Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

امتیاز اوجھلؔ
ARI Id

1688382102443_56116125

Access

Open/Free Access

Pages

260

{امتیاز اوجھلؔ (۱۹۴۲ء۔۲۰۱۱ء) کا اصل نام رحمت علی اور اوجھلؔ تخلص کرتے تھے۔ وہ کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ ساحرؔ، عدمؔ ،جوشؔ اور فیضؔ سے بہت متاثر ہیں۔ ان کے کلام میں چاروں شعراکا رنگ اور اسلوب نظر آتا ہے۔ ان کا ابتدائی شعری کلام ماہنامہ’’گلِ رو‘‘ کراچی میں شائع ہوا۔ آپ ترقی پسند تحریک سے بھی منسلک رہے۔ (۹۶۹) ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’نویدِ سحر‘‘ ۱۹۹۵ء میں شائع ہوا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’اجاڑ جنگل اداس موسم‘‘ ادارہ تخلیقات لاہور نے ۱۹۹۹ء میں شائع کیا ۔ تین شعری مجموعوں کے مسودے راقم الحروف نے انٹر ویو کے دوران ان کے پاس دیکھے جن کے نام ان دنوں زیر غور تھے۔

امتیاز اوجھلؔ غزل کے شاعر ہیں لیکن انھوں نے دیگر اصناف سخن میں طبع آزمائی بھی کی ہے۔ امتیاز انقلابی اور مزاحمتی شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں قدیم روایات سے بغاوت نظر آتی ہے۔ روشن خیالی کا اچھوتا پن ان کی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہے ان کی شاعری میں فکری گہرائی، حیاتِ تازہ کی طرف بلانے والی رہنمائی ،ہوش و خرد میں لپٹے ہوئے جذبوں کا والہانہ اظہار اور فرسودہ معاشرتی طرزِ زندگی پر ایک تعمیری ،مـثبت اور تنقیدی تبصرہ ملتا ہے جو تاریک اور خاموش سناٹوں میں لہراتی ہوئی روشنی کی گونج دار لکیر کی طرح اپنے وجود کا منظر پیش کرتا ہے۔آپ لفظوں کی نئی نئی ترکیبیں ،بندشیں اور استعارے اپنے من چاہے روپ میں ترتیب دیتے ہیں۔ فکری شاعری میں فلسفہ اور جدید سائنس کے متعلقہ پہلوؤں کو نظم کرنا خاصا مشکل مرحلہ لگتا ہے۔ اس کوشش میں امتیازاوجھلؔ کی یہ کوشش اردو شاعری میں ایک قیمتی اور درخشندہ اضافہ سے کم نہیں۔وہ جدید فلسفے کاایک اہم اور مشکل موضوع جدلیاتی مادیت اپنی شاعری میں بڑے خوبصورت انداز میں نظم کرتے ہیں:

سکون ہے نہ روک ہے نہ ابتدا نہ انتہا

 

تسلسلِ دوام کار گاہ مادیات میں

(۹۷۰)

اوجھلؔ کی شاعری جمود و سکوت، حبس، جبر ،فرسودگی اور پسماندگی کے خلاف حرکت، حرارت ،تازگی ،ترقی ،آزادی اور اجتماعی خوشحالی کے حصول کی جدو جہد میں مگن نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں ترقی یافتہ زندگی کے حصول کی تڑپ ،جہد مسلسل ،جستجو اور انتظار کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجز ن ہے جو جبر کے خلاف جنگ میں شکست تسلیم کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ وہ کٹھن حالات میں بھی ہمت نہیں ہارتے بلکہ ان کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کے ہاں زندگی سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور عزم بھی موجود ہے:

زندگی تجھ سے مری جنگ رہے گی جاری

 

میرا کوئی بھی ارادہ نہیں پسپائی کا

 

معرکہ آخری سر یہ بھی تو کرنا ہے مجھے

 

گھونسلے میں نہیں پرواز میں مرنا ہے مجھے

(۹۷۱)

اوجھلؔ انسان کی تذلیل برداشت نہیں کرتے۔ وہ اسے ہنستا مسکراتا اور بلندیوں پر پرواز کرتے دیکھنے کی تڑپ رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں معاشرتی استحصال کا ادراک اور انسانی ترقی کا شعوری اعتراف جا بجا ملتا ہے۔ ان کی شاعری معاشرے کا عکس بھی ہے کیونکہ وہ سماجی شعور رکھتے ہیں۔ وہ جب اپنے معاشرے میں طبقاتی نظام کی وجہ سے انسانیت کی تذلیل ہوتی دیکھتے ہیں تو خاموش تماشائی نہیں بنتے بلکہ ایک حقیقت پسند شاعر کی طرح حق گوئی کے ذریعے اس معاشرتی برائی کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔ان کے ہاں پاکستانی قوم کی اقدار کی پامالی اور اخلاقی زوال کا ذکر بھی جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے:

ضدوں کے درمیاں اک کشمکش کا کھیل جاری ہے

 

کہیں اس کھیل کے آغاز کا آخر نہیں ہوتا

 

بانٹ لی مل کر لیٹروں نے زمیں کی دلکشی

 

اور کمزوروں کو دردِ لا دوا دیتے رہے

(۹۷۲)

 

 

 

 

رہی ہے آبرو پھولوں کی شاخوں پر رہیں جب تک

 

وگرنہ لوگ رستوں میں بچھا کر چھوڑ جاتے ہیں

(۹۷۲)

[اوجھلؔ اگرچہ ایک رجائی شاعر ہیں لیکن ایک انسان ہونے کی وجہ سے وہ بھی مشکلات و مصائب سے دو چار ہوتے ہیں۔ انھیں بھی زمانے کی طرف سے ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی مصیبتوں پر آہ و زاری تو نہیں کرتے بلکہ ایک حقیقت پسند انسان کی طرح ان مصائب و آلام کا ذکر جگہ جگہ اپنی شاعری میں کرتے نظر آتے ہیں:

گڑی ہیں سولیاں رگ رگ میں خشک شاخوں کی

 

وہ اس لیے کہ بہاروں کی آرزو کی تھی

 

اب کے صیاد اگر مجھ کو رہائی دیتا

 

اور اک تازہ مجھے زخمِ جدائی دیتا

(۹۷۴)

ùامتیاز اوجھل ؔکی شاعری کا ایک اہم موضوع جدائی بھی ہے۔ ان کا ہونہار بیٹا جوانی کے ایام میں چل بسا۔وہ اکلوتا بیٹا ان کا سہارا اور آنکھوں کا سکون تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی جدائی برداشت نہ کر سکے۔ اس لیے ان کی شاعری میں جگہ جگہ باپ بیٹے کی جدائی کا ذکر ملتا ہے:

اس نے بچھڑ کے ہجر میں یہ حال کر دیا

 

اب جسم آنسوؤں کا خلاصہ لگے مجھے

(۹۷۵)

Ùامتیاز اوجھلؔ نے ایک لمبی زندگی تنہائی کے عالم میں گزاری ۔جوان بیٹے کے بعد ان کا کوئی سہارا نہیں تھا۔ وہ اپنی ایک بیٹی کے گھر رہتے تھے جو ملازمت کرتی تھی۔ملازمت کی وجہ سے وہ بھی ان کی اچھے طریقے سے خدمت نہیں کرسکی۔ وہ اکثر ایک کمرے میں تنہائی اور اداسی کے عالم میں چارپائی پر پڑے رہتے تھے۔ وہ شدید دمے کے مریض تھے۔ شاید ان کے قریبی عزیز و اقارب بھی ان کی بیماری کی وجہ سے ان سے دور رہتے تھے۔ ان حالات میں ان کی اندر کی دنیا ویران تھی یہی وجہ ہے کہ انھیں باہر کی دنیا بھی ویران ہی نظر آتی تھی۔

اوجھلؔ اداسیوں کے شاعر بھی ہیں کیونکہ ان کے اکثر اشعار میں ہمیں اداسی اور کرب نظر آتا ہے۔ اور پھر ان کے ایک شعری مجموعے کا نام بھی ’’اجاڑ جنگل اداس موسم ‘‘ ہے جو ان کی اداسی کا ایک بہت بڑا حوالہ ہے:

نظر نظر میں رواں دواں ہے اُجاڑ جنگل اداس موسم

 

[ہر اک سخن میرا رائیگاں ہے اجاڑ جنگل اداس موسم

 

لہو لہو قطرہ قطرہ بہہ کر متاعِ زخم حیات اوجھلؔ

 

گری نجانے کہاں کہاں ہے اُجاڑ جنگل اداس موسم

(۹۷۶)

۹۶۹۔راقم الحروف کا امتیاز اوجھل سے انٹر ویو، بمقام سیالکوٹ ،بتاریخ ۳ جولائی ۲۰۱۱ء

۹۷۰۔امتیاز اوجھلؔ،’’اجاڑجنگل اداس موسم‘‘،سیالکوٹ، پاکستان سائنس اکیڈمی ،۲۰۰۲ء،ص:۲۵د

۹۷۱۔ایضاً،ص:۳۸

۹۷۲۔ایضاً،ص:۴۷،۴۸

۹۷۳۔ایضاً،ص:۵۸

۹۷۴۔ایضاً،ص:۶۳،۶۴

۹۷۵۔ایضاً،ص:۷۲

۹۷۶۔ایضاً،ص:۸۹

 

Loading...
Table of Contents of Book
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Loading...
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...