1676046516391_54335483
Open/Free Access
67
مسلم دور حکومت کے یہودی
باب سوم کے اہم نکات
|
عہد نبویؐ
آپ ﷺ کی پیدائش مکہ میں ہوئی جہاں سے وہ اپنے ہم قوموں کے مظالم کی وجہ سے ہجرت کر کے یثرب آ بسے جو بعد میں مدینۃ النبی کے نام سے مشہور ہوا۔ انہوں نے مسلمانوں کو منظم کیا اور یہاں موجود یہودی قبائل سے راہ و رسم بڑھائی۔ ان قبائل کی مدینہ آمد کے متعلق حتمی معلومات ناپید ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نبوکدنضر کے دور میں ہیکل کی پہلی تباہی کے بعد بہت سے یہودی دنیا کے مختلف گوشوں میں فرار ہو گئے تھے۔ غالباً اسی دور میں یہودی مدینہ میں بھی آ بسے۔ کچھ مصنفین نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہاں یہ غلاموں کی صورت میں آئے تھے اور پھر یہیں بستے چلے گئے۔ رومیوں کے مظالم سے تنگ آکر 70 سے 135 عیسوی کے درمیان بھی یہودیوں کے جزیرہ نما عرب آنے کے متعلق اقوال ملتے ہیں۔ بعض روایتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ موسیؑ نے عمالقہ سے جنگ کے لیے کچھ یہودی سپاہیوں کو یہاں بھیجا تھا جو بعد میں یہیں مقیم ہوئے۔ دیگر عربوں کی طرح انہوں نے بھی عربی زبان اور رسم ورواج کو اپنا لیا۔[1] لیکن ان کے ہاں مستعمل عربی لہجے میں دیگر عرب قبائل سے مختلف تھی۔ اسے عموماً "یہودی عربی" کہا جاتا ہے۔ عرب ماحول میں یہ یہودی اس قدر رچ بس گئے کہ عربوں کی طرح انہوں نے بھی اپنے مختلف قبائل بنا لیے۔ ان قبائل میں بنو قینقاع، بنو قریظہ اور بنو نضیر کو اپنی تعداد کی وجہ سے خاصی اہمیت حاصل تھی۔
یہاں ان کا ایک بیتِ مدارش بھی موجود تھا جس کی موجودگی اس بات کی عکاس ہے کہ عرب میں بسنے والے یہودیوں کے فلسطینی اور بابلی یہودیوں سے بھی تعلقات تھے اور شاید وہ وہاں تعلیم کے لیے بھی جایا کرتے تھے۔ آپؐ کی مدینہ آمد سے پہلے یہودی قبائل دو گروہوں میں بٹ گئے تھے جن میں آپسی خونریزی عام تھی۔[2] اہلِ کتاب ہونے کے ناطے آپؐ نے یہودیوں کو ایک امت کے طور پر مخاطب کیا۔ چنانچہ یہودی قبائل اور مسلمانوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جسے میثاقِ مدینہ کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کی رو سے یہودیوں کو اس شرط پر برابر کے حقوق دیے گئے کہ وہ آپؐ کی حاکمیت تسلیم کر لیں گے اور جنگ کے موقع پر ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ بعد میں جب معاہدے کی مختلف شقوں کا پاس نہ کیا گیا تو مسلم یہودی تعلقات بری طرح متاثر ہوئے۔ یہودی مصنفین کے مطابق بنو قریظہ کے تمام مردوں کو سزا کے طور پر محمد ﷺ نے قتل کروا دیا اور بقیہ قبائل کو ایک ایک کر کے جلا وطن کر دیا۔ یہ جلا وطنی 624 اور 625 عیسوی کے درمیان تدریجاً ہوئی۔ کچھ مصنفین نے ایسے واقعات بھی درج کیے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی آپؐ کے پاس رحم کی درخواست لے کر آتا تو اس کو امان دی جاتی اور اپنا ساز و سامان سمیٹ کر رخصت ہونے کی مہلت ملتی۔
عہد عمر ابن خطابؓ
آپؐ کے بعد بھی مسلمانوں نے بڑی تیزی سے اپنی مملکت کو وسیع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شام، مصر، عراق اور فارس تک کا علاقہ فتح کر لیا۔ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمر ابن خطابؓ(عہد 634-644) کے دور میں فتوحات اس قدر تیزی سے ہوئیں کہ لگتا تھا جیسے مسلمان ساری دنیا فتح کر لیں گے۔ ابن خطابؓ کی حکمت عملی یہ تھی کہ اپنے دورِ حکومت میں وہ دیگر مذاہب کے لوگوں سے تعلقات خوشگوار رکھنے کی کوشش کرتے۔ ان کو مذہبی آزادی دیتے، معاشی طور پر مستحکم کرتے اور مختلف علاقوں میں ان کی آمد و رفت پر پابندی نہ لگاتے۔
یہودی اس وقت مسیحیوں کے مظالم کے ستائے ہوئے تھے۔ خاص طور پر رومی شہنشاہ ہرکولیس (عہد 610-641) کے دور میں ان کو زبردستی مسیحی بنانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔[3] نتیجتاً بازنطینی ریاست سے تنگ آئے بیشتر یہودیوں نے مسلمانوں کا ساتھ دینے کی ٹھانی۔ 636 عیسوی میں لڑی جانے والی جنگ یرموک میں بازنطینی ریاست کو شکست دے کر عربوں نے فتح حاصل کی۔ اگر یہودی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کا 637 عیسوی میں یروشلم کو فتح کرنا یہودیوں کے لیے بھی خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ چونکہ مسلمانوں کے لیے بھی ایک مقدس سرزمین تھی لہذا اس کی تباہی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ تاہم یہ بھی یہودیوں کے پیش ِنظر نہیں تھا کہ وہ مسلم دور میں اس قدر سہولت سے اپنے مذہبی امور جاری رکھ سکیں گے۔ یہ ان کے لیے ایک تاریخی لمحہ تھا جب ابن خطابؓ کے دور میں تقریباً 500 سال بعد ان کو یروشلم میں سکونت کی اجازت ملی۔ انہیں اس بات کی ضمانت دی گئی کہ اگر وہ مقررہ جزیہ ادا کرتے رہیں گے تو ان کی حفاظت کی جائے گی۔ ان کے مدارس، سیناگاگ اور معبد مسمار نہیں کیے جائیں گے۔ وہ اپنے تجارتی و مالی امور میں خود مختار ہوں گے۔ یہودیوں پر ایک بڑی عنایت یہ بھی ہوئی کہ حرم قدسی شریف میں ان کو عبادت کے لیے جگہ فراہم کی گئی۔ حرم قدسی شریف یہودیوں کے لیے ایک نہایت مقدس مقام ہے جہاں ان کے خیال میں بارہا خدا نے اپنی تجلی کی ہے اور یہودی عقیدے کے مطابق یہیں مسیح موعود، ہیکل کو تیسری دفعہ تعمیر کریں گے۔ جس طرح عبرانی بائیبل میں سائرس کو یہودیوں پر اس کی عنایات کی وجہ سے مسیح کا درجہ دیا گیا ہے اسی طرح مدراش میں یہودیوں پر مہربانیاں کرنے کی وجہ سے عمرؓ کو "خدا کا دوست" بیان کیا گیا ہے۔[4]
انہوں نے غیر مسلموں سے ایک معاہدہ بھی کیا جسے عقدِ عمر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے مختلف نسخے ملتے ہیں جن میں تھوڑی بہت تبدیلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان نسخوں کا بنیادی پیغام ایک جیسا ہے، مثلاً یہ کہ غیر مسلموں کو جزیے کا پابند بنایا گیا۔ انہیں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرنے سے منع کیا گیا۔ خاص لباس پہننے کی ہدایت کی گئی تاکہ ان کی شناخت بآسانی ہو سکے۔ انہیں مسلمانوں کے لیے کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا۔ مسلمانوں کو شراب اور دیگر ایسی چیزیں جو شریعتِ اسلامی میں حرام تھیں فروخت کرنے سے منع کیا گیا۔ مسلمان غلام یا باندی رکھنے کی ممانعت کی گئی۔ گھڑ سواری سے روکا گیا۔ اپنے گھر مسلمانوں سے اونچے بنانے کی اجازت نہ دی گئی اور نہ ہی انہیں اس بات کا حق دیا گیا کہ وہ سرکاری طور پر کسی ایسے عہدے کے لیے نامزد ہوں جس سے ان کی مسلمانوں پر اجارہ داری قائم ہوتی ہو۔
عمر ابن خطابؓ کے بعد آنے والے اموی حکمرانوں کے دور میں بھی یہودیوں کے متعلق کم و بیش انہیں احکامات پر عمل کیا گیا جو پہلے سے رائج تھے۔ ان کے بدلے میں یہودیوں کو ریاستی حقوق دیے گئے۔ ان کی حفاظت ذمہ لی گئی اور ان کو مذہبی آزادی دی گئی۔ جو پابندیاں عقدِ عمر کے ذریعے ذمیوں یعنی اسلامی ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں پر لگیں، بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بھی ان پر زیادہ سختی سے عمل در آمد نہیں کیا۔ چنانچہ یہ ایک قسم کی علامتی پابندیاں بن کر رہ گئیں۔ ایسے متعدد شواہد دستیاب ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ تاریخی طور پر ایسا بہت کم ہوا کہ درج بالا شقوں کو عملی طور پر لاگو کیا گیا ہو۔ اموی خلفاء کے دور میں غیر مسلموں بشمول یہودیوں نے اپنی عبادت گاہیں بھی تعمیر کیں اور بہت سے مسلم حکمرانوں نے انہیں سرکاری عہدوں پر بھی بٹھایا جہاں مسلمان ان کے زیر ِنگرانی کام کرتے۔[5] اس دور میں یہودی تجارت کو فروغ حاصل ہوا اور وہ معاشی طور پر خوشحال ہوتے چلے گئے۔ اموی حکمرانوں کی ان رعایات سے پتہ چلتا ہے کہ عقدِ عمر کی پابندیاں اس لیے لگائی جاتی تھیں کہ غیر مسلم کسی قسم کی بغاوت نہ کریں۔ جب غیر مسلم امن سے رہتے تو یہ پابندیاں بھی عملی طور پر رائج نہ کی جاتیں تھیں۔
یہودیوں کو سرکاری عہدے دینے کے متعلق بعض یہودی مؤرخین کا خیال ہے کہ غیرمسلموں کو حکومتی ذمہ داریاں دینا اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ وہ مسلمانوں سے زیادہ ان معاملات میں تجربہ رکھتے تھے اور علاقے کے مزاج کو بہتر جانتے تھے۔[6]اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا مقصد علاقے کے مکینوں کو معاشی اور معاشرتی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا۔ چنانچہ اس دور میں ایک لمبے عرصے کے بعد یہودیوں کی زندگی میں امن لوٹا۔ مسلمانوں کی یہ خواہش تھی کہ یہودی و مسیحی، محمد ﷺ کے لائے ہوئے مذہب کو قبول کر لیں تاہم انہوں نے جبر سے کام نہیں لیا۔ اگر کوئی ایسا واقعہ ہوا بھی ہو گا تو وہ انفرادی تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ قرآن نے مسلمانوں کو یہ واضح طور پر بتا دیا تھا کہ "دین میں جبر نہیں۔"[7] اسی وجہ سے مجموعی طور پر مسلم دور میں یہودی، مسیحی دور کی نسبت زیادہ بہتر زندگی گزار رہے تھے۔[8] اردگرد بسنے والے یہودیوں نے بھی اس تازہ ہوا کے جھونکے کو محسوس کر لیا تھا۔ یہودی مصنفین نے یہاں تک لکھا ہے کہ بیشتر جنگوں میں یہودیوں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ شاید دیہیا کاہنہ(وفات 703) وہ واحد ملکہ تھی جس نے مسلمانوں کے خلاف مزاحمت کی۔ اس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک یہودیہ تھی جسے عرب جرنیل موسی بن نصیر(640-716) نے شکست دے کر نومیدیا کا علاقہ فتح کیا تھا۔[9]
عباسی دور
بہت جلد مسلمانوں کے آپسی اختلافات شروع ہو گئے اور امویوں کو 750 میں عباسیوں کے ہاتھوں شکست ہوئی جنہوں نے دار الخلافہ دمشق سے بغداد منتقل کر دیا۔ بابلی یہودیوں کے لیے یہ خوش قسمتی کا زمانہ تھا۔ ان کے راسِ/رئیس جالوت کے درجے کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی۔ یہ درجہ ایک مدت سے یہودی، داؤدؑ کے گھرانے کے فرد کو دیا کرتے تھے جو ایک طرح سے ان کے معاشرتی معاملات دیکھا کرتا۔ راسِ جالوت بابل اور ایران میں پروان چڑھنے والی یہودیت کا نمائندہ تھا۔ مسلمانوں نے از سر نو اس عہدے کو یہودیوں میں رائج کر دیا۔ یہاں انہیں میں سے سرکاری طور پر گاون بھی منتخب کیا جانے لگا جو ان کا مذہبی و روحانی پیشوا ہوتا۔ ربیائی یہودیت میں گاؤنیم کو تنائیم اور آمورائیم کے جانشین سمجھا جاتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ تمام یہودیوں نے گاؤنیم کی حاکمیت تسلیم نہیں کی تھی۔ اس میں بطورِ خاص قرائٹ/قرائت کا ذکر کیا جاتا ہے جو ایک راسخ العقیدہ یہودی فرقہ تھا۔ قرائٹ عبرانی لفظ "قرا" سے نکلا ہے جس کا لفظی مطلب "پڑھنا" ہے۔ ربیائی یہودیت کے برعکس ان کا خیال تھا کہ موسیؑ کو کوہ سینا پر صرف لکھی ہوئی توریت ملی تھی۔ زبانی توریت جیسی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ اس لیے مشنا اور تلمود ان کے نزدیک کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں۔ اسی وجہ سے وہ ربیائی یہودیت کے تحت ہونے والے مذہبی ارتقا کی بھی مذمت کرتے تھے۔ قرائٹ نے زیادہ تر مصر اور گرد و نواح میں رواج پایا۔
اموی دور میں گاؤنیم نے توریت، تلمود اور ہلاخلا (یہودی قانون) کی تعلیم کو عام کیا۔ اگر کسی فقہی مسئلے پر کوئی فتوی موجود نہ ہوتا تو گاؤنیم ہی اس مسئلے کا کوئی حل تجویز کرتے۔ انہوں نے اس دور میں ملی مذہبی آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بابل/عراق کے مختلف شہروں میں بنے مشہور یہودی مدارس کو بغداد منتقل کر لیا جو اس وقت علم و دانش کی آماجگاہ تھی۔[10] سلطنت کے مختلف گوشوں میں مقیم زیادہ تر یہودیوں کے پاس گاؤنیم کی صورت میں اپنا مذہبی پیشوا آگیا تھا جس سے وہ مذہبی معلومات بھی حاصل کر سکتے تھے اور ضرورت پڑنے پر مدارس کی ترویج کے لیے رقومات بھی بھیج سکتے تھے۔ نتیجتاً دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی سلطنت کے طول و عرض پر یہودی مدارس کا ایک جال بچھ گیا۔
عباسی دور کی ایک اہم یادگار یونانی، فارسی، سنسکرت اور سریانی زبانوں سے عربی ترجمے کی تحریک تھی جسے حکومتی سرپرستی حاصل تھی۔ ہارون الرشید (766-809)اور اس کے بیٹے مامون الرشید (786-833) نے بیت الحکمت جیسی عظیم الشان لائبریری قائم کی جہاں دنیا بھر سے محققین اور متلاشیانِ علم و فن اکٹھے ہوتے۔ مامون نے اس ادارے کی معاشی مراعات میں بے پناہ اضافہ کیا۔ عقیدے اور مذہب سے ماورا ہو کر قابل علما و محققین کو یہاں جمع کیا گیا۔ اس ادبی ماحول نے بہت سے یہودی عالموں اور فلسفیوں کو جنم دیا۔ ان میں یہودی فلسفی، قانون دان اور مفسر، سعید بن یوسف الفیومی /سعدیا گاون (892-942) کا نام بطورِ خاص لیا جاتا ہے جنہوں نے کتاب الامانات والاعتقادات لکھ کر یہودی الہیات کو عقلی بنیادیں فراہم کیں، عبرانی بائیبل کا عربی ترجمہ کیا، یہودی قانون کو ترقی دی اور یہودی کیلنڈر کو مستحکم کیا۔
اموی سپین
عہد فاروقی اور عباسی میں یہودیوں کو وافر سہولیات میسر رہیں تاہم انہیں دورِ عروج اندلس /سپین نے مہیا کیا۔ اموی تقریبا 711 عیسوی میں اندلس میں داخل ہوئے اور اپنی سلطنت قائم کی۔ عصر حاضر میں نظر آنے والے یہودی تہذیب و ثقافت کے اجلے پہلو اسی دور کی یادگار ہیں۔ یہاں بسنے والے یہودی سفاردی یہودی کہلاتے تھے جو عبرانی بائیبل میں درج ایک جگہ کا نام ہے۔[11] بعض محققین کا خیال ہے چونکہ عبرانی میں آئیبیریا کے بعض علاقے کو سفاردیہ کہا جاتا تھا لہذا بعد میں جب یہ علاقہ سپین یا اندلس کے نام سے مشہور ہوا تو یہاں کے یہودی سفاردی کہلائے جانے لگے۔ سفاردی یہاں کب آئے اس کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا دشوار ہے۔ بعض روایات کے مطابق یہ لوگ یہاں سلیمانؑ کے دور سے مقیم تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں محصول جمع کرنے کے لیے کسی کو بھیجا تھا جو بعد میں یہیں آباد ہوا۔ بعض واقعات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بابلی اور رومی دور میں یہودی یہاں آ کر آباد ہونا شروع ہوئے۔[12] پہلے پہل ان کی آبادی یہاں کم تھی۔ بعد میں جب مسلمانوں نے اقلیتوں کو نوازنا شروع کیا تو تقریباً نوے فیصد یہودی اسلامی سلطنت میں بس گئے۔
عبد الرحمن دوم (822-852) کے دور میں اندلس نے ترقی کی منازل تیزی سے طے کرنا شروع کیں۔ اس کے دور کو مذہبی رواداری اور برداشت کا دور کہا جاتا ہے۔ اس کے حسن انتظام نے اندلس کو یورپ کا سب سے منظم ملک بنا دیا۔ اس کے بعد اس کے جانشینوں نے بھی اپنے اجداد کی روایات کی پاسداری کی، ملک میں امن قائم کیا اور تجارت کو فروغ دے کر اہلِ وطن کو خوشحال کیا۔ اس دور کے یہودیوں کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسے امن و سلامتی کا دور گردانتے تھے۔[13] عبدالرحمن سوئم(عہد 929-961) کے دور میں یہودیوں نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اندلس کو علمی لحاظ سے مالا مال کر دیا۔ اندلس میں مقیم یہودی ثقافتی لحاظ سے مسلمانوں کے طور طریقے اپنائے ہوئے تھے۔ ان کے نام، رہن سہن، زبان اور لباس تک مسلمانوں جیسا تھا۔ البتہ اپنے مذہب، تاریخ اور قومی شناخت میں وہ مسلمانوں سے مختلف تھے۔ انہوں نے عبرانی گرائمر کو ترقی دی اور یہودی مدارس کا انتظام بہتر کیا۔ بے شمار تراجم کے علاوہ ان کی اپنی تحریروں کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد اس دور میں سامنے آئی۔ کہا جاتا ہے علمی لحاظ سے یہ دور اس قدر شاندار تھا کہ صرف قرطبہ ہی کی لائبریری چار لاکھ کتب سے مزین تھی۔[14] جب معاشی و معاشرتی سکون نصیب ہوا تو مسلمانوں ہی کی طرح یہودیوں نے بھی علم کی تلاش میں دور دراز کے سفر کیے۔ یہ قیروان کی درسگاہیں تھیں یا بغداد کے یشیوا ہر جگہ یہودی آنے جانے لگے۔
دسویں صدی عیسوی کا اختتام یہودیوں کے لیے اور بھی پُرسکون تھا۔ انہیں اتحاد نصیب ہوا اور ایک طویل عرصے بعد مجموعی طور پر ان کی بے کسی، بدحالی اور غربت کا خاتمہ ہوا۔ وہ دولت و حشمت، تہذیب و ثقافت اور علم و فضیلت میں دنیا کے بڑوں میں شمار کیے جانے لگے۔[15] وہ آزادانہ اپنے علمی مشاغل جاری رکھ سکتے تھے اور تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی کو اختیار کرنے کے لیے آزاد تھے۔ یہاں سفاردیوں کی ایک بڑی تعداد کپڑے، چمڑے، زراعت اور تجارت کے شعبوں سے منسلک تھی۔ اس دور نے ایک بڑی تعداد میں یہودی عالم، ادیب اور طبیب پیدا کیے۔ ان کی حالت "ہر طرح سے بہتر ہوئی اور وہ ستائے ہوؤں سے محفوظ اقلیت" بنتے چلے گئے۔[16]
مسلم سپین یہودی ثقافت پر احسان بن کر ابھرا۔ اس دور نے انہیں کاؤلا الیہودی (685-718) جیسا جرنیل، ابراہیم بن یعقوب (پیدائش 912)جیسا تاجر، موسی بن حنوخ(وفات 965) جیسا معلم، حسدائی بن شپروط (915-970) جیسا سفیر، اسماعیل النغریلۃ (993-1056) جیسا زبان دان، اسحاق بن البالیہ(1035-1094) جیسا ریاضی دان، ابن حصدائی(1050-1093) جیسا وزیر، موسی بن عزرا (پیدائش تقریباً 1055) جیسا شاعر، یہودا بن ساؤل (پیدائش 1120) جیسا مترجم، یوسف ابن مغاش (1077) جیسا عالم اور موسی ابن میمون (1138-1204) جیسا فلسفی عطا کیا۔ یہ نام ان ہزاروں میں سے چند ایک یہودیوں کے ہیں جنہوں نے علم و فن میں اپنا لوہا منوایا۔ اس دور کی ترقی و خوشحالی کو دلیل بناتے ہوئے بعض یہودی مصنفین اندلسی یہودیوں کے اس دور کو ان کا عہد زریں سمجھتے ہیں۔ بعض اسے عہد زریں کہنے سے گریز کرتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ دور دیگر ادوار سے قدرے بہتر تھا جس میں یہود نسبتاً خوشحالی کی زندگی بسر کرتے رہے۔ ایک تیسری رائے یہ بھی ہے کہ یہ دور بھی دیگر ادوار کی طرح یہودیوں کے لیے بے کسی و عسرت کا دور تھا۔ تاہم اس تیسری رائے کے حامیوں کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے۔
مرابطی دور
اموی سلطنت کے کمزور ہونے سے طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا۔ سلطنت مختلف گروہوں میں بٹ گئی جنہیں طائفہ کہا جاتا تھا۔ ایک ایک کر کے صلیبیوں نے سپین کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ صلیبیوں نے مراعات کا وعدہ کر کے بعض با اثر یہودیوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ کمزور سلطنت کو بچانے کے لیے امویوں نے یوسف بن تاشفین(1009-1106) کو مراکش سے بلایا تاکہ صلیبیوں سے نبرد آزما ہوا جا سکے جس نے گیارہویں صدی عیسوی میں قرطبہ میں مرابطی حکومت قائم کی۔ مرابطیوں کے زیرِ تسلط بعض علاقوں میں ان کا یہودیوں سے رویہ دوستانہ تھا۔ یہودی بطور سپاہی، سفیر اور طبیب ان کے ساتھ کام کرتے رہے۔[17] دیگر اسپینی علاقوں میں ان کو متشدد گروہ سمجھا جاتا تھا۔ بعض مصنفین کے مطابق انہوں نے یہودیوں کو جبری اسلام قبول کرنے کا کہا تاکہ فدیے کے نام سے ان سے زرِ کثیر حاصل کر سکیں۔ اس وقت وہاں یہودیوں اور مسیحیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی لیکن ان کی سختی کے نتیجے میں یہودیوں اور مسیحیوں نے سپین کے ان حصوں کا رخ کیا جو صلیبیوں کے زیر تسلط تھا۔[18] اس ضمن میں موسی ابن عزرا جو ایک مشہور شاعر تھا اور جس نے اموی سپین کا عروج دیکھ رکھا تھا، اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: "میں غرناطہ، جس کی تابناکی رخصت ہو رہی ہے، میں مقیم ہوں، ایک راہ گزرتے مسافر کی طرح، ایک چڑیا کی طرح جو اپنے گھونسلے سے نکال دی گئی ہو، ایک پرندے کی طرح جو شہر بدر اور آوارہ ہو؛ اور ایسے لوگوں میں جو گمراہ اور بگڑے ہوئے ہیں، یہاں میرے لیے کوئی پناہ نہیں ہے؛ یہاں کوئی نہیں ہے جو مجھے یاد کرے اور میری خبرگیری کرے۔"[19]چونکہ اس کے بھائی اسے چھوڑ کر صلیبی سپین جا بسے تھے لہذا اپنے کلام میں وہ اپنے بھائیوں، حکمرانوں اور اپنی حالت پر نوحہ کناں ہے۔
ایک نظریہ اس ضمن میں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مسیحیوں کو اپنے فتح کردہ علاقوں میں آبادکاری کے لیے افرادی قوت درکار تھی تو انہوں نے یہودیوں کو بہتر رہائش، ملازمت اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنا شروع کر دیے۔ چنانچہ یہود نے معاشی خوشحالی کے لیے بھی صلیبی علاقوں کا سفر کیا۔ مسلم علاقوں میں بھی بعد ازاں حالات بہتر ہو گئے اور ایک دفعہ پھر یہودی خوشحال زندگی بسر کرنے لگے۔ ان کی نئی نسلوں نے بطور ربی، شاعر، فلسفی اور مفسرین اپنے علم و ہنر کا لوہا منوانا شروع کر دیا۔
موحدون کا دور
سپین کے پر سکون دور میں ایک ہلچل موحدون کی اندلس آمد سے ہوئی جو بارہویں صدی کے وسط میں افریقہ سے یہاں حملہ آور ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف مرابطیوں کی حکومت ختم کی بلکہ مسلمانوں کی آپسی لڑائیوں کی وجہ سے یہاں سے اٹھنے والی مسیحی بغاوتوں کو بھی کچلا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام پھیلانے میں شدت اختیار کی اور اقلیتوں سے سختی برتی جس کے نتیجے میں کچھ غیر مسلمین یورپ منتقل ہونے لگے۔ بعض مصنفین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جو غیر مسلم یہاں موجود تھے ان کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یشیوا و سیناگاگ مقفل کروا دیے گئے اور مذہبی آزادی قصہ پارینہ بنی۔[20] البتہ تیسرے خلیفہ یعقوب المنصور (عہد 1184-1199) کے دور میں یہودیوں کو راحت نصیب ہوئی۔ مسلمانوں کی آپسی خانہ جنگیوں نے نہ صرف خود انہیں زوال کا شکار کیا بلکہ سلطنت میں رہنے والی اقلیتوں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ موحدون کے دور کا مطلب اگرچہ اندلسی یہودیوں کا اختتام نہیں تھا لیکن اس دور نے ان کے عہد زریں کو سبوتاژ کر دیا۔
فاطمی دور
علی ابن طالب ؓ، محمدﷺ کے داماد اور مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ تھے۔ وہ مسلمان جو محمدﷺ کے بعد علیؓ کی امامت کے قائل تھے، تاریخِ اسلامی میں شیعہ کے نام سے موسوم ہوئے۔ شیعہ عصر حاضر میں بھی مسلمانوں کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ عباسیوں کے خلاف انہوں نے تقریباً 909 عیسوی میں افریقیہ جسے مغرب الادنی بھی کہا جاتا ہے، میں فاطمی دور کا آغاز کیا۔ فاطمی کا لفظ فاطمہ ؓ سے لیا گیا ہے جو محمدﷺ کی صاحبزادی اور علی ؓ کی اہلیہ تھیں۔ 969 عیسوی میں فاطمیوں نے پہلے مصر اور پھر فلسطین فتح کیا۔ یہاں فاطمی خود بھی اقلیت تھے کیونکہ ان کے مقابلے میں اہل سنت کی صورت میں مسلمانوں کا ایک بڑا فرقہ موجود تھا۔ نتیجتاً فاطمیوں کے لیے ان علاقوں پر اپنا تسلط جمائے رکھنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ انہیں ان علاقوں میں بسنے والے غیر مسلموں سے زیادہ اپنے مسلم بھائیوں سے خطرہ محسوس ہوا۔ اس لیے انہوں نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ سرکاری عہدوں پر غیر مسلموں کو تعینات کرنا شروع کر دیا۔ اس لحاظ سے فاطمی دور بھی یہودیوں کے لیے خوشگوار دور تھا۔ بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ غیر مسلم اس دور میں سرکاری عہدوں پر تعینات کیے گئے تاہم انہیں اہم عہدوں پر نہیں رکھا گیا۔ یہودیوں میں بھی زیادہ تر عہدے قرائٹ فرقے کو دیے گئے جو ربیائی یہودیت کے مخالف تھا۔[21] یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دور میں یہودیوں کی نسبت مسیحیوں کو زیادہ نوازا گیا۔ البتہ یہودیوں کو بنیادی شہری حقوق اور مذہبی آزادی حاصل رہی۔ فاطمیوں نے عقدِ عمر کی شقوں کو لاگو نہیں کیا اور ذمیوں کے جزیہ میں نمایاں کمی کی۔ ان کے دور میں اقلیتوں کو عبادت گاہوں کی تعمیر و مرمت کی آزادی تھی ۔بعض اوقات یہودی مدارس کے لیے فاطمی، معاشی مدد بھی مہیا کرتے تھے۔[22]
یہودی اسلامی ادوار میں
|
فاطمی عہد میں الحاکم (985-1021)کا دور یہودیوں سمیت دیگر مذہبی اقلیتوں کے لیے کٹھن تھا۔ غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ اہل سنت بھی اس کے عتاب کا شکار ہوئے۔ وہ بار بار اپنے فیصلے بدلنے کے لیے مشہور تھا جس کی وجہ سے اسے مجنون بھی کہا جاتا تھا۔ اس نے ابتدائی چند سال تو ذمیوں سے جزیہ لے کر ان کو ضروری حقوق مہیا کیے لیکن بعد میں بے جا سختیاں شروع کر دیں۔ یہودیوں پر لازم کیا کہ وہ پیلے رنگ کے لباس پہنیں اور گلے میں لکڑی کا بچھڑا لٹکائیں تاکہ ان کی شناخت ہو سکے۔ اس پر طرہ یہ کے انہیں مجبور کیا گیا کہ یا تو شیعیت اپنا لیں یا ملک چھوڑ کر کہیں اور جا بسیں۔ کچھ عرصہ بعد اس نے یہ بھی اعلان کروا دیا کہ جتنے لوگ اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوئے ہیں وہ دوبارہ اپنے پرانے مذہب کو اختیار کر سکتے ہیں۔[24] اس کے بعد آنے والے خلفا نے رواداری کو اپنایا اور یہودیوں نے سکون کا سانس لیا۔ 1061 عیسوی میں حکومت پر فاطمیوں کی گرفت کمزور پڑ گئی لیکن یہودیوں کو اس سے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا۔ بحیثیت مجموعی انہوں نے معاشی طور پر خاصی ترقی کی۔ فاطمیوں نے تجارت کو فروغ دیتے ہوئے اسے ہندوستان سے خلیج فارس اور بحیرہ احمر تک پھیلا دیا۔ یہودی تاجروں کو آزادی دی گئی اور ان پر کوئی اضافی بار لاگو نہیں کیا گیا۔
ایوبی دور
یہودیوں کے لیے بڑا دھچکا 1099 عیسوی میں فلسطین پر صلیبیوں کی فتح تھی۔ انہوں نے یہودیوں کو فلسطین سے بے دخل کر دیا۔[25] اس بے دخلی کی مدت خاصی طویل تھی۔ تقریباً 88 سال تک وہ دوبارہ یروشلم مقیم نہیں ہو سکے۔ بعد میں جب مشہور مسلم جرنیل، صلاح الدین ایوبی (1138-1193)نے1187 عیسوی میں یروشلم فتح کیا اور ایوبی سلطنت کی بنیاد رکھی تو انہیں یروشلم دیکھنے کی سہولت میسر ہوئی۔ ایوبی نے بھی عقدِعمر کی شرائط کو لاگو کیا اور اقلیتوں کو مذہبی آزادی دی۔ اس کے دور کو بھی امن و سلامتی کا دور سمجھا جاتا ہے۔ اسی کے ہاتھوں 1171عیسوی میں فاطمی دور کا اختتام بھی ہوا۔ ایوبی سلطنت میں بھی یہودیوں کو پھلنے پھولنے کے مواقع ملے۔ وہ تجارت، طب اور دستکاری جیسے شعبوں میں آزادانہ کام کرتے رہے۔ ایوبی حکمرانوں کو اپنے دور میں صلیبیوں سے بار بار جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چونکہ یہ خود سنی تھے اس لیے ان کی فاطمیوں سے بھی آئے دن جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ پھر بھی جنگ و جدل کے اس دور میں بھی ثقافتی ترقی اور اقلیتوں کا تحفظ ان کی ترجیحات میں شامل رہا۔
مملوک دور
مملوک بھی مسلمانوں کا ایک گروہ تھا جو پہلے عباسیوں کے سپاہیوں کے طور پر سرکاری ملازم تھے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے اپنی طاقت کو بڑھایا اور ایک وقت ایسا آیا جب انہوں نے ایک زبردست سلطنت قائم کر لی۔ خاص طور پر مصر پران کی پکڑ خاصی مضبوط تھی جس کی مدت 1250 سے 1517 عیسوی تک رہی۔ انہوں نے منگولوں کے حملوں کو روکا، ہندوستان میں حکومت قائم کی اور صلیبیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ قبطی مسیحی، مصر میں بطور اقلیت رہ رہے تھے اور مملوکوں کو مسیحیوں کے خلاف ہی صلیبی جنگیں لڑنی پڑ رہی تھیں۔ اس کا اثر ان کے مزاج پر گہرا تھا۔ انہوں نے اپنی سلطنت میں بسنے والی اقلیتوں سے بھی سخت رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ مشہور مملوک فرمانروا، سیف الدین قلاوون (1222-1290) نے عقدِ عمر کی سختیوں کو عملی طور پر رواج دیا۔ اس نے ذمیوں کو سرکاری عہدوں کے لیے نا اہل قرار دیا۔ بعد ازاں، اس کے جانشینوں نے بھی یہی روش اپنائے رکھی۔[26]
تیرہویں صدی تک البتہ یہودیوں کے علمی مشاغل آزادانہ جاری رہے۔ چودہویں صدی اقلیتوں کے لیے مزید دشواریاں لائی۔ حکومت نے تجارت کے لیے کارمی تاجروں کو مخصوص کر لیا تھا اور یہودی جو زیادہ تر انفرادی تجارت کرتے تھے معاشی طور پر کمزور ہوتے چلے گئے۔ معاشرتی حالات بھی کچھ سازگار نہیں تھے۔ غیر مسلموں پر بازاروں میں حملے ہونے لگے جس کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی پھیلی۔ مملوکوں کے داخلی معاملات بھی درست نہیں تھے۔ ان کی اندرونی لڑائیاں حکومت کو کمزور کرتی رہیں۔ سیف الدین برقوق(1339-1399) اور اسکے بیٹے کا دور یہودیوں کے لیے کچھ آسائشیں لایا لیکن بعد میں پھر انہیں عقدِ عمر کی شرائط پر عمل در آمد کرنا پڑا۔ البتہ ان میں نجد کا عہدہ ختم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہودی کچھ نہ کچھ مراعات حاصل کرنے میں کامیاب رہتے۔
بعض مصنفین نے یہ بھی لکھا ہے کہ حالات کی خرابی میں یہودی خود بھی ذمہ دار تھے، مثلاً تقریباً پندرہویں صدی کے وسط کے ایک واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ ربیائی یہودیت کی ایک سیناگاگ میں توہینِ اسلام کا ارتکاب کیا گیا۔ سیناگاگ میں ایک ایسا منبر ملا جس کی سیڑھیوں پر "محمد" اور "احمد" لکھا ہوا تھا۔[27] اس کا مطلب تھا جو کوئی بھی منبر پر چڑھتا وہ ان ناموں پر پاؤں رکھ کر اوپر پہنچتا تھا۔ مسلمانوں کے لیے یہ ایک بڑا مذہبی دھچکا تھا جس کے نتیجے میں سیناگاگ کا منبر تباہ کر دیا گیا اور بعد میں ریاست بھر میں ذمیوں کی عبادت گاہوں کی نگرانی کی جانے لگی جس سے اقلیتوں کے درمیان بے چینی پھیلی۔ انہیں اس بات کا پابند کیا گیا کہ اب نہ صرف وہ نئی عبادت گاہوں کی تعمیر نہیں کریں گے بلکہ پرانی عبادت گاہوں کی مرمت بھی نہیں کر سکیں گے۔ مملوک دور کا اختتام خلاف عثمانیہ کے قیام کے ساتھ عمل میں آیا۔
خلافت عثمانیہ
چودہویں صدی عیسوی کے آغاز میں عثمان اول (عہد 1299-1326) کی سربراہی میں مغربی اناطولیہ/ ایشیائے کوچک مسلمانوں نے فتح کیا۔ عثمانیوں نے 1453 عیسوی میں بازنطینی ریاست کا خاتمہ کر کے قسطنطنیہ کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ 1517 عیسوی میں مملوکوں کو شکست دے کر مصر کو بھی اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ سولہویں صدی کے آغاز میں مستحکم ہونے والی یہ سلطنت، غرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ باج گزار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
عثمانیوں کا سب سے پہلا سابقہ "رومانیوٹ" یہودیوں سے پڑا جو نسلاً یونانی تھے۔ یہ لوگ رومی عہد سے یہاں آباد تھے۔ انہیں یورپ میں بسنے والے قدیم ترین یہودی بھی سمجھا جاتا ہے۔ بعد ازاں عثمانیوں کی حاکمیت میں نہ صرف سفاردی بلکہ "اشکنازی" یہودی بھی آئے۔ اشکنازی وہ یہودی تھے جو رومی دور میں یورپ کے مختلف علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی زیادہ تر تعداد یورپ میں مقیم رہی۔ اس کے علاوہ یہاں مارانو یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد بھی آباد ہوئی۔ سپین اور پرتگال میں بسنے والے یہودی مارانو کہلاتے تھے۔ قرون وسطی میں ان کو مسیحی زبردستی اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کرتے تھے۔ چنانچہ یہ لوگ خفیہ طور پر یہودیت کی پیروی کیا کرتے ۔ اسی لیے انہیں "مخفی/پوشیدہ یہودی" بھی کہا جاتا تھا۔
عثمانی، مذہبی رواداری کے لحاظ سے منفرد تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں غیر مسلموں کو خاصی رعایات دیں۔ یہودیوں کو یہاں تقریباً اول درجے کے شہریوں کے حقوق حاصل تھے۔ یہ کوئی بھی کاروبار کر سکتے تھے، زمین خرید سکتے تھے اور مذہبی طور پر جیسے چاہتے رہ سکتے تھے۔[28] یہاں یہودیوں کے ہاں مختلف زبانیں رواج پائیں۔ وہ ہسپانوی کا ایک یہودی لہجہ، عربی، یونانی، آرامی اور ترکی زبانیں استعمال کرتے تھے۔ ان میں سے ترکی زبان سرکاری معاملات کے لیے استعمال ہوتی اور دیگر زبانیں ان کے مذہبی و سماجی تعلقات میں مستعمل تھیں۔ عثمانیوں کی دی گئی آسانیوں کے پیش نظر اردگرد کے علاقوں سے سمٹ کر بہت سے یہودی ان کی سلطنت میں آباد ہونے لگے۔ محمد ثانی (1432-1481) نے جب قسطنطنیہ کو دارالخلافہ نامزد کیا تو یہاں آبادی بہت کم تھی۔ اس نے اردگرد کے لوگوں کو یہاں لا کر بسانا شروع کیا۔ یہودیوں کے لیے یہ بات خوش آئند تھی۔ بہت سے ماہرِ فن یہودی یہاں آکر آباد ہوئے۔ دیگر علاقوں میں بسنے والے یہودیوں کو جب عثمانیوں کی مذہبی رواداری کا علم ہوا تو انہوں نے بھی قسطنطنیہ کو اپنا مسکن بنایا۔ خاص طور پر پندرہویں صدی کے اختتام پر صلیبیوں کے ظلم و ستم سے تنگ آئے ہوئے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں مقیم ہوئی۔[29] بلقان، یونان، قاہرہ اور دمشق میں یہودیوں کی خاصی بڑی آبادیاں تھیں۔ سب سے بڑے یہودی ربی کو "حاخامباشی" کا سرکاری عہدہ دیا جاتا تھا اور یہ اس کے ذمے ہوتا کہ وہ یہودیوں سے متعلق جملہ امور کی نگرانی کرے۔ جیسے جیسے سلطنت وسیع ہوتی گئی ویسے ویسے یہودی بھی خوشحال ہوتے چلے گئے۔ اس لحاظ سے یہاں بھی یہودیت کا ایک عہد زریں آیا لیکن یہ عہد یہودی تاریخی کتب میں زیادہ نمایاں نہیں ہو سکا۔
سولہویں صدی میں سفاردیوں نے سپین اور پرتگال ہی کی طرز پر سلطنت عثمانیہ میں سماجی طور پر خود کو منظم کر لیا۔ سفاردی یہاں دیگر یہودی گروہوں کی نسبت زیادہ با رسوخ تھے۔ محصول جمع کرنے کے لیے بھی لوگ انہیں میں سے منتخب کیے جاتے تھے جنہیں سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی۔ انہوں نے نئی عبادت گاہیں، سکول، عدالتیں اور مطبع قائم کیے جہاں سے مختلف زبانوں میں عبرانی بائیبل کے تراجم اور دیگر مقدس کتب شائع کی جاتیں۔ ان کو چونکہ قومی و معاشرتی طور پر اپنے مذہب کے مطابق رہنے کا حق دے دیا گیا تھا لہذا انہوں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہاں کی یہودی روایت خاصی اہمیت کی حامل تھی۔ یہودی نہ صرف زبان و ادب کو فروغ دے رہے تھے بلکہ پرانی کتب کو بھی نئی طرز پر شائع کر رہے تھے۔ یہیں یہودی قانون کو وسعت دی گئی اور کچھ فلسفیانہ تحریریں بھی شائع کی جانے لگیں۔
یہ لوگ طبیب، تاجر، سوداگر اور سرکاری ملازمین کے طور پر کام کر نے کے لیے آزاد تھے۔[30] غریب ترین یہودی بھی صاف ستھرے لباس اور بہترین غذا کھاتے دکھائی دیتے۔ روز مرہ کی زندگی بھرپور انداز سے گزاری جا رہی تھی جس میں جشن، مزاح اور قہقے لگتے نظر آتے، مذہبی گیت گائے جاتے، اور چھوٹی بڑی خوشیوں کو اہتمام سے منایا جاتا۔ بہت سے مذہبی گروہ یہاں اکٹھے رہ رہے تھے لیکن فرقہ واریت اور مذہبی تشدد مفقود تھا۔[31] البتہ سترہویں صدی کے مشہور یہودی شاعر بابائی بن لطف کی کتابِ انوسی شاہ عباس (1571-1629) کے دور میں ایران کے اندر مسلمانوں کے ہاتھوں یہودیوں پر ظلم و ستم اور جبری قبول اسلام کے واقعات کا پتہ دیتی ہے۔ بعض مصنفین نے مسیحی بچوں کی پرورش اور عثمانی فوج میں ان کی بھرتی کو جبری قبول اسلام سے جوڑا ہے۔ یہودیوں کی نسبت ایسا کوئی واقعہ بھی کم ہی ملتا ہے۔ یہودی اثر و رسوخ جب بڑھا تو آہستہ آہستہ ان کا ذمیوں کا درجہ بھی ختم ہو گیا اور وہ سلطنت کے دیگر شہریوں جیسے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ سیاسی استحکام نے انہیں حکومتی اور نجی اداروں میں اعلی عہدوں تک پہنچایا۔[32] سلطنت میں ان کی آمد و رفت پر پابندی نہیں تھی۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنے تجارتی مراکز قائم کیے جن کا دائرہ کار یورپ، ہندوستان اور
مشرق قریب کی یہودی آبادی
|
عثمانیہ خلافت میں یہودی روحانیات کو بھی عروج حاصل ہوا۔ جب فلسطین پر عثمانیوں کی حکومت تھی تو بہت سے یہودی فلسطین کے ایک شہر صفد میں آ کر بسنے لگے تھے جن میں کئی نامور یہودی ربی بھی شامل تھے۔ مشہور یہودی عالم یوسف کارو(1488-1575) جنہیں شولحان عاروخ کا مصنف سمجھا جاتا ہے وہ بھی اسی دور میں صفد آئے۔ شولحان عاروخ آج بھی راسخ العقیدہ یہودیوں کے نزدیک مستند قانون کی حیثیت رکھتی ہے۔ 1560 کی دہائی میں صفد میں 1800 کے قریب یہودی گھرانے آباد تھے۔ صفد ہی کے قریب مرون نامی شہر ہے جہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دوسری صدی عیسوی کے ایک یہودی ربی شمعون بار یوحائی دفن ہیں۔ انہیں ربی عقیبہ بن یوسف کا شاگرد سمجھا جاتا ہے جو مشہور تنائیم اور روحانی شخصیت تھے۔ بار یوحائی کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے زوہر تصنیف کی جو توریت کی روحانی تشریحات پر مبنی کتب کا مجموعہ ہے۔ زوہر کو یہودی روحانی فکر یعنی قبالہ کی بنیاد مانا جاتا ہے۔ چنانچہ ان کی اور دیگر یہودی بزرگوں کے مزاروں کی نسبت سے صفد، یہودی روحانیت کا مرکز بن گیا۔[33] اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ عثمانی دور خلافت نے نامور یہودی صوفیا کو جنم دیا جن میں اسحاق لوریا (1537-1572)، موسی بن یعقوب (1522-1570) اور ابراہیم بن الیعزرر (وفات تقریبا 1528) جیسے نام شامل تھے۔ خلافت عثمانیہ کے زوال نے سلطنت کے دیگر باشندوں کی طرح یہودیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ جنگ عظیم اول (1914-1918) میں بہت سے یہودی مصر منتقل ہو گئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مصر میں یہودیوں کی کل آبادی اس وقت 59،581 تھی جن میں سے 29،207 صرف قاہرہ ہی میں مقیم تھے۔[34] جب 1920 میں مصطفی کمال (1881-1938) نے ترکی کا انتظام سنبھالا تب تک 81،500 یہودی صرف قسطنطنیہ جسے اب استنبول کہا جاتا ہے میں مقیم تھے۔[35] بعد ازاں، یہودیوں کی ایک بڑی تعداد نے امریکا اور اسرائیل نقل مکانی کر لی جس کے ساتھ ہی ان پر مسلم حکمرانی کا دور بھی ختم ہوا۔
یہودی ثقافت پر مسلم اثرات
مسلم تہذیب کا ایک گہرا اثر یہودیوں پر پڑا۔ یہودی ثقافت، رہن سہن اور مقدس کتب بھی مسلم دور سے متاثر ہوئیں۔ یہودیوں نے عبرانی بائیبل کے عربی تراجم مسلم دور میں کیے۔ عبرانی لکھنے کے لیے عربی حروف تہجی استعمال کی جانے لگی۔ عبرانی الفاظ کے معنی اخذ کرنے کے لیے عربی الفاظ سے مدد لی گئی۔ ان میں بہت سے نامور عربی دان پیدا ہوئے جنہوں نے عربوں کے ہاں رائج شعری اصناف سخن اور موضوعات کو اپنایا۔ اس دور کی یہودی کتب اپنے اسما اور مشمولات میں مسلم ثقافت کی نمائندہ بنیں۔ مسلمانوں کے ہاں رائج کلامی، تفسیری اور فقہی مباحث کی طرز پر یہودیت کی تشریحات کی گئیں۔ عباسی دور کے اہم یہودی فلسفی سعدیا گاون نے علم الکلام پر اپنے کام کی وجہ سے خاصی شہرت پائی۔ یہودی تاریخ اس بات کی عکاس ہے کہ یہ قوم بار ہا شرک کی مرتکب ہوئی۔ یہاں تک کے عبرانی بائیبل کے مطابق ان کے انبیا بھی شرک میں مبتلا ہوئے۔ اس کے برعکس مسلمانوں میں رہ کر یہودیوں میں توحید کے عقیدے کو استحکام ملا۔ اپنی فلسفیانہ تحریروں میں متکلمین سے لیے گئے اثرات کے علاوہ ابن میمون نے یہودی عقیدے کے جو تیرہ اساسی اصول مرتب کیے ہیں ان میں توحید کے اثبات پر خصوصی توجہ دی ہے۔ اسی طرح یہودی روحانیت پر مسلم تصوف کااثر رہا۔ بہیہ بن باکودا (1050-1120) ایک مشہور یہودی عالم، فلسفی اور ربی ہیں۔ انہوں نے الہدایہ الی فرائض القلوب ٹھیک اسی طرز پر لکھی جس طرز پر مسلمانوں کے ہاں تصوف کی کتب لکھی جاتی ہیں۔
یورپی یہودیوں کی زندگی
مسلمانوں کے اندرونی اختلافات نے ان کی حکومت کو رفتہ رفتہ کمزور کر دیا۔ ان کے بارے میں یہ بات صادق آتی ہے کہ یہ حکومت حاصل تو کر لیتے ہیں لیکن اسے اپنے قبضے میں رکھنے کے اہل نہیں بن پاتے۔ جس دور میں یہودیوں کی بڑی بڑی آبادیاں مصر، فلسطین اور سلطنت عثمانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ رہ رہی تھیں اسی دور میں بہت سے یہودی، یورپ کے مختلف علاقوں میں مسیحیوں کے درمیان آباد تھے جن کو اشکنازی یہودی کہا جاتا تھا۔ دونوں جگہ بسنے والے یہودیوں کے مذہبی عقائد تو ایک جیسے تھے لیکن ان میں ثقافتی و تہذیبی لحاظ سے کافی فرق تھا۔ صلیبی جنگوں میں مختلف علاقے وقفوں وقفوں سے مسلمانوں اور مسیحیوں کے قبضوں میں آتے رہے۔ بعد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی ۔1099 عیسوی میں مسیحیوں نے یروشلم پر قبضہ کر لیا اور 1492 عیسوی میں اندلس پر مکمل فتح حاصل کر لی۔
صلیبی سپین کے یہودی باسی
سامی مخالفت کی شروعات اگرچہ پہلے رومی بادشاہ کے مسیحیت اختیار کرنے سے ہو چکی تھی تاہم صلیبی دور نے اس مخالفت کو نئی روح بخشی۔ صلیبیوں کے سپین پر پوری طرح قابض ہونے تک یہودی معاشی طور پر خوشحال تھے اور اپنے علمی کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ ابتدا میں صلیبیوں نے بھی بڑی حد تک رواداری کا ثبوت دیا۔ استرداد میں انہیں یہودیوں کی مدد کی ضرورت تھی۔ دوسرے قشتیلی حکمران، الفانسو ششم(1040-1199) کی فوج میں چالیس ہزار یہودی ملازم تھے۔ الفانسو نہم (1171-1230) کے دور میں انہیں سرکاری عہدوں پر بطور طبیب اور وزیر خزانہ تعینات کیا جاتا رہا۔[36] ہینری دوئم (1334-1379) کے برعکس اس کے سوتیلے بھائی پیٹر عادل (1334-1369) کا رویہ بھی یہودیوں سے اچھا تھا۔ ہینری نے جب یہودیوں کے خلاف مہم شروع کی اور زبردستی ان کے مذہب تبدیل کروانے لگا تو پیٹر نے اس کی راہ روکی۔ بعد میں جب ہینری بادشاہ بنا تو اس نے یہودیوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ اس ضمن میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ہینری کی یہود دشمنی صرف بادشاہت کے لیے تھی۔ بادشاہت حاصل کر نے کے بعد اس کا رویہ یہودیوں سے بدل گیا۔ البتہ پیٹر کو خود اس نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا جس پر خوش ہو کر کیتھولک مسیحیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا یعنی پاپائے وقت نے کہا: "کلیسا کو یہودیوں اور موروں (مسلمانانِ اندلس) کے ہمدرد، ایک غاصب کی موت پر مسرور ہونا چاہیے۔"[37] طلیطلہ جیسا آباد شہر قحط کی صورت پیش کرنے لگا جس کی نذر 8،000 یہودی ہوئے اور بچنے والے زندگی کی جمع پونچی خراج ادا کرنے میں لٹاتے رہے۔ ہینری کو اس بات کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے کہ تخت کے حصول کے لیے جو طریقہ اس نے اپنایا اس سے عوام میں یہودیوں کے خلاف نفرت بڑھی جس سے سامی مخالفت میں اضافہ ہوا۔
چودہویں صدی کے آخر تک آراگون اور قشتالہ میں بسنے والی بہت سی یہودی آبادیوں کا قتل عام ہوتا رہا۔ بربریت کا یہ عالم تھا کہ سال بھر ہی میں 50،000 یہودیوں کو تہ تیغ کر دیا گیا۔ سیناگاگ مسمار کی گئیں اور یہودی عبادات پر پابندی لگنے لگی۔ اب یہودیوں کے پاس اس کشت و خون سے بچنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ وہ مسیحیت اختیار کر لیں۔ ظلم و ستم سے تنگ آئے ہزاروں یہودیوں نے 1391 عیسوی میں مسیحیت اختیار کر لی۔ باقی ماندہ بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیے گئے جن سے نفرت کرنا اب مسیحیوں میں عام تھا۔ بہت سے ایسے یہودی بھی تھے جنہوں نے جان بچانے کے لیے مسیحیت اختیار کی لیکن بعد میں چوری چھپے یہودیت کی پیروی کرتے پائے گئے۔ ایسے یہودیوں کے لیے "مارانو" کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی۔ جو یہودی اس "جرم" کے مرتکب پائے جاتے انہیں نذر آتش کر دیا جاتا۔[38] ان جبری مذہبی تبدیلیوں نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا۔ وہ یہودی جو حال ہی میں مسیحی بنے تھے، مسیحیت سے اپنی وفاداریاں ظاہر کرنے کے لیے اپنے یہودی بھائیوں کو قتل کرنے لگے۔ اس سے یہ ظاہر کرنا مقصد تھا کہ وہ "حقیقت" میں مسیحی بن گئے ہیں۔ اس کے بدلے میں انہیں اپنے تجارتی امور اور آزادانہ کاروبار کرنے کا پروانہ مل جاتا۔ ملکہ ازابیلا اول(1451-1504) اور فرنانڈو دوئم (1452-1516) کی شادی نے قشتالہ اور آراگون کی ریاستوں کو متحد کر دیا۔ یہ اتحاد یہودیوں کی پریشانیوں میں مزید اضافے کا سبب بنا۔ 1480 عیسوی میں یہودیوں کی مسیحیت کو جاننے کے لیے پوری ریاست میں باقاعدہ ادارہ جاتی نظام بنایا گیا۔ آخر کار 1492 عیسوی میں یہودیوں کو ریاست سے بے دخلی کا حکم دے دیا گیا۔[39] ان کو چند ماہ کی مہلت دی گئی کہ وہ اپنا کاروبار سمیٹ لیں تاہم وہ دولت سلطنت سے باہر نہیں بھیج سکتے تھے۔
جلا وطنی کے ساتھ ہی سپین میں 1500 سالہ یہودی روایت کا اختتام ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ صلیبیوں کے دور میں تقریبا 300،000 یہودیوں کو زبردستی مسیحی بنایا گیا، 50،000 کو جلا وطن کیا گیا اور بقیہ کو قتل کر دیا گیا۔ یہ تاریخ کی عجب ستم ظریفی ہے کہ سپین ہی نے انہیں عہد زریں بخشا اور سپین ہی نے انہیں کرب اور بے بسی کی موت سے دوچار کیا۔ اپنے اختتامی دور میں سپینی یہودیوں کے پاس صرف تین راستے تھے: مسیحیت اختیار کریں، جلا وطن ہوں یا مرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ جو مفلوک الحال تھے اور اپنے سفر کا انتظام نہیں کر سکتے تھے انہوں نے بے بسی اور بد حالی کا وہ دور دیکھا جو شاید کبھی ان کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہو۔ البتہ بعض مصنفین نے یہ ضرور لکھا ہے کہ اس دور کے جو یہودی ملک بدر ہونے کو تیار تھے انہیں سرکاری حفاظت مہیا کی گئی۔ سپین سے نکلنے والے ایک لاکھ سے زائد یہودی پرتگال میں مقیم ہوئے اور پچاس ہزار نے بربری اور ترکی میں پناہ لی۔ پرتگال میں ابتدا میں ان کے ساتھ سلوک بہتر تھا۔ انہیں یہاں ٹھہرنے کی اجازت دی گئی۔ البتہ جب مہاجرین کی تعداد بڑھی تو یہاں بھی ان پر ہر طرح کے مظالم شروع ہو گئے۔ انہیں زبردستی مسیحیت اختیار کرنے کے لیے مجبور کیا جانے لگا۔ بہت سے یہودیوں نے ظاہری طور پر مسیحیت اختیار کر لی لیکن درپردہ یہودیت کو اپنائے رکھا۔ دیگر علاقوں میں بھی ان کا حال بہتر نہ تھا۔ ترکی وہ واحد ملک تھا جس نے یہودیوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا اور ضروریات زندگی کی فراہمی میں ان کی مدد کی۔[40]
دیگر ممالک میں یہودی زندگی
یورپ کے دیگر علاقوں میں بھی یہودیوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جا رہا تھا۔ اس میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب 1350 عیسوی کے اردگرد طاعون کی ایک وبا یورپ میں پھیل گئی۔ سترہ سال جاری رہنے والی اس وبا کو "سیاہ موت" کے نام سے یاد کیا گیا جس کی نذر یورپ کی دو تہائی آبادی ہو گئی۔ اس کا الزام بھی یہودیوں پر عائد کیا جانے لگا کہ انہوں نے کنوؤں کو زہریلا کر دیا ہے جہاں سے یہ وبا پھیل رہی ہے۔ بہت سے یہودیوں کو ایذا رسانی کا نشانہ بنا کر ان سے اس امر کا اعتراف کرایا گیا اور اس اعتراف کو عوام میں پھیلا دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جرمنی، فرانس، سپین اور بیلجیم سمیت کئی ممالک میں یہودیوں کا قتل عام ہونے لگا۔ بات یہاں تک بڑھ گئی کہ پوپ کلیمٹ ششم (1291-1352) کو یہودیوں کے حق میں ایک حکم نامہ جاری کرنا پڑا۔[41] تاہم سامی مخالفت یورپ میں اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ مسیحیوں پر اس حکم نامے کا بھی خاص اثر نہیں ہوا اور یہودی بدستور ایذا رسانی کا شکار ہوتے رہے۔ فرانس ہی میں وہ ہولناک واقعہ پیش آیا جسے محاکمہ تلمود/مناظرہ پیرس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعے کا بنیادی کردار نکولس ڈونین نامی ایک یہودی تھا جس نے مسیحیت اختیار کر نے کے بعد تلمود کے کچھ حصوں کے تراجم کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تلمود میں مسیحؑ اور ان کی والدہ مریمؒ کے متعلق گستاخانہ مواد شامل ہے۔ یہودیوں کو اس ضمن میں قصوروار ٹھہراتے ہوئے 1242 میں یہودی مقدس کتب کے ہزاروں قلمی نسخوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس واقعے نے یہود مخالفت نظریات کو مزید فروغ دیا۔
اسی اثنا میں ایک کہانی اور چل نکلی کہ یہودی اپنی عبادات میں مسیحی بچوں کی قربانی دیتے ہیں اور ان کا گوشت کھاتے ہیں۔ یورپ میں اگرچہ جادو ٹونا اور وچ کرافٹ عام تھا اور ہو سکتا ہے کچھ یہودی بھی اس میں ملوث رہے ہوں تاہم یہودیت میں ایسی کوئی عبادت نہیں ہے جس میں ایسا غیر انسانی فعل روا رکھا گیا ہو۔ یہ کہانی یہودیوں کے لیے بادِ سموم بن گئی۔ سنگدلی کا یہ عالم تھا کہ شک کی بنا پر پوری پوری یہودی آبادیوں کو عبرت ناک موت سے دوچار کیا جانے لگا۔ ان کے لیے عفریت اور شیطان جیسے الفاظ عام ہونے لگے۔[42] اگر کہیں یہودی بدلہ لینے کی کوشش کرتے تو ایک ایک مسیحی کے بدلے پچاس پچاس یہودیوں کو قتل کیا جاتا۔ یہ موت اس قدر ہولناک ہوتی کہ ڈر کے مارے بہت سے یہودی خودکشی کر لیتے، مثلاً موت کا ایک طریقہ تو ان کو بھوک پیاس سے سسکا سسکا کر مارنا تھا اور دوسرا یہ کہ ان کو بھوکے کتوں کے ساتھ بھرے بازار میں الٹا لٹکا دیا جاتا تاکہ کتے ان کا جسم نوچ نو چ کر کھا جائیں۔ شاید اسی وجہ سے یورپ میں بسنے والے اشکنازی یہودیوں میں خود کشی کو مذہبی درجہ حاصل ہو گیا تھا۔ سفاردیوں کے برعکس، جو یہ سمجھتے تھے کہ جان بچانے کے لیے دکھاوے کے طور پر مذہب بدلنا جائز ہے، اشکنازی خود کشی کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ ایک طرح سے ان کی "شہادت" ہوتی۔
جرمنی
جرمنی پُرتشدد واقعات کے لیے خصوصیت کے ساتھ مشہور ہوا۔ وہاں یہودیوں کو بھوکا مارنا، زبردستی مذہب تبدیل کروانا، اذیتیں دینا اور کاروبار سے بے دخل کرنا عام سی باتیں تھیں۔ یہودیوں کو قتل کرنے کے لیے یہ بہانہ کافی ہوتا تھا کہ ان کے آباؤ اجداد نے مسیحؑ کو مصلوب کیا تھا۔ مارٹن لوتھر (1483-1546) کی پروٹسٹنٹ تحریک نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس کے متعلق یہودی مصنفین کا خیال ہے کہ ابتدا میں تو وہ اس بات پر مطمئن تھا کہ یہودی اس کی لائی ہوئی مسیحیت قبول کر لیں گے لیکن بعد میں جب اس نے دیکھا کہ ایسا نہیں ہو رہا تو اس نے اپنی مشہور زمانہ کتاب یہودیوں اور ان کے جھوٹوں پر تصنیف کی۔ اس کوشش سے یہود پر مزید تباہی آئی۔ بہت سی سیناگاگ نذر آتش ہوئیں، توریت کے نسخے جلائے گئے، عبادات کی کتب کو دفن کیا گیا اور ربیوں کی تبلیغ کو جرم کا درجہ دے دیا گیا۔ لوتھر کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ نہ رکا اور اس کے حامیوں نے بھی یہودیوں کو مذہبی بنیادوں پر ستانا جاری رکھا۔
یورپ کے بیشتر علاقوں میں انہیں بڑی مسیحی آبادیوں کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ اقلیتی محلے جنہیں گھیٹو کہا جاتا تھا میں رہنے پر مجبور تھے۔ ان محلوں میں ایک چھوٹے سے گھر میں پندرہ پندرہ لوگ آباد ہوتے۔ جگہ اتنی تنگ تھی کہ سورج کی روشنی پہنچ نہ پاتی اور گھریلو کام کاج کا انتظام باہر سڑکوں پر کرنا پڑتا۔[43] ایسا بھی ہوتا کہ رات کو سونے کے لیے جگہ بنانے میں دشواری کی وجہ سے گھر کا سامان باہر نکال دینا پڑتا۔ یہودیوں کو محدود تعداد میں شادیوں کی اجازت تھی جن کے لئے بھی اضافی محصول دینا پڑتا۔ بعض علاقوں میں ایک سے زائد بچوں کی بھی قانونی ممانعت کر دی جاتی تھی۔ کبھی انہیں بادشاہ کے شکار کیے ہوئے جنگلی سور خریدنے کا پابند کیا جاتا تو کبھی گورنمنٹ کی لگائی فیکٹریوں کا ناکارہ سامان۔ ان کے لیے ضروری ہوتا کہ وہ ایک مخصوص طرز کے کپڑے پہنیں اور سینے پر ایک امتیازی نشان ثبت کریں جس سے ان کے یہودی ہونے کا پتہ چلتا رہے۔[44] سترہویں صدی چند یہودیوں کے لیے آسائشیں لائی۔ مالی معاملات میں ماہر افراد کو"درباری یہودی" کا عہدہ ملا ۔ یہ سود کا لین دین کرتے تھے۔ بیشتر مسیحی شاید اس کام کے لیے اس لیے تیار نہیں ہوئے کیونکہ مذہبی طور پر وہ سود کے خلاف تھے۔ مشنا کے مطابق یہودیوں کے ہاں غیر اقوام سے سود لینا اور دینا جائز تھا۔[45] لہذا درباری کے عہدے نے کچھ یہودیوں کو تحفظ دیا۔ البتہ باقی ماندہ اسی بدحالی کا شکار رہے۔
پالینڈ
پالینڈ میں انہیں کسی قدر تحفظ حاصل تھا۔ ابتدائی حکمرانوں کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے کازیمر سوم (1310-1370) نے بھی یہودیوں کو سہولتیں دیں۔ اس نے جس وقت حکومت سنبھالی، سلطنت زبوں حالی کا شکار تھی۔ اس کی حکمت عملیوں نے زوال آمادہ ریاست کو مضبوط کیا۔ اس کی پالییوں کی وجہ سے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کو ریاست میں جگہ ملی۔ پالینڈ میں یہودی مالی امور، زراعت اور تجارت سمیت بہت سے شعبوں سے منسلک تھے۔ تاہم یہاں بھی ان پر اکثر و بیشتر حملے ہوتے رہتے۔ انہیں بچوں کے قاتل کے طور پر پہچانا جاتا اور مخصوص لباس پہننے پر مجبور کیا جاتا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود انہوں نے اپنے علمی کام جاری رکھے۔ سولہویں صدی کا پالینڈ بھی مذہبی طور پر یہودیوں کے لیے بہتر رہا۔ یہاں تلمودی روایت کو مضبوط کیا گیا، یہودی قانون کو ترقی ملی اور مدارس نے فروغ پایا۔ سترہویں صدی میں قازق کسانوں کی جانب سے ہونے والی بغاوتوں میں یہودیوں کا قتل عام ہوا۔ بعد میں جب قازقوں اور حکومت کے درمیان صلح ہوئی اور یوکرین کو تقسیم کر دیا گیا تو روسی حکومت نے بھی قازقوں کی طرح، یہودیوں کو اپنی زمینوں پر رہنے کی اجازت نہیں دی اور کشت و خون کا بازار گرم کیے رکھا۔ اس قتلِ عام میں تقریباً ایک چوتھائی یہودی لقمہ اجل بنے۔[46]
لتھووینیا
وہ یہودی جو لتھووینیا میں مقیم تھے بہتر حالوں تھے۔ انہیں علاقوں میں ربیائی یہودیت نے بھی فروغ پایا۔ لیتھووینیا ہی میں مشہور یہودی ربی اور ماہرِ تلمود ویلنا گون(1720-1797) نے اپنا وسیع حلقہ تعلیم و تعلم قائم کیا اور تلمود، زوہر اور شولحان عاروخ سمیت کئی اہم یہودی کتب کی تشریحات لکھیں۔ وہ خود ایک قبالی اور ربی تھے اس لیے جب حسیدیت کا اثر و رسوخ قائم ہونے لگا تو انہوں نے اس تحریک کی مخالفت کی۔ لتھووینیا میں یہود کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی جن کی سینکڑوں سیناگاگ اور یشیوا یہاں کام کر رہے تھے۔ تاہم مرگ انبوہ / ہالوکاسٹ کے دوران یہاں ہونے والے قتل عام نے یہاں پھلنے پھولنے والی یہودیت کا خاتمہ کر دیا۔
ہالینڈ
ہالینڈ میں اگرچہ یہودیوں کو مکمل شہری حقوق حاصل نہیں ہوئے پھر بھی یہاں بسنے والے یہودی دیگر یورپی علاقوں سے نسبتاً بہتر حالوں تھے۔ سترہویں صدی میں یہاں اشکنازی اور مارانو یہود کی کافی آبادیاں تھیں۔ کل ملا کر ان کی تعداد 10،000 کے قریب تھی۔ یہ لوگ زیادہ تر تجارت، کاروبار اور مالی امور سے متعلقہ شعبوں سے منسلک تھے۔ جب معاشی آسودگی اور معاشرتی سکون ملا تو یہودیوں نے اپنے علمی و ادبی جوہر بھی دکھائے۔ ڈرامہ، روحانیت، مذہب اورشاعری سمیت بہت سے موضوعات پر کتابیں سامنے آنے لگیں۔ اسی طرح کی صورتحال اس دوران برطانیہ میں بھی تھی جہاں کی حکومت اقلیتوں کے مذہبی معاملات میں زیادہ دخیل نہیں تھی۔
اٹلی
ابتدا کے اٹلی میں یہودی یورپ کے دیگر علاقوں کی نسبت بہتر زندگی گزار رہے تھے۔ یہاں ان پر ٹیکس کی مد میں اضافی بار بھی لاگو نہیں کیا گیا۔ یہودیوں نے بھی خود کو اچھا شہری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ملکی معاملات میں غیر ضروری مداخلت نہیں کی۔ وہ زیادہ تر تجارتی و مالی معاملات سے متعلق شعبوں سے منسلک تھے۔ ان کے مسیحیوں سے تعلقات بھی بہتر تھے اور بعض اوقات یہ ایک دوسرے کے تہواروں میں بھی شریک ہوتے۔[47] بعد ازاں ان پر یہاں بھی ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹے جس کی وجہ سے بیشتر یہودیوں کی یہاں سے فرار ہوتے ہی بنی۔ پوپ پیوس ہفتم (1742-1923)کا دور ان کے لیے اذیت کا دور تھا۔ ان کو ملازمتوں سے بے دخل کیا گیا، زبردستی مسیحیت کی طرف لے جایا گیا اور گھیٹو تک محدود کر دیا گیا۔
یہودی نشاۃ ثانیہ
جرمنی میں یہودیوں نے بدترین وقت بھی گزارا اور اسی ملک نے انہیں موسی مینڈلزن (1729-1786) جیسا مصلح اور فلسفی بھی عطا کیا جس نے اسپنوزا (1632-1677) کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی قوم کو روشن خیالی سے متعارف کروایا۔ یہودیوں کی تاریخ میں تین موسی آئے جو ان کو مذہب کی جدید روایت سے آراستہ کر گئے۔ ان میں سب سے پہلے تو موسیؑ تھے جنہوں نے مصریوں کی چار سو سالہ غلامی سے نجات دلوا کر انہیں شریعت عطا کی، دوسرے موسی ابن میمون تھے جنہوں نے ان کے عقیدے کو فلسفی و عقلی بنیادیں فراہم کیں اور تیسرا نام موسی مینڈلزن کا ہے جنہوں نے ان کی نشاۃ ثانیہ کی بنیادیں رکھیں۔ اپنے بھائیوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے مینڈلزن نے توریت کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا، رسمی تعلیم کے فروغ کے لیے درسگاہیں بنائیں جہاں انہیں مفت تعلیم دی جاتی اور جرمن ہسکالا(روشن خیال کی تحریک) کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔ انہوں نے یہودیوں کو جرمن زبان سیکھنے پر آمادہ کیا اور ان کے شہری حقوق کے لیے کوششیں کیں۔ افرائیم لسینگ (1729-1781)اور کرسچن ولہیلم ڈوہم (1751-1820) جیسے مسیحی مفکرین کو آمادہ کیا کہ وہ یہودیوں کو زبوں حالی سے نکالنے کے لیے مدد کریں۔ یہودیوں نے رسمی تعلیم پر توجہ کی اور جرمن زبان سیکھ کر معاشرے میں اپنا مقام بنانے لگے۔ مینڈلزن کی کوششوں سے جرمن یہودیوں کی زندگیاں تو بہتر ہوئیں لیکن ان میں سے بہتوں نے اپنے مذہب کو بھی خیر آباد کہہ دیا۔ ایسا کرنے والوں میں اس کے اپنے بچے بھی شامل تھے[48] مینڈلزن کے بعد ہسکالا کے اراکین نے اس کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے اپنے ہم قوموں کی راہ سے کانٹے چنے۔
مشہور یہودی فلسفی اسرائیل جیکب سن (1768-1828) کی صورت میں یہودیوں کو ایک اور راہنما میسر آیا جس نے تعلیمی، مذہبی اور سیاسی اصلاحات کرنی شروع کیں۔ مینڈلزن کی طرح اسے بھی اصلاح شدہ یہودیت کی بنیادیں استوار کرنے والوں میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی پشتینی دولت کو نہ صرف یہودیوں بلکہ مسیحیوں کی بہبود پر بھی خرچ کیا۔ اس کی اصلاح شدہ یہودیت کی حمایت کی وجہ سےراسخ العقیدہ یہودی اس کے خلاف ہوتے چلے گئے۔ البتہ معاشرتی تبدیلی کا جو خواب اس نے دیکھا تھا وہ پورا ہوا۔ لیوپولڈ زنز (1794-1886)، سموئیل ہولڈہم (1806-1860) اور ابراہیم جائیجر (1810-1874) جیسے رہنما ملنے کے بعد جرمنی سے نکلنے والی تحریکِ اصلاح یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی پھیلتی چلی گئی۔ جائیجر نے اس ضمن میں خاص کام یہ کیا کہ مذہب کو سائنسی بنیادوں پر پڑھا اور اسے خدا کے قانون کی بجائے انسانی تخلیق کے ضمن میں بیان کیا جو بعد میں اصلاح شدہ یہودیت کا خاصا بن گیا۔ بہت سے اصلاح شدہ یہودیوں نے معاشی تنگیوں کے پیشِ نظر امریکہ ہجرت کی جو دیکھتے ہی دیکھتے اصلاح شدہ یہودیت کا گڑھ بن گیا۔
اس دور میں مجموعی طور پر یورپ بہت سی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا۔ روشن خیالی اہلِ یورپ کو متاثر کر رہی تھی۔ بعض ریاستوں میں یہودیوں کو شہری حقوق دیے جانے لگے۔ ان پر عائد ٹیکس اور تجارتی پابندیاں ختم کر دی گئیں۔ انقلاب فرانس کی صورت میں یہودیوں کو ایک اور موقع فراہم ہوا۔ اب انہیں اس پر غور و خوض کرنا تھا کہ وہ اپنے نسل پرستانہ رویے کو برقرار رکھیں یا دوسری قوموں کو بھی اپنے برابر درجہ دینے پر تیار ہوں۔ انہوں نے حالات کے مطابق فیصلہ کیا اور برابری کے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 1871 عیسوی میں جرمن حکومت نے بھی انہیں مساوی حقوق دینے کا اعلان کرتے ہوئے ان پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔
سامی مخالفت کا عروج
جرمنی میں یہودیوں کو برابر کے حقوق تو مل گئے لیکن جرمن قوم نے بحیثیتِ مجموعی انہیں قبول نہیں کیا۔ دوسری طرف یہودی بھی پوری طرح خود کو قومیت کے تعصب سے آزاد نہ کر سکے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جرمن قوم پرستی ان کے آڑے آنے لگی۔ نسلی تعصب اس حد تک بڑھا کہ اس نے "سامی مخالفت" کی شکل اختیار کر لی۔ سامی مخالفت کی اصطلاح اس سے پہلے مذہبی طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اب یہودیوں کے نسلی تعصب کو استعمال کرتے ہوئے ایک جرمن صحافی ویلیم مار (1919-1904) نے اسے نسل سے جوڑ دیا۔[49] اس کے بعد سامی مخالفت کے نظریے نے زور پکڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے جرمن یہودیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کی جڑیں جرمنی سے نکل کر روس، امریکہ، فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک تک پھیل گئیں۔ روسیوں نے سامی مخالفت کو مزید پروان چڑھایا اور بہت سے شہروں میں یہودیوں پر حملے ہونے لگے۔ ریاست نے ان حملوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن سامیوں کی نفرت لوگوں کے دلوں میں زہر کی طرح پھیل گئی تھی جس کو نکالنا آسان نہیں تھا۔ یہی حال امریکہ کا بھی ہوا جہاں یہودیوں پر پابندیاں لگیں۔ کلو کلکس کلان جیسے نسل پرست گروہوں نے دیگر غیر سفید فام اقوام کی طرح یہودیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔
فرانس بھی سامی مخالفت سے جان نہیں چھڑا پایا۔ مسیحیت کے بڑے گروہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ پہلے ہی مذہبی بنیادوں پر یہودیوں کے خلاف تھے اور انقلاب فرانس میں بننے والے قوانین کو پسند نہیں کرتے تھے۔ بعد میں جب الفریڈ ڈریفس (1894-1906) نامی ایک یہودی فوجی پر جاسوسی کا الزام لگا تو سامی مخالفت میں مزید اضافہ ہوا۔ ڈریفس جرمنی کو فوجی راز دینے کے الزام میں قید تھا۔ اس کے حق میں واضح ثبوت ملنے کے بعد بھی اس کو رہا نہیں کیا گیا جس کی بنیادی وجہ اس کا یہودی ہونا تھا۔ بعد میں سیاسی دباؤ اور عوامی مخالفت پر اس کو 1906 میں رہا کیا گیا۔[50]کہنے کو تو یہ ایک عسکری معاملہ تھا تاہم اس نے فرانس کو دو حصوں میں تقسیم کرد یا، سیاست میں بنیاد پرستی کو رواج دیا اور سامی مخالفت کو ہوا دی۔
سامی مخالفت کی بدترین مثال نازی جرمنی نے مہیا کی جس نے یورپ کے دیگر علاقوں میں ہونے والی یہود دشمنی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ جنگ عظیم اول (1914-1918) کے بعد جرمنی کی حکومت نازیوں کے ہاتھ آئی جنہوں نے نسلی بنیادوں پر لوگوں کو قتل کرنے کی سرکاری پالیسی ترتیب دی۔ ان کے نزدیک جرمن قوم اور جرمن خون کے علاوہ کسی اور قوم کو کوئی امتیازی حق حاصل نہیں تھا۔ یہودی چونکہ خود نسلی تعصب اور قومیت سے جان نہیں چھڑا پائے تھے لہذا وہ بھی نازی پالیسی کا شکار بنے۔ مشہور ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر (1889-1945) نے قانونی طور پر اشتراکیت پسندوں، رومینیوں، معذوروں، ہم جنس پرستوں اور غلاموں سمیت لاکھوں یہودیوں کو دردناک موت سے ہمکنار کیا۔ یہودی مؤرخین کے مطابق نازیوں کے ہاتھوں 60 لاکھ یہودی لقمہ اجل بنے۔ اس سے پہلے تک یہودیوں کے پاس دو اضافی راستے ہوتے تھے کہ وہ یا تو مسیحیت اختیار کر لیں یا ملک چھوڑ کر چلے جائیں جبکہ نازی جرمنی نے انہیں سوائے سسکتی موت کے اور کچھ نہ دیا۔
یہودی تاریخ میں اس بدترین دور کے لیے مرگ انبوہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ہٹلر کے نزدیک یہودی زمین پر رینگتے ہوئے کیڑوں سے بھی بدتر تھے۔ اس کا مقصد ان کو دردناک عذاب سے دوچار کرنا تھا۔ اپنے ایک انٹرویو میں وہ اس حد تک گرا کہ جب اس سے یہودیوں کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ اقتدار ملتے ہی وہ پہلا کام یہودیوں کے وجود سے جرمنی کو پاک کرنے کا کرے گا۔ ان کی لاشوں کو چوراہوں پر اس وقت تک لٹکتا رہنے دے گا جب تک کہ ان سے تعفن نہ اٹھنے لگے۔[51] ہوا بھی ایسا ہی۔ جرمنی اور پالینڈ کے مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کو مارنے کے لیے گیس چیمبرز بنے۔ ہر طرف لاشوں کے ڈھیر ہوتے۔ تجربات کے لیے زندہ انسانوں کو منجمد کر دیا جاتا، پریشیر چیمبرز سے گزارا جاتا اور معصوم بچوں کے جسموں کو ایک دوسرے سے ملا کر سی دیا جاتا یہاں تک ان کے زخموں سے تعفن اٹھنے لگتا۔
خود مختار یہودی ریاست کا حصول
پے در پے مظالم سہنے سے یہودیوں کے بڑے طبقے میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ انہیں اس بات کا شدت سے ادراک ہونے لگا کہ وہ بحیثیت قوم ہی دھتکارے گئے ہیں اور بحیثیت قوم ہی اپنی بے بسی کی حالت سے نکل سکتے ہیں۔ قومیت کا یہ شعور اس قدر ان کے دل و دماغ پر چھانے لگا کہ بہت سی قدیم روایات کا دھندلا سا عکس ہی باقی رہ گیا۔ اب مسیحا کے تصور کی جگہ بھی قومیت، نسل پرستی اور ارضِ موعود نے لے لی۔ جس طرح رومیوں کے دور نے انہیں قومیت اور نسلی تعصب کو پروان چڑھانے کا موقع دیا تھا، یہی کام مسیحی یورپ نے کیا۔ وہ یہ سوچنے لگے کہ یورپ میں چاہے انہیں کتنی ہی آزادی مل جائے وہ اپنے خلاف نفرت لوگوں کے دلوں سے نہ نکال سکیں گے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ایک الگ ریاست قائم کرنے کا منصوبہ بنانا شروع کیا۔
محبان صہیون کا کردار
الگ ریاست کے قیام کے لیے یہودیوں میں متعدد تجاویز زیر غور تھیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ فلسطین میں اپنی چھوٹی بڑی آبادیاں قائم کی جانی چاہیں۔ اس کے لیے ایک مذہبی جذبہ بھی موجود تھا۔ پرتز سمولنسکن (1842-1885) نامی ایک روسی مصنف نے اپنی تحریروں کے ذریعے صہیونی نظریے کو فروغ دیا۔ اس کا خیال تھا کہ عبرانی زبان کو دوبارہ رائج کیا جانا چاہیے۔ بعد ازاں اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک اخباری مدیر الیزر بن یہودا (1858-1922) نے عبرانی زبان کے از سر نو رواج کو یہودی ریاست کے قیام سے جوڑ دیا۔ روس میں ہونے والے سامی مخالف پُرتشدد واقعات کے بعد اس تحریک کو مزید تقویت ملی۔
لیؤن پنسکر (1821-1891) کے قیادت سنبھالنے سے تحریک میں نئی جان پڑ گئی۔ اس نے 1882 میں ایک کتابچہ خوکار آزادی لکھ کر اس بات کی تشہیر کی کہ یہودیوں کی نئی ریاست یورپ سے باہر ہونی چاہیے۔ البتہ اس نے یہ تجویز نہیں پیش کی یہ ریاست کس علاقے میں قائم کی جائے۔[52] اب محبان صہیون نامی بہت سے گروہ بنتے گئے جن کا مقصد ایک نئی یہودی ریاست کی تشکیل تھا۔ فلسطین کے ساتھ چونکہ ایک مذہبی لگاؤ موجود تھا اس وجہ سے امیر یہودیوں کی مالی مدد سے فلسطین میں نئی آبادیاں قائم کی جانے لگیں۔ ایک انجمن قائم کی گئی جو یورپ کے مختلف ممالک سے اس کام کے لیے رقم فراہم کرتی۔ فلسطین منتقل کیے گئے یہودی زیادہ تر زراعت کے شعبے سے منسلک تھے۔ اس وقت فلسطین کی کل آبادی کا 85فیصد مسلمانوں پر مبنی تھا۔ اچھے تعلقات کی وجہ سے باہر سے آ کر بسنے والے صہیونیوں کے ہاں عرب ملازمین بھی کام کرنے لگے۔ مالی مشکلات اور آپسی ناچاقیوں کی وجہ سے محبان صہیون اگرچہ زیادہ عرصہ اپنا کام جاری نہ رکھ سکے لیکن ان لوگوں نے صہیونیت کے لیے فکری بنیادیں فراہم کر دیں۔[53]
صہیونیت کا کردار
انیسویں صدی کے اختتام پر یورپ سے اٹھنے والی اس تحریک کا مقصد یہودیوں کے لیے ایک خود مختار اور آزاد ریاست کا قیام تھا۔ اس کے کرتا دھرتا ایسے لوگ تھے جن کا خیال تھا کہ یہودیوں کو اب ریاست کی تشکیل کے لیے کسی مسیحا کے انتظار میں نہیں رہنا چاہیے بلکہ خود آگے بڑھ کر جیسے بھی ہو سکے اپنے لیے ایک علیحدہ ریاست حاصل کر لینی چاہیے۔ تھیوڈر ہرزل (1860-1904) نامی ایک آسٹرین صحافی کو اس تحریک کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ وہ ڈریفس کے واقعے سے بہت متاثر تھا جس کے نتیجے میں اس نے ایک پمفلٹ بعنوان یہودی ریاست: یہودی سوال کے حل کی جدید تجویز لکھ کر اس تنظیم کو نظریاتی بنیادیں فراہم کر دیں۔ اس کا کہنا تھا کہ غیر یہودیوں میں رہتے ہوئے سامی مخالفت سے بچنا ناممکن ہے تاہم ان ہی میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو الگ یہودی ریاست کے قیام میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ اس کے نزدیک یہ نئی یہودی ریاست لبرل اور جمہوری اصولوں پر استوار کی جانی تھی۔ اس تحریر کے بعد سیاسی اور عسکری بنیادوں پر تحریک کو منظم کیا جانے لگا۔ یورپ کے مختلف حصوں میں اس کے مراکز بنائے گئے۔ ایک بینک قائم کیا گیا تاکہ تنظیم کے مالی امور کا خیال رکھا جا سکے۔ ہرزل نے سلطنت عثمانیہ سے اس سلسلے میں بات چیت کر کے مالی تعاون کی پیش کش کی تاکہ انہیں رہنے کے لیے الگ جگہ مل جائے۔ عبدالحمید دوم (1842-1918) نے بعض خدشات کی وجہ سے ہرزل کو فلسطین میں ایک خودمختار ریاست دینے سے انکار کر دیا لیکن اس نے انہیں یہ اجازت دی کہ وہ ریاست کے دیگر شہریوں کی طرح سلطنت کے جس حصے میں چاہیں مقیم ہو جائیں۔
صہیونیوں کو فکری بنیادیں زوی کالسچر(1795-1874) جیسے مصنفین مہیا کر چکے تھے جنہوں نے عبرانی بائیبل اور تلمود کے مطالعے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہودی ریاست کے قیام کے لیے مسیحا کے انتظار کی ضرورت نہیں۔ محبان صہیون نے بھی فلسطین ہی میں یہودی آباد کاری شروع کر دی تھی اس وجہ سے صہیونیوں نے بھی فلسطین ہی کی صورت میں نئی ریاست کا مطالبہ کرنے کی ٹھانی۔ ایسا کرنے کی مذہبی وجہ تو موجود ہی تھی جس سے فائدہ تو اٹھایا جا سکتا تھا لیکن اپنایا جانا ممکن نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابتدائی صہیونی مفکرین ایک سیکولر ریاست بنانے کے حامی تھے۔ انہوں نے ایک نئی طرز کی یہودیت تشکیل دی تھی جس میں وحی اور روحانیات کا دخل نہیں تھا۔[54] زیادہ تر اصلاح شدہ یہودی ان نظریات کے حق میں تھے۔ انہوں نے نئی ریاست کے قیام کے لیے دل کھول کر مالی مدد فراہم کی۔ نازی جرمنی میں ہونے والے دردناک واقعات نے یہودیوں کی کسمپرسی میں مزید اضافہ کر دیا۔ اب ان کے نزدیک ایک نئی ریاست کا قیام ضروری عمل بن گیا۔ ترکوں نے چونکہ انہیں فلسطین میں خود مختار ریاست بنانے کی اجازت نہیں دی تھی اس لیے ان کی کدورت بھی ان میں سے بیشتر کے دلوں میں پلنے لگی۔
فلسطین پر حملہ
فلسطین میں موجود عربوں کو اس نئی صورت حال سے تشویش ہوئی کیونکہ وہاں کے بیشتر علاقوں میں مسلمان موجود تھے۔ یہودیوں کی آبادی اس سے پہلے 4 فیصد سے زائد نہیں تھی۔ صہیونیوں کے لیے اب یہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا کیونکہ وہ یورپ میں رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے اس کے لیے طاقت کے بے دریغ استعمال کو بھی اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔ عسکری طور پر وہ خود کو منظم کرنے لگے کیونکہ بغیر طاقت کے وہ عربوں سے معاملہ نہیں کر سکتے تھے۔[55]1917 میں برطانیہ نے ترکی کی طاقت کو توڑا اور فلسطین پر اپنا تسلط جما لیا۔ اسی سال صہیونیوں کے ساتھ ایک معاہدے میں برطانوی کابینہ نے یہ فیصلہ کیا کہ فلسطین پر یہودیوں کو اپنی نئی ریاست بنانے کی اجازت دے دی جائے گی۔ بالفرڈ ڈکلیریشن نامی اس فیصلے کا صہیونیوں نے دل کھول کر خیر مقدم کیا۔ اگرچہ اس سے پہلے انہیں دیگر کئی علاقے دیے جانے کی پیشکش ہو چکی تھی لیکن اب وہ فلسطین ہی میں اپنی نئی ریاست بنانا چاہتے تھے۔
اسرائیل کا قیام
1947 میں برطانیہ نے فلسطین کا معاملہ اقوامِ متحدہ کے سپر د کر دیا جہاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ عربوں کو ایک حصے سے بے دخل کر کے وہاں صہیونیوں کو اسرائیلی ریاست کے قیام کی اجازت دے دی جائے۔ اس فیصلے کو عربوں نے قبول نہیں کیا جس کے نتیجے میں مسلم یہودی فسادات روز مرہ کا معمول بن گئے۔ مارچ 1948 تک 1،000 یہودی ان فسادات کی نظر ہوئے۔[56] صہیونیوں نے بھی مسلح کوششیں جاری رکھیں اور اپنے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے عربوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی وجہ سے مسلمان مزید کسی جنگ کا بار نہیں سہہ سکتے تھے۔ ان کی آپسی لڑائیوں نے بھی انہیں کمزور کر دیا تھا۔ صہیونی اس بات سے آگاہ تھے اور برطانیہ نے ان کی کھلی حمایت کر کے ان کے عزم کو مزید حوصلہ بخشا تھا۔ اب وہ اس بات میں آزاد تھے کہ عربوں سے بزور قوت نبرد آزما ہو سکیں۔ عرب لیگ نے متحد ہو کر جنگ کرنے کی کوشش کی لیکن صہیونیوں کی عسکری طاقت کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے۔ آخر کار 14 مئی 1948 کو تل ابیب میں یہودیوں نے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔
اس اقتدار کے لیے صہیونی، عربوں پر مظالم بھی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ دیر یاسین جیسے علاقوں میں بسنے والے غریب اور نہتے عرب جنہیں اس جنگ سے کوئی سروکار نہ تھا بے رحمی سے صہیونی افواج کے ہاتھوں قتل ہوئے۔[57]عرب اقلیت تنگ آ کر ہجرت پر مجبور ہوئی۔ ان مہاجرین کی کل تعداد دس لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے اگلے ہی دن لاکھوں مسلمانوں کو ریاست سے بے دخل کر دیا گیا۔ عربوں نے اس دن کو نکبہ کے نام سے یاد رکھا اور ہر سال اس کو یادگار کے طور پر منانے لگے۔ 2011 میں اسرائیلی ریاست میں رہنے والے عربوں پر اس دن کو منانے پر بھی پابندی عائد ہوئی اور حکم عدولی پر بھاری جرمانہ کیا جانے لگا۔ وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی حکام سمجھتے ہیں کہ ان کے ہاں بسنے والے عرب دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ خوشحال ہیں۔ اس لیے نکبہ جیسے کسی دن کو منانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک صہیونیوں اور مسلمانوں میں کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ صہیونیوں کے لیے تاریخ ساز فتح 1967 کی ہے جب چھ روزہ جنگ میں انہوں نے یروشلم، غزہ کی پٹی، صحرائے سینا اور گولان کی پہاڑیوں سمیت کئی علاقوں کو پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ علاقے اقوام متحدہ کی تقسیم کے مطابق صہیونیوں کے نہیں تھے۔ 1973 میں مصر اور شام نے کوشش کر کے اپنے مقبوضہ علاقوں کو واپس لینا چاہا لیکن بُری طرح ناکام رہے۔ 1979 میں مصر کی اسرائیل سے صلح ہوئی جس کے نتیجے میں صحرائے سینا کا علاقہ اسے واپس کر دیا گیا۔ 1989 کے قریب اسرائیلی محاصروں، آبادکاریوں اور مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لیے غزہ کے اندر سے حماس نامی عسکریت پسند تحریک قائم ہوئی۔ 2005 میں اسرائیل نے غزہ کا مقبوضہ علاقہ واپس کر دیا جہاں حماس نے اپنی حکومت قائم کر لی۔ اب تک فلسطینیوں اور اسرائیلیوں میں امن کے لیے درجنوں مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن دونوں فریقین کسی قابلِ عمل حل پر متفق نہیں ہو سکے جس کی بڑی وجہ یہودی آباد کاریاں ہیں۔
اسرائیل اب مشرق وسطی میں بحیرہ روم کی ساحلی پٹی کے ساتھ آباد ہے۔ اس کے اطراف میں لبنان، شام، اردن اور مصر ہیں۔ یہ ایک طرح سے یورپ، ایشیا اور افریقہ کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کی سرکاری زبان عبرانی ہے۔ نیلے اور سفید پرچم پر نجم الداؤد یعنی چھ کونوں والا ستارہ آویزاں ہے۔ آبادی تقریباً 7.8 ملین ہے جس میں 75 فیصد یہودی اور 20 فیصد مسلمانوں کے علاوہ 5 فیصد دیگر اقلیتیں شامل ہیں۔ بڑے شہروں میں اس کا دارالخلافہ یروشلم (جسے 2017 میں امریکا نے تسلیم کیا)، تل ابیب، ہائیفا اور بئر السبع شامل ہیں۔ اس مذہبی و جمہوری ریاست کو چلانے کی ذمہ داری صدر ادا کرتا ہے جس کو چار سال بعد الیکشن کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ اس کی سرکاری ویب سائٹ https: //www.gov.il ہے۔ یہاں کے باسی اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ انہیں اس جگہ سے نکالا جائے کیونکہ ان میں سے بیشتر کا خیال ہے کہ دیگر علاقوں میں انہیں سامی مخالفت کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے۔
سامی مخالفت کی نئی لہریں
اگرچہ یورپ کے بیشتر علاقوں میں سامی مخالف نظریات وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑ رہے ہیں جن کے لیے باقاعدہ یورپ و امریکہ میں قانون سازیاں کی گئی ہیں۔ مسیحیوں کی جانب سے ویٹیکن دوم میں یہ اصولی فیصلہ کیا گیا کہ عصرِ حاضر کے یہودیوں کو مسیحؑ کی موت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ تاہم ریاستِ اسرائیل کے قیام نے سامی مخالفت کے ایک نئے انداز کو فروغ دیا۔ یہودیوں کو کم از کم دو ہزار سال بعد خود مختار ریاست کے قیام کا موقعہ ملا۔ اس سے پہلے تک وہ دوسروں کی غلامی میں زندگی بسر کرتے رہے۔ یہودی روایات کے مطابق بیشتر حکمرانوں نے ان سے جانوروں کا سا سلوک کیا۔ ان کی طویل تاریخ میں اسلام ان پر احسان بن کر ابھرا اور ان کو داؤدؑ و سلیمانؑ کے دور کے بعد عہدِ زریں نصیب ہوا۔ ایسا بھی ہوا کہ جب اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آیا تو کچھ لوگ ایک دفعہ پھر عہدِ زریں کے خواب دیکھنے لگے لیکن اس خواب کی تعبیر ممکن نہ ہو سکی۔ راسخ العقیدہ یہودی اس نئی ریاست کے قیام کے مذہبی بنیادوں پر خلاف تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ارضِ موعود کا حصول مسیحِ موعود کے ہاتھوں ہو گا لیکن بعد میں تدریجاً وہ بھی انہیں خطوط پر چلنے پر مجبور ہوئے جن پر صہیونیوں نے ان کو چلایا۔
یورپ میں جس طرح انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اس نے صہیونیوں کو مجبور کر دیا کہ اپنی الگ ریاست جس طرح بن سکے قائم کریں۔ چنانچہ انہوں نے فلسطین کے بہت سے علاقوں کو بزورِ قوت اپنے قبضے میں لے لیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، عربوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا، مختلف قوانین بنا کر ان کے حقوق غصب کرنا، قتل و غارت، آزادانہ نقل و حمل پر پابندی، عدالتی بے انصافیاں اور تشدد اس نئی اسرائیلی ریاست کا معمول ہیں۔[58] مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ ان کے دورِ حکومت میں یہودیوں کے ساتھ اچھا سلوک ہوتا رہا تھا لہذا یہودی بھی ان کے مفاد کا خیال رکھیں گے۔ جب استعماری طاقتیں مختلف مسلم علاقوں کو اپنے قبضے میں لے رہی تھیں تو یہودیوں سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اس لڑائی میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ اب یہودیوں کے طرز عمل نے انہیں مایوس کیا۔ وہ یہ کہنے پر آمادہ ہونے لگے کہ یہودی، استعماری قوتوں کے مددگار ہیں۔[59] یہودیوں کے کام کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ صہیونی دستاویزات (دا پروٹوکولز آف دا ایلڈرز آف زائن) کے عنوان سے ایک کتاب لکھی گئی جس میں یہ بیان تھا کہ صہیونی پوری دنیا پر قبضہ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس کتاب کے اردو سمیت متعدد زبانوں میں تراجم ہوئے جس سے یہودیوں کے خلاف مجموعی نفرت میں اضافہ ہوا۔ صہیونی خود اس کتاب اور اس میں لکھی گئیں باتوں کو مسترد کرتے ہیں لیکن سامی مخالفت کے حوالے سے جس قدر شہرت اس کتاب کو نصیب ہے شاید ہی کوئی دوسری کتاب اس درجہ تک پہنچ پائی ہو۔
ان تمام عوامل، جن میں جدید ریاست اسرائیل کا کردار سب سے اہم رہا ہے، نے مسلمانوں کو یہود مخالف بنا دیا ہے۔ اردو زبان میں متعدد ایسی کتب لکھی جا چکی ہیں جن میں انہیں "شر کے نمائندوں" کے طور پر پیش کیا گیا ہے (دیکھیے اس کتاب کا مقدمہ)۔ آئے دن مختلف مسلم ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو سرکاری طور پر قبول نہیں کیا، اس کے خلاف بیان جاری کرتے رہتے ہیں۔ مسلمان جو پہلے یہودیوں کو اہلِ کتاب اور ایک "امت" سمجھتے تھے اب سامی مخالفوں میں شامل ہونے لگے ہیں۔ لیکن یہ مخالفت اس طرح کی نہیں ہے جیسی یورپی مسیحیوں یا جرمن نازیوں نے ان سے روا رکھی بلکہ اس میں ایک نیا پن ہے۔ مسلمانوں میں اس کے پروان چڑھانے میں یہودی خود حصہ دار بنے ہیں۔ مسلمان، یہودی مذہب، نسل، قوم یا زبان کے پوری طرح مخالف نہیں ہوئے بلکہ ان کی مخالفت کا خصوصی مرکز اسرائیل ہے۔ جس نوعیت کی کاروائیاں اسرائیلی افواج کی طرف سے کی جا رہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ سامی مخالفوں کا ایک نیا گروہ خود یہودیوں میں وجود پا چکا ہے۔ یہ نئے سامی مخالف بھی ابراہیمؑ کی اولاد ہی کو قتل کر رہے ہیں اور انہیں اسی زمین سے بے دخل کر رہے ہیں جس کا وعدہ خدا نے آپؑ کے ساتھ کیا تھا۔ اگر اسرائیل کا قیام پرامن طریقے سے ہوتا چاہے اس میں یہودیوں کو کچھ انتظار ہی کرنا پڑتا تو شاید سامی مخالفت کی یہ نئی لہر پیدا نہ ہوتی اور خطہ امن و سکون کا گہوارہ ہوتا۔
مشقی سوالات
مختصر سوالات |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
تفصیلی سوالات |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
[1] Norman A. Stillman, The Jews of the Arab Lands: A History and Source Book (Philadelphia: The Jewish Publication Society of America, 1979), 4.
[2] Grayzel, A History of the Jews: From the Destruction of Judah in 586 BC to the Present Arab Israeli Conflict 227.
[3] Stillman, The Jews of the Arab Lands: A History and Source Book, 23.
[4] Eliezer Bashan, "Omar Ibn Al-Khaṭṭāb," in Encyclopaedia Judaica, ed. Michael Berenbaum and Fred Skolnik (Detroit: Macmillan Reference US, 2007), 15:419.
[5] John Efron, Steven Weitzman, and Matthias Lehmann, The Jews: A History (London: Routledge, 2016), 154.
[6] Stillman, The Jews of the Arab Lands: A History and Source Book, 27.
[7] القرآن 2: 256
[8] Menahem Mansoor, Jewish History and Thought: An Introduction (New York: KTAV Publishing House, 1991), 182.
[9] Martin Gilbert, In Ishmael's House: A History of Jews in Muslim Lands (London: Yale University Press, 2010), 39.
[10] Efron, Weitzman, and Lehmann, The Jews: A History, 155.
[11] عبدیاہ 1: 20
[12] Howard N. Lupovitch, Jews and Judaism in World History (London: Routledge, 2010), 68.
[13] Esperanza Alfonso, Islamic Culture through Jewish Eyes: Al-Andalus from the Tenth to Twelfth Century (London: Routledge, 2008), 61.
[14] Maurice H. Harris, History of the Mediaeval Jews: From the Moslem Conquest of Spain to the Discovery of America (New York: Bloch Publishing, 1921), 61.
[15] David Biale, Cultures of the Jews: A New History (New York: Schocken Books, 2010), 317.
[16] María Rosa Menocal, The Ornament of the World: How Muslims, Jews, and Christians Created a Culture of Tolerance (New York: Little, Brown and Company, 2002), 85.
[17] Kate Friedman, "Almoravids," in The Cambridge Dictionary of Judaism and Jewish Culture, ed. Judith R. Baskin (New York: Cambridge University Press, 2011), 10.
[18] Janes S. Gerber, The Jews of Spain: A History of the Sephardic Experience (New York: Macmillan, 1992), 57.
[19] Yitzhak Baer, A History of the Jews in Christian Spain, tr. Louis Schoffman (Skokie: Varda Books, 2001), 1: 61.
[20] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 152.
[21] Ibid., 159.
[22] Eliyahu Ashtor, "Egypt: Arab Period," in Encyclopaedia Judaica, ed. Michael Berenbaum and Fred Skolnik (Detroit: Macmillan Reference US, 2007), 230.
[23] Ibid., 231.
[24] Ibid., 230.
[25] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 160.
[26] Ashtor, "Egypt: Arab Period," 232.
[27] Mark R. Cohen, "Jews in the Mamlūk Environment: The Crisis of 1442 (A Geniza Study)," Bulletin of the School of Oriental and African Studies, University of London 47, no. 3 (1984): 426.
[28] Yaron Ayalon, "The Wiley-Blackwell History of Jews and Judaism," in The Wiley-Blackwell Histories of Religion, ed. Alan T. Levenson (West Sussex: Wiley-Blackwell, 2012), 310.
[29] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 211.
[30] Marc D. Angel, "Jews in the Ottoman Empire," in Encyclopedia of the Jewish Diaspora: Origins, Experiences, and Culture, ed. Avrum M. Ehrlich (Santa Barbara: ABC-CLIO, 2009), 777.
[31] Jessica Vance Roitman, The Same but Different?: Inter-cultural Trade and the Sephardim,1595–1640, ed. David S. Katz, vol. 42, Brill’s series in Jewish Studies (Boston: Brill, 2011), 75.
[32] Minna Rozen, "The Ottoman Jews," in The Cambridge History of Turkey: The Later Ottoman Empire, 1603 – 1839, ed. Suraiya N. Faroqhi (New York: Cambridge University Press, 2006), 258.
[33] Efron, Weitzman, and Lehmann, The Jews: A History, 221.
[34] Ashtor, "Egypt: Arab Period," 234.
[35] Yohanan Aharoni, The Jewish People: An Illustrated History (New York: Contiuum, 2006), 388.
[36] Magnus, Outlines of Jewish History: B.C 586 to C.E 1885, 140.
[37] Harris, History of the Mediaeval Jews: From the Moslem Conquest of Spain to the Discovery of America, 267.
[38] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 166.
[39] Melvin Koner, Unsettled: An Anthropology of Jews (New York: Penguin, 2004), 155.
[40] Yitzhak Baer, A History of the Jews in Christian Spain, tr. Louis Schoffman (Skokie: Varda Books, 2001), 2: 438.
[41] Harris, History of the Mediaeval Jews: From the Moslem Conquest of Spain to the Discovery of America, 278.
[42] Sean Martin, The Black Death (Harpenden: Pocket Essentials, 2007), 77.
[43] Marion A Kaplan, Jewish Daily Life in Germany 1618–1945 (New York: Oxford University Press, 2005), 13.
[44] Cecil Roth, The Jewish Contribution To Civilization (New York: Harper & Brothers Publishers, 1940), 37.
[45] Bava Metzia 5: 6
[46] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 229.
[47] Harris, History of the Mediaeval Jews: From the Moslem Conquest of Spain to the Discovery of America, 294.
[48] Chaim Schloss, 2000 Years of Jewish History: From the Destruction of the Second Bais Hamikdash Until the Twentieth Century (Jerusalem: Feldheim Publishers, 2002), 217.
[49] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 273.
[50] Cohn-Sherbok and Cohn-Sherbok, A Short History of Judaism, 103.
[51] Efron, Weitzman, and Lehmann, The Jews: A History, 407.
[52] Victor Karady, The Jews of Europe in the Modern Era: A Socio-historical Outline (Central European University Press: Budapest, 2004), 260.
[53] Mansoor, Jewish History and Thought: An Introduction, 376.
[54] Ibid., 381.
[55]Efron, Weitzman, and Lehmann, The Jews: A History, 395.
[56] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 314.
[57]Matthew Hogan, "The 1948 Massacre at Deir Yassin Revisited," Historian 63, no. 2 (2001): 1.
[58] https: //www.amnesty.org/en/countries/middle-east-and-north-africa/israel-and-occupied-palestinian-territories/report-israel-and-occupied-palestinian-territories/, accessed on 23-4-2021.
[59] Michel Abitbol, “From Coexistence to the Rise of Antagonisms,” in A History of Jewish-Muslim Relations: From the Origins to the Present Day, eds. Abdelwahab Meddeb and Benjamin Stora, trans. Jane Marie Todd and Michael B. Smith (Princeton, NJ: Princeton University Press, 2013), 307.
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |