1676046516391_54335525
Open/Free Access
133
عقائد
باب پنجم کے اہم نکات
|
|
|
خدا اور تصور خدا
یہودیت میں خدا کو مختلف انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ عمومی طور پر اسے یہوہ کے چار حرفی نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہودی اس نام کو اس قدر با عزت و بابرکت اور رعب و جلال والا اسم تصور کرتے ہیں کہ بغیر ضرورت اس نام کو نہیں پکارتے۔ عبرانی بائیبل کے مطابق اس کا حکم خدا نے خود دیا ہے: " تمہیں اپنے خدا یہوہ کا نام بے مقصد نہیں لینا چاہیے کیونکہ اگر کوئی یہوہ کا نام بے مقصد استعمال کرتا ہے تو وہ خطا وار ہے اور خداوند اسے بے خطا نہیں مانے گا۔"[2] اسی طرح وہ غیر یہود میں اس نام کا پکارا جانا بھی پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ غیر اقوام اس نام کی عزت کا پاس نہیں رکھ سکتیں۔ اس اسم کو لکھا بھی حروفِ علت کے بغیر جاتا ہے تاکہ کوئی اس کو پڑھ نہ پائے۔ یہودیت میں خدا کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ سب سے مشہور نام یہوہ ہے۔ خدا کے تمام نام اپنی جنس کے لحاظ سے مذکر ہیں۔ عبرانی بائیبل میں بھی خدا کا نام ہمیشہ مذکر کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ البتہ ربیائی تحریروں میں خدا کو "سکینہ" کے مؤنث نام سے بھی پکارا گیا ہے۔ بائیبل میں درج شدہ قصوں میں خدا کو ایک ہیرو، رہنما اور ناصح کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو اپنے منتخب شدہ لوگوں سے محبت کرتا ہے۔
پہلے باب میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یہودیت کی ابتدا ابراہیمؑ کے ایک خدا پر یقین کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ خدا کے ایک ایسے تصور کے قائل تھے جس میں دوئی کی گنجائش نہیں تھی۔ ان کے ایک خدا پر اٹل یقین کی وجہ سے یہودیت بھی توحید پرستانہ مذہب کے طور پر رواج پائی۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے تصورِ خدا میں ارتقا ہوا ہے لیکن ہر دور میں غالب عنصر توحید ہی رہا۔ عبرانی بائیبل میں بیان شدہ یہودیت کی تاریخ بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ خدا کے ساتھ شرک کو بدترین گناہ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ حتی کہ انبیا سے بھی اگر یہ عمل سرزد ہوا ہے تو اسے جرم تصور کر کے ان کی سرزنش کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے یہودی تصورِ خدا میں سب سے پہلی اور اہم چیز توحید ہے۔ خدا کو ایک اور یکتا ماننا اور اس کا ورد کرنا یہودیوں کے نزدیک عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ یہودی رات کو سونے سے پہلے اور صبح اٹھتے ہی بائیبل کی اس آیت کا ورد کرتے ہیں: " سُنو ! اے بنی اسرا ئیلیو ! خداوند ہمارا خدا ہے۔ خداوند ایک ہے ! "[3] ہر مذہبی یہودی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ دمِ مرگ اس کی زبان سے یہ کلمات جاری ہوں۔ اس کلمہ کو عبرانی زبان میں "شماع" کہا جاتا ہے جو یہودیت میں حکمِ اعظم کا درجہ رکھتا ہے۔
یہودیت میں خدا پر یقین صرف دل کے ایمان کی حد تک نہیں ہے بلکہ اس کا زیادہ تعلق عمل کے ساتھ ہے۔ یہودی خدا کی ذات پر بحث کی بجائے اس کے احکامات پر عمل کرنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ البتہ خدا کے احکامات پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنے کی بجائے اس سے سوال و جواب کیا جانا اور لڑنا بھی روا رکھا جاتا رہا ہے، مثلاً عبرانی بائیبل سے پتہ چلتا ہے کہ جب خدا سدوم کے لوگوں کو سزا دینا چاہ رہا تھا تو ابراہیمؑ خدا کے سامنے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور اس سے یہ کہلوایا کہ "اگر اس شہر میں صرف دس نیک آدمیوں کو پاؤں تو میں اس کو تباہ نہ کروں گا۔"[4]اسی طرح یعقوبؑ خدا سے برکات کے حصول کے لیے لڑے اور اس پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس قسم کے واقعات کو یہودیوں اور خدا کے درمیان محبت کے معنوں میں بھی بیان کیا جاتا ہے۔
یہودیت میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسان کے پاس خدا کا کامل علم نہیں ہے۔ خدا کی ذات کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا۔ عبرانی بائیبل کے مطابق جب موسیؑ سے خدا پہلی دفعہ ہم کلام ہوا اور انہیں کہا کہ وہ جا کر بنی اسرائیل کی مدد کریں تو انہوں نے عرض کی کہ اگر ان سے پوچھا گیا کہ خدا کون ہے تو وہ کیا جواب دیں گے؟ اس سوال کے جواب میں خدا نے ان سے کہا "میں جو ہوں سو میں ہوں"[5] لہذا مذہبی یہودی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا کی ذات کے متعلق سوچنا ان کا کام نہیں ہے۔ اگر وہ چاہیں بھی تو اس کو سمجھ نہیں سکتے۔ وہ ابد سے ہے اور ازل تک رہے گا۔ عبرانی بائیبل میں اس کی کوئی شروعات یا اختتام نہیں بتایا گیا۔ یہاں تک کہ کتابِ پیدائش کی پہلی سطر یہ کہتی ہے: " ابتدا میں خدا نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔"[6] یہاں بھی خدا کی ابتدا کے متعلق کسی قسم کی خبر نہیں دی گئی۔ البتہ یہ ضرور بتا دیا گیا کہ کائنات اور اس میں موجود ہر شے کا خالق خدا ہے۔ اسی لیے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہودیت میں منتخب قوم ہونے کا نظریہ بعد کی پیداوار ہے ۔ ابتدا میں خدا کا ایک آفاقی تصور یہودیوں میں موجود تھا۔ اسی لیے یہودیت کو کوئی بھی اختیار کر سکتا تھا کیونکہ یہوہ ہر اس شخص کا خدا تھا جو اس سے محبت کرتا اور اس کے احکامات کی پیروی کرتا۔ عصر حاضر کے یہودی فرقوں کے تصور خدا میں کافی ارتقا ہوا ہے جس کے بارے میں مختصراً ذکر اس کتاب کے ساتویں باب میں بھی موجود ہے۔
یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ خدا ہر راز اور ہر علم کا جاننے والا ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ خالق ہے، پاک ہے، مالکِ کل کائنات ہے، لامحدود حق ہے، نجات دہندہ اور حکمران ہے۔ عبرانی بائیبل میں اس کا جسمانی تصور موجود تو ضرور ہے جس میں اس کے ہاتھ، چہرے، انگلی یا جسم کا ذکر ہے لیکن وہ کوئی انسان نہیں ہے۔ اس حوالے سے کتاب گنتی میں آیا ہے: " خدا انسان نہیں ہے۔ وہ جھوٹ نہیں کہے گا۔ خدا انسان کا بیٹا نہیں، اگر خدا وند کہتا ہے کہ وہ کچھ کرے گا تو ضرور کریگا۔"[7] اس لیے اگر عبرانی بائیبل میں خدا کو غصہ ور، رعب و جلال والا، پُر ہیبت، محبت، ہمدردی اور شفقت کرنے والا بتایا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان صفات میں وہ انسان کی مانند ہے۔
منتخب قوم
عبرانی بائیبل کے مطابق یہودی خدا کی منتخب قوم ہیں جن کو اس نے اپنا عہد دیا اور ایک زمین دینے کا وعدہ کیا (عہدِ خداوندی اور ارضِ موعود کا تصور بھی یہودیوں میں عقیدے کی مانند ہیں جن کے بارے میں مختصر بیان پہلے اور دوسرے باب میں گزر چکا ہے)۔ یہودی مذہب کی رو سے یہاں منتخب قوم سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ خدا جانب دار ہے جسے صرف یہودی قوم کی پرواہ ہے۔ کتاب پیدائش کے مطابق ساری کائنات خدا کی تخلیق ہے اور اس میں موجود تمام مخلوقات کا خالق بھی وہی ہے لہذا یہودیوں کو منتخب قوم کے طور پر چننا جانب داری کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا سے کیے گئے عہد کی وجہ سے ہے۔ یہ عہد دو طرفہ ہے جیسا کہ کتاب خروج میں ذکر ہے: " اگر تم میرا حکم مانو گے تو تم میرے خاص لوگ بنو گے۔ ساری دنیا میری ہے۔"[8]اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہودی بھی اس وقت تک خدا کے خاص ہیں جب تک وہ خدا کے عہد کی تکمیل کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کا یہ منتخب قوم کا عہدہ خدا کی جانب داری نہیں بلکہ ایک طرح کی رعایت ہے۔
بعض مصنفین یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ یہ رعایت بھی اس لیے ہے کہ ان کو دوسروں کے لیے روشنی بننا ہے اور ان کے ذریعے خدا کا عہد دوسروں تک پہنچنا ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے: " میں نے تجھے لوگوں کے ساتھ ایک معاہدہ کے لئے اور قوموں کی روشنی کے لئے ایک ثالثی مقرر کیا۔"[9] لہذا مذہب سے شہادت لے کر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ یہودیوں کے مخالفوں کا کام ہے جنہوں نے صدیوں سے اس بات کو اچھالنے کی کوشش کی ہے کہ یہودی خود کو دوسروں سے عظیم اور برتر سمجھتے ہیں۔[10] کچھ یہودی مصنفین اس بارے میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ربی یہ کہتے ہیں کہ توریت ابتدا میں کائنات میں بسنے والی دیگر اقوام کو دی گئی لیکن انہوں نے اسے لینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اس کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتے تھے۔ صرف یہودی ہی ایسی قوم تھے جنہوں نے توریت کو قبول کیا۔ یہ ایک لحاظ سے ان کی مجبوری بھی تھی کیونکہ توریت کو قبول نہ کرنے کی صورت میں خدا نے ایک پہاڑ گرا کر انہیں تباہ کرنے کا ڈراوا دیا تھا۔ تاہم یہودیوں نے اسے خوشی خوشی قبول کیا جس کی وجہ سے وہ خدا کی منتخب قوم بن گئے۔[11]
اس کے برعکس ایسے نظریات بھی موجود ہیں جو عہد کے لحاظ سے قومی انتخاب کی نفی کرتے ہیں، مثلاً عبرانی بائیبل یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر یہودی خدا کے عہد کی پاسداری نہ بھی کر رہے ہوں تو بھی وہ خدا کے منتخب شدہ لوگ رہیں گے کیونکہ خدا ان کے باپ دادا سے کیے گئے عہد کی وجہ سے ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔[12] اس نظریے کے حاملین یہ سمجھتے ہیں کہ یہودی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں نے خود بارہا اپنے نسلی تعصب کا اظہار کیا ہے۔ یہاں تک کہ عصر حاضر میں بھی اسرائیلی شہریت حاصل کرنے کے لیے دو مختلف قوانین بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک تو "قانون واپسی" ہے جس کی رو سے دنیا بھر سے کوئی بھی فرد اسرائیل کی شہریت اس بنیاد پر حاصل کر سکتا ہے کہ وہ یہودی ہے۔ دوسرا قانون دیگر ممالک کے قوانین سے مماثل ہے جس کی روسے ہر وہ آدمی، شہریت کا حقدار ہے جس کی اپنی یا اس کے والدین میں سے کسی کی پیدائش اسرائیل میں ہوئی ہے۔[13] اس ضمن میں یہ مدِنظر رہنا چاہیے کہ یہ اسرائیلی قانون ہے اور لازمی نہیں کہ اسرائیلی قانون کو ہلاخا کی حمایت بھی حاصل ہو۔ منتخب قوم کے اس نظریے نے یہودیوں کو بحیثیت قوم تاریخ کے مختلف ادوار سے گزرنے کی ہمت بھی عطا کی اور انہیں سامی مخالفت کی بھینٹ بھی چڑھا دیا۔ نظریات کے اسی تضاد کی وجہ سے عصر حاضر کے یہودیوں کے کچھ فرقے تو ایسی مذہبی توجیہات پسند نہیں کرتے جن کی رو سے وہ خود کو دیگر انسانوں سے افضل سمجھیں اور کچھ فرقے ایسے ہیں جو خود کو منتخب قوم سمجھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔
احکام عشرہ
احکام عشرہ/وصایا عشر سے مراد وہ دس احکام ہیں جو عبرانی بائیبل کے مطابق خدا نے یہودیوں کو دیے تاکہ وہ ایک راستباز زندگی گزار سکیں۔ آج بھی یہودیوں کی ایک بڑی تعداد ان احکامات کو بطور عقیدہ اپناتی ہے۔ احکام عشرہ مندرجہ ذیل ہیں:
- تمہیں میرے علاوہ کسی دوسرے خدا کی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔
- تمہیں کو ئی بھی مورتی نہیں بنانی چاہیے۔
- تمہارے خداوند خدا کے نام کا استعمال تمہیں بے جا نہیں کرنا چاہیے۔
- سبت کو یاد رکھو اور اسے مقدس دن کے طور پر مناؤ۔
- اپنے ماں باپ کی عزت کرو۔
- تمہیں کسی آدمی کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔
- تمہیں بد کاری کا گناہ نہیں کرنا چاہیے۔
- تمہیں چوری نہیں کرنی چاہیے۔
- تمہیں اپنے پڑوسیوں کے خلاف جھو ٹی گواہی نہیں دینی چاہیے۔
- تمہیں دوسرے لوگوں کی چیزوں کو لینے کی خواہش نہیں کر نی چاہیے۔[14]
ابن میمون کے تیرہ اصول
احکام عشرہ ہی کی طرح موسی ابن میمون کے مرتب کردہ تیرہ اصولِ ایمانیات بھی یہودیوں میں مشہور ہیں جو ان کے بنیادی عقائد کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ اصول تقریباً یہودی عبادات کی ہر کتاب میں موجود ہیں اور مختلف تہواروں، خاص طور پر جمعے کے دن انہیں پڑھا جاتا ہے۔ یہ احکام مندرجہ ذیل ہیں:
- خدا کے وجود پر اعتقاد۔
- خدا کی وحدانیت پر اعتقاد۔
- خدا کے ماورائے مادہ ہونے پر اعتقاد۔
- خدا کے ازل سے موجود ہونے پر اعتقاد۔
- صرف خدا ہی کی عبادت پر اعتقاد۔
- نبوت پر اعتقاد۔
- موسیؑ کی نبوت کی بالادستی پر اعتقاد۔
- توریت کے بطور کلامِ خدا پر اعتقاد۔
- توریت کے عدم تغیر پر اعتقاد(یہ کہ توریت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی)۔
- خدا کے علم غیب اور معرفِ کل پر اعتقاد (یہ کہ خدا ہر چیز جانتا ہے)۔
- خدا کی جانب سے سزا و جزا پر اعتقاد۔
- مسیحِ موعود پر اعتقاد۔
- مردوں کے جی اٹھنے پر اعتقاد۔[15]
مسیح موعود
موسی ابن میمون کے تیرہ اساسی اصولوں میں سے بارہواں اصول مسیحِ موعود کے متعلق بتاتا ہے جن سے مستقبل کے ایک ایسے یہودی بادشاہ مراد ہیں جو داؤدؑ کی نسل سے ہوں گے۔ وہ خاص خوشبودار تیل سے مسح کریں گے اور یہودی قوم کی سربلندی کے لیے کام کریں گے۔ ان کے دور کو مسیحا کا دور کہا جائے گا۔ یہودی روایات کے مطابق وہ جب آئیں گے تو دنیا پر تمام جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ وہ نیک لوگوں سے رشتہ استوار کریں گے اور بروں کا خاتمہ کریں گے۔ ربی اس بات پر بھی یقین رکھتے تھے کہ ان کے آنے سے پہلے ایلیاہؑ زمین پر واپس آئیں گے اور دنیا کے تمام مسائل حل کریں گے۔[16] البتہ یہ مسیحِ موعود ہی ہوں گے جو یہودیوں کو ارضِ موعود لے جائیں گے۔ ارضِ موعود وہ جگہ ہے جس کے دینے کا خدا نے یہودیوں سے وعدہ کر رکھا ہے۔ ہیکل کی دوسری تباہی کے بعد سے یہودیوں میں اس عقیدے نے بہت رواج پایا۔ لوگ مسیحا کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ اس دوران کچھ لوگوں نے مسیحا ہونے کا دعوی بھی کیا لیکن یہودی عقیدے کے مطابق ان کا مسیحا ہونا ثابت نہ ہو سکا۔
مندرجہ بالا عقیدے کے مطابق یہودیوں نے دو ہزار سالہ صبر اس لیے نہیں کیا کہ وہ اس جدید اسرائیلی ریاست میں رہیں یا اسے ارضِ موعود کا درجہ دیں۔ مذہبی یہودی یہ یقین رکھتے ہیں کہ ارضِ موعود انہیں اس وقت ملے گی جب خدا خود دنیا میں اپنی نشانیاں دکھائے گا اور یہودیوں کی مدد کرے گا۔ اس لحاظ سے مسیحا کا دور یہودیوں کے لیے عہد زریں ہو گا۔ صہیونی اس عقیدے کی تشریح اپنے طور پر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ارض موعود کے حصول کے لیے کسی مسیحا کے انتظار کی ضرورت نہیں بلکہ ہم خود بھی اسے حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی لیے جب اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا رہا تھا اور اسے ایک مذہبی رنگ دیا جارہا تھا تو بہت سے راسخ العقیدہ یہودی اس کے قیام کے خلاف تھے کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ارضِ موعود کا حصول مسیحِ موعود کی آمد کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر اس سے پہلے یہ کوشش کی جائے گی تو یہ خدا کے قانون کی نافرمانی ہو گی۔[17]
حیات بعد الموت
ابن میمون کے تیرہ اساسی اصولوں میں سب سے آخری اصول مُردوں کے دوبارہ جی اٹھنے سے متعلق ہے۔ اس میں آخرت اور سزا و جزا کا تصور شامل ہے۔ عبرانی زبان اس کے لیے "اولام ہابا " کی اصطلاح استعمال کرتی ہے جس کا مطلب "اگلی دنیا" ہے۔ یہودیت میں تصورِ آخرت، حیات بعد الموت اور روح کے بقا جیسے موضوعات پر کم بات کی گئی ہے۔ عبرانی بائیبل میں بھی حیات بعد الموت کے متعلق معلومات کم ہیں۔ ابتدا میں یہودی یہ یقین رکھتے تھے کہ موت کے بعد انسان کو "شیول" منتقل کر دیا جاتا ہے جو ایک تاریک ٹھکانہ ہے۔ جیسا کہ کتاب گنتی میں ذکر ہے: " وہ زندہ ہی شیول میں چلے گئے ان کی ہر ایک چیز ان کے ساتھ زمین میں سما گئی۔ تب زمین اُن کے اوپر سے بند ہو گئی۔ وہ تباہ ہو گئے اور اپنی جماعت سے غائب ہو گئے۔"[18] اسی طرح ایلیاؑ کے متعلق ذکر ہے کہ ان کو جنت میں اٹھا لیا گیا۔[19]بعد ازاں جب یہودیوں کا دیگر مذاہب کے پیروکاروں خصوصاً فارسیوں سے واسطہ پڑا تو ان میں حیات بعد الموت کے تصور میں وضاحت آنے لگی۔ رفتہ رفتہ ان میں جنت و جہنم کے تصورات ابھرے اور شیول کو پاکی کی جگہ یا انتظار گاہ سمجھا جانے لگا جہاں انسان جنت یا جہنم میں جانے سے پہلے رہتا ہے۔
بعض مصنفین کا یہ بھی خیال ہے یونانی و رومی اثرات کے تحت یہودیوں میں آخرت کے تصور نے وضاحت پائی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عبرانی بائیبل کو سامنے رکھتے ہوئے یہودی ربیوں نے سزا اور جزا کا عقیدہ بیان کیا۔ ربیائی یہودیت کے مطابق اولام ہابا مختلف مرحلوں میں برپا ہو گی۔ اس سے پہلے مسیحِ موعود کا د ور آئے گا جس میں امن و سلامتی ہو گی۔ ہیکل کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔ اس وقت مردے جی اٹھیں گے، ان میں روحیں ڈالی جائیں گی اور آخری فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ جو جزا کے حقدار ہوں گے جنت میں بھیج دیے جائیں گے اور جو سزا کے حقدار ہوں گے دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔[20] عصر حاضر کے یہودی آخرت کی تشریحات سائنسی اعتبار سے کرتے ہیں اور حیات بعد الموت کی بجائے روح کے بقا پر یقین رکھتے ہوئے جہنم اور جنت کے عقیدے کو مسترد کرتے ہیں۔ عمومی طور پر بھی یہودی نظریات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاں دنیا کی زندگی خاصی اہمیت کی حامل ہے۔
نبوت
یہودی نبیہ
|
یہودیت میں صرف مردوں کو ہی نہیں بلکہ عورتوں کی نبوت کو بھی مانا جاتا ہے۔ تلمود کے مطابق کم از کم 48 مردوں اور 7 عورتوں کو نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ جیسا کہ مذکور ہے: "اڑتالیس نبی اور سات نبیہ کو یہودی لوگوں کی حمایت میں نبوت دی گئی اور انہوں نے نہ تو توریت میں لکھے گئے (احکامات) میں سے کچھ کم کیا اور نہ ہی کچھ اضافہ کیا۔"[21] خدا خود بھی کسی شخص کو نبوت کے لیے چن سکتا ہے اور اپنے نیک بندوں کی دعاؤں سے بھی کسی کو نبی بنا سکتا ہے، مثلاً جب اسحاقؑ بوڑھے ہو گئے اور ان کی آنکھوں کی بینائی متاثر ہوئی تو انہوں نے اپنے بیٹے عیساؤ کے ذریعے عہدِ خداوندی کو جاری رکھنے کا سوچا۔ ان کی بیوی ربقہ جو اپنے دوسرے بیٹے سے زیادہ محبت کرتی تھیں انہوں نے تدبیر کر کے یعقوبؑ کے حق میں دعا کروا دی جس سے خدا نے انہیں خیر و برکت دی۔[22] بعد ازاں عیساؤ کے بجائے یعقوبؑ ہی نبی بنے اور انہیں کے ذریعے خدا کا عہد آگے بڑھا۔ عبرانی بائیبل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انبیا بھی دیگر لوگوں کی طرح گناہ گار ہو سکتے ہیں، مثلاً جیسا کے دوسرے باب میں بیان ہو چکا ہے کہ تنخ کے مطابق داؤدؑ اور سلیمانؑ نے اخلاقی گراوٹ اور شرک جیسے گناہ کیے جس پر خدا نے ان کی سرزنش کی اور یہاں تک کہا کہ اب بادشاہت ان کی اولاد سے چھین لی جائے گی۔
عبادات
یہودیت میں عبادت کا مقصد توبہ استغفار کا فروغ اور خدا کی محبت کے لیے اس کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ بیشتر یہودی سمجھتے ہیں کہ خدا سے انسان کا ایک براہ راست ذاتی تعلق ہے۔ خدا انسان کی دعائیں سنتا ہے، جواب دیتا ہے اور اسے پناہ عنایت کرتا ہے۔ عبادت کا یہ تصور ساکن نہیں متحرک ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا ہوتا آیا ہے۔ ویسے تو مذہب کی کسی بھی بات پر عمل کرنا عبادت ہے۔ توریت کی تلاوت اس ضمن میں سب سے خاص ہے۔ یہ اہمیت میں نماز سے بھی بڑھ کر ہے اور دیگر عبادتوں کا بھی اہم جزو ہے۔ اسی طرح مقدس تہوار ہیں جن میں بھی مختلف عبادات ہوتی ہیں۔ تاہم بعض عبادات ایسی ہیں جن کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا جاتا ہے۔ زیر نظر باب میں انہیں عبادات کا مختصر تعارف کروایا گیا ہے جو عمومی طور پر یہودیوں میں مشہور ہیں اور جن کی تہواروں سے الگ ایک حیثیت ہے۔
قربانی
ابتدائی یہودیت میں عبادت کا بنیادی تصور قربانی سے جڑا ہوا تھا۔ اس لیے قربانی کو یہودیت میں خدا کی اولین عبادت بھی کہا جا سکتا ہے۔ عبرانی زبان میں قربانی کے لیے "قربان/قوربان" کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب "قریب لے جانا ہے۔" اس سے علم ہوتا ہے کہ قربانی کا مقصد انسان کو خدا کے قریب کر دینا ہے۔ توریت میں بارہا قربانی اور قربان گاہوں کا ذکر آیا ہے۔ تلمود کا ایک مخصوص حصہ قربانی کے احکامات سے متعلق ہے۔ ابراہیمؑ نے بھی خدا کی قربان گاہیں تعمیر کیں اور اس کے حضور قربانیاں پیش کیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہودی مختلف قربان گاہوں میں قربانی کرتے رہے۔ جب وہ مصر سے نکلے اور کنعان کی طرف ہجرت کی تو راستے میں ان کے پاس ایک خیمہ اجتماع(عبرانی "مشکن" یعنی مسکن یا رہنے کی جگہ/ اوحیل موعید) ہوا کرتا تھا جو ایک قربان گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسی کے اندر تابوت سکینہ بھی تھا اور اسی میں وہ اپنی قربانیاں پیش کرتے۔[23] ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بعد قربانی کا تصور اسی سے جڑ
مشہور قربانیاں
|
|
|
ہیکل میں ہونے والی عبادات مختلف نوعیت کی تھیں، مثلاً قربانی کا ایک تصور تو جانوروں کو جلا کر قربان کیا جانا تھا۔ اس قربانی میں جانور کو مکمل طور پر جلا دیا جاتا تھا اور اس کا کوئی حصہ بھی کھانے کے لیے نہیں ہوتا تھا۔ یہ قربانی خدا کی قربت کے لیے دی جاتی۔ اس میں گائے، بھینس، بکریاں اور پرندوں وغیرہ کی قربانی شامل تھی۔ اسی طرح قربانی کا دوسرا تصور یہ تھا کہ جانور کا ایک حصہ جلا دیا جاتا، ایک حصہ کاہن کو پیش کر دیا جاتا اور ایک حصہ قربانی کرنے والے کا ہوتا۔ یہ قربانی خدا کے شکریے کے طور پر یا قسم وغیرہ کے لیے دی جاتی۔ اسی طرح اگر کسی سے نادانستہ کوئی گناہ ہو جاتا تو اس کے لیے بھی قربانی مقرر تھی۔ قربانی کے جانور کا انتخاب گناہ گار کی مالی حالت اور گناہ کے ارتکاب کی نوعیت پر ہوتا۔ اس قربانی کے جانور پر صرف کاہن کا حق ہوتا۔ اسی طرح جانور کی بجائے کھانے پینے کی چیزوں کو بھی قربانی کے طور پر پیش کیا جاتا جس میں سے ایک مخصوص حصہ جلا دیا جاتا اور باقی کاہن کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ جانور کی قربانی میں اس بات کا دھیان رکھا جاتا تھا کہ وہ جنگلی نہیں بلکہ پالتو جانور ہو۔ کھانے کی قربانی میں پکی پکائی چیز پیش کی جاتی تھی یعنی ایسی چیز جس پر انسان نے خود محنت کی ہو۔
قربانی کا سارا معاملہ کاہن کے ذمہ ہوتا اور وہ ہی اس عمل کے لیے با اختیار تصور کیا جاتا۔ جیسے زچگی کے عمل سے گزرنے کے بعد یہ عورتوں کے ذمہ ہوتا کہ وہ قربان گاہ میں میمنے اور کبوتر کو لے کر جائیں اور کاہن ان کو جلا کر خدا کے حضور قربانی پیش کرے۔[24] اسی طرح سبت، پشاخ یا یوم کپور کے موقع پر ہیکل میں مختلف عبادتیں اور دعائیں کروانا بھی کاہن ہی کے ذمہ ہوتا۔ ہیکل کی تباہی کے بعد اس سے جڑی تمام عبادات کا تصور بھی ختم ہو گیا اور ربیائی یہودیت کے ذریعے عبادات کے دوسرے طریقے رواج پانے لگے۔ اب یہودی یہ خیال کرتے ہیں کہ جب مسیح موعود آئیں گے اور ہیکل کی تیسری تعمیر ہو گی تو اس وقت قربانی دوبارہ رواج پائے گی۔ البتہ اس قربانی کی نوعیت اور ہیکل میں کی جانے والی عبادات کے متعلق وہ باہم اختلاف کا شکار ہیں۔ کچھ یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ مذہبی احکامات کی تکمیل کے لیے جانوروں کی قربانی ویسے ہی جاری رہنی چاہیے جیسے عہد ابراہیمی میں کی جاتی تھی جبکہ کچھ فرقوں، مثلاً اصلاح شدہ یہودیوں یا نو اشتراکی یہودیوں کا یہ خیال ہے کہ قربانی کا یہ عمل قدیم وحشتوں کی یادگار ہے۔ آج کل کے دور میں جانوروں کی قربانی کی ضرورت نہیں ہے۔
قدیم مقدس زیارتیں
بنیادی طور پر کتابِ استثنا میں یہودیوں کو تین دفعہ زیارتوں یعنی "شلوش ریگالیم" کا حکم دیا گیا تھا۔ جیسا کہ مذکور ہے: "تمہارے سب لوگ ہر سال تین بار خداوند تمہارے خدا سے ملنے کے لیے اس خاص جگہ پر ضرور آئیں جسے اس نے چنا ہے۔ تم بغیر خمیر کے رو ٹی کی تقریب (پیشاخ)، ہفتہ کی تقریب (سبت)اور پناہ کی تقریب(سکوت) منا نے کے لئے ضرور آؤ۔"[25] اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ ہیکل کی موجودگی میں یہودیوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ تین مختلف اوقات میں یروشلم آ کر خوشی منائیں۔ اپنے ساتھ تحائف بھی لے کر آئیں۔ کاہن ان کے لائے ہوئے تحفوں کو خدا کی نذر کرے گا۔ ہیکل کی تباہی کے بعد ان مقدس زیارتوں اور تہواروں کو ادا کرنا ممکن نہیں رہا۔ البتہ کچھ یہودی ایسے بھی ہیں جو دیوارِ گریہ کی زیارت کر کے ان مقدس زیارتوں کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سبت، پیشاخ اور سکوت کو اب الگ تہواروں کے طور پر منایا جاتا ہے۔
روزہ
فرض روزے
|
|
|
دیکھو! اپنے رو زہ کے دن میں تم وہی کر تے ہو جو تمہارے لئے خوشی کا باعث ہو اور تم اپنے کام کرنے وا لوں پر ظلم کرتے ہو۔ جب تم روزہ رکھتے ہو تو بحث و تکرار اور لڑا ئی یہاں تک کہ مکہ بازی بھی کرتے ہو۔ اگر تم اپنی آواز کو آسمان میں سننا چاہتے ہو تم ایسا روزہ مت رکھو جیسا اب رکھتے ہو۔ کیا تم سوچتے ہو کہ میں تم سے کیسے روزہ رکھوانا چاہتا ہوں؟۔ ۔۔ میں تمہیں بتانا چاہوں گا کہ کس طرح کا روزہ میں پسند کرتا ہوں؟ ایک ایسا دن جب لوگوں کو جنہیں کہ غیر منصفانہ طور پر قید کیا گیا تھا آزاد کیا جائے۔ مجھے ایک ایسا دن چاہیے جب لوگوں کو ان کے بوجھ سے راحت ملے۔ میں ایک ایسا دن چاہتا ہوں جب ظلم سے ستائے ہوئے لوگو ں کو آزاد کیا جائے۔ میں ایک ایسا دن دکھانا چاہتا ہوں جب تم ہر ایک برے جوئے کو توڑ دو۔ میں چاہتا ہو ں کہ تم بھو کے لوگو ں کے ساتھ اپنے کھانے کی چیزیں بانٹو۔ میں چاہتا ہو ں کہ تم ایسے غریب لوگوں کو ڈھونڈو جن کے پاس گھر نہیں ہے اور میری خواہش ہے کہ انہیں اپنے گھروں میں لے آؤ۔ تم جب کسی ایسے شخص کو دیکھو، جس کے پاس کپڑے نہ ہوں تو اسے کپڑے دو۔ ان لوگو ں کی مدد سے منہ مت موڑو، جو تمہارے اپنے رشتے دار ہوں۔"[26]
فرض روزے
فرض روزوں کی تعداد چھ ہے جن میں سے توریت میں صرف ایک روزے کا تذکرہ ہے۔ یہ روزہ یوم کپور پر رکھا جاتا ہے۔ کتابِ زکریا میں چار مزید فرض روزوں کا بتایا گیا ہے: "خداوند قادر مطلق فرماتا ہے، چوتھے(تاموز) اور پانچویں(آوو) اور ساتویں(تشری) اور دسویں (تیوت) مہینے کے مقررہ روزے کا دن اور غمگین دن تقریب و جشن کا دن ہو جائے گا جو کہ شادمانی اور خوشی لائے گا۔ اس لئے سچائی اور امن و امان کو عزیز رکھو!" چھٹے روزے کا ذکر کتابِ ایستر میں ان الفاظ سے آیا ہے: " یہودی انہیں دوسری تعطیل کے دِنوں کی طرح یاد رکھیں گے۔ جب وہ لوگ روزہ رکھیں گے اور جو کچھ ہوا تھا ان پر آنسو بہا کر پچھتائیں گے۔" ان روزوں کا تعارف درج ذیل ہے:
- یوم کپور کے روزے کا بنیادی مقصد گنا ہوں کا کفارہ ہے۔ یہودیوں کے نزدیک یہ سال کا سب سے اہم روزہ ہوتا ہے۔
- تاموز کی سترہویں تاریخ کا روزہ جو یروشلم کی فصیلوں کی تباہی کی یاد میں رکھا جاتا ہے۔
- تیشاباؤ کا روزہ جو آوو کے نویں دن ہیکل سلیمانی کی تباہی کی یاد میں رکھا جاتا ہے۔
- یومِ جدلیاہ کا روزہ جو تِشری کی تیسری کو جدلیاہ (یہودیہ کا گورنر) اور اس کے حامیوں کے قتل کی یاد میں رکھا جاتا ہے۔
- تیوت کی دسویں تاریخ کا روزہ جو نبوکدنضر کے یروشلم پر حملے کی یاد میں رکھا جاتا ہے۔
- تعنیت ایستر جو آدر کی تیرہویں تاریخ کو پیوریم کے تہوار پر رکھا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا روزوں میں یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ اگر روزہ سبت کے دن آگیا ہے تو اسے اتوار تک مؤخر کر دیا جائے۔ البتہ یوم کپور کا روزہ سبت کے دن بھی رکھا جاتا ہے اور ایستر کا روزہ سبت کے بجائے اگلی جمعرات کو رکھا جائے گا۔
ربیوں کے بتائے نفلی روزے
ربیوں کے رواج دیے ہوئے روزوں کا مقصد انسان میں نیکی اور راستبازی کو فروغ دینا ہے۔ یہ روزے ایک طرح سے نفلی روزے ہیں کیونکہ انہیں عبرانی بائیبل نے فرض کا درجہ نہیں دیا۔ یہ لوگوں کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ ان روزوں کو رکھیں یا نہ رکھیں۔ یہ ایک لحاظ سے یہودی ثقافت کا حصہ ہیں۔ ذیل میں ان روزوں کا مختصر تعارف درج کیا جا رہا ہے:
- تشری مہینے کے پہلے دس دن کا روزہ جس میں یہودی توبہ استغفار کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایلول کے روزے ہیں جو یہودی کیلنڈ ر کا چھٹا مہینہ ہے۔ ایلول کے روزوں میں دنوں کی کوئی قید نہیں ہے۔ اس مہینے یہودی جتنے روزے رکھ سکتے ہیں رکھ لیتے ہیں۔
- سکوت کی پہلی سوموار و جمعرات کا روزہ جو گناہوں سے معافی کے لیے رکھا جاتا ہے۔
- تاموز کے فرض روزہ سے پہلے کے روزے جو ہیکل کی یاد میں رکھے جاتے ہیں۔
- آدر کی ساتویں تاریخ کا روزہ جو موسیؑ کی موت کی یاد میں رکھا جاتا ہے۔
- یومِ کپور کی طرز کا روزہ جو ہر مہینے کے آخری دن رکھا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا روزوں کے علاوہ بھی کئی اور روزے ہیں جو غم و حزن سے بچنے کے لیے یا شکرانے کے طور پر رکھے جاتے ہیں۔
انفرادی روزے
یہودیت میں چند انفرادی روزے بھی ہیں جو مندرجہ بالا روزوں سے ہٹ کر ہیں۔ ان کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
- ماں باپ یا استاد کی موت کے دن کی یاد میں رکھے جانے والا روزہ۔
- شادی کے دن تقریب سے پہلے تک کا روزہ جو دولھا اور دلھن رکھتے ہیں۔
- توریت کے طومار کے ہاتھ سے گر جانے کا روزہ۔
اس کے علاوہ بھی اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں گرفتار ہو یا اسے کسی مصیبت کا اندیشہ ہو تو وہ نبیوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے روزہ رکھتا ہے۔[27] صنہادرین اس دن بھی روزہ رکھتے تھے جس دن وہ کسی کو سزائے موت کا حکم سناتے۔
نماز
عبرانی زبان میں نماز کے لیے " تِفیلہ " کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی نسبت سے سیناگاگ کو بیتِ تفیلہ یعنی نماز کی جگہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہودی عقیدے کے مطابق ان پر دن میں تین نمازیں فرض ہیں جیسا کہ زبور میں داؤدؑ کے حوالے سے بیان ہے: "میں تو مدد کے لیے خدا کو پکاروں گا، اور خداوند مجھے بچائے گا۔ میں تو اپنے دُکھ کو خدا سے صبح و شام، اور دوپہر میں کہوں گا۔ وہ میری سنے گا۔" ان تین فرض نمازوں کے علاوہ سبت اور دیگر تہواروں پر بھی چند مخصوص نمازیں ادا کی جاتیں ہیں۔ فرض نمازوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
- "شَخرِیت" یا صبح کی نماز جس کے تین حصے ہیں: پہلے توریت کی تلاوت کی جاتی ہے، پھر زبور سے دعائیں اور مناجات گائی جاتی ہیں اور آخر میں نماز کے لیے پکارا جاتا ہے جس میں "عمیدہ" ادا کی جاتی ہے۔ عمیدہ مخصوص دعائیں ہیں جو انسان انفرادی طور پر بھی مانگتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی اونچی آواز میں پڑھتا ہے۔ اونچی آواز میں پڑھے جانی والی دعاؤں کے جواب میں "آمین" کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کی کوئی بھی نماز عمیدہ کے بغیر نہیں ہوتی۔ عمیدہ کے علاوہ بھی بہت سی مخصوص دعائیں، مثلاً شماع، برکات اور کدیش وغیرہ ہیں جو مختلف نمازوں یا مواقع پر پڑھی جاتی ہیں۔ ان کے بارے میں معلومات سیدور میں درج ہوتی ہیں۔
- "میِنخا" یا عصر کی نماز۔ مختلف فرقے اسے مختلف انداز میں ادا کرتے ہیں تاہم ہر فرقہ عمیدہ بھی ادا کرتا ہے اور عبرانی بائبیل ہی سے بقیہ دعاؤں کا انتخاب کرتا ہے۔
- "مَعارِو" یا رات کی نماز۔ اس نماز میں عمیدہ، زبور اور توریت کی تلاوت ہوتی ہے۔
یہ نمازیں منیان یعنی جماعت کے ساتھ بھی ادا کی جا سکتی ہیں اور انفرادی طور پر بھی لیکن جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا زیادہ افضل قرار دیا گیا ہے۔ جماعت کے لیے کم از کم دس لوگ ہونے ضروری ہیں جن کی عمریں تیرہ سال سے ایک دن اوپر ہوں۔ نماز سے پہلے خود کو پاک کرنا یا وضو کرنا ضروری ہے۔ غلیظ یا گندی جگہ پر نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح ویران عمارتوں اور بند کمروں میں بھی نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے۔ لباس کے بارے میں بھی یہ ہدایت کی گئی ہے کہ کم از کم کمر سے نیچے تک کا جسم ڈھانپا ہو۔ سر بھی اگر ڈھانپا ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ عورت کے لیے البتہ ضروری ہے کہ وہ سر کو ڈھانپے۔ عورت کے ننگے بالوں کو عریانی سے تشبیہ دی گئی ہے۔[28] رخ یروشلم اور خاص طور پر ہیکل کی جانب اور خاص الخاص حرام الحرم کی جانب ہو۔ اگر کوئی شرعی عذر ہے تو کسی بھی سمت نماز ادا کی جا سکتی ہے بس دل میں خدا کا خیال کرنا ضروری ہے۔ نمازوں کی عبرانی زبان میں ادائیگی کو مقدم رکھا گیا ہے۔ حتی کے بعض ربیوں نے آرامی زبان میں نماز ادا کرنے سے بھی منع کیا ہے۔ البتہ عصر حاضر کے بعض یہودی فرقوں،مثلاً اصلاح شدہ یہودیوں میں عبرانی کی بجائے دیگر زبانوں میں نماز ادا کرنے کا رواج عام ہے۔
کتابِ استثنا کے مطابق نماز کا بنیادی مقصد خدا کی محبت کا اقرار کرنا اور اپنے دل کو اس کے ساتھ جوڑنا ہے۔[29] لہذا اس میں خاص اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نماز صرف و صرف خدا کے لیے پڑھی جائے اور اس میں دھیان سوائے خدا کے کسی اور طرف نہ جائے۔ بنیادی طور پر نماز خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے، اس کی تمجید بیان کرنے کے لیے اور اس سے التجا کے لیے کی جاتی ہے۔ نمازوں میں خدا سے مانگنے میں کسی قسم کی شرم یا جھجک کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا کیونکہ مدراش کے مطابق خدا سے جتنا زیادہ مانگا جاتا ہے وہ اتنا ہی خوش ہوتا ہے اور اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔[30]ربی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نماز کے لیے علیحدہ جگہ/عمارت ضرور ہونی چاہیے۔ اس لیے یہودیوں میں سیناگاگ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ایک طرف تو یہ ان کی نماز کی جگہ ہے اور دوسری طرف یہودی ثقافت کا ایک اہم جزو ہے۔ روایتی طور پر سیناگاگ کی عمارت کوشہر کی دیگر عمارتوں سے بلند بنایا جاتا تھا کیونکہ ربیوں کا خیال تھا کہ جس شہر کی عمارتیں سیناگاگ سے اونچی ہوں اس شہر میں تباہی نازل ہوتی ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ نماز نیچی جگہ پڑھی چاہیے تاکہ خشوع پیدا ہو سکے۔ سیناگاگ میں عبادت کے متعلق تلمود میں اس قدر زور دیا گیا ہے کہ ربی یہ کہتے ہیں کہ نماز صرف سیناگاگ ہی میں قبول ہوتی ہے۔ جو شخص جس روز سیناگاگ نہیں جاتا خدا اس سے باز پرس کرتا ہے۔ جو شخص اس دنیا کی سیناگاگ میں داخل نہیں ہوتا وہ اگلی دنیا کی سیناگاگ میں بھی داخل نہیں ہو سکتا۔[31] سیناگاگ میں مرد و عورت کی اکٹھی عبادت کے متعلق مختلف روایات ہیں۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے ابتدا میں مرد و عورت ہیکل میں اکٹھے قربانی کے لیے جاتے رہے ہیں۔ بعد میں ربیائی یہودیت میں مرد عورت کو نماز میں علیحدہ علیحدہ کرنے کو رواج دیا گیا۔ عصر حاضر میں مختلف فرقے اس ضمن میں مختلف تشریحات پیش کرتے ہیں۔
صدقات
عبرانی زبان میں صدقہ کا لفظ "نیکی" یا "عدل" کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یہودی اسی لفظ کو خیرات اور سخاوت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ خیرات صرف ایک فیاضانہ عمل ہی نہیں ہے بلکہ اس کا ادا کرنا ہر یہودی پر فرض ہے۔ خیرات کی مختلف صورتیں ہیں۔ عبرانی بائیبل میں اس کا متعدد جگہ ذکر ہے، مثلاً کتاب استثنا کے مطابق "تمہیں اس غریب شخص کے لئے اپنے دِل کو سخت نہیں کرنا چاہیے۔ اپنی مٹھی کو کسنا نہیں چاہیے۔ اس کے بجائے اپنے ہاتھوں کو کھو لو اور اس آدمی کو جن چیزوں کی بھی ضرورت ہو تو قرض دو۔"[32] کتابِ احبار میں ذکر ہے "ممکن ہے تمہارے ملک کا کو ئی شخص اتنا زیادہ غریب ہو جائے کہ اپنے آپ کی مدد نہ کر سکے تو تم اس کی مدد کرنا۔"[33] اسی طرح مزید بیان ہوا ہے: "جب تم اپنے کھیتوں کی فصل کاٹو تو تمہیں کھیت کے کونوں تک فصل کو نہیں کاٹنا چاہیے۔ اور جو اناج زمین میں گِرے اُسے مت اٹھا ؤ۔ اسے تم غریب لوگوں اور اپنے ملک میں رہنے وا لے غیر ملکیوں کے لئے چھوڑ دو۔"[34]
یہودیوں کا ماننا ہے کہ توریت میں کل 613 متسواہ یا وصیتیں ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر اچھا یہودی بنا جا سکتا ہے۔ صدقہ ایک ایسی نیکی ہے جو باقی تمام متسواہ کے برابر ہے۔ یہ تمام قربانیوں سے بہتر ہے، خدا اور انسان کے درمیان امن اور فہم کو فروغ دیتی ہے، نجات کی طرف لے جاتی ہے، گناہوں سے چھٹکارا دلاتی ہے، موت سے بچاتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ صدقہ کرنے والے کی اولاد عقلمند، دولتمند اور سمجھدار ہو۔ یہ اس کی زندگی لمبی کرتی ہے، اگلے جہان میں جزا کا سبب ہے اور اس کے روزے کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔ غرض کہ صدقہ دینے والا دنیا کو رحمدلی اور محبت سے بھر دیتا ہے۔ اس کے برعکس جو صدقہ نہیں دیتا وہ ایسے ہے جیسے بتوں کی عبادت کرے کیونکہ وہ ایک طرح سے پیسے کی عبادت کر رہا ہوتا ہے۔ ربی یہاں تک کہتے ہیں کہ بارشیں نہ برسنے کا سبب لوگوں کا صدقہ سے ہاتھ کھینچ لینا ہے۔[35]
عصر حاضر کے یہودی اپنے گھروں میں ایک نیلے اور سفید رنگ کا ڈبہ رکھتے ہیں جس میں صدقے کی رقم ڈالی جاتی ہے۔ ایسا کرنے کا مقصد بچوں کو صدقہ کرنے کی تربیت دینا ہوتا ہے۔ انہیں اس بات کا احساس دلانا ہوتا ہے کہ اپنے مال سے اپنے غریب یہودی بھائیوں کی مدد کریں۔ عموماً عبادات کے بعد سیناگاگ میں اس ڈبے کو ہر فرد کے سامنے لے جایا جاتا ہے جو اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ صدقہ اور عبادت ایک ساتھ چلتے ہیں۔ جب سائرس اعظم نے یہودیوں کو طویل اسیری کے بعد ہیکل کی تعمیر کی اجازت دی تھی تو عزراؑ کے ذمہ یہ لگایا گیا تھے کہ وہ لوگوں کو صدقہ پر ابھاریں تاکہ خانہ خدا کی تعمیر کے لیے رقم اکٹھی ہو سکے۔ اس وقت وہ یہودی جو خود مدد کے لیے نہیں آ سکتے تھے انہوں نے دل کھول کر اپنے مال میں سے صدقہ دیا۔ اسی طرح ربیائی یہودیت کے تحت رواج پانے والے مدارس بھی صدقات سے چلتے تھے۔ ربیوں نے اس ضمن میں کچھ ہدایات مہیا کی ہیں جو صدقہ دینے اور لینے والے کے متعلق رہنمائی کرتی ہیں۔ ان احکامات کے مطابق ہر شخص پر صدقہ دینا فرض ہے۔ حتی کہ اس شخص کو بھی اپنے سے کمتر لوگوں کو صدقہ دینا چاہیے جو خود صدقہ لے کر گزارا کرتا ہے۔ یہودی اور غیر یہودیوں میں پہلے یہودی کو صدقہ دیا جائے۔ صدقہ دیتے وقت پہلا حق صدقہ دینے والے کے اپنے خاندان کے غریب لوگوں کا ہے۔ اسی طرح صدقہ لینے کے حقدار صدقہ دینے والے کے اپنے شہر کے لوگ پہلے ہیں۔ غیر یہودیوں سے تعلقات بہتر رکھنے کے لیے ان کو بھی صدقہ دیا جا سکتا ہے۔ البتہ خود یہودیوں کو غیر یہودیوں سے معاشی مدد نہیں لینی چاہیے۔ اگر کوئی شخص معاشی مدد طلب کرے تو پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ واقعی محتاج ہے؟ تاہم اگر کوئی شخص کھانا مانگے تو اس کو فورا کھانا دینا چاہیے نہ کہ یہ دیکھیں کہ کیا وہ واقعی صدقہ کا حقدار ہے یا نہیں؟[36] صدقہ دینے کے متعلق عبرانی بائیبل نے بعض مخصوص ہدایات دی ہیں، مثلاً یہ کہ صدقہ رحمدلی سے دیا جائے۔[37] دل کو سخت نہ کیا جائے، "غریب لوگوں کو بنا کسی ہچکچا ہٹ کے دو اور اسے دینے کا بُرا نہ ما نو۔ ۔۔"[38] اس ضمن میں موسی ابن میمون کے فراہم کردہ اصول یہودیوں میں خاصے مقبول ہیں جو صدقے کے مختلف درجات کی وضاحت کرتے ہیں۔ ان درجات کا خلاصہ درج ذیل ہے:
- آٹھواں درجہ یہ ہے کہ دل برا کر کے دینا۔
- ساتواں درجہ یہ ہے کہ خوشی سے دینا مگر کم دینا۔
- چھٹا درجہ یہ ہے کہ مناسب دینا مگر مانگنے کے بعد دینا۔
- پانچواں درجہ یہ ہے کہ مانگنے سے پہلے دے دینا۔
- چوتھا درجہ یہ ہے کہ ایسے دینا کہ لینے والے کو تو علم ہو لیکن دینے والے کو نہیں۔
- تیسرا درجہ یہ ہے کہ ایسے دینا کہ دینے والے کو تو علم ہو لیکن لینے والے کو نہیں۔
- دوسرا درجہ یہ ہے کہ ایسے دینا کہ نہ دینے والے کو پتہ ہو اور نہ لینے والے کو۔
- سب سے اعلی اور پہلا درجہ یہ ہے کہ عزت کے ساتھ تحفے کے طور پر دینا یا اچھے انداز میں قرض دینا یا کسی کو کام دینا تاکہ وہ خود کما سکے۔[39]
یہودیوں کو عام حالات میں منع کیا گیا ہے کہ وہ صدقہ لینے سے گریز کریں۔ ادنی ترین کام کر لیں لیکن صدقے نہ لیں(لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امیر لوگ غریبوں کو ان ہدایات کا طعنہ دیں)۔ جب کوئی واقعی ضرورت مند ہوں تو صدقہ لے تب ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مشقی سوالات
مختصر سوالات |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
تفصیلی سوالات |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
[1] Steinberg, Basic Judaism, 32.
[2] خروج 20: 7
[3] استثنا 6: 4
[4] پیدائش 18: 31
[5] خروج 3: 14
[6] پیدائش 1: 1
[7] گنتی 23: 19
[8] خروج 19: 5
[9] یسعیا 42: 6
[10] Dosick, Living Judaism: The Complete Guide to Jewish Belief, Tradition, and Practice, 19.
[11] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 427.
[12] احبار 26: 45
[13]https: //www.mfa.gov.il/mfa/aboutisrael/state/pages/acquisition%20of%20israeli%20nationality.aspx, accessed on 28-4-2021.
[14] خروج 20
[15] Halbertal, Maimonides: Life and Thought, 135-36.
[16] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 450.
[17] Dana Evan Kaplan, American Reform Judaism: An Introduction (London: Rutgers University Press, 2003), 16.
[18] گنتی 16: 33
[19] دوم سلاطین 2: 11
[20] Cohn-Sherbok, Judaism: History, Belief and Practice, 458-59.
[21] Megillah 14a
[22] پیدائش 27
[23] گنتی 4
[24] احبار 12
[25] استثنا 16: 16
[26] یسعیاہ 58
[27] دوم سموئیل 12: 22
[28] Ronald L. Eisenberg, What the Rabbis Said (California: Praeger, 2010), 240.
[29] استثنا: 11: 13
[30] Tehillim 4: 3
[31] Eisenberg, What the Rabbis Said, 227.
[32] استثنا 15: 7
[33] احبار 25: 35
[34] احبار 23: 22
[35] Eisenberg, What the Rabbis Said, 69.
[36] Ibid., 69-70.
[37] زبور 27: 26
[38] استثنا 15: 10
[39] Hayim Galevy Donin, To Be a Jew: A Guide to Jewish Observance in Contemporary Life (New York: Basic Books Inc, 1972), 50.
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
Loading... | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |