1676046516391_54335541
Open/Free Access
157
بنیادی رسوم رواج
ایک مذہبی یہودی کی ساری زندگی مختلف رسومات میں منقسم ہے جو اس کی پیدائش سے لے کر اس کے مرنے کے بعد تک جاری رہتی ہیں۔ مشنانے اس زندگی کا خلاصہ درج ذیل لفظوں میں بیان کیا ہے:
پانچ سال کی عمر میں مقدس کتب کی پڑھائی، دس سال کی عمر میں مشنا کی پڑھائی، تیرہ سال کی عمر میں وصیتوں کی پیروی، پندرہ سال میں تلمود کی پڑھائی، اٹھارہ سال میں شادی، بیس سال میں ملازمت، تیس سال میں قوت کا عروج، چالیس سال میں دانائی، پچاس میں صلاح دینے کے قابل، ساٹھ میں بڑھاپا، ستر میں سالوں سے بھرپور، اسّی میں "ہمت" کی انتہا، نوے میں خم رسیدہ، سو سال میں مردے کی مانند اور اس دنیا سے کوچ۔[1]
باب ششم کے اہم نکات
|
یہودیت کا شمار ان مذاہب میں ہوتا ہے جن میں عورتوں کو نبیہ ہونے کا درجہ بھی حاصل ہے۔ یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ بعض رسومات یا عبادات سے عورت کو مستثنی کرنا ان کی مذہبی قدر کم کرنا نہیں ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خاندان کی دیکھ بھال، گھریلو ذمہ داریاں اور بچے کی پرورش جیسے مشکل کام انہیں کی مرہون منت چلتے ہیں۔ اس لیے انہیں بعض جگہوں پر استثنی حاصل ہے۔ عصر ِحاضر میں اصلاح شدہ اور رجعت پسند یہودیوں نے اب ایسی رسومات متعارف کروا دی ہیں جو خصوصیت کے ساتھ عورت سے متعلق ہیں۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ضمن میں یہودیت میں وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا ہوتا آیا ہے۔
یہودی تہذیب و ثقافت کی تعریف کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنی چار ہزار سالہ تاریخ میں بہت کم خود مختار زندگی گزاری ہے۔ یہ جس قوم یا مذہب کے تحت رہے وہاں کی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہوتے رہے۔ اس لیے یہودیوں کی تہذیب کو تاریخ سے تلاش کرنا ایک دشوار عمل ہے جس میں غلطیوں کی گنجائش بدرجہ اولی موجود ہے۔ یہودی مصنفین نے اپنی تہذیب و ثقافت پر جو کتب تحریر کی ہیں وہ بھی زیادہ تر ان کی تاریخ ہی کو تہذیب کی چادر میں لپیٹ کر بیان کرتی ہیں۔ ان کتب سے یہودی تہذیب کی پیچیدگیوں اور موضوع کی وسعت کا علم تو ہوتا ہے تاہم اس عمل کی فلسفیانہ موشگافیوں میں تہذیب و ثقافت کا عملی بیان ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ اس وجہ سے زیر نظر باب میں یہودی تہذیب و ثقافت کے عملی پہلوؤں یعنی ان کے عمومی رسم و رواج، کیلنڈر اور تہواروں کو مختصراً بیان کیا گیا ہے۔
ختنہ
ختنہ یہودیوں میں ایک مقدس عبادت، عہد اور تہوار کے طور پر منائی جانے والی تقریب ہے۔ عبرانی زبان میں اس کے لیے "بریت میلا" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ کسی بھی یہودی بچے کی زندگی کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ اس عمل کی تاریخ ابراہیمؑ کے خدا کے ساتھ کیے گئے عہد سے جا ملتی ہے جس کا مختصر بیان پہلے باب میں گزر چکا ہے۔ اسے یہودیوں کو دی گئی پہلی وصیت بھی کہتے ہیں۔ آج تک یہودی اس عہد کی پاسداری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر نئے بچے کی پیدائش پر آٹھویں روز اس کا ختنہ کیا جاتا ہے۔ البتہ تلمود صحت کی خرابی یا کسی جسمانی نقص کی وجہ سے اس عمل کو مؤخر کر دینے کی اجازت دیتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی عورت کے دو بیٹے ختنہ کے بعد فوت ہو جائیں تو تیسرے کا ختنہ نہیں کیا جاتا۔[2] بعد میں جب وہ بچہ بڑا ہو جائے اور اسے بیماری کا خطرہ بھی نہ ہو تب وہ اس عمل سے گزر سکتا ہے۔
یہ ایک مذہبی عمل ہے جس کی ادائیگی کے وقت بعض مخصوص دعائیں پڑھی جاتی ہیں۔ گھر میں خوشی کی ایک تقریب منعقد ہوتی ہے۔ کسی بڑے بوڑھے کو "سندک" یعنی روحانی/رضائی باپ مقرر کیا جاتا ہے جو کہ بڑے اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے۔ روحانی باپ کی طرح روحانی ماں بھی مقرر کی جاتی ہے جو بچے کو ختنہ کے کمرے میں لے کر آتی ہے۔ سندک بچے کو کپڑوں میں لپیٹ کر پکڑتا ہے اور "موہیل" بچے کا ختنہ کرتا ہے۔ موہیل ختنہ کرنے والے کو کہا جاتا ہے جو اس کام کے لیے باقاعدہ تربیت یافتہ ہوتا ہے۔ سرکاری طور ایسے لوگ بھی مقرر ہوتے ہیں جو اس عمل کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ ختنہ کا یہ قومی اور مذہبی عمل درست طریقے سے ادا ہوتا رہے۔[3] ختنہ کے بعد کھانے کی میز سجتی ہے جس میں ایک کرسی خالی چھوڑ دی جاتی ہے۔ یہ ایلیاہؑ کی نشست سمجھی جاتی ہے جو یہودی عقیدہ کے مطابق مسیحِ موعود سے پہلے دنیا میں دوبارہ آئیں گے۔ چونکہ ایلیاہؑ نے ختنہ کی روایت پر بہت زور دیا تھا لہذا یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ ہر ختنہ کے وقت وہ خود موجود ہوتے ہیں۔[4] ختنہ سے پہلے تک اسی نشست پر بچے کو لٹایا جاتا ہے۔ خاندان کے لوگ ایلیاہؑ نبی کی یاد میں گیت گاتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں۔ اسی تقریب میں بچے کا نام رکھا جاتا ہے۔ بیٹیوں کے نام عموماً سیناگاگ میں رکھے جاتے ہیں جہاں ربی مخصوص دعائیں پڑھ کر نام تجویز کرتے ہیں۔ نسوانیت کی تحریکوں کے زیر اثر بیٹیوں کو بھی اس عمل سے گزارنے کے لیے مختلف رسومات متعارف کروائی جاتی رہی ہیں تاہم یہودیوں کے درمیان اس حوالے سے کوئی نئی رسم مقبول نہیں ہو سکی۔ چنانچہ آج بھی یہودیوں میں بیٹی کی نسبت بیٹے کی پیدائش ایک بڑا واقعہ سمجھا جاتا ہے اور اگر بچہ پہلوٹھا بھی ہو تو اس عمل کی وقعت مزید بڑھ جاتی ہے۔[5]
ختنہ کیے جانے کی ضرورت کے بارے میں یہودیوں میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ ایک رومی گورنر نے عقیبہ بن یوسف سے پوچھا کہ ختنہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اگر ختنہ اتنا ہی ضروری ہوتا تو خدا بچے کو مختون ہی پیدا کرتا۔ اس سوال کے جواب میں ابن یوسف نے کہا کہ " خدا نے دنیا کو ناقص اور غیر مکمل تخلیق کیا ہے اور یہ انسان کے ذمہ ہے کہ اس بے عیب اور مکمل کرے۔"[6] اس لیے ختنہ صرف ایک مذہبی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ کسی یہودی کی زندگی میں ایک نئے طرزِ فکر کی شروعات بھی ہے۔ اس میں بچپن سے کائنات کے مطالعے اور اسے بہتر بنانے کا شوق پروان چڑھتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہودیت کو بطور مذہب بھی اختیار کرے تو اسے بھی ختنہ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ اگر وہ پہلے ہی مختون ہو تب بھی اس کے عضو تناسل سے خون بہانا ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ خدا سے کیے گئے جسمانی عہد کی پاسداری ہو سکے اور اس شخص کی حیثیت بھی پیدائشی یہودی کے برابر سمجھی جائے۔[7] عصر حاضر میں بھی تقریباً تمام یہودی گروہ اس رسم پر عمل پیرا ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ تقریب کو گھر میں منعقد کرنے یا مذہبی رنگ دینے کی بجائے ہسپتال میں کسی ماہر سرجن کے ذریعے ختنہ کروا لیا جاتا ہے۔
تقریب کفارہ
اگر کسی خاندان میں پہلے بیٹا پیدا ہو تو وہ بچہ پہلوٹھا کہلاتا ہے جس کا کفارہ دیا جانا ضروری ہے۔ کتابِ پیدائش میں ذکر ہے " تمہیں اسرائیلیوں میں سے ہر پہلو ٹھے مرد کو مجھے دینا چاہیے۔ ہر ایک عورت کا پہلا نر بچہ اور ہر جانور کا پہلا نر بچہ میرا ہو گا۔"[8] لہذا تاریخی طور پر ہر عورت کا پہلا بیٹا خدا کی نذر ہوتا تھا جس کی قربانی دی جاتی تھی۔ جیسا کہ ابراہیمؑ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اسحاقؑ کی قربانی دیں۔ یہ قربانی جسمانی طور پر وقوع پذیر نہیں ہوئی تھی اور صرف ایک آزمائش تھی جس پر آپؑ پورے اترے۔ اس لیے پہلوٹھے کو قربان کرنے کی بجائے اس کا کفارہ ادا کیا جاتا ہے جس کا حکم کتابِ گنتی میں ہے: "جب وہ ایک مہینے کا ہو جائے تب تمہیں ان کے لئے کفّارہ لے لینا چاہیے۔ اُس کی قیمت پانچ مثقال چاندی ہو گی۔"[9] یہ کفارہ اس صورت میں ادا کرنا ہو گا جب پہلا بچہ بیٹی نہ ہو بلکہ بیٹا ہو۔ اگر پہلے بیٹی پیدا ہو چکی ہے یا حمل گر چکا ہے تو کفارہ نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح اگر بچہ کسی کاہن کے گھر پیدا ہو تب بھی کفارہ کی رسم ادا نہیں کی جاتی۔
کتابِ گنتی کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے راسخ العقیدہ یہودی پیدائش کے ایک ماہ بعد بچے کو سیناگاگ لے جاتے ہیں جہاں اس کا والد کاہن کو بتاتا ہے کہ یہ اس کا پہلوٹھا بیٹا ہے۔ وہ بچہ اور پانچ مثقال (تقریبا96 گرام) چاندی کاہن کو دیتا ہے۔ کاہن بچے کے والد سے پوچھتا ہے کہ اسے بیٹا چاہیے یا چاندی؟ والد کے اثبات کے بعد بچے کو دعاؤں کے ساتھ باپ کے حوالے کر دیا جاتا ہے جس سے کفارے کی رسم طے پا جاتی ہے۔ یہ رسم مذہبی عورتوں کے دل میں تمنا پیدا کرتی ہے کہ ان کی پہلی اولاد بیٹا ہو تاکہ ان کے شوہر "پیدیون ہابین" یعنی کفارے کی رسم ادا کر سکیں۔ راسخ العقیدہ یہودیوں کے برعکس اصلاح شدہ یہودی اس تقریب کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ ایک پرانی رسم ہے جو کاہنوں کے لیے تھی۔ اس سے بیٹیوں کا استحصال ہوتا ہے۔
بار/بات متسواہ
یہودیت میں تیرہ سال بچے کی بلوغت کی عمر سمجھی جاتی ہے۔ ایسے بچے کے لیے "بار متسواہ" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کا لفظی مطلب "وصیت کا بیٹا" ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بچہ اب اس قابل ہے کہ وہ توریت کی وصیتوں پر عمل کر سکے۔ اسی لیے یہودی جب با جماعت نماز کی تیاری کرتے ہیں تو پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ نماز میں کم از کم دس ایسے افراد شامل ہوں جن کی عمر تیرہ برس سے اوپر ہو۔ اسی طرح تیرہ سال کی عمر میں بچہ روزہ رکھنے کا مکلف بھی ہو جاتا ہے۔ قدیم یہودیت میں اس تقریب کے انعقاد کا پتہ نہیں چلتا۔ یہ ذکر ضرور ہے کہ تیرہ سال کی عمر میں بچہ توریت کی وصیتوں پر عمل کے قابل ہو جاتا ہے۔ عصر ِحاضر کے یہودی اس تقریب کو باقاعدہ مناتے ہیں۔ بعض مصنفین کے مطابق اس رسم کے تانے بانے قرون وسطی سے جا ملتے ہیں۔[10]
یہ تقریب زیادہ تر اُسی سبت منعقد کی جاتی ہے جس ہفتے بچے کی عمر تیرہ برس ہوتی ہے لیکن یہ لازمی نہیں ہے۔ عصر حاضر کے یہودی اس بات کا زیادہ خیال کرتے ہیں کہ تقریب ایسے دن منعقد ہو جب سیناگاگ میں کوئی اور تقریب نہ ہو رہی ہو۔ بچے سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ اس وقت تک وہ خود توریت کی تلاوت کے قابل ہو چکا ہو کیونکہ اس تقریب میں اس نے یہ کام کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے "تلیت" پہننے کے قابل بھی سمجھا جانے لگتا ہے۔ تلیت جھالروں والی اُس دھاری دار روایتی چادر کو کہتے ہیں جو یہودی مذہبی تقریبات کے دوران اوڑھتے ہیں۔ کپّا یعنی سر پر پہننے والی ٹوپی اور تلیت ان چند بچی کھچی روایات میں سے ہیں جنہیں یورپی یہودی بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ ورنہ اپنے لباس اور رہن سہن میں زیادہ تر یورپی یہودی خصوصاً خواتین نے پرانی روایات کو نظر انداز کر دیا ہے۔ سیناگاگ میں عورتوں کے لیے پردے کا الگ انتظام ہوا کرتا تھا جبکہ عصر حاضر کے اصلاح شدہ یہودی اس پر بھی کاربند نہیں رہے۔
بار متسواہ کی تقریب زیادہ تر سیناگاگ ہی میں منعقد ہوتی ہے۔ بچہ جب توریت کے مخصوص حصوں کی تلاوت کر لیتا ہے تو اسے تحائف دیے جاتے ہیں جو زیادہ تر رقم کی صورت میں ہوتے ہیں۔ یہاں عجیب شور و غل اور ہنگامے کی کیفیت ہوتی ہے۔ اِدھر بچے نے تلاوت مکمل کی اُدھر اس کے ہم جولیوں نے اس پر پیسوں کی برسات کر دی۔ سکوں کی صورت میں انہیں دور سے پھینکا جاتا ہے جن سے چوٹ لگنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ والدین بچے کو ترغیب دیتے ہیں کہ اس رقم کا دس فیصد صدقہ کرے اور بقیہ سنبھال کر رکھ دے۔ جب وہ اٹھارہ برس کا ہو جائے تب اسے استعمال کرے۔ عموماً تقریب کا یہ پہلا حصہ سیناگاگ میں منعقد ہوتا ہے اور اس کے بعد کھانے پینے یا رقص کے لیے کسی دوسری جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
بچیوں کی اسی رسم کو "بات متسواہ" کہا جاتا ہے جس کا مطلب "وصیت کی بیٹی" ہے۔ ان کی یہ رسم تیرہ کی بجائے بارہ برس کی عمر میں ادا کی جاتی ہے۔ لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے لیے یہ رسم زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ لڑکے تو پیدائش کے ساتھ ہی ختنہ کی رسم سے گزر جاتے ہیں جو ایک طرح سے ان کی یہودی شناخت کا ثبوت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس لڑکیوں کے لیے بالغ ہونے تک کوئی رسم موجود نہیں ہوتی۔ راسخ العقیدہ یہودیوں کے ہاں اس رسم میں لڑکیاں توریت کی تلاوت نہیں کرتیں جبکہ اصلاح شدہ یہودی یا رجعت پسند یہودیوں کے ہاں لڑکیوں کی تقریب بھی لڑکوں کی تقریب ہی کی طرح منائی جاتی ہے۔[11] اس رسم کا بنیادی مقصد بچے کو یہ احساس دلانا ہوتا ہے کہ اب وہ اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ اسے اپنے مذہبی فرائض ذمہ داری سے سر انجام دینے ہوں گے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس رسم کو جب باقاعدہ ادا کیا جائے گا تو ہی وہ مکلف ہو گا۔ چاہے کوئی رسم ادا ہو یا نہ ہو تیرہ برس کی عمر میں پہنچے کے بعد وہ مکلف ہو جاتا ہے۔
سبت
سبت کسی بھی یہودی کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے جو جمعہ غروب آفتاب سے شروع ہو کر ہفتہ غروب آفتاب تک جاری رہتا ہے۔ عبرانی بائیبل کے مطابق خدا نے چھ دن میں دنیا تخلیق کی اور ساتویں دن آرام کیا۔ اس نے "ساتویں دن کو برکت دی اور اُس کو مقدس دن قرار دیا۔"[12] عبرانی زبان میں سبت کا مطلب ہی "آرام کا دن" ہے۔ احکام عشرہ میں خدا نے خاص طور پر تاکید کی کہ سبت کو یاد رکھا جائے اور مقدس دن کے طور پر منایا جائے۔ چنانچہ سبت ایک ایسا تہوار ہے جو یہودی عقیدے کے مطابق خدا اور انسان دونوں مناتے ہیں۔ جو یہودی سبت کو مکمل آرام کرتا ہے اسے مکمل یہودی سمجھا جاتا ہے۔ یہودیوں میں ایک قول مشہور ہے کہ "جتنا اسرائیل سبت کی حفاظت کرتی
ہفتے کے دن
|
عموماً سبت کے دن ہر قسم کا کام منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہودی اس دن کوئی کاروبار، تجارت، گھریلو کام وغیرہ نہیں کرتے۔ کچھ یہودی تو اس دن بجلی کی مصنوعات، یہاں تک کے موبائل فون کا استعمال بھی نہیں کرتے۔ یہودی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں نے سبت کے احترام کا ہر دور میں خیال رکھا ہے۔ وہ چاہے سلیمانؑ کے دورِ حکومت کی سر بلندیوں پر تھے، بابل میں جلاوطن کر دیے گئے تھے، یونانی دور کی تباہ کاریاں دیکھ رہے تھے، مسیحیوں کے مظالم سہہ رہے تھے، مسلمانوں کے ساتھ علمی کاموں میں مشغول تھے یا یورپ میں سامی مخالفت کی بھینٹ چڑھائے جا رہے تھے، انہوں نے سبت کے تہوار کو اہتمام سے منایا ہے۔ تلمود کے مطابق جب وہ ایسا کرنے سے قاصر رہے ان پر تباہی و بربادی نازل ہوئی۔[15] عصر حاضر میں زیادہ تر اصلاح شدہ اور رجعت پسند یہودی سبت کی بیشتر پابندیوں کا خیال نہیں رکھتے۔ البتہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اس دن مکمل آرام کیا جائے اور خدا، خاندان اور دوستوں کے ساتھ ایک خوشگوار وقت گزارا جائے۔
روایتی طور پر سبت سے قبل تمام گھریلو کام مکمل کر لیے جاتے ہیں۔ عبرانی بائیبل کے مطابق سب سے پہلا کام جو خدا نے تخلیق کے دوران کیا تھا وہ روشنی کرنے کا تھا[16] اس وجہ سے یہودی شمعیں جلا کر سبت کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں اور خالق اور تخلیق کو یاد کرتے ہیں۔ سبت کی شروعات دعاؤں سے ہوتی ہے جو زیادہ تر زبور سے لی جاتی ہیں۔ باقاعدہ عبادت کا اہتمام سیناگاگ میں کیا جاتا ہے جس میں اجتماعی دعائیں پڑھی جاتی ہیں اور سبت کی مبارک باد دی جاتی ہے جسے "شبت شلوم" کہتے ہیں۔ عبرانی زبان کا لفظ شلوم عربی لفظ سلام ہی کی طرح ہے جس کا مطلب "امن" ہے۔ اصلاح شدہ یہودی یہ عبادات رات کو تاخیر سے شروع کرتے ہیں تاکہ ملازمت پیشہ لوگ بھی بآسانی اس تہوار میں شرکت کر سکیں۔ تاخیر سے شروع کی جانے والی یہ عبادات اپنی نوعیت میں زیادہ رسمی ہوتی ہیں جن میں ربی کا وعظ بھی ہوتا ہے، موسیقی بھی اور کھانے کا اہتمام بھی۔ عبادات کے بعد لوگ دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، ایک دوسرے کو اس تہوار کی مبارک باد دیتے ہیں اور طنز و مزاح کی محفل سجاتے ہیں۔[17]
جمعہ کا اہم ترین حصہ عشائیہ ہے جس میں عمدہ کھانوں سے مزین میز سجائی جاتی ہے۔ قدیش پڑھنے کے ساتھ کھانا شروع کیا جاتا ہے۔ یہودیت میں شراب نوشی کو خوشی اور تسکین کی علامت سمجھا جاتا ہے لہذا کھانے کی میز پر اس کا ہونا ضروری ہے۔ بیشتر عبادات اور تہواروں میں اس کا استعمال ضرور کیا جاتا ہے۔ گھر کا بڑا شراب کا جام ہاتھ میں پکڑ کر گیت گاتا ہے۔ خاوند، عبرانی بائیبل سے کچھ آیات لے کر اپنی بیوی کی تعریف کرتا ہے اور بچوں کو پیار کرتا ہے۔ ایک مخصوص سفید روٹی توڑ کر کھانے کا آغاز کیا جاتا ہے۔ دن کا اختتام مذہبی دعائیں، مناجات اور گانے گا کر خوشی خوشی کیا جاتا ہے۔
ہفتے کے دن کا سب سے اہم کام توریت کا ہفتہ وارانہ سبق ہوتا ہے جو تمام یہودیوں کے لیے پڑھا جانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس دن کا ایک حصہ عبادات میں اور ایک حصہ مطالعے میں صرف کیا جائے۔ تاہم دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد کا وقت لوگ اپنی مرضی سے گزارتے ہیں۔ کتابیں پڑھنا، گھومنا پھرنا، آرام کرنا یا دوستوں سے ملنا یہ ان کی مرضی ہوتی ہے۔ تقریبا عصر کے وقت توریت کی مختصر تلاوت کی جاتی ہے اور ہلکے پھلکے کھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ کھانے جمعہ کے دن ہی تیار کر لیے جاتے ہیں کیونکہ یہودی سبت کے دن شرعی طور پر آگ نہیں جلا سکتے۔ ہفتے کی شام جب آسمان پر تین ستارے دکھائی دینے لگتے ہیں تو سبت کا اختتام ہو جاتا ہے اور ایک سے زائد شعلوں والی شمع روشن کی جاتی ہے جو اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ اب گھر میں آگ جلائی جا سکتی ہے۔ سبت کا اختتام بھی دعاؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
شادی
یہودیت میں انسان کے مجرد رہنے کو پسند نہیں کیا جاتا ہے۔ عبرانی بائیبل کے مطابق آدمؑ و حواؒ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنی نسل کو بڑھائیں۔ اسی لیے یہودیوں کی یہ مذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی نسل کی حفاظت کریں اور خاندان کو بڑھائیں۔ جب وہ بابل میں غلام بنا کر لے جائے گئے تھے تو یرمیاہؑ نے انہیں یہ نصیحت بھی کی تھی کہ اپنی نسل کو بڑھائیں تاکہ ان کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھے۔ روایتی طور پر شادی کے لیے لڑکی کی تلاش لڑکے کا باپ اپنے کسی ملازم کے ذریعے کرتا ہے۔ جیسا کہ ابراہیمؑ کی روایت ہے کہ انہوں نے اسحاقؑ کی شادی کے لیے اپنے ملازم کو بھیجا جو ربقہ کو تلاش کر کے لائے۔ اس سلسلے میں تلمود نے یہودی معاشرہ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے عورت کی توقیر اس کے حسن کی بجائے اس کے ماں بننے کی صلاحیت میں رکھی۔ یہودیوں کو بتایا کہ جس کی بیوی نہیں ہے اس کے پاس نہ تو خوشی ہے نہ برکت اور نہ کوئی اچھائی یا "جس کے پاس بیوی نہیں اس کے پاس توریت نہیں۔"[18] اگر کسی کی بیوی خدا سے ڈرتی ہے اور وہ اس کے پاس نہیں جاتا، اس سے مباشرت نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہے۔ اس سے پہلے تک یہودی اپنی بیوی کو اس وجہ سے بھی طلاق دے دیا کرتے تھے کہ انہیں کوئی دوسری خوبصورت عورت میسر آ جاتی۔ لیکن ربیائی ادب نے انہیں یہ باور کروا دیا کہ بیوی کے انتخاب میں ایک زینہ نیچے اترو؛ یعنی اگر عورت کمتر حیثیت کی بھی ہو تب بھی اس سے شادی کی جائے۔ لہذا یہودیت میں شادی ایک شرعی عمل کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہودیوں میں شادی کی رسومات میں تغیر پایا جاتا ہے جو زیادہ تر علاقائی ثقافت کی وجہ سے ہے۔ کچھ رسومات ایسی ہیں جو تقریبا تمام یہودیوں میں مشترک ہیں۔ شادی کی رسومات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے حصے کو "اوئفروف" کہا جاتا ہے جس کا مطلب "بلانا" ہے۔ اس حصے میں شادی کی تقریب سے پہلے والے سبت میں لڑکے کو "آلیہ" یعنی توریت کے ایک مخصوص حصے کی تلاوت کے لیے بلایا جاتا ہے۔ بعد میں ربی شادی کی تقریب کے خیر و عافیت سے وقوع پذیر ہونے کے لیے دعاؤں اور نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہے۔ راسخ العقیدہ یہودیوں میں صرف لڑکا ہی اس رسم کو ادا کرتا ہے جبکہ اصلاح شدہ اور رجعت پسند یہودیوں میں لڑکی بھی اس رسم کو ادا کرتی ہے۔ بعض یہودیوں کے ہاں اس رسم کی ادائیگی کے بعد لڑکا اور لڑکی پر میٹھی چیزوں جیسے ٹافیوں کی برسات بھی کی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں میٹھی اور پرسکون زندگی نصیب ہو۔
شادی کے دوسرے حصے کو" کِدوشین" کہتے ہیں جس کا مطلب "تقدس" ہے۔ کدوشین دو حصوں پر مبنی ہے۔ پہلے حصے میں منگنی اور دوسرے حصے میں شادی۔ یہودیت میں پہلے یہ رواج رہا ہے کہ شادی سے کچھ عرصہ پہلے منگنی کی رسم ادا کر دی جاتی اور شادی عموماً سال بعد کی جاتی۔ اب ان دونوں رسموں کو باہم ملا بھی دیا جاتا ہے۔ منگنی کی رسم کی شروعات "کتوبا" پڑھے جانے سے ہوتی ہے۔ کتوبا ایک قانونی دستاویز ہے جس کے بغیر شادی ممکن نہیں۔ کتوبا پر دولھا کی موت یا طلاق کی صورت میں دلہن کو ملنے والی جائیداد یا رقم کے متعلق لکھا جاتا ہے۔ کتوبا کا صرف ایک نسخہ ہوتا ہے جو دلہن کی ملکیت میں رہتا ہے۔ کتوبا کی تاریخ اس بات کی عکاس ہے کہ یہودیت نے تقریبا دو ہزار سال پہلے اس دستاویز کو رواج دے کر عورت کا ایک آئینی اور قانونی حق متعارف کروایا۔ اس سے پہلے کی عورت کو اپنے خاوند کی وفات یا طلاق کے بعد جائیداد میں سے حصہ نہیں ملتا تھا۔ خاوند کی جائیداد اس کے بھائیوں اور بیٹوں میں تقسیم ہو جاتی تھی۔
کتوبا کے پڑھے جانے کے بعد دو گواہ اس پر دستخط کرتے ہیں۔ پھر دولھا، دلہن کو کوئی قیمتی چیز تحفے میں دیتا ہے۔ قیمتی تحفہ دینا بھی شادی کی ایک قانونی ضرورت ہے۔ عصر حاضر میں دولھا اپنی دلہن کے سیدھے ہاتھ کی پہلی انگلی میں سونے کی انگوٹھی پہناتا ہے اور کہتا ہے کہ "تم موسی اور اسرائیل کے قانون کے مطابق میرے لیے محترم ہو۔" شرعی ضرورت یہ ہے مرد عورت کو کوئی قیمتی چیز دے تاہم عصر حاضر کی شادیوں میں دلہن بھی دولھے کو انگوٹھی پہنا کر درج بالا جملہ دوہراتی ہے۔[19] دلہن کے انگوٹھی پہنانے کا رواج زیادہ تر اصلاح شدہ اور رجعت پسند یہودیوں میں ہے۔ اس کے بعد شراب کے ایک کپ پر دعائیں پڑھی جاتی ہیں جسے پہلے دولھا اور پھر دلہن پیتی ہے۔ شادی کے لیے ایک عارضی چھپر بنایا جاتا ہے جسے "خوپا/حوپا" کہتے ہیں۔ علامتی طور پر خوپا نئے گھر کا اظہار ہے جس میں دولھا اور دلہن کو رہنا ہوتا ہے۔ شادی کے بعد سب لوگ خوپا کے نیچے کھڑے ہو جاتے ہیں جو ایک گھر کی تکمیل کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
وفات اور ماتم
یہودیت میں کسی بھی شخص کی وفات کے بعد اس پر عائد مذہبی ذمہ داریاں ختم ہو جاتی ہیں۔ اس شخص کی تجہیز و تکفین کی ذمہ داری اہل علاقہ پر ہوتی ہے جس کے لیے انہوں نے ایک انجمن قائم کی ہوتی ہے جسے " خَیوَرہ کَدِیشا" یعنی "مقدس انجمن" کہا جاتا ہے۔ عصر ِحاضر میں تجہیز و تکفین کے لیے پیشہ ور لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جبکہ پرانے وقتوں سے خیورہ کدیشا ہی یہ ذمہ داری ادا کرتی آئی ہے۔ آج بھی بعض علاقوں میں خیورہ کدیشا ہی آخری رسومات ادا کرتی ہے۔ یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ مرنے والے کی روح فوری طور پر خدا کے حضور پیش ہو جاتی ہے لہذا ضروری ہے کہ جلد از جلد اس کے جسم کو بھی سپردِ خاک کر دیا جائے۔ عام حالات میں یہ عمل چوبیس گھنٹوں کے اندر مکمل کر دیا جاتا ہے جبکہ خصوصی حالات، مثلاً اگر مرنے والے کے کسی قریبی عزیز نے آنا ہو یا کوئی قانونی دشواری ہو تو اس میں تاخیر بھی کی جا سکتی ہے۔ خیورہ کدیشا کے اراکین میت کو اٹھا کر نہلاتے ہیں اور پھر اسے سفید رنگ کے کپڑے کا کفن پہنا کر لکڑی کے بنے ایک تابوت میں رکھ دیتے ہیں۔ کفن سر کو ڈھکنے کے ایک کپڑے، شلوار، قمیص اور ایک بڑی شال پر مبنی ہوتا ہے جس کے اوپر تلیت بھی ڈال دی جاتی ہے۔ عبرانی بائیبل سے کچھ دعائیں خاص طور پر توریت کی تلاوت کی جاتی ہے اور مردے کو دفنا دیا جاتا ہے۔ راسخ العقیدہ یہودی لاش کو قبر میں دفنانا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ انسان کا جسم خاک سے بنایا گیا ہے[20] اس لیے اسے خاک ہی کے سپرد کرنا چاہیے۔ البتہ عصرِ حاضر میں کچھ یہودی فرقے خصوصاً اصلاح شدہ یہودی لاش کے جلانے کو بھی جائز سمجھنے لگے ہیں۔[21]
چونکہ عزیز کی وفات لواحقین کے لیے رنج و حزن لے کر آتی ہے اس لیے مرنے والے کے ورثا درج بالا رسومات کی ادائیگی سے مستثنی سمجھے جاتے ہیں۔ مرنے والا یا والی کسی کی ماں، باپ، بہن، بھائی، بیٹی، بیٹا، بیوی یا خاوند ہو تو اسے قریبی عزیز ہونے کی وجہ سے نوحہ گر کہا جاتا ہے۔ نوحہ گر کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جب وہ وفات کی خبر سنے تو اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے جو ایک طرح سے ماتم کا عملی اظہار ہے۔ ماتم میں "قدیش" پڑھی جاتی ہے جو خدا کی حمد ہوتی ہے۔ اس کے پڑھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دکھ اور الم کی اس گھڑی میں بھی خدا کو یاد کیا جائے۔[22] ہمسایوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ لواحقین کے لیے کھانا بنائیں۔ سات دن تک لواحقین سوائے سبت کے گھر سے نہیں نکلتے اور ماتم پرسی کے لیے آنے والوں سے ملتے ہیں۔ عبرانی زبان میں سات دن کے اس عرصے کو "شیوآ/شِیفآ" کہتے ہیں۔ شیوآ میں لواحقین اپنے بال اور ناخن
یہودی کیلنڈر
|
شیوآ سے اگلے تئیس دن بھی ماتم جاری رہتا ہے جس میں روزمرہ کے کام تو جاری رہتے ہیں لیکن شادی بیاہ کی تقریبات اور خوشی کے تہواروں میں شرکت نہیں کی جاتی۔ ماں باپ کی وفات پر ایک سال تک خوشی کے تہواروں میں شمولیت نہیں کی جاتی۔ ایک سال پورا ہونے کے بعد مرنے والے کی یاد میں ایک دن منایا جاتا ہے جسے "نیَرنَیشَما" کہتے ہیں۔ اس دن بھی ایک شمع روشن کی جاتی ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ اس دن مرنے والے کی قبر پر بھی حاضری دی جائے۔ پہلا سال ختم ہونے کے ساتھ ہی نوحہ گر کے ماتم کی مدت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ لازمی نہیں ہے کہ مرنے والے کے لیے دعا درج بالا دنوں ہی میں کی جائے۔ یہودیت میں بعض دیگر تہواروں، مثلاً یوم کپور، شووس، سکوت اور پیشاخ کے موقعوں پر بھی مرنے والوں کے لیے اجتماعی دعائیں کی جاتی ہیں۔
تہوار
اگرچہ درج بالا تقاریب یعنی بریت میلا، بار متسواہ یا شادی تہواروں ہی کے ضمن میں آتے ہیں لیکن یہ انفرادی ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق ایک خاندان یا ایک مخصوص علاقے کے لوگوں سے ہوتا ہے۔ یہودیت میں ان کے علاوہ بہت سے ایسے مذہبی تہوار بھی ہیں جو اجتماعی طور پر تمام یہودی مناتے ہیں۔ تہوار کو عبرانی زبان میں "خگ/حگ" کہا جاتا ہے۔ ان تہواروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اہم ترین تہواروں کے لیے "یوم طوو" یعنی "اچھا دن" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جن میں سبت، پشاخ، شووس، سکوت، روش ہشانہ اور یوم کپور وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے دیگر تہوار جن میں ہنوخا/ہنوکا، سماخ توراۃ اور پیوریم وغیرہ شامل ہیں جو یوم طوو سے کم اہمیت رکھتے ہیں۔ چونکہ ان تہواروں کو منانے کے خاص ایام ہیں جو یہودی کیلنڈر سے منسلک ہیں لہذا تہواروں کے بیان سے قبل یہودی کیلنڈر کا تعارف ضروری ہے تاکہ تہواروں کی تواریخ کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
یہودی کیلنڈر
ابتدا میں یہودی واقعات کے حساب سے دنوں کو یاد رکھتے تھے، مثلاً ابراہیمؑ کی عمر کے 175 سال، 40 سالہ صحرا گردی، بادشاہ ساؤل کا 20 سالہ دور حکومت وغیرہ۔ لیکن جب مسیحیوں نے اپنا ایک کیلنڈر ترتیب دینا شروع کیا تو یہودیوں نے بھی خود حساب کر کے دنیا کی تخلیق کے دن کا اندازہ لگا یا اور کیلنڈر ترتیب دے لیا۔[23] یہ کیلنڈر شمسی نظام کی بجائے قمری نظام کے حساب سے ترتیب دیا گیا ہے۔ سال میں 12 یا 13 مہینے ہوتے ہیں۔ ہر مہینہ 29 یا 30 دنوں کا ہوتا ہے۔ ہر دن چاند کے طلوع ہونے سے شروع ہوتا ہے اور اگلے دن کے چاند کے نظر آنے تک جاری رہتا ہے۔ یہ ترتیب کتابِ پیدائش سے لی گئی ہے جس کے مطابق "شام ہوئی پھر صبح ہوئی، یہ پہلا دن تھا۔"[24] اس طرح ہر برس کل 354، 353 یا 356 دنوں کا ہوتا ہے۔ قمری سال کا یہ نظام صنہادرین کے دور سے چلا آ رہا ہے جنہوں نے متعدد اشخاص کی گواہیوں کے بعد اس کو رائج کیا۔[25] بعد ازاں، یہی کیلنڈر یہودیوں میں رائج ہو گیا جس میں چند ایک تبدیلیاں ہی کی گئیں۔
شمسی اور قمری کیلنڈر میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ ایک شمسی سال میں قمری سال کے 12.4 مہینے آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قمری سال شمسی سال سے تقریبا 11 دن چھوٹا ہوتا ہے۔ چونکہ یہودی کیلنڈر قمری ہے لہذا یہ لازمی نہیں ہے کہ ان کے تہوار بھی ہر سال ایک ہی موسم میں آئیں۔ جیسے مسلمانوں کی عیدیں سردی، گرمی، بہار یا خزاں میں کبھی بھی آ سکتی ہیں اسی طرح یہودیوں کے تہوار بھی کسی بھی موسم میں آ سکتے تھے۔ البتہ مسلمانوں کے برعکس یہ یہودیوں کے لیے ایک مسئلہ ہے کیونکہ ان کے بعض تہوار موسموں سے منسلک ہیں اور موسم شمسی سال کے حساب سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس مشکل سے بچنے کے لیے یہودی اپنے کیلنڈر میں ہر 19 سال میں 7 اضافی مہینے شامل کرتے ہیں جو ادار کے مہینے میں ہر تیسرے، چھٹے، آٹھویں، گیارہویں، چودہویں، سترہویں اور انیسویں سال شامل ہوتے ہیں۔ اس اضافی مہینے کو لیپ کا مہینہ کہتے ہیں اور جس سال یہ اضافی مہینہ شامل کیا جائے اسے لیپ کا سال کہتے ہیں۔ یہ سال 384، 383 یا 385 دن کا ہوتا ہے۔ کیلنڈر میں اس مہینے کو ادار ثانی کا نام دیا گیا ہے جس کے 29 دن ہوتے ہیں۔ اس کیلنڈر کے مطابق 2021 عیسوی میں کائنات کو تخلیق کیے کم از کم 5781 برس گزر چکے تھے۔ اس حساب سے یہ کتاب یہودی کیلنڈر کے مطابق 5781 میں اور عیسوی کیلنڈر کے حساب سے 2021 میں لکھی گئی ہے۔ عصر حاضرِ کے یہودی یہ مانتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق کئی ملین سال پرانی ہے تاہم ان کا یہ بھی خیال ہے کہ درج شدہ انسانی تاریخ یعنی وہ وقت جب انسان کو اس کائنات میں موجودگی کا ادراک ہوا، کو گزرے 5781 برس ہی ہوئے ہیں۔
یہودی جب جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے یا مختلف علاقوں میں مقیم تھے تو ان کے تہواروں کے ایام میں فرق آ جاتا تھا۔ کبھی کبھی بعض علاقوں تک اطلاع وقت پر نہیں پہنچتی تھی یا بادل وغیرہ ہونے سے نئے مہینے کا ادراک نہیں ہوتا تھا لہذا وہ ہر تہوار دو دو دن مناتے تھے تاکہ ایک ہی وقت میں تمام یہودی وہ تہوار منا رہے ہوں۔ عبرانی بائیبل میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ تہوار دو دن منائے جا سکتے ہیں جبکہ راسخ العقیدہ یہودی تہواروں کو دو دن منانا ہی پسند کرتے ہیں۔ البتہ اصلاح شدہ یہودی، تہوار ایک دن ہی مناتے ہیں۔[26] اسی طرح جدید اسرائیل میں بھی تہوار ایک دن ہی منائے جاتے ہیں۔ مشہور یہودی تہواروں کا مختصر تعارف ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔
روش ہشانہ
روش ہشانہ نئے یہودی سال کا تہوار ہے جو تشری/تسری کے پہلے اور دوسرے دن منایا جاتا ہے۔ تشری قدیم یہودی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے جبکہ موسموں کے مطابق نسان پہلا مہینہ ہے۔ دس دن جاری رہنے والا یہ تہوار یہودیوں کے لیے غور و فکر اور معافی کا موقع ہوتا ہے جس وجہ سے ان دنوں کو "یامیم نَورائیم" یعنی "ہیبت کے ایام" بھی کہا جاتا ہے۔ یہودی گزرے سال پر غور کرتے ہیں کہ وہ کیسے گزارا، ان سے کیا گناہ سرزد ہوئے اور کیسے ان گناہوں کی تلافی ممکن ہے۔ روش ہشانہ کی تیاری اس سے پہلے والے ہفتے ہی شروع کر دی جاتی ہے اور آدھی رات کو اٹھ کر خدا سے معافی مانگی جاتی ہے۔ ایسا کرنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ معافی مانگنے اور بخشے جانے کے لیے یہودی کس قدر مشتاق ہیں۔
اضافی نئے یہودی سال
|
روش ہشانہ کی شام کے کھانے سے پہلے یا بعد سیناگاگ میں ایک عبادت منعقد کی جاتی ہے۔ اگلے دن تقریب کا آغاز ناشتے سے ہوتا ہے۔ شمعیں روشن کی جاتی ہیں اور شراب پر قدیش کا ورد ہوتا ہے۔ پھر یہ دعا پڑھی جاتی ہے کہ "خدا کرے یہ تمہاری مرضی ہو، اے خداوند خدا ہمارے خدا کہ ایک نئے اور میٹھے سال کے لیے ہمارا احیا ہو" اور سیب کو شہد میں ڈبو کر کھایا جاتا ہے۔ دو دن تک سیناگاگ میں ایک طویل عبادت منعقد کی جاتی ہے(لبرل یہودی صرف ایک دن عبادت کرتے ہیں)۔ اس دن لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے بھیڑ کا سینگ جسے شوفر کہتے ہیں پھونکا جاتا ہے۔ شوفر کی وجہ سے لوگ روش ہشانہ کو "شوفر پھونکنے کا دن" بھی کہتے ہیں۔[28] اس کے علاوہ ا اس دن کو "یوم الدین" یعنی "فیصلہ کا دن" بھی کہا جاتا ہے۔ عبادت کا آخری حصہ تین بنیادی اجزا پر مبنی ہوتا ہے:
- یہ ماننا کہ خدا ہی کائنات کا بادشاہ ہے۔
- یہ ماننا کہ خدا لوگوں کے اعمال یاد رکھتا ہے اور اچھوں کو جزا اور بروں کو سزا دیتا ہے۔
- یہ مانناکہ شوفر کی آواز کے ذریعے خدا نے اپنی مرضی کوہِ سینا پر نازل کی اور وہ مسیحِ موعود کے دور میں دنیا کو مکمل کرنے کے لیے خود کو دوبارہ نازل کرے گا۔
راسخ العقیدہ یہودیوں کے دن کا اختتام عموماً دریا یا ندی کنارے کھڑے ہو کر آب رواں میں روٹی کے ٹکڑے پھینک کر ہوتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے بہنے والے ٹکڑوں کی طرح گناہ بھی دھل گئے ہیں۔ اسے صرف ایک علامتی رسم کے طور پر لیا جاتا ہے حقیقتاً یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اس عمل سے انسان کے گناہ ختم ہو جاتے ہیں۔
یوم کپور
روش ہشانہ سے دسویں دن یعنی تشری کی دس تاریخ کو منایا جانے والا یہ تہوار کفارے کا دن کہلاتا ہے۔ اسے سال کا مقدس ترین دن سمجھا جاتا ہے۔ کتابِ گنتی میں آیا ہے: " ساتویں مہینے کے اول روز ایک خاص اجلاس ہو گا۔ اس دن تم روزہ رکھو گے اور کوئی کام نہیں کرو گے۔"[29] یہ روزہ پچیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔ چنانچہ یوم کپور سے پہلے والی شام روزہ رکھا جاتا ہے جو اگلے دن کی شام تک جاری رہتا۔ بچوں اور بیماروں کے علاوہ تمام لوگوں پر یہ روزہ فرض ہے۔ یوم کپور عبادت میں گزارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ازدواجی تعلقات سے مکمل گریز کیا جاتا ہے۔ آرام دہ کپڑوں، زیورات یا میک اپ وغیرہ کا استعمال بھی نہیں کیا جاتا۔ چونکہ اس دن کوئی بھی کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اس لیے یوم کپور کو "سبت کا سبت" بھی کہا جاتا ہے۔ یہودی خدا سے معافی مانگتے ہیں، اس کی حمد گاتے ہیں اور اپنی ذات میں غور و فکر کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس دن خدا حساب و کتاب کرتا ہے اور اچھے بروں کے متعلق لکھ دیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے اس دن جب وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو دعا دیتے ہیں کہ ان کا حساب اچھا لکھا جائے۔
کتاب احبار میں ذکر ہے: "دھیان رکھو کہ ساتویں مہینے کا دسواں دن کفارے کا دن ہے، تمہا رے لئے ایک مقدس اجتماع ہے۔ اس دن تمہیں خاکسار ہونا ہے اور خداوند کو تحفہ پیش کرنا ہے۔"[30] اس لیے یہودی اس دن اپنے نفس کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یوم کپور میں کی جانے والی عبادات صرف خدا اور بندے کے درمیان معافی کے رشتہ کو استوار کرتی ہیں۔ ان عبادات میں خدا کے حقوق تو معاف ہو سکتے ہیں لیکن بندوں کے حقوق نہیں۔ اگر کوئی اپنے بھائی کا گناہ گار ہے تو اسے اپنے بھائی سے معافی مانگنی ہو گی۔ جب اس نے اپنے بھائی کا دل دکھایا تھا تو اس نے نہ صرف بھائی کے حقوق غصب کیے بلکہ خدا کا قانون بھی توڑا تھا۔ اب بھائی سے معافی مانگنے اور اسے منانے کے بعد اسے خدا سے معافی مانگنی ہے۔ اس لیے یہودی صبح کی عباد ت کے بعد سیناگاگ میں ایک دوسرے سے معافی طلب کرتے ہیں۔ دوپہر کی عبادت میں مرنے والوں کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ اس میں خصوصی طور پر ہیکل کی تباہی میں مرنے والے یہودیوں کو یاد رکھا جاتا ہے۔ دوپہر کی عبادات کا خاص حصہ کتاب یوناہ کی تلاوت ہے جس میں معافی پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو ایک خصوصی دعا "نعیلا" پڑھی جاتی ہے۔ تاریکی پھیلنے پر شِماع سات دفعہ دہرا کر شوفر پھونکا جاتا ہے اور مل کر کہا جاتا ہے کہ "اگلے سال یروشلم میں" جو کہ یروشلم حاصل کرنے کے یہودی عزم کا اعادہ ہے۔ راسخ العقیدہ یہودی اس دن کسی پرندے کو ذبح کر کے اسے بیچتے ہیں اور حاصل ہونے والی رقم کو صدقہ کر دیتے ہیں۔ اصلاح شدہ یہودیوں میں اس رسم پر مکمل پابندی ہے۔ وہ پرندہ ذبح کرنے کی بجائے رقم صدقہ کرتے ہیں۔[31]اس دن کے اختتام پر روزہ کھولا جاتا ہے۔ عزیز و اقارب اور دوست ایک جگہ اکٹھے ہو کر افطار کرتے ہیں۔
سکوت
یوم کپور کے چار دن بعد تشری کی 15 تاریخ کو خیموں کا ایک تہوار منایا جاتا ہے جسے سکوت(خیمے) کہتے ہیں۔ اسے خزاں کی کٹائی کا تہوار بھی سمجھا جاتا ہے۔ آٹھ یا نو دن جاری رہنے والے اس تہوار کو بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے مصریوں کی غلامی سے آزادی کے بعد صحرائے سینا میں خیمہ وغیرہ لگا کر اپنے کٹھن دن گزارے تھے۔ اس تہوار کا پہلا اور آخری دن سب سے اہم ہوتا ہے جن کو یوم طوو یعنی اہم تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جو لوگ اسرائیل سے باہر رہے ہیں وہ نو دن کا تہوار مناتے ہیں جس کے ابتدائی اور آخری دو دو دن، ایام طوو ہوتے ہیں۔ یہودی آج بھی ان دنوں میں گھروں سے باہر خیمے لگا کر رہتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے بنی اسرائیلیوں سے اظہار یک جہتی ہوتا ہے۔ ان خیموں کی چھتوں کو درختوں کے پتوں اور چھالوں سے بنایا جاتا ہے تاکہ دن کو سورج کی روشنی اور رات میں تاروں کی چمک دکھائی دیتی رہے۔ ان دنوں یہ خیمے ہی مسکن ہوتے ہیں۔ موسمی پھلوں پر مبنی کھانے، مہمانوں کی تواضع اور شب باشی کا انتظام بھی یہیں ہوتا ہے۔
اس تہوار کے دو اہم جزو ہیں۔ چکوترے کی فراہمی اور کھجور کی شاخ پر مہندی اور برگِ بید لگا کر ایک چھڑی سی تیار کرنا۔ عبادات کے دوران ان دونوں چیزوں کو اکٹھے ہر طرف لہرایا جاتا ہے جو اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ خدا نے انہیں ہر چیز سے نوازا ہے۔ کتابِ احبار میں خصوصیت سے ذکر آیا ہے کہ: " یوم اول میں تم خود کے لئے درختوں سے تازہ پھل لا ؤ گے۔ اور تم کھجو ر کے درخت، برگ آور درخت اور بید کے درخت کی شاخیں بھی لا ؤ گے۔ تم اپنے خداوند خدا کے سامنے سات دن تک جشن منا ؤ گے۔"[32] اگلے سب ایام میں بھی مختلف عبادات جاری رہتی ہیں جن میں سبت زیادہ خصوصیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ اس دن کتاب واعظ کی تلاوت کی جاتی ہے۔
ہوشانا رَبّہ
سکوت کے ساتویں دن کو ایک الگ تہوار بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ دن جسے "ہوشانا رَبّہ" کہتے ہیں تشری کا اکیسواں دن ہے۔ اس دن سات گھیرے بنا کر عباد ت کی جاتی ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ یوم الدین کو لوگوں کا حساب مکمل ہوتا ہے اور ہوشانا ربہ کو اسے آگے بڑھایا جاتا ہے آخر میں اپنی چھڑیاں زمین پر مار ی جاتی ہیں۔
شمینی اتسیریت
اس تہوار کا آٹھواں دن بھی ایک الگ تہوار ہے جسے " شمینی اتسیریت " کہتے ہیں۔ کتابِ احبار کے مطابق: " تم سات دنوں تک خداوند کو تحفہ پیش کرو گے۔ آٹھویں دن تم دوسرا مقدس اجتماع منعقد کرو گے۔ تم خداوند کو تحفہ پیش کرو گے۔ یہ تقریب کا دن ہے۔ تمہیں کو ئی کام نہیں کرنا ہے۔"[33] چنانچہ اس دن کو یوم طوو کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن خصوصی طور پر بارش کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ چونکہ آگے موسم سرما ہے تو بارش کی امید اچھی فصل کی نوید بن جاتی ہے۔ اشکنازی یہودی اس دن فوت شدگان کے لیے دعائے مغفرت بھی کرتے ہیں۔
سِیمخاط توراۃ
یہ توریت کی تلاوت کی تکمیل کا دن بھی ہے لہذا اسی دن ایک ذیلی تہوار بھی منایا جاتا ہے(اسرائیل سے باہر رہنے والے یہودی اس تہوار کو نویں دن پر لے جاتے ہیں)۔ صبح اور شام خصوصی عبادات منعقد ہوتی ہیں۔ توریت کو صندوق سے نکال کر پڑھا جاتا ہے جو کہ بہت خوشی کا لمحہ ہوتا ہے۔ اس کا اظہار جھوم جھوم کر کیا جاتا ہے۔ اسی نسبت سے اس دن کو "سِیمخاط توراۃ" یعنی " توریت کی خوشی منانے کا دن" کہا جاتا ہے۔ اس دن کتاب استثنا کا آخری حصہ اور کتاب پیدائش کا پہلا حصہ پڑھا جاتا ہے جو ایک طرح سے توریت کی تکمیل کا عملی اظہار ہے۔ عصر حاضر کے جدت پسند یہودی اس تہوار کو زیادہ جوش و خروش سے نہیں مناتے۔ ایک طرح سے یہ ان میں ایک دم توڑتی روایت ہے۔ البتہ راسخ العقیدہ یہودی آج بھی اس تہوار کی قدر کرتے نظر آتے ہیں۔[34]
پیشاخ
پیشاخ/پیساخ سات یا آٹھ دن جاری رہنے والا ایک تہوار ہے جو نسان کی15 تاریخ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ تہوار مصریوں کی غلامی سے آزادی کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ بہار میں منعقد ہونے کی وجہ سے اسے "جشن بہاراں" اور بنی اسرائیل کے دریائے نیل پار کرنے کی نسبت سے اسے "عبوری دریا" کا تہوار بھی کہا جاتا ہے۔ پہلوٹھے پیشاخ سے پہلے والے دن روزہ رکھتے ہیں۔ وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جب اس نے مصریوں پر وبائیں نازل کیں اور ان کے پہلوٹھوں کو مارا تو بنی اسرائیل کے پہلوٹھوں کی حفاظت کی۔ یہودی اس دن صدقہ کرتے ہیں اور یہ اطمینان کرتے ہیں کہ کوئی بھی گھرانہ ایسا نہ ہو جس کے ہاں ضروریات زندگی کی چیزیں پیشاخ کے لیے موجود نہ ہوں۔
یہودی اس دن بے خمیری روٹیاں استعمال کرتے ہیں جنہیں "مصا" کہا جاتا ہے۔ مصا کو صرف گندم، جو، گیہوں، رئی یا اراروٹ سے ہی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ برصغیر میں بننے والی چپاتیوں جیسی ہوتی ہے جو نان کی نسبت قدرے سخت ہوتی ہیں کیونکہ انہیں خمیر اٹھائے بغیر تیار کیا جاتا ہے۔ مصا کھانے کا بنیادی مقصد مصر سے نکلنے والے یہودی بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی ہے کہ جب وہ لوگ موسیؑ کے ساتھ گھروں سے نکلے تھے تو افراتفری کا عالم تھا۔ ان لوگوں نے پیٹ کا جہنم پر کرنے کے لیے جیسا کھانا میسر آیا کھایا۔ چنانچہ مصا ان مہاجرین کی یاد تازہ کرنے کے لیے کھائی جاتی ہے۔ تلمود تفصیلاً بیان کرتی ہے کہ اس دن کیا کھایا جائے اور کیا نہیں۔ منع کی جانے والی چیزوں کو بحیثیت مجموعی "حَمض" کہا جاتا ہے۔ راسخ العقیدہ یہودی دودھ سے بنی اشیا اور گوشت کو اکٹھا کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس میں وہ اتنی احتیاط برتتے ہیں کہ دودھ اور گوشت کے برتن بھی کچن میں علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ ایک ہی فریج میں دودھ اور گوشت اکٹھا نہیں کیا جاتا (اس معاملے میں اصلاح شدہ یہودی زیادہ احتیاط نہیں برتتے)۔ پیشاخ کے موقع پر بننے والے کھانوں میں خصوصیت سے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک برس قبل ہی ان اشیا کو الگ کر کے ڈبوں میں علیحدہ علیحدہ محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ گھر کو اچھی طرح دھویا جاتا ہے۔ روٹی یا بسکٹ وغیرہ کے ٹکڑوں کو صاف کیا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ فریج، اوون، برتن اور چولھے وغیرہ کو بھی اچھی طرح دھو کر صاف کر دیا جائے۔
مذہبی یہودی اس معاملے میں اس قدر حساس ہیں کہ بند ڈبوں میں پڑی حمض کی ملکیت سے بھی انکار کرتے ہیں۔ گھر میں یا دوکان وغیرہ پر کھانے کی بہت سی ایسی چیزیں ہو سکتی ہیں جو پیشاخ کے اصولوں کے تحت رکھنے کی اجازت نہیں۔ اگر ان کو ضائع کر دیا جائے یا اصولی طور پر جلا دیا جائے تو اس سے معاشی نقصان کا اندیشہ ہے۔ لہذا اس کے لیے انہوں نے ایک حل یہ نکالا ہے کہ ربی ایک قانونی دستاویز بنا کر ایسی تمام چیزوں کو کسی غیر یہودی کو بیچ دیتا ہے۔ پیشاخ گزرنے کے بعد اس بیع کو منسوخ کر دیا جاتا ہے اور چیزیں دوبارہ اس یہودی کی ملکیت میں آ جاتی ہیں۔[35] اس کے علاوہ بعض یہودی اپنے گھر کے علاوہ کسی غیر یہودی کے ہوٹل وغیرہ میں جا کر حمض کھا لیتے ہیں۔ پشاخ کی پہلی شب (اور بعض کے ہاں دوسری شب بھی) نہایت اہم ہوتی ہے۔ اس رات سیدر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سیدر اس کھانے کو کہتے جو بے خمیری روٹی سے تیار کیا جاتا ہے۔ کھانے پر خوشی منائی جاتی ہے، رقص اور گانے کا اہتمام ہوتا ہے اور کسی بڑے بوڑھے سے خروج کی ساری داستان سنی جاتی ہے۔ سیدر کے لیے سجنے والی میز پرمصا کے علاوہ ایک سیدر پلیٹ ہوتی ہے جس میں پانچ طرح کی کھانے کی چیزیں ہوتی ہیں۔ ان چیزوں میں سے ہر ایک درج ذیل مخصوص علامتی حیثیت رکھتی ہے۔
- بھنا ہوا انڈا ہیکل میں کی جانے والی قربانی کی علامت ہے۔
- سبزی بہار کی علامت ہے۔
- میمنے یا مرغی کی ہڈی قربانی کی علامت ہے۔
- تلخ جڑی بوٹی مصریوں کی غلامی کی علامت ہے۔
- سیب، خشک میوے اور شراب کا آمیزہ عبرانی غلاموں کی محنت کی علامت ہے۔
کھانا کھانے کا بھی ایک خاص عمل ہے جو ہاتھ دھونے سے شروع ہوتا ہے اور عبوری دریا پر پڑھے جانے والے گانوں سے ختم ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر پیشاخ کے پہلے اور آخری دو روز زیادہ اہم ہیں جن میں سیناگاگ میں مختلف عبادات سر انجام دی جاتی ہیں۔ کوئی کام نہیں کیا جاتا اور چھٹی کے دن آرام کر کے گزارے جاتے ہیں۔ البتہ اصلاح شدہ یہودی ان میں سے ایک ایک دن مناتے ہیں۔ اسرائیل میں بھی ایک دن ہی کا رواج ہے۔
شووس
شووس/شعوعوت ایک یا دو دن جاری رہنا والا "ہفتوں" کا تہوار ہے جو سیوان کی 6 اور 7 تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ تہوار کی نسبت موسیؑ کو کوہِ سینا پر توریت دیے جانے کی طرف کی جاتی ہے۔ راسخ العقیدہ اور رجعت پسند یہودی اسے دو دن جبکہ اصلاح شدہ یہودی اسے ایک دن مناتے ہیں۔ اسرائیل میں بھی یہ ایک دن ہی منایا جاتا ہے۔ اسے ہفتوں کا تہوار اس لیے کہتے ہیں کہ عبوری دریا کے بعد 7 ہفتے اس کا انتظار کیا جاتا ہے۔ راسخ العقیدہ یہودیوں میں ان ہفتوں میں فضا سوگوار ہوتی ہے کیونکہ انہیں دنوں میں عقیبہ بن یوسف کے شاگرد ایک وبا کا شکار ہوئے تھے۔ لہذا وہ ان دنوں میں شادی بیاہ کا انعقاد نہیں کرتے۔[36]
یہ تہوار فصل کی کٹائی کا تہوار بھی ہے۔ کتابِ استثنا میں آیا ہے: " جب تم فصل کاٹنا شروع کرو تب سے تمہیں سات ہفتے گننے ہیں۔ تب خداوند اپنے خدا کے لیے ہفتوں کی تقریب منا ؤ اُسے ایک رضا کا نذرانہ پیش کرو۔ تمہیں کتنا دینا ہے اس کا فیصلہ یہ سوچ کر کرو کہ خداوند تمہارے خدا نے تمہیں کتنی برکت دی ہے۔"[37] اس دن سیناگاگ میں عبادات کی جاتی ہیں، زبور پڑھی جاتی ہے اور توریت کے احکام عشرہ دوہرائے جاتے ہیں۔ جو لوگ دوسرے دن کا تہوار مناتے ہیں وہ کتاب روت کی تلاوت کرتے ہیں۔ روت ایک ایسی غیر یہودی عورت تھیں جنہوں نے اپنی ساس کو کہا تھا کہ "مجھے اپنے ساتھ جانے کی اجازت دو۔ تم جہاں کہیں بھی جاؤ گی میں وہیں جاؤں گی، جہاں بھی تم سوؤ گی میں بھی وہی سوؤں گی۔ تمہارے لوگ میرے لوگ ہوں گے تمہارا خدا میرا خدا ہو گا۔"[38] چونکہ روت نے تمام مذہبی احکامات ماننے کا عہد کیا تھا لہذا ایک طرح سے وہ توریت اور خدا دونوں پر ایمان لائیں تھیں۔ یہ تہوار بھی توریت کے متعلق ہے اس لیے کتاب روت کی تلاوت کر کے یہودی اس دن اپنا ایمان تازہ کرتے ہیں۔
یہودیوں کی مشہور روحانی تحریک قبالہ کے پیروکار اس پوری رات جاگ کر توریت کی تلاوت کرتے ہیں۔ سیناگاگ کو پھولوں اور سبز چیزوں سے سجایا جاتا ہے۔ کھانے میں پھلوں اور دودھ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پھل اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کہ یہ فصل کی کٹائی کا تہوار ہے اور دودھ اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ توریت جن لوگوں کو دی گئی تھی مذہب کے اعتبار سے وہ بچے تھے۔ بچوں کی سب سے اہم غذا دودھ ہے جس وجہ سے اس دن دودھ سے بنی چیزوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ بعض یہودی مصنفین شکایت کرتے ہیں عصر حاضر کے یہودی اس تہوار کو اہمیت نہیں دیتے جس کی وجہ سے یہ ایک غیر اہم تہوار بن کر رہ گیا ہے۔[39] عصرِ حاضر میں اس تہوار کی ایک نئی نسبت سامنے آئی ہے۔ شمعون بار یوحائی جنہوں نے تلمود کی تکمیل میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا، کی وفات بھی انہیں دنوں ہوئی تھی۔ اس لیے عصر حاضر کے یہودی اسے استاد کی تعظیم کے دن کے طور پر منانے لگے ہیں۔ اسی نسبت سے سکولوں میں نتیجے کا اعلان بھی اسی موسم میں ہوتا ہے جو توریت کے احکام عشرہ کو ماننے کی علامت بھی سمجھا جانے لگا ہے۔
تیشاباؤ
آوو کی نوکو منایا جانے والا یہ تہوار ہیکل کی پہلی اور دوسری تباہی کی یاد میں منعقد ہوتا ہے۔ یہودی تاریخ میں یہ رنج و الم کا دن رہا ہے۔ اس دن وہ رو رو کر خدا سے دعائیں کرتے تھے اور چوبیس گھنٹے کا روزہ رکھتے تھے۔ راسخ العقیدہ یہودی تین ہفتے پہلے ہی اس دن کو یاد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ شادیوں میں شرکت نہیں کی جاتی، بال نہیں تراشے جاتے، آرام دہ لباس نہیں پہنا جاتا اور اچھے کھانے نہیں کھائے جاتے۔ لوگ زمین پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں اور روشنیاں کم کر دی جاتی ہیں۔ اس دن کی بنیادی عبادت کتاب نوحہ کی تلاوت ہوتی ہے تاکہ دل میں رقت پیدا ہو ۔
ہنوخا
روشنیوں کی تقریب کہلایا جانے والا یہ آٹھ روزہ تہوار کسلیو کی 25 تاریخ کو شروع ہوتا ہے۔ کرسمس کے نزدیک ہونے کی وجہ سے عصر حاضر میں یہ تہوار زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ تہوار مکابیوں کی فتح یروشلم کی خوشی میں منایا جاتا ہے جس کا بیان تفصیلاً دوسرے با ب میں گزر چکا ہے۔ اس تہوار کی نسبت سے ایک روایت مشہور ہے کہ جب مکابیوں نے یروشلم پر دوبارہ قبضہ کیا تو وہاں شمعیں روشن کرنے کے لیے تیل کا صرف ایک کنستر تھا۔ یہ کنستر ایک رات میں ختم ہونا تھا لیکن اسی تیل سے آٹھ دن تک شمعیں روشن رہیں۔ اسی یاد میں یہودی روشنیاں جلاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو تحائف دینا، موسیقی سننا اور کھیل کھیلنا اس دن کی یادگار ہیں۔
پیوریم
ادار ثانی کی 14 تاریخ کو منایا جانے والا یہ تہوار ایستر اور مرد کائی کی یہودیوں کے لیے کی جانی والی صلہ رحمی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ عبرانی بائیبل میں کتابِ ایستر میں اس قصے کو تفصیلاً بتایا گیا ہے جس کہ مطابق اخسویرس(518-465 ق۔ م) جب فارس کا بادشاہ تھا تو اس نے ایک یہودی عورت ایستر سے شادی کی۔ ایستر مرد کائی کے ہاں پلی بڑھی تھی۔ اخسویرس کا ایک وزیر، ہامان یہودیوں کا دشمن بن گیا اور اس خیال میں تھا کہ ریاست میں موجود تمام یہودیوں کو قتل کر دیا جائے۔ مرد کائی کے ہمت دلانے پر ایستر نے بادشاہ سے التجا کی کہ یہودیوں کی جان بخشی کی جائے۔ بادشاہ نے ایستر کی درخواست منظور کی جس سے یہودیوں کو امن نصیب ہوا۔ ہامان کو پھانسی دے کر مار ڈالا گیا۔ راسخ العقیدہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں اور کتاب ایستر کی تلاوت کرتے ہیں۔ یہ عجب انداز کا تہوار ہے جس میں تلاوت کے دوران جب ہامان کا نام آتا ہے تو لوگ نفرت کا اظہار کرتے ہوئے لعنت ملامت کرتے ہیں اور مرد کائی کے نام پر نعرے لگاتے ہیں۔ اس دن یہودیوں کو اس قدر مدہوش ہو جانے کی اجازت ہے کہ وہ مردکائی اور ہامان کے نام میں فرق نہ کر سکیں۔ اسے خوشی کا تہوار بھی کہا جا تا ہے۔ بچے مختلف رنگ برنگے لباسوں میں ہوتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ غریب لوگوں کی مدد کی جائے تاکہ وہ بھی اس تہوار کا حصہ بن سکیں۔
اسرائیلی تہوار
ایار کی 5 تاریخ کو جدید اسرائیل کا جشنِ آزادی منایا جاتا ہے جسے "یوم ہعتسماؤوت" یعنی "آزادی کا دن" کہا جاتا ہے۔ اسے آزادی کا دن کہے جانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جس دن اسرائیل کی ریاست یہودیوں کو دی گئی اسی دن عربوں نے ان کے ساتھ جنگ کا اعلان کر دیا جس وجہ سے یہودیوں کو جنگِ آزادی لڑنا پڑی۔ چنانچہ یہ آزادی کا دن کہلایا۔ اسی طرح اسرائیل میں یوم ہعتسماؤوت سے ایک دن پہلے عرب اسرائیل جنگوں میں کام آنے والے یہودی فوجیوں و شہریوں کی یاد میں "یوم ذکر" بھی منایا جاتا ہے جس میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے بیشتر اسرائیلی تہواروں میں کسی اضافی عبادت یا دعا کا انعقاد نہیں کیا جاتا۔
ابتدا میں یروشلم پر یہودی قبضہ مکمل نہ ہو سکا تھا تو 1967 میں اسرائیل نے عربوں کے علاقے پر قبضہ کے لیے چھ روزہ جنگ کی۔ اس جنگ میں انہوں نے یروشلم سمیت کئی علاقوں پر مکمل قبضہ حاصل کر لیا۔ یہ قبضہ بین الاقوامی قانون کے مطابق درست نہیں تاہم اسرائیلی اپنی سالمیت اور تاریخی لگاؤ کی وجہ سے ان علاقوں کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ چونکہ یہودی کیلنڈر کے مطابق ایار کی 28 تاریخ کو یہ فتح مکمل ہوئی تھی اس لیے اس دن کو "یوم یروشلم" کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بعض یہودی مصنفین یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ یروشلم کو مختلف مذاہب کی مقدس جگہ ہونے کی وجہ سے ایک آزاد شہر کے طور پر کھلا رکھنا اسرائیلیوں کا خواب تھا جو عربوں کی وجہ سے شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تھا۔ اس فتح سے یہ خواب بھی پورا ہوا اور اب ماضی کے 19 سالہ عرب قبضے کے برعکس متحدہ یروشلم کے دروازے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو کھلے ملنے لگے ہیں۔[40] یہ بات اس حد تک درست ہے کہ مسلمان یروشلم میں واقع مسجد الاقصی میں عبادت کے لیے آ سکتے ہیں۔ البتہ یہاں پرسکون عبادت کرنا کٹھن ہے۔ اسرائیلی پولیس اکثر اس مقدس مقام پر آنے والے زائرین کو تشدد کا نشانہ بناتی رہتی ہے۔ لہذا یہ سمجھنا بعید از قیاس ہے کہ یہودیوں کے اس علاقے کو اپنے قبضے میں لینے سے یہاں امن قائم ہو گیا ہے۔
جن دنوں یہ کتاب لکھی جا رہی تھی ان دنوں بھی اسرائیلی پولیس نے زائرین کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی عبادات کے دوران زد و کوب کیا جس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق 200 سے زائد مسلمان زخمی ہوئے۔[41] بعد ازاں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا اور یہ تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ چونکہ یروشلم اور خصوصاً مسجد الاقصی کے اندر بہت سے غیر ملکی صحافی بھی موجود تھے اس لیے ایسی سینکڑوں وڈیوز منظر عام پر آئیں جن میں اسرائیلی سیکورٹی فورسز کو مسجد الاقصی کے دروازے توڑتے، مقدس مقامات کی بے حرمتی کرتے، اور اسلحے کے زور پر مسلمانوں پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے جواب میں مسلمان، پولیس اہلکاروں پر بوتلوں اور پتھروں سے حملہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان حملوں سے 12 کے قریب اسرائیلی اہلکار زخمی ہوئے۔ بعد ازاں اسرائیلیوں نے اس عمارت کو تباہ کر دیا جہاں مختلف صحافتی نمائندوں کے دفاتر تھے۔ یوم یروشلم کا تہوار بھی انہیں دنوں منایا جانا تھا۔ اسرائیلی حکومت نے بنیاد پرست یہودیوں کو مسلم اکثریت کے علاقوں میں اس تہوار کو منانے کی اجازت دی جس سے معاملات بگڑتے چلے گئے۔ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں 1000 راکٹ داغے گئے جن میں 19 کے قریب اسرائیلی شہری زخمی ہوئے اور دس کے قریب ہلاکتیں ہوئیں جن میں ایک بچہ بھی شامل تھا۔ اس کے جواب میں اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے غزہ میں بمباری کر کے 150 سے زائد فلسطینیوں کو شہید اور ہزاروں کو زخمی کر دیا۔ دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے حامیوں نے مظاہرے کیے۔ مظاہرین کا خیال تھا کہ اسرائیلی فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کر رہے ہیں۔ ان پر تشدد واقعات پر جہاں دنیا بھر کے مسلم ممالک میں غم و غصہ کی لہر پھیلی وہیں بین الاقوامی برداری نے حماس کی مذمت کرتے ہوئے دونوں فریقین پر زور دیا کہ وہ معاملات کا پر امن حل تجویز کریں۔
دیگر یہودی تہوار
مندرجہ بالا تہواروں کے علاوہ یہودی کئی دیگر تہوار ہیں جن کا تعارف درج ذیل ہے:
- روش خودیش نئے چاند کا تہوار ہے جو ہر ماہ منایا جاتا ہے۔
- یوم ہشواہ، نسان کی27 تاریخ کو مرگ انبوہ کے دوران مرنے والوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
- لاگ بعومر/ لاگ با اومر، ایار کی 18 تاریخ کو منایا جانے والا ایک مذہبی تہوار ہے۔ ہر سال لاکھوں راسخ العقیدہ یہودی اس تہوار کو مناتے ہیں۔ جن دنوں یہ کتاب لکھی جا رہی تھی ان دنوں اسرائیل میں اس تہوار کی تقریب جاری تھی جس میں بھگدڑ مچنے کی وجہ سے 45 یہودیوں کی ہلاکت ہوئی۔[42]
- توبآو، آو کی 15 تاریخ کو منایا جاتا ہے جسے محبت کا تہوار بھی کہا جاتا ہے۔ یہ یہودی کنواریوں کا دن تھا جو پورے چاند کی رات منایا جاتا تھا۔ اس دن کنواریاں سفید لباس میں رقص کرتیں اور اسرائیلیوں کو "ایک ہونے کی "اجازت ہوتی۔[43] عصر ِحاضر کے اسرائیل میں یہ تہوار ویلنٹائن کے دن کی طرح منایا جانے لگا ہے تاہم اس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔
- تیوت کی دسویں کا تہوار جو اہلِ بابل کے یروشلم پر حملے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ راسخ العقیدہ یہودی اس دن صبح سے شام تک کا روزہ رکھتے ہیں۔
- شیوت کی پندرہویں کا تہوار جو درختوں کے نئے سال کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن پھلوں پر مبنی ایک خاص کھانا ہوتا ہے۔ یہودی اس دن شجر کاری کی مہم بھی ترتیب دیتے ہیں۔
مشقی سوالات
مختصر سوالات |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
تفصیلی سوالات |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
[1] Pirkei Avot 5
[2] Yevamot 64b
[3] E. Goldberg Harvey, Jewish Passages: Cycles of Jewish Life, 1 ed. (London: University of California Press, 2003), 31.
[4] Atkinson, Judaism, 95.
[5] Lavinia Cohn-Sherbok and Dan Cohn-Sherbok, A Short Introduction to Judaism (Oxford: Oneworld, 1997), 96-97.
[6] Cohn-Sherbok and Cohn-Sherbok, A Short History of Judaism, 95.
[7] Rubin Nissan, Time and Life Cycle in Talmud and Midrash: Socio-Anthropological Perspectives, First Edition ed. (Boston: Academic Studies Press, 2008), 51.
[8] پیدائش 13: 2
[9] گنتی 18: 16
[10] Dosick, Living Judaism: The Complete Guide to Jewish Belief, Tradition, and Practice, 293.
[11] Cohn-Sherbok and Cohn-Sherbok, A Short Introduction to Judaism, 74.
[12] پیدائش 2: 2
[13] Joseph Kalir, Introduction to Judaism (Washington, D.C: University Press of America, 1980), 7.
[14] Moses Maimonides, The Guide for the Perplexed, trans. Michael Friedländer (Skokie: Varda Books, 1904), 315.
[15] Shabbat, 119b
[16] پیدائش 1: 3
[17] Dosick, Living Judaism: The Complete Guide to Jewish Belief, Tradition, and Practice, 128.
[18] B. Yevamot 62b
[19] Dosick, Living Judaism: The Complete Guide to Jewish Belief, Tradition, and Practice, 298.
[20] پیدائش 2: 7
[21] Atkinson, Judaism, 77.
[22] Dosick, Living Judaism: The Complete Guide to Jewish Belief, Tradition, and Practice, 307.
[23] Ibid., 119.
[24] پیدائش 1: 5
[25] Kalir, Introduction to Judaism, 3.
[26] Atkinson, Judaism, 92.
[27] Ibid., 94.
[28] Dosick, Living Judaism: The Complete Guide to Jewish Belief, Tradition, and Practice, 133.
[29] گنتی 29: 7
[30] احبار 23
[31] Cohn-Sherbok and Cohn-Sherbok, A Short Introduction to Judaism, 88.
[32] احبار 23: 40
[33] احبار 23: 36
[34] Dosick, Living Judaism: The Complete Guide to Jewish Belief, Tradition, and Practice, 150.
[35] Ibid., 166.
[36] Kalir, Introduction to Judaism, 25.
[37] استثنا 16: 9-10
[38] روت 1: 16
[39] Dosick, Living Judaism: The Complete Guide to Jewish Belief, Tradition, and Practice, 179.
[40] Ibid., 196.
[41] https: //www.bbc.com/urdu/world-57035487, accessed on 5-9-2021.
[42] https: //www.haaretz.com/israel-news/dozens-injured-after-grandstand-collapse-in-northern-israel-1.9760719, accessed on 5-9-2021.
[43] Taanit 30b
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
کتاب کے ابواب | |||
ح | مصنف کی جانب سے مقدمہ | ||
1 | یہودیت اور یہودیوں کا تعارف اور ابتدائی تاریخ | ||
3 | |||
3 | |||
3 | |||
4 | |||
4 | |||
5 | |||
5 | |||
7 | |||
9 | |||
12 | |||
13 | |||
14 | |||
17 | |||
17 | |||
18 | |||
22 | سیدنا موسی علیہ اسلام کے دور سے لے کر ربیائی یہودیت کے فروغ تک کا دور | ||
24 | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |