام کریں گے تو مجھ کو اپنی سوانح عمری اوٹوبیا گرافی کے انداز میں ڈکٹیٹ کرادیں گے، لیکن یہ نہ ہوسکا، جس کا افسوس ہے، ان کے ذاتی تجربات، مشاہدات اور خیالات قلم بند ہوجاتے، تو ان کے دور کی سیاسی اور ملی زندگی کی بہت ہی قیمتی دستاویز ہوجاتی، راقم زیادہ تر اس مضمون میں اپنے تاثرات کا اظہار کرے گا، گزشتہ بارہ تیرہ سال سے وہ مجھ سے بڑی محبت کرنے لگے تھے، دارالمصنفین آتے تو بارہ ایک بجے رات تک اپنے پاس بٹھائے رکھتے، اور ہر قسم کی باتیں کرتے رہتے، کبھی اپنے خاندانی حالات کا ذکر کرتے، کبھی اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے، کبھی اپنے معاصروں کا ذکر چھیڑدیتے، کبھی ہندوستان کے گزشتہ سیاسی واقعات پر تبصرہ کرنے لگتے، کبھی اپنی خاص خاص تحریروں کے حوالے دیتے، کبھی جن جن تحریروں میں ان کا ذکر آیا ہے، ان کی نشاندہی کرتے، ان ہی تمام باتوں کی روشنی میں یہ سطریں لکھی جارہی ہیں۔
ان کی ولادت غازی پور کے ایک مردم خیز گاؤں سیدپور بھتری میں ہوئی، ان کے خاندان میں دولت کے ساتھ علم اور مذہب بھی برابر رہا، مشائخ بھی گزرے، اکبر بہار اور بنگال کی فتح کے لئے آگرہ سے چلا تو سیدپور بھتری سے گزرا، اس وقت اس خاندان میں دو مشہور بزرگ بندگی شاہ جمال اور بندگی محمود تھے، اکبر نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، تو انھوں نے ملنے سے انکار کیا، مگر چند عدد بیریں بھیج دیں، اکبر اس تحفہ کو فال نیک سمجھا، وہ واپسی میں پھر سیدپور بھتری سے گزرا، تو اس خاندان کے لئے ایک جائداد وقف کی، جو رفتہ رفتہ بڑھتی گئی، ڈاکٹر صاحب کے دادا جناب قاضی فرزند علی نے اپنی وفات کے وقت ڈھائی لاکھ سالانہ آمدنی کی جائداد چھوڑی تھی، وہ رئیس ہونے کے ساتھ بڑے مذہبی بھی تھے، مکہ معظمہ حج کے لئے گئے تو وہاں سے حضرت علیؓ کے پیراہن، کھڑاؤں اور رسول اﷲﷺ کا موے مبارک اور ہرن کی سینگ پر خط گوفی میں لکھا ہوا کلام پاک کا ایک نسخہ ساتھ لائے، ان تبرکات کی نمائش گاؤں میں برابر ہوتی رہی، مولانا وارث علی شاہ ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی کے استاد تھے، ایک بار وہ اس گاؤں میں آئے، تو ان تبرکات کو دیکھا تو ان پر جذب کا عالم طاری ہوگیا، ایک چیخ مار کر بولے واﷲ یہی چیز ہے، یہی چیز ہے، حفاظت کرو، حفاظت کرو، اسی کے بعد انھوں نے بیعت و ارادت کا سلسلہ شروع کیا، ڈاکٹر صاحب کے دادا حضرت سید احمد شہید بریلویؒ کی تحریک سے بھی متاثر تھے، انھوں نے اپنے ایک لڑکے یعنی ڈاکٹر صاحب کے بڑے چچا کو جہاد کے لئے حضرت احمد شہیدؒ کے سپرد کردیا، ایک موقع پر انھوں نے ان کی خدمت میں ایک لاکھ کی رقم بھی پیش کی، حضرت سید احمد شہیدؒ کو بھی ان سے بڑی محبت تھی، جب وہ حج سے واپس ہوئے، تو غازی پور کے ایک گاؤں میں پہنچے، یہاں پہنچتے ہی فرمایا، ’’بولے دوست می آید، بوئے دوست می آید‘‘ یہ کہہ کر یوسف پور کی طرف پاپیادہ چل کھڑے ہوئے، جہاں اس وقت ڈاکٹر صاحب کے دادا علیل تھے اسی علالت کے باوجود انھوں نے حضرت سید احمد شہیدؒ کا خیر مقدم بڑے جوش و خروش سے کیا، ان کو غازی پور لے گئے، ان کے پورے قافلے کی خاطر و مدارت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، بہت سے تحائف ساتھ کئے، اس سے متاثر ہوکر سید صاحب نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا، تم نے میرے دوست کو دیکھا۔
ڈاکٹر صاحب کے والد ماجد ملا سید محمد عمر صاحب نے خالص دینی تعلیم پائی تھی، اس لئے ان کے نام کا جز ملا ہوگیا تھا، وہ مولانا عبدالعلیم آسی غازی پوری کے تلامذہ میں تھے، راہِ سلوک پر بھی گامزن ہوئے، اور حضرت قطب الہند شاہ غلام معین الدین عرف شاہ امید علی سجادہ نشین خانقاہ رشیدیہ جونپور سے بیعت کی، ڈاکٹر صاحب کو اپنے والد بزرگوار سے مذہبی حمیت اور ایمانی غیرت وراثت میں ملی صوم و صلوٰۃ کے پابند رہے، آخر زمانہ میں تو اورادوظائف کا بھی شغل رکھنے لگے تھے، فیل پا کی وجہ سے ان کو اٹھنے بیٹھنے میں تکلیف ہوتی تھی، مگر چوکڑی مارکر بیٹھے بیٹھے نمازیں پڑھتے، سجدے کرنے میں ان کے پاؤں میں تکلیف ہوتی تھی، تکلیف گوارا کرلیتے، دارالمصنفین آتے، یا میں خود ان کے یہاں کبھی مہمان ہوتا، تو رات کو بھی اٹھ کر ان کو نمازیں پڑھتے دیکھتا، ان کے پاس دعاؤں کا ایک مجموعہ تھا، جس میں قرآنی آیتیں تھیں، ان کو وہ روزانہ پڑھا کرتے، کچھ تو ان کو زبانی یاد تھیں، اور کچھ دیکھ کر پڑھتے، ایک روز فرمانے لگے، کہ ان دعاؤں کو پڑھتے وقت خیال آیا کہ معلوم نہیں صحیح بھی پڑھتا ہوں یا نہیں، بارگاہ ایزدی تک پہنچتی بھی ہیں یا نہیں، ایک رات یاس و حسرت کے انہی جذبات کے ساتھ سوگیا، تو خواب میں دیکھا کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور میں کھڑا ہوں، اور آپؐ فرما رہے ہیں کہ جو دعائیں پڑھتے ہو، ان کو جاری رکھو، ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آنکھیں کھلیں تو اپنے کو پسینے میں شرابور پایا، انھوں نے کئی اور مرتبہ رسول اﷲﷺ کو خواب میں دیکھا، وہ ملک میں شیعہ سنی کے فسادات سے بہت آزردہ خاطر رہتے، اسی آزردگی میں ایک رات جو آنکھ لگی تو دیکھا کہ ایک مختصر مجمع ہے، فرش و فروش لگے ہوئے ہیں، حضور سرور عالمؐ تشریف فرما ہیں، حضرت علی کرم اﷲ وجہہ بھی تشریف رکھتے ہیں، مجمع سے دو آدمی اٹھے، انھوں نے حضورﷺ کو مخاطب کرکے حضرت علیؓ کی کچھ شکایت کرنے کی کوشش کی، لیکن حضورؐ کے اشارہ سے حضرت سید فاطمہ زہرا رضی اﷲ عنہا وہاں لائی گئیں، وہ ایک سفید چادر میں ملبوس تھیں، حضرت سیدہؓ کا ہاتھ حضرت علیؓ کے ہاتھ میں دیا گیا، دونوں کا نکاح پڑھایا گیا، لیکن یکایک دیکھنے میں آیا کہ لکڑی کا ایک بڑا سا بکس حضورؐ کی پشت پر رکھا ہوا تھا، اس میں کسی نے آگ لگادی، اس میں سے چھوٹی چھوٹی پتلیاں نکل کر ناچنے اور آپس میں لڑنے لگیں، یہ حضورؐ کو سخت ناگوار ہوا، وہاں سے آپ اٹھ کر دور جاکر تشریف فرما ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب نے اس خواب کا ذکر کرکے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ دکھانا تھا کہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ سے آپ کا کیا تعلق ہے، پتلیوں کے جھگڑنے سے مراد شیعہ سنیوں کے باہمی جھگڑے ہیں، اور آپ کا وہاں سے اٹھ جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کے جھگڑے سے اسلام کو تضحیک و تذلیل ہورہی ہے اس سے آپ کو سخت تکلیف ہورہی ہے، اور آپ ناراض ہیں، اس خواب کا ذکر انھوں نے اس پمفلٹ میں بھی کیا ہے، جو انھوں نے شیعہ سنی کے اتحاد کے سلسلہ میں سنی مسلمانوں سے ایک درد مندانہ اپیل کے عنوان سے ہندوستان کے مشاہیر کے دستخطوں کے ساتھ شائع کرایا تھا، لیکن اس میں اپنا نام ظاہر کرنا پسند نہیں کیا۔
ان کو اپنی مذہبیت کی بناء پر کلام پاک سے بڑا شغف رہا، جب تک ان کی بینائی کام کرتی رہی، اس کی تلاوت بھی کرتے رہے، اس کی تفسیر بھی پڑھتے، اس کے پڑھنے اور سمجھنے سے متعلق ان کے جو خیالات تھے، اس کا اظہار دارالمصنفین کی مجلسوں میں برابر کرتے رہتے، کہتے کہ مسلمانوں نے قرآن پاک کو جزدان میں لپیٹ کر رکھ دیا ہے، وہ اسلام کو قرآن پاک کے ذریعہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ اپنے ماضی قریب کی روایات ہی کو اسلام سمجھتے ہیں، قرآن پاک کا تخاطب ساری انسانیت سے ہے لیکن ہم نے غیر حکیمانہ طور پر اس کو صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص سمجھ رکھا ہے، اس لئے ہمارے علماء نے اﷲ تعالیٰ کو رب المسلمین بنادیا ہے، وہ رب العالمین بناکر پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں فیض آباد کے رسالہ دوام کے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ افسوس ہے کہ ہندوستان میں شیخ عبدہ اور شکیب ارسلان جیسی شخصیتیں نہیں پیدا ہوئیں، جو قرآن پاک کی آیات کی روشن تعبیر کرتیں اور اس دور کے مسائل کی گرہیں کھولتیں، قرآن مجید کی آخری تفسیر و تشریح کبھی نہیں ہوسکتی، یہ بڑا معنی خیز، جامع العلوم اور عظیم المرتبت کلام ہے، ہر دور میں یہ سائنٹفک حقائق سے ہم آہنگ رہا ہے، ہر دور کے محقق اور سائنس دان نے اس کے اندر وہ صداقتیں دیکھی ہیں جو کائنات میں بکھری ہوئی ہیں، ضرورت ہے کہ ہم اس کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی صلاحیت پیدا کریں، اپنی وفات سے چار مہینے پہلے اپنے ایک مضمون میں یہ تحریر فرمایا:
’’کلام پاک کو اس سائنٹفک دور میں سائنٹفک طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے، ایک یوروپین سائنسدان نے لکھا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے صرف عربی کا جاننا کافی نہیں، سائنس کے علوم کو بھی جاننا لازمی ہے، موجودہ دور کے سائنس دانوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ اوپر کے سیاروں تک پہنچنے میں دور حاضرہ کی بجلی کام نہیں دے سکتی، اس لئے وہ اور طاقت وربجلی کے انکشافاف میں لگے ہوئے ہیں، اگر ہمارے رسولﷺ کو معراج جسمانی تسلیم کرلی جائے تو کیا عجب ہے کہ ان کا براق دراصل وہی برق ہو جس کے انکشاف کی کوشش آج کل کے سائنسدان کررہے ہیں، اسی طرح کے اور بہت سے قرآنی اشارے ہیں، جو سائنس کے نہ جاننے کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آتے، قرآن کے الفاظ سخر الشمس و القمر [الرعد:۲]کی تائید سائنس کے موجودہ انکشافات سے ہورہی ہے، اسی لیے قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے سائنس کے علوم کی واقفیت ناگزیز ہوگئی ہے، یاد آتا ہے کہ سر شاہ سلیمان نے اپنی سائنسی تحقیقات کے سلسلہ میں کہا تھا کہ سائنس کے انکشافات جتنے زیادہ ہوتے جائیں گے، اتنا ہی ذات باری کا یقین بڑھتا جائے گا۔ اب تک خدا کے وجود کے متعلق شکوک اس لئے ہیں کہ سائنس کی تحقیقات مکمل نہیں ہوسکی ہیں،․․․․․․ قرآن پاک میں ذوالقرنین کے متعلق جیسی باتیں لکھی ہوئی ہیں، وہ موجودہ تحقیقات سے صحیح ثابت ہورہی ہیں، قرآن پاک کا یہ دعویٰ کہ اس کی تعلیم ہر زمانہ کے لئے ہے، مزید تحقیقات سے اور بھی مستحکم ہوجائے گا‘‘۔
ان کو اس کی بھی لگن رہی کہ قرآن پاک کی تعلیمات زیادہ سے زیادہ عام کی جائیں۔ حیدرآباد کے ڈاکٹر عبدالطیف نے جب مولانا ابوالکلام آزاد کے ترجمان القرآن کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا، اور ایک سوسائٹی کی تشکیل کرکے قرآنی تعلیمات کو انگریزی زبان کے ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ ترویج دینے کی اسکیم بنائی تو ڈاکٹر صاحب نے اپنی کوششوں سے ان کے لئے ایک گرانقدر رقم فراہم کرائی۔
ان کو اپنے خاندانی اثرات کی وجہ سے صوفیائے کرام سے بھی بڑی عقیدت رہی، کہا کرتے کہ مجھ کو بچپن میں حضرات قطب الہند غلام معین الدین (عرف شاہ امید علی) کی گود میں کھیلنے کا فخر حاصل ہوا، جونپور جاتے تو ان کی خانقاہ میں ضرور حاضری دیتے، اس کی مالی امداد بھی کیا کرتے، ان کی خواہش یہی رہی کہ وہ اپنی وفات کے بعد جونپور ہی میں سپردخاک ہوں، اس سلسلہ کے بزرگوں کے قبرستان میں اپنی جگہ بھی متعین کردی تھی، مگر مشیت ایزدی کچھ اور تھی، ایک بار میں ان کے ساتھ جونپور میں تھا، تو اس قبرستان میں ان کے ساتھ گیا، یہیں ان کے والد بزرگوار اور والدہ بھی مدفون ہیں، اپنے والدین کی قبروں کے علاوہ اور دوسرے بزرگوں کے مزاروں پر علیحدہ علیحدہ جاکر نہایت عقیدت اور احترام سے فاتحہ پڑھتے رہے، دارالمصنفین آتے تو صوفیائے کرام کے واقعات شوق سے سنتے، اور خود بھی بیان کرتے، ایک روز میری کتاب بزم صوفیہ سے حضرت نصیرالدین چراغ دہلویؒ کے حالات شروع سے آخر تک پڑھواکر سنے اور جب میں نے ختم کرکے ان کے چہرے کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
ان کو اپنے والد بزرگوار کے استاد شاہ عبدالعلیم آسی سے بھی بڑی عقیدت رہی، کہتے تھے، ان سے بیعت تو نہیں ہوا لیکن ان کا صحبت یافتہ ہوں، مگر اپنی بعض تحریروں میں ان کے نام کے ساتھ پیر و مرشد بھی لکھا ہے، ان کے کلام کے مجموعہ کو سفر میں برابر ساتھ رکھتے، اس مجموعہ کے بہت سے اشعار ان کو زبانی یاد تھے، جو سنایا کرتے، پھر بھی تشفی نہ ہوتی، تو مجموعہ سے اشعار پڑھواکر سنتے، دارالمصنفین کے قیام کے زمانے میں ایک رات اپنی اٹیچی سے کلام آسی نکال کر مجھ کو دیا، اور کہا کہ اس کو پڑھ کر سناؤ۔ میں نے یہ مجموعہ کھولا، تو یہ غزل پڑھنے لگا۔
کبھی میری بھی تجھے چاہ تھی، ترے دل میں میری بھی راہ تھی
کبھی اس طرف بھی نگاہ تھی کہ یہ سب خیال ہے خواب ہے
دل مبتلا ہے ترا ہی گھر اسے رہنے دے کہ خراب کر
کوئی میری طرح تجھے مگر نہ کہے کہ خانہ خراب ہے
یونہیں اپنے کوچہ میں رہنے دے نہ عبث اٹھا کے ستا مجھے
جو اٹھے تو درد جگر اٹھے ، کہیں مجھ میں اٹھنے کی تاب ہے
اگر آنکھ کھولو تو کچھ نہیں اثر وجود بجز فنا،
ہے سوا وہستی بے بقا کہ بیاض چشم حباب ہے
ہر شعر پر وجد کرتے کبھی تکیہ کے سہارے لیٹ جاتے، کبھی اٹھ بیٹھتے، ہر شعر کو سمجھاتے بھی جاتے، کہتے کہ اشعار میں تغزل، موسیقی، جذبہ سب کچھ ہے، پھر کہا کہ اسی قافیہ اور ردیف میں کیف عشق کے عنوان سے بھی ان کے اشعار ہیں، وہ بھی پڑھو،
نہ کبھی کے بادہ پرست ہم نہ ہمیں یہ کیفِ شراب ہے
لبِ یار چومے تھے خواب میں وہی جوش مستی خواب ہے
وہی پیشِ چشم ہیں ہر نظر مگر اب بھی شوقِ نقاب ہے
وہی میری ہر رگ و پے میں ہیں مگر اب بھی مجھ سے حجاب ہے
انھیں کبر حسن کی نخوتیں مجھے فیض عشق کی حیرتیں
نہ کلام ہے نہ پیام ہے نہ سوال ہے نہ جواب ہے
ان کو مولانا آسی کے مجموعہ کلام کے تمام عنوانات یاد تھے، کبھی کبھی اس کے صفحے بھی بتادیتے، کہتے کہ مولانا آسی کے بہت سے اشعار میں کسی نہ کسی آیت قرآنی یا حدیث کی طرف اشارہ ہے، پھر وحدت الوجود پر ان کے اشعار سناتے رہتے، اس شعر کو باربار پڑھتے،
بجز تمھارے کسی کا وجود ہو یہ محال مگر تمھیں نظر آتے ہو ماسوا ہوکر
مولانا آسی کے یہ اشعار بھی انہی کی زبان سے سنے:
بلندی اس کی اسی کی پستی ہر ایک شے میں اسی کی ہستی
عروج اسی کا رسول ہوکر ، نزول اسی کا کتاب ہوکر
ان کی ابتدائی تعلیم جونپور میں ہوئی، پھر اپنے بہنوئی محمد عمر صاحب کے ساتھ بنارس چلے گئے، یہاں مولوی محمد عمر صاحب نے ان کے والد کی مرضی کے خلاف انگریزی تعلیم دلانی شروع کی، یہیں کے قیام کے زمانہ میں ان کو مولانا شبلی کی تصانیف سے دلچسپی ہوئی، پھر یہ دلچسپی عقیدت میں ایسی تبدیل ہوگئی کہ ان کے شاگردوں سے بھی گہرے تعلقات پیدا کیے، اور پھر دارالمصنفین سے وابستہ ہوئے تو اس سے ہر طرح کی محبت کا اظہار کرتے رہے، وہ مولانا شبلی کو بہت بڑا عالم، ادیب، مورخ، شاعر سمجھتے تھے، ان کی بصیرت، فکر اور نظر کے بہت قائل تھے، سیرۃالنبی اور الفاروق کی بہت تعریف کرتے، البتہ مضامین عالمگیر کی بعض باتوں سے اختلاف کرتے، کہتے کہ یہ بہت ہی اچھی کتاب ہے اورنگزیب کے خلاف جو زہر پھیلایا گیا ہے، اس کا یہ تریاق ہے، مگر مولانا نے اورنگزیب کو سراہنے میں کہیں کہیں شاہ جہاں اور جہانگیر وغیرہ کو جو مجروح کیا، وہ نہ کرتے، تو اچھا تھا،
مولانا شبلی کو بھی ان سے لگاؤ رہا، دونوں میں برابر خط و کتابت رہی، مولانا شبلی ان سے علمی خط و کتابت بھی کرتے، اپنے خط میں ان کو محبّی لکھتے، اور جب آخر میں مجلس تالیف سیرت قائم کی تو ان کا نام بھی اس میں رکھنا چاہا، مولانا شبلی کا ایک خط ان کے نام سے یہ ہے،
مجی! سلام شوق!
’’آپ سے تو میں نے امیدوں کا بڑا سلسلہ قائم کیا تھا، جو بیچ میں ذرا منقطع ہوگیا تھا، یہ سچ ہے کہ جرمن پر نظر ڈالنی چاہئے، لیکن نظر کہاں سے آئے میں بالکل تیار ہوں، آپ جب بانکی پور جائیں تو مجھ کو لکھیں، میں دو ایک مہینہ کے بعد ضرور آجاؤں گا۔
مرگولوس، نولدکی وغیرہ سے بہت کچھ نقل آتا ہے، لیکن وہ سب مضحکہ انگیز ہوتے ہیں، آج جو مقام زیر قلم تھا، وہ یہ کہ نولدکی نے آنحضرتؐ کا ذلیل النسب ہونا[معاذاﷲ] ثابت کیا ہے، دلائل سخت حیرت انگیز ہیں، قرآن مجید میں ایک آیت ہے:
وقا لولا نزل ھٰذا القرآن علیٰ رجل من القریتین عظیم۔[الزخرف:۳۱]
یعنی کفار کہتے ہیں کہ قرآن دو شہروں میں کسی رئیس پر کیوں نہ اترا۔
عظیم کا لفظ رئیس اور صاحب دولت و اقتدار کے لئے آتا ہے، اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ آنحضرتﷺ کو دولت اور ریاست حاصل نہ تھی، اس سے بدنسبی کہاں ثابت ہوتی ہے، یہ نولدیک کا استدلال ہے۔
میں نے بعض فرنچ کتابیں پڑھی ہیں، رینان کا ایک رسالہ سبقاً پڑھا ہے، عجیب حماقتانہ باتیں پاتا ہوں، رینان نے ثابت کیا ہے کہ علم اور اسلام جمع نہیں ہوسکتے، پورا رسالہ اسی بحث پر ہے۔
ذالک مُبلغھمْ مِنَ العلم ․․․․․․․ مجھ کو تو اس حمام میں سب ننگے نظر آتے ہیں۔
آپ کا خط جی چاہتا ہے الہلال وغیرہ میں شائع کردوں، کل یا جزاً یہ میں چاہتا ہوں کہ مجلس تالیف سیرت میں آپ کا نام شامل کروں‘‘۔
شبلی ۔ لکھنؤ ، ۱۵ ؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء
۱۸۹۹ء میں وہ مزید تعلیم کے لئے اٹاوہ بھیجے گئے، جہاں مولوی بشیرالدین صاحب نے اپنا مشہور اسکول کھول رکھا تھا، انھوں نے کئی بار اثنائے گفتگو میں بیان کیا کہ جب انھوں نے پہلی دفعہ مولوی بشیرالدین کو دیکھا تو ان کو مسلمانوں کا اتنا بڑا محسن سمجھنے کے بجائے اسکول کا کوئی ادنیٰ ملازم سمجھا، وہ اپنے لباس اور وضع قطع سے بے نیاز رہتے، خود سادہ رہ کر مسلمان طلبہ کو سادگی اور کفایت شعاری کی تلقین کرتے رہے، ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ پہلی دفعہ ان سے ملے تو وہ دوڑ کر ایک ٹوکری میں چنے لائے، اور کہا کہ یہ ناشتہ تمھیں کرنا ہوگا، وہ اٹاوہ میں دو تین مہینے سے زیادہ نہ رہے، وہاں سے علی گڑھ چلے گئے، مگر مولوی بشیرالدین سے بہت متاثر رہے، کہتے کہ ان کے اخبار البشیر کی حیثیت اس زمانہ میں ٹائمس آف لندن کی تھی، وہ انگریزوں اور خصوصاً یو۔پی کے گورنر کے خلاف برابر مضامین لکھا کرتے، ان کے اخبار میں کوئی اور صاحب ہندؤں کے خلاف بھی مضامین لکھتے تھے، ڈاکٹر صاحب کو اپنی اس کم سنی میں بھی ان مضامین سے دکھ ہوا تھا، مولوی بشیرالدین کے یہاں روزانہ شام کو ’’جہل مرکب‘‘ کے نام سے ایک اجتماع ہوا کرتا تھا، جس میں ہر قسم کے مسائل پر گفتگو ہوتی تھی، ڈاکٹر صاحب بھی اس اجتماع میں شریک ہونے لگے، انھوں نے اس میں ان مضامین پر سخت نکتہ چینی کی، ان کا خیال تھا کہ قومی تحریک کے لئے ایسے مضامین مضر ہوں گے، اس ملک میں رہ کر ہندوؤں کو اپنے سے دور کرنے کے بجائے ان کو اپنے سے قریب تر کرنا ضروری ہے، اگر ہندوؤں کو مسلمانوں کی طرف سے شکوک ہیں، تو ان کو دور کرکے ان کو اپنی طرف مائل کرتے رہنا چاہئے، ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ انھوں نے اس سلسلہ میں اور بھی دلائل پیش کئے، ان سے مولوی بشیرالدین صاحب خوش ہوئے، اور وہ روزانہ اپنے ساتھ ان کو ٹہلنے کے لئے لے جاتے، ڈاکٹر صاحب نے اس موقع پر جو کچھ کہا تھا وہی ان کے ذہن کا خمیر بنارہا،
وہ ۱۹۰۰ء میں مزید تعلیم کے لئے علی گڑھ گئے جہاں ۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۷ء تک رہے، اس مادرِ درسگاہ کی محبت ان کے دل میں ایسی سرایت کئے ہوئی تھی کہ آخر وقت تک اس کے خلاف کوئی بات سننا پسند نہ کرتے، سرسید سے تو ان کو ملنے کا اتفاق نہیں ہوا، لیکن وہ ان کو مسلمانوں کا بہت بڑا محسن سمجھتے، ان کے متعلق ان کے جو خیالات رہیں، وہ ان کی اس تحریر کے ٹکڑے سے ظاہر ہوں گے جو انھوں نے اپنی وفات سے پانچ مہینے پہلی لکھی، وہ کہتے ہیں:
’’سرسید سند یافتہ عالم تو نہ تھے، لیکن ان کے جو کارنامے ہیں، ان کی وجہ سے کینٹول اسمتھ نے ان کو حضرت مجددالف ثانی ؒ کی صف میں لاکھڑا کیا ہے، شبلی، حالی، نذیر احمد اور آزاد کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی تحریروں سے مسلمانوں کو نشاۃ الثانیہ عطا کی، لیکن اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اردو کے یہ عناصر اربعہ سرسید کے خیالات و تحریکات سے متاثر نہیں ہوئے، شبلی کا سلسلہ ناموران اسلام سرسید کی صحبت کی وجہ سے شروع ہوا، ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں اور لکچروں میں سرسید کے خیالات کی پوری عکاسی ہے اور آج یہ بحث جاری ہے کہ ان کے ناول ابن الوقت کا ہیرو دراصل سرسید ہی کا کیریکٹر ہے، ابن الوقت انگریزوں کے تمدن میں ضرور رنگ گیا ہے، لیکن اس کی خودداری اور غیرت کی جو تصویر کشی کی گئی جو وہ ضرور قابل قدر ہے، حالی نے گل گشتِ رندانہ اور نغمۂ مستانہ الاپنے کے بعد جب سرسید کو اپنا رہبر تسلیم کرلیا، تو پھر ان کا ملی درد، مذہبی جوش اور ایمانی ولولہ مسدس حالی کی شکل میں ظاہر ہوا، اور یہ وہ کتاب ہے، جس نے مسلمانوں میں غیر معمولی معاشرتی، تعلیمی، دینی اور مذہبی انقلاب پیدا کیا، اس کے مفید اثرات اس وقت تک باقی رہیں گے، جب تک مسلمان ہندوستان میں اردو پڑھتے رہیں گے یہ مسدس دراصل سرسید ہی کے جذبات کی صحیح تصویر ہے اور یہ ان ہی کا کارنامہ ہے، ہندوستان کی گزشتہ تین صدیوں کے اندر مسدس حالی جیسی کوئی اور کتاب گزشتہ تین صدیوں کے اندر․․․․․․․ نہیں لکھی گئی، جس سے مسلمان اتنا زیادہ متاثر ہوئے ہوں، اور انھیں ہر شعبۂ زندگی میں اتنے فوائد پہنچے ہوں، خود مولانا ابوالکلام آزاد سرسید کے کارناموں سے متاثر رہے، یہ اور بات ہے کہ ان کے سیاسی خیالات سے متفق نہ تھے، میں تو اقبال کو بھی سرسید ہی کی تحریکات کا علم بردار سمجھتا ہوں، سرسید کے مذہبی خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انھوں نے اس سائنٹفک اور ایٹمک (Atomic) دور سے پہلے کلام پاک کو سائنٹفک طریقہ سے سمجھنے کی کوشش کی بنیاد ڈالی، لیکن ان پر کفر کے اتنے فتوے صادر ہوئے کہ اپنے کالج کے مفاد کی خاطر اس کو کوشش کو بہت زیادہ بار آورنہ کرسکے، وہ کا فر تو ضرور بنائے گئے، لیکن انہی کے یہ اشعار بھی ہیں،
خدا وارم دلِ بریاں زعشقِ مصطفےٰؐ دارم
ندا روہیچ کافر ساز و سامانے کہ من دارم
زجبریل امیں قرآن بہ پیغامے نمی خواھم
ہمہ گفتارِ معشوق است قرآنے کہ من دارم
اپنے سینے میں اسلام کی آتش فروزاں رکھنے والا ہی یہ اشعار کہہ سکتا ہے‘‘۔
ان کی وطنی محبت کا جذبہ علی گڑھ میں اتنا ابھرا کہ وہ وہاں قوم کے نام سے یاد کئے جانے لگے، اپنی ایک تحریر میں اپنے زمانہ کے کالج کے ساتھیوں کو یاد کرکے لکھتے ہیں:
’’مہندر پرتاب، تصدق احمد، حیات، جواہر لال (جواہر لال نہرو نہیں) مجید، احمد، شیو پرشاد، باقی، محسنؔ، شمشاد، مسعود، یہ سب طلبہ علی گڑھ کے مشہور کالج میں انٹرنس میں تعلیم پاتے تھے، یہ ہندوستان کے مختلف صوبوں کے رہنے والے تھے، لیکن ایک دوسرے کے ہمدرد، غمخوار اور آپس میں سب دوست تھے، روزانہ شام کو مارسین کورٹ (جہاں ان میں سے اکثر رہتے تھے) کے کمرہ نمبر ۴ میں جمع ہوتے تھے، اور دیر تک ہنستے بولتے اور آپس میں گپ شپ کرتے رہتے، مہندر پرتاب، جواہر، شیو پرشاد ایک علیحدہ بنگلہ میں رہتے تھے، جو بورڈنگ ہاؤس میں خاص کر ہندو طلبہ کے لئے متعین کردیا گیا تھا، شام کو یہ سب دوست مل کر کبھی کبھی پرانے قلعہ کی طرف سیر و تفریح کے لئے چلے جاتے، اونچے درجے کے طلبہ میں بھی مثلاً عبدالرحمن (بجنوری)، عزیز الرحمن، اور بدرالدین ان کے کچھ دوست تھے، عبدالرحمن ایم۔اے میں پڑھتے تھے، اور عزیزالرحمن اور بدرالدین ایف۔اے میں کبھی کبھی یہ دونوں بھی اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر مختلف مضامین پر گفتگو کیا کرتے تھے، مہندر پرتاب اپنے درجہ میں محنتی لڑکوں میں شمار ہوتے تھے، لیکن ان کو تاریخ نہیں یاد ہوتی تھی، اور نہ دل اپنا اس مضمون میں لگاتے تھے، جواہر اور احمد کو اپنے درجہ میں تاریخ سب سے اچھی یاد تھی، حیات اور شیو پرشاد کو ہندو اور مسلمانوں کے زمانہ کی تاریخ سے دلچسپی نہ تھی، لیکن انگریزوں کے زمانہ کی تاریخ کو وہ شوق سے یاد کرتے تھے، تمام وایسراؤں کے شاندار نام ان دونوں کو ازبر یاد تھے، ہمارے میر ولایت حسین صاحب جن کا انتقال ۱۸؍ جولائی ۱۹۴۹ء کو ہوگیا، تاریخ کے استاد تھے، ہر چند کوشش کرتے کہ مہندر پرتاب کو کسی طرح تاریخ یاد ہوجائے، تاکہ وہ امتحان میں کامیاب ہوجائیں، لیکن ان کی ساری کوششیں رائگاں جاتیں‘‘۔
مہندر پرتاب سے مراد راجہ مہندر پرتاب ہیں، جو ابھی تک زندہ ہیں، اور انقلابی ہونے کی وجہ سے انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں بہت دنوں تک جلاوطن رہے، تصدق سے مراد تصدق احمد شروانی ہیں، جو اپنے زمانہ کے مشہور کانگریسی لیڈر اور یو۔پی میں وزیر بھی رہے، عبدالرحمن سے مراد ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری ہیں، جو غالب پر اپنے ایک مضمون کی وجہ سے اردو ادب میں ایک مستقل جگہ بناگئے ہیں، مجید سے مراد عبدالمجید خواجہ ہیں، جو بیرسٹر ہوکر کانگریسی لیڈر اور جامعہ ملیہ کے وائس چانسلر بھی ہوئے، حیات بعد میں لارڈ حیات کے نام سے مشہور ہوئے، وہ نواب بھوپال کے پرائیوٹ سکریٹری بنے، عزیزالرحمن جمعیۃ العلماء کے مشہور نامور مولانا حفظ الرحمن کے بڑے بھائی تھے، بدرالدین اناؤ کے رہنے والے تھے، کمیونسٹ خیالات رکھتے تھے، انھوں نے چھ جلدوں میں ’’میرا پہلا گناہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، ان کا بعد میں قتل ہوگیا۔
ان کے ہم جماعت سرسید کے پوتے سرراس مسعود اور قاضی تلمذ حسین مصنف مراۃُ المثنوی بھی تھے، سرراس مسعود کو سیاست سے کوئی غیر معمولی دلچسپی نہیں رہی، اس کے باوجود دونوں کے تعلقات برابر خوشگوار رہے، البتہ قاضی تلمذ حسین ان کی سیاسی سرگرمیوں کے ناقد رہے، ان کے خلاف کچھ مضامین بھی لکھے۔
علی گڑھ میں رفتہ رفتہ ان کے ساتھیوں کا ایک ایسا گروپ بن گیا، جو ہندوستان میں برطانوی حکومت کے خلاف رہا، اس گروپ نے طلبہ پر انگریزوں کی جو مرعوبیت چھائی ہوئی تھی، اس کو وطنی محبت کے جذبے میں دور کرکے ہندو مسلمان کو ایک دوسرے سے قریب تر کرنے کی کوشش کی، ان کے ہم خیال طلبہ نے ایک خفیہ سوسائٹی اخوان الصفاء کے نام سے قائم کی، اس میں جو بحث مباحثے ہوتے، اس کا اندازہ ان کی کتاب ’’آج سے قبل کا ہندوستان‘‘ سے ہوگا، اس میں انھوں نے اپنے زمانہ کے علی گڑھ کے طلبہ کی گفتگوؤں کے حوالے سے ان کی ذہنیت کو بھی پیش کیا ہے، اس کتاب کا ذکر آگے آئے گا۔
اس زمانہ میں ایم۔ او۔ کالج میں انگریز اساتذہ میں مارلین، کارنا اور براؤن تھے، ان کے خلاف طلبہ میں بے چینی پیدا ہوئی، تو انھوں نے اور مطالبات کے ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا کہ بورڈنگ ہاؤس اور ڈرائنگ ہال انگریز اساتذہ کے سپرد نہ کئے جائیں، اور اگر وہ اساتذہ کی حیثیت سے نااہل ثابت ہوں تو رو رعایت کے بغیر برطرف کردیئے جائیں، یہ بے چینی ۱۹۰۷ء میں ایک اسٹرائک میں منتقل ہوگئی، ڈاکٹر سید محمود نے اس میں نمایاں حصہ لیا، وہ اور طلبہ کے ساتھ کالج سے نکالے گئے، مگر اس سے اسٹرائک کرنے والوں کی اور بھی زیادہ بے چینی بڑھی، حکیم اجمل خاں بیچ میں پڑے، اس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب چند طلبہ کے ساتھ ادب کے مشہور مصنف ڈپٹی نذیر احمد سے بھی جاکر ملے، ڈپٹی نذیر احمد اپنے خاص انداز میں گفتگو کرنے کے عادی تھے، انھوں نے طلبہ سے ہمدردی کا اظہار تو ضرور کیا، مگر اور باتوں کے ساتھ یہ دلچسپ باتیں بھی کہیں:
’’تم جانتے نہیں انگریز کتے کی ذات ہے، جہاں ایک کتے نے پیشاب کیا، پیشاب لگے یا نہیں، ہر کتا وہاں آکر ضرور پیشاب کرے گا‘‘۔
’’بدمعاشو سودیشی سوجھی ہے، سودیشی سوت کہاں سے آئے گا، کیا تمھاری خالائیں سوت کاتیں گی، انگریز کا مقابلہ کرنے چلے ہو‘‘۔
اسٹرائک ختم ہوئی تو ڈاکٹر صاحب پھر کالج میں داخل کرلئے گئے، اور اس کے یونین پر انہی کا قبضہ رہا، جس سے انگریز اساتذہ ان سے بدظن رہے،
وہ اپنے کالج کے ساتھیوں میں ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری، تصدق احمد شروانی اور خواجہ عبدالمجید سے زیادہ متاثر تھے، کئی بار مجھ سے کہا کہ ’’فرصت ہوگی تو دارالمصنفین میں آکر ان دوستوں پر ایک مستقل کتاب لکھواؤں گا، میں بولتا جاؤں گا تم لکھتے جانا‘‘ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کی علمی اور ادبی صلاحیت کے بہت معترف رہے، اپنے ایک مضمون میں ان کے متعلق لکھتے ہیں:
’’اس نئے دور میں مغربی تعلیم نے ہندوستان میں ایک ایسا نوجوان پیدا کیا تھا، جس نے مرزا غالب کی عظمت حقیقی معنوں میں پہچان لی تھی، اور جو کلام غالب کو ایسے حسنِ معانی کے ساتھ ملک کے سامنے پیش کرنے والا تھا، جس سے فلسفی، صوفی، شاعر اور سائنس داں سب ہی متحیر رہ جاتے، آہ! عبدالرحمن! عمر نے تیرے ساتھ وفا نہ کی، تو ملک و قوم کی عظیم الشان خدمت انجام نہ دے سکا‘‘۔
میرا خیال ہے کہ ان ہی کی صحبت میں ڈاکٹر صاحب کو غالب سے دلچسپی پیدا ہوئی، ان کو غالب کے بکثرت شعار یاد تھے، اور اپنے بڑھاپے میں بھی ان کا کلام سناتے تو سناتے ہی چلے جاتے، ۱۹۲۰ء میں غالب پر انھوں نے ایک مضمون لکھ کر ان کے اشعار سے سیاسی نتائج نکالے جس سے ایک خاص قسم کی دلچسپی پیدا ہوگئی، اس کا ذکر آگے آئے گا، تصدق احمد شروانی کے صاحبزادے جناب مصطفےٰ رشید شیروانی ہیں جو الٰہ آباد میں جیپ کمپنی کے مالک ہیں، ان سے ڈاکٹر صاحب کے بہت ہی عزیزانہ تعلقات رہے، خواجہ عبدالمجید صاحب کے گھر والوں سے بھی آخر وقت تک ان کا گہرا لگاؤ رہا۔
ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب جب مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے تو ان سے پہلے ڈاکٹر صاحب کا نام بھی وائس چانسلری کے لئے اخباروں میں آیا، اسی زمانہ میں جب وہ علی گڑھ گئے، تو طلبہ ان کو ایک بہت ہی شاندار جلوس میں اسٹیشن سے یونیورسٹی لے گئے، انھوں نے اس موقع پر علی گڑھ سے اپنی محبت کا پورا اظہار کیا لیکن وائس چانسلری کا عہدہ قبول کرنے سے انکار کیا۔
وہ علی گڑھ کے کسی اولڈ بوائے کی تعریف سنتے تو ان پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی، ایک بار دارالمصنفین میں ان کا قیام تھا، رات زیادہ گزرچکی تھی، میں ان کے پاس بیٹھا باتیں کررہا تھا، اثنائے گفتگو میں منشی ذکاء اﷲ کے لائق فرزند جناب عنایت اﷲ صاحب بی۔ اے علیگ (سابق ناظم دارالترجمہ حیدرآباد) کا ذکر آگیا، میں ان کے ساتھ دہرہ دون میں کچھ دنوں میں رہ چکا تھا، ان کی شرافت، اخلاق، وضعداری، لیسنت، مروت اور محبت کے کچھ واقعات سنائے، تو وہ سن کر بہت ہی خوش اور شگفتہ ہوگئے، جھومتے اور کہتے ان کے کچھ اور واقعات سناؤ، بستر سے اٹھ کر بیٹھ جاتے اور کہتے کہ ان واقعات کو سنا کر تم نے میری آج کی رات کیسی خوشگوار بنادی ہے، پھر یکایک دیکھا کہ ان کے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے، اور وہ کچھ پڑھ رہے ہیں، جب پڑھ چکے تو کہا میں عنایت اﷲ صاحب پر فاتحہ پڑھ رہا تھا، اور اﷲ تعالیٰ سے ان کی مغفرت کے لئے دعائیں مانگی ہیں۔
ان کی وفات کے بعد ان پر اخباروں میں اب تک مضامین آرہے ہیں، ۹؍ اکتوبر ۷۱ء کے مدینہ بجنور میں ان پر ایک مضمون ’’ڈاکٹر سید محمود کی کچھ یادیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے، اس میں ہے:
’’مسلم یونیورسٹی سے انھیں عشق تھا، اور ہر وقت وہ اس غم میں گھلا کرتے تھے کہ یہ تعلیم گاہ کسی طرح سرکاری دست برد سے بچے، جس زمانے میں مسٹر چھاگلا وزیر تعلیم تھے، انھوں نے لوک سبھا میں علی گڑھ یونیورسٹی پر ایک انتہائی زہریلی تقریر کی، جس میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ترقی پسندانہ اور سیکولر جذبات رکھتے ہیں، اس لئے مسلمان امن کے مخالف ہیں، داکٹر سید محمود راجیہ سبھا کے ممبر تھے، لیکن اس تقریر کو سننے کے لئے وہ لوک سبھا کی گیلری میں بیٹھے تھے، چھاگلا صاحب کی تقریر سن کر وہ گیلری میں زور زور سے غصے میں اپنا بید فرش پر مارتے تھے، اور کہتے جاتے تھے کہ جھوٹ ہے، بدمعاشی ہے، شرارت ہے، یہ بات لوک سبھا کے آداب کے خلاف تھی، لیکن کسی کو ان سے کچھ کہنے کی جرات نہ ہوئی‘‘۔
۱۹۰۷ء کے بعد وہ مزید تعلیم کے لئے یورپ گئے، انگلستان میں ان کا قیام تین سال تک رہا، کیمبرج سے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی، پھر جرمنی گئے، وہاں ان کو تاریخ میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری ملی، عام طور سے مشہور رہا کہ انھوں نے مولانا شبلی کی کتاب مضامین عالمگیر کا جرمن زبان میں ترجمہ کرکے پی۔ایچ۔ڈی ڈگری حاصل کرلی تھی، مگر یہ شہرت ان کے حریفوں نے دی، ورنہ مجھ سے خود انھوں نے بیان کیا کہ انھوں نے ’’مغلوں کے سیاسی نظام سلطنت‘‘ پر مقالہ لکھا تھا۔
وہ انگلستان اپنی وطنیت کے جذبہ میں سرشار ہوکر انگریزوں کے خلاف ایک زہریلا ذہن لے کرگئے تھے، مگر وہاں کے قیام میں انگریزوں کی شرافت و اخلاق سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، اور یہ اثر ان کی زندگی کے آخری وقت تک رہا۔ مگر انھوں نے اپنے ذہن کو دو حصوں میں تقسیم کررکھاتھا، سیاسی طور پر انگریزوں کے مخالف رہے، لیکن اس سے ہٹ کر وہ انگریزوں کو ہر طرح پسند کرتے تھے، ان کی قومی اور معاشرتی خوبیوں کے معترف رہے۔
انگلستان میں اپنے دو انگریز استاد پروفیسر ایڈورڈ براؤن، اور ولفرڈبلنٹ سے زیادہ متاثر ہوئے، پروفیسر براؤن کو ایرانی ادب اور تہذیب سے بڑا شغف رہا، انھوں نے اپنی تصانیف:
(A history of Persian literature, The press and poetry of Modern Persia, The wit and humour of the Persians).
کی وجہ سے علمی دنیا میں ہمیشہ کے لئے ایک مستقل جگہ بنالی ہے، وہ ایرانی تہذیب کی دلدادگی میں کبھی کبھی ایرانی لباس پہنے اور ایرانی حقہ بھی پیتے دکھائی دیتے، مسٹربلنٹ نہ صرف اہل علم بلکہ سیاسیات اور خصوصاً مسلم ممالک کی سیاسیات کے ماہر سمجھتے جاتے تھے، وہ اپنی تصانیف:
The secret history of the English occupation of Egypt.اور
Indie under Ripon 'Future of Islam'.
کے لئے ہندوستان اور اسلامی ممالک میں بہت مشہور رہے، ان کی شادی انگریزی زبان کے مشہور شاعر لارڈبائرن کی نواسی سے ہوئی تھی، ہندوستان کے وایسرائے لارڈ لٹن کے سمدھی بھی تھے، ایک انگریزی رسالہ بھی نکالا کرتے، کلام پاک برابر مطالعہ میں رکھتے، کہتے کہ اسلام قبول کرنے کا دل چاہتا ہے، مگر مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کو دیکھ کر مسلمان ہونے سے باز آجاتا ہوں، عربی پاشا کو جب پھانسی کی سزا دی گئی تو ان ہی کی کوشش سے وہ پھانسی کے تختے سے اترے، ان کو سیلون جلاوطن کردیا گیا تو مسٹر بلنٹ وہاں جاکر ان سے ملے۔ مگر ان کو وہاں مصریوں کو آپس میں لڑتے دیکھ کر بڑا دکھ ہوا، انھوں نے پانچ سال عرب میں بدوؤں کے ساتھ بھی گزارے تھے، عربی گھوڑوں کو پسند کرتے تھے۔ ان کی برائی سننا پسند نہیں کرتے۔
ایک بار ڈاکٹر صاحب کے ایک دوست نے ان کے سامنے کہہ دیا کہ انگریزی گھوڑے زیادہ تیز ہوتے ہیں تو انھوں نے برجستہ کہا کہ مگر عربی گھوڑے زیادہ شریف ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مسٹربلنٹ کی خوبیوں کا ذکر برابر کرتے رہتے، انھوں نے اس کا باربار اعادہ کیا کہ مسٹربلنٹ ہی نے سیاسیات میں ایمانداری کے اصول پر استوار رہنے کا نکتہ ذہن نشین کرایا، ان کی یہ تلقین کچھ ایسی موثر رہی کہ وہ سیاسیات میں ایمانداری کا ثبوت آخر آخر وقت تک دیتے رہے جس سے اور دوسرے رہنماؤں کی طرح وہ زیادہ کامیاب سیاست داں نہ ہوسکے، کہتے کہ کسی انگریز ہی نے کہا ہے کہ:
"Cosistency in politics is the virtue of an ass"
مگر وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں خوش تھے، کہ سیاسی دیانت داری اور وضعداری کا دامن ان کے ہاتھ سے کسی حال میں نہیں چھوٹا، گو لوگوں کو ان سے بہت کچھ اختلافات ہوتا رہا۔ ان کا بیان ہے کہ مسٹربلنٹ ان سے برابر کہتے رہتے کہ:
’’ہندوستان کی قومی تحریکوں میں مسلمان برابر شریک ہوتے رہیں، ورنہ ان کی حیثیت باعزت نہیں رہ سکے گی‘‘۔
یہ نصیحت ان کے ذہن پر برابر چھائی رہی۔ (نومبر ۱۹۷۱ء)
(۲)
انگلستان کے قیام میں ڈاکٹر صاحب کے وطنی اور ملی دونوں جذبات بیدار ہوتے رہے، ۱۹۰۹ء میں ایران کی تقسیم کا جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا تھا، انگریزوں نے وہاں بلو جیکٹ فوج اتار دی، مسٹر بلنٹ اور پروفیسر براؤن دونوں نے اس جھگڑے سے پوری دلچسپی لی، ڈاکٹر صاحب دونوں کی صحبت میں برابر رہا کرتے تھے، اس لیے وہ انہی کے ذریعہ سے ایران کے مشہور رہنماؤں میں مرزا یحییٰ اور آقا نقی وغیرہ سے ملتے رہے، پھر ایرانیوں کی حمایت میں ایک جلسہ کرایا، پروفیسر براؤن نے اس جلسہ میں منظور کرانے کے لیے ایک تجویز مرتب کی جس کو ڈاکٹر صاحب نے لے جاکر مسٹر بلنٹ کو دکھایا، انھوں نے دیکھ کر کہا یہ تجویز بے جان ہے، انگریزوں کی سخت مذمت کرو، ان کو گالیاں دو، تب ہی ان پر اثر ہوتا ہے، پھر انھوں نے خود ہی ایک بہت سخت تجویز مرتب کی، جلسہ میں جب یہ تجویز ڈاکٹر صاحب نے پیش کی تو پاس نہ ہوسکی لیکن ایک دوسری تجویز میں سلطان ترکی اور امیر افغانستان سے ایران کے مسئلہ میں مداخلت کرنے کی استدعا کی گئی، اس تجویز سے بھی انگلستان کے سیاسی حلقہ میں ایک ہلچل مچ گئی۔
۱۹۱۱ء میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کیا تو ڈاکٹر صاحب کی اسلامی حمیت بھڑک اٹھی اور انھوں نے ترکوں کی ہمدردی میں ایک جلسہ کرایا، جس میں انکی دعوت پر مسٹر بلنٹ اور پروفیسر براؤن بھی شریک ہوئے اس میں مسٹر بلنٹ نے انگریزوں کے خلاف اپنی سخت تقریر میں کہا کہ یہ بڑے سازشی ہیں، اٹلی کے ساتھ سازش میں شریک ہیں، اگر یہ چاہیں تو طرابلس سے اٹلی کی فوجیں واپس جاسکتی ہیں، جنگ بلقان کے موقع پر بھی ڈاکٹر صاحب کی اسلامی غیرت ابھری اس سلسلہ میں مسٹر بلنٹ نے ان کو ایک طویل خط لکھا جس کو انھوں نے مولانا محمد علی کے مشہور انگریزی ہفتہ وار اخبار کامریڈ میں شائع کردیا۔ وہ اپنے استاد کا بہت احترام کرتے، مگر بلقان کی جنگ کے سلسلہ میں ان کی رائے سے اختلاف کیا۔ اسی طرح مسٹر بلنٹ کا خیال تھا، کہ اگر خلافت ترکی کے بجائے عربوں کے کسی ملک میں منتقل ہوجاتی تو زیادہ مفید ہوتی مگر ڈاکٹر صاحب اپنے استاد کے اس خیال کو سیاسی مصلحتوں پر مبنی سمجھتے۔
ڈاکٹر صاحب نے رسالہ دوام کے ایک انٹرویو میں بیان کیا کہ مسٹر بلنٹ ہندوستان کی سیاحت کے لیے بھی آئے تھے، وہ علی گڑھ پہنچے تو سرسید ان کی دعوت کی، جس میں ایک انگریز کلکٹر اور ایک جج کو اپنے دونوں طرف بٹھایا۔ مسٹر بلنٹ کو یہ انگریز نوازی ناگوار گزری، اور اپنی ڈائری میں ان انگریزوں کا ذکر ٹامی کی حیثیت سے کر کے سرسید کے متعلق لکھا کہ یہ غیر مخلص شخص (Insincere fellow) ہے، ڈاکٹر صاحب سرسید کے متعلق یہ رائے پسند نہیں کرسکتے تھے اس لیے وہ خوش تھے کہ مسٹر بلنٹ نے آخر میں یہ رائے بدل دی تھی۔ اور وہ سرسید کو مخلص سمجھنے لگے تھے، اس رائے کی تبدیلی میں یقینا ڈاکٹر صاحب کا بھی حصہ رہا ہوگا۔ مسٹر بلنٹ اور پروفیسر براؤن کے بہت سے خطوط ڈاکٹر صاحب کے پاس آخر وقت تک محفوظ رہے، انھوں نے ان کو اپنے اس مجموعہ میں شامل کیا ہے، جو انھوں نے ’’مشاہیر کے خطوط ان کے نام‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا تھا۔ افسوس ہے کہ یہ اب تک شائع نہیں ہوسکا ہے۔ اس سے ان کی سیاسی سرگرمیوں اور دوسری قسم کی دلچسپیوں کی اور زیادہ تفصیلات معلوم ہوتیں۔
ڈاکٹر صاحب کے قیام انگلستان ہی کے زمانہ میں رائٹ آنریبل جسٹس امیر علی نے لندن میں مسلم لیگ قائم کی تو ان کو اس کا جوائنٹ سکریٹری بنایا۔ اس کے ایک جلسہ میں سر علی امام نے مشترکہ انتخاب کی تحریک پیش کی تو انھوں نے اس کی تائید کی، اور پھر اس کے لیے مختلف جلسے بھی کرائے، یہ بات جسٹس امیر علی اور سر آغا خاں کو پسند نہ آئی، ان سے ڈاکٹر صاحب کا اختلاف بڑھا تو وہ مسلم لیگ سے مستعفی ہوگئے۔ وہ اپنی نجی گفتگو میں کہتے کہ مجھ کو اس وقت جداگانہ اور مشترکہ انتخاب کی بحث بالکل فضول معلوم ہوتی، وہ ہر دام پر انگریزوں کی غلامی کا طوق ہندوستانیوں کی گردن سے اتار کر پھینک دینا چاہتے تھے، اس لیے وہ کوئی ایسا جھگڑا پسند نہیں کرتے جس سے ہندوستان کی آزادی میں رکاوٹ پیدا ہونے کا اندیشہ ہوجاتا۔ وہ ہندوستان سے انگریزوں کو جلد سے جلد اس لئے بھی رخصت ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان سے انگریزوں کے اقتدار ختم ہونے کے ساتھ ہی اسلامی ممالک میں بھی ان کا تسلط خودبخود ختم ہوجائے گا وہ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں:
’’طالب علمی ہی کے زمانے میں اسلامی جذبے کے ماتحت ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں شریک ہوا اور اپنے دوستوں تصدق احمد خاں شروانی اور ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے ساتھ اس میدان میں اترا، اس وقت تمام اسلامی ممالک انگریزوں کے مظالم سے تباہ ہورہے تھے، میرا عقیدہ تھا کہ جب تک انگریز ہندوستان پر مسلط رہیں گے اسلامی ممالک ان کے مظالم سے نجات نہیں پاسکتے، یہی اسلامی جذبہ طالب علمی کے زمانے میں چھایا رہا، جو خلافت کی مذہبی تحریک کے زمانے میں انتہا کو پہنچ گیا، جس سے مجھ کو ہر طرح کے مالی و جانی نقصانات اٹھانے پڑے‘‘۔
وہ انگریزوں کی مخالفت ضرور کرتے رہے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ وہ انگریزوں کے حوالے اپنی گفتگو میں برابر دیتے۔ دونوں کے نام مجھ کو اس وقت یاد نہیں آرہے ہیں، مگر انھوں نے اُن کا ذکر اپنے اس مقدمہ میں کیا ہے جو انھوں نے مشاہیر کے خطوط کے اس مجموعہ کے لیے لکھا تھا، جو ان کے نام سے ہیں، ایک انگریز نے جو برسوں ہندوستان میں رہ چکا تھا، ان سے ۱۹۱۱ء میں کہا کہ آپ ہندوستان کی آزادی چاہتے ہیں مگر یاد رکھئے کہ جب انگریز ہندوستان چھوڑیں گے، تو ہندوستان مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا، ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس انگریز کی پیشین گوئی کا ذکر برابر کرتے، اور کہتے کہ سیلون، برما، پاکستان اور اب بھوٹان بھی آخر واقعی علیحدہ ہو کر رہے، اپنے ایک دوسرے انگریز کی یہ بات بھی دہراتے کہ اس نے ان سے کہا کہ ہم لوگ جب ہندوستان چھوڑیں گے تو سارے ہندوستانی زبان کے مسئلہ پر کٹ مریں گے۔ ہندوستان میں جو لسانی جھگڑے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ان پر ڈاکٹر صاحب تاسف کا اظہار کرتے ہوئے اس انگریز کی انجام بینی کی داد دیتے۔
کیمرج کی تعلیم کے زمانے ہی میں ڈاکٹر صاحب اور پنڈت جواہرلال نہرو سے تعلقات پیدا ہوئے۔ جو آخر وقت تک استوار رہے، پنڈت جواہرلال نہرو نے اپنی سوانح عمر ی میں لکھا ہے:
’’میرے کیمبرج کے ساتھیوں میں کئی آدمی تھے جنھوں نے آگے چل کر ہندوستان میں کانگریس کے کاموں میں نمایاں حصہ لیا۔ ج۔م۔سین۔ گپتا، میرے کیمبرج پہنچنے کے تھوڑے دن بعد وہاں سے رخصت ہوگئے۔ سیف الدین کچلو، سید محمود اور تصدق احمد شروانی کم و بیش میرے ہم عصر تھے، شاہ محمد سلیمان بھی جواب الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں، میرے زمانہ میں پڑھتے تھے۔ میرے اور ہم عصر سول سروس کے رکن یا وزیر بن کر پھلے پھولے‘‘۔
انگلستان کے قیام کے زمانے میں ان کو ۱۹۰۹ء میں گاندھی جی سے ملنے کا اتفاق ہوا، وہ وہاں افریقہ سے آئے ہوئے تھے، ان کی ملاقات کچھ ایسی نیک اور مبارک ثابت ہوئی کہ آئندہ دونوں ایک دوسرے کے گرویدہ ہوتے گئے۔
وہ ۱۹۱۳ء میں ہندوستان واپس آئے، اس وقت پٹنہ میں سر علی امام کا طوطی بولتا تھا، ان کا شمار ہندوستان کے ممتاز بیرسٹروں میں تھا وہ ویسرائے لارڈ ہارڈنگ کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر بھی رہ چکے تھے، سیاسی خیالات میں قوم پرورانہ رجحانات رکھتے تھے، ان ہی کی خواہش پر ڈاکٹر صاحب نے پٹنہ ہی میں بیرسٹری شروع کی، اور نمایاں کامیابی حاصل کرنے لگے، مگر ہندوستان کی آزادی کی جو شمع ان کے دل میں روشن ہوئی تھی، وہ جلتی رہی، اسی لیے سیاسیات میں بھی حصہ لیتے رہے، اس زمانہ میں مسٹر مظہرالحق بھی جو بعد میں اپنی داڑھی اور مذہب کی وجہ سے، مولانا مظہرالحق کہلانے لگے تھے، ہندوستان کے چوٹی کے بیرسٹروں میں تھے، ان کی نظر ڈاکٹر صاحب کی طرف اٹھی، اور اپنی صاحبزادی سے ان کی شادی ۱۹۱۵ء میں کردی، مسٹر مظہرالحق کانگریس کی تحریکوں میں نمایاں حصہ لیتے تھے۔ ان کی صحبت میں بھی ڈاکٹر صاحب کی وطنیت کی کیمیا کو ضرور آنچ ملی۔ چنانچہ وہ ۱۹۱۵ء میں آل انڈیا کانگرس کے ممبر بنے، اور اس وقت سے زندگی کے آخری لمحہ تک مخلص کھدر پوش کانگریسی رہے۔
ان کو شعر و شاعری، اور تاریخ کا بڑا اچھا ذوق رہا، مگر ان پر سیاست کچھ ایسی حاوی رہی کہ وہ ادبی اور تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرتے، تو ان میں بھی اپنے ملّی اور وطنی جذبات کی تشنگی بجھانے کی کوشش کرتے، مثلاً ان کو غالبؔ کے کلام سے بڑی دلچسپی رہی، انھوں نے غالبؔ پر ایک مقالہ ۱۹۱۹ء میں لکھا، اس میں انھوں نے غالبؔ کی شیریں بیانی، فصاحت، بلاغت، بلندی خیال، ذکاوت، تعمق خیال، وسعت نظر، عالمگیر ہمدردی، غم خواری، انسان اور اس کے فضائل سے گہری واقفیت مشکل گوئی کے ساتھ طرز ادا کی سادگی، تشبیہوں کی جدت، استعاروں کی طرفگی، بلند پروازی کے ساتھ شوخی وغیرہ کی تعریف کرتے، اور ان کی مثالیں دیتے ہوئے، اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ ان کا کلام ہر زمانہ میں انسان کے دلی جذبات و خیالات کی تفسیر کر کے لوگو ں کو خوش کرتا رہے گا، ان کا کلام شیلی کی پرواز، کیٹس کی فصاحت، گوئٹے کی عمیق النظری، شلر کی بلند خیالی ٹامسن کے تخیل، مومن کے درد، سودا کی ظرافت اور میر کی سادگی کا مجموعہ ہے، یہ تعریف غالبؔ اپنے کانوں سے سنتے تو اپنی ناقدری کی شکایت نہ کرتے، مگر اسی کے ساتھ اس مقالہ میں ڈاکٹر صاحب یہ بھی لکھ گئے کہ غالب کی غزلوں کے اشعار میں ان کے زمانہ کے خونچکاں سیاسی واقعات کی عکاسی نظر آتی ہے مثلاً ۱۸۵۷ء سے پہلے ہندوستانیوں کی زندگی کا خاتمہ ایک قوم کی حیثیت سے ہوچکا تھا، سیاست دانوں کی طرح غالب نے بھی اپنے گہرے احساس سے اس کو محسوس کیا اور پردرد پیرا یہ میں اس کا اظہار یہ کہہ کر کیا:
کیوں گردش مدام سے گھبرانہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لئے
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
اسی بات کو دوسرے انداز میں اس طرح کہتے ہیں:
ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے
یاں تک مٹے کہ آپ ہی اپنی قسم ہوئے،
۱۸۵۷ء میں دہلی تباہ ہوئی، بندگان خدا بے خانماں ہوئے، شرفاء کے مکان ویران اور برباد کردیئے گئے، پورا شہر صحرا ہوگیا تو غالبؔ اس کی تصویر اس طرح پیش کرتے ہیں:
کم نہیں وہ بھی خرابی میں پہ وسعت معلوم
دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں
مسلمانوں پر جو مظالم توڑے گئے، ان کو دیکھ کر غالبؔ نے کہا:
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں ایسی لگی کہ جو تھا جل گیا
پھر انگریزوں نے ہندوستان کی تہذیب کو جس طرح مٹایا اس کا اثر غالب کے دل پر بھی ہوا، انھوں نے پوشیدہ طور پر اس کا درد ناک مرثیہ لکھا، جو حقیقتہً دل کو ہلا دینے والا ہے، اور یہ ہندوستان کی مٹی ہوئی عظمت کو یاد دلا کر خون کے آنسو دلواتا ہے، اس کی مثال اس قطعہ کے اشعار میں پیش کی، جو حسب ذیل شعر سے شروع ہوتا ہے:
ظلمت کدہ میں میرے شب غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے
ملک کی کھوئی ہوئی آزادی پر ان کے آنسو کبھی نہیں تھمے، اسی لئے فرماتے ہیں:
یاد نہیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہوگئیں
جوئے شیر انکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہوگئیں
اسی قسم کے اور بہت سے خیالات کا اظہار کرکے آخر میں لکھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو ہندو مسلمان کے اتحاد کی تلقین اس طرح کرتے ہیں:
زنار باندھ سبحۂ صددانہ توڑ ڈال
رہ بر چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر
ڈاکٹر صاحب کا یہ مضمون نظامی بدایونی کی شرح کلام غالبؔ کے پانچویں اڈیشن میں بھی شامل ہے، اس پر راسؔ مسعود، یگانہؔ چنگیزی، ڈاکٹر سید عبدللطیف، شیخ اکرام وغیرہ، نے بڑی سخت تنقیدیں کیں، اور پھر یہ بھی ثابت کیا گیا کہ ڈاکٹر صاحب نے جن اشعار کو غدر کی تباہی وغیرہ سے منسوب کیا ہے وہ غدر سے بہت پہلے لکھے جاچکے تھے، ڈاکٹر صاحب کو جب اشعار کے کہنے کا زمانہ معلوم ہوا تو پھر انھوں نے اپنے خیالات سے رجوع کرلیا۔ مگر وہ غالبؔ کی وطن پرستی کے آخر وقت تک معترف رہے، میں نے اپنی زیر تالیف کتاب ’’غالبؔ مدح و قدح کی روشنی میں‘‘ ڈاکٹر صاحب کے اس مضمون پر مفصل تبصرہ کیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے جو اشعار غالبؔ کی وطنیت کے ثبوت میں پیش کیے ہیں، وہ تو یقینا وطنی جذبے میں نہیں لکھے گئے لیکن ان کے مجموعہ کلام میں بنارس، پٹنہ کلکتہ کی جو مداحی ہے، یا ان کے خطوط میں دہلی سے جو محبت اور لگاؤ کا اظہار ہے، یا ان کے مکتوبات اور دستبنو میں دہلی کی تباہی اور بربادی کی جو خونچکاں تفصیلات ہیں، یا پھر ان کو اپنے ہندو شاگردوں اور دوستوں سے جو شیفتگی رہی، اور موقع بموقع جو اپنی رواداری اور بے تعصبی کا ثبوت دیتے رہے، اس سے اس زمانہ کے معیار کے مطابق ان کی وطنیت، جذباتی ہم آہنگی اور باہمی، اتحاد کا اظہار ضرور ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب نے میری کتاب کا یہ حصہ اصرار کرکے مجھ سے سنا اور سن کر فرمایا کہ جس طرف میری نظر پہلے نہیں گئی تھی، تم نے منتقل کرادی، میرے مضمون میں میرے دلائل صحیح نہ ہوں لیکن میں مطمئن ہوں کہ میں جس نتیجہ پر پہنچا تھا، وہ صحیح تھا، خوش ہوں کہ میرے مضمون ہی کی بدولت غالبؔ کے پرستار غالبؔ کے کلام اور تصانیف کو میری نگاہ سے بھی مطالعہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
ان کا ادبی اور علمی ذوق ان کے سیاسی ذوق کی وجہ سے دبتا چلاگیا ۱۹۲۰-۲۱ء میں خلافت اور ترک موالات کی تحریکیں دونوں ساتھ چل نکلیں تو انھوں نے ۱۹۲۱ء میں اپنی پریکٹس چھوڑ دی، اسی سال مرکزی خلافت کمیٹی کے جنرل سکریٹری بنائے گئے، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی کے ساتھ بمبئی میں رہنے لگے، مولانا عبدالماجد دریابادی نے ان کی وفات پر جو پر اثر مضمون لکھا ہے، اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’آل انڈیا خلافت کمیٹی کے سکریٹری کی حیثیت سے کام بڑے جوش و خروش، اخلاص و کامل دیانت کے ساتھ کیا، جب ۱۹۲۱ء میں علی برادران قید ہوگئے تو ان کی والدہ بی بی اماں مرحومہ کے دوروں کا انتظام کرایا، ان ہی دنوں انھوں نے ایک انگریزی کتاب ’’خلافت اینڈ انگلینڈ، لکھی، اور بھی بہت کچھ لکھا لکھایا، اسٹیٹسمین، اس وقت طاقتور اخبار تھا، وہ خلافت کی دیانت و امانت پرزور شور سے حملہ آور ہوا، دفاع میں سید محمود بھی میدان میں اترئے دلائل و اعداد کی توپوں سے اس مورچہ کو سر کرلیا۔
خلافت کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے ان کی سرگرمیوں کا کچھ انداز مولانا ابوالکلام آزاد کے حسب ذیل خط سے بھی ہوگا۔
"۴۶، رپن لین ، کلکتہ
حبی فی اﷲ، السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ، تار اور پھر خط پہنچا، آپ کا خط رمضان سے چند یوم پیشتر آیا تھا اور میں نے بروقت جواب دیدیا تھا، منتظر تھا کہ اس کا جواب آپ کی جانب سے موصول ہو تو بعض امور موعودہ کی نسبت لکھوں، بہرحال اب آپ کا منتظر ہوں اور احتیاطً خط کا جواب بھی روانہ کررہا ہوں بہار کے لیے میری جانب سے کبھی کوتاہی نہ ہوگی، بشرطیکہ کم سے کم آپ پوری طرح مستعدر ہیں، گاندھی جی سے بعض ضروری امور طے کرنے ہیں، اس لیے غالباً میں عید کی شام ہی کو بمبئی کے لیے روانہ ہوجاؤں اور پھر واپسی میں بانکی پور ٹھہروں، آپ بہار کے لیے ایک منظم اور طے شدہ پروگرام تیار کر رکھیں، اور میرے لیے ایک ایک دن صرف ان جگہوں میں ٹھہرائیں، جہاں واقعی اور ناگزیر ضرورت ہو کیونکہ علاوہ بمبئی اور مرکزی خلافت کی ضروریات اور باہر کے عاجز کن تقاضوں کے خود بنگال کا تمام کام ویسا ہی دھرا ہے، اور شوال میں اس کے لیے کافی وقت نکالنا نہایت ضروری ہے، ۱۴ جون سے ۲۵ تک بنگال کے لیے قرار دے چکا تھا، اور بعض مقامات کو مطلع بھی کرچکا تھا، لیکن آپ کے خط کی وجہ سے بہار کو ترجیح دی، اور بنگال کی تاریخیں پیچھے ڈالدیں، پس اس کا لحاظ رہے کہ کم سے کم وقت وہاں صرف ہو، اور صرف ناگزیر اور واقعی ضروری مقامات سردست منتخب کرلیے جائیں، پھر جولائی میں انشاء اﷲ یہ مقامات کا بھی دورہ ہورہے گا۔
امید ہے کہ آپ کی آمادگیاں جس کا میرٹھ میں تذکرہ ہوا تھا، قائم ہوں گی بلکہ مزید محکم و استوار ۔ میں نے طے کرلیا ہے کہ کچھ دنوں معیت رہے، اور آپ کی خواہش کے مطابق سفر و حضر میں یکجائی ہو، علی الخصوص سفر میں خدا نے چاہا تو موجب نتائج و ثمرات ہوگا۔
امید ہے کہ مسٹر مظہرالحق (جن کو اب بقاعدہ عام مولانا مظہرالحق کہنا چاہئے اگرچہ وہ اس سے خوش نہ ہوں گے) بدستور مشغول ومنہمک ہوں گئے اب ان سے ملنے کو بہت جی چاہتا ہے، اﷲ تعالیٰ ان کے ایثار واخلاص کو مزید قبولیت و ثمرات عطا فرمائے۔ (فقیر ابوالکلام احمد کان اﷲلہ)
۱۹۲۲ء میں جب خلافت اور ترک موالات کی تحریکیں بڑے شدومد کیساتھ بڑھیں تو ہزاروں محبان وطن کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو بکسر شاہ آباد (بہار) کے برطانوی جیل خانہ کی تنگ و تاریک کوٹھری میں بند ہونا پڑا، اس وقت ہندو مسلمان کے اتحاد کا بڑا ہی شاندار منظر دیکھنے میں آتا تھا، گاندگی جی، موتی لال نہرو، سی۔آر۔ داس، جواہر لال نہرو، مولانا شوکت علی، محمد علی، ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خان وغیرہ شمعِ اتحاد کے پروانے بنے ہوئے تھے ہر شخص اپنے اپنے نقطۂ نظر سے ہندو مسلمان کو ایک دوسرے سے قریب تر کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا، ڈاکٹر صاحب کا بھی یہ جذبہ اپنی انتہا تک پہنچ گیا تھا، بکسرجیل ہی میں انھوں نے ایک تحریر لکھنی شروع کی، جو پہلے تو روزنامہ خلافت بمبئی میں کئی مہینوں تک باقساط شائع ہوتی رہی، پھر نظامی بک ایجنسی بدایوں سے ۱۹۵۰ء میں کتابی شکل میں ’’آج سے قبل کا ہندوستان‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔
اس کتاب میں جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے علی گڑھ کے ہندو مسلمان طلبہ کی مجلسی گفتگوؤں کے ذریعہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں ذہنی موانست اور باہمی یگانگت پیدا کرنے کی خاطر ان کی گذشتہ تاریخ کی کچھ تفصیلات بیان کی گئی ہیں، یہ بظاہر کوئی تحقیقی کتاب نہیں لیکن اس میں جو معلومات فراہم کئے گئے ہیں وہ تاریخ ہند کے محققوں کے لیے سبق آموز اور مشعل راہ بھی ہیں۔ سارے تاریخی واقعات عبدالرحمن (بجنوری) کے ذریعہ سے بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن یہ عبدالرحمن دراصل خود ڈاکٹر صاحب ہیں، جو کچھ کہنا چاہتے تھے۔ عبدالرحمن کی زبانی کہہ گئے ہیں، اپنا نام کہیں آنے نہیں دیا ہے۔ جو ان کی کسرنفسی کی دلیل ہے، ان کا آخر آخر وقت تک خیال رہا کہ ہندو مسلمانوں میں اختلاف، پھوٹ، اور کدورت کی ایک بڑی وجہ یہ رہی کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں میں ہندوستان کی تاریخ کیا پڑھتے ہیں بلکہ اس کے ذریعہ بس ملے دودھ پیتے رہتے ہیں، ان ہی کو پی کر جوان ہوتے ہیں، اپنی اس کتاب میں اسی بس کو دور کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ اگر وہ ہندوؤں کے مذہب، ان کے مقدس رشتوں اور بزرگوں کے طریق علم و عمل کا مطالعہ کریں، تو ان کو معلوم ہوگا کہ ہندوؤں کے یہاں بھی خدا پرستی کی پوری شان اور توحید کی سچی تصویر نظر آئے گی، ہندو بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ خدا ایک ہے، اس کی ابتداء اور انتہا نہیں، ہر جگہ موجود ہے، پاک ہے، اپنی مرضی سے جو چاہتا ہے، کرتا ہے، قادر مطلق ہے، دانائے کل ہے، زندگی بخشتا ہے، حکومت کرتا ہے، سب کی حفاظت کرتا ہے، اپنی بادشاہی میں نرالا ہے، وغیرہ وغیرہ، وہ اس کے ضرور قائل ہیں، کہ خدا انسان کی صورت میں جنم لیتا ہے، اسی کو اوتار کہتے ہیں، مگر وہ اوتار کو خدا نہیں تسلیم کرتے، وہ بت کو ضرور سامنے رکھتے ہیں لیکن وہ دراصل اس کی پرستش نہیں کرتے۔ بلکہ اس کو اپنی دلجمعی کا وسیلہ سمجھتے ہیں تاکہ ان کا دل دوسری طرف منتشر نہ ہو۔ وہ اپنی مدد خدا ہی سے ڈھونڈھتے ہیں، اور اس کی پاکی کو سب سے برتر سمجھتے ہیں، ان کی مقدس کتاب رگ وید کا بڑا حصہ عبادت اور خدا کی تعریف سے بھرا ہوا ہے، ان کی اور مذہبی کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں خدا کا خوف اور نیکی کرنے کا ذوق رہا، ان میں بھی سخاوت، مروت، شجاعت اور شرافت، نیکی، نیک خیالی، ہمدردی، رواداری، سرچشمی، وضعداری، اور سعادت مندی کی تعلیمات ہیں، ان کی تہذیب، تمدن، علم، شاعری، فلسفہ، اخلاقیات، ریاضیات، نجوم، منطق، موسیقی، فن تعمیرات، زراعت، پارچہ بافی، رنگ سازی وغیرہ کی بھی ترقی ہوتی رہی، ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوں کو ان ساری باتوں کے روادارنہ طور پر مطالعہ کرنے کی تلقین کی۔
پھر انھوں نے ہندوؤں کو یہ سمجھایا کہ وہ ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کو اتنا برا نہ تصور کریں جیسا کہ وہ کرتے ہیں، پھر ہر مسلمان حکمراں کی کچھ نہ کچھ خوبیاں بتائیں، مثلاً انھوں نے بتایا کہ محمد بن قاسم اتنا روادار تھا کہ جب وہ سواتین برس حکومت کر کے خلیفہ کے حکم سے واپس بلایا گیا تو تمام ہندو اس کے لیے زارر زارر روتے تھے، کیمبرج میں اس کا بت بنا کر ایک عرصہ تک پوجتے رہے، محمود غزنوی نے اپنی ساری عمر میں کسی ایک ہندو کو بھی بزور مسلمان نہیں بنایا، راجہ تلک اس کا میر منشی اور پھر سپہ سالار مقرر ہوا، اس کو دربار کے تمام امراء پر فوقیت حاصل تھی، ایک دوسرا ہندو شیوندراے نامی بھی اس کی فوج کا سپہ سالار تھا، ناتھو نامی ایک اور ہندو محمود کی فوج میں ایک بڑے عہدے پر مامور تھا، ایک اور فوجی کمانڈر بجے راے نامی تو محمود کا خاص دوست سمجھا جاتا تھا، اس کا دربار شاہی میں بڑا رتبہ تھا، محمود گجرات، پنجاب، قنوج میں پھرتا رہا، لیکن وہاں کے مندر نہیں ڈھائے، عربوں کے زمانہ میں ملتان کے ایک مندر کو گرا کر اس جگہ مسجد بنائی گئی تھی، اس نے ملتان فتح کیا تو اس مسجد کو نماز کے لیے بند کردیا کہ وہ غضب سے حاصل ہوئی تھی، اس نے سومنات کا مندر ضرور گرایا، لیکن اس نے متھرا کے مندروں کو صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ وہ نہایت خوبصورت بنے ہوئے تھے، شہاب الدین غوری بڑا خدا ترس حکمران تھا، اس کو اپنی رعایا کی بہبود کا بہت خیال رہا، ایلتتمش کی عدل پروری کی شہرت دور دور تک تھی، رضیہ میں وہ تمام خوبیاں تھیں جو کسی اچھے سے اچھے حکمراں میں ہوسکتی ہیں، نصیرالدین محمود دنیا کی تاریخ میں بڑا عادل، نیک نفس اور خدا ترس بادشاہ سمجھے جانے کا مستحق ہے، بلبن کی حکومت انصاف و عدل کے لیے ہمیشہ ہندوستان میں یاد کی جائے گی، جلال الدین خلجی کی نیک چلنی، رحم دلی اور دشمنوں کے ساتھی شریفانہ سلوک کے سب ہی مداح تھے۔ علاء الدین خلجی کے زمانے میں غلے کی ایسی ارزانی تھی کہ پھر کبھی ہندوستان کو ایسی نصیب نہ ہوئی، اس کے عہد میں ایک شخص بنگالہ سے کابل اور مالابار سے کشمیر تک بلا خوف و خطر قیمتی سامان کے ساتھ سفر کرتا تھا، اس نے ملک کے دفاع کا ایسا اچھا انتظام کیا کہ مغل برابر پسپا ہو کر واپس جاتے رہے، محمد تغلق نے تمام ملک میں شفا خانے بنوائے ، صرف دہلی میں ستر شفاخانے تھے، بارہ سو اطبا ملازم تھے، غرباء و مساکین کے لیے خیرات خانے تھے، جن میں غریب ہندو مسلمان کو خیرات بٹتی تھی، ملک میں تعلیم کا خاص انتظام تھا، صرف صوبہ دہلی میں ایک ہزار کالج تھے، فیروز شاہ تغلق نے بڑے بڑے شہر آباد کئے، نہریں جاری کیں، بے شمار میووں کے باغات لگائے گئے، صرف شہر دہلی میں بارہ سو باغات تھے، رعایا خوشحال رہی، ان کے پاس دولت، مال، زیور، سونا اور چاندی کی کثرت رہی، خضر خاں اپنے امراء اور رعایا میں ہر دلعزیز رہا، سیدوں کے زمانہ میں ہندوؤں کو سلطنت کے امور میں بڑا دخل تھا، سدانند اور سداپال دربار کے بڑے معزز امراء تھے، وہ امروہہ، بیانہ خرنول اور گہرام کے گورنر مقرر ہوئے، سکندر لودی جفاکش رحم دل، منکسر، نیک طینت اور نیک طبع بادشاہ تھا، مغلوں کی حکومت کی تعریف تو غیر بھی کرتے ہیں، ان کے دور حکومت میں ہندوستان عروس البلاد بن گیا تھا، اس دور میں شیر شاہ کے ساتھ بابر ہمایوں، اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں کے کارناموں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، اورنگزیب ہندوؤں میں ضرور بدنام ہے لیکن اگر وہ چند الزامات سے اپنے کو بری رکھتا، اور اس کی طبیعت دو ایک برائیوں سے صاف ہوتی، تو شاید وہ دنیا کے چند مشہور بادشاہوں کے ساتھ شمار کیا جاتا، شجاعت، ہمت، اولوالغرمی، استقلال، محنت، تہذیب، علم، بردباری، عقل و فراست میں اورنگزیب اپنا نظیر نہیں رکھتا تھا، اس پر مندروں کے منہدم کرنے کا الزام رکھا جاتا ہے، مگر اورنگزیب ایک موقع پر بنارس کے گورنر کو لکھتا ہے کہ ’’میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ بنارس کے برہمنوں اور ہندوؤں کو ان زمینوں پر جو ہندوؤں کی ہیں، اور قدیم زمانے سے انہی کے قبضہ میں ہیں، بت خانے بنانے سے روکتے ہیں، اس وجہ سے وہاں کے ہندو پریشان اور مترد ہیں، تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ ان کو بت خانہ اپنی زمین پر بنانے سے کوئی شخص نہ روکنے پائے، اور نہ ان کی عبادت میں کوئی مزاحم ہو، تاکید جانو‘‘۔
پھر اسی اورنگ زیب نے ہندو مندروں کے لیے جاگیریں دیں، پجاریوں کے لیے وظیفے مقرر کئے، بہت سے مندروں کے پجاریوں کے پاس امداد کے سلسلہ میں اس کے شاہی فرامین موجود ہیں مغلوں کے آخر زمانے میں ہندو امراء دربار پر چھائے رہے، رتن چند اور راجہ اجیت سنگھ تو سید عبداﷲ اور سید حسین کے ساتھ سلطنت کے کاموں میں برابر کے شریک دار تھے۔ رتن چند کے اختیارات تو اتنے وسیع تھے کہ ساری سلطنت میں قاضیوں کی موقوفی اور بحالی اسی کے ہاتھ میں تھی، محمد شاہ کے عہد میں چھیلا رام احمد آباد کا گورنر، راے بسنت رام آگرہ کا گورنر اور راجہ خوشحال راے اس کا سکریٹری تھا، اددھ میں نواب شجاع الدولہ کی سلطنت کا دراصل مالک را جہ سینے بہادر تھا، نواب صفدر جنگ کے وقت میں فوج کا کمانڈر انچیف مہاراجہ نول راے تھا، آصف الدولہ کے زمانہ میں راجہ سورت سنگھ بریلی کا گورنر تھا، اور خوشحال رائے بخشی المالک، پھر بعد میں وہ الٰہ آباد کا گورنر ہوا بنگال میں راجہ موہن لال سراج الدولہ کا دیوان اور اس کی سلطنت کا مختار کل تھا، اسی کے زمانہ میں راجہ رام نرائن بہار کا گورنر رہا، الخ الخ‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کی کتاب سے مثالیں گو بہت زیادہ پیش کردی گئی ہیں لیکن ان کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے وطنی جذبے کی بناء پر اگر ہندوؤں کے مذہب اور تاریخ کو برا کہنے کے روادار نہ تھے، تو پھر اپنے ملی جذبات کی بنا پر نہ صرف اسلام، بلکہ مسلمان حکمرانوں کے بارے میں بھی ان کی برائیاں سننا پسند نہ کرتے تھے، بلکہ ان کو اچھا سمجھنے کی تلقین کرتے۔ ان ہی وطنی اور ملی جذبات کی ملی جلی شکل کا نام ڈاکٹر سید محمود تھا، اگر ان پر کبھی ضرورت سے زیادہ وطنی جذبہ غالب ہوجاتا، تو کبھی ملی جذبات سے بھی وہ مغلوب ہوجاتے، ان کے ان دونوں مشترک جذبات کی قدر کرنے والے زیادہ نہ تھے، مگر جنھوں نے قدر کی ان کی نظروں میں وہ باوقار ہے۔
وہ ۱۹۲۳ء میں پنڈت موتی لال نہرو کے ساتھ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری مقرر ہوئے، اس کے بعد وہ نہرو خاندان سے ایسے وابستہ ہوتے گئے، کہ وہ اس خاندان کے رکن معلوم ہونے لگے، کانگریس کی سیاسی سرگرمیوں میں ان کا برابر کا حصہ رہا، مگر ۱۹۲۳ء کے بعد ہندو مسلم یگانگت کا وہ خوشگوار منظر دیکھنے میں نہیں آیا، جو ۱۹۲۰-۲۱ء کے عدم تعاون اور خلافت کی تحریکوں کے زمانہ میں آیا تھا، دو تین سال کے اندر ہی ہندو مسلمان کے تعلقات بگڑنے لگے، کشیدگی بڑھی، فرقہ وارانہ فسادات ہونے لگے، عدم تعاون اور خلافت دونوں کی تحریکیں بے جان سی ہوتی چلی گئیں، ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۲۵ء میں پھر اپنی پریکٹس کی طرف توجہ کرنی چاہی، مگر ان پر گاندھی جی، موتی لال نہرو، اور جواہر لال نہرو کا ایسا دباؤ پڑا کہ سیاسی کاموں سے الگ نہ رہ سکے، ۱۹۲۶ء میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکرٹری کا عہدہ ان کو دیا گیا لیکن انھوں نے انکار کیا۔
میں نے ان کو پہلی دفعہ مظفرپور (صوبہ بہار) میں ۱۹۲۶ء میں دیکھا تھا، وہاں مولانا شوکت علی تشریف لانے والے تھے، ریلوے اسٹیشن پر بہت سے مسلمان ان کے استقبال کے لیے پہنچے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، جاڑے کا موسم تھا، گاڑی صبح کے وقت پہنچی تھی، اﷲ اکبر کے نعروں کے ساتھ فرسٹ کلاس کا دروازہ کھولا گیا، مولانا شوکت علی ڈبے کے پھاٹک پر نمودار ہوئے، تھوڑی دیر میں ڈاکٹر سید محمود بھی دکھائی دیئے، اس زمانہ میں کانگریس سے مسلمانوں کی بدگمانی شروع ہوگئی تھی، اس لیئے ڈاکٹر صاحب سے مسلمانوں نے کوئی خاص گرم جوشی نہیں دکھائی، ایک صاحب میری بغل میں کھڑے تھے، انھوں نے کہا کہ یہ ہندؤں کے خاص آدمی ہوگئے ہیں، میں خاموش رہا، ڈاکٹر صاحب کی صحبت میں رہنے کے بعد یہ وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ خریدے نہیں جاسکتے تھے، وہ اپنے وطنی جذبے میں جو کچھ کرتے رہے، اس میں ان کا صرف اخلاص تھا، یہ اور بات ہے کہ ان کے مخلصانہ جذبات کو مسلمان مشکوک نگاہوں سے دیکھتے رہے دیکھنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کے وطنی جذبات کو تو ہندو پریس میں خوب اچھالا جاتا، لیکن وہ مسلمانوں کی ہمدردی میں جو کچھ کہتے یا کرتے، وہ پریس میں بلیک آوٹ ہوتا رہتا، ڈاکٹر صاحب کی طرح دوسرے کانگریس اور نیشنلسٹ مسلمانوں کی سیاسی زندگی کا بھی یہی المیہ رہا، ان کی زندگی کا ایک ہی رخ پریس میں آیا دوسرے رخ پر پردہ پڑا رہا، اس سے ملک کو بھی نقصان پہنچا، مسلمان کانگریسی رہنما مسلمانوں کے لیے جو ہمدردانہ جذبات رکھتے تھے، وہ بھی پریس میں آتے رہتے، تو ان کی قیادت بھی ضرور موثر اور مفید ہوتی رہتی، ڈاکٹر صاحب ہی کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ اس زمانہ میں انھوں نے مسلمانوں کی ہمدردی میں بہت کچھ کیا۔
مثلاً ملابار میں موپلاؤں پر بڑے مظالم ڈھائے گئے، اُن کو ٹرین کے ڈبوں میں جانوروں کی طرح بھربھر کر جلاوطن کیا گیا، ان کے گھربار برباد کردیئے گئے ان کو اپنی املاک سے محروم کر دیا گیا، ان مظالم کی تحقیقات کے لیے پہلی آواز ڈاکٹر صاحب ہی نے اٹھائی، پھر سرحد کے پٹھانوں کے ساتھ بھی جو مظالم ہوئے، اُن کی تحقیقات کی تحریک بھی ان ہی کی کوشش سے ہوئی، لیکن یہ سب کچھ پریس میں نہیں آیا، اور عام مسلمان یہی سمجھتے رہے کہ ڈاکٹر صاحب وہی سب کچھ کرتے ہیں جو کانگریس کرنے کو کہتی ہے۔
۱۹۲۹ء میں ڈاکٹر صاحب آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری بنائے گئے۔ اس فرض کو وہ ۱۹۳۰ء تک انجام دیتے رہے، اس دور کی کانگریس کی تاریخ میں اُن کا نام نمایاں طور پر لکھے جانے کا مستحق ہے اُن کی اس زمانہ کی پوری سرگرمیوں کا احاطہ کرنا اس مقالہ کا مقصد نہیں۔
۱۹۳۰ء میں وہ سول نافرمانی کی تحریک کے سلسلہ میں پھر جیل گئے، اُن کے جیل جانے سے پہلے آل انڈیا کانگریس کمیٹی غیر قانونی قرار دے دی گئی۔ تو انھوں نے خفیہ مسنجر سسٹم کا طریقہ اختیار کیا، جس سے کانگریس کے کاموں میں بڑی مدد ملی، پھر انہی کی مساعی جمیلہ سے ہندوستان کی کپڑوں کے ملوں پر کانگریس کا اقتدار حاصل ہوا۔
کانگریس میں مسلمانوں کی آواز کو موثر بنانے کے لیے ۱۹۳۰ء میں مسلم نیشنلسٹ پارٹی کے قیام کو عمل میں لائے۔ پھر ۱۹۳۴ء میں ہندو مسلمان کو ایک دوسرے سے قریب تر کرنے کے لیے ایک اتحاد کانفرنس کی تجویز پیش کی، جو الٰہ آباد میں بلائی، اس میں ہندوؤں کے تمام سربرآوردہ رہنما شریک ہوئے، ڈاکٹر صاحب اس کانفرنس کے نتیجہ سے خوش تھے، کہ اس میں مسلمانوں کے تحفظات اور مطالبات کے تمام بنیادی اصول مان لیے گئے تھے، جو بعد میں برطانوی حکومت کے ۱۹۳۵ء کے کمیونل اوارڈ کی شکل میں نمودار ہوئے۔ان کی سیاسی سلامت روی اور دیانت داری کا ایک بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ مولانا محمد علی کبھی اُن سے بدظن نہیں ہوئے، مولانا محمد علی کو کانگریس سے اختلاف ہوا تو وہ اس سے دور ہوتے چلے گئے، ڈاکٹر صاحب برابر کانگریس سے وابستہ رہے، اس کے باوجود مولانا محمد علی کو ان کی ذات پر پورا اعتماد رہا، ان کو آخر وقت تک عزیز رکھا، ان کو خط لکھتے تو ’’پیارے محمودـ‘‘ سے مخاطب کرتے، اور کھل کر اپنے دل کی باتیں لکھتے، ۴؍ مئی ۱۹۲۹ء یعنی اپنی وفات سے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ڈاکٹر صاحب کو ایک مکتوب لکھا اس کے کچھ ٹکڑے یہ ہیں:
’’پیارے بھائی بظاہر یہ دو سال ہمارے Character کے امتحان کا زمانہ ہے، سب کا پریکھا ہورہا ہے، ہم لوگ دشمنان ملک اور ہزنان ملت ہیں، آج․․․․․ زر طلب ملک پرور ملت دوست ہے․․․․․ جن کو ساری عمر ہم نے گالیاں دیں اور کوسایہ، ہم کو اپنا آلہ کار بنانا چاہتے ہیں، سو جس طرح ہم مالوی اور منجے کے یا نہرو اور چنتامنی کے آلہ کار نہیں بن سکتے، اسی طرح شفیع اور عبدالرحیم کے بھی آلہ کار نہیں بن سکتے۔
اس وقت سوائے اس کے چارۂ کار ہی کیا ہے، کہ دوا سے تھک دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں اور مسلمانوں اور ہندوستان والوں کو خدا کے سپرد کردیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب کہ یہ اپنے نئے رہنماؤں کی ہدایت کا مزا چکھ کر پھر ہمارے پاس آئیں گے اور التجا کریں گے، چلو ہمیں انگریزوں اور ان کے ہندو اور مسلمان غلاموں سے نجات دلادو، خدا وہ وقت جلد لائے یا ہم کو جلد اس دنیا سے اٹھالے، آمین، بہن اور بچیوں کو پیار، تمہارا بھائی محمد علی‘‘۔
مولانا عبدالماجد دریابادی مولانا محمد علی کے بڑے پرستاروں میں ہیں ان سے گہرے ذاتی تعلقات بھی رہے، ڈاکٹر صاحب سے بھی ان کے مراسم تھے، اُن کے اور علی برادران کے تعلقات پر بڑا اچھا تبصرہ کیا ہے:
’’سید محمود بڑی خوبیوں کے مالک تھے، خصوصاً مشرقی قسم کی اخلاقی خوبیوں کے درد مندی، انکساری، مہمان نوازی، اور سب سے بڑھ کر مروت کے، شروع میں علی برادران سے خوب نبھ گئی، لیکن آگے چل کر کہنا چاہئے، ۱۹۲۸-۲۹ء میں جب گاندھی جی اور علی برادران میں اختلاف ہوا، تو بے چارے کی پوزیشن عجب نازک سی ہوگئی، اُدھر گاندھی جی کا اعتماد انھیں پورا حاصل تھا، ادھر یہ بھی گوارانہ تھا کہ بات علی برادران کی ضائع ہو، چھوٹی کمیٹیوں میں ووٹ دیتے وقت عجیب کشمکش میں پڑ جاتے اور کوشش اپنی والی یہی کرتے کہ مروت کی عدالت سے ڈگری کسی کے خلاف بھی نہ صادر ہونے پائے، بے تکلف دوستوں پر یہ راز کھل گیا تھا، وہ شرافت کے اس منظر سے لطف لیتے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کے سامنے مولانا محمد علی صاحب کا تذکرہ آجاتا تو وہ بھی ان کا ذکر بڑی محبت اور عزت سے کرتے۔ اور مولانا مناظر احسن گیلانی کا جو مرثیہ مولانا محمد علی پر ہے اس کا یہ مصرع پڑھ کر اُن کو یاد کرتے:
عجب مستے عجب دیوانہ بودے
۱۹۳۵ء کی اصلاحات کے بعد جب کانگریس نے مرکزی اور صوبائی قانون ساز مجلسوں کے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، تو ڈاکٹر صاحب بھی ترہت (صوبہ بہار) کے دو حلقوں سے کھڑے ہوئے، اور کامیاب رہے، ان کو اپنے انتخابی حلقہ میں ایسی مقبولیت رہی کہ مسلم لیگ بھی اپنے انتہائی عروج کے زمانہ میں ان کو شکست نہ دے سکی، جداگانہ اور مخلوط انتخاب دونوں میں وہ ۱۹۶۵ء تک وہاں سے برابر منتخب ہوتے رہے۔
۱۹۳۷ء کے انتخاب کے بعد جب بہار میں وزارت بنی تو وہ بھی اس کے ایک رکن تھے۔ ان کے عقیدت مندوں کا تو خیال تھا کہ وہ اپنی خدمات اور آل انڈیا حیثیت کی بنا پر بہار کے وزیر اعلیٰ بنائے جائیں گے، لیکن ان کی جگہ پر سری کرشن سنہا اس عہدہ جلیلہ پر فائز کئے گئے، اس ناانصافی پر ڈاکٹر صاحب کو اندرونی شکایت تو ضرور پیدا ہوئی ہوگی لیکن ان کی طبیعت میں جارحیت، جھگڑا، فساد، بالکل نہیں تھا وہ مکّدر ضرور ہوتے۔ لیکن اپنے تکّدر کا بوجھ خود برداشت کرلیتے، انھوں نے اپنی خانگی زندگی میں بھی غصے اور اشتعال کا اظہار شاید ہی کیا ہو گھر میں کسی سے ان کو رنج پہنچتا، تو تھوڑی دیر کے لیے خاموش رہ کر پھر خوش ہوجاتے، انھوں نے سری کرشن سہنا کے ساتھ پورا تعاون کیا، اور ان کو اپنا بھائی ہی سمجھتے رہے، اور جب ان سے اس ناانصافی کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتے کہ وہ خود اس عہدہ سے سری کرشن کے حق میں دست بردار ہوگئے تھے، اس طرح نکتہ چینوں کا منھ بند کردیتے۔ (’صباح الدین عبدالرحمن، دسمبر ۱۹۷۱ء)
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
Loading... | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |