Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مطالعہ یہودیت > چوتھا باب: کتب مقدسہ

مطالعہ یہودیت |
فروغ زبان پبلشرز
مطالعہ یہودیت

چوتھا باب: کتب مقدسہ
ARI Id

1676046516391_54335508

Access

Open/Free Access

Pages

109

تنخ

باب چہارم کے اہم نکات

  1. یہودی کتب مقدسہ کا تعارف۔
  2. مصنفہ و زبانی قانون میں فرق۔
  3. عبرانی بائیبل اور اس کے تراجم کا تعارف، تاریخ اور اہمیت۔
  4. مشنا، جیمارا ور تلمود کا تعارف۔
  5. ہلاخا کی تاریخ و اہمیت۔
  6. اپاکرفا، مدراش، زوہر اور سیدور کا تعارف۔

 

مذہبی یہودی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کی رہنمائی کے لیے خدا نے متعدد کتابیں نازل کیں۔ یہ کتب خدا کے الفاظ ہیں جو مختلف ادوار میں مختلف انبیا و رسل پر نازل ہوئے۔ چنانچہ وہ ان کتب کو یہودی مذہب کی بنیاد مانتے ہیں۔ یہودیوں کے تمام فرقے ان کتب کی عزت کرتے ہیں، تاہم معنی اخذ کرنے اور تشریحات میں دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح ان میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے جو مذہبی نقطہ نظر سے کافی اہمیت کا حامل ہے

 

 دریائے نیل کے کنارے اگنے والے نرسل کی طرح کے پودے سے بنائے گئے کاغذ جسے پیپرس/پپائرس/قرطاس مصری کہا جاتا ہے یا جانوروں کی چمڑی سے بنے کاغذ پر انہیں مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے لکھا۔ ہاتھ سے لکھی جانے والی ان کتب میں کاتبین نئے مشمولات بھی شامل کرتے رہے، مثلاً "کتابِ یسعیاہ" چونکہ تین مختلف ادوار سے متعلق ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسے تین مختلف لوگوں نے لکھا ہے۔ زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ تقریبا 400 قبل مسیح تک ان کتب کی تکمیل ہوتی رہی ہے۔[1] ان میں سے بیشتر کتب کی زبان عبرانی ہے جبکہ کچھ کتابیں آرامی زبان میں بھی لکھی گئیں ہیں۔ آرامی ذخیرہ الفاظ میں عبرانی سے ملتی جلتی ہے لیکن گرائمر اور لغوی اعتبار سے مختلف ہے۔۔ جلاوطنی سے پہلے تک یہ کتب یہودیوں کے ہاں زبانی رائج رہیں۔ جلا وطنی کے بعد جب ہیکل سلیمانی کی از سر نو تعمیر ہوئی تو عزراؑ نے انہیں اکٹھا کیا۔

 مجموعی طور پر ان کتب کو عبرانی بائیبل، تنخ یا تنک کہا جاتا ہے جس کے تین حصے ہیں۔ یہودی عام طور پر الفاظ کے مخففات بنانے کے شائق ہیں اس لیے ان تینوں حصوں کے لیے "تنخ/تنک" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ تنک میں "ت" سے مراد توریت، " ن" سے مراد "نوییم" یعنی نبی اور "خ/ک" سے مراد "کیتُویم" یعنی کتب ہے۔ لہذا عبرانی بائیبل توریت، نبی اور کتب کا مجموعہ ہے۔ ان تینوں حصوں میں الگ الگ کتابیں ہیں جن کو مختلف انداز میں گنا جاتا ہے، مثلاً سلاطین کے عنوان سے دو کتب ہیں جنہیں "اول سلاطین" اور "دوم سلاطین" بھی کہا جاتا ہے۔ یہودی ان دونوں کتابوں کو ایک ہی کتاب تصور کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں رائج طریقہ کار کے مطابق عبرانی بائیبل میں کتب کی کل تعداد 24 ہے۔ مجموعی طور پر عبرانی بائیبل اس ذکر سے معمور ہے کہ جس نے بھی خدا کے احکامات کو مانا، وہ فلاح پا گیا اور جس نے ان سے روگردانی کی، اس کو زوال سے کوئی نہیں بچا سکا۔ بنی اسرائیل جب بھی گناہ کرتے، ذلیل و خوار ہوتے اور جب جب خدا کے احکامات کی پیروی کرتے، دنیا کے حکمران بن جاتے۔

 عبرانی بائیبل میں بہت سے تاریخی واقعات بھی ملتے ہیں جن میں سے کئی ایک تو ایسے ہیں جن کا تاریخ کی دیگر کتب میں کوئی حوالہ نہیں، مثلاً مصری تاریخی کتب میں موسیؑ سے متعلق واقعات کا ذکر نہیں ملتا جس پر کچھ محققین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ فراعنہ کے لیے یہ کوئی بڑا واقعہ نہیں تھا کہ اسرائیلیوں کی ایک جماعت جو کہ ان کی غلام تھی موسیؑ، کی راہبری میں کنعان چلی گئی۔[2]اسی طرح خروج کے متعلق تاریخی آرا مختلف نوعیت کی ہیں، جن میں سے کچھ تو عبرانی بائیبل کے واقعات کی شہادت دیتی ہیں اور بہت سی ایسی ہیں جن کے مطابق خروج کو جس طرح یہودیت میں بیان کیا گیا ہے غیر واضح اور مبہم معلوم ہوتا ہے، مثلاً جس پہاڑ کے قریب اسرائیلیوں نے مصر سے نکل کر پڑاؤ ڈالا تھا وہیں موسیؑ کو خدا نے شریعت بھی دی تھی۔ خصوصیت سے یہ بتایا گیا ہے کہ کوہ سینا کے جنوب میں موسیؑ کی ملاقات خدا سے ہوئی لیکن تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے یہاں موجود کانوں کی وجہ سے مصریوں کا یہاں بہت آنا جانا تھا جو کہ اسرائیلیوں کے لیے ایک خطرناک بات تھی کیونکہ وہ انہیں کی غلامی سے فرار ہو کر آئے تھے۔ چنانچہ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ وہاں ان خطرات کے باوجود کیسے پڑاؤ کر پائے؟ دوم یہ کہ روایات میں اس پہاڑ کو لاوا اگلنے والا پہاڑ بیان کیا گیا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق ان اطراف کوئی بھی ایسا پہاڑ نہیں ہے جو لاوا اگلتا رہا ہو۔ اسی طرح خروج کی تاریخ کے متعلق بائیبل یہ بتاتی ہے کہ وہ سلیمانؑ کے عہد سے 480 سال پہلے کا زمانہ ہے۔ اس لحاظ سے خروج کا زمانہ تقریباً 1480 قبل مسیح بنتا ہے۔ تاہم اگر اسرائیلی، رامسیس دوم کے دور میں غلامانہ زندگی بسر کرتے رہے ہیں تو خروج کا زمانہ بہت بعد کا ہونا چاہیے۔[3]

 تنخ کے تین حصے

  1. توریت (5 کتب)
  2. نبی (8 کتب)
  3. کتابیں (11 کتب)

توریت کی پانچ کتابیں

  1. پیدائش
  1. خروج
  1. احبار
  1. گنتی
  1. استثنا

 

 

آثار قدیمہ کی تحقیقات سے ایسی معلومات بھی ملتی ہیں جو عبرانی بائیبل کی بعض روایات کی تصدیق کرتی ہیں، مثلاً ًالخلیل گاؤں جو آج بھی سلسلہ کوہ خلیل کی تین ہزار فٹ بلندی پر آباد ہے، کا ذکر توریت میں موجود ہے۔ ابراہیمؑ کی یادگار، یہ گاؤں یروشلم سے بیس میل جنوب میں واقع ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں عبرانیوں نے اولین پڑاؤ ڈالا۔ یہاں آج بھی مقبروں کا ایک سلسلہ موجود ہے جس میں مسجد الخلیل یا الحرم الابرہیمی سب سے نمایاں ہے۔ یہ جگہ ابراہیمؑ نے اپنی تدفین کے لیے خریدی تھی۔ یہاں ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں روایات کے مطابق ابراہیمؑ دفن ہیں۔ ان کے ساتھ سارہؒ کا مقبرہ ہے اور ساتھ دو چھوٹے مقبرے اسحاقؑ اور ربقہ کے ہیں۔ قریب ہی یعقوبؑ اور یوسف ؑ کے مقبرے ہیں۔ الخلیل گاؤں یہودیت کا ایک تاریخی ثبوت اور یادگارِ ابراہیمی ہے۔

عبرانی بائیبل میں شامل یہودیوں کے خلاف منفی آرا کو بھی یہودیت کی سچائی کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مثلاً داؤدؑ کا شمار یہودی قائدین میں کیا جاتا ہے۔ عبرانی بائیبل نے جہاں ان کی تعریف کی ہے، وہیں ان کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ اس بات پر خدا ان سے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک سپاہی کی بیوی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا اور اس سپاہی کے قتل کا سامان کیا۔[4] اس کے علاوہ یہ غیر یہودیوں (جیسا کہ سائرس) کے متعلق مثبت آرا بھی رکھتی ہے جو یہودیوں کے نزدیک اس کی سچائی کی ایک اور دلیل ہے۔

توریت

توریت/تورات/القانون/اسفار خمسہ/شریعت، عبرانی بائیبل کا پہلا اور اہم ترین حصہ ہے جس کا نزول موسیؑ پر ہوا۔ اس کا لفظی مطلب "سِکھانا" اور "رہنمائی" کرنا ہے۔ اس میں پانچ کتابیں شامل ہیں جن کے نام بالترتیب پیدائش، خروج، احبار، گنتی اور استثنا ہیں۔ چونکہ اس میں پانچ کتابیں ہیں اس لیے اسے "خماش" بھی کہہ دیا جاتا ہے جو عبرانی زبان میں پانچ کے عدد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سیناگاگ کے اندر توریت کو طومار / سکرول میں درج کر کے رکھا جاتا ہے جسے "سوفر" لکھتے ہیں۔ سوفر ہاتھ سے توریت کو طوماروں پر لکھنے لیے باقاعدہ تربیت حاصل کرتے ہیں۔ ہاتھ سے لکھی گئی سوفروں کی توریت کو "سفر توریت" کہا جاتا ہے۔ جب یہودی، تاریخ کے مختلف ادوار میں غلام بنے اور ان کے ہیکل کو تباہ کر دیا گیا تو توریت کی تلاوت اور سبت کی پیروی ہی ان کے لیے سب سے بڑی عبادت تھی۔ آج بھی ایک مذہبی یہودی کے گھر دو چیزیں لازمی ہوتی ہیں: ایک توریت اور دوسری سیدور یعنی عبادات کی کتب۔ یہودیوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ توریت کی تلاوت کریں، چاہے وہ گھر بیٹھے ہوں یا چل پھر رہے ہوں۔[5]

 توریت دنیا اور انسان کی تخلیق سے متعلق گفتگو سے شروع ہوتی ہے، بنی اسرائیل کے مصر اور کنعان کے سفروں کے متعلق معلومات فراہم کرتی ہے اور موسیؑ کی وفات کے ساتھ اس کا اختتام ہو جاتا ہے۔ یہ یہودیوں کو دیے گئے اخلاقی اور رسمی قوانین کے متعلق بتلاتی ہے، خدا کی آگاہی دیتی ہے اور اسے بطور خالق، قانون ساز اور نجات دہندہ پیش کرتی ہے۔ اس میں موجود بزرگوں کے بیانیوں میں شادی بیاہ سمیت وراثت، تعلقات عامہ اور اراضی کی تقسیمات کے حوالے سے احکامات کا علم ہوتا ہے۔ یہ احکامات یہودی سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے متعلق معلومات کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں۔[6] ایک مذہبی یہودی کے نزدیک توریت مندرجہ ذیل خصوصیات سے معمور ہے:

  1. یہ انصاف، محبت اور رحمدلی کی داستان ہے۔
  2. یہ مقدس ایام، تہواروں اور عبادات کی رہنما ہے۔
  3. یہ دیوانی و فوجداری سمیت زندگی گزارنے کے دیگر قوانین کا احاطہ کرتی ہے۔
  4. یہ مذہبی، معاشرتی، سیاسی اور گھریلو نوعیت کے احکامات سے معمور ہے۔
  5. یہ بنی اسرائیل کے مقدس تصور کی وضاحت کرتی ہے اور ان روحانی پیشواؤں کا بیان ہے جن سے تمام دنیا نے برکات حاصل کیں۔
  6. یہ ایک ادبی شاہکار ہے جس میں قصوں کو ایسے بیان کیا گیا ہے، جو ایک مذہبی کتاب ہی کے شایان شان ہے۔
  7. کسی یہودی کے لیے یہ مندرجہ بالا باتوں سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ یہ اس کے یہودی اور مذہبی ہونے کا ماخذ ہے۔[7]

مختصر یہ کہ توریت، یہودیت کا خلاصہ سمجھی جاتی ہے۔ یہودی اس کو 54 حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ہر ہفتے ایک حصہ پڑھا جاتا ہے۔ ہر حصے کا پہلا جزو سبت کی شام کو پڑھا جاتا ہے اور سوموار اور جمعرات کی صبح کو دوہرایا جاتا ہے۔ مکمل حصے کو سبت کی صبح پڑھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی دو حصوں کو ملا کر پڑھا جاتا ہے تاکہ سال کے اندر اندر اسے ایک دفعہ ختم کر لیا جائے۔ اسی طرح تہواروں میں بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس میں شامل کتب کا خلاصہ درج ذیل ہے:

کتابِ پیدائش

          پیدائش توریت کی پہلی کتاب ہے، جسے عبرانی زبان میں "بیریشیت" کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب دنیا اور اولین انسان کی تخلیق کی تاریخ ہے۔ اس میں آدمؑ و ہوا کا قصہ، ابراہیمؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور یوسفؑ کے ادوار اور ان کے خاندانوں کے متعلق معلومات درج ہیں۔ ابراہیمؑ سے کیے گئے عہد کاذکر بھی اس حصے میں آیا ہے جس کی وجہ سے یہ کتاب یہودیوں کے لیے خاصی اہم ہے۔ اس میں ان کے مصر میں آباد ہونے تک کی تاریخ ہے۔

کتاب خروج

          خروج توریت کی دوسری کتاب ہے۔ اسے عبرانی زبان میں "شِموت" کہا جاتا ہے جس کا لفظی معنی "نام" ہے۔ عبرانیوں کے مصریوں کی غلامی سے نکلنے کے واقعات، صحرائے سینا میں قیام، خدا کی بنی اسرائیل پر عنایات، توریت اور احکام عشرہ کا حصول اس کتاب کے بنیادی مشمولات ہیں۔

کتاب احبار

          احبار توریت کی تیسری کتاب ہے جسے عبرانی زبان میں "وایکراہ" اور لاطینی زبان میں لاوی کہا جاتا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کتاب 1410 سے 1450 قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں تصنیف کی گئی تھی۔ اس کے ذریعے بنی اسرائیل کو ایک سچی اور بہتر زندگی گزارنا سکھایا گیا ہے۔ مذہبی پیشواؤں کو وہ احکام و قوانین فراہم کیے گئے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر وہ مذہبی معاملات بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں۔ اسی کتاب میں یہودیوں کو حلال و حرام غذا کا فرق بھی سمجھایا گیا ہے۔

کتاب گنتی

نبیوں کی کتب کی تقسیم

انبیائے متقدمین

انبیائے متاخرین

چھوٹے انبیا

بڑے انبیا

 

          گنتی توریت کی چوتھی کتاب ہے جسے عبرانی زبان میں "بامِدبار" کہا جاتا ہے۔ اس کے لفظی معنی "صحراؤں میں" کے ہیں۔ یہ کتاب صحرائے سینا میں موجود بنی اسرائیل کی مردم شماری سے شروع ہوتی ہے اور اس سفر کی مشکلات پر روشنی ڈالتی ہے۔ مزید یہ بنی اسرائیل کو دیے گئے اخلاقی و رسمی قوانین بیان کرتی ہے۔

کتاب استثنا

          استثنا توریت کی پانچویں اور آخری کتاب ہے جسے عبرانی زبان میں "ذواریم" کہا جاتا ہے۔ اس میں موسیؑ کا ایک طویل خطبہ موجود ہے جو انہوں نے ارضِ موعود میں داخل ہونے سے پہلے بنی اسرائیل کو دیا اور تنبیہ کی کہ اگر انہوں نے خدا کو بھلا دیا تو ان پر کیسا برا وقت آ سکتا ہے۔ اس کتاب کا خاتمہ موسیؑ کی وفات کے ساتھ ہوتا ہے۔

نبی

عبرانی بائیبل کا دوسرا حصہ نبییم(نبی) کہلاتا ہے۔ اس حصے میں انبیا کی آٹھ کتابیں شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک کتاب میں بارہ انبیا کا تذکرہ ہے۔ یہ آٹھ کتابیں یوشعؑ کی رہنمائی میں بنی اسرائیل کے کنعان پہنچنے سے لے کر بابل میں ان کی جلا وطنی تک کا بتاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کتابوں میں انبیا کی ہدایات بھی موجود ہیں جو انہوں نے وقت پڑنے پر بنی اسرائیل کو دیں تاکہ وہ مشکل حالات کا مقابلہ کر سکیں اور بہت دیر ہو جانے سے پہلے پہلے خدا سے معافی مانگ لیں۔ توریت کے بعد انبیا کی کتب کو یہودیت میں سب سے بڑا درجہ حاصل ہے۔ ان آٹھ کتب کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے کو انبیائے متقدمین کہا جاتا ہے اور دوسرے حصے کو انبیائے متاخرین کہا جاتا ہے۔ انبیائے متقدمین میں یوشع، قضاۃ، سموئیل ، سلاطین اور بادشاہ شامل ہیں جبکہ انبیائے متاخرین میں یسعیاہ، یرمیاہ، حزقی ایل اور بارہ نبی شامل ہیں۔ انبیائے متاخرین کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: بڑے انبیا اور چھوٹے انبیا۔ ان کو بڑے چھوٹے میں تقسیم کرنا ان کی اہمیت میں کمی یا زیادتی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی کتب کی لمبائی کی وجہ سے ہے۔ ان کتب میں موجود واقعات کا خلاصہ دوسرے باب میں بیان ہو چکا ہے۔ ان کا مختصر تعارف ذیل میں درج کیا جا رہا ہے:

انبیائے متقدمین

  1. کتابِ یوشع میں موسیؑ کی وفات سے لے کر یوشعؑ کی جانشینی تک کے واقعات درج ہیں۔ یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح آپؑ کی رہنمائی میں بنی اسرائیل دریائے اردن پار کر کے مختلف جگہوں پر آباد ہوئے۔ اس کتاب کا اختتام آپؑ کے بنی اسرائیل کو دیے گئے ایک خطبے اور آپؑ کی وفات کے واقعات سے ہوتا ہے۔
  2. کتاب قضاۃ میں بنی اسرائیل میں مختلف وقفوں سے بھیجے گئے بارہ قاضیوں یا منصفوں کے واقعات ہیں جنہوں نے مشکل وقت میں بنی اسرائیل کو سہارا دیا اور ان کو خدا کی عبادت کی طرف لے کر آئے۔
  3. کتب سموئیل میں سموئیلؑ کی زندگی، بنی اسرائیل کو کی گئی نصیحتیں اور سلاطین کے ساتھ گزارے وقت کا بتایا گیا ہے۔
  4. کتب سلاطین میں بادشاہوں کے ادوار، متحدہ اسرائیل کی تقسیم اور دونوں ریاستوں اور ہیکل سلیمانی کی تباہی کے واقعات درج ہیں۔

انبیائے متاخرین

  1. کتابِ یسعیاہ ایک طویل کتاب ہے جو 66 ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں کم از کم دو مختلف یسعیاہ کے واقعات ہیں جو دو مختلف اشخاص تھے۔ پہلے یسعیاہ آٹھویں صدی قبل مسیح کے دوران تھے اور دوسرے چھٹی صدی قبل مسیح کے۔ پہلے حصے میں بہت سی پیشین گوئیاں ہیں اور خدا کے عذاب کے متعلق خبر دی گئی ہے۔ دوسرے یسعیاہ والے حصے میں ایک ایسے دور کے متعلق بتایا گیا ہے جہاں خدا کے احکامات پورے ہونے کی وجہ سے امن و امان ہے۔
  2. کتابِ یرمیاہ میں ہیکلِ سلیمانی کی تباہی اور یہودیوں کی جلا وطنی کے واقعات ہیں۔
  3. کتابِ حزقی ایل میں عہد بابل میں کی گئی پیشن گوئیاں ہیں۔ یہ کتاب ہیکل سلیمانی کے دوبارہ بننے کے بعد روحانی پیشواؤں کو دیے گئے احکامات، قربانی اور عبادات وغیرہ کا بتاتی ہے۔
  4. کتابِ ہوسیع ظاہری قربانی کی پستی اور اخلاقی سر بلندی کی اہمیت بیان کرتی ہے۔
  5. کتابِ یوایل میں یہودیوں کو معافی مانگنے کی ہدایات کی گئی ہیں۔ بنی اسرائیل کے دشمنوں کو وعید کی گئی ہے کہ ایک دن ان کو سزا ملنی ہے اور حکومت ان سے چھین لی جائے گی تاکہ یہودی قوم امن سے رہ سکے۔
  6. کتابِ عموس میں لوگوں اور قوموں کے درمیان رحم دلی اور خدا ترسی کو فروغ دینے کی ہدایات ہیں۔
  7. کتابِ عبدیاہ میں ادومیوں کے زوال کی روایات ہیں۔
  8. کتابِ یوناہ میں گناہوں سے معافی مانگنے اور معافی کی اہمیت سے متعلق روایات ہیں۔
  9. کتابِ میکاہ میں بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کی وجہ سے یروشلم کی تباہی اور خدا کے احکامات پر عمل کی ہدایات ہیں۔
  10.  کتابِ ناحوم میں اشوریوں کی پستی اور اسرائیل کے لیے خوشیوں کی پیشن گوئیاں ہیں۔
  11. کتابِ حبقوق میں برائی کے برے انجام کے متعلق خبردار کیا گیا ہے۔
  12. کتابوں کی تقسیم

    1. حصہ حکمت
    2. حصہ مجلات
    3. حصہ تاریخ
    کتابِ صفنیاہ میں بھی برے لوگوں کی تباہی کی پیشن گوئیاں اور معافی کی برکات و ثمرات کا ذکر کیا گیا ہے۔
  13. کتابِ حجی میں یہودیوں کو جلا وطنی میں امن سے رہنے کی تلقین اور ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کے متعلق ہدایات ہیں۔
  14. کتابِ زکریا میں زکریاؑ کے حوالے سے مایوس لوگوں کو امید دلانے کی روایات ہیں۔
  15. کتابِ ملاکی میں عبادات اور اخلاقی قوانین کی پیروی نہ کرنے پر تنبیہ کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مسیحا، قیامت اور دائمی امن کے متعلق معلومات مہیا کی گئی ہیں۔

کتابیں

          کیتُویم، کتابیں یا تصنیفات عبرانی بائیبل کا تیسرا اور آخری حصہ ہے۔ اس حصے میں کل گیارہ کتابیں ہیں جن کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے حصے میں شاعری کی تین کتابیں ہیں جن کے نام بالترتیب زبور، امثال اور ایو ب ہیں۔ ان تین کتب سے مل کر حصہ حکمت و دانائی بنتا ہے۔ ان کو حصہ حکمت اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کتب میں قربانی اور رسمی عبادات وغیرہ کی بجائے علم و حکمت کی باتیں ہیں جو انسان کی عقلی رہنمائی کرتی ہیں۔ مجموعی طور پر ان تینوں

تنخ کے مشہور تراجم

  1. ترجمین
  1. ہفتادی ترجمہ
  1. پشیطتا
  1. سامری ترجمہ

 

کتابوں میں حکمت، ادب، شعر، غزل، تاریخ، مذہبی فلسفہ اور محبت پر بات کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں پانچ مجلات ہیں جو طوماروں میں لکھے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر طومار مختلف یہودی تہواروں پر پڑھا جاتا ہے۔ مجلات میں غزل الغزلات، روت، نوحہ، واعظ اور آستر شامل ہیں۔ تیسرا حصہ تاریخی کتب پر مبنی ہے جن میں دانی ایل، عزرا و نحمیاہ اور تواریخ شامل ہیں۔ ان کتب میں جلا وطنی کے بعد کا زمانہ(586-300 ق۔ م) اور ہیکل کی تعمیر نو کے متعلق معلومات درج ہیں۔ کتابوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:

حصہ حکمت

  1. زبور میں داؤدؑ کی 150 عبادات ہیں۔ یہ خدا کی محبت کے گیت اور نوحے ہیں۔
  2. کتابِ امثال میں مختصراً راستباز زندگی گزارنے کی ہدایات ہیں۔
  3. کتابِ ایوب میں ایوبؑ پر آنے والی سختیاں اور ان سے مقابلے کا ذکر ہے جن سے اچھائی اور برائی کے مفہوم کی وضاحت ہوتی ہے۔

حصہ مجلات

  1. غزل الغزلات ایک محبت بھری نظم ہے جو مرد اور عورت کی روحانی و جسمانی یک جائی کی داستان ہے۔ اسے خدا اور انسان کی محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
  2. کتابِ روت ایمانیات کی کتاب ہے جس میں خدا اور توریت پر ایمان کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی غیر یہودی عورت کا قصہ ہے، جو صدقِ دل سے خوش ہو کر خدا پر ایمان لائی تھیں اور شریعت کو اپنایا تھا۔
  3. کتاب نوحہ ہیکل کی تباہی کی غمزدہ داستان ہے۔ چونکہ تیشا باؤ کے دن ہیکل تباہ ہوا تھا اس لیے تیشا باؤ کے تہوار پر اس کتاب کو پڑھا جاتا ہے۔
  4. کتاب واعظ میں زندگی کے معنی، حقیقت اور اسے گزارنے کے اعلی مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔ اسے سکوت/عید خیام کے موقع پر فصل کی کٹائی کے وقت پڑھا جاتا ہے۔
  5. کتابِ ایستر خدا سے وفاداری اور بنی اسرائیل کی ہمت کی داستان ہے۔ اسے پیوریم کے تہوار پر پڑھا جاتا ہے۔

حصہ تاریخ

  1. کتابِ دانی ایل، خدا کی طاقت اور حکمرانی کے متعلق معلومات فراہم کرتی ہے۔
  2. کتابِ عزرا و نحمیاہ میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر، عہدِ خداوندی کی تجدید اور توریت کے دوبارہ اکٹھے کرنے اور رواج پانے کے متعلق معلومات ملتی ہیں۔
  3. تواریخ دو حصوں پر مبنی ہیں: تواریخ اول و دوم۔ ان کتب میں یہودی تاریخ کو اجمالا ًبیان کیا گیا جو دنیا کی تخلیق سے لے کر ہیکل سلیمانی کی تعمیر پر مشتمل ہے۔

مشہور تراجم

عبرانی بائیبل دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے جن میں سے کچھ تراجم زمانہ قدیم سے یہودیوں میں مشہور ہیں۔ ذیل میں ان کا تعارف و تاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔

ترجمین

          ترجمین آرامی زبان میں کیے گئے عبرانی بائیبل کے زبانی تراجم کو کہتے ہیں۔ آرامی لفظ "ترجُم" کا اردو متبادل بھی ترجمہ ہی ہے۔جیسا کہ دوسرے باب میں بیان کیا جا چکا ہے کہ بابل میں غلامی کے درمیان یہودیوں سے عبرانی بائیبل کا اصل نسخہ کھو گیا تھا۔ بعد میں عزراؑ نے ان کے لیے اسے جمع کیا۔ یہود میں عبرانی کی بجائے آرامی زبان رواج پا چکی تھی۔ اس دور میں ان کو عبرانی بائیبل کے مطالب سمجھانے کے لیے لاویوں کو مقرر کیا گیا تھا جو خصوصی طور پر توریت کا زبانی ترجمہ کر کے لوگوں کو مذہب کا علم دیا کرتے۔ زبانی ترجمہ کے دو نسخے زیادہ مشہور ہیں:

  1. ترجُم اونقیلسو جو تور یت کی پانچ کتابوں کا ترجمہ ہے۔ یہ دوسری صدی عیسوی میں احاطہ تحریر میں لایا گیا۔ اسے یہودیوں کے ہاں مستند ترجمہ مانا جاتا ہے۔ تلمود کے مطابق اس کے مصنف ایک رومی تھے جنہوں نے تنائیم کے دور(35-120) میں یہودیت قبول کی تھی۔[8]
  2. ترجُم یوناتھن جو نبیوں کی کتب کا ترجمہ ہے۔ اس ترجمہ نے یمنی یہودیوں میں رواج پایا۔ اس کے مصنف کو تلمود نے یوناتھن بن عزیل کے نام سے یاد کیا ہے۔[9]

ہفتادی ترجمہ

جیسا کے دوسرے باب میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یونانیوں کے زیر اثر یہودیوں میں یونانی زبان و ثقافت نے رواج پایا۔ اس دور میں بیشتر یہودیوں کے لیے عبرانی ایک مشکل زبان بن گئی تھی۔ اس دور میں کیے جانے والے عبرانی بائیبل کے یونانی ترجمے کو ہفتادی ترجمہ کہتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یونانی میں کیے گئے ترجمہ کو ابتدا میں مشکوک سمجھا گیا لیکن پھر ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے ان کا اس ترجمے پر یقین مستحکم کر دیا۔ واقعہ یوں ہے کہ ستر مختلف علمائے یہود جو ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے جب مذہبی ادب کا ترجمہ کرتے ہیں تو سب کے تراجم بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ تراجم کی اس مماثلت نے لوگوں کو یقین دلا دیا کہ یہ درست ترجمہ ہے۔ ستر لوگوں کی نسبت ہی سے اس ترجمہ کو ہفتادی کہا گیا ہے۔

 کچھ دستاویزات سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اس ترجمے کے لیے ہدایات اسکندریہ سے بطلیموس دوم (285-246ق۔ م) کی جانب سے یروشلم میں کاہن اعظم کو موصول ہوئیں تھیں جس میں یہ کہا گیا تھا کہ یہودیوں کے بارہ قبیلوں میں سے چھ چھ شخص چن کر بھیجے جائیں جو شریعت کو اچھی طرح سمجھتے ہوں اور ترجمہ کرنے پر قادر ہوں۔ جب ترجمہ مکمل ہوا تو یہودیوں کو اکٹھا کر کے ان کے سامنے اس ترجمے کو اونچی آواز میں پڑھا گیا۔ ترجمہ سن کر یہودیوں کے بڑے بوڑھوں نے اس ترجمے کی صداقت کی توثیق کی۔[10] بہت سے یہودیوں کے نزدیک یہ ترجمہ مشکوک ہے لہذا وہ اس میں شامل کتب، مثلاً مکابیین اور سیراخ پر عبرانی بائیبل کی دیگر کتب کی طرح اعتقاد نہیں رکھتے۔ بعض مصنفین نے عبرانی اور یونانی تراجم کا موازنہ کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس ترجمے کا ایک مقصد یہودیوں کو یونانیت کی طرف لے جانا تھا۔[11]

پشیطتا

          پشیطتا/پشیتتہ سریانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب "سادہ نسخہ" ہے۔ یہ ترجمہ جو سریانی زبان میں کیا گیا سریانی کلیساؤں میں رائج رہا ہے۔ عصر حاضر میں اس کے کئی نسخے دریافت ہوئے ہیں جن کی تعداد 200 سے زائد ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شاید یہ 200 عیسوی کے قریب لکھا گیا۔ حالانکہ اس میں عبرانی بائیبل کا مکمل ترجمہ موجود ہے تاہم اس نے زیادہ تر مسیحیوں ہی میں رواج پایا۔ کچھ مصنفین کا استدلال ہے کہ اس میں موجود داخلی ثبوت اس بات کے عکاس ہیں کہ یہ ترجمہ اصل عبرانی زبان سے کیا گیا تھا جس وجہ سے اس کا تعلق یہودیت اور مسیحیت دونوں سے ہے۔[12] بہر کیف یہودیوں کے ہاں یہ ترجمہ زیادہ مقبول نہیں ہو پایا۔ شاید اس کی وجہ اس کا کلیساؤں میں رواج پانا ہے۔

سامری ترجمہ

          سامری خود کو اسرائیلی گروہ سمجھتے ہیں جو اپنا سلسلہ نسب یوسفؑ اور لاوی سے شروع کرتے ہیں۔ اولین دور میں سامریوں نے یہودیوں ہی کے ایک فرقے کے طور پر رواج پایا اور سامری زبان میں توریت کا ترجمہ کیا۔ یہودی جس عبرانی متن پر بھروسہ کرتے ہیں اسے مسورتی متن کہا جاتا ہے۔ مسورتی اور سامری متن باہم مختلف ہیں۔ اس لیے یہودیوں کے ہاں اس ترجمے کو مستند نہیں سمجھا جاتا۔ سامری نسخے کے مطابق یہ احکام عشرہ کا حصہ ہے کہ تمام قربانیاں جبل جرزیم پر ادا کی جائیں۔ سامری ترجمہ میں جبل جرزیم کو ہی قربان گاہ تعمیر کرنے کی جگہ بتایا گیا ہے۔ اس کے برعکس مسورتی متن کے احکام عشرہ میں یہ حکم موجود نہیں ہے۔

عصر حاضر کے تراجم

چونکہ مسیحیوں کے نزدیک بھی عبرانی بائیبل، مقدس کتاب ہے لہذا بہت سے مسیحیوں نے بھی اس کا ترجمہ کیا ہے۔ اس کا مشہور نام بائیبل یا عہد نامہ قدیم بھی مسیحیت ہی سے رواج پایا۔ بائیبل یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب "کتاب" ہے۔ عبرانی بائیبل کے یہودی اور مسیحی نسخوں میں ترتیب کا فرق ہوتا ہے۔ انگریزی بولنے والے علاقوں میں رہائش پذیر یہودی زیادہ تر مسیحیوں کی ترتیب دی ہوئی بائیبل خصوصاً کنگ جمیز ورژن استعمال کرتے ہیں جو ان کے نزدیک اس لیے درست ہے کہ یہ عبرانی سے ترجمہ کی گئی تھی۔ عبرانی بائیبل کو سب سے پہلے 1488 عیسوی میں اٹلی سے شائع کیا گیا۔ بعد میں اس کا ایک عبرانی ترجمہ اور ربیائی تفاسیر 1516عیسوی میں دانیال بومبرگ(تقریبا 1483-1549) نے شائع کی جو ایک مسیحی تھے۔ اس کے بعد سے بہت سے نسخے شائع ہو چکے ہیں جن کی بنیاد مسورتی متن یعنی وہ عبرانی متن ہے جو عام طور پر یہودیوں کے ہاں رائج ہے۔[13]مسیحیوں نے بائیبل کا تقریباً ہر زبان میں ترجمہ کر دیا ہے۔ کچھ ایسے نسخے بھی شائع ہوئے ہیں جو تفاسیر سے بھی مزین ہیں۔ مشہور برطانوی ربی جوزف ہرمن ہرٹز (1872-1946) کا شائع کردہ توریت کا نسخہ بھی کافی مقبول ہے۔ اس کے علاوہ جیوش پبلیکیشن سوسائٹی کے تراجم اور آرٹ سکرول کے ترجمہ کو خصوصی مقبولیت حاصل ہے جس پر عبرانی اور انگریزی ساتھ ساتھ ہیں۔

زبانی قانون

ربیوں کا یہ کہنا تھا کہ موسیؑ کو کوہ سینا پر دو قوانین دیے گئے تھے: "لکھا ہوا قانون" یعنی تنخ اور "زبانی قانون" جس کے وہ خود امین ہیں۔ یہ زبانی قانون ہی ہیکل کی تباہی کے بعد کی یہودیت جسے ربیائی یہودیت کہا گیا کے رواج کا سبب بنا۔ وجہ یہ تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے سوالات اٹھنے لگے جن کے متعلق براہ راست معلومات شریعت میں موجود نہیں تھیں۔ خاص طور پر جب وہ لوگ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے یا بابل اور فارس کے علاقوں میں رہائش پذیر تھے تو ان کا طرزِ زندگی تبدیل ہو چکا تھا۔ یہ نیا طرزِ زندگی اپنے ساتھ نئی مشکلات اور سوالات لے کر آیا۔ اب ان کے مذہبی پیشوا آپس میں مل بیٹھ کر ہر نئے آنے والے مسئلے پر گفتگو کرتے اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتے کہ ان کے آباؤ اجداد نے اس مسئلے یا اس سے ملتے جلتے مسئلے کے لیے کیا حل پیش کیا تھا۔ اس گفتگو کو محفوظ کر لیا جاتا تھا تاکہ اگر بعد میں اس قسم کا مسئلہ درپیش ہو تو زیادہ دقت نہ ہو۔ یہاں یہ ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا کہ جو مسائل براہِ راست عبرانی بائیبل میں موجود ہیں ان پر بحث نہ کی جائے۔ بعد ازاں جب ہیکل بھی رومیوں نے تباہ کر کے ان کو غلام بنا لیا تو مسائل مزید بڑھ گئے۔ سب سے بڑا سوال تو یہ تھا کہ یہودیت تو ہیکل کے ساتھ مشروط تھی جو تباہ کر دیا گیا۔ لہذا اب یہودیت کو کیسے اپنایا جائے؟ اس سوال کا جواب بیشتر یہودیوں میں زبانی قانون کی صورت میں رواج پایا۔

مشنا

تقریباً 200 عیسوی میں زبانی قانون کو بھی ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر لیا گیا جسے مشنا کہتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے موسیؑ کی حدیث اور بعد کے ربیوں کے فقہی اجتہادات ہیں جو انہوں نے فروعی مسائل کے متعلق پیش کیے۔ جیسا کہ دوسرے باب  میں تفصیلاً ربیوں کا ظہور اور بابل میں ربیائی یہودیت کے فروغ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ہیکل کی تباہی کے بعد ربیوں نے مذہب کی خدمت کا بیڑہ اٹھایا۔ مختلف مسائل پر ربی ہی مذہبی بحثیں کیا کرتے جو ابتدا میں تو زبانی لوگوں کو بتائی جاتی رہیں اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوئیں تاہم بعد میں انہیں لکھے جانے کا بھی اہتمام کیا گیا۔ یہودی عقیدے کے مطابق زبانی قانون ان کا خود کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ وہی اضافی احکامات ہیں جو خدا نے موسیؑ کو زبانی دیے اور بعد میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوئے۔[14] ربیائی یہودیت میں لکھے ہوئے اور زبانی دونوں قوانین مساوی اہمیت رکھتے ہیں۔جبکہ صدوقی، سامری اور قرائٹ جیسے فرقوں کے ہاں زبانی قانون کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔

مشناکا لفظی مطلب "دوہرا کر پڑھنا" ہے۔ ربیائی یہودیت میں اسے سب سے اہم کتاب تصور کیا جاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہودا ہناسی نے اسے مرتب کیا اور اس پر نظر ثانی کی۔ اس کے 6 بڑے حصے ہیں جو "سیدر" کہلاتے ہیں۔ سیدر 63 رسائل میں منقسم ہیں جنہیں "مسوخت" کہتے ہیں۔ ہر مسوخت میں کئی ابواب ہیں جنہیں "ہلوخت" کہا جاتا ہے۔ ہر ہلوخت کے متعدد پیراگراف ہیں جنہیں "مشنایات" کہا جاتا ہے۔ مشنایات، مشنا ہی کی جمع ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہلوخت میں شامل ہر پیراگراف کو بھی مشنا ہی کہتے ہیں اور پوری کتاب بھی مشنا ہی کہلاتی ہے۔ ذیل میں سیدروں کا خلاصہ درج کیا جا رہا ہے:

  1. سیدر زرعیم میں لفظ زرعیم اردو لفظ زراعت ہی کی طرح ہے جس کا مطلب "بیج" ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس میں زراعت سے متعلق شرعی قوانین درج ہیں۔ اس میں کل 11 مسوخت ہیں۔
  2. سیدر موعید بھی اردو کے لفظ عید کی طرح ہے جس کا مطلب "تہوار" ہیں۔ اس سیدر میں موجود 11 ابواب تہواروں کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں۔
  3. سیدر ناشیم یعنی "نساء۔" اس سیدر میں 10 مسوخت ہیں جو عورتوں سے متعلق قوانین بیان کرتے ہیں۔
  4. سیدر نیزقین یعنی "نقصانات۔" اس سیدر میں 10 مسوخت ہیں جو دیوانی و فوجداری قوانین سے متعلقہ ہیں۔
  5. سیدر کدوشیم یعنی "مقدسات۔" اس سیدر میں 11 مسوخت ہیں جن میں ہیکل سے متعلق قوانین اور حلال و حرام کا بتایا گیا ہے۔
  6. سیدر طہروت یعنی "طہارت۔" اس سیدر میں طہارت سے متعلق قوانین ہیں جو 12 مسوختوں میں منقسم ہیں۔

جیمارا

          مشنا کی تکمیل 200 عیسوی میں ہو گئی تھی تاہم آنے والا وقت اپنے ساتھ نئے مسائل لے کر آ رہا تھا۔ جیسا کہ دوسرے اور تیسرے باب  میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں نے مختلف قوموں کے ساتھ وقت گزاراجس سے ان کے مسائل کی نوعیت بھی بدلتی رہی۔ اب وہ مسائل سامنے آنے لگے جو نہ ہی عبرانی بائیبل سے حل ہوتے تھے اور نہ ہی مشنا سے۔ اس صورتحال سے نپٹنے کے لیے ربیوں نے نئے قانون اور نئی تشریحات متعارف کروانا شروع کیں جو بعد میں جیمارا/گمارا میں اکٹھی کی گئیں۔ جیمارا دو طرح کی تھیں جنہیں الگ الگ یروشلم اور بابل میں تصنیف کیا گیا تھا۔ مشنا میں موجود کچھ مسوختوں کی مزید تشریحات یروشلم کی جیمارا میں اور کچھ بابلی جیمارا میں ملتی ہیں۔ جیمارا میں معلومات بھی دو طرح کی ہیں جن میں سے ایک کو "ہگدا" کہا جاتا ہے اور دوسری کو "ہلاخا۔" ہگدا سے مراد ایسے مذہبی قصے اور کہانیاں ہیں جو تعلیم و تربیت اور تفریحی مقاصد کے لیے سنائے جاتے ہیں۔ ہلاخا میں یہودی قانون کے متعلق روایات، فتاوی اور بحثیں ہیں۔ آمورائیم کا زمانہ جیمارا کا زمانہ ہے۔ یروشلم میں جیمارا تقریبا 350 سے 400 عیسوی کے دوران اور بابلی جیمارا تقریبا 500 عیسوی تک لکھی گئی۔ ان کی تکمیل میں تقریبا 100 برس مزید گزر گئے۔ اس لیے جیمارا کا زمانہ تقریبا 600 عیسوی سمجھا جاتا ہے۔[15]

تلمود

          مشنا اور جیمارا مل کر تلمود بناتی ہیں۔ تلمود کا لفظی مطلب "پڑھنا" ہے۔ تلمود کی تاریخ دوسرے باب  میں گزر چکی ہے۔ جیمارا دو جگہ لکھی گئی اور چونکہ جیمارا تلمود کا ہی ایک حصہ ہے لہذا تلمود بھی دو ہیں جن میں سے ایک یروشلم میں مرتب ہوئی اور دوسری بابل میں۔ بابلی تلمود کو عبرانی میں "باولی" بھی کہا جاتا ہے۔ فلسطینی تلمود میں 39 مسوخت ہیں اور بابلی تلمود میں 37 مسوخت ہیں جو عبرانی اور آرامی دونوں زبانوں میں لکھے گئے ہیں۔ تلمود میں قانون، تاریخ، اخلاقیات اور مختلف ربییوں کی سوانح عمریاں اکٹھی درج ہیں۔ پڑھنے کے لحاظ سے یہ ایک مشکل کتا ب ہے کیونکہ بعض دفعہ اس میں بحثیں اتنی لمبی ہو جاتی ہیں کہ اصل مسئلہ جس سے بحث شروع ہوئی تھی بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ نیز اس میں مسائل کو ایسے دو ربیوں کے درمیان اس طرح حل ہوتے بھی دکھایا گیا ہے جن کے زمانے الگ الگ تھے۔ چونکہ فلسطینی تلمود کو نامکمل مان لیا گیا اس لیے بابلی تلمود یہودیوں کے ہاں مستند حیثیت اختیار کر گئی جس کے احکامات سے روگردانی مذہب سے روگردانی تصور کی جانے لگی۔

دیگر مذہبی کتب و اصناف

عبرانی بائیبل اور تلمود کے علاوہ یہودیوں میں درج ذیل کتب اور اصنافِ ادب مشہور ہیں جنہیں ان کی اہمیت کی بنیاد پر مقدس تصور کیا جاتا ہے۔

غیر ملہم کتب

          غیر ملہم کتب کو سمجھنے سے پہلے یہودیت میں فہرست مسلمہ کی روایت کا مختصر بیان ضروری ہے۔ تقریبا 90-100 عیسوی میں ربیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عبرانی بائیبل میں شامل کتب کی ایک فہرست مدون کی جائے جو سب یہودیوں کے لیے مسلمہ ہو۔ اس کے لیے انہوں نے کچھ شرائط طے کیں، مثلاً یہ کہ ملاکیؑ چونکہ آخری نبی تھے اس لیے اب نبیوں کی آخری کتاب ملاکی ہی ہے۔ عزرا ؑکی تعلیمات آخری تعلیمات ہیں، ان کے بعد تعلیمات کا سلسلہ بند ہوا۔ اس کے بعد کی کتب کو مسلمہ فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ باہم طے کر کے 100 عیسوی کے قریب ربیوں نے فیصلہ دے دیا کہ کن کتب کو فہرست مسلمہ میں شامل کرنا چاہیے۔ جو کتب فہرست مسلمہ میں شامل ہوئیں انہیں مستند مانا گیا اور جنہیں یہ درجہ نہ مل سکا ان میں سے زیادہ تر غیر ملہم کتب/اپاکرفا تصور کی گئیں۔[16] جیسا کہ دوسرے باب میں بتایا جا چکا ہے کہ جب یونانیوں کے زیرِ اثر یہودیوں میں ہیلینیت کا عروج ہوا تو یونانی زبان و فلسفہ سے متاثر ہو کر متعدد کتب لکھی گئیں۔ ان میں سے بیشتر کتب کو غیر ملہم کتب مانا گیا۔ انہیں نظر انداز کرنے کی بجائے عام لوگوں سے پوشیدہ کر دیا گیا۔ اسی لیے اپاکرفا جو ایک لاطینی لفظ ہے اس کا مطلب ہی خفیہ یا غیر مستند ہے۔

غیر ملہم کتب میں مکابیوں کی کتابیں مشہور ترین ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مکابیین چار کتب تھیں جن میں سے کوئی کتاب بھی عبرانی میں ہم تک نہیں پہنچ سکی۔ کچھ مکابی کتب کا ترجمہ یونانی میں ہوا جو ہفتادی ترجمہ کا حصہ بنیں۔ یہ کتابیں مکابی خاندان کو توریت کے ہیرو کی طرح بھی پیش کرتی ہیں جنہوں نے نہ صرف شریعت کی حفاظت کی بلکہ ہیکل الہی کی سالمیت کے لیے بھی سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ اول مکابیین اس بات سے بحث کرتی ہے کہ کس طرح سکندر کے دور میں فتوحات ہوئیں اور یہودی، یونانیوں کے زیر سایہ آتے گئے۔ انطیوقس کے سپاہیوں نے کس طرح یہودیوں کو امن کا پیغام سنا کر دھوکا دیا اور بلا اشتعال قتل و غارت کی۔ یہ کتاب متت یاہ یا متاتھیاس کے متعلق بھی معلومات فراہم کرتی ہے جو یہودا مکابی کا باپ تھا اور جس نے یونانی دیوتاؤں کو سجدہ کرنے سے انکار کر کے اپنا گروہ ان کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے ترتیب دیا۔ دوم مکابیین انطیوقس کے خلاف بغاوت کا بیان اور یہودا مکابی کی شجاعت کی داستان ہے۔ سوم مکابیین مصر میں یہودیوں کی آزادی کے متعلق معلومات فراہم کرتی ہے اور چہارم مکابیین میں انطیوقس کے دور میں یہودیوں پر کیے گئے ظلم و ستم کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

ہلاخا

          یہودی قانون بحیثیت مجموعی ہلاخا کہلاتا ہے جس کی بنیاد عبرانی بائیبل، تلمود اور قانون کی دیگر کتابیں مثلاً، شولحان عاروخ وغیرہ پر ہے۔ چونکہ تلمود اور مشنا کی روایات گنجلک اور لمبی ہیں جن سے براہ راست کسی مسئلے کے متعلق جاننا دشوار ہے تو انہیں بنیاد بنا کر بعد میں آنے والے ربیوں نے ہلاخا کو ترتیب دیا۔ ہلاخا خود میں کوئی کتاب نہیں ہے البتہ اس صنف پر بہت سی کتب موجود ہیں جن میں ابن میمون کی مشنا توریت اور یعقوب بن آشر(تقریبا 1269-1343) کی اربعہ طوریم وغیرہ خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔ ہلاخا کے متعلق یہودی فرقوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ فرقے تو اسے خدائی قانون کے مساوی سمجھتے ہیں اور کچھ اس کو آج کے زمانے کے لیے مؤثر نہیں مانتے، مثلاً اصلاح شدہ یہودیوں کا یہ کہنا ہے کہ ہلاخا فی زمانہ یہودیوں کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ اسرائیل کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق تلمود اور مشنا " درست ضابطہ حیات نہیں ہیں۔"[17] چنانچہ ہلاخا میں فتاوی اور رسمی ضابطہ بندی کی اصناف شامل کی گئی ہیں۔

  1. فتاوی سے مراد ربیوں کے وہ جواب ہیں جو وہ سائلین کو کسی خاص مسئلے کے متعلق دیا کرتے تھے، مثلاً جس طرح مسلمانوں میں مفتی کسی فقہی مسئلے پر کوئی فیصلہ دیتا ہے اسی طرح ربی عام یہودیوں کے مسائل پر انہیں مذہبی رائے مہیا کرتے تھے جو اگرچہ اس مسئلے کا مستقل حل نہ بھی ہو، اس زمانے کے لیے حل فراہم کر دیتی تھی۔ ان فتاوی کی بنیاد عبرانی بائیبل اور تلمود جیسی مقدس یہودی کتب ہی ہوتی تھیں۔
  2. رسمی ضابطہ حیات میں تیار شدہ قوانین موجود ہیں جو کسی مسئلے کا فوری حل ہیں۔ فتاوی چونکہ مستقل اور فوری حل نہیں ہوتا تھا لہذا یہودیوں کے بہت سے عالموں نے ایسے قوانین ترتیب دیے ہیں جو رسمی ضابطہ حیات کے طور پر مشہور ہیں۔ ان میں اسحاق بن یعقوب الفاسی (1013-1103) کی سفر ہلخوت نہایت اہم تصور کی جاتی ہے۔

سیدور

سیدور یہودی عبادات کی کتب کے مجموعے کو کہتے ہیں جو تاریخ کے مختلف ادوار میں سعدیا گاون اور موسی ابن میمون جیسے ربیوں نے توریت اور دیگر یہودی مقدس کتب سے دعائیں اور مناجات اخذ کر کے ترتیب دیں۔ عصر حاضر میں بھی سیدور ترتیب دی جاتی ہیں۔ ان کتب کا بنیادی مقصد مختلف تہواروں، دنوں اور مواقع پر عبادات کو فروغ دینا ہے۔ یہودی عقیدے کے مطابق یہ کتب انسان کو خدا سے قریب کرتی ہیں اور ایک طرح سے اس سے بات کرنے کا ذریعہ ہیں۔ عصر حاضر کے یہودی فرقوں نے اپنے حساب سے سیدور مرتب کی ہیں۔

مدراش

          تلمود ہی کی طرح مدراش بھی ربیائی یہودیت کی اہم روایت ہے۔ اسے عبرانی بائیبل کے متعلق قصے کہانیوں، داستانوں اور خطبات کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ عبرانی بائیبل کی غیر رسمی تفسیر ہے۔ تلمود ہی کی طرح اس کی ترتیب کو سمجھنا بھی مشکل ہے کیونکہ کبھی تو یہ ایک ہی بات کو بار بار دہراتی ہے، کبھی ان باتوں میں آپسی تضادات سامنے آتے ہیں اور کبھی ایک آدھ جملے ہی میں بات ختم کر دی جاتی ہے۔ ان تفسیرات کی خوبی یہ ہے کہ تقریباً ان میں سے ہر ایک بات کو عبرانی بائیبل کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔ ان کا زمانہ تصنیف دوسری صدی عیسوی سمجھا جاتا ہے۔ مدراش کی دو بڑی قسمیں یا حصے ہیں:

  1. مدراش ہلاخا یعنی وہ کہانیاں اور تعلیمات جو یہودی قانون کی وضاحت کرتی ہیں۔
  2. مدراش ہگدا یعنی عبرانی بائیبل کی اخلاقی اقدار کی وضاحت پر مبنی روایات اور قصے۔

بحر میت کے مخطوطات

          بحر میت کے مخطوطات سے مراد وہ قدیم دستاویزات ہیں جو سب سے پہلے 1947 میں دریافت ہوئیں۔ زیادہ تر مخطوطات طوماروں پر مبنی ہیں جو وادی قمران کے گیارہ غاروں سے ملے۔ ان کی زبان عبرانی، آرامی اور یونانی ہے۔ زیادہ تر طومار عبرانی بائیبل کے ہیں جن میں ترجم اور ہفتادی ترجمہ کے نسخے بھی شامل ہیں۔ کچھ مخطوطات زبور، کتاب سیراخ، کتاب اخنوخ اور کتاب جوبلی وغیرہ کے ہیں جنہیں یہودی فہرست مسلمہ میں شامل نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ کچھ اور مخطوطات بھی ہیں جن سے مختلف یہودی فرقوں کے متعلق معلومات ملتی ہیں۔ ان مخطوطات سے عبرانی بائیبل اور فلسطین کی تاریخ کو مرتب کرنے میں مدد ملی ہے۔ انہیں عبرانی بائیبل کے قدیم ترین دریافت شدہ نسخے سمجھا جاتا ہے جن کی تاریخ 2300 سال پرانی ہے۔

مشقی سوالات

مختصر سوالات

  1. تنخ سے کیا مراد ہے؟
  1. عبرانی بائیبل کیسے کاغذ پر لکھی گئی؟
  1. تنخ کی زبان کیا ہے؟
  1. توریت کسے کہتے ہیں؟
  1. توریت کے مختلف نام لکھیں؟
  1. سوفر کسے کہتے ہیں؟
  1. کتاب پیدائش کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب خروج کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب احبار کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب گنتی کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب استثنا کا تعارف لکھیں؟
  1. نبیوں میں کل کتنی کتابیں ہیں؟
  1. نبیوں کی کتب کو کن دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے؟
  1. انبیائے متقدمین میں کونسی کتب شامل ہیں؟
  1. انبیائے متاخرین میں کونسی کتب شامل ہیں؟
  1. کتاب یوشع کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب قضاۃ کا تعارف لکھیں؟
  1. کتب سموئیل کا تعارف لکھیں؟
  1. کتب سلاطین کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب یسعیاہ کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب یرمیاہ کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب حزقی ایل کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب ہوسیع کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب یو ایل کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب عموس کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب عبدیاہ کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب یوناہ کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب میکاہ کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب ناحوم کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب حبقوق کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب صنفیاہ کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب حجی کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب زکریا کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب ملاکی کا تعارف لکھیں؟
  1. کیتوویم میں کتنی کتابیں شامل ہیں؟
  1. کیتویم کے موضوعات کیا ہیں؟
  1. کیتویم کے حصوں کے نام لکھیں؟
  1. زبور کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب امثال کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب ایوب کا تعارف لکھیں؟
  1. غزل الغزلات کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب روت کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب نوحہ کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب واعظ کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب ایستر کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب دانی ایل کا تعارف لکھیں؟
  1. کتاب عزرا ونحمیاہ کا تعارف لکھیں؟
  1. تواریخ کا تعارف لکھیں؟
  1. تنخ کے مشہور تراجم کے نام لکھیں؟
  1. عصر حاضر میں تنخ کے کونسے تراجم مشہور ہیں؟
  1. ترجمین کسے کہتےہیں؟
  1. ترجم انقلیسو کا تعارف لکھیں؟
  1. ترجم یوناتھن کا تعارف لکھیں؟
  1. ہفتادی ترجمہ کس کہتے ہیں؟
  1. سامری ترجمہ کا تعارف لکھیں؟
  1. پشیطتا کسے کہتے ہیں؟
  1. زبانی قانون سے کیا مراد ہے؟
  1. مشنا کسے کہتے ہیں؟
  1. مشنا کا لفظی مطلب کیا ہے؟
  1. سیدر کسے کہتے ہیں؟
  1. مسوخت کسے کہتے ہیں؟
  1. ہلوخت کسے کہتے ہیں؟
  1. مشنایات کسے کہتے ہیں؟
  1. مشنا کی ترتیب کیا ہے؟
  1. سیدر زرعیم کا تعارف لکھیں؟
  1. سیدر موعید کا تعارف لکھیں؟
  1. سیدر ناشیم کا تعارف لکھیں؟
  1. سیدر نزقین کا تعارف لکھیں؟
  1. سیدر کدوشیم کا تعارف لکھیں؟
  1. سیدر طہروت کا تعارف لکھیں؟
  1. جیمارا کسے کہتے ہیں؟
  1. جیمارا کے نسخوں کے نام لکھیں؟
  1. تلمود کسے کہتے ہیں؟
  1. تلمود کے نسخوں کے نام لکھیں؟
  1. ہلاخا کسے کہتے ہیں؟
  1. غیر ملہم کتب سے کیا مراد ہے؟
  1. مدراش کا تعارف لکھیں؟
  1. بحر میت کے مخطوطات کیا ہیں؟
  1. سیدور کسے کہتے ہیں؟
  1. سیدور کیوں لکھی گئیں؟

تفصیلی سوالات

  1. تنخ پر نوٹ لکھیں۔
  1. عبرانی بائیبل پر نوٹ لکھیں۔
  1. توریت پر نوٹ لکھیں۔
  1. تنخ کے تراجم پر نوٹ لکھیں۔
  1. زبانی قانون پر نوٹ لکھیں۔
  1. مشنا پر نوٹ لکھیں۔
  1. جیمارا پر نوٹ لکھیں۔
  1. تلمود پر نوٹ لکھیں۔


[1] Kenneth Atkinson, Judaism (Philadelphia: Chelsea House Publishers, 2004), 39.

[2] Martha A. Morrison and Stephen F. Brown, Judaism, ed. Joanne O’Brien and Martin Palmer, World Religions (New York: Chelsea House Publishers, 2009), 25.

[3] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 29.

[4] دوم سموئیل 12: 9

[5] استثنا 6: 8

[6] Morrison and Brown, Judaism, 23.

[7] Milton Steinberg, Basic Judaism (New York: HBJ, 1975), 20-21.

[8] Avodah Zarah.11a

[9] Megillah 3a

[10] Harry M. Orlinsky, "The Septuagint and its Hebrew Text," in The Cambridge History of Judaism: The Hellenistic Age, ed. William David Davie and Louis Finkelstein (Cambridge: Cambridge University Press, 2008), 537.

[11] Kent, A History of the Jewish People During the Babylonian, Persian, and Greek Periods, 302.

[12] Michael P. Weitzman, The Syriac Version of the Old Testament (University of Cambridge Oriental Publications) (New York: Cambridge University Press, 1999), 1.

[13] Lange, An Introduction to Judaism, 48.

[14] Atkinson, Judaism, 43.

[15] Wayne Dosick, Living Judaism: The Complete Guide to Jewish Belief, Tradition, and Practice (HarperCollins ebooks, 2009), 98.

[16] Ibid., 92.

Loading...
Table of Contents of Book
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Loading...
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...