1716560263142_56119455
Open/Free Access
146
سوانح تصانیف فکروفن انتخابِ کلام
ان موضوعات کی روشنی میں مونوگراف کا مطالعہ کرتے ہیں اور اقبال تک پہنچنے کی کوشش
کرتے ہیں۔
سوانح
اقبال کو سمجھنے کے لیے اقبال کی شاعری کو سمجھنا ضروری ہے۔ اقبال کی شاعری کو بہت شہرت ملی ۔ اقبال کی بدولت اردو زبان و ادب کو بھی بلند مقام حاصل ہوا۔ بہت کی زبانوں میں کلام اقبال کے تراجم بھی ہوئے ۔پروفیسر عبد الحق نے تو اپنے مونوگراف میں یہاں تک کا ہے کہ ایک ہزار سال کی علمی تاریخ میں اقبال جیسا مفکر پیدا نہیں ہوا اور اس شعر کو اقبال ہی سے منسوب کیا ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا (26)
اقبال 9 نومبر 1877ء کو پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ لاہور پنجاب کا دار الخلافہ ہے اور سیالکوٹ لاہور کے قریب ہے۔ سیالکوٹ میں اقبال کے بعد دوسرے عظیم شاعر فیض احمد فیض نے سیالکوٹ میں جنم لیا۔ فیض نے اقبال کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
اقبال کے بزرگ کشمیر سے آکر سیالکوٹ میں آباد ہوئے تھے وہ کشمیری برہمن تھے ۔ ان کی گوتھ سپر د تھی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو بھی سپرو برہمن تھے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں اپنے برہمنی سلسلے کا ذکر بھی کیا ہے۔ اقبال کے جد امجد بعد میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ کئی بار حج کیے۔ چرار شریف میں مدفون ہیں۔ شیخ اکبر، اقبال کے پڑدادا تھے۔
یہ بھی کسی بزرگ کے مرید تھے۔ یہ آکر پنجاب ٹھہرے تھے۔ ان کے بیٹے شیخ محمد رفیق نے سیالکوٹ میں رہائش اختیار کی۔ یہ اقبال کے دادا تھے اور اقبال کے والد نور محمد 1837ءمیں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ دھسوں اور لوئیوں کا کاروبار کیا۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے شغف رکھا۔ ابن عربی کی کتابیں گھر میں موجود تھیں۔ نور محمد کی عمر پچیس سال تھی تو بڑے بیٹے شیخ عطا محمد پیدا ہوئے ۔ شیخ عطا محمد کی وفات 1940ء میں ہوئی۔ اقبال نے نظم ”التجائے مسافر“ میں اپنے بڑے بھائی کے لیے بہت پیار بھرے اشعار کہے ہیں۔ شیخ عطا محمد کی پیدائش کے اٹھارہ سال بعد اقبال پیدا ہوئے ۔ اقبال کی والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ آپ محلے کی بچیوں کی تربیت کا ماحول قائم کرتی تھیں اور انہیں تعلیم کی طرف مائل کرتی تھیں ۔ والدہ اقبال ” امام بی بی “ خود تو پڑھی لکھی نہ تھیں مگر علم کی اہمیت سے بہ خوبی آگاہ تھیں۔ شیخ عطا محمد نے انجینئر نگ کالج سے ڈپلومہ کیا۔ اقبال ذرا بڑے ہوئے تو ان کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ مولوی میر حسن نے اقبال کی شاندار تربیت کی اور” اقبال گر“ کہلائے ۔ مولوی میر حسن سرسید تحریک کے حامی تھے اس لیے اقبال پر بھی سرسید تحریک کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ اقبال زندگی بھر سرسید اور ان کی اولاد سے محبت کرتے رہے۔ سر راس مسعود تو علامہ اقبال کے سب سے گہرے دوست اور سر پرست تھے۔ اقبال نے ان کے انتقال پر پُر سوز نظم لکھی ہے۔ اور 1904 ء میں ”سید کی لوح تربت“ کے نام سے بہت ہی فکر انگیز نظم لکھی۔ سرسید کے انتقال پر تاریخ وفات نکالی تھی۔ اقبال نے جمال الدین افغانی کی تحریک کے اثرات بھی قبول کیے اور خراج عقیدت بھی پیش کیا اگر چہ سید جمال الدین افغانی سرسید کے مخالف تصور کیے جاتے ہیں مگر ان کی دعوت اتحاد و عزیمت میں اقبال کو بڑی کشش نظر آتی ہے۔
اقبال مولوی میر حسن کا بہت احترام کرتے تھے۔ نظم ”التجائے مسافر“ میں ان کے احترام میں بہت اچھے اشعار کہے ہیں۔ مزید یہ کہ خود اقبال نے ”سر “کا خطاب اس وقت تک قبول نہ کیا جب تک مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب نہ ملا۔ اقبال کی پہلی شادی مئی 1893ء میں ہوئی۔ اقبال کا میٹرک کا نتیجہ بھی اسی دن آیا تھا۔ نتیجہ بہت اچھا تھا۔ اقبال کو وظیفہ بھی ملا۔ شادی کے بعد 1895ء میں بیٹی معراج بیگم اور 1898ء میں بیٹا آفتاب اقبال پیدا ہوئے ۔ اقبال ایک ہونہار طالب علم تھا مگر اسے ازدواجی زندگی کی صعوبتوں میں الجھا دیا گیا ۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ سکاچ مشن سکول انٹر کالج ہو گیا اور اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا۔ 1895ء میں اقبال نے دوم درجے میں ایف اے پاس کیا۔ اب بی اے کے لیے لاہور جانے کا مرحلہ درپیش تھا۔ سیالکوٹ میں اس سے آگے کی تعلیم کا کوئی سلسلہ نہ تھا۔ لاہور میں گورنمنٹ کالج کا نام تھا۔ اقبال داخلے کے لیے وہاں پہنچے تو دیر ہو چکی تھی۔ رات اپنے ایک دوست گلاب دین کے یہاں قیام کیا۔ صبح گورنمنٹ کالج لاہور گئے ۔ داخلہ ہوا مگر ہاسٹل
میں جگہ نہ مل سکی ۔ ایک سال باہر رہنا پڑا۔ دوسرے سال 1896ء میں ہاسٹل میں جگہ ملی ۔
اقبال نے 1897 ء میں بی اے کیا۔ عربی میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ فلسفہ میں ایم اے کے لیے داخلہ لیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کا ماحول نہایت ادبی اور اساتذہ بہت قابل تھے۔ اس وقت کالج کی تعداد بھی زیادہ نہ تھی اور پڑھنے والے بھی زیادہ تر شریف ، زمیندار اور رئیس گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ فرزند جاوید نے زندہ رود میں لکھا ہے۔
”اس زمانے میں گورنمنٹ کالج میں طلبا کی تعداد دو اڑھائی سو سے زائد نہ تھی۔
اس لیے طلبہ کا ایک دوسرے کو جاننا اور اپنے اساتذہ کے ساتھ قریبی روابط پیدا
کرنا آسان تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی عمارت کے سامنے نچلے قطعہ اراضی میں
جسے اب اوول کہا جاتا ہے۔ سنگترے اور لیموں کے بے شمار پودوں کے علاوہ بڑے
بڑے درخت تھے جن پر شہد کی مکھیوں نے چھتے لگارکھے تھے ۔ موسم گرما کی طویل
دو پہروں میں یہ جگہ لڑکوں اور شہد کی مکھیوں کی آماجگاہ ہوتی ۔ لڑکے طویل درختوں
کے گھنے سائے میں گھاس پر اپنی اپنی صفیں بچھا کر یہاں گھنٹوں لیٹے کتابیں
پڑھتے اور ان کے سروں پر شہد کی مکھیاں بھنبھناتی رہتیں ۔ کالج کے چھوٹے
ٹاور کے عین سامنے قدرے شمال کی طرف ایک پرانا برگد کا درخت تھا۔ جس
کے تنے کے ارد گرد لکڑی کے ڈائس پر لڑ کے بیٹھ کر پڑھتے یا خوش گپیاں لگاتے ۔
کالج کی زندگی نہایت سادہ تھی“ (27)
گورنمنٹ کالج لاہور کے اساتذہ میں پروفیسر آرنلڈ کا نام بہت نمایاں ہے۔ آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی پڑھایا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے بھی آپ سے فیض حاصل کیا ہے۔ ڈاکٹر آرنلڈ اقبال کے بارے میں کہتے تھے کہ اقبال جیسا شاگرد استاد کو محقق اور محقق کو محقق تر بنا دیتا ہے۔22 اپریل 1899 ء میں ایم اے کے نتیجے کا اعلان ہوا۔ اقبال تیسرے درجے میں کامیاب ہوئے چونکہ وہ کامیاب ہونے والے واحد طالب علم تھے اس لیے انفرادی حیثیت میں کامیابی حاصل کی۔ نتیجہ کے تین ہفتے بعد اور نٹیئل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کے لیے اقبال کا تقرر ہو گیا ۔ 73 روپے، 14 آئے اور آٹھ پیسے تنخواہ مقرر ہوئی۔ اس کے لیے تدریس، ترجمہ، تحقیق ، تصنیف اور تالیف کی ذمہ داری تھی۔ پروفیسر آرٹلڈ اور اورنٹیئل کالج کےقائم مقام پرنسپل تھے۔ یہ تعلق اور بھی پختہ ہوتا گیا اور تادم حیات قائم رہا۔ 1904 ء میں پروفیسر آرنلڈ ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر وطن واپس گئے تو اقبال نے ان کے لیے نظم کہی جو 1904 ء کے "مخزن" میں شائع ہوئی اور بانگ درا حصہ اول میں " نالہ عراق (آرنلڈ کی
یاد میں) کے نام سے شامل ہے۔
اقبال کی زیادہ عمر کرائے کے گھروں میں گزری۔ ایک مکان بنایا بھی تھا مگر تین سال اس میں رہنے کے بعد اسے بھی خیر باد کہہ دیا۔ گورنمنٹ کالج ملازمت کے دوران سوامی رام تیر تھ سے بھی ملاقات ہوئی جو سنسکرت کے استاد تھے۔ اقبال نے ان سے مسکرت بھی سیکھی ۔ اقبال نے ان کی وفات پر نظم بھی لکھی۔
اقبال سیالکوٹ سے لاہور آئے تو مشاعروں میں شرکت کا موقع بھی ملا۔ دہلی اور لکھنو کا
دبستان تو تھا ہی مگر لاہور کا دبستان بھی معرض وجود میں آچکا تھا۔ حالی اور آزاد نے نئے طرز کی شاعری کی جو طرح ڈالی اقبال بھی اس سے فیض یاب ہوئے۔ دسمبر 1895 ء کے مشاعرے میں ہی ارشد گورگانی جیسے عظیم شعرا آپ کی شاعری کو تسلیم کرنے لگے۔
چھٹیوں کے دوران آپ سیالکوٹ آتے ۔ والدین کے ساتھ وقت گزارتے ۔ مولوی میر
حسن سے ملتے۔ بچوں کو لے کر گجرات جاتے وہاں کچھ دن قیام کرتے۔ اپنے خسر کے کتب خانے سے استفادہ کرتے ۔ سیالکوٹ کی ادبی محفلوں میں بھی شرکت کرتے۔
لاہور انجمن حمایت اسلام اور انجمن کشمیری مسلمان کے سالانہ جلسوں میں اقبال نظمیں پڑھتے تھے۔ اکثر طویل نظمیں اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی ہیں۔ غزل کے لیے اقبال نے داغ دہلوی سے خط لکھ کر اصلاح بھی لی ہے مگر دو ایک غزل دیکھنے کے بعد استاد نے اطمینان دلا دیا تھا کہ کلام اقبال کو اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔ داغ کا انتقال 1904ء میں ہوا تو اقبال نے شاہ کا ر مرثیہ کہا جو بانگ درا میں شامل ہے۔ اقبال کو غلامی کی ملازمت پسند نہ تھی۔ کچھ عرصہ تدریس کرتے رہے وکیل بننا چاہتے تھے۔ امتحان میں شریک ہوئے مگر فقہ کے پرچے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ایک دوسرے انٹرویو میں طبی معائنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ کیونکہ ایک آنکھ میں روشنی برائے نام تھی۔ یہ تکلیف بچپن ہی سے تھی شایداسی لیے وفات سے پہلے ان کی بینائی ختم ہوگئی۔
1905 ء میں اقبال نے یورپ جانے کا ارادہ کر لیا۔ جانے سے کچھ ہی ماہ قبل بھائی شیخ عطا محمد کو جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر گرفتار کر لیا گیا۔ اقبال کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ کو ئٹہ گئے اقبال کی درخواست پر لارڈ کرزن وائسرائے ہند نے تحقیق کرائی ۔ الزام غلط ثابت ہوئے اور شیخ عطا محمد کو رہائی ملی۔اقبال نے یورپ جا کر ٹرینٹی کالج میں پوسٹ گریجویٹ ایڈوانسڈ سٹوڈنٹ کے طور پر داخلہ لیا۔ پروفیسر آرنلڈ نے مکمل نقشہ پہلے ہی تیار کر لیا تھا۔ اقبال چونکہ ہندوستان سے ایم اے کر کے گئے تھے۔ وہاں انہیں ایک مقالہ لکھ کر جمع کرنا تھا۔ پروفیسر آرنلڈ کی رہنمائی میں
"The Genesis of Mate Conception in Persia"
پر مقالہ لکھا۔
اقبال وکالت کی تعلیم میں مصروف تھے کہ دل میں خیال آیا کیوں نہ پی ۔ ایچ۔ ڈی کر لی جائے ۔ کیمبرج میں پی ایچ ڈی کا انتظام نہ تھا اس لیے جرمنی جانا پڑا۔ شرائط کے مطابق جرمن زبان بھی سیکھی جس کے لیے ”ایما دیگے ناسٹ" کا تعاون میسر آیا۔ عطیہ فیضی سے ملاقات بھی جرمنی میں ہی ہوئی تھی ۔ 17 مئی 1907ء کو اقبال کا مقالہ مکمل ہوا۔ پہلی جولائی 1908ء کو بارایٹ لا کی ڈگری لے کر اقبال 27 جولائی 1908ء کو لاہور پہنچ گئے ۔ سیالکوٹ گئے ۔ والدین، بہن بھائی اور بچوں سے ملے کچھ دن قیام کیا اور پھر فکر روز گارلیے لاہور آگئے ۔ وکالت اقبال کو پسند تھی۔ علی بخش کو بھی لاہور بلا لیا جو پرانا ملازم تھا۔ کچہری جانے کے لیے گھوڑا گاڑی بھی خریدی۔ مقدمات کی تیاری میں مصروف رہتے ۔ آمدن میں بھی اضافہ ہوا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے فلسفہ کے ایک پروفیسر کا انتقال ہوگیا تو پرنسپل جناب رابس نے اقبال کو صبح وہ کلاس لینے کی اجازت دے دی۔ اس طرح آمدن میں تو اضافہ ہوا مگر فرصت بالکل نہ رہی ۔ شعر کہنے کا موقع بھی نہ ملتا۔
اقبال کی شادی بچپن میں ہوئی تھی۔ میاں بیوی کے مزاج میں ہم آہنگی پیدا نہ ہوسکی۔ وہ اقبال سے عمر میں بڑی ہونے کے علاوہ خوشحال گھرانے کی خاتون تھی۔ اقبال بھی اس وقت کسی اعلیٰ عہدے پر نہ تھے۔ یورپ سے واپسی پر فاصلے بڑھتے ہی چلے گئے۔ والدین کی اجازت سے 1910ء میں اقبال نے سردار بیگم سے دوسرا نکاح کیا۔ اقبال کو گم نام خطوط آئے لگے۔ دراصل ایک وکیل اپنے بیٹے کی شادی سردار بیگم سے کرنا چاہتے تھے۔ یہ سلسلہ تین سال تک چلتا رہا۔ اقبال نے گھر والوں کی اجازت سے لدھیانہ کی مختار بیگم سے نکاح کر لیا اور اسے گھر لے آئے ۔ جب حقیقت واضح ہوئی تو تجدید نکاح کے بعد سردار بیگم کو بھی گھر لے آئے ۔ گھریلو زندگی قدرے پر سکون ہو گئی۔ سردار بیگم اور مختار بیگم بہنوں کی طرح رہنے لگیں۔ یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کی زندگی قومی دھارے کی طرف بھی رواں دواں ہے اور فکر و فلسفہ کی طرف بھی۔ قوم کی فکر بھی اقبال کو دامن گیر ہے اور کہیں اپنی زندگی سے شدید مایوس بھی نظر آتے ہیں۔ اقبال کی شخصیت کا یہ رنگ کسی بھی مفکر کے ہاں نہیں پایا جاتا۔ عطیہ فیضی کے نام خطوط میں ان کیفیات کی مختلف جھلک نظر سے گزرتی ہے۔ اقبال کے سینے میں افکار کا آتش کدہ روشن تھا اور اس بات کا اظہار اقبال عطیہ فیضی کے نام خطوط میں کرتے بھی تھے۔
اقبال وکالت کی ذمہ داریوں کو بھی نبھاتے رہے۔ قومی اور ملی مسائل سے بھی دیسی قائم رہی اور 1915ء میں اسرار خودی بھی شائع ہوئی۔ یورپ سے واپس آنے کے بعد اقبال انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں شرکت کرتے اور نظمیں پڑھتے تھے۔ اقبال نے اپنی طویل اور مشہور نظمیں شمع اور شاعر ، شکوہ، جواب شکوہ اور والدہ مرحومہ کی یاد میں، ابتدائی سالوں میں شنائی تھیں۔ 1912ء میں جنگ بلقان شروع ہوئی، ہندوستان میں تقسیم بنگال کا اعلان منسوخ ہوا، 1913ء میں کانپور کی مسجد کی شہادت کا حادثہ پیش آیا۔ اقبال ان تمام معاملات سے بھی شدید غمزدہ تھے۔ 19 نومبر 1914ء کو والدہ مرحومہ کا انتقال ہو گیا۔
درج بالا تمام معاملات میں اقبال نے غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ صرف عطیہ فیضی کے نام خطوط دیکھ کر اقبال کی زندگی کے اس دور کو ہیجان انگیز قرار دینے والے دیگر معاملات پر نگاہ ڈالیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایک ہی وقت میں اقبال کی فکر کتنے محازوں پر کام کرتی نظر آتی ہے۔ 1910 کی ڈائری میں جو مفکرانہ نظریات کا چشمہ پھوٹتا دکھائی ہوتا ہے وہ قاری کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔
آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔ ہندوستان کو انگریز کے خلاف اتحاد اور اتفاق کی ضرورت تھی۔ گاندھی جی اور محمد علی جناح نے اتحاد و اتفاق کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایک معاہدے میثاق لکھنئو پر دستخط کیے جو ہندو مسلم اتحاد کی علامت تھا۔ اقبال اس معاہدے پر خوش نظر آئے۔
1917ء میں انقلاب روس کو اقبال نے ہندوستان میں خوش آمدید کہا۔ 1918ء میں اسرار خودی کا دوسرا حصہ رموز بے خودی مکمل کیا۔ 1922ء میں نظم ”خضر راہ" لکھی۔ 1919ء میں امرتسر میں جنرل ڈائر کے حکم پر ایک جلسے میں اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں۔ چار سو نہتے انسانوں کا قتل عام ہوا۔ اقبال امرتسر گئے اور علی برادران سے ملے۔ 1921ء میں اقبال کشمیر بھی گئے اور دو ہفتے وہاں قیام کیا۔ 1922ء میں انارکلی سے میکلوڈ روڈ منتقل ہو گئے ۔ 1923 میں انگریز حکومت نے "سر" کا خطاب دیا۔
15 اکتوبر 1924 ء کو فرزند اقبال" " جاوید اقبال “ پیدا ہوئے اور 21 اکتوبر 1924ء کو اقبال کی بیوی مختار بیگم کا انتقال ہوا۔ یہ خوش مزاج اور گھریلو خاتون تھیں ۔ اقبال نے عوام کے اصرار پر سیاست میں حصہ لیا۔ یہ اقبال کی سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔ وہ سیاست کے مرد میدان نہ تھے اور نہ ہی سیاسی عیاری پسند کرتے تھے۔ آپ نے اپنے لیے وکالت کا میدان پسند کیا تھا ۔ 30 مئی 1927ء کو اقبال کے عزیز دوست غلام قادر گرامی کا انتقال ہو گیا جس کا اقبال کو بہت دکھ ہوا۔ اسی سال اقبال کو درد گردہ کی تکلیف بھی ہوئی۔ اس سال لاہور میں ہندو مسلم فسادات بھی پھوٹ پڑے۔ اقبال نے اس آگ کو بجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اقبال نے 13 دسمبر 1924 ء میں اجتہاد فی الاسلام کے موضوع پر ایک عالمانہ خطبہ دیا جسے ادبی حلقوں میں بہت اہمیت حاصل تھی۔ کچھ عرصہ بعد اقبال کو مدر اس ایجو کیشنل ایسوسی ایشن نے خطبات کے لیے دعوت دی۔ سید سلیمان ندوی اور مارماڈیوک پکھتال بھی وہاں اسلامی موضوعات پر لیکچر دے چکے تھے۔ اقبال نے جنوری 1929 ء میں مدر اس جاکر تین خطبات دیے۔میسور اور حیدر آباد بھی گئے اور وہاں بھی یہی خطبات پیش کیے ۔ ٹیپو سلطان کے مزار کی زیارت بھی کی۔ اس سال نومبر 1929 ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کی دعوت پر وہاں بھی خطبا ت پیش کیے۔ ساتواں لیکچر لندن میں دیا۔
" 1929 ء میں ایک گول میز کانفرنس کا فیصلہ کیا گیا۔ انگریز حکومت کی ایما پر یہ کانفرنس لندن میں ہونا تھی۔ اقبال پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے تھے اس لیے شاید انہیں مدعو ہی نہ کیا گیا۔ اقبال نے 1930 ء میں الہ آباد کا سفر کیا۔ دہلی اور بھوپال کا سفر بھی کیا۔ پہلی گول میز کانفرنس میں تو اقبال کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی مگر دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس میں اقبال کو مدعو کیا گیا۔دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے 12 ستمبر 1931ء کو بمبئی سے بحری جہاز پر روانہ ہوئے اور 27 ستمبر 1931ء کو لندن پہنچے۔ وہاں 21 نومبر تک قیام کیا۔ ڈاکٹر نکلسن وغیرہ وہاں موجود تھے ۔ ادبی محفلیں بھی ہوئیں ۔ لیکچر ز بھی ہوئے ۔ اٹلی کے جابر حکمران مسولینی سے ملاقات بھی ہوئی ۔ واپسی پر مصر پانچ دن قیام کیا۔ فلسطین نو دن ٹھہرے اور مؤتمر عالم اسلامی کی کانفرنس میں شرکت کی اور تقریباً 27 مسلم ممالک کے سربراہوں سے ملاقات کی۔ 28 دسمبر کو بمبئی پھر دہلی اور 30 دسمبر 1931ء کو واپس لا ہور پہنچ گئے۔ دوسری گول میز کانفرنس سے اقبال مایوس تھے۔
تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو اقبال 27 اکتوبر 1932ء کو لاہور سے روانہ ہوئے ۔ بمبئی سے بحری جہاز پر روانہ ہوئے۔ وہیں سے ریل کے ذریعے پیرس گئے۔ دو تین دن قیام کیا پھر ریل پر ہی لندن پہنچے۔ کانفرنس ابھی جاری تھی کہ اقبال لندن ے پیرس جانے کے لیے تیار ہو گئے ۔ وہاں مشہور فلسفی پر گساں سے ملاقات کی۔ جرمنی بھی جانا چاہتے تھے مگر نہ جا سکے۔ ہسپانیہ گئے، مسجد قرطبہ، ہسپانیہ، قید خانے میں معتمد کی فریاد، عبد الرحمن طارق کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت، طارق کی دعا اور دعا یہ سب نظمیں ہسپانیہ کی یاد ہیں۔ یہ صرف نظمیں نہیں بلکہ ان میں اقبال کے دل کا سوز اور اضطراب شامل ہے۔ اقبال کے اسفار مقصد حیات کے لیے تھے ۔ دوسری گول میز کانفرنس سے واپسی کے دوران فلسطین گئے ۔ ذوق و شوق ، الارض الله ، لالہ صحرا نظمیں اسی سفر کی یاد ہیں ۔ مثنوی "مسافر" افغانستان کے سفر کی یاد ہے اور ”جاوید نامہ“ تو ایک تخلیقی سفر کی شاندار یاد داشت ہے۔ ایسے بہت سےآثار اقبال کی شاعری میں محفوظ ہیں۔
4 دسمبر 1933 ء کو پنجاب یونیوسٹی نے اقبال کو ڈی لٹ کی اعزازی سند عطا کی۔13 دسمبر 1934ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے بھی ڈی لٹ کی ڈگری سے نوازا۔ تیسری ڈگری ڈھا کہ یونیورسٹی نے 29 جولائی 1936 ء میں عطا کی اور 13 دسمبر 1937ء کو الہ آباد یونیورسٹی نے بھی اس اعزاز سے نوازا۔
افغانستان اقبال کے لیے بیرون ملک کا آخری سفر تھا۔ مارچ 1934ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی دعوت پر لیکچرز کی تیاری میں مصروف تھے۔ کہ طبیعت خراب ہونے لگی۔ جنوری 1934ء کے پہلے ہفتے میں بیماری کا حملہ ہوا۔ سردی عروج پر تھی ۔ 10 جنوری کو عید کی نماز ادا کرنے شاہی مسجد گئے ۔ نماز ادا کر کے جاوید اور علی بخش کے ساتھ گھر آئے اور دہی ملا کر سوئیاں کھائیں۔ زکام ہوا۔ پھر گلے میں تکلیف ہوئی ۔ بولنا مشکل ہو گیا۔ دوسری بیماریاں بھی ستانے لگیں۔ کبھی صحت ٹھیک ہوتی تو کبھی بیمار ہو جاتے ۔ دمہ، قبض، قلب وغیرہ پریشان کرنے لگے ۔ زندگی کے شب و روز بدل گئے ۔ وکالت ختم ہو گئی ۔ گھر بیٹھ کر صرف امتحان کی کاپیوں سے برائے نام آمدن ہوتی۔ اس کے علاوہ قومی حالات بھی ابتر ہو گئے تھے۔ اقبال اس پر بھی بہت پریشان تھے۔
1934ء میں وہ انجمن حمایت اسلام کے صدر تھے تو ان کا صدارتی خطبہ پڑھ کر سنایا گیا۔ سردار بیگم بھی بیمار تھیں۔ نومبر 1934 ء میں اپنے گھر کی تعمیر کا کام شروع ہوا جس کےلیے بیوی کے زیورات فروخت کرنے پڑے ۔ اپریل 1935ء میں " جاوید منزل “تیار ہوا۔ اقبال بچوں کے ساتھ وہاں منتقل ہو گئے ۔ وہاں قدم رکھے تیسرا دن ہی گزرا تھا کہ سردار بیگم اللہ کو پیاری ہو گئیں ۔ سرراس مسعود کی سفارش پر والئی بھو پال نے پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ ان کے تعاون سے بھوپال میں کچھ علاج بھی ہوا۔ مگر اقبال علاج کے لیے یورپ نہ جا سکے۔ کیسے کیسے والیان ریاست اور صاحب ثروت لوگ تھے جو اقبال کی عظمت سے آگاہ تھےمگر سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی حکیم الامت اور شاعر مشرق کے کام نہ آیا۔
بچوں کی دیکھ بھال کے لیے اقبال نے پروفیسر رشید احمد صدیقی کو خط لکھا۔ انہوں نے ایک جرمن خاتون مسز ڈورس احمد کا انتظام کر دیا ۔ محمد علی جناح نے 6 مئی 1936 ء کو اقبال کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی اور پنڈت نہرو بھی اقبال کی عیادت اور ملاقات کے لیےاقبال کی قیام گاہ پر گئے تھے۔
پروفیسر عبدالحق نے اقبال کی زندگی کے آخری ایام کا نقشہ انتہائی خوبصورتی سے کھینچا ہے۔ آنکھوں میں موتیا اتر آیا تھا اس وجہ سے کم نظر آتا تھا مگر حضرت رسالت مآبؐ کا ذکر آتا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے۔ خطوط کا جواب دوسروں سے لکھواتے ۔ اخبار جاوید سے پڑھواتے ۔ بستر پر ہی وقت گزرنے لگا۔ سردی آتے ہی کھانسی اور بلغم کا نکلنا بڑھ گیا۔
وفات سے ایک دن پہلے جرمن دوست آئے ۔ ان سے باتیں کیں ہائیڈل برگ کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ شام باہر لان میں چار پائی پر دراز تھے کچھ دیر کے بعد ٹھنڈک محسوس ہوئی کمرے کے اندر لائے گئے ۔ منیرہ اقبال سے بغل گیر تھیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے آخری ملاقات ہو۔ رات بارہ بجے تک لوگ جمع تھے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم رات بھر موجود تھے ۔ 21 اپریل کی رات مرد خود آگاہ کی آخری سحر خیزی قابل رشک تھی ۔ مومن کی اذانوں سے اللہ کی عظمت اور کبریائی کا اعلان ہو رہا تھا۔
یہ مرد فقیر پانچ بج کر پندرہ منٹ پر زیر لب مسکراتا ہوا مالک کون و مکاں سے ملنے مائل بہ پرداز ہوا۔ پروفیسر عبدالحق لکھتے ہیں کہ پورا شہر غم میں ڈوبا ہوا تھا۔ پیرو جواں سبھی سوگوارتھے۔ آخری دیدار کے لیے لوگ جوق در جوق جاوید منزل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اسلامیہ کالج کے سبزہ زار میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔ تقریباً ساٹھ ہزار انسانوں نے پونے دس بجے رات شاہی مسجد کے سایہ دیوار کے آغوش میں جسد خاکی کو سپرد خاک کیا۔ پروفیسر عبد الحق نے اختتام پر اقبال کے شاہکار مرثیہ ”والدہ مرحومہ کی یاد میں“ کے آخری شعر کا مصرع لکھا ہے۔ پورا شعر لکھ کر ہم مونو گراف کے اس باب کو ختم کرتے ہیں۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رشتہ اس گھر کی نگہبانی کرے
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
Loading... | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |