Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیالکوٹ میں اُردو شاعری کی روایت |
Asian Research Index
سیالکوٹ میں اُردو شاعری کی روایت

اکرامؔ سانبوی
ARI Id

1720592043383_56119615

Access

Open/Free Access

Pages

193

اکرامؔ سانبوی (۱۹۴۲ئ۔۲۰۱۱ئ) کا اصل نام محمد اکرام ہے۔ آپ ریاست جموں کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں میں پیدا ہوئے۔ آبائو اجداد کا تعلق ضلع جموں کی تحصل سانبہ سے تھا۔ اسی لیے اکرام سانبوی کہلاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جموں سے ہجرت کر کے سیالکوٹ کے محلہ پورن نگر میں آباد ہوئے۔ آپ نے ایم ۔اے اردو اورنیٹل کالج لاہور سے کیا اور اس کے بعد جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں اردو کے لیکچرا ر کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوگیا۔(۹۵۱)
اکرام ؔغزل اور نظم کے شاعر ہیں۔ کالج کے زمانے میں انھوں نے کئی مزاحیہ مضامین اور افسانے لکھے جو کالج میگزین کے علاوہ کئی سطح کے ادبوں رسالوں میں شائع ہوئے۔ تنقیدی مضامین اور خصوصاً شاعری کا شوق بڑی عمر میں ہوا۔ اس لحاظ سے ان کی شاعری کی عمر کچھ زیادہ نہیں تاہم ان کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں ایک اچھا شاعر بننے کی پوری صلاحیت ہے۔ اکرامؔ کے کلام میں ہمیں گہرا سماجی شعور ملتاہے۔انھوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی شاعری میں اپنے ماحول کی شعری زبان میں عکاسی کی ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کے مسائل کو بھی بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ ان کے ہاں ہمیں افسردگی اور بے چینی نظر آتی ہے۔ جو ان کے دل کی دنیا کی بھر پور عکاسی کرتی ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
ہر طرف یاس کا اندھیرا ہے

زندگی ہو گی اب بسر کیسے

بے ثمر ہو گئے شجر کیسے

بے صدا ہو گئے نگر کیسے
(۹۵۲)

زبان شعر میں قصہ اداس راتوں کا

لہو رُلائے گا اک بار غور سے تو سنو
(۹۵۳)

بہتر ہے مرا آج میرے ماضی کے کل سے

آیا ہوں نکل حلقہ اسباب و علل سے
(۹۵۴)

وہ باد تند چلی مشرقی فضائوں میں

ہمارے چار سو بکھریں گلاب کی کلیاں
(۹۵۵)

تصور میں کسی کے کھو گیا ہوں

بھری محفل میں تنہا ہو گیا ہوں

زمانہ یاد کیا رکھے گا مجھ کو

میں خود گزرا زمانہ ہو گیا ہوں
(۹۵۶)
ہوا میں چار سو پھیلی ہے شوق کی خوشبو
اب آئو چمن میں منائیں جشنِ بہاراں (۹۵۷)

ہوتی نہیں بے تاب نگاہوں کی تسلی
دیکھا کیے جلوے رخ زیبا کے ازل سے
اس شوق کا انداز فسوں ساز تو دیکھو
کٹیا کہیں بہتر ہے مجھے شیش محل سے (۹۵۸)

شبِ فراق جو چمکی تمہاری زلف کی یاد
مرے شعور کا موتی زمیں پہ رول گئی (۹۵۹)

بدن دریدہ نظاروں سے مجھ کو کیا مطلب
سکوں پسند ہوں تنہائیاں ہیں راس مجھے (۹۶۰)

شاہِؐ شاہانِ اُمم نور ازل کی قندیل

تیرا ہر تار نفس ذاتِ احد کی دلیل

تیرا اِک ایک عمل تابع فرمانِ خدا

تیرا اک ایک قدم جنبش بالِ جبریل

ناصیہ سا تیرے در پر ہوں اٹھا لیجے مجھے

میں ہوں اکرامؔ تیرا ،تو میرا آقا و کفیل
(۹۶۱)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...