Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > عزمیؔ خیر آبادی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

عزمیؔ خیر آبادی
ARI Id

1676046599977_54338418

Access

Open/Free Access

Pages

624

عزمیؔ خیر آبادی
’’جناب عزمی خیرآبادی کا ۱۳؍ جنوری کو انتقال ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ تعالیٰ غریق رحمت کرے آمین۔ مرحوم اس عاجز سے بڑی محبت کرتے تھے اور معارف کے نہایت قدرداں تھے، ان کا یہ والا نامہ فروری کے شروع یا جنوری کے آخر میں ملا تھا، اس مہینہ میں اس کے لئے جگہ نہیں نکل سکی، دنیا کی زندگی کتنی ناپائدار ہے کہ مکتوب الیہ کے خط کی اشاعت ان کی وفات کے بعد ہورہی ہے‘‘۔ (معارف)
مکرمی! سلام مسنون
دسمبر کا معارف آج ۳۰؍ دسمبر کو ملا۔ نگارشات حسب معمول شاندار ہیں۔ شذرات پڑھ کر یہ شعر یاد آگیا۔ پتہ نہیں کس کا شعر ہے۔ ؂
نہ کیا ذبح گیا چھوڑ کے بسمل قاتل
دہن زخم پکارا کیا قاتل قاتل
تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ آپ صرف اشارہ کردیتے ہیں کہ فلاں فلاں جلسہ میں گیا۔ تقریر کی۔ مگر اس کی تفصیل معارف میں نہیں ہوتی۔ میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ آپ ان مجالس میں جو تقریر کرتے ہیں ان کو من وعن شائع بھی کردیا کریں تاکہ ان سے ہم جیسے دیہات میں بسنے والے لوگ بھی مستفید ہوسکیں۔ لیکن آپ کو ہماری بسملیت پسند ہے۔
آخری چہار سطری شذرہ باجپئی جی سے ’’منسوب‘‘ ہے۔ ارے صاحب،
؂ یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
شعر ملاحظہ ہو:
ان بتوں سے وفا کی امیدیں
تم بھی عزمیؔ کمال کرتے ہو
یہ وہی باجپئی جی ہیں جنھوں نے بابری مسجد کے انہدام کو شرمناک بتایا تھا اور آج فرما رہے ہیں کہ رام مندر کی تعمیر قومی جذبات کی آئینہ دار ہے۔
ہندو ایک بھولی بھالی معصوم اور مخلص قوم ہے۔ یہ صرف چند سرپھرے فرقہ پرست ہیں جو نفرت کی ہوائیں چلا رہے اور بغض و نفرت کے بیج بو رہے ہیں اور ہندوستان کی تباہی کا سامان مہیا کررہے ہیں۔ خدا رحم کرے۔
’’امام محمد بن الحسن الشیبانی‘‘ مولانا عبدالحلیم چشتی کا مضمون بہت پسند آیا۔
پروفیسر نذیر احمد کا مضمون ’’ہندوستان کے مشرقی کتاب خانے․․․․․․ بہت اچھا اور معلوماتی مضمون ہے۔ ملحوظ خاطر رہے کہ انہوں نے کتاب خانے لکھا ہے۔ کتب خانے نہیں جو آج کل کے اکثر ادیب استعمال کرتے ہیں۔ صحیح لفظ کتاب خانہ ہی ہے۔
محمد بدیع الزماں صاحب کا مضمون ’’اقبال کے کلام میں․․․․․․ صفحہ ۴۴۰ پر شائع ہوا ہے۔ اس میں تلمیح کی یوں تعریف کی ہے:
’’تلمیحات کے معنی یہ ہیں کہ کم از کم الفاظ سے بلاغت پیدا کی جائے․․․․․․‘‘
حالانکہ تلمیح کے معنی ہیں ’’اشارت کردن بہ قصہ مشہور‘‘ اس لئے
خشت اول چوں نہدمعمار کج تاثر یامی رود دیوار کج!
تعجب ہے کہ آپ کی نظر اس پر نہیں گئی․․․․․
محترم سید سبط محمد نقوی کا مکتوب دیکھا، آپ کے اس نوٹ نے طبیعت خوش کردی اور مجھے اس پر کچھ لکھنے سے بچالیا۔
’’مکتوب نگار کے الفاظ میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی․․․․․‘‘ جو میں بیس پچیس سطروں میں کہتا وہ آپ نے ایک سطر میں کہہ دیا۔ اسے کہتے ہیں بلند ایجاز نگاری۔ مبارک باد۔
قمرسنبھلی کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے لیکن ان کی یہ نظم ’’اے ارض فلسطین‘‘ کوشش کے باوجود ہضم نہیں کرسکا۔ کسی بہت عمدہ شاعر کے یہ شعر ملاحظہ کریں:
دامن قدس میں اردن کے جواں لیٹے ہیں

دیکھ رضواں ترے مہمان کہاں لیٹے ہیں
یہ شہیدان محبت ، یہ شہیدان وفا

جن کو تربت نہ ملی جن کا جنازہ نہ اٹھا
نرغہ غیر میں اپنوں نے جنھیں چھوڑ دیا

ان کو مرعوب نہ ہتھیاروں کی کثرت نے کیا
عقل کی گھات میں آئے نہیں دیوانے تھے

بے خطر کود پڑے آگ میں دیوانے تھے
 الفاظ کی ہم آہنگی نے اشعار کو وہ حسن عطا کیا ہے کہ باید و شاید۔ غالباً معارف کو شعروسخن سے دلچسپی نہیں ہے۔
عمیرالصدیق صاحب کے تبصرے خوب ہوتے ہیں، وہ کتاب کا عرق نکالتے پھر اس سے عطرکشید کرتے اور پھر اسے قارئین معارف کے سپرد کرتے ہیں اور دہن زخم کا پکارتا رہ جاتا ہے․․․․․․ قاتل․․․․․․ قاتل۔ والسلام مع الاکرام۔
(خادم: عزمیؔ خیرآبادی)
(مارچ ۲۰۰۱ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Loading...
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...