1676046599977_54338232
Open/Free Access
426
ڈاکٹر سعید انصاری
افسوس ہے کہ ۲۶؍ جنوری کو ڈاکٹر سعید انصاری کا دہلی میں کینسر کے موذی مرض میں انتقال ہوگیا، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، وہ دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے قدیم رکن تھے۔ (صباح الدین عبدالرحمن، فروری ۱۹۸۴ء)
ڈاکٹر سعید انصاری
قارئین معارف کو گزشتہ شمارہ سے جناب سعید انصاری کے انتقال کی خبر معلوم ہوچکی ہے، ان کا وطن اعظم گڑھ ہی تھا، اپنے محلہ اور شہر کے قدیم مدرسہ اسلامیہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے مشن اسکول میں داخلہ لیا، یہ بڑا پرآشوب دور تھا، ملک کے گوشہ گوشہ میں خلافت، اور ترک موالات کی تحریک کے اثر سے انگریزوں کے خلاف ہیجان برپا تھا۔
تحریک کے پروگرام میں سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا مقاطعہ بھی تھا، سعید انصاری صاحب نے اس سے متاثر ہوکر اسکول چھوڑ دیا اور بنارس جاکر کاشی ودیا پیٹھ سے فرسٹ ڈویژن میں میڑک کیا، انٹرمیڈیٹ میں بارہ روپے ماہوار وظیفہ ملا مگر جامعہ اسلامیہ کی کشش انھیں علی گڑھ کھینچ لائی، ۱۹۲۴ء میں وہ طلبہ کی انجمن اتحاد کے سکریٹری اور ان کے ہم سبق ڈاکٹر یوسف حسین خان مرحوم نائب صدر ہوئے، ۱۹۲۵ء میں بی۔اے کیا اور ۱۹۲۶ء میں جامعہ میں استاد کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا، اس زمانہ میں اس کی مالی حالت نہایت خراب تھی، کئی کئی مہینے تک استادوں کو تنخواہیں نہیں ملتی تھیں، جامعہ کے امنا (ٹرسٹیز) اسے بند کردینے کے لئے آمادہ ہوگئے تھے مگر انجمن تعلیم ملی کے ارکان نے بیس برس تک جامعہ کی خدمت کرتے رہنے اور ڈیڑھ سو سے زیادہ مشاہرہ نہ لینے کا عہد کیا تھا، ابتداء میں گیارہ استاد اس کے حباتی رکن تھے جن میں سعید انصاری مرحوم بھی تھے۔
وہ اپنی علمی و تعلیمی استعداد بڑھانے کے لئے پہلے شانتی نکیتن گئے، پھر ۱۹۳۴ء میں امریکہ گئے اور کولمبیا یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، ان کی واپسی کے بعد جامعہ میں ٹریننگ کالج (استادوں کا) قائم ہو، جس کے یہ پرنسپل مقرر کئے گئے، انھوں نے اپنی سوجھ بوجھ اور کفایت شعاری سے اس مدرسہ کو خود کفیل بنادیا تھا۔
ہری پور کانگریس کے سالانہ اجلاس میں گاندھی جی اور ذاکر صاحب کی ’’قومی بنیادی تعلیم‘‘ کی اسکیم منظور ہوئی تو اسے جامعہ کے استادوں کے مدرسہ میں رائج کیا گیا، سعید انصاری صاحب نے اسکیم کو چلانے اور کامیاب بنانے میں سرگرم حصہ لیا، ذاکر صاحب نے ثانوی مدرسہ کے لئے انفرادی طریقہ تعلیم رائج کرنے کی تجویز سوچی تو ان کی تعلیمی مہارت اور دلچسپی کی وجہ سے یہ کام بھی انہی کے ذمہ کیا، جس کو انھوں نے محنت، کامیابی اور خوش اسلوبی سے انجام دیا۔
تصنیف و تالیف سے بھی انہیں دلچسپی تھی، جامعہ میں اردو اکادمی کا قیام عمل میں آیا تو وہ رفیق کی حیثیت سے اس سے وابستہ ہوئے، طالب علمی کے زمانہ میں ڈاکٹر ذاکر حسین خاں مرحوم کے چھوٹے بھائی محمود حسین خان صاحب کے اشتراک سے ایک علمی رسالہ ’’الرشید‘‘ کے نام سے نکالا بعد میں انھوں نے اس کا نام بدل کر مولانا محمد علی کے تخلص کی نسبت سے ’’جوہر‘‘ کردیا، اپریل ۱۹۲۶ء میں ’’پیام تعلیم‘‘ کا اجرا ہوا، چند ماہ بعد اس کی ادارت سعید انصاری صاحب کو تفویض کی گئی، کچھ دنوں تک مولانا محمد علی کے روزنامہ ہمدرد کے ادارۂ تحریر میں شریک رہے، ابتدا میں معارف کے لئے بھی انھوں نے بعض انگریزی مضامین کے ترجمے کئے، رسالہ جامعہ کے تو وہ خاص مضمون نگار تھے، الناظر (لکھنؤ) میں بھی ان کے مضامین شائع ہوئے بلکہ اسی کے ایک مضمون سے ان کی علمی شہرت کا آغاز ہوا، اس کے اڈیٹر مولانا ظفرالملک علوی نے اردو کے عناصر اربعہ پر ایک کل ہند انعامی مقابلہ کا اعلان کیا، جس میں مختلف اہل قلم نے حصہ لیا، یہ اس وقت بی۔اے کے طالب علم تھے مگر ان کا مضمون ’’مولانا شبلی اردو کے بہترین انشا پرداز‘‘ انعام کا مستحق قرار دیا گیا جو رسالہ میں چھپنے کے علاوہ اسی زمانہ میں کتابی صورت میں مولانا عبدالماجد کے دیباچہ کے ساتھ بھی شائع ہوا۔
ان کا اصلی موضوع تعلیم اور اس کی تاریخ تھا، اس پر اور بچوں کے موضوعات پر انھوں نے کئی کتابیں لکھیں، جن کے نام یہ ہیں اور (۱)بچوں کی نظمیں (۲)بچوں کے اسماعیل (۳)بھولا بچہ (۴)ایک بچہ کی کہانی (۵)تعلیم و سماج (۶)ہندوستانی تعلیم کے مسائل (۷)زندگی کا رخ (۸)اکابر تعلیم (۹)گاندھی جی کے تعلیمی خیالات۔
طالب علمی کے زمانہ میں انھوں نے ٹیگور کے ایک رسالہ کا ہندوستانی تعلیم کا مرکز کے نام سے اردو ترجمہ کیا پھر جان اسٹوورٹ مل کی کتاب لبرٹی کا آزادی کے نام سے ترجمہ شائع کیا، حال میں ترقی اردو بورڈ نے ان سے دو کتابوں کے ترجمے کرائے ایک ’’تعلیم ہندوستان کے اسلامی عہد میں‘‘ اور دوسری ’’عصری تعلیم‘‘۔
دارالمصنفین سے ان کا تعلق بہت پرانا ہے، مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا مسعود علی ندوی کے زمانے سے اب تک کے ہر ہر فرد سے حسب حیثیت ان کے تعلقات تھے، وہ جب بھی وطن آتے تو دارالمصنفین ضرور آتے، اس معمول میں زندگی بھر کوئی فرق نہیں آنے دیا، حضرت سید صاحب کے دور ہی میں وہ اس کی مجلس انتظامیہ کے ممبر ہوگئے تھے اور پابندی سے اس کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے، ندوۃ العلماء سے بھی انہوں نے ہمیشہ اخلاص و ہمدردی کا تعلق قائم رکھا اور اس کی مجلس انتظامیہ کے بھی ممبر تھے۔
وہ ہمیشہ قوم پرور اور ملک کی آزادی کی تحریک سے وابستہ رہے، ان کی ابتدا خلافت اور نان کوآپریشن تحریک سے ہوئی تھی، اسی زمانہ سے کھدر پہننے لگے تھے، جسے آخری تک نہ چھوڑا۔
دین و مذہب سے غیر معمولی شغف تھا انھیں موجودہ جامعہ سے یہ شکایت تھی کہ وہ اپنی اصل خصوصیات اور دینی کردار سے منحرف ہوگئی ہے، آخر عمر میں انھوں نے جامعہ کی خوبصورت مسجد تعمیر کرائی اور اپنے مکان میں ایک نرسری اسکول کھولا، ان صدقات جاریہ کا ثواب انھیں ہمیشہ ملتا رہے گا۔
بڑے سادگی پسند اور کفایت شعار تھے، ان میں نمود، نمائش اور ظاہرداری نہ تھی، ان کی نظر لوگوں کی خامیوں پر زیادہ پڑتی تھی، اور اس کا وہ صفائی اور بے تکلفی سے اظہار بھی کردیتے تھے، جو لوگ ان کی افتاد طبع سے واقف نہ تھے وہ ان کی فقرے بازی کا برامان جاتے مگر انہیں کینہ کپٹ نہ تھا، وہ ہمیشہ صحتمند رہے اور بیمار بہت کم ہوئے، ۸۰ برس سے متجاوز ہونے کے باوجود ضعف اور بڑھاپے کا کوئی اثر ظاہر نہ ہوتا تھا مگر دفعتہ معلوم ہوا کہ ان کی آنتوں میں کینسر ہوگیا ہے، بیماری کے زمانہ میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اور جناب سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب سے ملنے کے بہت آرزو مند تھے، مولانا سے تو ملاقات ہوگئی مگر سید صباح الدین صاحب سے ملاقات کی تمنا پوری نہیں ہوسکی، انھوں نے قابل رشک موت پائی، دو ماہ تک مرض کی شدتوں کا صبر سے مقابلہ کرنے کے بعد خندہ روئی سے موت کا خیر مقدم کیا:
نشانِ مرد مومن باتو گویم
چوں مرگ آید تبسم پر لب اوست
اﷲ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس نصیب کرے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، مارچ ۱۹۸۴ء)
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
Loading... | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |