Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مطالعہ یہودیت > پہلا باب: تعارف

مطالعہ یہودیت |
فروغ زبان پبلشرز
مطالعہ یہودیت

پہلا باب: تعارف
ARI Id

1676046516391_54335428

Access

Open/Free Access

یہودیوں کے مختلف نام

باب اول کے اہم نکات

  1. عبرانی، اسرائیلی، یہودی اور سامی میں فرق۔
  2. یہودی کسے کہا جا سکتا ہے۔
  3. پیدائشی، ملحد اور مرضی سے بننے والے یہودی۔
  4. یہودیت کی ابتدا۔
  5. ابراہیمؑ سے کیا گیا عہد خداوندی۔
  6. اسحاقؑ، یعقوبؑ اور یوسفؑ کے ادوار۔
"یہودی" عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی "یہودا کے قبیلہ سے" کے ہیں۔ یہودیت کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں ہوتا ہے جس کی تاریخ تقریباً 1500 سے 2000 سال قبل مسیح بیان کی جاتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے اسے الہامی مذاہب میں سب سے قدیم مذہب مانا جاتا ہے۔ عصر حاضر میں یہودیوں کی کل تعداد تقریباً 14.7 ملین ہے۔ یہودیوں کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے۔ ان میں سے ہر ایک نام کی تاریخ، اہمیت اور استعمال مختلف ہے۔ یہودیت میں ناموں کی اسی اہمیت کے پیش نظر ان ناموں کا مختصر تعارف ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔

عبرانی

 پہلے پہل یہودیوں کو "عبرانی" کہا جاتا تھا۔ عبرانی بائیبل جسے تنخ اور عہد نامہ قدیم بھی کہا جاتا ہے یہودیوں کی مقدس کتاب ہے جس میں لفظ عبرانی کا اولین اطلاق آبرام /ابراہیمؑ کو بیان کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ [1] لفظ عبرانی کا ماخذ یا تو "ابر" ہے جو آبرام کے اجداد میں سے کسی کا نام تھا یا اس کا ماخذ "ایور" ہے جس کا مطلب "دوسری جانب کا" ہے۔ چونکہ وہ دریائے فرات کی دوسری جانب سے آئے تھے اس لیے عبرانی کہلائے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ روحانی و اخلاقی طور پر اپنی قوم سے دوسری جانب تھے اس لیے انہیں عبرانی کہا جانے لگا۔ جب یہودیوں کو اس نام سے پکارا جائے تو اس سے مراد ابراہیمؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور یوسفؑ کے ادوار ہیں۔

اسرائیلی

یہودیوں کے لیے عبرانی کے علاوہ "اسرائیلی" کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کے لُغوی معنی ہیں کہ "خدا لڑتا ہے۔" یہ یعقوبؑ کا لقب تھا۔ عبرانی بائیبل کے مطابق ایک دفعہ وہ کنعان کی جانب سفر کر رہے تھے اور تنہا تھے کہ ایک آدمی آیا اور ساری رات ان سے کشتی لڑتا رہا۔ جب صبح کی روشنی شروع ہونے لگی تو اس آدمی نے یعقوبؑ سے کہا کہ اس کو جانے دیں لیکن باوجود زخمی ہونے کے یعقوبؑ نے اس آدمی کو پکڑے رکھا اور کہا کہ وہ اس وقت تک اس کو

نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ وہ ان کو برکات سے نہ نوازے۔ تب اس نے کہا: "اِس کے بعد تیرانام یعقوب نہ رہیگا، بلکہ اسرائیل ہو گا۔ اور میں نے تجھے یہ نام دیا ہے، کیونکہ تو خدا سے اور آدمیوں سے لڑا ہے اور غالب ہوا۔"[2] اس وقت سے یعقوبؑ، اسرائیل کے لقب سے بھی پہچانے جانے لگے۔ انہیں کی نسبت سے یہودی اپنی سرزمین کو بھی "اسرائیل" کا نام دیتے ہیں۔ یہودی مذہبی ادب میں بھی اس لفظ کا استعمال کثرت سے ہے۔ موجودہ اسرائیلی ریاست، جس کا قیام ایک متنازعہ مسئلہ ہے، کے یہودی و غیر یہودی باشندوں کے لیے بھی اسرائیلی کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس نئی اسرائیلی ریاست میں بسنے والا شخص مسیحی یا مسلمان ہونے کے باوجود اسرائیلی بھی کہلاتا ہے۔

سامی

          مشرق وسطی کے لوگ جن میں یہودی اور عرب شامل ہیں، سام بن نوحؑ کی اولاد تصور کیے جاتے ہیں۔ اسی نسبت سے یہودیوں کو سامی بھی کہا جاتا ہے اور ان کے مذہب کو سامی مذاہب میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس لفظ سے سامی زبانوں کا گروہ بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔ عبرانی، جسے یہودیوں کی مقدس زبان کا درجہ حاصل ہے وہ بھی زبانوں کے سامی گروہ ہی میں شامل ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہودی دیگر قوموں کی نفرتوں کا شکار رہے ہیں جس وجہ سے یہودیوں کے خلاف نفرت کو بیان کرنے کے لیے "سامی مخالف" کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔

یہودی

 یعقوبؑ کے بارہ بیٹوں میں سے ایک کا نام یہودا تھا۔ اسی بیٹے سے جو قبیلہ آباد ہوا اس کے باسی یہودی کہلائے۔ یہودیوں کے تیسرے بادشاہ، سلیمانؑ کی وفات کے بعد اسرائیلی قوم دو ریاستوں میں بٹ گئی تھی۔ ان میں سے ایک ریاست کا نام "اسرائیل" اور دوسری کا نام" یہودا" تھا۔ اسرائیل کو "شمالی ریاست" اور یہودا کو "جنوبی ریاست" بھی کہا جاتا تھا۔ پہلے پہل صرف یہودا کے باسی یہودی کہلائے۔ بعد میں جب اسرائیل کو اشوریوں نے تباہ کر دیا تو تمام قوم یہودی کہلائی۔ عصرِ حاضر میں بھی انہیں اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔

یہودی کون ہے؟

 تمام یہودی ایک ہی نسل سے تعلق نہیں رکھتے۔ نہ ہی سب کا خون، رنگ اور قومیت ایک سی ہے۔ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح یہودی بھی مختلف رنگوں، نسلوں اور قومیتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اگر آج کے امریکہ، برطانیہ یا جرمنی میں سفید فام یہودی موجود ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاہ فام یہودیوں کا وجود نہیں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں تقریباً ایک لاکھ سیاہ فام یہودی موجود ہیں۔ ان میں وہ یہودی بھی شامل ہیں جو 1970 سے 1990 کے دوران ایتھوپیا سے اسرائیل بذریعہ ہوائی جہاز لائے گئے۔ جدید دنیا سے کٹے ہونے کی وجہ سے یہ لوگ قدیم یہودیت کے پیروکار تھے۔ اسی طرح پانچ ہزار کے قریب یہودیوں کا ایک گروہ ہندوستان میں بھی آباد تھا جو نسلاً تو یہودی سمجھے جاتے تھے لیکن ثقافتی اعتبار سے ہندوؤں سے مشابہ تھے۔ چنانچہ ایسے بہت سے سوالات اٹھتے ہیں جو مذہبی اعتبار سے یہودی اور یہودیت کے مزاج سے واقفیت کی طرف رغبت دلاتے ہیں۔ درج ذیل بحث سے یہ معلوم کرنے میں آسانی ہو گی کہ یہودی کون ہے؟ یہودیت کا جوہر اصلی کیا ہے؟ اور یہودی ہونے کے لیے کیا شرائط ہیں ؟

پیدائشی یہودی

زیادہ تر یہودیوں کے نزدیک کسی کے یہودی ہونے کی دلیل اس کا یہودیت کو بطور عقیدہ قبول کرنا یا اپنی زندگی میں لاگو کرنا نہیں بلکہ اس کا یہودی پیدا ہونا ہے۔ اسی بات کے پیشِ نظر یہودی اس بات پر متفق ہیں کہ یہودی عورت کے بطن سے پیدا ہو نے والی اولاد یہودی کہلائے گی۔ چنانچہ مشنا/مشناہ جو یہودی فقہی قوانین کا اولین مجموعہ کہلاتا ہے اس ضمن میں متنبہ کرتا ہے "وہ جو ایک یہودی عورت کا بیٹا ہے وہ تمہارا بیٹا ہے اور وہ جو کسی غیر یہودی عورت کا بیٹا ہے وہ تمہارا بیٹا نہیں وہ اس عورت کا بیٹا ہے۔"[3] ایسا یہودی جس کی ماں یہودی ہو "پیدائشی یہودی" کہلائے گا۔ فی زمانہ اس شرط کا اطلاق سہل معلوم ہوتا ہے کیونکہ بچے کی پیدائش پر اس کا اندراج کروا کر ولادت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا یا ڈی این اے کی تشخیص کے ذریعے والد یا والدہ کی نشاندہی کرنے جیسی سہولیات کی فروانی ہے۔ یہودی تاریخ جو جنگ و جدل کی یاداشتوں، غلامی کی داستانوں اور نہ ختم ہونے والی ہجرتوں سے معمور ہے اس بات کی عکاس ہے کہ یہودی قرار دیے جانے کی یہ نسل پرستانہ شرط خود یہودیوں کے لیے کیسی کٹھن رہی ہے۔ تاہم یہ نسلی تعصب تاریخ میں ان کے لیے اعتماد، ہمدردی اور بھائی چارے کی نوید بھی تھا۔ ان کی زندگی میں ایسے متعدد مواقع آئے جب وہ تھوڑے تھے اور غیر یہودیوں پر بھروسا نہیں کر سکتے تھے۔ اس وقت یہ نسلی امتیاز ان کے لیے اطمینان کا باعث تھا کہ وہ کسی غیر پر نہیں بلکہ اولادِ یعقوبؑ پر اعتماد کر رہے ہیں۔

 کسی کے یہودی ہونے کو ماں کے ذریعے جاننے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اگلے وقتوں میں بچے کے والد کی تشخیص میں شک ہو سکتا تھا جبکہ والدہ کے متعلق خال خال ہی ایسا مسئلہ بنتا تھا۔ لہذا یہودیوں نے یہودیت کی پرکھ کے لیے ماں کی شرط رکھی۔ دوم یہ کہ بچے کی پیدائش اور پرورش کی ذمہ داری زیادہ تر ماں ہی نبھاتی رہی ہے۔ چنانچہ ماں ہی کو اس سلسلے میں ذمہ دار مانا گیا۔ اس لحاظ سے کسی یہودی عورت کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ اس کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد یہودی قوم کی شناخت ہے۔

پیدائشی یہودی کو تمام یہودی فرقوں میں بالاتفاق یہودی ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ کچھ یہودی فرقوں کے نزدیک تو اگر کوئی پیدائشی یہودی، یہودیت کی پیروی نہ بھی کر رہا ہو تو بھی وہ یہودی ہی رہے گا لیکن اس کے رتبے میں فرق آ جائے گا۔ اسی طرح ایسا شخص جس کی ماں تو یہودی ہو لیکن باپ یہودی نہ ہو تو وہ بھی پیدائشی یہودی ہی ہو گا لیکن رتبے کے لحاظ سے کمتر ہو گا۔ تلمود/تالمودجسے یہودیوں کے شرعی قانون کا درجہ حاصل ہے، ایسے یہودی کے لیے ممزیر کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔ ممزیر سے مراد ایسا شخص بھی ہے جس کے ماں باپ کے تعلقات یہودی قانون یعنی ہلاخا کے مطابق درست نہ ہوں، مثلاً خونی رشتہ داروں کی اولاد ممزیر کہلائے گی لیکن یہ ناجائز نہیں سمجھی جائے گی کیونکہ بچہ باقاعدہ شادی کے بعد پیدا ہوا ہے۔

بعض یہودیوں کے نزدیک پیدائشی یہودی اپنا مذہب چھوڑ دینے کے بعد بھی یہودی رہ سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر کوئی یہودی، عیسائیت یا اسلام قبول کر لیتا ہے تو بھی وہ یہودی ہو سکتا ہے۔ البتہ "اصلاح شدہ یہودیت" جو عصر حاضر میں یہودیت کا ایک بڑا مذہبی فرقہ ہے اس بارے میں مختلف نظریہ رکھتا ہے۔ اس فرقے کے نزدیک جو انسان یہودیت چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اپنا چکا ہو، یہودی نہیں ہو سکتا۔ مزید براں، یہ فرقہ پیدائشی یہودی کی ماں کے لیے بھی یہودی ہونا لازمی نہیں سمجھتا۔ اصلاح شدہ یہودیوں کے ہاں اگر کسی کا باپ یہودی ہو تو بھی وہ پیدائشی یہودی ہی تصور کیا جائے گا لیکن ایسے انسان کا یہودیت کی بنیادی تعلیمات سے واقف ہونا ضروری ہے۔ یہ چیز یہودیوں کے درمیان اختلاف کا باعث بھی ہے۔"رجعت پسند" اور "راسخ العقیدہ" عصرِ حاضر کے دو بڑے یہودی فرقے ہیں۔ یہ دونوں فرقے اس ضمن میں اصلاح شدہ یہودیوں کی آرا کے حق میں نہیں ہیں۔ اس لیے شادی بیاہ کے وقت مختلف یہودی گروہ اس معاملے میں باہم اختلاف کا شکار رہتے ہیں کہ اصلاح شدہ یہودیوں کی شادی راسخ العقیدہ یا رجعت پسند یہودیوں کے ہاں ہو بھی سکتی ہے یا نہیں۔ ہر سال ایک بڑی تعداد میں اس قسم کے مقدمات اسرائیلی عدالتوں میں فیصلوں کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ اس لیے مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے تمام یہودیوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص کی ماں یہودی ہو گی وہ پیدائشی یہودی تصور کیا جائے گا۔ جس شخص کا باپ یہودی ہو گا وہ اصلاح شدہ یہودیوں کے نزدیک یہودی تصور کیا جائے جبکہ رجعت پسند اور راسخ العقیدہ یہودیوں کے ہاں اس کی یہودیت مشکوک ہو گی۔

ملحد یہودی

کچھ یہودیوں کے نزدیک ملحد اور لا دین ہو جانے والا پیدائشی یہودی بھی یہودی ہی رہے گا۔ چونکہ یہودیت میں نسل اور مذہب دونوں ہی کسی شخص کو یہودی بناتے ہیں اس لیے "ملحد یہودی" ایک باہم متضاد اصطلاح نہیں ہے۔ کچھ راسخ العقیدہ یہودی یہ بھی کہتے ہیں کہ توریت کی محبت کسی کی یہودیت کے ثبوت کے لیے کافی ہے اگرچہ اس کا خدا پر یقین ہو یا نہیں۔ مطالعہ مذاہب کے کسی طالب علم کے لیے جو سامی مذاہب کے بنیادی عقائد سے واقفیت رکھتا ہو یہ بات عجیب ہے جبکہ یہودیوں کے لیے ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودیت بنیادی طور پر ایک ایسا مذہب ہے جو عقیدے سے زیادہ اعمال پر توجہ دیتا ہے۔ اس لحاظ سے بعض یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ جو یہودی توریت کے احکامات پر عمل کر رہا ہے وہ ہر حال میں یہودی ہی رہے گا۔ وہ اس بات کی دلیل عبرانی بائیبل سے لیتے ہیں جس کے مطابق: "تب تم ان سے کہنا، خداوند فرماتا ہے۔ اس لئے کہ تمہارے باپ دادا نے مجھے چھوڑ دیا اور دوسرے خدا ؤں کےطالب ہوئے اور ان کی عبادت کی اور مجھے(خدا کو) ترک کیا اور میری شریعت پر عمل نہیں کیا۔"[4] اس بیان کے آخری حصے میں پہلے خدا کا ذکر ہے کہ اس کو چھوڑ دیا گیا اور بعد میں یہ تنبیہ ہے کہ شریعت پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ خدا کو اگر ترک کر ہی دیا ہے تو شریعت پر ہی عمل جاری رکھا گیا ہوتا۔ اس ضمن میں شاید اہم ترین بیان پانچویں صدی کے ایک ربی(یہودی عالم) کا ہے جن کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ "کاش وہ مجھے ترک کر دیتے اور میری توریت کو برقرار رکھتے۔"[5] "ربیائی یہودیت"جس میں اعمال کی طرف زیادہ توجہ دی گئی ہے چھٹی صدی عیسوی سے یہودیت کی اہم قسم ہے۔ اس دور کے کسی ربی کی بات نہایت اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر کچھ یہودی ایسے منکرین خدا کو بھی یہودی ہی سمجھتے ہیں جو پیدائشی یہودی ہوں۔

یہ رویہ تمام یہودیوں کے لیے قابلِ قبول نہیں، مثلاً موسی ابن میمون (1138-1204) ایک ایسے عہد ساز یہودی عالم تھے جنہوں نے یہودیت کے بنیادی عقائد تشکیل دیے اور تیرہ اساسی اصول متعین کیے جو فی زمانہ بھی بیشتر یہودیوں کے ہاں مقبول ہیں۔ ان اصولوں کی ابتدا ہی خالق کل، واحد لا شریک، لامکاں، ماورائے مادہ اور نہ تھکنے والے ابدی خدا پر یقین سے ہوتی ہے۔[6] اس وجہ سے ایسا یہودی جو خدا ہی پر یقین نہیں رکھتا ابن میمون کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔ اسی طرح رجعت پسند یہودی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا پر اعتقاد یہودی ہونے کے لیے ایک لازمی امر ہے۔  یہودیت میں بدعتی کے لیے "مِینیم" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہودیوں کے خیال میں مینیم کا آنے والی دنیا یعنی آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ ناچمن(وفات 320) جو کے چوتھی صدی عیسوی کے ایک مشہور ربی تھے نے مینیم سے مراد ایسا انسان بھی لیا ہے جو خدا پر اعتقاد کا منکر ہو۔[7] اس کے علاوہ توریت پر یقین نہ رکھنے والا بھی مینیم ہی سمجھا جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ربی خود اس ضمن میں تضاد کا شکار ہیں کہ ایسا پیدائشی یہودی جو خدا کا منکر ہو یہودی ہو سکتا ہے یا نہیں۔ ان میں سے ایک گروہ یہ سمجھتا ہے کہ ایسا انسان چونکہ پیدائشی یہودی ہے لہذا جو کچھ بھی ہو وہ یہودی ہی رہے گا جبکہ دوسرا گروہ یہ سمجھتا ہے کہ منکرِ خدا یہودی نہیں ہو سکتا۔

مرضی سے بننے والے یہودی

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہودیت نسل کے اعتبار سے چلنے والا مذہب ہے اور کوئی انسان اپنی مرضی سے یہودی نہیں بن سکتا۔ اگرچہ عبرانی بائیبل میں یہودیت اختیار کرنے کے لیے یا مذہبی تبدیلی کے لیے کوئی خاص اصطلاح موجود نہیں لیکن کچھ ایسی اصطلاحات کا ذکر اس میں موجود ہے جن سے اس عمل کی مختلف صورتوں کے متعلق علم ہوتا ہے، مثلاً بعض یہودی مفکرین نے لکھا ہے کہ تنخ نے "ہتیاہید" کی اصطلاح ان فارسیوں کے لیے استعمال کی ہے جو یہودیوں کے ڈر سے یہودی بن گئے تھے۔"امیلم" کی اصطلاح ان غیر یہودی اقوام کے لیے استعمال کی گئی ہے جنہیں مختون کیا گیا۔"نِلواہ" ان اجنبیوں کو کہا گیا جنہوں نے خدا سے تعلق جوڑا۔[8] اگر ان یہودی مفکرین نے ان اصطلاحات کے درست معنی اخذ کیے ہیں تو ان سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ قدیم عبرانیوں کے دور ہی سے یہودیت کو بھی دیگر مذاہب کی طرح اختیار کیا جا سکتا تھا۔

عبرانی بائیبل میں بھی اس ضمن میں اشارات موجود ہیں کہ پیدائشی یہودیوں کے علاوہ بھی دیگر لوگ یہودی بن سکتے ہیں، مثلاً مذکور ہے: "وہ غیر ملکی جو تمہارے درمیان رہتے ہیں ان سے ایسا سلوک کرو جیسا اپنے درمیان پیدا ہونے والے باشندوں سے کرتے ہو۔ ان سے ایسی محبت کرو جیسی خود سے کرتے ہو۔"[9] توریت کی کتاب استثنا میں مزید وضاحت کے ساتھ ان عورتوں کا بیان ہے جو جنگی قیدی ہونے کے باوجود یہودیوں کی بیویاں بن سکتی ہیں:

تم جنگ میں اسیر شدہ کسی خوبصورت عورت کو دیکھ سکتے ہو تم اسے پانا چاہ سکتے ہو اور اپنی بیوی کے طور پر رکھنے کی خواہش کر سکتے ہو۔ تمہیں اسے اپنے خاندان میں اپنے گھر لانا چاہیے۔ اسے اپنے بال منڈوا نے اور اپنے ناخن کاٹنے چاہیے۔ اسے اپنے پہنے ہوئے ان کپڑوں کو جب وہ قیدی تھی اتارنا چاہیے اسے تمہارے گھر میں رہنا چاہیے اور ایک ماہ تک اپنے ماں باپ کے لئے رونا چاہیے۔ تب تم اس کے ساتھ شوہر کی طرح رہ سکتے ہو اور وہ تمہاری بیوی بن جائے گی۔[10]

بعض مصنفین نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ مرضی سے بننے والے یہودی خدا کے محبوب ہیں کیونکہ ان لوگوں نے خود اپنی کوشش سے یہودیت کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ جو ایسے لوگوں کو ستاتا ہے وہ خدا کو ستانے کی کوشش کرتا ہے۔[11] بہت سے یہودی، یہودیت کو صرف ایک مذہب ہی نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک یہ تہذیب، ثقافت اور قومیت کے عناصر پر مبنی ایک نظام بھی ہے۔ اس میں جہاں نسلیت اہم ہے وہیں مذہب کو بطور تہذیب و ثقافت اپنا کر اس کے احکامات کی پیروی کرنا بھی شامل ہے۔ لہذا وہ یہودی گروہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ خدا صرف یہودی نسل ہی کا خدا نہیں بلکہ مالکِ کل کائنات بھی ہے وہ اپنی کتبِ مقدسہ ہی سے استدلال کر کے یہ بتاتے ہیں کہ یہودیت کو باقاعدہ مذہب کے طور پر بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں جیمارا / گمارا جو تلمود کا ایک اہم جزو ہے درج ذیل اشارہ دیتی ہے:

ربیوں نے سکھایا: اگر آج کل کوئی خود کو یہودی بننے کے لیے پیش کرے تو ہم اسے کہتے ہیں: تم کیوں یہودی بننا چاہتے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ ان دنوں اسرائیلی آشفتہ، صعوبت کے مارے، پریشان، ذلیل اور ستائے ہوئے ہیں۔ اگر وہ یہ جواب دے: میں جانتا ہوں اور میں اس قابل نہیں تو ہم اسے قبول کر لیتے ہیں اور اسے کچھ نرم اور کچھ سخت وصیتیں سکھاتے ہیں۔۔۔[12]

کچھ مسیحی کتب مقدسہ سے بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مسیحؑ کے زمانے میں یہودی اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے لمبے لمبے سفر تک کیا کرتے تھے۔ عیسائیوں کی مقدس کتاب جسے عہد نامہ جدید کہتے ہیں میں بیان ہے: "اے شریعت کے عالمو، اے فریسیو! میں تمہا را انجام کیا بتاؤں تم تو ریا کار ہو تمہاری (بتائی ہوئی) راہوں کی پیروی کرنے والوں کی ایک ایک کی تلاش میں تم سمندروں کے پار مختلف شہروں کے دورے کر تے ہو۔ اور جب اس کو دیکھتے ہو تو تم اس کو اپنے سے بد تر بنا دیتے ہو اور تم نہایت برے ہو جیسے تم جہنم سے وابستہ ہو۔"[13] فریسی یہودیوں کا ایک مشہور فرقہ ہے۔ اس لیے درج بالا اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ مسیحؑ کے دور میں یہودی تبلیغ کے مقصد کے لیے سفر کیا کرتے تھے۔ اسی بنا پر یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اس دور کی یہودیت میں تبلیغ عام تھی۔ حتی کہ ان لوگوں کو بھی خوش آمدید کہا جاتا تھا جو خدا پر یقین تو رکھتے تھے تاہم ختنہ جو یہودی روایت میں نہایت اہم تصور کیا جاتا تھا کروانے سے ڈرتے تھے۔ ایسے لوگوں کو "خدا سے ڈرنے والے" کہا جاتا تھا۔ بعض یہودی یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جو شخص نوحؑ کو دیے گئے قوانین کی پیروی کرتا ہے اس کا آخرت میں حصہ ہے۔[14]

کچھ تاریخی واقعات سے بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں لوگ یہودیت کو بطور مذہب اپناتے رہے ہیں، مثلاً یوسف ابن شرحیل(عہد 517-527) چھٹی صدی عیسوی کا ایک مشہور یمنی بادشاہ گزرا ہے۔ اس کا اصل نام ذو نواس تھا اور اس نے یہودیت کو بطور مذہب اپنایا اور اپنی ریاست میں موجود مسیحیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ اس لیے توڑے کہ روم میں بسنے والے مسیحی، یہودیوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔[15] کچھ با اثر یہودی حکمران جبراً بھی لوگوں کو یہودیت میں داخل کیا کرتے تھے، مثلاً ہیروڈ (عہد 37-4 ق۔ م) ایک مشہور یہودی حکمران گزرا ہے جسے رومیوں نے بنی اسرائیل پر حاکم مقرر کیا تھا۔ ہیروڈ کے والدین اصل میں ادومی تھے جنہیں مکابیوں کے دور میں زبردستی یہودی بنایا گیا تھا ۔

درج بالا بحث سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ عصر ِ حاضر کی یہودیت تبلیغی یا مشنری مزاج کی حامل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں14.7 ملین یہودی آباد ہیں جو دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی نسبت ایک محدود تعداد تصور کی جاتی ہے۔ یہودیوں کی اس کم تعداد کا ایک بنیادی سبب ان کا تبلیغ نہ کرنا بھی ہے۔ یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے تمام لوگ خدا کے ہاں قابلِ قبول ہیں یہاں تک کہ وہ کچھ بنیادی اخلاقیات کی پیروی کر رہے ہوں۔ اگر وہ یہودی بن جاتے ہیں تو انہیں توریت کے تمام احکامات کی پیروی کرنی ہو گی۔[16] یعنی یہودیت کو باقاعدہ اختیار کرنے کے بعد یہودی شریعت کو پوری طرح اپنانا ہو گا۔ اسی لیے کچھ یہودی یہ بھی کہتے ہیں کہ تمام یہودی، یہودیت کی پیروی نہیں کرتے لیکن وہ لوگ جو یہودیت کی پیروی کرتے ہیں یہودی ہیں۔ اس لحاظ سے یہودیوں کا یہ سمجھنا کہ کسی غیر یہودی کا رسمی طور پر یہودی بننا کسی خاص امتیاز کا حامل نہیں ہے، انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ کی طرف مائل نہیں کرتا جو ان کی تعداد میں کمی کا باعث بھی ہے۔ عصر حاضر میں عمومی شرائط جن پر عمل پیرا ہو کر کوئی بھی شخص یہودی بن سکتا ہے درج ذیل ہیں:

  1. توریت میں مذکور 613 وصیتوں یعنی متسواہ/مِتس واہ جن کا تعلق عبادات وغیرہ سے ہے کے تقاضوں کو پورا کرنا۔
  2. بریت میلا یعنی مردوں کے لیے ختنہ کروانا۔
  3. مِک وے یعنی مقدس تالاب میں غسل کر کے پاکی حاصل کرنا۔
  4. خدا کے حضور قربانی دینا۔ [17]

اصلاح شدہ یہودیوں کے ہاں میلا اور مک وے کسی کے یہودی بننے کے لیے ضروری نہیں۔ یہی کافی ہے کہ ان کا علم اس شخص کو ہو جو یہودی بننا چاہ رہا ہے۔ مزید یہ کہ وہ شخص متسواہ کی ان تشریحات پر عمل کرے جو اصلاح شدہ یہودیوں نے متعین کی ہیں۔ کچھ یہودی اس ضمن میں یہ بھی شامل کرتے ہیں کہ نئے فرد کہ لیے ضروری ہے کہ وہ کسی یہودی خاندان کے ساتھ کچھ عرصہ بسر کرے اور ان سے یہودی طور اطوار اور مذہب سیکھے۔ اس کے برعکس ایک نظریہ اور بھی ہے کہ یہودی بننا انسان کے جذبہ ایمانی پر منحصر ہے۔ اگر وہ پُر عزم ہے کہ وہ یہودیت کو بطور مذہب اپنا لے گا تو اس کی یہودیت کی بنیادی باتوں سے آگاہی کافی ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ کسی یہودی خاندان کے ساتھ وقت بھی گزارے۔[18] یہودیت میں ابراہیمؑ کو اولین بزرگ مانا جاتا ہے۔ جب وہ 99 برس کے ہوئے تو خدا نے انہیں اپنا عہد دیا۔ اس واقعہ سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ یہودی بننے کے لیے عمر کی کوئی انتہائی حد مقرر نہیں ہے۔ انسان جب چاہے یہودیت اختیار کر سکتا ہے۔

موجودہ اسرائیلی قانون

جیسا کہ پچھلی بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہودیت میں غیر یہودیوں کو بھی خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ چنانچہ جدید اسرائیل میں شہریت ان لوگوں کو بھی دی جاتی ہے جو پیدائشی یہودی نہیں ہوتے۔ اس کے لیے1950 میں "قانونِ واپسی" تشکیل دیا گیا۔ یہ قانون کسی شخص کے یہودی ہونے کی تعریف اس طرح کرتا ہے کہ ہر وہ آدمی یہودی ہے " جو ایک یہودی عورت سے پیدا ہوا یا جس نے یہودیت کو قبول کیا اور وہ کسی دوسرے مذہب کا رکن نہیں ہے۔"[19] ایسے شخص کو اسرائیل کی شہریت کے لیے موزوں تو سمجھا جاتا ہے لیکن اس نو یہودی کو بعض معاملات کے لیے دوسرے یہودیوں کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے، مثلاً اسرائیل میں شادی کے لیے اسے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اس نے کسی راسخ العقیدہ یہودی کی نگرانی میں یہودیت کو قبول کیا ہے اور اس کو ملک کے اعلی ربیائی ادارے نے منظور کیا ہے۔ 2019 میں اسرائیل کے مشہور اخبار ہاریتز نے یہ بیانیہ بھی شائع کیا تھا کہ ربی اعظم نے کچھ شادیوں کے اجازت نامے دینے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کروانے پر زور دیا تاکہ شادی سے پہلے جوڑوں کی یہودیت کو پرکھا جا سکے۔[20] اسی اخبار نے یہ بھی شائع کیا کہ یہودی اب خود یہ ناپسند کرتے ہیں کہ انہیں رنگ، نسل یا خون کی رو سے پرکھا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہودیت نسل اور خون سے ماورا ہے۔ 2019 ہی کے ایک سروے کے مطابق تقریباً 32 فیصد اسرائیلی یہودی اس بات کو بھی ناپسند کرتے ہیں کہ ربی اعظم یا کوئی اور ان کی یہودیت کو پرکھے۔ البتہ 50 فیصد سے زائد اس حق میں ہیں کہ شادی غیر یہودیوں میں نہیں کی جانی چاہیے۔[21]

یہودیوں کی آرا میں عدم اتفاق کے حوالے سے ان کے اپنے ہاں ایک لطیفہ رائج ہے جو اس ضمن میں بھی صادق آتا ہے کہ جب تین یہودی ایک ساتھ آئیں تو یہ یقین کر لینا چاہیے ان کی آرا چار ہوں گی۔ اسی طرح کسی کے یہودی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ یہودی ریاست کا نسل پرستانہ نظریہ اس قدر اہمیت کا حامل رہا ہے کہ کسی فرد کے ذاتی عقیدے کے برعکس اس کا نسلی امتیاز اس کی مذہبی حیثیت متعین کر سکتا ہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ:

  1. جو بچہ یہودی ماں کے بطن سے پیدا ہو وہ یہودی کہلائے گا۔
  2. اصلاح شدہ یہودی ایسے شخص کو بھی یہودی  ہی گردانے  رہے ہیں جس کا صرف باپ ہی یہودی ہو۔
  3. ایسا شخص بھی یہودی ہے جو ربیوں کی بیان کردہ بنیادی اخلاقیات کی پیروی کر رہا ہے۔
  4. یہودیت کو اپنی مرضی سے بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مختلف یہودی مذہبی فرقے ایسے یہودی کے رتبے کا تعین خود کرتے ہیں۔
  5. ہر وہ فرد بھی یہودی ہو سکتا ہے جو ایک خدا پر ایمان لائے، توریت کے احکامات پر عمل کرے اور کسی دوسرے مذہب کو اختیار نہ کرے۔

یہودیت کے ابتدائی بزرگ

          جدید تحقیقات کے مطابق یہودیت کی تاریخ تقریباً چار ہزار سال پرانی ہے۔ آثار قدیمہ کے لیے ہونے والی کھدائیوں کے دوران میسوپوٹیمیا، فلسطین، ترکی اور شام سے ایسی مذہبی کتب، ذاتی استعمال کی چیزیں اور دریافتیں ہوئیں ہیں جن سے ابتدائی یہودیت کے متعلق معلومات ملتی ہیں۔ خود عبرانی بائیبل یہودیت کی ابتدا کو دنیا کی تخلیق کے ساتھ جوڑتی ہے اور نوحؑ کی کشتی اور طوفان کے ذریعے زندگی کی دوسری ابتدا کے متعلق نظریات فراہم کرتی ہے۔ سام بن نوحؑ کو بھی ابراہیمؑ کا جد امجد بیان کیا گیا ہے اور اسرائیلیوں کو آرامیوں کی اولاد بھی کہا گیا ہے۔ اس بارے میں مذکور ہے: " تب تم خداوند اپنے خدا کے سامنے یہ کہو گے: میرے آباؤ اجداد گھومنے پھرنے وا لے آرامی تھے وہ مصر پہنچے اور وہاں رہے جب وہ وہاں گئے تب اس کے خاندان میں بہت کم لوگ تھے لیکن مصر میں وہ ایک طاقتور کثیر تعداد والی عظیم قوم بن گئی۔"[22]

یہودی خود اپنی ابتدا کو ابراہیمؑ کے حوالے سے بیان کرنا پسند کرتے ہیں۔ آپؑ کو اولین بزرگ سمجھا جاتا ہے۔ یہودیوں میں بزرگوں کی تین نسلیں مشہور ہیں جن میں آپؑ کے علاوہ آپؑ کے بیٹے اسحاقؑ اور ان کے بیٹے یعقوبؑ کی اولاد شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہ دور 2000–1550 یا 1500–1200 قبل مسیح پر محیط ہے۔

          توریت میں عبرانیوں کے مذہب کے لیے کوئی خاص اصطلاح مہیا نہیں کی گئی۔ نہ ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ ابتدا میں ان لوگوں نے خود اپنے مذہب کے لیے کیا نام تجویز کیا تھا۔ معلوم تاریخ سے محققین یہ نظریہ قائم کرتے ہیں کہ یہودیت کو یہ نام یہودا کی وجہ سے ملا جو کہ یعقوبؑ کے بیٹے تھے۔ اس سے پہلے تک یہودیت کے لیے کوئی خاص نام مختص نہیں تھا۔ چونکہ یہ لوگ عبرانی کہلاتے تھے اس لیے ان کے مذہب کو بھی "قدیم عبرانیوں کا مذہب" کہہ دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہودیت، عبرانیوں کے اسی مذہب کی ارتقائی شکل ہے جو ہیکل سلیمانی کے دوسری دفعہ بننے کے بعد رواج پائی۔ اس سے پہلے تک اس مذہب کو یہودی مذہب یا یہودیت کا نام نہیں دیا گیا تھا۔[23] قدیم عبرانی مذہب کے متعلق تاریخی معلومات کا ایک بڑا ذریعہ عبرانی بائیبل ہے لیکن اسے بہت سے یہودی مؤرخین ایک مستند تاریخی کتاب نہیں سمجھتے۔ اس کے تاریخی حوالوں کی توثیق کے لیے ہمارے پاس فی الحال کوئی دوسرا ذریعہ بھی موجود نہیں ہے۔ اسی وجہ سے درج ذیل تفصیلات کو "یہودیوں کی تاریخ" کی بجائے "عبرانی بائیبل میں مذکور عبرانیوں کی تاریخ" کہنا زیادہ درست ہو گا۔

ابراہیمؑ

ابراہیمؑ تقریباً 2200 سال قبل مسیح عراق کے ایک قصبے اُر /اور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ سفر میں گزارا۔ اُر سے وہ شام اور پھر کنعان گئے۔ کنعان سے مصر اور پھر دوبارہ کنعان واپس آئے۔ ان کے والد جنہیں توریت نے تارح کے نام سے یاد کیا ہے، سام بن نوح کی اولاد میں سے تھے۔ تارح ایک ماہر بت تراش تھے۔ چونکہ ان کی قوم بت پرست تھی اس لیے اپنی بت تراشی کی وجہ سے تارح کو ان میں خصوصی مرتبہ حاصل تھا۔ اپنے والد کے برعکس ابراہیمؑ ایک خدا پر یقین رکھتے تھے اور انہیں اپنی قوم کا مشرکانہ رویہ پسند نہ تھا۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ عقلی طور پر یہ ممکن نہیں کہ خدا ایک سے زائد ہوں۔ عبرانی بائیبل سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ایک خدا پر اس قوی اعتقاد کی وجہ سے خدا بھی ان پر مہربان ہوا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا:

تو اپنے ملک اور اپنے لوگوں کو چھو ڑ کر چلا جا۔ تو اپنے باپ کے خاندان کو چھو ڑ کر اس ملک کو چلا جا جسے میں دکھاؤں گا۔ میں تجھے خیر و برکت عطا کروں گا اور تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا۔ پھر تیرے نام کو خوب شہرت دوں گا۔ لوگ تیرے نام کا استعمال دوسرے لوگوں کو دُعا دینے کے لئے کریں گے اور کہا کہ تیرے ساتھ بھلا ئی کرنے وا لوں کو میں برکت دوں گا۔ وہ جو تیری بُرائی چاہنے وا لے ہیں میں اُن کو سزا دوں گا۔ تیری معرفت سے اہل دُنیا برکت پائیں گے۔[24]

"کتاب پیدائش" توریت کی پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب کا بارہواں باب اس ضمن میں تفصیلاً ابراہیمؑ کا قصہ بیان کرتا ہے کہ انہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر خدا کے حکم پر کنعان ہجرت کی۔ وہ اپنی بیوی سارہؒ اور بھتیجے لوطؑ کو ساتھ لے گئے۔ خدا نے ان سے کہا کہ یہ ملک ان کی نسل کو واپس دے دیا جائے گا۔ کنعان سے وہ مصر چلے گئے۔ سارہؒ حسین و جمیل تھیں تو ابراہیمؑ نے ان سے کہا کہ وہ کسی سے اس بات کا تذکرہ نہ کریں کہ وہ ان کی بیوی ہیں۔ اگر کوئی پوچھے تو خود کو ان کی بہن کہیں تاکہ مصری لوگ انہیں چھیننے کے لیے ابراہیمؑ کو نقصان نہ پہنچائیں۔ فرعونِ مصر نے جب یہ دیکھا کہ آپؑ ان کے بھائی ہیں تو اس نے آپؑ کو بہت سا مال و زر دیا لیکن سارہؑ کو اپنی بیوی بنانے کے لیے قبضہ میں لیا۔ خدا کا عذاب اس پر اترا جس پر وہ بہت پریشان ہوا اور سارہؒ، ابراہیمؑ اور ان کے اہل و اعیال کو مصر سے باہر نکال دیا۔ اس وقت تک آپؑ بے اولاد تھے۔ سارہؒ کو اس بات کا ادراک تھا کہ ان سے آپؑ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ اولاد کے حصول کے لیے انہوں نے اپنی لونڈی ہاجرہؒ کو آپؑ کی زوجیت میں دیا جن سے اسماعیلؑ پیدا ہوئے۔  اسماعیلؑ کی پیدائش  آپؑ کی  خوشیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

خدا نے آپؑ کو اپنا عہد دیا جسے عہد ابراہیمی کہا جاتا ہے۔ یہ عہد عبرانیوں کی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اور "ارض موعود"، "منتخب قوم"، "ختنہ" اور "عبرانیوں اور دیگر قوموں میں فرق" سمیت بہت سے مذہبی نظریات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ عہد نہ صرف آپ کی نسل بلکہ ہر اس شخص کے لیے تھا جس کو آپؑ نے اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا۔ یہی عہد برِیت میلا یعنی ختنہ کی بھی بنیاد ہے۔ خدا نے ان سے وعدہ کیا کہ ان کی اولاد اس کثرت سے ہو گی کہ آسمان کے ستاروں اور ریت کے ذروں کی طرح گنی نہ جا سکے گی۔ ان کی نسل کے لیے ایک خاص سرزمین مختص کی جائے گی۔ اس حوالے سے توریت میں مذکور ہے:

تو بہت ساری قوموں کا باپ ہو گا۔ تیرا نام اَبرام کے بجائے ابراہیم رکھتا ہوں۔ اب اِس کے بعد تجھے ابراہیم ہی پُکاریں گے۔ اس لیے کہ اِس کے بعد کئی نسلوں کے لئے تیری حیثیت جدِّ اعلیٰ کی ہو گی۔ ۔۔ یہ معاہدہ ہمیشہ رہے گا۔ میں تیرا اور تیری نسلوں کا خدا ہوں گا۔ تُو جس کنعان کی طرف سفر کر رہا ہے وہ تجھے تیری ساری نسلوں کو ہمیشہ کے لئے دُوں گا۔ ۔۔ تو اور تیری نسل اس معاہدے کا ضرور پالن کرے کہ ہر ایک مَرد کا ختنہ ضرور کیا جانا چاہیے۔[25]

کتابِ پیدائش میں یہ بھی مذکور ہے کہ خدا نے سارہؒ کو بھی ایک بیٹے سے نوازا جن کا نام اسحاقؑ رکھا گیا۔ خدا نے ابراہیمؑ کو بتایا کہ اگرچہ وہ اسماعیلؑ کو بھی برکت سے نوازے گا اور ان کی اولاد سے بارہ بڑے قبیلے وجود میں آئیں گے تاہم ان سے کیا ہوا عہد اسحاقؑ ہی کے ذریعے آگے بڑھے گا۔ یہودی روایات کے مطابق خدا نے انہیں اسحاقؑ کی قربانی کا حکم دے کر آزمایا۔ وہ اس آزمائش میں بھی پورے اترے۔ انہوں نے خود کو اور اپنے اہل و اعیال میں موجود تمام مردوں کو مختون کیا۔ اس طرح ان میں اور خدا کے درمیان ایک روحانی ہی نہیں بلکہ جسمانی عہد بھی تشکیل پا گیا۔

          ابراہیمؑ وہ پہلے شخص نہیں تھے جن کے ساتھ خدا نے عہد کیا۔ عبرانی بائیبل کے مطابق اس سے پہلے نوحؑ اور ان کے بعد میں آنے والوں اور یہاں تک کہ ان کی کشتی سے نکلنے والے ہر جاندار کے ساتھ خدا نے ایک معاہدہ کیا تھا کہ وہ دوبارہ انہیں پانی کے طوفان کے ذریعے تباہ و برباد نہیں کرے گا۔ جس طرح ابراہیمؑ کو کثرت اولاد کی خبر دی گئی تھی جو اس زمانہ کے لوگوں کے لیے باعثِ برکت و رحمت تھی، اسی طرح نوحؑ کو کہا گیا تھا کہ "اے نوح تیری اور تیری اولا د کی نسل کا سلسلہ کثرت سے بڑھے اور پو ری زمین میں پھیل جا ئے۔"[26] اس معاہدے میں خدا نے آسمان پر چھانے والی قوس و قزح نشانی کے طور پر منتخب کی تھی تاکہ اس کو دیکھ کر وہ اپنا معاہدہ یاد کر سکیں۔ اس لحاظ سے ابراہیمؑ کے ساتھ کیا گیا یہ عہد، نوحؑ کے ساتھ کیے گئے عہد کا تسلسل بھی سمجھا جا سکتا ہے اور شاید یہی بڑی وجہ ہے کہ ربی یہ سمجھتے ہیں جو شخص نوحؑ کو دیے گئے عہد کی پاسداری کر رہا ہو وہ بھی یہودی ہی کہلائے گا۔

اسحاقؑ

ابراہیم ؑ بت پرستوں کے درمیان اسحاقؑ کی شادی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک ملازم کو میسوپوٹیمیا بھیجا تاکہ ان کے بیٹے کے لیے کوئی لڑکی ڈھونڈ کر لائے۔ اس نوکر نے خدا سے دعا کی اور بیتو ایل کی بیٹی ربقہ کو اسحاقؑ کے لیے پسند کیا۔ ابراہیمؑ 175 برس زندہ رہ کر فوت ہو گئے۔ اسحاقؑ کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے جن میں سے ایک کا نام عیساؤ اور دوسرے کا نام یعقوبؑ تھا۔ اسحاقؑ بھی اپنے والد کی طرح ایک جگہ قیام نہ کر پائے۔ اپنے والد کی طرح وہ بھی خانہ بدوش تھے اور مویشیوں کی تجارت سے منسلک رہے۔ جس جگہ وہ پڑاؤ ڈالتے وہاں کے لوگ ان کی افرادی قوت اور مال و زر دیکھ کر انہیں وہاں سے نکل جانے کو کہہ دیتے کیونکہ وہ ایک امیر آدمی تھے جن کے لیے خدا نے مٹی کو سونا بنا دیا تھا۔

یعقوبؑ

 جب اسحاقؑ بوڑھے ہو گئے اور انہوں نے عیساؤ کے ذریعے عہد خداوندی کو آگے بڑھانے کا سوچا تو ربقہ نے یعقوبؑ کے حق میں اسحاقؑ سے دعا کروانے کے اسباب کر دیے۔ ایسا کرنے سے اگرچہ اسحاقؑ نے یعقوبؑ کے حق میں برکت کی دعا کر دی لیکن اس سے دونوں بھائیوں میں ناراضگی پیدا ہو گئی اور یعقوبؑ کو بھی اپنے دادا اور والد کی طرح اپنے گھر کو خیر آباد کہنا پڑا۔ وہ حاران اپنے ایک چچا کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے دو شادیاں کیں اور ان کے بارہ بیٹے پیدا ہوئے۔ جب ان کے بھائی عیساؤ کی ناراضگی دور ہو گئی تو وہ کنعان واپس آئے۔ واپسی ہی کے سفر میں ان کو "اسرائیل" کا لقب ملا۔ ان کے بارہ بیٹوں میں سے ایک کا نام یوسفؑ تھا جن سے انہیں بہت پیار تھا۔ آپؑ کے دیگر بھائی اسے یک طرف رویہ سمجھتے ہوئے ان سے حسد کرنے لگے اور اس تدبیر میں لگے رہے کہ کسی طرح یعقوبؑ اور یوسفؑ میں علیحدگی ہو جائے۔ یہ حسد اور بھی بڑھ گیا جب یوسفؑ نے ایک خواب کے متعلق ان کو آگاہ کیا کہ "ایک سورج، چاند اور گیارہ ستارے میرے سامنے جھک کر مجھے سجدہ کر تے ہیں۔" [27] بھائیوں کو لگا کہ یوسفؑ ان پر حکومت کرنا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے دھوکے سے ان کو ایک کنویں میں قید کر دیا اور پھر مصر کے اسماعیلی تاجروں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اپنے والد کو انہوں نے بتایا کہ یوسف ؑ کو کسی درندے نے چیر پھاڑ کر کھا لیا ہے۔ دوسری طرف مصر میں یوسفؑ کی قسمت نے یاوری کی اور وہ ترقی کرتے کرتے عزیز مصر بن گئے۔ عبرانی بائیبل سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اس ترقی کی راہ میں بہت سی مشکلات بھی آئیں لیکن خدا ان کا مددگار بنا۔ بعد میں انہوں نے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا اور اپنے والد سمیت انہیں بھی مصر بلا لیا۔ یوسفؑ کی وفات بھی مصر ہی میں ہوئی۔ آپ کی وفات کے بعد عبرانی مصر ہی میں قیام پذیر رہے۔ یہی وہ دور تھا جب خانہ بدوش عبرانی ترقی کرتے کرتے ایک قوم کی حیثیت سے ابھر رہے تھے۔ ان اولین عبرانیوں کو یہودی قوم کی ابتدا مانا جاتا ہے۔  

مشقی سوالات

مختصر سوالات

  1. لفظ یہودی  کے معنی کیا ہیں؟
  1. یہودیوں کو پہلے کس نام سے پکارا گیا تھا؟
  1. ابراہیمؑ کو عبرانی کیوں کہا جاتا تھا؟
  1. اسرائیلی کسے کہتے ہیں؟
  1. دو یہودی ریاستیں کون سی تھیں؟
  1. پیدائشی یہودی کون ہوتا ہے؟
  1. نسلی امتیاز یہودیوں کے لیے باعث اطمینان کیسے ہے؟
  1. ربیائی یہودیت میں زیادہ توجہ کس طرف رہی ہے؟
  1. ملحد یہودی کون ہے؟
  1. ممزیر کسے کہتے ہے؟
  1. موسی ابن میمون کون تھے؟
  1. یہودیت میں مینیم کسے کہتے ہیں؟
  1. قانونِ واپسی کیا ہے؟
  1. یہودیوں کا جدِامجد کون ہے؟
  1. ابراہیمؑ نے کن علاقوں کے سفر کیے؟
  1. قانونِ واپسی  یہودی کسے کہتا ہے؟
  1. ابراہیمؑ کے والد کون تھے؟
  1. سارہؒ اور ہاجرہؒ کون تھیں؟
  1. عبرانی بائیبل کے مطابق اسماعیلؑ کو خدا نے کن برکات سے نوازا؟
  1. عبرانی بائیبل کے مطابق اسحاقؑ کو خدا نے کن برکات سے نواز؟
  1. یہودیوں کے مطابق خدا نے اپنا عہد کس کے ذریعے جاری رکھا؟
  1. کوہ سینا پر خدا نے یہودیوں سے کیا عہد لیا؟
  1. بزرگوں کے دور سے کیا مراد ہے؟
  1. اسحاقؑ کون تھے؟
  1. یعقوبؑ کون تھے؟
  1. عہد نوحؑ کیا ہے؟

یوسفؑ کے بھائی ان سے کیوں حسد کرنے لگے؟

تفصیلی سوالات

  1. یہودی کون ہے، تفصیلی بحث کریں۔
  1. یہودیت کی ابتدا پر نوٹ لکھیں۔
  1. ملحد یہودی کون ہے اور مختلف یہودی فرقے اسے کیا مقام دیتے ہیں۔
  1. کیا یہودیت بطور مذہب قبول کی جا سکتی ہے ؟تفصیلی بحث کریں۔
  1. یہودیوں کے ہاں عہد خداوندی کی اہمیت پر نوٹ لکھیں۔
  1. یہودیت میں بزرگوں کا دور تفصیلاً بیان کریں۔

حوالہ جات

[1] پیدائش 1: 13

[2] پیدائش 32: 28

[3] B. Yebamoth 17a

[4] یرمیاہ 16: 11

[5] Pesikta D'Rav Kahanna 15 .5

[6] Moshe Halbertal, Maimonides: Life and Thought (New Jersey: Princeton University Press, 2015), 135.

[7] B. Sanhedrin 38b

[8] Dan Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice (London: Routledge, 2003), 572.

[9] احبار 19: 34

[10] استثناء 21: 11-13

[11] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 573.

[12] Yebamot XLVII

[13] متی 23: 15

[14] Lavinia Cohn-Sherbok and Dan Cohn-Sherbok, A Short History of Judaism (Oxford: Oneworld, 1994), 51.

[15] Solomon Grayzel, A History of the Jews: From the Destruction of Judah in 586 BC to the Present Arab Israeli Conflict (New York: The Jewish Publication Society of America, 1968), 225.

[16] Dan Cohn-Sherbok, Judaism (London: Routledge, 1999), 28.

[17] B. Keritot 8b

[18] Nicholas de Lange, An Introduction to Judaism (Cambridge: Cambridge University Press, 2004), 3.

[22] استثناء 26: 5

[23] Charles L. Cohen, The Abrahamic Religions: A Very Short Introduction (New York: Oxford University Press, 2020), 11.

[24] پیدائش 12: 1-3

[25] پیدائش 17:10-4

[26] پیدائش 9: 7

[27] پیدائش 37: 9

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...