1676046516391_54335444
Open/Free Access
22
دورِ خروج
باب دوم کے اہم نکات
|
موسیؑ اور بنی اسرائیل کی تشکیل نو
رمسیس/رعمسیس/رامسیس/رمیسس دوم (1290–1224 ق۔ م) کے دور تک یہی روایت چلی آتی رہی کہ اسرائیلیوں کے بیٹوں کو قتل کر دیا جاتا اور ان کی بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیا جاتا تاکہ وہ مصریوں کی باندیاں بنیں۔ بنی اسرائیل میں عمرام/عمران اور یوکابد نامی میاں بیوی رہا کرتے تھے جن کے ہاں موسیؑ (1300-1271 ق۔ م) کی پیدائش ہوئی جو بعد میں اپنی قوم کے نجات دہندہ بنے۔ توریت کے بیان کے مطابق تین ماہ تک ان کی والدہ یوکابد نے ان کو چھپا کر رکھا تاکہ فرعون کے سپاہی ان کے بچے کو قتل نہ کر دیں۔ وہ خوف میں مبتلا رہنے لگیں اور پھر ایک دن دل پر پتھر رکھ کر انہوں نے ایک ٹوکری میں اپنے لخت جگر کو ڈالا اور دریائے نیل کے حوالے کر دیا۔ اس ٹوکری کو فرعون کی بیٹی نے اٹھا لیا۔ موسیؑ کی پرورش فرعون کے محل ہی میں ہوئی۔ عبرانیوں پر فرعون کے مظالم دیکھ کر موسیؑ نے اس کو روکنے کی کوششیں کیں جو رنگ نہ لا سکیں۔
بنی اسرائیل سے خدا کے عہد
|
ارضِ موعود
ارضِ موعود سے مراد وہ سرزمین ہے جس کو دینے کا خدا نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا تھا۔ بنی اسرائیلی اسی سرزمین کے حصول کے لیے موسیؑ کے ساتھ مصر سے نکلے تھے۔ کوہ سینا پر خدا اور ان کے درمیان ابراہیمؑ سے کیے گئے عہد کی تجدید ہوئی جس کے مطابق انہیں خدا پر ایمان لانا تھا اور اس کے احکامات کی پیروی کرنی تھی۔ یہ عہد جو نہ صرف مذہبی بلکہ سیاسی بھی تھا تمام بنی اسرائیل سے باندھا گیا۔ توریت میں مذکور ہے کہ " خداوند اپنا وعدہ کر کے صرف تم لوگوں کے ساتھ ہی معاہدہ نہیں کر رہا ہے۔ بلکہ وہ معاہدہ ہم سبھی کے ساتھ کر رہا ہے جو یہاں آج خداوند اپنے خدا کے سامنے کھڑے ہیں لیکن یہ معاہدہ ہماری اُن نسلوں کے لئے بھی ہے جو آج یہاں ہم لوگوں کے ساتھ نہیں ہیں۔"[2] روایات کے مطابق اس وقت ان تمام بنی اسرائیلیوں کی روحیں موجود تھیں جنہوں نے دنیا پر وقت گزارا یا گزاریں گے۔ اس نئے عہد کے مطابق بھی خدا نے انہیں رہنے کے لیے زمین دینے کا وعدہ کیا اور زندگی گزارنے کے لیے توریت یعنی "قانون" دیا۔ اسی عہد کی رو سے بنی اسرائیل کنعان کی سرزمین کو ارضِ موعود کہتے ہیں۔ یہ نیا عہد انہوں نے قبول کر لیا اور خوش ہوئے کہ خدا نے توریت دے کر ایک طرح سے اپنے عہد کو ایک آئینی حیثیت دے دی تھی۔ انہیں واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ اگر وہ خدا کا حکم مانیں گے تو اس کے مقرب بنیں گے۔ انہیں سبت کی پیروی بھی کرنی ہو گی جو ایک طرح سے ان کے درمیان عہد خداوندی کی نشانی ہو گی۔
اسی طرح کا ایک اور عہد خدا نے ہارونؑ کی نسل سے بھی باندھا۔ موسیؑ کے ساتھ سفر کے دوران بنی اسرائیلیوں سے مختلف گناہ سرزد ہوئے جن میں شرک اور زنا جیسے کبیرہ گناہ بھی شامل تھے۔ ان گناہوں کی پاداش میں خدا نے ان میں ایک بیماری نازل کی جس سے ان کے ہزاروں لوگ مر گئے۔ یہ بیماری اس وقت ختم ہوئی جب ہارونؑ کے پوتے فینحاس نے ایک گناہ گار اسرائیلی کو قتل کر دیا۔ اس پر خوش ہو کر خدا نے ایک معاہدہ کیا اور کہا " وہ اور اس کے بعد کی نسل میرے ساتھ ایک معاہدہ کرے گی۔ اس کے مطابق وہ ہمیشہ کا ہن رہیں گے کیونکہ وہ اپنے خدا کے لئے غیرت مند تھا۔ اس طرح اس نے بنی اسرائیلیوں کے لئے تلا فی کی۔"[3]
اسی سفر کے دوران وہ مشہور واقعہ بھی پیش آیا جس کے مطابق موسیؑ کی غیر موجودگی میں بنی اسرائیل نے خدا کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک بچھڑے کو معبود بنا لیا جس کی وجہ سے انہیں ارضِ موعود کے حصول کے لیے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ایک عرصہ تک صحراؤں میں بھٹکتے رہے۔ بعد ازاں، کنعانیوں کے ساتھ مختلف جنگیں ہوئیں جن میں فتح یاب ہو کر یہ لوگ 1200 یا 1250 قبل مسیح میں شام کے ایک علاقے میں بس گئے۔ یہ جنگیں انہوں نے یشوعؑ/یوشع بن نون کی سربراہی میں لڑیں کیونکہ موسیؑ نے انہیں اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ انہیں کی رہنمائی میں بنی اسرائیل دریائے اُردن پار کر کے کنعان آئے تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کے لیے بارہا جاسوسی بھی کی[4]اور موسیؑ کی زندگی میں ان کے مدد گار بھی بنے۔ ان کے نام سے عبرانی بائیبل میں ایک کتاب "یشوع" بھی ہے۔ یہ ان کی جاندار تقریریں اور قائدانہ صلاحیتیں ہی تھیں جنہوں نے جنگجو کنعانیوں کو بھی بنی اسرائیل کے سامنے سرنگوں کر دیا۔
قاضیوں کا دور
موسیؑ کی وفات کے بعد اسرائیلیوں میں قاضیوں کے دور کی ابتدا ہوتی ہے جو تعداد میں بارہ تھے۔ یہ دور بھی ہنگاموں پر مبنی تھا تاہم مصریوں کی غلامی سے بہت بہتر تھا۔ وہ اپنی مذہبی رسومات آزادانہ جاری رکھ سکتے تھے۔ البتہ ان میں سیاسی اتحاد نہ تھا۔ وہ بکھرے ہوئے تھے جس کی وجہ سے دشمن ان پر بآسانی حملہ آور ہوتے رہتے تھے۔ اس دور کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ در در بھٹکنے والے اسرائیلی اب ایک زرعی قوم بننے لگے تھے۔ قاضیوں نے مختلف وقفوں کے ساتھ تقریباً ایک سو پچاس سال حکومت کی۔ ان میں: غتنی ایل، اہود، شمجر، دبورہ، جدعون، تولع، یائیر، افتاح بن جلعاد، ابصان، ایلون، عبدون اور سمسون شامل ہیں۔ انہیں کی نسبت سے بنی اسرائیل کا یہ دور قاضیوں کا دور کہلایا۔
قاضی کا انتخاب
قاضی کا انتخاب ایسے کیا جاتا تھا کہ ایک ایسے فرد کو چن لیا جاتا جو مذہب سے واقف اور اسرارِ سلطنت سے آگاہ ہوتا۔ عبرانی بائیبل کے مطابق اس چناؤ میں خدا کی مرضی شامل ہوتی تھی۔ جیسا کہ ذکر ہے: " تب خداوند نے قائدین کو چنا جو کہ قاضی کہلائے۔ ان قاضیوں نے بنی اسرا ئیلیوں کو اُن دشمنوں سے بچا یا جنہوں نے ان کی ملکیت کو ہڑپ لیا تھا۔"[5] یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا انتخاب وقتی ضرورت کے تحت اچانک کیا جاتا تھا۔ بنی اسرائیل جب گناہوں کی دلدل میں دھنسے ہوتے اور قرب و جوار کی اقوام کے عتاب کا شکار ہوتے تو وہ خدا کو پکارتے۔ ان کی پکار پر خدا قاضی مقرر کر دیتا جو ان کی حفاظت کرتے اور امن وامان قائم رکھتے۔
قاضیوں کے دور کی تاریخ
یہ دور کتنا عرصہ جاری رہا اس کے متعلق کوئی یقینی بات نہیں کی جا سکتی۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ دور چار سو سال پر محیط تھا۔ کچھ محققین اس دورانیے کو ایک سو ساٹھ سال بھی گردانتے ہیں۔[6] ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ یہ سوا سو سال (تقریباً 1150 –1025 ق۔ م) پر مبنی تھا۔ اس اختلاف کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ زمانہ اسرائیلیوں کے لیے نسبتاً پُر امن ہونے کے باوجود ہنگامہ خیز تھا۔ خاص طور پر کنعانی آئے دن نئی شورش بپا رکھتے جس سے جنگ و جدل کا سامان پیدا ہو جاتا۔ نتیجتاً قاضیوں کے دور میں مختلف وقفے آتے رہے۔ کبھی کوئی اسرائیلی حاکم بن بیٹھتا تو کبھی کوئی بت پرست قابض ہو جاتا۔ چنانچہ زمانے کے دورانیے کا تعین مؤرخین کے نظریات کے ساتھ مشروط ہے۔
یہودیت کے ابتدائی ادوار
|
بادشاہوں کا دور
عبرانی بائیبل میں تسلسل سے ذکر کیا گیا ہے کہ خدا کی نافرمانیوں کی وجہ سے یہ بڑھتی ہوئی طاقت بھی اسرائیلیوں کے کام نہ آ سکی۔ انہیں اطراف سے ایک یونانی النسل قوم جس کا نام فلسطین تھا، اٹھی اور ان کو جنگ و جدل کے ہر میدان میں شکست سے دوچار کرنے لگی۔ یہ قوم پہاڑی سلسلوں اور بحیرہ روم کے ساحلی حصوں میں موجود زرخیز میدانوں پر قابض تھی۔ بنی اسرائیل اس کا مقابلہ نہ کر سکے اور غلام بنے۔ اس کے بعد ان میں بادشاہوں کا دور شروع ہوتا ہے جو تقریباً 1020 سے 586 قبل مسیح تک ہے۔
ساؤل کا دور
بیس سال بنی اسرائیل نے فلسطینیوں کی غلامی میں گزارے۔ بعد میں سموئیؑل /شموئیلؑ (تقریباً 1070-1012 ق۔ م) کی قائدانہ صلاحیت ان کے کام آئی۔ آپؑ ہی کی رہبری میں انہوں نے فلسطین کو شکست دی۔ خدا کی طرف سے آپؑ کو ایک عصا اور ایک کھوکھلا سینگ جس میں تیل بھرا ہوا تھا عطا کیا گیا۔ انہیں یہ بتایا گیا کہ جس شخص کے قریب آنے سے اس سینگ میں موجود تیل ابلنے لگے اور عصا کی لمبائی اس شخص کے قد کے برابر ہو تو وہی شخص بنی اسرائیل کا بادشاہ بنے گا۔ بن یامین قبیلے کا ایک فرد جس کا نام ساؤل / طالوت (وفات 1010 ق۔ م) تھا اپنے گدھے کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کے پاس آنکلا۔ اس کے آتے ہی سینگ میں موجود تیل ابلنے لگا۔ سموئیلؑ نے جب عصا، ساؤل کے جسم کے ساتھ لگایا تو عصا کی لمبائی اور اس کا قد برابر نکلا۔ آپؑ نے سینگ میں موجود تیل اس کے سر پر لگا دیا۔ یہ ایک طرح سے اس کی بادشاہی کا اعلان تھا۔ ساؤل یہودیوں کا پہلا بادشاہ تھا۔ اس کے دور میں اسرائیلی قرب و جوار کی اقوام پر حاکم رہے۔ جب ساؤل نے بھی دیگر اسرائیلیوں کی طرح خدا کی نافرمانی کی تو زوال اس کا مقدر بن گیا۔ سموئیلؑ نے یہ کہتے ہوئے اس کا ساتھ چھوڑ دیا کہ اس کی بادشاہت، خدا نے ختم کر دی ہے۔[9]پس وہ ایک طاقتور سلطنت بنانے سے محروم رہا۔
داؤدؑ کا دور
داؤدؑ(1010–970ق۔ م) ایک ماہر فلاخن باز اور سنگ انداز تھے۔ آپ بیت اللحم کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پلے بڑھے۔ آپ کے والد کا نام یسی تھا۔ یسی کے تین بیٹے ساؤل کے لشکر میں شامل تھے۔ ایک دفعہ داؤدؑ اپنے بھائیوں کا کھانا لے کر میدان جنگ میں گئے جہاں ایک فلسطینی پہلوان اسرائیلیوں کے لیے درد سر بنا ہوا تھا۔ آپؑ اس پہلوان کے مقابلے کے لیے میدان میں اترے اور ایک پتھر تاک کر ایسا مارا کہ وہ پہلوان جان سے گیا۔ آپؑ کے اس معرکہ کو دیکھ کر ساؤل کا بیٹا آپ کا معتقد ہو گیا لیکن ساؤل بذات خود حسد کا شکار ہوا۔ اس نے اعلان کر رکھا تھا کہ جو بھی اس فلسطینی پہلوان کو مارے گا وہ اس کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کرے گا۔ اب حسدِ داؤدی میں وہ ایسا بدگمان ہوا کہ اپنی بات سے پھر گیا۔ اس نے کئی دفعہ آپ کی جان لینے کی کوشش بھی کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ عبرانی بائیبل کے مطابق داؤدؑ، ساؤل کو چھوڑ کر سموئیلؑ کے پاس چلے گئے اور خود کو خدمتِ خدا میں وقف کر دیا۔ ساؤل اگرچہ آپؑ کی جان کے در پے تھا لیکن آپؑ نے اس سے دشمنی مول نہ لی۔[10] رفتہ رفتہ آپ ؑنے اپنا گروہ ترتیب دیا اور ایک ڈاکو کی سی زندگی بسر کرنے لگے۔
بعد ازاں قوم فلسطین کے ساتھ ایک اور جنگ چھڑی جس میں ساؤل کو شکست ہوئی اور اس کے تین بیٹے اسی جنگ میں کام آئے۔ اس کے بعد اسرائیلیوں کو داؤدؑ سے بہتر بادشاہ نہیں مل سکتا تھا کیونکہ ایک تو آپؑ مذہبی رموز سے آشنا تھے اور دوم یہ کہ آپؑ صاحب فراست، بہادر اور بہترین سپہ سالار بھی تھے۔ لوگ بھی آپؑ سے مطمئن تھے اور ساؤل کی زندگی ہی میں آپ کی تعریف گیت گا گا کر کیا کرتے تھے کہ" ساؤل نے ہزار دشمنوں کو مار دیا ہے۔ لیکن داؤد نے دسوں ہزار کو مارا ہے "[11] وہ یہودا قبیلے کے بادشاہ بنے اور جنوبی ریاست پر سات سال چھ ماہ حکومت کی۔ انہوں نے شمالی علاقوں کو بھی رفتہ رفتہ اپنے اندر ضم کر لیا۔ اس میں انہیں تھوڑی بہت مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا جو ساؤل کے خاندان اور ہم نواؤں کی جانب سے کی گئی۔
پوری اسرائیلی قوم کا حاکم بننے کے بعد انہوں نے فلسطینیوں کو شکستِ فاش دی اور سلطنت کو وسیع کیا۔ اس سے پہلے کبھی بھی اتنے بڑے رقبے پر اسرائیلیوں کی حکومت قائم نہ ہوئی تھی۔ بحیرہ روم سے مشرقی صحراؤں اور صحرائے سینا سے شمال میں صور تک اور وہاں سے دریائے فرات تک پھیلی یہ سلطنت اپنی وسعت میں اگرچہ لاجواب تو تھی تاہم اس کو سنبھالے رکھنا بھی ایک مسلسل عمل تھا جس کے لیے انہیں متعدد جنگیں لڑنی پڑیں۔ انہوں نے یروشلم کو دار الخلافہ اور انتظامی مرکز بنا دیا۔ غیر ملکی ماہرین کو بلوا کر ایک محل تعمیر کروایا اور قلعہ بندی کی۔ تابوت سکینہ جس میں موسیؑ کے دور کی مقدس یاد گاریں پڑی تھیں، کو بھی یروشلم ہی منتقل کروا دیا۔ تابوت کچھ عرصہ تک ایک خیمہ میں پڑا رہا۔ بعد میں آپؑ نے سوچا کہ ایک معبد تعمیر کیا جائے جو خدا کا گھر ہو۔ تابوت کو بھی وہیں رکھا جائے۔ آپؑ نے اس سلسلے میں ناتنؑ سے مشورہ کیا۔ انہوں نے پہلے تو آپؑ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا لیکن بعد میں انہیں خدا کی طرف سے پیغام ملا کہ یہ معبد تعمیر تو ضرور کیا جائے گا لیکن اس کی تعمیر داؤدؑ کے ہاتھوں نہیں ہو گی۔ البتہ خدا نے ان سے عہد کیا کہ " تمہارا بادشاہوں کا خاندان ہمیشہ قائم رہے گا تم اس پر بھروسا کر سکتے ہو تمہارے لئے تمہاری بادشاہت ہمیشہ جاری رہے گی۔ تمہارا تخت ہمیشہ قائم رہے گا۔"[12] اسی عہد کی رو سے بنی اسرائیل یہ سمجھتے ہیں کہ مسیح موعود یعنی یہودیوں کے آخری بادشاہ ، داؤدؑ کے خاندان سے ہوں گے۔ عبرانی بائیبل میں خدا کی جانب سے کیے گئے عہدوں میں سے اسے چوتھا مشہور عہد سمجھا جاتا ہے۔
سلیمانؑ کا دور
عبرانی بائیبل کے مطابق داؤدؑ نے اپنے ایک سپاہی کی بیوی بت سبع کے ساتھ زبردستی کی اور اس کے خاوند کے قتل کا سامان کیا۔ بعد میں انہوں نے اسی عورت سے شادی کر لی جس سے سلیمانؑ کی پیدائش ہوئی۔ داؤدؑ نے اپنے دیگر بیٹوں کو چھوڑ کر سلیمانؑ کو بادشاہ نامزد کیا۔ آپؑ بھی ایک قابل حکمران تھے جو نہ صرف اسرار ایزدی سے واقف تھے بلکہ امور سلطنت چلانے میں بھی آپؑ کا ہم پلہ اس دور میں کوئی نہ تھا۔ عبرانی بائیبل میں شامل کتب سلاطین سلیمانؑ کے دور کے واقعات بیان کرتی ہیں۔ ان کے مطابق ایک بار جب خواب میں ان کی ملاقات خدا سے ہوئی تو انہوں نے اپنی لیے نہ تو لمبی عمر مانگی اور نہ ہی دولت بلکہ خدا سے فریاد کی کہ انہیں فہم و فراست سے نوازے۔ خدا نے بھی ان کی دعا کو پسند کیا اور علم و حکمت سے نوازا۔[13]اسرائیلیوں کی تاریخ میں آپؑ سے عقلمند شخص نہیں گزرا۔ بعض مصنفین نے عبرانی بائیبل کی ان روایات کی یہ توجیہ بھی کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپؑ کی حکمت اس دور میں اٹھنے والی فلسفیانہ تحریک جس نے میسوپوٹیمیا اور مصر میں بڑے بڑے بادشاہوں اور فلسفیوں کو جنم دیا، کی مرہون منت تھی۔[14] وجہ جو بھی رہی ہو آپؑ کو ایک کامیاب بادشاہ سمجھا جاتاہے جو انسانوں پرہی نہیں بلکہ حیوانوں پر بھی حاکم تھے۔ اسی وجہ سے انہیں حکیم بھی کہا جاتا تھا۔
آپ ؑنے ہیکل الہی کی تعمیر کی جو اس وقت سے اب تک اسرائیلیوں کی مرکزی عبادت گاہ تصور کی جاتی ہے۔ آپؑ نے تعمیرات میں بنی اسرائیل کی بجائے دیگر کنعانی اقوام، مثلاً حتی، اموری، حوی اور یبوسی لوگوں سے کام لیا۔ جب ہیکل کی تعمیر مکمل ہو گئی تو انہوں نے بنی اسرائیل کے تمام قبائل میں سے بزرگوں اور دانشمندوں کو اس کے افتتاح کے لیے جمع کیا۔ لاوی کا قبیلہ جو موسوی دور سے مذہب کے فرائض سر انجام دینے کے لیے مقرر تھا تقریباً تمام کا تمام جمع ہو گیا۔ ہیکل کے اندر ایک جگہ حرم الحرم تھی۔ یہ ہیکل کی سب سے مقدس جگہ تھی۔ اس کی تعمیر بھی خصوصیت کے ساتھ کی گئی تھی کیونکہ وہاں تابوت سکینہ رکھا جانا تھا۔ یہاں عبرانی بائیبل ایک مذہبی تجربے کے متعلق معلومات دیتی ہے کہ جب بنی لاوی تابوت کو اندر رکھ کر آ رہے تھے تو آسمان سے ایک ابر اترا جس میں سفیدی نمایاں ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ اس سفیدی میں ایسی چمک پیدا ہوئی کہ ساری قوم ہیبت زدہ ہو کر سجدہ ریز ہو گئی۔ اس دن سے اسرائیلیوں کے لیے یہ عمارت دنیا میں مقدس ترین جگہ بن گئی جس کی حفاظت کے لیے لاکھوں انسانوں نے اپنا خون بہایا، جس کی شان بڑھانے کے لیے کروڑوں خرچ کیے گئے اور جس کی تعظیم برقرار رکھنے کے لیے ان گنت جانور ذبح کر دیے گئے۔ آپؑ نے صرف معبدِ الہی کی تعمیر پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یروشلم کے اردگرد چہار دیواری بھی تعمیر کروائی اور اپنے لیے ایک شاندار محل بھی بنوایا۔ اس کے علاوہ کئی شہر بھی آپؑ کے دور میں تعمیر ہوئے۔ اس وجہ سے آپؑ کے دور کو تعمیرات کا دور کہا جا سکتا ہے۔
متحدہ اسرائیل کی تقسیم
آپ ؑکی زندگی میں بنی اسرائیل کے تمام قبائل متحد رہے۔ آپؑ اپنی حکمت سے ان کو قابو میں رکھے ہوئے تھے۔ آپؑ دیگر اقوام سے بھی اپنی مرضی کے کام کرواتے رہے۔ اپنا تسلط جمائے رکھنے کے لیے آپؑ نے غیر اقوام میں شادیاں بھی کیں۔ ان میں مصری، موآبی، عمونی، ادومی، صیدانی اور حتی عورتیں شامل تھیں۔ عبرانی بائیبل کی روایات کے مطابق آپؑ کی 700 بیویاں اور 300 باندیاں تھیں۔ ایک طرف تو آپؑ کی ان شادیوں نے آپؑ کی حکومت کو قائم رکھنے میں مدد کی اور دوسری طرف یہی شادیاں خدا سے ان کی دوری کا سبب بھی بنیں۔ ان بیویوں نے آپؑ کا دل خدا کی طرف سے پھیر کر دیگر دیوتاؤں کی عبادت کی طرف لگا دیا اور آپؑ " صیدانیوں کی دیوی عستارات اور عمونیوں کے دیوتا ملکوم کی عبادت کرنے لگے۔"[15] آپؑ نے دیگر دیوتاؤں کے معبد بھی تعمیر کیے جس پر خدا آپؑ سے ناراض ہوا اور متنبہ کیا کہ اب حکومت ان کی اولاد سے لے لی جائے گی کیونکہ انہوں نے خدا سے کیے ہوئے عہد کو نبھایا نہیں۔ آپؑ چالیس برس حکومت کر کے تقریباً 922 ق۔ م میں دنیا سے رخصت ہوئے اور آپؑ کا بیٹا رحبعام (عہد 922-915 ق۔ م) تخت نشین ہوا۔
شمالی ریاست کی علیحدگی
یہودی روایات کے مطابق آپؑ نے شمالی قبائل پر جنوبی قبائل کی نسبت زیادہ بوجھ ڈالا تھا لہذا آپؑ کی وفات کے بعد انہوں نے بغاوت کرتے ہوئے علیحدہ ریاست قائم کر لی۔ اس طرح متحدہ بنی اسرائیل دو ریاستوں میں بٹ گیا: شمالی اور جنوبی ریاست۔ شمالی ریاست کو اسرائیل، سامریہ اور افرائیم کہا گیا اور جنوبی ریاست یہودا کہلائی۔ شمالی ریاست تعداد اور وسعت کے لحاظ سے جنوبی ریاست سے بڑی تھی۔ اول الذکر کا رقبہ تقریبا 9000 مربع میل تھا اور کل نفوس کی تعداد پچاس لاکھ کے لگ بھگ تھی جبکہ دس لاکھ نفوس پر مبنی ثانی الذکر ریاست کا رقبہ 3400 مربع میل تھا۔[16] تاہم یہ تاریخ کی عجب ستم ظریفی ہے کہ تعداد اور وسعت کے اعتبار سے طاقتور شمالی ریاست کا زوال جنوبی ریاست سے 130 برس پہلے 721 قبل مسیح ہی میں ہو گیا۔ یربعام اول (عہد 930-910 ق۔ م) شمالی ریاست کا حکمران بنا اور سکم کو شمالی ریاست کا دار الخلافہ بنایا۔ اس وقت مصر پر فرعون شیشنق اول (عہد 945-924 ق۔ م) کی حکومت تھی۔ اس نے شمالی ریاست پر حملہ کر کے اس کو اپنا باج گزار بنا لیا۔ سو سالہ اتحاد ریاستوں کے الگ ہونے سے پاش پاش ہو گیا۔ یربعام کے بعد اس کے بیٹے ناداب (عہد 909-910 ق۔ م) کی ایک سالہ حکومت آئی جس کے بعد بعشا (عہد 909-886 ق۔ م) حکمران بنا اور یربعام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بت پرستی کو فروغ دیا۔ یوں شمالی ریاست نے انیس بادشاہوں کا دور دیکھا لیکن کسی کو بھی سلیمانؑ جیسا دوام نہ مل سکا۔ ان بادشاہوں نے بھی اپنے باپ دادا کی غلطیوں کو دوہرایا اور خدا سے کیا ہوا عہد پورا نہ کیا۔
شمالی ریاست کی تباہی
بنی اسرائیل کی شمالی و جنوبی دونوں ریاستیں نینوا اور مصر کے درمیان واقع تھیں۔ آل یعقوبؑ، اشوریوں کو خراج دیا کرتے تھے تاکہ ان کی سلطنت قائم رہ سکے۔ اگرچہ اسرائیلی بادشاہوں نے خود کو فراعنہ مصر کی دامادی میں دے کر ان کی ہم نوائی حاصل کر لی تھی لیکن وہ نینوا میں بڑھتی ہوئی اشوری/آشوری/اسیری طاقت کا صحیح ادراک نہ کر پائے۔ اس سے پہلے اسرائیلی قوم نے کمزور ریاستوں کے خلاف جنگیں لڑی تھیں لیکن اس بار مقابلہ ایک زبردست دشمن سے تھا۔ خراج دے کر اپنی حکومت جاری رکھنے کی بجائے انہوں نے اہلِ دمشق کے ساتھ مل کر اشوریا پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ شمالی ریاست کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ ابتدا میں چند نقصانات اٹھانے کے بعد اشوریوں نے شمالی ریاست پر قبضہ کر لیا۔ یہاں اپنی پسند کا حاکم مقرر کیا اور بہت سے اسرائیلیوں کو قیدی بنا کر ساتھ لے گئے۔ یہودی تاریخ میں اسے "اسرائیلیوں کی پہلی غلامی" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسرائیلیوں نے مصریوں سے گٹھ جوڑ کرنا چاہا تاکہ اشوریوں کی غلامی کا طوق گردن سے اتار پھینکیں۔ اس وقت شالمانیسر پنجم (عہد 727-722 ق۔ م) اشوریوں کا بادشاہ تھا۔ اس نے ایک اور زبردست حملہ کیا اور غصے میں شمالی ریاست کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ اس کے جانشین سارگون/سرگون دوم (عہد 722-705 ق۔ م) کی تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کل 27،290 اسرائیلیوں کو اس وقت اسیر کیا گیا اور دور دراز کے علاقوں میں بسا دیا گیا۔[17] جو بچے وہ جان بچا کر مختلف علاقوں میں بھاگ گئے۔ تاریخ میں یہ "اسرائیلیوں کی دوسری غلامی" کہلاتی ہے۔ عموسؑ نے اسرائیل کی عہد شکنی اور اخلاقی گراوٹ دیکھ کر بہت پہلے ان کو اس انجام کی خبر دے دی تھی۔ اپنے انجام سے بے خبر انہوں نے آپؑ کی باتوں پر کان نہ دھرا اور دردناک انجام سے دوچار ہوئے۔ یہیں سے اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کا تصور پیدا ہوا۔ دس گمشدہ قبائل سے مراد شمالی ریاست کے قبائل ہیں جنہیں اشوریوں نے دور دراز علاقوں میں جا کر بسا دیا تھا۔ روایات کے مطابق ایک وقت ایسا آئے گا جب خدا ان میں ایک نجات دہندہ پیدا کرے گا جو "مسیح موعود" کہلائے گا۔ اسی دور میں گمشدہ قبائل بھی دوبارہ اکٹھے ہوں گے۔
جنوبی ریاست و ہیکل الہی کی تباہی
شمالی ریاست کے برعکس جس کے باسی اسرائیلی کہلاتے تھے جنوبی ریاست کے باسی یہودا قبیلے کی نسبت سے یہودی کہلائے۔ جنوبی ریاست پر حکمرانوں کی بیس نسلوں نے حکومت کی۔ اسی دوران اخلاقی طور پر وہ زوال کا شکار ہوتے رہے اور ایک وقت ایسا آیا کہ باوجود انبیا کی تلقین کے انہوں نے خدا سے کیے ہوئے عہد کی پاسداری چھوڑ دی۔ البتہ قسمت نے یہاں پھر ان سے یاوری کی۔ بادشاہ یوسیاہ /یوشع (عہد 640-609 ق۔ م) کے دور میں توریت کی ایک گمشدہ کتاب جو غالباً کتاب استثنا تھی ہیکل کے امامِ اعظم کو مل جاتی ہے جسے وہ بادشاہ کو بھجوا دیتا ہے۔ اس کتاب کے ملنے سے یروشلم کی قدر و منزلت دوبارہ قائم ہو جاتی ہے اور یہ اعلان کر دیا جاتا ہے کہ ہیکل سلیمانی کے علاوہ کہیں بھی قربانی دینا جائز نہ ہو گی۔ اس نے ریاست میں موجود دیگر معبدوں کو تباہ کروا دیا اور ان کے پجاریوں کو سزائے موت دے دی۔ عبرانی بائیبل کے مطابق " نہ یوسیاہ سے پہلے، نہ اس کے بعد اس جیسا کوئی بادشاہ آیا جس نے اس طرح پورے دل، پوری جان اور پوری طاقت کے ساتھ رب کے پاس واپس آکر موسوی شریعت کے ہر فرمان کے مطابق زندگی گزاری ہو۔"[18] یوسیاہ کے بعد آنے والے بادشاہوں کے ادوار میں خدا کے احکامات سے روگردانی دوبارہ شروع ہو گئی۔ عبرانی بائیبل کے مطابق یہی روگردانی جنوبی ریاست کے تابوت میں لگنے والی آخری کیل ثابت ہوئی اور ان کا زوال شروع ہو گیا۔
اس دور میں بابل میں قائم ہونے والی کلدانیوں کی حکومت اپنی طاقت کا لوہا منوا رہی تھی۔ نبوکدنضر / نبوخذ نصر /بخت نصر (عہد 605-562 ق۔ م) کے دور میں اہل بابل نے اشوریا والوں کو شکست دے کر ایک طاقتور سلطنت قائم کی۔ دیگر چھوٹی ریاستوں کی طرح یہودا کی ریاست بھی ان کے سامنے کوئی وقعت نہ رکھتی تھی لہذا ،انہوں نے بھی خراج دینے کا وعدہ کر کے جان بچائی۔ لیکن یہ زبانی وعدہ ہی رہا کیونکہ اہلِ مصر کے ڈر سے وہ یہ خراج اد ا نہ کر سکے۔ اپنے پہلے حملے میں نبوکدنضر نے صرف لوٹ مار پر ہی اکتفا کیا اور اطاعت کا عہد لے کر واپس چلا گیا۔ چار سال بعد یہودیوں کو ایک دفعہ پھر آزادی کا خیال آیا۔ فرعونِ مصر نے ان کی مدد کا وعدہ کیا تو خوش خیالی اور پختہ ہو گئی اور انہوں نے اعلانیہ بغاوت کی۔ صدقیا (عہد597-586 ق۔ م) جو یہودا کا آخری بادشاہ تھا کو یرمیاہؑ نے پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ اہل یہودا شاہِ بابل کے اسیر ہوں گے۔ ہوا بھی ایسا ہی۔ مصر کی افواج نبوکدنضر کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوئیں اور اس نے یروشلم کے مضبوط قلعے کا محاصرہ کر لیا جو اٹھارہ مہینے جاری رہا۔ اس محاصرے سے ایسا قحط پیدا ہوا کہ جنوبی ریاست کے باسی ایک ایک دانے کو ترس گئے۔ بھوک سے تنگ آئے لوگوں نے بچے بھون بھون کر کھائے۔[19] قلعہ فتح ہوا اور یروشلم کی مقدس سرزمین معصوموں کے خون سے نہا گئی۔ غصے میں بپھرے ہوئے بابلی لشکر نے 586 قبل مسیح میں ہیکل الہی کو تباہ کر کے زمین کے برابر کر دیا۔ تمام مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔ بنی اسرائیل قیدی بنا کر بابل لے جائے گئے۔ صرف چند لوگ پیچھے چھوڑے گئے تاکہ وہ باغات اور اراضی کی دیکھ بھال کر یں ۔ یہودی تاریخ میں اسے "ہیکل کی پہلی تباہی" کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دور کے خاتمے کے ساتھ ہی یہودی تاریخ میں ایک دفعہ بادشاہوں کا دور ختم ہو جاتا ہے۔ یہودی کیلنڈر کے مطابق یہ سال کا پہلا دن "تیشا بآو" تھا۔ یہودی ہر سال اس دن کے سوگ میں روزہ رکھتے ہیں اور خدا سے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔
جلا وطنی کا زمانہ
جب سلطنت ہی نہ رہی تو شمالی اور جنوبی ریاست کی تباہی کے ساتھ ہی اسرائیلی اور یہودی کا فرق ختم ہوتا چلا گیا۔ آلِ یعقوبؑ یا تو دوسروں کی اسیر ہوئی یا جلا وطن ہو کر دنیا کے مختلف گوشوں میں جا بسی۔ پہلے وہ اہلِ بابل کی غلام بنی اور پھر اہلِ فارس کی۔ جلا وطنی کا یہ دور تقریباً 587 سے 516 قبل مسیح تک گردانا جاتا ہے۔
بابلی دور
یہودیوں کی گذشتہ تاریخ اس بات کی عکاس ہے کہ جب بھی وہ غلامی میں تھے انہوں نے اپنے خدا کو یاد رکھا اور جب ان کو دنیا پر کچھ آسانی نصیب ہوئی انہوں نے خدائے واحد کی بجائے دیگر دیوی دیوتاؤں سے ناطہ جوڑ لیا۔ بابلی دور میں بھی انہوں نے مذہب پر خصوصی توجہ دی۔ اگرچہ وہ پابندیوں میں گھرے ہوئے تھے تاہم کچھ ایسی عبادات بھی تھیں جو وہ آسانی سے سر انجام دے سکتے تھے، مثلاً روزہ اور سبت کی پیروی وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کی تاریخ کے اس دور میں روزے اور سبت کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ حزقی ایلؑ / ذو الکفل ؑ (622-570 ق۔ م) وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے سبت پر خصوصی توجہ دی۔ اُس وقت سے احترامِ سبت کی اہمیت یہودیوں کے ہاں بہت زیادہ بڑھ گئی۔[20] شاید اس پر کچھ اثر بابلیوں کا بھی رہا ہو جن کے نزدیک ہفتے کا ساتواں دن روح کے آرام کا دن تھا۔
اس دور میں یرمیاہؑ ان سے دور ہوتے ہوئے بھی انہیں ہدایات دیتے رہے۔ یروشلم سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں انہوں نے یہودیوں کو مشورہ دیا کہ وہ بابل میں مایوسی کی بجائے خوشحالی کی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں، شادیاں کریں، باغات لگائیں اور ان کے پھل کھائیں تاکہ ان کی تعداد گھٹنے کی بجائے بڑھے۔ مزید انہوں نے بنی اسرائیل کو منع کیا کہ بغاوتوں کا خیال دل میں نہ لائیں تاکہ حکمرانوں کے عتاب سے بچے رہیں۔[21]بابل کی جلا وطنی کے شروع ہی میں زیادہ تر یہودیوں نے ان کی اس تجویز کو اپنا لیا۔ اس تجویز کو اپنانے کا فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے بہت جلد اپنی چھوٹی چھوٹی آبادیاں قائم کر لیں، معاشی خوشحالی نے ان کی راہ دیکھ لی اور انہیں سلطنت میں عہدے ملنے لگے۔
دانی ایل /دانیال ؑ کو بھی قیدی بنا کر بابل لے جایا گیا تھا جہاں ان کی حکمت اور دانشمندی سے متاثر ہو کر انہیں بادشاہ کے خادمِ خصوصی ہونے کا درجہ دیا گیا۔ بعد میں انہوں نے بادشاہ کے ایک خواب کی تعبیر بتائی جس کے مطابق جلد ہی اس کی سلطنت کا زوال ہو جانا تھا۔ یہ تعبیر ایسی درست تھی کہ بادشاہ نے انعام کے طور پر انہیں بابل کے ایک صوبے کا حکمران بنا دیا۔[22] خود بادشاہ نے اس تنبیہ سے سبق حاصل کرنے کی بجائے اپنا ایک بت بنوایا اور اسرائیلیوں سمیت سب رعایا کو اس کی عبادت کا حکم دیا۔ بادشاہ ایک اور خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر کے لیے ایک دفعہ پھر دانی ایل ؑ کو بلایا جاتا ہے۔ وہ اسے بتاتے ہیں کہ اس سے بادشاہت چھین لی جائے گی اور وہ جانوروں کی سی زندگی بسر کرے گا۔ اسی طرح جب نبوکدنضر کے بعد بیلشضر(وفات 539 ق۔ م) حکمران ہوتا ہے تو اس کے سامنے غیب سے چند سطریں ایک دیوار پر ابھر آتی ہیں جن کو بابل میں سوائے دانیال ؑ کے اور کوئی نہیں پڑھ پاتا۔ اس نوشتہ دیوار کو پڑھ کر انہوں نے بیلشضرکو خبر دی کہ اس کا زوال قریب ہے اور اس کی سلطنت دو حصوں میں بانٹ دی جائے گی۔اس طرح اپنی اس دانشمندی سے انہوں نے اہلِ بابل کو بہت متاثر کیا جس کے انعام کے طور پر انہیں ریاست کا تیسرا بڑا حکمران بنا دیا گیا۔
فارسی دور
دانی ایل ؑ کی بات بہت جلد پوری ہو گئی اور سلطنتِ بابل کا زوال شروع ہو گیا۔ ہخامنشی سلطنت/سلطنت فارس کے فرمانروا سائرس / کورش /خورس اعظم(عہد559- 530 ق۔ م) نے 539 قبل مسیح میں شاہِ بابل کا تختہ الٹ دیا۔ اس طرح یہودی مال غنیمت کی طرح فارسیوں کے اسیر ہوئے۔ سائرس ایک جری جرنیل اور بلا کا ذہین شخص تھا۔ اس نے سلطنت پر اپنی گرفت بنائے رکھنے کے لیے ایک نئی پالیسی تشکیل دی جس کے تحت مقامی آبادیوں کی تہذیب و ثقافت کی حفاظت پر زور دیا گیا۔ یہ پالیسی یہودیوں کے لیے فائدہ مند تھی۔ بابلی دور میں ملی مراعات اور سائرس کے مخلصانہ رویہ نے ان کا دل اس سرزمین میں لگا دیا۔ عبرانی بائیبل نے جس طرح سائرس کو پیش کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود بھی یہودیوں کے مذہبی رجحانات سے متاثر تھا۔[23]اس کی یہودیوں سے خوش اخلاقی کی وجہ سے عبرانی بائیبل نے اسے بہت توقیر سے نوازا ہے۔ بار بار اس کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ سائرس وہ واحد غیر یہودی ہے جس کو عبرانی بائیبل مسیحا کا درجہ دیتی ہے۔[24] سائرس نے نہ صرف یہودیوں کو واپسی کی اجازت دی بلکہ یہ حکم نامہ بھی جاری کیا کہ ہیکل سے لوٹی ہوئی تمام دولت یہودیوں کو واپس دے دی جائے۔ سرکاری خزانے سے ہیکل کی تعمیر کے لیے رقم فراہم کی گئی۔ اس نے لوگوں سے یہودیوں کی رضاکارانہ مدد کی بھی اپیل کی جس پر لوگوں نے بھی بھرپور معاونت کی۔ یہ بھی اعلان کروا دیا گیا کہ اس رقم پر کسی قسم کا محصول نہیں لیا جائے گا۔
بابلی اور فارسی دور کے اثرات
اس دور کے یہودیوں پر بابلی مذاہب کے برعکس فارسی مذہب کا اثر زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ دونوں مذاہب کی تعلیمات میں بہت سی چیزیں مشترک تھیں، مثلاً یہودیوں ہی کی طرح فارسی بھی ایک خدا کی عبادت کے قائل تھے۔ دونوں مذاہب میں انبیا کا تصور موجود تھا اور دونوں شرک کے خلاف تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ یہودی فارسیوں کو اچھے لوگ سمجھتے تھے۔ سائرس کے رویے نے ان کے دل نرم کر دیے تھے اور وہ فارسی تہذیب و ثقافت کو اپنانے لگے تھے۔ شاہانِ بابل نے زبردستی اپنا مذہب یہودیوں پر لاگو کرنا چاہا تھا جس میں وہ ناکام ہوئے۔ اہلِ فارس کی نرم دلی یہودیوں کو ان کے قریب لانے کا سبب بنی۔ اس کا اثر اتنا گہرا تھا کہ عبرانی بائیبل نے بھی سائرس کی تعریف کی اور اس کی ایک ایسی شبیہ یہودیوں کے سامنے پیش کی کہ وہ بھی یہوہ کا ماننے والا نظر آتا ہے۔
بعض محققین کے نزدیک یہودیوں میں تصورِ آخرت اور اس سے متعلق مسائل پر زرتشتیوں کا اثر رہا ہے جس کے نتیجے میں یہودیوں کی ایک بڑی جماعت حیات بعد الموت کے عقیدے کی طرف آنے لگی اور ان میں تصورِ آخرت کے متعلق بحثیں ہونے لگیں۔ اسی طرح ان کا شیطان کے متعلق عقیدہ پختہ ہوا اور وہ فرشتوں پر بھی یقین رکھنے لگے۔ خدا اور انسان میں جو براہ راست تعلق تھا وہ اب فرشتوں کے ذریعے بیان کیا جانے لگا۔ اسی دور کی ایک اور یادگار یہودی عبادت گاہیں تھیں جو بابل کے طول و عرض پر بننے لگیں۔ اس وقت تک یہودی مختلف فقہی فرقوں میں بٹ چکے تھے جن میں صدوقیوں اور فریسیوںکو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ فریسی رجعت پسند تھے اور شرعی دلائل کے سوا کسی چیز کو بطور ثبوت تسلیم نہیں کرتے تھے۔ صدوقیوں کے ہاں عقل پسندی نے رواج پایا اور یہ لوگ تاویل کے قائل بن گئے۔ ان میں تصور ِآخرت اور اس سے متعلق بحثوں نے بھی کم رواج پایا اور یہ لوگ حیات بعد الموت کا انکار کرنے لگے۔[25]
جلا وطنی کے بعد کا زمانہ
سائرس کا یہودیوں کو آزادی دینا یرمیاہؑ کی پیشن گوئی کے مطابق تھا۔ یہودیوں کی وہ نسل جو غلام بنا کر لائی گئی تھی وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی۔ مذہبی حالت یہ تھی کہ توریت تک ان لوگوں کے پاس نہ تھی۔ نئی نسل کے سب لوگ فارسی سلطنت کو الوداع کہنے کو تیار نہ تھے۔ ان میں سے بعض کے خاندانی معاملات اور کاروباری تعلقات ایسے تھے جو فورا ختم نہ کیے جا سکتے تھے۔ چنانچہ یہودی مختلف اوقات میں آہستہ آہستہ یروشلم اکٹھے ہونے لگے۔ تاریخ کے اس موڑ سے ان کا جلا وطنی سے بعد کا زمانہ شروع ہوتا ہے جو تقریبا 538 سے 63 قبل مسیح تک پھیلا ہوا ہے۔ سائرس کے بعد آنے والے فارسی حکمرانوں نے بھی بنی اسرائیل کے ساتھ حسن سلوک جاری رکھا اور مال و اسباب سے مدد کرتے رہے۔ نتیجتاً وہ ان کے وفادار بن کر ان سیاسی اصولوں
ہیکل سلیمانی
|
ہیکل کی تعمیر نو
واپس آنے والوں میں عزرا/عزیرؑ اور نحمیاہ بھی شامل تھے۔ عزراؑ کاتبین تورات میں سے تھے اور ایک معلم اور کاہن مانے جاتے تھے۔ انہیں یہودیوں کے مذہبی معاملات کا نگران متعین کیا گیا تھا۔ ان ہی کے ذمہ اپنی قوم کی مذہبی تربیت بھی تھی تاکہ وہ خدا کے گھر کی تعمیر میں شوق سے حصہ ڈالیں۔ اس لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عزرا ؑکو اہل فارس نے اس لیے بھی مقرر کیا کہ وہ ہیکل کے لیے درکار رقم لوگوں سے اکٹھی کر لیں۔[26] ان کی تعیناتی یہودیوں کے لیے مذہبی اعتبار سے مفید ثابت ہوئی۔ انہیں تباہ شدہ ہیکل کے کھنڈرات کے ایک تہہ خانے سے توریت کا ایک نسخہ ملا جس کی چھان پھٹک کر کے انہوں نے اس کی تصدیق کر دی۔ اس طرح یہودیوں کو اس طویل جلا وطنی کے بعد ایک دفعہ پھر نہ صرف توریت مل گئی بلکہ اس کی تعلیم کے لیے عزراؑ جیسا معلم بھی حاصل ہو گیا۔
عزرا ؑکے برعکس نحمیاہ اگرچہ ایک سیاست دان تھے جو سلطنت فارس کے ایک صوبے کے گورنر تھے تاہم جس طرح انہوں نے ہیکل اور یروشلم شہر کی چہار دیواری کی تعمیر کی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ وہ اہلِ فارس کی جانب سے یہودیوں کے سیاسی نگران کے طور پر بھیجے گئے تھے۔ چونکہ وہ خود یہودی تھے اور اس کام کی اہمیت سے واقف تھے لہذا انہوں نے دل و جان سے اس کو مکمل کیا۔ آخر کار 12 سال کی محنت سے معبدِ الہی کی تعمیر مکمل ہوئی۔ نیا بننے والا ہیکل اگرچہ پہلے ہیکل سے بڑا تھا مگر اس میں وہ شان و شوکت اور دولت کی چمک دمک نہ تھی جو عہدِ سلیمانی میں تعمیر ہونے والے معبد میں تھی۔ نحمیاہ نے ہیکل کی تعمیر کے بعد یروشلم کو خیر آباد کہہ دیا اور واپس فارس چلے گئے۔
ہیکل کی تعمیر کے بعد قرب و جوار کی ریاستوں میں بکھرے ہوئے یہودی یروشلم اکٹھے ہونے لگے۔ ان میں سے بہت سوں نے عمونیوں، حتیوں اور دیگر اقوام میں شادیاں کر رکھی تھیں۔ عزراؑ کے مطابق ان لوگوں نے دیگر اقوام میں شادیاں کر کے اپنی نسل کو داغدار کر لیا تھا۔ اس لیے یہ فیصلہ دیا گیا کہ نئے آنے والے لوگ اس وقت تک یروشلم کا حصہ نہیں بن سکتے جب تک وہ اپنے نسلی امتیاز کی قدر نہیں کرتے۔ انہیں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر یروشلم آنا ہو گا۔ عبرانی بائیبل میں ان لوگوں کی فہرستیں ملتی ہیں جنہوں نے غیر اقوام میں شادیاں کیں تھیں۔ بہت سے یہودیوں نے اپنا نسلی امتیاز برقرار رکھا اور عزراؑ کی راہبری میں خدا سے عہد کہا کہ وہ شریعت پر عمل کریں گے۔ اس طرح یروشلم ایک دفعہ پھر آباد ہوتا گیا۔ معبد میں کاہنِ/اسقف/امام اعظم کی تعیناتی کی گئی تاکہ ہر قسم کی عبادات اس کی نگرانی میں کی جائیں۔ اگرچہ یروشلم کے اصل حکمران اہلِ فارس ہی تھے لیکن اب یہودیوں کو مذہبی آزادی تھی اور ان کا حاکم بھی انہیں میں سے مقرر کیا جانے لگا تھا۔ یہاں ایک دفعہ پھر ان میں آپسی عدواتوں نے رواج پایا اور اس حد تک ناچاقی بڑھی کہ حرم الحرم جو کہ ہیکلِ الہی کے اندر ایک مقدس ترین مقام ہے میں اہلِ فارس کے ایک پسندیدہ آدمی کا قتل ہو گیا۔ اس قتل پر برہم فارسی لشکر نے یروشلم پر چڑھائی کی اور یہودیوں سے جرمانے کے نام پر ایک خطیر رقم وصول کی۔
فتوحات سکندر
فارسیوں کے زیر اثر رہنے کے بعد یہودیوں کو ابھی یونانیوں کی غلامی دیکھنا تھی۔ سکندر (356-323 ق۔ م)کے دور عروج نے بہت سی ریاستوں، اقوام اور نسلوں کو اس کا زیر بار کر دیا۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ اتنا لمبا تھا کہ یہودی اس کے لیے بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتے تھے لیکن یروشلم کی جغرافیائی حیثیت چونکہ ایسی تھی کہ کوئی بھی حکمران اس کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتا تھا۔ نتیجتا یہودیوں کو ایک بار پھر طوق غلامی پہننا پڑا۔ اس نے یہودیوں کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچایا۔ سماریہ کو فتح کر کے وہاں اس نے اپنی پسند کا گورنر مقرر کیا جس کے ذمہ خراج جمع کر کے اس کو پہنچانا تھا۔ اس نے جلد ہی مصر بھی فتح کر لیا اور وہاں اسکندریہ نام کا ایک شہر بسایا۔ یروشلم سے تقریباً ایک لاکھ یہودیوں کو لے جا کر اس نے وہاں بسایا۔ یہود کو بھی اس نے اہل مقدونیہ کے برابر کے حقوق دیے۔ اس نے بھی فارسیوں کی طرح یہودیوں کو مذہبی معاملات میں خود مختار بنا دیا۔ اس کی اس پالیسی کی وجہ سے اردگرد سے بھی یہودی آکر اسکندریہ میں بسنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر یہودیوں کا دوسرا بڑا شہر بن گیا۔[27] اسی دوران شومرون والوں نے بغاوت کی تو اس نے وہاں کے تمام لوگوں کو جلا وطن کر کے یونانی کالونیاں قائم کر دیں۔ وہ فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتا ہوا ہندوستان جا پہنچا جہاں زخمی ہوا اور یونان واپس آتے ہوئے 323 قبل مسیح میں اس کی موت واقع ہوئی۔
یونانی جرنیلوں کا دور
سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت اس کے جرنیلوں میں بٹ گئی جن کے درمیان مختلف ریاستوں کے حصول کے لیے لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ اس طوائف الملوکی کے زمانے کو ڈیاڈوچی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سیولوکسی اور بطلیموسی خاندانوں کے حصے میں بالترتیب یروشلم اور مصر کی حکمرانی آئی۔ بعد میں بطلیموس (367-282ق۔ م) نے شام پر حملہ کر کے یروشلم بھی اپنے قبضے میں لے لیا اور بہت سے یہودیوں کو یہاں سے لے جا کر مصر بسا دیا۔ اس نے تقریباً تیس ہزار یہودیوں پر مبنی ایک فوج بھی ترتیب دی جس کے ذمہ یروشلم کی حفاظت تھی۔ بطلیموس اور سیلوکسی حکمران انتی گونوس (382- 301 ق۔ م) کے درمیان یروشلم کے حصول کے لیے لڑائیاں ہوتی رہیں۔ دو دفعہ انتی گونوس نے فتح حاصل کی اور دو ہی دفعہ حکومت بطلیموس کے حصہ آئی۔ یہودی ایک مخصوص رقم اپنے ان حکمرانوں کو خراج میں دیا کرتے تھے تاکہ آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ یہ زمانہ عجب جنگ و جدل، بے اعتمادی اور سنگدلی کا زمانہ تھا۔ نہ صرف یونانی بلکہ یہودی بھی ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کے جال بنتے اور رسوائی کا شکار ہوتے رہے۔ قلوپطرہ (204-176ق۔ م) اور بطلیموس اپی فانس (210-180 ق۔ م) کی شادی سے اس خانہ جنگی میں ایک مختصر وقفہ آیا لیکن بعد میں پھر شام اور مصر کی ریاستیں آپس میں گتھم گتھا ہو گئیں۔
ہیلینیت کا عروج
یہودیوں میں ہیلینیت پروان چڑھنے لگی اور ان کی ادبی تحریروں میں یونانی رنگ واضح نظر آنے لگا۔ یہودی روایات کو مصری اور یونانی دیو مالاؤں کے سہارے بیان کیا جانے لگا۔ یونانی دور میں لکھے جانے والے ادب کے لیے عموماً " غیر ملہم کُتب/اپاکرفا" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کا مطلب ایسی مشکوک تحریریں ہیں جنہیں سند نہ ہونے کی وجہ سے دیگر مستند مقدس کتب میں شامل نہ کیا گیا ہو۔ اس دور میں بڑے بڑے نامور یہودی ادیب اور فلسفی آئے جنہوں نے بنیادی طور پر یونانی فلسفے اور یہودی مذہبی ادب میں ہم آہنگی کے لیے کام کیا تاکہ یونانی دنیا کو یہ لگے کہ عبرانی بائیبل ان کے فلسفے کی پیش روی کرتی ہے۔ اپنی زبان سے یہودی اس قدر دور ہوئے کہ اب عبرانی ان کے لیے ایک مشکل زبان بن گئی۔ یہودی مذہبی کتب کا یونانی ترجمہ ہوا جسے "ہفتادی ترجمہ" کہا جانے لگا۔[28]
بعض مؤرخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ہیلینیت نے یکایک یہودیوں کو متاثر نہیں کیا بلکہ یہ عمل بتدریج ہوا۔ بطلیموسیوں کے بعد جب سیلوکسی حکومت یروشلم پر قائم تھی تو انطیوقس/ انطوکس چہارم (215-164) کے دور میں ہیلینیت کو رواج ملتا نظر آتا ہے۔ اس نے بھی یکایک ہیلینیت کو لاگو کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ ایک تو وہ یونانی تہذیب و ثقافت کا ایسا رسیا نہ تھا جو یہ قدم اٹھاتا اور دوم اس کی اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ رومیوں کے پاس گزرا تھا۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یونانی خود اپنا طرزِ زندگی لوگوں پر لاگو کرنے کے شوقین نہیں تھے بلکہ علاقائی اقوام خود اس طرف راغب ہونا شروع ہوئیں۔[29] اس وقت یونانیت، قومیت سے زیادہ زبان کے ساتھ منسلک تھی جس نے یہودیوں کو بھی دیگر اقوام کی طرح یونانی زبان سیکھنے پر راغب کیا۔ ایسا کرنا ان کے نزدیک فخر کی علامت سمجھا جانے لگا۔ یہ بات قرین قیاس اس لیے بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس شدت سے یہود یونانیت کی طرف مائل ہوئے اس سے علم ہوتا ہے کہ ایسا کرنے میں ان کی اپنی خواہش شامل تھی ورنہ جس طرح بابلی دور ان کو متاثر نہ کر سکا تھا یہاں بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے کو ملتا۔
جب اونیاس سوم کا بھائی یوشع تقریباً 175 قبل مسیح میں امامِ یہود بنا تو یونانیوں کا رنگ یہودیوں پر گہرا ہونے لگا۔ وہ یونانی طرزِ زندگی کا اتنا دلدادہ تھا کہ اس نے اپنا نام بھی بدل کر جاسون رکھ لیا جو کہ ایک یونانی نام ہے۔ اس نے بہت سی یونانی رسموں کی یہودیوں میں بنا ڈالی۔ کھیل تماشوں کے نام پر یہودی، یونانی طرز زندگی اختیار کرتے گئے۔ جاسون نے یونانی طرز کا جمنیزیم یا اکھاڑا بنانے کا سوچا تو یونانی حکومت نے اس کے لیے 150 ٹیلنٹ رقم ادا کرنے کا کہا۔ جاسون نے یہ طریقہ کار اپنایا کہ رقم خود ادا نہیں کی بلکہ وہ یہودی جو شہری حقوق حاصل کرنا چاہتے تھے ان سے طلب کی۔ چنانچہ یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ یہودیوں نے خود یہ نئی شہریت اس لیے حاصل کی تھی کیونکہ وہ خود ہی یونانی طرزِ زندگی کو اپنانا چاہ رہے تھے۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جاسون اس نئے طرزِ زندگی میں اتنا مگن ہو گیا کہ معبد میں کی جانے والی عبادات میں خلل آنے لگا۔ اس کے لیے طاقت کا حصول سب سے بڑھ کر تھا۔ مذہب اس کے ہاں ثانوی درجہ رکھتا تھا۔ اس لحاظ سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب مذہبی تگ و دو نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے سیاسی عناصر کارفرما تھے۔
یونانیوں کا یروشلم پر قبضہ
انطیوقس کی فوجوں نے جب مصر پر قبضہ کیا تو کسی نے یہ افواہ اڑا دی کہ اس کو قتل کر دیا گیا ہے۔ جاسون نے اس موقع کو غنیمت جان کر یروشلم پر خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ انطیوقس نے اسے بغاوت کے معنوں میں لیا اور یروشلم پر چڑھائی کر دی۔ اس کی زبردست فوج کے سامنے مٹھی بھر یہودی معمولی سی مزاحمت ہی کر سکے۔ غصے میں بپھرے لشکر نے تین دن کے اندر اندر ہی 40،000 یہودیوں کو قتل کر ڈالا اور اتنے ہی قیدی بنے۔ ہیکل سلیمانی کا تقدس پامال کیا گیا اور اس کا سازو سامان لوٹ لیا گیا۔ حرم الحرم جہاں یہودی بھی خدا کے تقدس کے ڈر سے سال میں ایک بار جاتے تھے کے اندر ایک سور لا کر ذبح کیا گیا اور اس کا گوشت ابال کر ہیکل میں بکھیر دیا گیا۔[30]جب انطیوقس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو وہ دو یونانی گورنر یہودیوں پر مقرر کر کے واپس چلا گیا۔
اسی زمانے میں سلطنتِ روما کی طاقت کے چرچے پھیل رہے تھے۔ رومی ایسا کرتے تھے کہ جس بڑی سلطنت پر قبضہ کرنا ہوتا اس کی اردگرد کی ریاستوں کو شہہ دیتے۔ اس طرح بڑی سلطنت کو کمزور کرنے کے بعد اس پر حملہ کر دیتے۔ انطیوقس رومیوں کی چالوں سے آگاہ تھا اور اسے اس بات کا خطرہ بھی تھا کہ کہیں یہودی، رومیوں سے ساز باز نہ کر لیں۔ اس وجہ سے دو ہی سال بعد اس نے یروشلم پر چڑھائی کر دی اور حکم دے دیا کہ بنی اسرائیل کا خاتمہ کر دیں۔ سبت کے دن یہودیوں پر حملہ کیا گیا اور جتنے مرد
ہیکل کی تباہی کے بعد کے ادوار
|
یہودی رسم و رواج، عبادات اور تہواروں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اب نہ تو سبت کی تقدیس کی جا سکتی تھی اور نہ ہی عید منائی جا سکتی تھی۔ نہ ہی خدا کے آگے سر جھکایا جا سکتا تھا اور نہ ہی اس کے عہد کو ختنہ کے ذریعے دوہرایا جا سکتا تھا۔ یونانی جہاں بھی یہودیوں کی کوئی مقدس کتاب دیکھ لیتے تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا دیتے۔ بہت سے یہودیوں نے حکومت کے احکامات تسلیم کر لیے اور بت پرستوں کا سا مذہب اختیار کر لیا۔ بہت سے ایسے بھی تھے جنہوں نے شاہ کے احکامات کی حکم عدولی کی۔ نہ ہی انہوں نے اپنے مذہب کو چھوڑا اور نہ ہی اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونا بند کیا۔
مکابی خاندان کی حکومت
پہلے جب یہودی مشکلات میں گھرے ہوتے اور اپنے گناہوں یا غلطیوں سے دوسروں کی غلامی کرنے پر مجبور ہوتے تو ان کی طرف رہنما بھیجے جاتے جو کبھی موسیؑ بن کر آتے کبھی سموئیلؑ نام پاتے؛ کبھی ان کو حزقی ایلؑ کہا جاتا تو کبھی وہ یرمیاہؑ کے نام سے موسوم ہوتے۔ لیکن اب تو جیسے انبیا کا آنا ہی موقوف ہو گیا تھا۔ وہ پریشانیوں میں گھرے ہوئے خدا کی رحمت کے طلب گار تھے۔ قسمت ایک دفعہ پھر ان پر مہربان ہوئی اور اس دفعہ مکابی/اسمونی خاندان(168–37 ق۔ م) کے سر یہ سہرا بندھا کہ اس نے اپنی قوم کا سر ایک طاقتور دشمن کے سامنے بلند کر دیا۔ یہ خاندان اس قدر مشہور تھا کہ اس کی تواریخ لکھی گئیں اور عبرانی بائیبل کی بعض"فہرست مسلمہ" یعنی ایسی فہرست جو کہ مستند مانی جاتی ہیں کا حصہ بھی بنیں۔
متت یاہ / متاتھیاس نامی ایک ضعیف بوڑھا یہودیہ کے ایک گمنام علاقے مودین میں رہا کرتا تھا۔ اس کے پانچ بیٹے تھے جن کے نام یوحانان، شمعون، یہودا مکابی، الیسر اور یوناثان تھے۔ جب یونانیوں نے بت پرستی کو رواج دیا اور یہودیوں کا مذہب جبراً تبدیل کروانے لگے تو باوجود اپنے ضعف کے متاتھیاس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اپنے علاقے میں یہ ضعیف بوڑھا سربراہ اور مذہبی پیشوا سمجھا جاتا تھا۔ حکومت کے نمائندے اس کے گاؤں میں بھی آئے اور دیگر سربراہان علاقہ کے ساتھ اس کو بھی سو طرح کے لالچ دیے تاہم اس نے ان کی بات نہیں مانی۔ اسی اثنا میں ایک اور یہودی سربراہ نے آگے بڑھ کر یونانی مذہب اختیار کر لیا اور قربان گاہ پر سجدہ کیا۔ اس عمل نے متاتھیاس کو غصہ دلایا۔ جھریوں پڑے اس بوڑھے نے غصے میں نہ صرف اس یہودی کو قتل کر دیا بلکہ حکومتی نمائندے بھی اس کے غضب کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترے۔[32] بعد ازاں اس نے اپنا ایک گروہ بنایا اور پہاڑوں میں روپوش ہو گیا۔
سبت کے یونانیوں کی فوج نے اس گروہ کے 1000 آدمیوں کو پہاڑوں میں گھیر لیا۔ اس دن یہودی شرعی طور پر کوئی بھی کام نہیں کر سکتے۔ چنانچہ سبت کے تقدس میں یہودیوں نے ہتھیاروں کو ہاتھ نہیں لگایا اور چپ چاپ یونانیوں کے ہاتھوں مرتے گئے۔ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ دیکھ کر متاتھیاس نے فتوی دیا اور اس وقت سے سبت کے دن بھی دفاع کے لیے یہودیت میں ہتھیاروں کا استعمال کیا جانے لگا۔[33] اسی روپوشی کے زمانے میں یہودیوں نے مختلف مقامات پر عبادت گاہیں بنائیں جنہیں سیناگاگ کہا جانے لگا۔ اس وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سبت کے دن لڑائی اور عبادت کے لیے سیناگاگ کا بننا مکابی دور کے مرہون منت ہے۔
متاتھیاس کے بعد اس کے بیٹے یہودا مکابی نے گروہ کی سربراہی کی اور ایک بڑا لشکر ترتیب دیا۔ یہودا ہتھوڑا/گزر چلانے کا ماہر تھا اور مکابی اس کا لقب تھا جس کا مطلب ہی ہتھوڑا ہوتا ہے۔ اسی کی نسبت سے یہ لوگ مکابیین کہلائے۔ اسی دور میں ایک اور گروہ جو حسیدی کہلایا ان کا طرفدار بنا۔ انہوں نے یونانیوں کے خلاف غیر متوقع فتوحات کیں اور آہستہ آہستہ اپنی ریاست کا دائرہ کار بڑھاتے گئے۔ یہاں تک یروشلم شہر بھی ان لوگوں نے فتح کر لیا اور ہیکل سلیمانی سے بتوں کو ہٹا کر وہاں ایک خدا کی عبادت کو دوبارہ رواج دیا۔ یہودیوں نے اس فتح کی خوشی میں آٹھ روز تک جشن منایا۔ اس موقع کی یہودی تاریخ میں اس قدر اہمیت ہے کہ ابھی تک اس دن کی یاد میں ہنوخا کا تہوار منایا جاتا ہے۔
مکابی خاندان کے جتنے افراد حکومت کرتے رہے وہ ایک طرف تو یونانیوں سے لڑائیوں میں مصروف رہے اور دوسری طرف سلطنت روم سے اپنے تعلقات بڑھاتے رہے۔ مصر، شام اور فارس کی آپسی جنگیں یہودیوں کے لیے خوش قسمتی کا پیام ثابت ہوئیں اور انہیں یروشلم میں قدم جمانے کا موقع ملتا رہا۔ یہود ہرقانوس (عہد 134–104 ق۔ م)کے دور میں یروشلم میں یہودیوں کے لیے امن قائم ہو گیا۔ اپنی سلطنت میں اس نے یہودی مذہب کو اختیار کرنا لازمی قرار دیا اور لوگوں سے شریعتِ موسوی کی جبری پیروی کروانے لگا۔ بہت سے لوگوں کو پکڑ کر ان کا زبردستی ختنہ کیا گیا۔ بعد ازاں جب مکابی خاندان کے ایک اور حکمران ارسطوبولوس اول (عہد 104-103 ق۔ م) کی حکمرانی کا دور تھا تو اس نے بھی یہی روش اختیار کیے رکھی۔ جس علاقے کو فتح کرتا وہاں کے لوگوں کو جبرا یہودی بنا دیتا۔[34] اس کی وفات کے بعد اس کا بھائی سکندر جانوس (عہد 103-76 ق۔ م) حکمران بنا۔ عمر کے آخری حصے میں ہرقانوس کی فریسیوں سے عداوت ہو گئی تھی۔ یہی عداوت جانوس کے حصے میں بھی آئی۔ فریسی یہ چاہتے تھے کہ وہ کاہنِ اعظم کا رتبہ ہارونؑ کی نسل کے لیے چھوڑ دے اور خود کو حکمرانی تک محدود کرے[35] جبکہ وہ نہیں مانا یہاں تک کہ اس کی موت کا وقت آ پہنچا۔ مرتے وقت اس نے اپنی بیوی اسکندریہ (عہد 76-67 ق۔ م) کو تخت کا وارث بنایا اور مشورہ دیا کہ فیریسیوں سے اتحاد قائم کرے۔ چنانچہ مرنے کے بعد اس کی فریسی حلقوں میں قدر و منزلت ہوئی جس سے اسکندریہ کو حکمرانی میں زیادہ مشکلات پیش نہیں آئیں۔ مکابیوں سے پہلے لوگ یا تو یہودی ہوا کرتے تھے یا یونانی لیکن ان کے عروج کے بعد یہودیت اور ہیلینیت آپس میں گڈ مڈ ہو گئے۔ اسمونی حکمران ایک طرف تو یونانی بادشاہوں سے امتیازات اپنائے ہوئے تھے اور دوسری طرف ہیکل ِسلیمانی میں کاہنِ اعظم کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ اس کا اثر یہودی مذہب پر یہ پڑا کہ بعد میں آنے والے دور میں یہودی فرقوں کو یہودیت اور ہیلینیت کی مختلف تشریحات کے ذریعے ان میں مطابقت پیدا کرنی پڑی یا ان کے رد لکھنے پڑے۔[36]
رومیوں کا دور
مکابی دور کے اختتام تک یونانی اثر یہودیوں پر اتنا گہرا تھا کہ ان کے بیشتر حکمرانوں کے نام بھی یونانی طرز پر رکھے جاتے تھے۔ اس دور میں ایک طرف تو فریسی اور صدوقی جھگڑے جاری رہے اور دوسری طرف تخت کے لیے اسمونی حکمرانوں نے ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کا بازار گرم کیے رکھا۔ اسکندریہ نے تقریباً نو سال حکومت کی۔ بعد میں اس کے دو بیٹے ہرقانوس دوم (عہد 67-66 ق۔ م)اور ارسطوبلوس دوم (عہد 66-63 ق۔ م) آپس میں تخت کے لیے جھگڑے اور علیحدہ علیحدہ رومیوں سے رابطہ کیا کہ ان کی مدد کی جائے۔ اس وقت پومپی آئی (106-48 ق۔ م) رومیوں کا جرنیل تھا۔ اس نے یروشلم پر حملہ کیا اور تین ماہ کے محاصرے کے بعد شہر فتح کر لیا۔ وہ ہیکل کے اندر گیا اور گھوم پھر کر اس کا معائنہ کیا۔ حرم الحرم جہاں سوائے امامِ اعظم کے کوئی نہیں جا سکتا تھا وہاں بھی گیا لیکن کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اس نے غالباً یہ محسوس کر لیا تھا کہ یہودی اس کے ہیکل کے دورے کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہے لہذا واپسی پر اس نے ہیکل کو غسل دے کر پاک کر دینے کا حکم دیا۔ ہرقانوس کو امام اعظم مقرر کر کے وہ خود واپس چلا گیا۔[37] یوں مکابی دور کا اختتام ہوا اور یہودی ایک دفعہ پھر غیر اقوام کے تابع ہو گئے۔ رومیوں کا یہ دور تقریباً 63قبل مسیح تا 324 عیسوی تک جاری رہا۔
جولیس سیزر کا عہد
جولیس سیزر /پولیوس قیصر(100-44 ق۔ م) ایک رومی جرنیل تھا جس نے سلطنت روم کو افریقہ سے یورپ تک پھیلا دیا۔ اس کے اور پومپی آئی کے درمیان حکمرانی کے حصول کے لیے جنگ شروع ہو گئی۔ اگرچہ پومپی آئی نے ہیکل میں لوٹ مار نہیں کی تھی لیکن یہودیوں کے نزدیک اس نے اس کا تقدس پامال کیا تھا اور حرم الحرم کے اندر چلا گیا تھا اس لیے وہ اسے ناپسند کرتے تھے۔ جب سیزر اور پومپے کے درمیان جنگ ہوئی تو یہودیوں نے سیزر کا ساتھ دیا جو فاتح رہا۔ اس فتح سے خوش ہو کر اس نے یہودیوں کو بہت سی رعایات دیں۔ وہ موحد تھے اور رومی دور میں یہ ضروری ہوتا تھا کہ بادشاہ کو سجدہ کیا جائے اور معبود مانا جائے لیکن یہ یہودیوں کے لیے ناممکن تھا۔ سیزر کو بھی غالباً یہ ناممکن ہی معلوم ہوا۔ اس نے ان کو ایک بڑی رعایت تو یہ دی کہ بادشاہ کی عبادت سے مستثنی قرار دیا۔ اس کی بجائے یہودی صبح کے وقت بادشاہ کے لیے ایک اضافی عبادت خدا کے حضور کیا کرتے تھے۔[38] بعد میں 44 قبل مسیح میں سیزر کو برسرِ دربار اس لیے قتل کر دیا گیا کیونکہ رومیوں کا خیال تھا کہ وہ ایک جرنیل ہے اور اس کو بادشاہت کا حق نہیں۔ مارک انتھونی (83-30 ق۔ م) جو کہ سیزر کا دوست تھا نے اپنا اتحاد قائم کیا تاکہ قاتلوں سے بدلہ لے سکے۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور سلطنت اس کے ہاتھ آئی لیکن اس کے دور میں حکومت مختلف حکمرانوں میں تقسیم تھی۔ وہ خود صرف مشرقی حصوں کا حاکم تھا۔
ہیروڈ کی حکومت
یہودیوں پر رومی اب کوئی ایسا حاکم مقرر کرنا چاہتے تھے جو برائے نام یہودی ہو۔ ان کی نظرِ انتخاب آخر کار ہیروڈ (عہد 37-4 ق۔ م) پر جا ٹھہری جو اصل میں ایک ادومی تھا۔ اس کے باپ کو یہود ہرقانوس نے زبردستی یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا۔ تقریباً 30 قبل مسیح میں ہیروڈ کو حاکم مقرر کیا گیا۔ جس طرح مؤرخین نے اس کے حالات قلم بند کیے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک سازشی، دھوکے باز اور خطرناک آدمی بھی تھا اور یہودیوں کا ہمدرد اور غمگسار بھی۔ رومی چونکہ ایک طرف تو آپسی خانہ جنگیوں میں مصروف تھے اور دوسری طرف شاہانِ فارس کے ساتھ اتحاد قائم رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چنانچہ یہودیہ پر ان کی خاص توجہ نہ تھی۔ ہیروڈ کی چالوں کا یہ حال تھا کہ اس نے اسمونی خاندان کی آخری شہزادی یعنی ارسطوبلوس کی بہن مریم کو اپنی دلہن بنایا اور اپنے بھائی کو جو کاہنِ اعظم تھا قتل کروا دیا۔
بعد میں جب آگستس/اغسطوس (عہد 27 ق۔ م-14) قیصر روم بنا تو ہیروڈ نے اس سے راہ رسم نکال لی۔ وہ ایسی حکمت عملی اختیار کرتا کہ شاہانِ روم اس سے خوش ہوتے اور یہودی دبے رہتے۔ غالباً اسے اس بات کا ادراک تھا کہ رومیوں کے خلاف بغاوت سے کوئی عملی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ نقصان ہی نقصان کا اندیشہ ہے۔ لہذا وہ انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرتا جس کی وجہ سے اس کی حکومت تقریباً 37 برس تک قائم رہی۔ اس نے خود کو ہیروڈ اعظم کا خطاب دیا جو تاریخ میں اس کے نام کا حصہ بن گیا۔ یہودیوں کو اس دور کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ معاشرتی طور پر آزاد تھے اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار سکتے تھے۔[39]مذہب میں چھیڑ چھاڑ ہیروڈ کا شیوہ نہ تھا۔ البتہ یہ قرین قیاس ہے کہ اپنی حکومت جاری رکھنے کے لیے اسے سخت فیصلے بھی کرنے پڑتے ہوں گے۔ چنانچہ جو بھی اس کے اور حکمرانی کی راہ میں حائل ہوتا ہو گا اسے اس کی زندگی سے کوئی دلچسپی نہ رہتی ہو گی۔ ہیروڈ کے دور کو تعمیرات کا دور کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی حکومت کے شروع میں ایک زلزلہ آیا جس کی نذر بہت سے لوگ ہو گئے اور ایک قحط کا سامان پیدا ہو گیا۔ اس زلزلے نے جہاں جانی نقصان کیا وہیں بہت سی عمارتوں کو بھی زمین بوس کر دیا۔ ہیروڈ نے دونوں موقعوں پر یہودیوں کی مدد کی۔ مصر اور دیگر ریاستوں سے غلہ خرید کر عوام میں تقسیم کیا اور کسانوں کو اگلے برس کی فصل کے لیے بیج بھی مہیا کیا۔ عمدہ عمارات ومحلات بنوائے گئے جن کی عظمت کے چرچے قیصر ِروم تک جا پہنچے۔ ہیکل کی عمارت میں زمانے نے متعدد تغیر پیدا کر دیے تھے۔ اس کی مرمت اس خوبصورتی سے کروائی گئی کہ ایک طرف تو اس کی مضبوطی میں اضافہ ہوا اور دوسری طرف ایسی شان و عظمت پیدا ہوئی کہ عہد سلیمانؑ کی یاد آنے لگی۔
ساڑھے نو سال میں یہ تعمیری کام مکمل ہوا۔ ہیکل کی شکل و صورت تقریباً تبدیل ہو کر رہ گئی۔ اس کے تین حصوں میں سے ایک حصہ عورتوں کے ساتھ منسوب تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کو بھی یہاں آکر عبادت کی اجازت تھی۔[40] تلمود میں اس ہیکل کی تعریف یہاں تک کی گئی ہے کہ ربی یہ کہا کرتے تھے کہ جس نے ہیروڈ کا بنایا ہوا معبد نہیں دیکھا اس نے زندگی میں کوئی خوبصورت عمارت نہیں دیکھی۔[41] تاریخ میں یہ معبد اس قدر مشہور ہوا کہ اس کو ہیکل سلیمانی کی بجائے معبدِ ہیروڈ کہا جانے لگا۔ اس کا ایک اور کارنامہ قیصریہ شہر کی تعمیر تھی۔ اس سے پہلے اس شہر کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اس نے یہ شہر تعمیر کر کے قیصر کے نام پر اس شہر کو قیصریہ کہلوایا جس سے ایک طرف تو قیصر خوش ہوا اور دوسری طرف اس نے اس شہر میں رومیوں کو بسایا جن کی وجہ سے یہودی اس سے دبے رہتے۔ یہ زمانہ یہودیوں کے لیے آدم خیزی کا زمانہ تھا۔ اس دور نے فیلو (20 ق۔ م - 50)جیسے بڑے یہودی فلاسفر کو پیدا کیا جس نے یونانی فلسفے اور توریت کے درمیان مطابقت کی کوششیں کر کے ہفتادی ترجمے کو فروغ دیا۔
ہیروڈ کا اختتام اچھا نہ ہوا کیونکہ اس کی چالوں سے عوام تو ایک طرف اس کے اپنے بچے بھی تنگ آگئے تھے اور بار بار قیصر ِ روم کے دربار میں فریاد لے کر پہنچ جاتے۔ اس نے پہلے تو اپنی بیوی کو اپنے چچا کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھنے پر سزائے موت دی اور پھر اپنی حکومت کے اختتام پر اپنے متعدد بیٹوں کو قتل کروایا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ اسے قتل کرنے کا سوچ رہے تھے۔[42] اس نے رومیوں کو خوش کرنے کے لیے ان کی طرز پر تھیٹر اور ڈراموں کو بھی فروغ دیا تھا لہذا یہودی یہ بھی سمجھنے لگے تھے کہ اس کو مذہب سے نہیں بلکہ حکومت سے دلچسپی ہے۔ اس کے دور میں رومی طرزِ حیات کو اس قدر فروغ ملا کہ ہیکل کے اردگرد بہت سے تھیٹر کھل گئے اور عبادت میں خلل آنے لگا۔ اس کی موت ہی سے چند برس قبل یہودیوں میں یسوعؑ نام کے ایک فرد پیدا ہوئے جن کو مسیحؑ کے لقب سے ان کے پیروکار پکارا کرتے تھے۔ ان ہی کی تعلیمات سے متاثر ہو کر یہودیوں میں مسیحیوں کے ایک فرقے نے جنم لیا اور تدریجاً ایک نئے مذہب کا روپ اختیار کر لیا۔ مسیحؑ کے واقعات کے متعلق یہودی اور مسیحی مؤرخین میں روایات کا خاصا اختلاف ہے۔ زیرِ نظر کتاب کا بنیادی مقصد یہودیت پر لکھنا ہے، لہذا باوجود اس کے مسیحؑ کی شخصیت بہت اہمیت کی حامل ہے ان پر تفصیلی نقطہ نظر بیان نہیں کیا گیا۔
مجلس صنہادرین
ہیروڈ کے دور کی خاص بات یہ تھی کہ رومیوں اور یہودیوں میں امن قائم رہا اور یہودیہ خون آلودہ ہونے سے بچا رہا۔ اس کے بعد یہ صورتحال تیزی سے بدل گئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ یہودیوں کا سیاسی اور مذہبی اقتدار خطرے میں پڑ گیا۔ سب سے زیادہ مشکلات ہیکل اور مجلس صنہادرین کو پیش آئیں۔ یہ مجلس جو نامعلوم وقت سے قائم تھی یہودیوں کی ایک طرح کی مذہبی پنچائیت و عدالت تھی۔ صنہادین ایک یونانی لفظ ہے تو ہو سکتا ہے بطلیموسی یا سلوکسی دور میں یہ مجلس قائم کی گئی ہو۔ یہ مجلس دو طرح کی ہوتی تھی۔ ان میں سے ایک تو چھوٹی مجلس تھی جو 23 اراکین پر مبنی تھی اور اس کا رسوخ ایک شہر تک تھا۔ 71 اراکین پر مبنی دوسری مجلس ہوتی جو فریسیوں اور صدوقیوں سے چنے جاتے۔ مذہبی علوم کے علاوہ ہئیت، ادب، فلسفہ اور جادو و طلسم کی بھی معلومات رکھنے والے یہ اراکین نہ تو بہت بوڑھے ہوتے اور نہ بالکل نوجوان۔ اس مجلس کے دو قائدین ہوتے تھے جن میں سے پہلا درجہ ناسی(شہزادہ) کا ہوتا اور دوسرا ابو الدین کا۔
یہودی بغاوتیں
|
رومیوں کے خلاف بغاوتیں
امن و امان کے حوالے سے یہودیوں اور رومیوں کے لیے یہ کوئی اچھا دور نہیں تھا۔ یہودیوں کے خیال میں رومی ان پر ظلم کر رہے تھے لہذا وہ بار بار رومی حکومت کے خلاف بغاوت کرتے اور مزید مشکلات میں گِھر جاتے۔ مجموعی طور پر رومیوں کے خلاف انہوں نے تین بڑی بغاوتیں کیں۔ چھوٹے چھوٹے دنگے فساد تو شمار ہی میں نہیں۔ گلیل نامی ایک قصبے سے تعلق رکھنے والے یہودا گلیلی کی بغاوت کو اولین بغاوتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان بغاوتوں میں مختصر وقفہ اس وقت آیا جب ہیروڈ کے ایک پوتے اگرپا کو اُس وقت کے رومی بادشاہ قالی غُلا (عہد 37-41)نے ارضِ یہودیہ کا سربراہ مقرر کر دیا۔ اگرپا شاید اپنے والد کی طرح امن و امان قائم رکھنے میں کامیاب ہوتا لیکن رومیوں کے دلوں میں یہودیوں کی نفرت پلنا شروع ہو گئی تھی۔ دوسری طرف قالی غلا یہ چاہتا تھا کہ اس کو دیوتا تسلیم کر کے اس کی عبادت کی جائے جس کے لیے اس نے اپنے سپاہیوں کو مقرر کیا کہ ہر معبد، مندر اور سیناگاگ میں اس کے بت نصب کیے جائیں۔ یہودیوں پر زبردستی کی گئی، ان کے معززین کو کوڑے لگوائے گئے اور ان کی عورتوں کو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا جانے لگا۔[44] جب یہودی وفد اس کے پاس فریاد لے کر گیا تو اس نے ان کی ناکامی کو اپنی خدائی کی نشانی سمجھا اور انہیں مزید مجبور کرنے لگا کہ وہ اس کی عبادت کریں۔ جب کچھ عرصہ بعد اس کا قتل ہو گیا تو یہودیوں کی جان میں جان آئی۔ وہ اس کی موت پر اتنے خوش تھے کہ انہوں نے ایک دعوت کا اہتمامِ خاص کیا۔ اگرپا سات برس حکومت کر کے دنیا سے رخصت ہوا۔ اس کے بعد یہودیوں اور رومیوں میں عداوت مزید بڑھ گئی۔ یہودیوں نے کوئی مناسب حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے رومیوں کے خلاف بار بار عَلم بغاوت بلند کیا جس سے خود ان کا نقصان زیادہ ہوتا رہا۔ اگرپا کے بعد اس کا بیٹا اگرپا دوم بھی مختصر دورانیے کے لیے حاکم بنا تاہم یہودی اس سے بھی کچھ فائدہ نہ اٹھا پائے۔
ہیکل کی دوسری تباہی
66 عیسوی کے قریب رومیوں اور یہودیوں کی عداوت سے ملک کے مختلف حصوں میں لڑائیاں ہونے لگیں۔ اہل گلیل نے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ "خدا کے سوا کوئی مالک نہیں ہے۔"[45] یہ ایک طرح سے رومیوں کے خلاف کھلی بغاوت تھی۔ ایک نئے فرقے زیلوٹ نے جنم لیا۔ یہ فرقہ یہودیوں میں سے تھا اور یہودیوں ہی کا دشمن تھا۔ اس فرقے کے ماننے والے دیگر یہودیوں کو اس لیے قتل کر دیتے کہ وہ رومیوں کے خلاف کیوں نہیں ہیں۔ اوپر تلے بہت سے معرکے ہوئے۔ کچھ لڑائیوں میں یہودیوں کو کامیابی بھی ملی لیکن رومیوں کی فوج بالآخر فتح یاب ہوتی۔ رومیوں نے اب یہ سوچا کہ یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں اور یروشلم پر قبضہ کریں۔ دیگر بھی جتنے یہودی شہر تھے ہر جگہ لوگ چن چن کر مارے گئے۔ رومی سپہ سالار طیوطوس/ ٹیوٹس نے شہر کا محاصرہ کیا اور متعدد بار فتح کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ اس وقت عید کی تقریب کی وجہ سے قرب و جوار کے یہودی بھی یروشلم جمع تھے جس وجہ سے شہر کی آبادی کئی گنا بڑھ گئی۔ طیوطوس نے تنگ آکر محاصرہ طویل کر دیا اور شہر کے اندر ایسا قحط پڑا کہ شاید جس کی مثال تاریخ انسانی نے دیکھی تک نہ تھی۔
یہودیوں میں سے بھی بہت سوں نے شجاعت اور دلیری کا ثبوت دیا لیکن رومیوں کے جم غفیر کے سامنے وہ زیادہ دیر ٹھہر نہ پائے۔ 70 عیسوی میں ہیروڈ کے بنائے ہوئے معبد کو ٹھیک اسی دن(تیشا باؤ) آگ لگا کر زمین بوس کر دیا گیا جس دن نبوکدنضر نے سلیمانؑ کے بنائے ہوئے ہیکل کو تباہ کیا تھا۔ رومی سپاہیوں کی درندگی نے نبوکدنضر کی یاد لوگوں کے ذہنوں سے محو کر دی۔ وہ اس حد تک گئے کہ اگلے پچاس سال تک ہیکل کے کھنڈروں پر گشت کرتے رہے تاکہ کوئی بھولا بھٹکا یہودی بھی ادھر آنے کی جرات نہ کر سکے۔ یہودی تاریخ میں اسے "ہیکل کی دوسری تباہی" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بعد میں متحد ہو کر یہودیوں نے ایک دفعہ پھر کوشش کی کہ یروشلم کا علاقہ ان کے قبضہ میں آ جائے۔ وہ کامیاب تو ہو گئے لیکن رومیوں جیسی جنگی سوچ نہ رکھتے تھے۔ جس علاقے کو انہوں نے فتح کیا تھا وہ تو کھنڈرات پر مبنی تھا۔ نہ شہر کی کوئی فصیل تھی نہ سر چھپانے کے لیے کوئی عمارت۔ ایسی صورت میں وہ زیادہ دیر اسے اپنے قبضے میں نہیں رکھ سکے۔ رومی اب سراپا آتش بنے ہوئے تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق انہوں نے 50 قلعے اور 985 گاؤں و قصبے تباہ کیے۔ 580،000 یہودی لڑائی کے دوران قتل ہوئے اور بے شمار سسکتے بلکتے بھوک کی نذر ہو گئے۔ یہودیہ کا تقریبا تمام کا تمام رقبہ تباہ و برباد ہوا۔[46] بھاگتے ہوئے یہودیوں کا تعاقب کر کے رومی سپاہیوں نے انہیں زندانوں میں دکھیل دیا جہاں بھوک سے بیتاب ہو کر انہوں نے اپنے بھائیوں کی لاشیں تک کھانا شروع کر دیں۔ کہا جاتا ہے اس تباہی اور لوٹ مار کے بعد ارضِ شام میں سونے کی قیمت آدھی رہ گئی اور یہودی اسیروں کی کثرت کی وجہ سے غلام کی قیمت ایک گھوڑے سے بھی کم ہو گئی۔ بہتوں کو مختلف شہروں میں بیچا گیا تاکہ کھیل تماشوں میں درندوں سے لڑیں اور لوگ انسانی چیر پھاڑ کا مزہ لیں۔
یروشلم سے بے دخلی
کوہ صہیون پر جس جگہ ہیروڈ کا ہیکل موجود تھا اس کی جگہ 130 عیسوی میں رومی بادشاہ ہیڈریان (76-138) نے یونانی دیوتا جیوپیٹر کا معبد بنوا دیا۔ بیت ِلحم جو یروشلم کے قریب ہی ایک جگہ تھی اس کے داخلی دروازے پر سور کا ایک بت نصب کیا گیا تاکہ اس کی نفرت یہودیوں کو وہاں داخل ہونے سے روکے۔ شہر کا نام تبدیل کر کے ایلیا رکھ دیا گیا۔ نیا نام اس قدر مشہور ہوا کہ لوگ یروشلم کا اصل نام بھول ہی گئے۔ ہیکل کی تباہی کا اثر نہ صرف یہودیوں پر بلکہ یہودیت پر بھی پڑا۔ 135 عیسوی میں اپنے خلاف ہونے والی آخری بغاوت کو کچلنے کے بعد رومیوں نے یہودیہ کا نام تبدیل کر کے فلسطین رکھ دیا اور یہودیوں کو یروشلم سے بے دخل کر دیا۔ فلسطین کی زمین یا تو رومی فوجیوں میں تقسیم کر دی گئی یا نیلامی کی بھینٹ چڑھی۔ ختنہ اور دیگر یہودی مذہبی امور پر پابندی تھی۔ انہیں سال میں صرف ایک مرتبہ دیوار ِگریہ کے ساتھ لگ کر رونے کی اجازت تھی جو یہودیوں کے مطابق تباہ شدہ ہیکل کی ایک بچ جانے والی دیوار تھی۔ اسی نسبت سے آج تک یہ دیوار یہودیوں میں مقدس مانی جاتی ہے۔
یہودیت کی نئی تشریحات
یہودی بحیثیت قوم رومیوں کے عتاب کا شکار ہوئے۔ یہودی مذہب کی ترویج ناقابل معافی جرم بن گیا اور جو بھی ایسا کرتا قتل کر دیا جاتا ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ یہودیت تاریخ کے اس دور میں مادی و ظاہری اعتبار سے ایک قوم پرستانہ شکل اختیار کر رہی تھی۔ ہیکل کے نہ ہونے سے عبادت میں خلل واقع ہو گیا۔ قربانی کے لیے کوئی جگہ میسر نہ تھی۔ فیصلے کرنے کے لیے کاہنِ اعظم موجود نہیں تھا۔ سیناگاگ اگرچہ ادھر ادھر بن چکی تھیں لیکن جس طرح یہودیت میں ہیکل کی قدر و منزلت اور مذہبی اہمیت تھی اس طرح کا مقام سیناگاگ کو حاصل نہ تھا۔ فریسی اور صدوقی گروہ بکھر گئے اور ان کی جگہ وہ لوگ جو شریعت کا علم رکھتے تھے، مذہب کے پابند تھے اور شوق سے مذہبی تعلیم کو اپنائے ہوئے تھے ربی(عزت و توقیر والا) کا خطاب پانے لگے۔ ربی کا خطاب تب سے اب تک یہودیوں کے درمیان مذہبی پیشواؤں کے لیے مختص ہے۔ اس نئی یہودیت کو بعد میں ربیائی یہودیت کا نام دیا گیا۔ مذہب سمٹ کر توریت کی تلاوت اور پیروی تک محدود ہو گیا۔ اس زمانے میں مسیحا کا بے صبری سے انتظار کیا جانے لگا کیونکہ یہودیوں کا خیال تھا کہ خدا ان کو اکیلا نہیں چھوڑے گا اور ان کی اعانت کے لیے مسیحا ضرور بھیجا جائے گا۔ مسیحا کے تصور میں بھی ارتقا ہو ا اور یہ سمجھا جانے لگا کہ وہ معجزوں کے ذریعے بنی اسرائیل کا مددگار بنے گا۔ اس دوران بہت سے لوگوں نے مسیحائی کا دعوی بھی کیا تاہم یہودیوں کے نزدیک ان کا نجات دہندہ ان کو میسر نہ آسکا۔
رومی فرماروا ٹائٹس/تیتوس (39-81) کے دور میں ہیکل منہدم ہوا تھا لیکن یہودی اسی سے کچھ مراعات لینے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔ اس میں بطور خاص ربی یوحنا/یوحان بن ذکائی کا ذکر کیا جاتا ہے جو ہیکل کی تباہی کے بعد بھی خاصی حیثیت کے حامل تھے۔[47] ٹائٹس کی اجازت سے فلسطین کے ایک ساحلی شہر جامنیا میں انہوں نے یہودیوں کے لیے ایک دینی مدرسہ قائم کیا جو بعد میں "انگوری باغ" کے نام سے مشہور ہوا۔ بعد ازاں اسی مدرسے کی طرز پر مختلف جگہوں پر بہت سے مدارس کھلے۔ یہاں ایسی تشریحات کی گئیں جو یہودیت کو معبد اور اس میں
ربیائی ادوار
|
بن ذکائی نے یہودی علما کا ایک گروہ بھی اکٹھا کیا جنہیں تنائیم کہا جاتا تھا۔ تنائیم کا مطلب "دوہرانے والے" ہے۔ چونکہ یہ لوگ توریت کو زبانی دوہراتے تھے لہذا تنائیم کہلائے۔ تنائیم ہی نے مدراش کو ترتیب دیا جو عبرانی بائیبل اور یہودی شریعت کی تشریحات پر مبنی ایک تصنیف ہے۔ بن ذکائی ہی کی کوششوں سے مجلس صنہادرین بھی دوبارہ مرتب ہو پائی۔ ایک عرصہ تک یہ مدرسہ جامنیا میں کام کرتا رہا جہاں سے بعد میں اسے گلیل منتقل کر دیا گیا۔ اسی دور میں یہودی مقدس ادب کی فہرستِ مسلمہ ترتیب پائی، روزمرہ کی عبادات و دعائیں مرتب کی گئیں، ہیکل کی بہت سی عبادات کو سیناگاگ منتقل کر دیا گیا اور پرانی عبادات کو یاد رکھا اور دہرایا گیا۔[48] تنائیم میں ربی اکیوا/عقیبہ بن یوسف(50-135) کا نام خصوصیت سے لیا جاتا ہے جن کی عمر اس وقت چالیس برس ہو چکی تھی جب انہوں نے پانچ سال کے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر شریعت کا علم حاصل کیا۔ انہوں نے اپنا ایک علیحدہ مدرسہ قائم کیا اور ملاکہ نامی ایک کتاب تصنیف کی جس میں یہودی روحانیت کا بہت دخل ہے۔ بغاوتوں ہی کے سلسلے میں انہیں بعد میں رومیوں نے سزائے موت دے دی۔ ان کا مزار طبریہ میں ہے۔
ربی یہودا ہناسی (تقریباً 135-217) کو رومیوں سے جب کچھ مراعات ملیں تو انہوں نے ایک فقہی مجموعہ مرتب کروایا جسے مشنا کہا جاتا ہے۔ مشنا ہی کے متن کو بنیاد بنا کر بعد میں تلمود مرتب کی گئی۔ چونکہ یہودی بابل میں بھی قیام پذیر تھے اور انہوں نے ساسانیوں کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھے تھے جس وجہ سے وہ فلسطینی یہودیوں کی نسبت زیادہ خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے مسائل رومی حکومت کے زیر اثر رہنے والے یہودیوں سے جدا تھے اس لیے ان کے درمیان تقریباً سو سال بعد جس تلمودی روایت نے رواج پایا وہ فلسطینی روایت سے مختلف تھی۔ روایات اور مسائل کے اسی اختلاف سے تلمود کے دو نسخے یہودیت میں رواج پائے جن میں سے ایک کو فلسطینی اور دوسری کو بابلی تلمود کہا گیا ہے۔
مسیحیت کا عروج
مسیحؑ کو دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً تیس سال گزر چکے تھے جبکہ ان کے پیروکاروں کی تعداد بہت تھوڑی تھی جنہیں یہودیوں کا ہی ایک گروہ تصور کیا جاتا تھا۔ عموماً لوگ انہیں یہودی مسیحی کہا کرتے تھے۔ اس دور کے یہودیوں میں حُب الوطنی کا جذبہ اس قدر عروج پر تھا کہ انہوں نے مذہب کو قومیت سے جوڑ دیا۔ جو یہودی قومی اور نسلی تفاخر کے حق میں نہ تھے وہ غدار اور مرتد کہلائے۔[49] مسیحی بھی ایک حد تک اسی نسلی تعصب کا شکار ہوئے۔ ان سے نفرت نے انہیں زیادہ مسیحی اور کم یہودی بنا دیا۔ وہ اپنوں کے عتاب کا بھی شکار تھے اور رومیوں کے ظلم کا بھی نشانہ بنتے تھے۔
چوتھی صدی عیسوی میں مسیحیت کو اس وقت عروج حاصل ہوا جب قسطنطین (306-337)نے عیسائیت قبول کر کے اسے سرکاری مذہب بنا دیا۔ اس نے ایک نیا شہر تعمیر کیا جسے نیا روم یا بازنطین نام دیا گیا۔ بعد میں لوگوں نے اسے قسطنطنیہ کہنا شروع کر دیا۔ دارالحکومت اسی نئے شہر منتقل کر دیا گیا۔ یہ ایک طرح سے بازنطینی سلطنت کا آغاز بھی تھا۔ مسیحی چونکہ یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے نجات دہندہ کو مصلوب کروانے میں یہودیوں کا ہاتھ تھا لہذا وہ انہیں موردِ الزام ٹھہرانے لگے۔ سرکاری طور پر یہودی بننے اور یہودیوں اور مسیحیوں کے درمیان شادیوں پر پابندی عائد کر دی گئی جس سے دونوں گروہوں میں فاصلہ مزید بڑھتا گیا۔ پانچویں صدی میں یہودیوں کو سرکاری عہدوں سے نکال دیا گیا۔ بعد میں آنے والے رومی شہنشاہوں نے بھی اسی طریقہ کار کو اپنائے رکھا۔[50] مسیحیوں کا خیال تھا کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ یہودی مسیحیت اختیار کر لیں گے تاہم اس قوم کی آنکھوں نے تو صدیاں دیکھ رکھی تھیں۔ فراعنہ کی غلامی، عہد مہاجرت، شہنشاہیت کے عروج و زوال، جلا وطنی اور کشت وخون میں اگر کچھ باقی رہ سکا تھا وہ یہودی قوم تھی۔ چنانچہ یہ دور بھی اس لحاظ سے منفرد نہیں تھا کہ فلسطین میں بھی یہودیوں کا ایک بڑا گرہ اس زمانے میں بھی اپنے آبائی مذہب سے جڑا رہا اور انہوں نے بتیس دانتوں میں ایک زبان کی طرح رہنا سیکھ لیا۔
جب روم کی حکمرانی یولیانوس/ جولین (331-363) کے ہاتھ آئی تو اس نے یہودیوں کو کچھ مراعات دیں اور انہیں یروشلم کی تعمیر کی دوبارہ اجازت دی۔ اس نے خود بھی مسیحیت کو ماننے سے انکار کیا اور اس کوشش میں لگا رہا کہ افلاطون کے فلسفہ میں ضم شدہ ہیلینیت کو دوبارہ رواج دیا جا سکے۔ اس کا دور تھوڑا تھا جس وجہ سے یہودی کوئی قابلِ ذکر کام نہ کر سکے اور مسیحی حکمرانی دوبارہ رائج ہو گئی۔ تھیودوسیوس اول(347-395) کے دور میں تو نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ جبری مذہبی تبدیلیوں میں اضافہ ہونے لگا، مجلس صنہادرین کا خاتمہ کر دیا گیا، یہودیوں کو ملازمتوں سے بے دخل کر دیا گیا، شہری حقوق سلب کر لیے گیے، غیر یہودیوں سے شادی پر پابندی لگا دی گئی اور سرکاری طور پر مسیحیوں کو اس بات کا پابند کر دیا گیا کہ وہ یہودیت اختیار نہیں کر سکیں گے۔ اس طرح بحیثیتِ مجموعی مسیحی عہد یہودیوں کے لیے دردناک ثابت ہوا۔ متعدد یہودی جان بچانے کے لیے دیگر علاقوں میں جا بسے۔ البتہ یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ اگسٹائن(354-430) جیسے مسیحی مفکرین نے اس ظلم و ستم کے دور میں بھی یہودیوں کے قتل سے منع کیا جس وجہ سے وہ یہ مشکل دور بھی گزار گئے۔ نیز یہودیوں کی قومی و نسلی ہم آہنگی کو بھی ا س ضمن میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بابلی یہودیت
نبوکدنضر کے دور سے بہت سے یہودی بابل میں آباد تھے۔ سائرس اور دیگر فارسی حکومت کی عنایات اور ان کی تعلق داریوں نے انہیں یروشلم جانے سے بھی روکے رکھا۔ یہ ایک طرح سے یہودیت کے لیے بہتر ثابت ہوا کیونکہ وہ یہودی جو فلسطین میں آباد تھے رومن دور کے اختتام پر ہمہ قسم کی تنگیوں کا شکار تھے۔ ان کی نسبت بابلی یہودیوں کے ساسانی حکومت سے تعلقات زیادہ خراب نہیں تھے جس کی وجہ سے وہ فلسطینی یہودیوں سے بہتر زندگی گزار رہے تھے۔ بابلی، فارسی، اشکانی اور ساسانی حکومتوں کے زیر سایہ رہنے کی وجہ سے ان قوموں کے مذہبی و ثقافتی اثرات بابلی یہودیوں کی زندگی پر نمایاں تھے۔ انہوں نے زبان، رسم و رواج سمیت ان قوموں میں رائج سحر و طلسم کو بھی اپنانا شروع کر دیا تھا جو یہودی شریعت کے مطابق نا جائز ہے۔ ایک طرح سے انہوں نے اپنی ثقافت خود تخلیق کی جو رفتہ رفتہ پوری یہودی قوم کی ثقافت بن گئی۔[51] ساسانی دورِ حکومت میں جب اردشیر بابکاں (عہد 226-240) شہنشاہ بنا تو اس نے زرتشت مت کو دوبارہ لاگو کرنے کی کوشش کی۔ یہودیوں پر بھی دباؤ ڈالا گیا کہ وہ نیا مذہب قبول کر لیں۔ تاہم بعد میں جب اس کا بیٹا شاہ پور اول(عہد 241-270) تخت نشین ہوا تو اس نے غیر زرتشتیوں کو مذہبی آزادی دے دی۔ البتہ اب بھی وہ ریاستی و فوجداری قوانین کی پیروی کرنے پر مجبور تھے۔[52]البتہ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ کے اس دور میں وہ اپنے اسرائیلی بھائیوں کی نسبت آزاد تھے اور اپنے علمی مشاغل آزادانہ جاری رکھ سکتے تھے۔
بابل کی طرف ہجرت
مسیحیوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر بہت سے یہودیوں نے فلسطین کو خیر آباد کہا اور بابل کی طرف ہجرت کرنا شروع کر دی۔ دونوں علاقوں کے مکینوں کے درمیان پہلے سے تجارتی تعلقات قائم تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے بابلی یہودی اپنی مذہبی تعلیم کے لیے بھی فلسطین کا رخ کرتے رہتے تھے۔ ہیکل جب تک موجود تھا تو مذہبی رسوم کی تکمیل کے لیے بھی بابلی یہودیوں کو فلسطین جانا ہوتا تھا۔ لہذا ان تعلقات کی وجہ سے یہودیوں کی وہ جماعت جس نے بابل کی طرف ہجرت کی، آسانی سے یہاں اپنے ہم قوموں میں گھل مل گئی۔
بابل میں ربیائی یہودیت کا فروغ
اب فلسطین کے برعکس بابل ربیائی یہودیت کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کر رہا تھا۔ ربیائی یہودیت کو بابل میں مضبوط کرنے کا سہرا مشہور ربی ابااریخا (175-247) کے سر باندھا جاتا ہے۔ ان کا شمار آمورائیم میں کیا جاتا ہے جن کا زمانہ تنائیم کے بعد کا ہے۔ آمورائیم سے مراد "بیان کرنے والا" ہوتا ہے۔ ان یہودی عالموں نے تنائیم کی باتوں کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا اس لیے یہ آمورائیم کہلائے۔ ابااریخا کو تلمود میں عموماً "راو" کے نام سے یاد کیا گیا ہے جس کے معنی "استاد " کے ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس زمانے کی روایت کے مطابق بابل سے فلسطین جا کر اپنی تعلیم مکمل کی اور واپس آکر "بیتِ مدراش" قائم کیا جو بابل کا ایک اہم مدرسہ بنا۔ اس مدرسے کا اثر اس قدر زیادہ تھا کہ یہودی علما کہتے تھے کہ جب سے راو فلسطین سے واپس آئے ہیں بابل کے یہودی بھی اسرائیلیوں کے نقشِ قدم پر ہیں۔[53] اس سے مراد یہ تھی کہ وہ مشنا کو فلسطین سے لے آئے تھے جس وجہ سے یہاں بھی تلمودی روایت نے رواج پانا شروع کر دیا تھا۔[54]راو نے ربیائی روایت کا اصولی مطالعہ کیا جس سے بعد میں تلمود ترتیب پائی۔ تلمود نے بعد ازاں یہودیت میں ایک سند کی حیثیت اختیار کر لی۔
بابل میں بہت سے تلمودی مدرسے بھی قائم کیے گئے جو اگلے ایک ہزار برس تک یہودی مذہب کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔ ان تلمودی مکتبوں میں ہلاخا یعنی یہودی قانون کے مختلف حصوں پر کام ہوتا رہا۔ بعد میں یہی مدارس ترقی کرتے کرتے یشیوا کہلانے لگے۔ اُس دور میں مشرق و مغرب میں یشیوا کا ایک جال پھیلنے لگا۔ یہ یشیوا تقریباً وہی کام کیا کرتے تھے جو ایک وقت میں صنہادرین کا تھا۔ یہودیوں کے مذہبی معاملات کے علاوہ سیاسی، سماجی و معاشرتی مسائل بھی یشیوا میں حل ہوتے۔ چنانچہ مفلوک الحال یہودیوں کو بابل نے بڑی حد تک مذہبی آزادی دی لیکن اس کے بدلے انہیں زرِ کثیر صرف کرنا پڑتا رہا۔
مشقی سوالات
مختصر سوالات |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
تفصیلی سوالات |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
[1] خروج 3: 14
[2] استثنا 29: 14-15
[3] گنتی 25: 13
[4] گنتی 13–14
[5] قضاة 2: 16
[6] Francis E. Gigot, Outlines of Jewish History: From Abraham to Our Lord (New York: Benziget Broghers, 1905), 147.
[7] قضاۃ 1: 13، 4: 1، 6: 1
[8]قضاۃ 6: 24
[9] اول سموئیل 15
[10] اوّل سموئیل 26
[11] اوّل سموئیل 29: 4
[12] دوم سموئیل 7: 16
[13] اول سلاطین 3: 11-14
[14] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 45.
[15] اول سلاطین 4: 5
[16] Gigot, Outlines of Jewish History: From Abraham to Our Lord, 238.
[17] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 58.
[18] دوم سلاطین 23: 25
[19] عبد الحلیم شرر، تاریخ یہود (لکھنؤ: دلگداز پریس، 1925)، 56۔
[20] Charles Foster Kent, A History of the Jewish People During the Babylonian, Persian, and Greek Periods (New York: Charles Scribners's Sons, 1899), 43.
[21] Charles Foster Kent, A History of the Jewish People During the Babylonian, Persian, and Greek Periods (New York: Charles Scribners's Sons, 1899), 37.
[22] دانیال 2: 48
[23] عزرا 1: 2-3
[24] یسعیاہ 45: 1
[25] Charles Foster Kent, A History of the Jewish People During the Babylonian, Persian, and Greek Periods (New York: Charles Scribners's Sons, 1899), 256.
[26] Etienne Nodet, A Search for the Origins of Judaism: From Joshua to the Mishnah, trans. Ed Crowley (Sheffield: Sheffield Academic Press, 1997), 30.
[27] Kent, A History of the Jewish People During the Babylonian, Persian, and Greek Periods, 288.
[28] D. Cassel, Manual of Jewish History and Literature, trans. Mrs. Henry Lucas (London: Macmillan, 1913), 44.
[29] Lester L. Grabbe, An Introduction to Second Temple Judaism: History and Religion of the Jews in the Time of Nehemiah, the Maccabees, Hillel and Jesus (London: T&T Clark International, 2010), 11.
[30] شرر،تاریخ یہود، 91۔
[31] اول مکابیین 1: 33
[32] مکابیین1: 25
[33] مکابیین 1: 41
[34] Grabbe, An Introduction to Second Temple Judaism: History and Religion of the Jews in the Time of Nehemiah, the Maccabees, Hillel and Jesus 18.
[35] Kiddushin 66a
[36] Stephen M. Wylen, The Jews in the Time of Jesus: An Introduction (New York: Paulist Press, 1996), 62.
[37] Grabbe, An Introduction to Second Temple Judaism: History and Religion of the Jews in the Time of Nehemiah, the Maccabees, Hillel and Jesus 20.
[38] Wylen, The Jews in the Time of Jesus: An Introduction, 69.
[39] Ibid., 70.
[40] Dan Bahat, "The Herodian Temple," in The Cambridge History of Judaism: The Early Roman Period, ed. William David Davie and Louis Finkelstein (Cambridge: Cambridge University Press, 2008), 52.
[41] B. Sukkah 51b
[42] Grabbe, An Introduction to Second Temple Judaism: History and Religion of the Jews in the Time of Nehemiah, the Maccabees, Hillel and Jesus 24.
[43] Gorge Foot Moore, Judaism In the First Centuries of the Christian Era: The Age of Tannaim (Massachusetts: Hendrickson Publishers, Inc., 1960), 82.
[44] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 103.
[45] E. Mary Smallwood, The Jews under Roman Rule: From Pompey to Diocletian (Lieden: Brill, 1976), 293.
[46] Paul Johnson, A History of the Jews (New York: Harper Peennial 1988), 140.
[47] Sanhedrin.41a
[48] Cohn-Sherbok and Cohn-Sherbok, A Short History of Judaism, 41.
[49] Katie Magnus, Outlines of Jewish History: B.C 586 to C.E 1885 (Londin: Longiaians, Green, and Co., 1886), 76.
[50] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 117.
[51] Hayim Hillel Ben-Sasson, A History of the Jewish People (Cambridge: Harvard University Press, 1976), 277.
[52] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 123.
[53]B. Bava Kama 80a
[54] Leo Duprée Sandgren, Vines Intertwined: A History of Jews and Christians from the Babylonian Exile to the Advent of Islam (Peabody: Hendrickson Publishers, 2010), 378.
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
کتاب کے ابواب | |||
ح | مصنف کی جانب سے مقدمہ | ||
1 | یہودیت اور یہودیوں کا تعارف اور ابتدائی تاریخ | ||
3 | |||
3 | |||
3 | |||
4 | |||
4 | |||
5 | |||
5 | |||
7 | |||
9 | |||
12 | |||
13 | |||
14 | |||
17 | |||
17 | |||
18 | |||
22 | سیدنا موسی علیہ اسلام کے دور سے لے کر ربیائی یہودیت کے فروغ تک کا دور | ||
24 | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |