Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مطالعہ یہودیت > ساتواں باب: فرقے

مطالعہ یہودیت |
فروغ زبان پبلشرز
مطالعہ یہودیت

ساتواں باب: فرقے
ARI Id

1676046516391_54335562

Access

Open/Free Access

Pages

189

قدیم فرقے

باب ہفتم کے اہم نکات

  1. یہودی فرقوں کا تعارف و ابتدا۔
  2. یہودی فرقوں کے عقائد۔
  3. یہودی فرقوں کی کتب مقدسہ۔
  4. یہودی فرقوں کا تقابل۔
  5. یہودی فرقوں کا نظریہ اسرائیل۔
  6. یہودی اداروں کا تعارف۔
  7.  عصر حاضر میں یہودیت کا ارتقا۔
یہودیت میں تاریخ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے تاہم جس بے کسی کی زندگی یہودیوں کا مقدر رہی ہے اس سے ان کی تاریخ کا ہر گوشہ متاثر ہوا ہے۔ یہودی فرقوں کی تاریخ کو بھی اس ضمن میں استثنا حاصل نہیں ہے۔ نیز فرقوں کی تقسیم کے بیان کرنے میں بھی یہودی مؤرخین منفرد مزاج کے حامل ہیں، مثلاً پرانے وقتوں میں بارہ یہودی قبائلشمالی اور جنوبی ریاستوں میں بٹ گئے تھے۔ شمالی ریاست میں بتوں کی عبادت کو رواج دیا جانے لگا تھا۔ اول سلاطین میں اس حوالے سے آیا ہے:

۔۔۔ یُربعام نے سو نے کے دو بچھڑے بنوائے۔ بادشاہ یربعام نے لوگوں سے کہا، 'تمہیں یروشلم کو عبادت کے لئے نہیں جانا چاہیے اے اسرائیلیو! یہی سب دیوتا ہیں جو تمہیں مصر سے باہر لائے۔ بادشاہ یُر بعام نے ایک سونے کا بچھڑا بیت ایل میں رکھا۔ اس نے دوسرا سونے کا بچھڑا شہر دان میں رکھا لیکن یہ گناہ عظیم تھا۔ بنی اسرائیلیوں نے بیت ایل اور دان کے شہروں میں بچھڑوں کی پرستش کر نے کے لئے سفر کیے لیکن یہ بہت بڑا گناہ تھا۔[1]

 شمالی ریاست نے نہ صرف ایک خدا پر یقین کے عقیدے کو بدل ڈالا اور دو بچھڑوں کو معبود بنا لیا۔ ان واقعات کو ایک نئے فرقے کی شروعات کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اس کے برعکس یہودی محققین نہ صرف ان عوامل کو بلکہ موسیؑ، داؤدؑ اور سلیمانؑ وغیرہ کے دور میں ہونے والی بت پرستی کو بھی فرقہ واریت میں شمار نہیں کرتے۔ وہ ان واقعات سے صرفِ نظر برتتے ہوئے بابل کی جلا وطنی کے بعد فرقوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لہذا زیر نظر باب میں صرف انہیں فرقوں کا مختصر ذکر کیا گیا ہے جنہیں خود یہودی مصنفین نے بیان کیا ہے۔ ان فرقوں کا بیان یہودیت کے مذہبی ارتقا کا بیان ہے جس سے یہ معلوم کرنے میں آسانی ہوتی ہے کہ یہودیت، ربیائی یہودیت اور عصر حاضر کی یہودیت میں کیا فرق ہے۔

سامری

          سامری یعنی "سامریہ کے رہائشی" خود کو اسرائیلی سمجھتے ہوئے اپنا سلسلہ نسب یوسفؑ اور لاوی سے شروع کرتے ہیں۔ ان کے بنیادی عقائد میں توحید، ختنہ، سبت کی پیروی اور زیارتوں کے تہوار منانا شامل ہے۔ صدوقیوں ہی کی طرح یہ لوگ بھی مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے عقیدے کے قائل نہیں۔ یہودیوں اور سامریوں کے درمیان زیادہ تر عداوت ہی نے رواج پایا اور دونوں گروہ ایک دوسرے کو "سچا اسرائیلی" ماننے میں تامل برتتے رہے۔[2] عبرانی بائیبل نے انہیں غیر یہودی قرار نہیں دیا۔ البتہ ربی انہیں نہ صرف بنی اسرائیل میں شمار کرنے سے گریزاں ہیں بلکہ ان کو بت پرست ٹھہراتے ہوئے بطور نو یہودی بھی تسلیم نہیں کرتے۔ [3] زمانہ قدیم میں ان لوگوں کی خاصی بڑی آبادیاں موجود تھیں جو بعد میں ختم ہوتی چلی گئیں لیکن یہ مکمل طور پر ناپید نہیں ہوئے۔ مشہور برطانوی خبر رساں ایجنسی، بی بی سی کے مطابق 2018 میں 800 سے زائد سامری تل ابیب کے قریب آباد تھے۔[4]

راسخ العقیدہ یہودی اس گروہ کی تاریخ کو بابل کی جلا وطنی کے زمانے سے جوڑتے ہیں۔ اس حوالے سے دوم سلاطین میں روایت ہے کہ سامری غیر ملکی تھے جنہیں اشوریوں نے سامریہ کے علاقے میں بسا دیا تھا۔ سامریہ میں بسنے والے اسرائیلی ان دنوں بابل میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہ لوگ یہاں مختلف آفات کا شکار ہونے کی وجہ سے پریشان حال تھے۔ ایک اسرائیلی کاہن نے انہیں بتایا کہ یہاں صرف وہی قوم خوش و خرم رہ سکتی ہے جو اسرائیلی شریعت پر عمل کرے۔ سامریوں نے اس کاہن کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے توریت کی پیروی شروع کر دی "لیکن انہوں نے اپنے خدا ؤ ں کی بھی خدمت کی۔ ان لوگوں نے اپنے خداؤں کی ویسی ہی خدمت کی جیسا کہ انہوں نے اپنے ملک میں کی تھی جہاں سے وہ لائے گئے تھے۔"[5] کتابِ عزرا بھی سامری مخالفت پر زور دیتی ہے۔ اس میں ذکر ہے کہ جب ہیکل کی تعمیر ِ نو کا کام شروع ہوا تو سامریوں نے کہا کہ چونکہ وہ بھی خداوند ہی کی عبادت کرتے ہیں اس لیے انہیں بھی ہیکل کی تعمیر میں شامل کیا جائے لیکن عزرا نے ان کی پیشکش ٹھکرا دی جس پر غصے میں آ کر انہوں نے ہیکل کی تعمیر میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے۔[6]

          سامری درج بالا روایت کو جھٹلاتے ہیں اور خود کو شمالی ریاست کے بچے کھچے قبائل کے طور پر بیان کرتے ہیں جو شروع سے ہی سامریہ میں رہائش پذیر تھے اور اشوریوں کی تباہی سے بچ نکلے تھے۔ یہ لوگ صرف توریت کی پانچ کتابوں پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے مکابیوں کے دور سے ہی توریت کا الگ نسخہ مرتب کر لیا تھا جو قدیم عبرانی زبان میں لکھا گیا تھا۔ اس نسخے کے مطابق یہ احکام عشرہ کا حصہ ہے کہ تمام قربانیاں جبل جرزیم پر ادا کرنی ہیں۔ یہ لوگ جبل جرزیم ہی کو ہیکل کی تعمیر کی جگہ بھی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ابراہیمؑ اسی جگہ اسحاقؑ کو قربانی کے لیے لائے تھے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یشوعؑ نے اسرائیلیوں کو سکم کے مقام پر اکٹھا کر کے عہد خداوندی کی تجدید کی لیکن بعد میں کاہن اعظم عیلی نے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر عبادت گاہ کو سکم سے سیلا منتقل کر دیا جہاں سے یہ عہد داؤدی میں یروشلم منتقل ہو گئی۔[7]

حسیدی

          حسیدی یعنی "نیک" بھی یہودیت کے قدیم گروہوں میں شمار کیے جاتے ہیں جو مکابیوں کے دور میں سامنے آئے اور ان کے شانہ بشانہ لڑ کر ہیکل کو یونانیوں کے قبضے سے آزاد کروایا۔ اول مکابیین کے مطابق حسیدی اسرائیل کے شہ زور تھے جنہوں نے شریعت کے لیے خود کو پیش کر دیا۔[8] بحر میت کے مخطوطات میں بھی ان کا ذکر موجود ہے۔ یہودیت میں حسیدی ایک روحانی جماعت بھی ہے تاہم اس جماعت کا اس قدیم یہودی گروہ سے کوئی تعلق نہیں۔ جس قوت سے مکابیوں کی حمایت میں یہ گروہ سامنے آیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں ان کو مستحکم ہوئے کچھ عرصہ بیت چکا تھا۔ اس دور کے حسیدی شریعت پر یقین رکھنے والے تھے اور اس ضمن میں کوئی بھی نئی تشریح قبول کرنے کے روادار نہیں تھے۔ اس لیے جب مکابیوں نے  سبت کے دن لڑنا جائز کیا تو ان لوگوں نے اس وقت بھی سبت کی پاسداری جاری رکھی اور جنگی معاملات خدا پر چھوڑ دیے۔ اسی لیے ربی انہیں "عمل کے بندے" بھی کہا کرتے تھے۔[9] بعض مصنفین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ فریسی اور اسینی بھی حسیدیوں ہی کی شاخیں ہیں۔ البتہ اس دعوے کے ثبوت تقریباً ناپید ہیں کیونکہ حسیدیوں کے متعلق معلومات بہت کم یاب ہیں۔

فریسی

          فریسی یعنی "علیحدگی پسند" یہودیوں کا سب سے بڑا گروہ تھا جو شریعت کے عالموں اور توریت نویسوں پر مبنی تھا۔ ہیکل کی تعمیر نو سے اس کی دوسری تباہی تک کے عرصے میں مختلف یہودی گروہ سامنے آتے رہے۔ بابلی اور فارسی دور نے یہودیوں میں نئی مذہبی تبدیلیاں پیدا کر دی تھیں جن کے نتیجے میں مختلف یہودی گروہوں نے مختلف ردعمل کا اظہار کیا۔ رفتہ رفتہ اسی اظہار نے فرقوں کی شکل اختیار کر لی۔ فریسی بھی اسی دور میں سامنے آنے لگے تھے تاہم ان کی الگ پہچان دوسری صدی عیسوی کے وسط میں قائم ہوئی۔[10] ان کو ایک مذہبی گروہ کے علاوہ سیاسی جماعت بھی سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ صدوقیوں کو بیان کیے بغیر انہیں بیان کرنا مشکل ہے۔ اس معاملے کو ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک فریسی اس وقت فریسی کہلاتا تھا جب اسے صدوقی کے ردعمل میں بیان کیا جائے اور یہی معاملہ صدوقیوں کے ساتھ تھا۔ اکثر معاملات جیسے صنہادرین کے اراکین کے چناؤ، ہیلینت کی قبولیت اور ہیکل کے معاملات وغیرہ میں دونوں گروہوں کو ایک دوسرے کی مخالفت کرتے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔

 بیشتر مصنفین ابتدائی یہودی فرقوں کی معلومات کے لیے فلاویس یوسیفس(37-100) جو ایک مشہور یہودی مؤرخ گزرا ہے کی آرا کو فوقیت دیتے ہیں۔ یوسفیس کہتا ہے :

 فریسی جو کہ شریعت کے سب سے مستند شارح سمجھے جاتے ہیں اور قائدین کے گروہ کی مسند پر براجمان ہیں، ہر چیز کو خدا اور قسمت سے منسوب کرتے ہیں؛ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ انسان کے اچھا یا اس کے برعکس عمل کرنے کا اختیار اس کے پاس ہے لیکن اس کے ہر عمل میں قسمت ساتھ چلتی ہے۔ ہر روح، وہ سمجھتے ہیں کہ دائمی ہے لیکن اچھوں کی روح ہی دوسرے جسم تک پہنچتی ہے جبکہ بروں کی روح ابدی عذاب میں مبتلا ہوتی ہے۔[11]

یوسفیس مزید بتاتا ہے کہ فریسی اپنے بڑوں کی تمام آرا سے متفق نہیں تھے لیکن وہ ان کی عزت کیا کرتے تھے۔ اپنی سادگی اور علم دوستی کی بدولت یہ لوگ عام یہودیوں میں بہت مقبول تھے۔ یہ زیادہ تر درمیانے اور نچلے طبقے کے کسان اور دستکار تھے جو مختلف دیہاتوں اور قصبوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنے دورِ عروج میں یہ ان لوگوں میں بھی اپنی مذہبی تشریحات کو رواج دینے میں کامیاب رہے جو ان کی برتری کے قائل نہیں تھے۔

یہود ہرقانوس کے دور میں ان کو اتنی اہمیت حاصل تھی کہ یہ حکمرانوں پر تنقید تک کر سکتے تھے۔ ان کی عوامی مقبولیت کی وجہ سے اس تنقید کا اثر حکمران بھی محسوس کرتے تھے اسی لیے سکندر جانوس نے آخری وقت میں اپنی بیوی سکندریہ کو مشورہ دیا کہ وہ فریسیوں سے اتحاد قائم کرے۔ جب رومی دور شروع ہوا تو صدوقیوں کے برعکس فریسیوں نے پومپے کا ساتھ دیا اور یروشلم کے دروازے اس کے لیے کھول دیے۔ وہ غیر ملکیوں کی حکومت کو اس وقت تک برا نہیں سمجھتے تھے جب تک کہ ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ ہونے لگے۔ ان کا خیال تھا چونکہ صدوقی ہیکل کی عبادات کو درست طور پر سر انجام نہیں دے رہے اس لیے رومیوں کا تسلط ایک خدائی امر ہے۔ شروع میں انہیں سیاست سے خاص غرض نہیں تھی لیکن جیسے جیسے رومی دباؤ بڑھتا گیا ان میں بھی علیحدہ یہودی ریاست کے قیام کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔[12]

 کاہنِ اعظم اور اس کے نمائندوں کے کاموں کو یہ رسمی اعمال سمجھتے تھے۔ خود ان کی جائے منصب سیناگاگ تھیں جو پہلی صدی عیسوی تک تقریباً ہر بڑے چھوٹے گاؤں میں بن چکی تھیں۔ سیناگاگ میں یہ عام لوگوں کو وعظ کہتے اور ان کو توریت کی تعلیم دیتے۔ مذہبی اعتبار سے یہ ربیائی یہودیت کے بڑے کہلائے جا سکتے ہیں کیونکہ یہ لکھی ہوئی توریت کے علاوہ زبانی قانون پر بھی یقین رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ قسمت، حیات بعد الموت، قیامت، مسیح موعود اور فرشتوں پر اعتقاد بھی فریسیوں میں عام تھا۔ انہوں نے زبانی قانون کی ترقی کے لیے دلجمعی سے کام کیا کیونکہ وہ خود کو موسیؑ کے سچے جانشین سمجھتے تھے۔ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ کوئی بھی جگہ خدا کے وجود سے خالی نہیں ہے۔ کسی جگہ بھی اسے پکارا جا سکتا ہے۔ اسی لیے یہ قربانی کے علاوہ دعا اور توریت کے مطالعہ کو بھی رسمی عبادت کا درجہ دیتے تھے۔

صدوقی

          ہیکل کے مذہبی معاملات کے ذمہ دار ٹھہرائے جانے کی وجہ سے صدوقی اگرچہ عہد داؤدی سے موجود تھے تاہم بطور فرقہ ان کی شناخت بھی فریسیوں ہی کے زمانے میں سامنے آئی۔ کہا جاتا ہے کہ صدوقی لفظ کی شروعات شاید "ضدوق" سے ہوئی جو داؤدؑ کے زمانہ سے کاہنِ اعظم تھے اور ہیکل کے امور کے ذمہ دار تھے۔ صدوقیوں کی اپنی لکھی ہوئی کوئی تحریر ہم تک نہیں پہنچ سکی اس لیے زیادہ تر انہیں فریسیوں کے مخالف فرقے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ یہ ایک لحاظ سے رجعت پسند یہودیوں کا گروہ تھا جو ہیکل کی قربانیوں اور عبادات میں کسی قسم کی تبدیلی کے روادار نہیں تھے۔ چونکہ ان میں سے بیشتر نسلی کاہن یا ان کے رشتہ دار تھے لہذا جو بھی حکومت آتی یہ اس کی حمایت کی کوشش کرتے تاکہ ہیکل میں ان کا اثر و رسوخ بنا رہے۔ اس وجہ سے فریسیوں کے برعکس انہیں دنیاوی لوگ سمجھا جاتا تھا۔ یہ زبانی قانون کو نہیں مانتے تھے اور توریت کی عقلی تشریحات کو رواج دیتے رہے۔ اسی لیے ہیلینت نے انہیں زیادہ متاثر کیا۔ عقل پسند ہونے کی وجہ سے ان کے ہاں  حیات بعد الموت ، قیامت اور فرشتوں جیسے عقائد نے بھی رواج نہیں پایا۔ سامریوں ہی کی طرح یہ لوگ بھی صرف توریت کی پانچ کتابوں ہی پر یقین رکھتے تھے۔ صدوقیوں کو اشرافیہ میں پذیرائی حاصل تھی جبکہ عام عوام میں فریسی مقبول ہوئے۔ یہ لوگ قسمت پر یقین نہیں رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ انسان کو اچھے اور برے پر اختیار حاصل ہے۔ یہ اس کی مرضی ہے کہ دونوں میں سے جسے بھی منتخب کر لے۔ یوسیفیس کے بیان کے متعلق بعض مصنفین نے شک کا اظہار بھی کیا ہے[13] کیونکہ یہ مانا جاتا ہے کہ وہ خود فریسی تھا لہذا ہو سکتا ہے کہ دیگر فرقوں کے متعلق اس کی معلومات یک طرفہ ہوں۔

          اونچے طبقوں تک ان کی رسائی ہونے کی وجہ سے یہ لوگ بیشتر مذہبی معاملات کے ذمہ دار تھے۔ بعض مصنفین کے مطابق صنہادرین میں ابو الدین کا عہدہ بھی زیادہ تر انہیں ملتا رہا۔[14]اس کے برعکس فریسیوں کو تعداد کی وجہ سے ان پر فوقیت حاصل رہی ہے۔ عصر حاضر کا کوئی بھی یہودی گروہ اپنی نسبت صدوقیوں کی طرف نہیں جوڑتا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ صدوقیوں کا اثر و رسوخ ہیکل سے منسلک تھا۔ جب 70 عیسوی میں ہیکل کو رومیوں نے تباہ کر دیا تو اس کے ساتھ ہی کاہنو ں کے مذہبی کردار کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ فریسیوں کی طرح انہوں نے نہ ہی سیناگاگ سے تعلق جوڑا اور نہ ہی عوامی مقبولیت حاصل کر سکے جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس فرقے کے نام لیوا ختم ہوتے چلے گئے۔ بحر میت کے مخطوطات نے ان کے حوالے سے نئے تضادات کو جنم دیا ہے کیونکہ ان مخطوطات سے لگتا ہے کہ صدوقی بھی قمران کے رہائشی تھے یا کم از کم قمرانیوں کے اجداد کے ان کے سے ساتھ مراسم تھے۔ ان مخطوطات میں بیان کردہ بعض مذہبی رسمیں ربیائی ادب میں موجود صدوقیوں کی عبادات سے مطابقت رکھتی ہیں۔[15]

اسینی

          اسینی راہبوں پر مبنی ایک یہودی گروہ تھا جسے بعض مصنفین صدوقیوں ہی کی ایک شاخ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ تاہم اپنے مذہبی معاملات میں یہ صدوقیوں سے مختلف تھے۔ یہ تعداد میں بھی فریسیوں اور صدوقیوں سے کم تھے۔ انکے متعلق معلومات نہ صرف یوسیفیس بلکہ فیلو اور ایک رومی مورخ پلینیوس (23-79)کی تصنیفات سے بھی ملتی ہیں۔ فیلو کے مطابق فلسطین اور شام میں 4000 سے زائد اسینی رہائش پذیر تھے۔ بحر میت کے مخطوطات کی دریافت سے زیادہ تر محققین یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ قمران کے رہائشی اور ان مخطوطات کے مصنفین اسینی ہی تھے۔ اگرچہ ان مخطوطات میں کہیں بھی اسینیوں کا نام نہیں لیا گیا لیکن ان میں درج شدہ معلومات اور یوسفیس، پلینیوس اور فیلو کی آرا میں بہت مماثلت ہے۔ ان کی ابتدا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ گروہ  ہیروڈ کے دور میں موجود تھا اور مختلف علاقوں میں پھیلا ہوا تھا۔

دیگر فرقوں کی طرح اسینی بھی یہی سمجھتے تھے کہ صرف وہی موسیؑ کے جانشین ہیں۔ مذہبی معاملات میں یہ لوگ خصوصی طور پر صدوقیوں اور کاہنوں کے طرزِ عمل کی مخالفت کیا کرتے تھے۔[16] ان کے حلقوں میں عورتیں بہت کم پائی جاتی تھیں۔ بعض مصنفین کے مطابق یوسیفس نے اسینیوں کے صرف ایک ایسے گروہ کی نشاندہی کی ہے جس میں عورتیں بھی شامل تھیں[17] جبکہ پلینیوس کے مطابق ان میں عورتوں کا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔[18] یوسیفس خیال کرتا ہے ان کے گروہ کے کچھ لوگ تین سالہ تربیت کے بعد شادی کی اجازت دے دیتے تھے۔ مجموعی طور پر یہ مجرد زندگی گزارنا پسند کرتے اور عام لوگوں کو جلدی اپنے گروہ میں شامل نہیں کرتے تھے۔ ان کی کچھ خاص شرائط تھیں جن پر عمل پیرا ہونے کے بعد لوگ اس گروہ کی رکنیت حاصل کر سکتے تھے، مثلاً ان کے گروہ میں شامل ہونے کے لیے ضروری تھا کہ متعلقہ فرد اپنی تمام جائیداد سے انفرادی ملکیت کا حق اٹھا کر اسے ان کے مشترکہ خزانے میں جمع کروا دے۔[19] زیادہ تر یہ لوگ زراعت اور دستکاری کے شعبوں سے منسلک تھے۔ غلام رکھنے کی بجائے ایک دوسرے کی مدد کرنے کو فوقیت دیتے تھے۔ صدوقیوں کے خلاف ہونے اور الگ تھلگ زندگی گزارنے کے باوجود یہ ہیکل میں قربانیوں کی ادائیگی کو ضروری سمجھتے تھے۔ جانوروں کی قربانی کی ان کے ہاں ممانعت تھی اس لیے یہ ہیکل میں قربانی کے لیے زیادہ تر آٹا اور تیل وغیرہ ہی لے کر جاتے تھے۔

 ان کے ہاں مشترکہ کھانے کو خصوصی اہمیت حاصل تھی جس میں اسینیوں کے علاوہ کسی اور گروہ کو شریک نہ کیا جاتا۔ یہ حسب مراتبت کا بھی خصوصی خیال رکھتے۔ بڑوں کے اختیارات پر سوالات کا حق چھوٹوں کو حاصل نہ تھا۔ اگر کوئی ایسا معاملہ ہوتا تو ایسے فرد کو اپنے کھانوں میں اس وقت تک شامل نہ کرتے جب تک وہ اپنی فرمانبرداری ثابت نہ کر دیتا۔ رسمی طہارت میں یہ فریسیوں پر بھی سبقت لے گئے تھے۔ دن میں دو دو مرتبہ مک وے یعنی مقدس غسل کرنا ضروری سمجھتے۔ اسی طرح کھانے سے پہلے بھی طہارت ان میں لازمی امر تھا۔ مذہبی معاملات میں ان کے ہاں عبادت اور تلاوت نے زیادہ رواج پایا۔ قربانی کی بجائے ذاتی عبادت پر زیادہ توجہ دیتے تھے لیکن ساتھ ساتھ ایسے نئے زمانے کے لیے بھی دعا کرتے تھے جہاں کاہنوں کا بہتر نظام رائج ہو تاکہ عبادات بہتر طور پر ادا ہوتی رہیں۔ یہ حیات ابدی کے قائل ضرور تھے لیکن جسمانی طور پر مردوں کے دوبارہ جی اٹھنے کے عقیدے کو نہیں مانتے تھے۔ یہ سمجھتے تھے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر کوئی قابو نہیں پا سکتا۔ قسمت انسان کے معاملات طے کرتی ہے۔ فرشتوں پر یقین رکھتے، خیرات دیتے اور غصے پر قابو رکھنے کو بالخصوص اہمیت دیتے تھے۔ یہ اس بات کو بھی مانتے تھے کہ معاملات میں ثنویت پائی جاتی ہے؛ جیسے برائی کے ساتھ اچھائی، روح کے ساتھ جسم یا دنیا میں روشنی اور اندھیرے کی قوتوں کا موجود اور آپس میں صف آرا ہونا۔

زیلوٹ

زیلوٹ یہودیوں کا ایک متشدد فرقہ تھا جو ہیروڈ کے دور سے سرگرم تھا۔ اس کا بنیادی مقصد رومیوں کے تسلط سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ چنانچہ یہ اپنی نوعیت میں مذہبی کم اور سیاسی زیادہ تھا۔ یوسیفس نے انہیں چوتھے گروہ کے طور پر بیان کیا ہے۔ ان کا نعرہ تھا کہ خدا کے سوا کوئی حاکم نہیں۔ ان لوگوں نے تشدد کی راہ اپنائی اور رومیوں کے خلاف دوسروں کو بھی بغاوت پر قائل کیا۔ اس بغاوت کے لیے یہ لوگ ہر قسم کا حربہ اختیار کرنا جائز سمجھتے تھے، مثلاً بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ شہر کی رسدگاہ کو اس لیے تباہ کر دیا تاکہ لوگ بھوک سے بے حال ہو کر رومیوں کے خلاف ان کا ساتھ دیں۔ انہیں کا ایک ذیلی گروہ سیکاری بھی تھا جو تشدد کے حوالے سے مشہور ہوا۔ یہ لوگ اپنے لمبے لمبے چوغوں میں سیکار یعنی چھوٹی سی تلوار چھپا لیتے اور لوگوں کی بھیڑ میں شامل ہو جاتے۔ جہاں کہیں انہیں کوئی رومی یا رومیوں کا حامی چاہے وہ یہودی ہی کیوں نہ ہو مل جاتا یہ اس کو قتل کر کے خود رفو چکر ہو جاتے۔[20] سیکاری اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی کرنے سے نہ چوکتے تھے۔ ان کی مہارت کی پیش نظر کاہنِ اعظم اور رومی حکمران بھی انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہتے تھے۔

 

قدیم یہودی فرقے

سامری

حسیدی

فریسی

صدوقی

اسینی

زیلوٹ

زیلوٹ

تھراپیٹی

 

جیسا کے دوسرے باب میں بیان ہو چکا ہے کہ زیلوٹ کی بغاوتوں نے رومیوں کو مشتعل کر دیا جس کا نتیجہ ہیکل کی تباہی کی صورت میں نکلا جو یہودی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ زیلوٹ نے اس تباہی کے بعد بھی اپنی جدوجہد جاری رکھی اور یہودیہ کے ایک صوبہ مسعدہ میں اکٹھے ہو کر رومیوں کے خلاف کاروائیاں کرنے لگے۔ 73 عیسوی کے قریب رومیوں نے مسعدہ کا محاصرہ کر لیا۔ جب رومی قلعے کی فصیلیں توڑ کر اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ ان کے ہاتھوں مرنے سے بچنے کے لیے شہر کے باسیوں نے خود کشی کر لی تھی۔[21] اس واقعے کی صداقت کے متعلق شبہات ہو سکتے ہیں تاہم یہودی تاریخ میں یہ واقعہ بہادری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بعد ازاں بھی زیلوٹ فرقے کے حامی چھوٹے موٹے تشدد کے واقعات میں ملوث پائے جاتے رہے لیکن رومیوں کے لیے یہ کوئی خاص مسائل نہ پیدا کر سکے۔ آخر کاربرکوخبا بغاوت یعنی تیسری اور آخری بغاوت کے بعد رومیوں نے اس فرقے کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا۔

تھراپیٹی

          تھراپیٹی یعنی "شفا بخش" یا "عبادت پسند" یہودیوں کا ایک فلسفی فرقہ تھا جس کے حامی پہلی صدی عیسوی میں زیادہ تر اسکندریہ میں پائے جاتے تھے۔ یہ لوگ اپنا زیادہ تر وقت تلاوت اور غور و فکر میں گزارتے۔ ان کے متعلق معلومات کا ماخذ زیادہ تر فیلو ہے۔ ان کو اسینیوں کا ہی ایک گروہ بھی سمجھا جاتا ہے کیونکہ انہیں کی طرح ان میں بھی کھانے کو خصوصی اہمیت حاصل تھی، مجرد رہنے کو ترجیح دی جاتی، غلام رکھنے کی ممانعت ہوتی، خود کام کرنے کو اچھا سمجھا جاتا اور گروہ میں شامل ہونے کے لیے جائیداد سے دستبرداری کا اعلان بھی کرنا ہوتا لیکن اسینیوں کے برعکس ان کے ہاں مشترکہ جائیداد کا کوئی رواج نہ تھا۔ یہ اپنی جائیداد اپنے خاندان کے کسی فرد یا دوست کے نام کر دینا پسند کرتے تھے۔

 اپنی علمی روایت میں یہ لوگ دیگر یہودی گروہوں سے منفرد تھے۔ عام طور پر ایک دوسرے سے بھی الگ تھلگ رہتے اور کھانوں اور نمازوں کے دوران ہی اکٹھے ہوتے۔ کھانے کی میز پر کتب مقدسہ سے کوئی نقطہ اٹھایا جاتا اور اس کی علامتی وضاحت کرنے کی کوشش کی جاتی۔[22] اسینیوں کے برعکس اس فرقے میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ ان کے درمیان بھی بڑے کی بات کو بہت قدرو منزلت حاصل تھی۔ بڑے کا چناؤ اس بات پر ہوتا کہ گروہ میں شمولیت کیے اسے کتنا عرصہ گزر چکا ہے۔ سبت کی عبادت پر خصوصی توجہ دی جاتی اور رہنما بھی کسی بڑے کو ہی مقرر کیا جاتا۔[23]

          ان کے عام دنوں کا بیشتر حصہ بھی عبادت میں گزرتا جو سورج طلوع ہونے سے شروع ہو جاتیں اور سورج غروب ہونے تک جاری رہتیں۔ توریت کے مطالعے کو خصوصی اہمیت دی جاتی اور سارا دن غور وفکر کے ذریعے عبارتوں کے علامتی معنی تلاش کیے جاتے۔ علامتی معنی کی تلاش کا ایک خاص علم ان میں رواج پایا جو ان تک ان کے بڑوں کے ذریعے پہنچا۔[24] سادہ کھانے کو ترجیح دی جاتی اور اتنا ہی کھایا جاتا جتنا زندہ رہنے کے لیے ضروری ہوتا۔ ان کے کھانوں میں گوشت اور شراب سے مکمل اجتناب برتا جاتا۔ دن میں صرف ایک کھانا سورج غروب ہونے کے بعد کھایا جاتا۔ روزے کو خصوصی اہمیت دی جاتی اور کبھی کبھی تو تین یا چھ دن لمبا روزہ رکھا جاتا۔ سال گزارنے کے لیے ان کے پاس کپڑوں کے دو جوڑے ہوتے۔ ایک گرمیوں کا اور ایک سردیوں کا۔ عصر حاضر کے بعض مصنفین نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ یہ یہودی نہیں بلکہ بدھ مت کے پیروکار تھے۔ ہو سکتا ہے لفظ تھراپیٹی بدھ مت کے مشہور فرقے تھیراوادا ہی کی کوئی شکل ہو۔

قرائٹ

          قرائٹ یعنی "پڑھنے والے" یہودیوں کا ایک ایسا فرقہ ہے جو سامریوں اور صدوقیوں کی طرح صرف لکھی ہوئی توریت پر ہی یقین کرتا ہے۔ ربیائی یہودیت جس کا تفصیلاً ذکر دوسرے اور تیسرے باب میں گزر چکا ہے، میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ موسیؑ نے یہودیوں کو زبانی قانون بھی دیا تھا جو سینہ بہ سینہ ان کی نسلوں میں منتقل ہوتا رہا۔ قرائٹ ربیائی یہودیت کے اس فلسفے کو تسلیم نہیں کرتے۔ چونکہ زبانی قانون کا تصور یہودیوں میں دوسری صدی قبل مسیح میں مستحکم ہونا شروع ہوا تھا لہذا بعض مصنفین یہ خیال کرتے ہیں کہ قرائٹ فرقے کی شروعات بھی اسی دور میں ہو چکی تھی۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قرائٹ کی شروعات دو عناصر کی مرہون منت ہے جن میں سے ایک شاخ تو راس جالوت میں سے ہے اور دوسری شاخ مسلم دور میں متحرک تھی۔[25] اول الذکر کے لحاظ سے مشہور یہودی عالم عنان ابن داؤد کو قرائٹ فرقے کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن داؤد کے پیروکاروں اور قرائٹ فرقے کے ماننے والوں کی تعلیمات میں خاصی مماثلت تھی جس نے آٹھویں صدی میں دونوں گروہوں کو متحد کر دیا۔ اسی لیے اس کے دور کو قرائٹ کے عروج کا آغاز کہا جاتا ہے۔

 دسویں صدی کے مشرق وسطی میں قرائٹ کی کافی آبادیاں تھیں۔ خاص طور پر مصر اور فلسطین میں انہوں نے ربیوں کے مقابلے میں اپنی سیناگاگ تعمیر کر لی تھیں۔ صلیبی جنگوں کے دوران ان میں سے زیادہ تر بازنطینی علاقوں میں چلے گئے اور کچھ اس سے آگے پالینڈ اور لیتھونیا میں رہائش پذیر ہوئے۔ بازنطینی علاقوں میں توبیاس بن موسی کو ان کا امیر سمجھا جاتا تھا جس نے قرائٹ فرقے کی کتب کا عربی سے عبرانی میں ترجمہ کیا۔[26] چونکہ مسلمانوں کے دور میں قرائٹ اچھی خاصی تعداد میں موجود تھے تو انہوں نے ربیائی یہودیت کے خلاف کافی کچھ تحریر کیا جس کے جواب میں ربیوں میں بھی تلمود کے دفاع کی نئی تشریحات نے فروغ پایا۔

          قرائٹ کا خیال ہے کہ زندگی گزارنے کے تمام عناصر توریت نے فراہم کر دیے ہیں۔ اس کے معنی پر غور و فکر کر کے کسی بھی دور کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ربیوں کے برعکس انہوں نے توریت کی لفظی تشریح کو رواج دیا، مثلاً کتاب ِ خروج میں ذکر ہے: " بکری کے بچہ کو اس کی ماں کے دودھ میں نہ ابالو۔"[27] ربیائی یہودیت میں اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ کسی بھی قسم کے دودھ اور گوشت کو اکٹھا نہیں کرنا چاہیے۔ قرائٹ کے ہاں ربیوں کا نقطہ نظر قابلِ قبول نہیں۔ وہ دودھ اور گوشت کو اکٹھا کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس سے مراد صرف یہ ہے کہ بکری کے بچے کو اس کی ماں کے دودھ میں نہیں ابالنا چاہیے۔ سبت کے دن کے حوالے سے بھی ان کی تشریحات ربیائی یہودیت کے ماننے والوں سے مختلف تھیں، مثلاً قرائٹ نہ تو سبت کی شمعیں جلاتے ہیں اور نہ ہی اس دن ازدواجی تعلقات رکھنے کے روادار ہیں۔ یہ کیلنڈر کے حوالے سے بھی عام یہودیوں سے مختلف ہیں اس لیے ان کے بعض تہواروں کے دنوں میں فرق بھی آ جاتا ہے۔ ان کی اچھی خاصی تعداد آج بھی اسرائیل سمیت دنیا کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔

عصر حاضر کے فرقے

          جدیدیت، نشاۃ ثانیہ، الحاد، اور سائنس جیسے عناصر عصر حاضر کے تمام بڑے مذاہب پر اثر انداز ہوئے۔ ان مسائل نے یہودیوں کو قدیم مذہبی روایات کی مختلف تشریحات پر مجبور کیا۔ کچھ نے سختی سے قدیم یہودیت اپنانے کا فیصلہ کیا اور کچھ نے صرف اسی حد تک پرانی روایات کو زندہ رکھا جو ان کے نزدیک جدید دور میں رواج پا سکتی تھیں۔ بعض ایسے بھی رہے جنہوں نے درمیانی راہ اختیار کرنے کی کوشش کی۔ انہیں کوششوں کے نتیجے میں بہت سے نئے مذہبی فرقوں اور تحریکوں نے جنم لیا۔ ان تحریکوں میں سے بعض ایسی بھی تھیں جن کا مذہب سے تعلق خاص مقاصد کے حصول سے مشروط تھا، مثلاً صہیونیت جس کے متعلق تیسرے باب میں بیان کیا جا چکا ہے، کا مقصد علیحدہ ریاست کا قیام تھا۔ راسخ العقیدہ یہودیوں کے برعکس ان میں مذہب زیادہ رواج نہ پا سکا۔ لیکن چونکہ یہ ر یاست مذہب کے نام پر قائم کی گئی تھی اس لیے دیگر یہودی گروہوں پر مذہبی پابندیاں بھی نہیں لگائی گئیں اور ان کی ضروریات کے پیش نظر قوانین بھی رائج کیے گئے۔ تاہم اس تقسیم کو بیان کرنا آسان نہیں، مثلاً اسرائیل میں اگرچہ زیادہ تر یہودی خود کو راسخ العقیدہ کہلوانا پسند نہیں کرتے لیکن زیادہ تر سیناگاگ راسخ العقیدہ نظریات ہی کی حامل ہیں۔ نئی ریاست کے قیام میں جن مذہبی لوگوں نے مدد کی تھی وہ بعد میں مذہبی صہیونیوں کے طور پر مشہور ہونے لگے یہاں تک کہ اب انہیں صہیونیت کی ایک علیحدہ شاخ کے طور پر پہچانا جانے لگا ہے۔ اسی طرح اصلاح شدہ اور رجعت پسند یہودیوں کی صہیونی شاخیں بھی موجود ہیں۔

امریکہ کا کردار بھی اس حوالے سے خصوصیت سے بیان کیا جا سکتا ہے جہاں اصلاح شدہ اور رجعت پسندوں کے ساتھ ساتھ راسخ العقیدہ یہودیت نے بھی رواج پایا۔ ان تینوں گروہوں میں تقسیم ان کی قدیم یہودیت اور ہلاخا کی پیروی کرنے میں سختی کے حساب سے کی جاتی ہے۔ اسی طرح عصر حاضر میں مسیحی یہودی اور بدھ یہودی جیسے فرقے بھی معرض وجود میں آنے لگے ہیں۔ چنانچہ یہ ممکن نہیں کے زیر نظر باب میں تمام یہودی فرقوں اور تحریکوں کو متعارف کروایا جا سکے۔ ذیل میں صرف انہیں فرقوں کا مختصر ذکر کیا جا رہا ہے جو اپنی تعداد اور مذہبی شناخت کی وجہ سے زیادہ تر یہودیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

اصلاح شدہ یہودیت

          اصلاح شدہ یہودی جنہیں ترقی پسند یا آزاد خیال یہودی بھی کہا جاتا ہے مذہب میں ارتقا کے قائل ہیں، الہیات پر اخلاقیات کو فوقیت دیتے ہیں اور عقلیت پسندی کی طرف مائل ہیں جو کہ ہشکالا یعنی یہودی روشن خیالی کی تحریک کے بنیادی نعروں میں سے ایک ہے۔ یہودی نشاۃ ثانیہ کے دوران جرمنی اور بعد میں امریکہ میں رواج پانے والے اس فرقے کے آغاز کے متعلق معلومات تیسرے باب میں بیان کی جا چکی ہیں۔ امریکا میں اصلاحی یہودیت نے سب سے زیادہ رواج پایا۔ تقریباً 35 فیصد امریکی یہودی خود کو اصلاح شدہ تصور کرتے ہیں۔ یہ سب سے پہلا یہودی گروہ تھا جس نے امریکا میں اپنے آپ کو رسمی طور پر منظم کر کے ایک نظریے سے فرقے کی شکل اختیار کر لی۔ اس میں امریکا کی آزاد خیالی کا بھی د خل ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں راسخ العقیدہ یہودیت زیادہ اثر و رسوخ قائم نہیں کر سکی۔

 اصلاح شدہ یہودیت میں اس تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں کہ اس کو روایتی اور نو اصلاحی یہودیت میں بھی تقسیم کیا جانے لگا ہے۔ ان کے ہاں مذہبی رسومات کی پیروی اس لیے نہیں ہوتی کہ یہ خدا کا حکم ہے بلکہ یہ ان رسومات کو انسان کے ذاتی انتخاب کی وجہ سے اپنانے کا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ لہذا ان کا ہر فرد عبادات کو اپنے ذوق کے مطابق ادا کرتا ہے۔ ان کے ہاں توریت کو خدا کا قانون نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے انسانی تعلیمات کا درجہ حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب خدائی قانون نہیں بلکہ انسان کی تخلیق کردہ تعلیمات ہیں جن میں بوقت ضرورت تبدیلی کی جانی چاہیے تاکہ یہ کوئی ساکت و جامد شے نہ بن کر رہ جائے۔ اسی لیے یہ کہتے ہیں کہ عبرانی بائیبل لفظ بہ لفظ خدا کی ودیعت کردا نہیں بلکہ اس کی تکمیل تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے اپنی فہم و فراست سے کی ہے۔ تلمود موسیؑ کا فراہم کردہ زبانی قانون نہیں ہے بلکہ اس کو بھی بعد کے انسانوں نے تخلیق کیا ہے۔ اس پر بھی بطور الہامی کلام یقین نہیں کرنا چاہیے۔[28] چنانچہ اصلاح شدہ یہودی ایک ہی وقت میں مختلف عقائد و تصورات کے حامل ہو سکتے ہیں جن میں وقت اور ضرورت کے اعتبار سے تبدیلی و ارتقا ممکن ہے۔ نو اصلاحی یہودی مزاج میں زیادہ تر راسخ العقیدہ یہودیوں کے مماثل ہیں جو دعاؤں، سبت کی پیروی اور عبادات میں قدیم یہودیت کے علمبردار ہیں۔ تاہم راسخ العقیدہ یہودیوں کے برعکس یہ ان عبادات کو خدائی قانون تسلیم کرنے کی بجائے ذاتی انتخاب قرار دیتے ہیں۔ اب ان میں توریت کی تلاوت کو بھی عام رواج مل رہا ہے جس کا تہواروں جیسے بار/بات متسواہ وغیرہ میں خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کے ہاں مرد و زن کی برابری کی تحریکوں کا فروغ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ان کی متعدد سینگاگ اور دیگر اداروں میں عورتوں کو ربی، قائدین اور منتظمین بھی منتخب کیا جانے لگا ہے۔[29]

یہ لوگ چونکہ مذہب کے اصولوں کو قابل تغیر مانتے ہیں اس وجہ سے زمانے میں جاری عوامل ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اردگرد اٹھنے والی مختلف تحریکیں، مثلاً نسوانیت، الحاد یا اشتراکیت وغیرہ ان کی عبادات اور رسومات کو متاثر کرتی ہیں۔ مساوات انسانی کے نئے نظریات کے تحت ان لوگوں نے مذہب میں ہم جنس پرستوں، فولک روک موسیقی اور نو روایت پرستی کو بھی شامل کر لیا ہے۔[30] بین المذاہب شادیوں کو بھی برا نہیں سمجھا جاتا۔ اس حوالے سے انہوں نے کچھ قوانین تشکیل دینے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن وہ تا حال رواج نہیں پا سکے۔ یہودیت کی جانچ کے لیے ایک عرصہ تک انہوں نے ماں یا باپ میں سے کسی ایک کا یہودی ہونا لازمی قرار دیے رکھا اور بعد میں ماں اور باپ دونوں کا یہودی ہونا ضروری سمجھنے لگے۔ دیگر یہودی فرقوں کے نزدیک یہ دونوں طرزِعمل ہی درست نہیں سمجھے جاتے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اس طرح اصلاح شدہ یہودیوں نے ہلاخا کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ جن لوگوں کو یہ یہودی سمجھتے ہیں دیگر یہودی فرقوں کے نزدیک وہ اور ان کی اولادیں غیر یہودی ہیں۔

وحی کے متعلق ان کے نظریے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وحی، روایتی اصلاحی یہودیت کی طرح نو اصلاحی یہودیت میں بھی ایک مسلسل عمل سمجھا جاتا ہے جو کوہ سینا پر ختم نہیں ہو گئی بلکہ عقل کے توسط سے بنی اسرائیل میں جاری و ساری ہے۔ اس لحاظ سے ہر اصلاح شدہ یہودی کا مذہبی تعلیم حاصل کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے اور اس کو مذہب کی ذاتی، من چاہی تشریح کرنے کی اجازت بھی دی جاتی ہے۔ ان وجوہات کی بنیاد پر یہ دیگر یہودی گروہوں کی تنقید کا نشانہ بھی بنتے رہے ہیں۔ البتہ نو اصلاح شدہ یہودیت میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ان میں البتہ نیا ارتقا یہ ہوا ہے کہ پہلے پہل ان کے ہاں رواج پانے والا تصور ِخدا فرد/جسم کی طرح تھا لیکن بعد میں خدا کو دنیا میں جاری و ساری روحانی طاقت سمجھا جانے لگا جو کائنات اور انسان کو زندگی کے معنی عطا کرتا ہے۔ اس طرح انہیں وحی کے ارتقائی عمل کو بیان کرنے میں بھی آسانی ہوئی ہے۔ اس ضمن میں ایک اصلاحی ربی کا قول ہے: " خدا ایک زندہ/جاری خدا ہے نہ کہ ایسا خدا جس نے ایک دفعہ خود کو اور اپنے کلام کو سینا پر نازل کیا اور اب وہ چپ ہے۔"[31]چونکہ ان کے ہاں خدا کے نظریے میں بھی ارتقا ہوا ہے لہذا اسی حساب سے اب نئی سیدور بھی ترتیب دی جا رہی ہیں۔ 1971 کے ایک سروے کے مطابق خدا کے متعلق اصلاح شدہ یہودیوں میں درج ذیل رویے پائے جاتے تھے:

  1. 17 فیصد خدا کے روایتی نظریے پر یقین رکھتے تھے۔
  2. 49 فیصد اپنے ذاتی عقائد کے مطابق خدا کو مانتے تھے۔
  3. 21 فیصد خدا کے وجود کا ادراک نہیں رکھتے تھے۔
  4. 4 فیصد خود کو ملحد سمجھتے تھے۔[32]

ان میں سے زیادہ تر حیات بعد الموت کے عقیدے کو مانتے ہیں لیکن سمجھتے ہیں کہ یہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہو گی۔ سیاسی اعتبار سے یہ صہیونیوں کے طرزِ عمل کے حق میں ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے علیحدہ قیام میں اصلاح شدہ یہودیوں نے ہر موڑ پر مالی و سیاسی معاونت جاری رکھی تھی۔ اب ان کے ہاں جن بچوں کو ربی بننا ہوتا ہے وہ اپنی تعلیم کا ابتدائی سال ہیبریو یونین کالج کی یروشلم والی شاخ میں مکمل کرتے ہیں۔ اسرائیل میں عبرانی کو سرکاری زبان کا درجہ مل گیا ہے اس لیے ان کی عبادات میں بھی اب عبرانی زبان کو ترجیح ملنی شروع ہو گئی ہے جبکہ روایتی اصلاحی یہودیت میں جرمن اور انگریزی سمیت دیگر زبانوں میں عبادات کو رواج دیا گیا تھا جس کے لیے خصوصی طور پر سیدور بھی تصنیف کی گئی تھیں اور معابد بھی بنائے گئے تھے۔ عصر حاضر میں ان کے مشہور ادارے درج ذیل ہیں:

  1. Advancing Temple Institutional Development (ATID)

یہ ادارہ شمالی امریکا میں پیشہ وارانہ تعلقات کو فروغ دیتا ہے اور وسائل کا اشتراک کرتا ہے۔

  1. American Conference of Cantors (ACC)

یہ معبدوں، سیناگاگ اور گرجاؤں میں گانے والے طائفوں کی تنظیم ہے جس میں 450 طائفے شامل ہیں۔ یہ لوگ دیگر اداروں کے ساتھ مل کر یہودی عبادات کے لیے موسیقی ترتیب دیتے ہیں اور اراکین کی پیشہ وارانہ تربیت کرتے ہیں۔

  1. Association of Reform Zionist of America (ARZA)

اس ادارے کا مقصد امریکی اصلاح شدہ یہودیوں کی صہیونی شناخت کا تحفظ ہے۔

  1. International Federation of Reform and Progressive Religious Zionists (ARZENU)

1980 سے قائم شدہ اس سیاسی ادارے کا مقصد عالمی صہیونی اداروں کے مابین تعلقات کا فروغ اور اسرائیلی حکومتی اداروں میں اصلاحی یہودیت کی اقدار کا تحفظ ہے۔

  1. Association of Reform Jewish Educators (ARJE)

اس ادارے کا مقصد اصلاحی یہودیت کی پیشہ وارانہ تعلیم کا فروغ ہے۔

  1. Brit Milah Program of Reform Judaism

اس ادارے کا مقصد اصلاحی یہودیوں میں بریت میلا کی رسم کی ادائیگی میں مدد فراہم کرنا اور جراحوں کی تربیت کرنا ہے۔

  1. Canadian Association of Reform Zionists (ARZA Canada)

اس ادارے کا مقصد کینیڈا کے اصلاح شدہ یہودیت میں صہیونیت کا فروغ اور اسرائیل میں اصلاحی یہودیت کی اقدار کا تحفظ ہے۔

  1. Central Conference of American Rabbis (CCAR)

اس قدیم ترین ادارے کا مقصد اصلاح شدہ ربیوں کی تربیت اور یہودیت کا فروغ ہے۔

  1. Early Childhood Educators of Reform Judaism (ECE-RJ)

اس ادارے کا مقصد ابتدائی تعلیمی نصاب کے لیے منتظمین، اساتذہ اور متعلقین کی مدد کرنا ہے۔

  1. Hebrew Union College-Jewish Institute of Religion (HUC-JIR)

1875 سے قائم شدہ اس ادارے کا مقصد اصلاحی یہودیت کی پیشہ وارانہ تعلیم کا فروغ ہے۔ اس کی تین شاخیں امریکہ میں موجود ہیں اور ایک شاخ یروشلم میں واقع ہے۔

  1. Israel Religious Action Center (IRAC)

1987 میں قائم ہونے والے اس ادارے کا مقصد اسرائیل کے اندر قانونی چارہ جوئی اور نشر اشاعت کے ذریعے مساوات، معاشرتی انصاف اور مذہبی تکثیریت کا فروغ ہے۔

  1. Israel Movement for Reform and Progressive Judaism (IMPJ)

اصلاحی یہودیت کا ایک بڑا ادارہ جس کے تحت بہت سے ذیلی ادارے اسرائیل میں کام کر رہے ہیں۔ درج بالا ادارہ بھی اسی ادارے ہی کی ایک شاخ ہے۔

  1. Men of Reform Judaism (MRJ)

اس ادارے کا مقصد اصلاحی یہودیوں میں اخوت اور مقامی طور پر منظم مردوں کے حلقوں کے قیام کا فروغ ہے۔

  1. National Association for Temple Administration (NATA)

1941 سے قائم شدہ اس ادارے کا مقصد سیناگاگ اور اس کے منتظمین کی تربیت ہے۔

  1. The Reform Jewish Youth Movement (NFTY)

75 برس پرانے اس ادارے کا مقصد نوجوان اصلاحی یہودیوں کی تربیت ہے۔

  1. Program and Engagement Professionals of Reform Judaism (PEP-RJ)

2001 سے قائم اس ادارے کا مقصد اصلاحی یہودیت سے متعلقہ پروگرام منعقد کروانا اور تعلیم و تربیت کو فروغ دینا ہے۔

  1. The Reform Jewish Community of Canada (RJCC)

ایک بڑا ادارہ جس کے تحت کینیڈا کے زیادہ تر اصلاحی ادارے کام کر رہے ہیں۔ اس کے اراکین کی تعداد 30000 ہے۔

  1. Reform Pension Board (RPB)

اس ادارے کا مقصد ریٹائرمنٹ اور انشورنس جیسی خدمات کی فراہمی ہے۔

  1. Religious Action Center of Reform Judaism (RAC)

60 برس پرانے اس ادارے کا مقصد واشنگٹن میں اصلاحی یہودیوں کے لیے معاشرتی عدل کی فراہمی ہے۔

  1. Union for Reform Judaism (URJ)

شمالی امریکہ کا ایک بڑا ادارہ جو اصلاحی یہودیوں کی آواز ہے۔ زیرِ نظر تحریکوں کی فہرست اور مختصر تعارف کا بیشتر حصہ بھی اسی ادارے کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے۔

  1. Women of Reform Judaism (WRJ)

1913سے قائم شدہ اس ادارے کا مقصد اصلاحی یہودی خواتین کی تربیت ہے۔

  1. World Union for Progressive Judaism (WUPJ)

1.8 ملین اراکین کے ساتھ 45 ممالک میں پھیلے اس ادارے سے اصلاحی اور نوتشکیلی یہودیت کی بہت سی شاخیں اور ادارے وابستہ ہیں۔ 1926 سے یہ ادارہ دنیا کے مختلف گوشوں میں اصلاحی یہودیت کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔

رجعت پسند یہودیت

          رجعت پسند یا "مسورتی" یعنی روایت پرست یہودی، اصلاح شدہ اور راسخ العقیدہ یہودیوں کے مابین ہیں۔ بعض افکار میں انہوں نے روایت پسندی کو اپنایا ہے اور بعض افکار اصلاحی یہودیت سے مستعار ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یہودیت کی پیروی کرتے ہوئے جدید دنیا سے رشتہ استوار رکھا جائے۔ امریکا میں تقریباً 18 فیصد یہودی رجعت پسند ہیں۔ یہ بھی وحی میں ارتقا کے قائل ہیں تاہم ان کے ہاں کسی معاملے میں فوری رد عمل کی بجائے تدریجاً تبدیلی کی طرف جایا جاتا ہے۔ ہلاخا میں تبدیلی یا نئے معنی اخذ کرنے کا حق ہر کسی کو حاصل نہیں۔ صرف محتاط مطالعے کے بعد باہمی صلاح مشورے سے نئی تبدیلی تجویز کی جاتی ہے۔ اسی لیے رجعت پسند یہودیت کا بانی زیخاریس فرینکل (1801-1875) کو مانا جاتا ہے جن کا خیال تھا کہ عقل کی بنیاد پر مذہبی اصلاح کرنے کے لیے علمیت لازمی جزو ہے۔ وہ خود پہلے اصلاحی یہودیت کے حامی تھے۔ بعد ازاں 1845 میں انہوں نے اس فرقے سے اس لیے کنارہ کشی اختیار کر لی کہ اصلاحی یہودیوں کے برعکس وہ یہ سمجھتے تھے کہ عبادات میں عبرانی زبان کو فوقیت دی جانی چاہیے۔[33] بعد میں سلیمان شختر (1847-1915) جیسے مفکرین نے مذہب میں سائنسی مطالعے خصوصاً تاریخی طریقہ تحقیق کو فروغ دے کر رجعت پسندیت کو مزید مستحکم کیا اوریونائیٹڈ سیناگاگ آف امریکہ جیسے ادارے کی بنیاد رکھی۔ شختر کا خیال تھا کہ رجعت پسند یہودیت میں روایتی اور غیر روایتی یہودی عناصر کو یکجا کرنا چاہیے۔ ان افکار نے رجعت پسند یہودیوں کو بنیادیں فراہم کیں اور بیسویں صدی کے وسط میں یہ باقاعدہ فرقے کی شکل اختیار کر گیا۔ گذشتہ کچھ دہائیوں سے اسرائیل میں بھی رجعت پسند یہودیت کو کافی فروغ ملا ہے لیکن وہاں یہ مسورتی یہودیت کے نام سے مشہور ہے۔

 خدا کا تصور ان کے ہاں راسخ العقیدہ یہودیوں ہی کی طرح ہے جو قادر مطلق، خالق کل اور ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ یہ مانتے ہیں کہ توریت خدا نے نازل کی لیکن اس کو مکمل اور حتمی کلام تسلیم نہیں کرتے البتہ یہ سمجھتے ہیں کہ کاتبین توریت نے اسے خدا کی مرضی کے مطابق تصنیف کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عبرانی بائیبل کی دیگر کتب کی نسبت توریت کی تکمیل میں الہامی عناصر زیادہ کارفرما نظر آتے ہیں۔ وحی ان کے نزدیک ہر زمانے میں جاری و ساری رہتی ہے اس لیے یہودیوں کی ہر نسل خدا کا نیا کلام دریافت کرتی رہے گی۔ تلمود ان کے خیال میں الہامی عناصر اور انسانی کاوش دونوں کا نتیجہ ہے۔ کتب مقدسہ پر مجموعی طور پر غیر یہودی تہذیبوں اور روایات کے اثر کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں تاریخی کتب کے طور پر مانتے ہیں۔ حیات بعد الموت کے عقیدے میں یہ اصلاح شدہ یہودیوں کے حامی ہیں۔

اصلاحی یہودیوں کے برعکس ان کے ہاں اخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ رسمی عبادات کی بھی پابندی کی جاتی ہے۔ وقت اور ضرورت کے تحت یہ ہلاخا میں بھی تبدیلی کے قائل ہیں۔[34]اس کے لیے انہوں نے باقاعدہ ایک ادارہ بنایا ہے جسے کمیٹی برائے یہودی اصول و قوانین کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہلاخا الہامی نہیں بلکہ ربیوں کا تخلیق کردہ مذہبی ادب ہے اس لیے زمانے کے مطابق اس میں تبدیلیاں ہوتی رہیں گی، مثلاً سبت کے دن یہودیوں کو منع کیا گیا ہے کہ وہ کوئی کام سر انجام نہیں دے سکتے۔ اگر کسی کا گھر سیناگاگ سے دور ہے تو کیا اس کا گاڑی چلا کر آنا کام میں شمار ہو گا یا نہیں؟ راسخ العقیدہ یہودی گاڑی چلانے کو کام تصور کرتے ہیں لیکن رجعت پسند یہودی اسے کام شمار نہیں کرتے۔ لہذا وہ گاڑی چلا کر سیناگاگ آنا جائز سمجھتے ہیں۔[35] دیکھنے کو یہ عام سا معاملہ لگتا ہے لیکن اس کا رجعت پسند یہودیت کے فروغ سے گہرا تعلق ہے۔ 1940 اور 1950 کے درمیان شہروں کے قرب و جوار میں بسنے والے لوگ رجعت پسند یہودیوں کی سیناگاگ سے متاثر ہو کر عبادت کے لیے وہاں آنے لگے تھے۔ یہ وہ یہودی تھے جو راسخ العقیدہ یہودیت کی سختی کے قائل بھی نہیں تھے اور اصلاح شدہ یہودیت کی سی جدت اپنانے کے لیے بھی راضی نہیں تھے۔ یہ شہروں سے دور بستے تھے اس وجہ سے سبت کی عبادات میں شمولیت ان کے لیے دشوار تھی۔ اس دشواری کی وجہ سے سبت کو گاڑی چلانا جائز کر لیا گیا۔

راسخ العقیدہ یہودیوں کے برعکس اور اصلاح شدہ یہودیوں کی طرح یہ نئی اسرائیلی ریاست کے قیام کو درست سمجھتے ہیں اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں رہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ چونکہ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل کی ابتدا اور انتہا یہودی ہی ہیں اس لیے انہیں بھی نسلی تعصب کا شکار سمجھا جاتا ہے۔ شختر نے کلال یسرائیل یعنی "پوری دنیا کی یہودی برادری" کا ایک تصور پیش کیا تھا جس کے مطابق تمام یہودیوں کو ایک قوم ماننا اور ہر یہودی کو اہمیت دینا ضروری ہے۔ اس لحاظ سے ان کے ہاں قومیت اور مذہب کو الگ الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ پیدائشی یہودی ان کے ہاں وہ ہوتا ہے جس کی ماں یہودی ہو۔ نو یہودی کے لیے ختنہ اور مک وے کو ضروری سمجھتے ہیں۔

 اصلاح شدہ یہودیوں ہی کی طرح یہ مرد اور عورت کی برابری کے قائل ہیں اور بعض عبادات اور تہوار، جن میں عورتوں کو شامل نہیں کیا جاتا تھا، ان میں بھی عورت کی شمولیت کو جائز سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ چھٹے باب میں بیان کیا جا چکا ہے کہ  شادی بیاہ کے موقع پر رجعت پسند یہودیوں کے ہاں لڑکی بھی توریت کی تلاوت کرتی ہے اور لڑکے کو انگوٹھی بھی پہناتی ہے۔ عورتوں کو ربی، قائدین اور منتظمین وغیرہ بننے کی بھی اجازت ہے۔ اصلاح شدہ یہودیوں کی طرح ان میں بھی بین المذاہب شادیوں کا رواج بھی عام ہے۔ البتہ ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جن کے ذریعے بین المذاہب شادیوں کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ سیناگاگ میں مرد و عورت دونوں اکٹھے عبادات میں شریک ہو سکتے ہیں۔ رجعت پسند یہودیت کے مشہور ادارے درج ذیل ہیں:

  1. Assembly of Masorti Synagogues

اس ادارے کا مقصد برطانیہ کے رجعت پسند یہودیوں کی سیناگاگ کی نظامت ہے۔

  1. Federation of Jewish Men's Clubs

یہ ادارہ مردوں کے پروگرام منعقد کرواتا ہے۔ اس کے تحت 200 سے زائد کلب ہیں۔ مستقل اراکین کی تعداد 20،000 سے زائد ہے۔

  1. The Jewish Theological Seminary

1886 سے قائم شدہ اس ادارے کا مقصد تحقیق و تدوین اور رجعت پسند یہودیت کا فروغ ہے۔ اس کے تحت مختلف تعلیمی ادارے چل رہے ہیں۔

  1. Masorti Movement

یہ ادارہ اسرائیل میں رجعت پسند یہودیت کے مفادات کا خیال رکھتا ہے۔

  1. Mercaz USA

یہ ادارہ رجعت پسند یہودیت کے صہیونی مقاصد کا نگران ہے۔

  1. Mercaz Canada

یہ ادارہ کینیڈا کے رجعت پسند یہودیوں کے صہیونیت سے متعلق معاملات کا نگران ہے۔

  1. National Ramah Commission

یہ ادارہ رجعت پسند یہودی نوجوانوں اور بچوں کے امریکا اور دیگر ممالک میں کیمپ منعقد کرتا ہے۔

  1. Cantors Assembly

یہ رجعت پسند یہودیوں کا پیشہ وارانہ طائفہ ہے۔

  1. The Jewish Museum

یہ رجعت پسند یہودیوں کا عجائب خانہ ہے جہاں ماہر فن یہودیوں کے فن پارے موجود ہیں۔

  1. Masorti Olami

ایک بڑا ادارہ جس کے تحت متعدد ذیلی ادارے کام کر رہے ہیں۔ اس ادارے کا مقصد رجعت پسند یہودیت اور عالمی یہودی برادری کے اتحاد کو فروغ دینا ہے۔

  1. North American Association of Synagogue Executives

یہ ادارہ رجعت پسند یہودیوں کی سیناگاگ کے منتظمین کو مدد فراہم کرتا ہے۔

  1. United Synagogue of Conservative Judaism

رجعت پسند یہودیت کا سب سے بڑا ادارہ جس کی بنیاد سلیمان شختر نے رکھی تھی۔

  1. Women's League for Conservative Judaism

1913 سے قائم شدہ اس ادارے کے تحت رجعت پسند یہودی خواتین کی 600 سے زائد تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔

  1. Schechter Rabbinical Seminary

اس ادارے کا کام پیشہ وارانہ رجعت پسند ربیوں کی تربیت ہے۔

  1. Jewish Youth Directors Association

اس ادارے کا مقصد شمالی امریکہ میں رجعت پسند نوجوانوں کی پیشہ وارانہ تربیت ہے۔

  1. Seminario Rabinico Latinoamericano

یہ ادارہ ارجنٹینا میں رجعت پسند یہودیت کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔

  1. Jewish Educator's Assembly

اس ادارے کا مقصد شمالی امریکہ میں یہودیوں کو پیشہ وارانہ تعلیم فراہم کرنا ہے۔

  1. The Conservative Yeshiva

یہ اسرائیل میں قائم رجعت پسند یہودیوں کا مدرسہ ہے۔

  1. Zacharias Frankel College

جرمنی میں قائم اس ادارے کا مقصد یورپی یہودیوں کی روحانی ضروریات کا خیال رکھنا ہے۔

راسخ العقیدہ یہودیت

          راسخ العقیدہ یہودی، فریسیوں اور ربیوں کے وارث ہیں جو درج شدہ اور زبانی دونوں قوانین کو الہامی سمجھتے ہیں، خدا، حیات بعد الموت، آخرت اور فرشتوں کے روایتی تصور کو اپناتے ہیں اور عقل کی بجائے کتب مقدسہ کو فوقیت دیتے ہیں۔ اصلاح شدہ اور رجعت پسند یہودیت کے ردعمل میں راسخ العقیدہ یہودیت کو رسمی طور پر فرو غ حاصل ہوا۔ ورنہ اس سے پہلے تک یہودیوں میں ایسی کوئی تحریک یا فرقہ موجود نہیں تھا۔ "راسخ العقیدہ" کی اصطلاح ان یہودیوں کے لیے مستعمل ہوئی جنہوں نے روشن خیالی کی مخالفت کی تھی۔ سفاردی یہودی جب تک مسلمانوں کے زیر اثر تھے انہوں نے علمی طور پر بہت ترقی کی۔ ربیائی یہودیت کے متعدد مراکز، سپین اور عراق میں قائم کیے۔ مسلم حکومتوں کے زوال کے ساتھ ہی ربیائی یہودیت میں مرکزیت بھی ختم ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے بہت سے سفاردی یہودیوں نے امریکہ اور اسرائیل ہجرت کی۔ بعد ازاں، تقریباً 1840 کی دہائی میں جرمنی سے نکلنے والے اشکنازی یہودی بھی امریکہ ہی میں بستے چلے گئے۔ امریکہ میں 10 فیصد یہودی خود کو راسخ العقیدہ مانتے ہیں۔ عصر حاضر میں ربیائی یہودیت کی پیروی کرنے والے مختلف یہودی گروہوں اور تحریکوں کو مجموعی طور پر راسخ العقیدہ کے نام سے پکارا جاتا ہے تاہم ان کی کوئی ایسی مرکزی انجمن، تنظیم یا سیناگاگ موجود نہیں ہے جو مجموعی طور پر معاملات پر نظر رکھتی ہو۔ اس لیے روایتی یہودیت کی پیروی میں یہ لوگ مختلف نظریات کے حامل ہیں۔

            نظریات کے اختلاف کی بنیاد ان کی مزید شاخیں جیسے "انتہائی راسخ العقیدہ یہودی " یا "جدید راسخ العقیدہ یہودی " وغیرہ بھی بنتی جا رہی ہیں۔ انتہائی راسخ العقیدہ یہودی جنہیں حریدی یہودی بھی کہا جاتا ہے ربیائی یہودیت کے اصولوں کی سختی سے پیروی کرنے کی وجہ سے بنیاد پرست سمجھے جاتے ہیں۔ میل جول میں محتاط رہتے ہیں اور عموماً دیگر یہودی گروہوں سے زیادہ تعلقات قائم نہیں کرتے۔ حسیدی اور یشیویش ان کی دو ذیلی شاخیں ہیں۔ اول الذکر ایک روحانی گروہ ہے جبکہ ثانی الذکر روحانیت کی مخالفت کرتے ہیں اور عقلیت پسند ہیں۔

جدید راسخ العقیدہ یہودی اس کوشش میں ہیں کہ توریت کے احکامات اور ہلاخا کو جدید معاشرے کے مطابق بیان کیا جا سکے۔ اس کے لیے "تورا اُمداع/توریت و سائنس" کا ایک فلسفہ وجود میں لایا گیا ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ سائنسی علوم اور توریت کے احکامات میں باہم تضاد نہیں ہے۔ لہذا یہ علوم، توریت کی رو سے پڑھے جانے چاہیں۔ 1990 کی دہائی میں ان کی ایک نئی شاخ"متفاہم راسخ العقیدہ" وجود میں آئی جس کی بنیاد ایک امریکی ربی افی ویس (پیدائش 1944) نے رکھی۔ اس نئی شاخ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ہلاخا میں نرمی کی گنجائش اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی دیگر راسخ العقیدہ یہودی بیان کرتے ہیں۔ ویس کے مطابق یہ نئی شاخ ابراہیمؑ اور سارہؒ کے خیمے کی طرح ہے جو "ہر طرف سے کھلا تھا اور نہ صرف ان کو خوش آمدید کہا جاتا تھا جو اندر آتے تھے بلکہ اس خیمے سے باہر نکل کر قرب و جوار سے گزرنے والوں کا خیر مقدم بھی کیا جاتا تھا، انہیں توریت کے پانیوں سے سیراب ہونے کی ترغیب دی جاتی تھی۔"[36] لہذا یہ لوگ عقلیت پسندی کی طرف مائل ہیں، تمام یہودیوں کو قبول کرتے ہیں اور خواتین کے کردار کو اجاگر کرنے والے سمجھے جاتے ہیں۔

          ابتدا میں راسخ العقیدہ دوسرے یہودی گروہوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے تھے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے معتدل مزاج اپنا لیا ہے۔ اب ان کی سیناگاگ میں آنے والوں کے مذہبی تشخص کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ آج کے اسرائیل میں زیادہ تر سیناگاگ راسخ العقیدہ نظریات کی حامل ہیں لیکن وہاں دیگر فرقے بھی عبادت کے لیے جاتے ہیں۔ یہ توریت کی تمام وصیتوں پر یقین رکھتے ہیں اور جتنا ہو سکے ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں دن میں تین بار نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ زیادہ تر عبادات عبرانی زبان ہی میں ہوتی ہیں البتہ کچھ جدید راسخ العقیدہ سیناگاگ نے انگریزی میں بھی عبادات کو رواج دینا شروع کیا ہے۔

سیناگاگ میں مرد و ز ن کے اختلاط کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ نہ ہی راسخ العقیدہ سیناگاگ میں عورتوں کو مردوں کی نمازیں یا توریت پڑھانے اور مذہبی گیت گانے کی اجازت ہوتی ہے۔ عبادات کے دوران سر ڈھانپنے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ عورتیں خصوصی طور پر اپنے بالوں کو بھی ڈھکتی ہیں۔ مرد عام طور پر عبادات کے دوران تالیت اور تفیلین کا استعمال کرتے ہیں۔[37] تفیلین چمڑے سے بنے چھوٹے چھوٹے صندوق ہوتے ہیں جن میں چمڑے ہی کی ڈوری ہوتی ہے۔ ایک صندوق کو آنکھوں کے درمیان سر پر باندھا جاتا ہے اور دوسرے کو ہاتھ کے اردگرد لپیٹ لیا جاتا ہے۔ راسخ العقیدہ یہودی اس کا حکم توریت سے لیتے ہیں جس میں کہا گیا ہے" یہ تمہارے ہاتھ پر بندھے دھا گے کی طرح ہے اور یہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ایک نشان کی طرح ہے۔ یہ اُسے یاد کر نے میں مدد کر تا ہے کہ خداوند اپنی عظیم قدرت سے ہم لوگوں کو مصر سے باہر لا یا۔"[38] اصلاح شدہ اور رجعت پسند یہودیوں میں عورتیں بھی تفیلین کا استعمال کرتی ہیں جبکہ راسخ العقیدہ یہودیوں میں صرف مرد ہی اسے پہننے کے مجاز سمجھے جاتے ہیں۔

 مجموعی طور پر ان کے ہاں کوشر یعنی حلال کھانے، سبت اور مک وے یعنی طہارت کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ بنی اسرائیل کو خدا کی  منتخب قوم  سمجھتے ہیں جس کا کام دیگر قوموں کو ہدایت کی طرف لانا ہے۔ بیشتر اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ اسرائیل کا قیام مذہبی اعتبار سے درست نہیں۔ خدا کی جب مرضی ہو گی وہ مسیح موعود کے ذریعے دنیا پر امن نازل کرے گا اور بنی اسرائیل کو ارض موعود سے نوازے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں ایسے مذہبی لوگ بھی موجود تھے جو اسرائیل بننے کے حق میں تھے۔ انہیں اب "مذہبی صہیونی" کہا جانے لگا ہے۔ یہ لوگ اسرائیلی سرزمین، اسرائیلی قوم اور اسرائیلی توریت کا نعرہ بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسرائیل میں مذہبی لحاظ سے سب سے طاقتور ادارے یعنی "ربی اعظم اسرائیل" کا عہدہ راسخ العقیدہ یہودیوں ہی کے پاس ہے جس کا کام نو یہودیوں کی تصدیق اور دیگر مذہبی فیصلے کرنا ہے۔ ان کے درج ذیل دیگر مشہور ادارے ہیں:

  1. Rabbinical Council of America

امریکی راسخ العقیدہ ربیوں پر مشتمل یہ سب سے بڑا ادارہ ے جو1923 میں قائم کیا گیا۔

  1. The Union of Orthodox Jewish Congregations

1898 سے قائم اس ادارے کا مقصد مختلف سینگاگ کی تنظیم، نوجوان یہودیوں کی تربیت، کوشر غذا کے سرٹیفکیٹ اور مختلف معاشرتی و تربیتی پروگرام منعقد کروانا ہے۔

  1. Yeshivat Chovevei Torah

اس ادارے کا مقصد جدید راسخ العقیدہ یہودیوں کی پیشہ وارانہ تربیت ہے۔

  1. Yeshiva University

ایک بڑا تعلیمی ادارہ جہاں تورا اُمداع کے فلسفہ کے پیش نظر نصابِ تعلیم کو رواج دیا گیا ہے۔

نو اشتراکی یہودیت

          نواشتراکی یہودیت کے قیام کا سہرا مشہور ربی مردخائی کپلن (1881-1983) کے سر باندھا جاتا ہے جس کے مطابق یہودیت کو مذہب کی بجائے بطور تہذیب دیکھا جانا چاہیے۔ لہذا نواشتراکی یہودی تاریخ، زبان، ثقافت، معاشرتی طرزِ عمل اور اسرائیلی ریاست کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ کپلن نے 1934 میں یہودیت بطور تہذیب لکھ کر اس تحریک کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں اور اگلے برس نو اشتراکی میگزین شروع کیا جو اس فرقے کے فروغ کا سبب بنا۔[39] اس فرقے کے حامی ہم جنس پرستوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور مرد و زن کی برابری کے قائل ہیں۔ کپلن کی بیٹی جوڈیتھ کپلن(1909-1996) وہ پہلی یہودی خاتون تھیں جن کی   بات متسواہ  ادا کی گئی۔ اس فرقے کے عقائد درج ذیل ہیں:

  1. یہودیت انسانی فطری کاوش کا ارتقائی نتیجہ ہے۔ الہامی شفاعت کا کوئی وجود نہیں ہے۔
  2. یہودیت ایک ایسی مذہبی تہذیب ہے جو ارتقا کے عمل سے گزری ہے۔
  3. خدا کے متعلق روایتی نظریات رد کر دیے جائیں۔ خدا درحقیقت تمام قدرتی طاقتوں یا عوامل کا مجموعہ ہے جو انسان کی ذاتی تکمیل اور اخلاقی درستی متعین کرتا ہے۔
  4. توریت خدا کا کلام نہیں؛ یہ محض یہودی قوم کے معاشرتی اور تاریخی ارتقا کا نتیجہ ہے۔
  5. یہ تصور کہ خدا نے یہودی قوم کو کسی خاص مقصد کے لیے منتخب کیا ہے، اخلاقی طور پر دفاع کے قابل نہیں کیونکہ جو بھی یہ عقیدہ رکھتا ہے وہ ایک قوم کی افضلیت اور دیگر اقوام کی تردید کرتا ہے۔
  6. صہیونیت اور "علیا" (اسرائیل ہجرت کرنا) اچھا اقدام ہیں۔
  7. ربیوں کی طرح عام لوگوں کو بھی مذہبی مسائل میں فیصلہ کا اختیار ہے۔

انسانیت پسند یہودیت

          یہ فرقہ ان یہودیوں پر مبنی ہے جو خدا کا ادراک نہیں رکھتے اور وحی کے الہامی ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ اس لیے جب ان سے خدا کے متعلق پوچھا جاتا ہے تو زیادہ تر یہ خاموشی اختیار کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ خدا کا وجود ہے یا نہیں۔ یہ انسانیت کے جدید فلسفے پر یقین رکھنے والے ہیں اور یہودی رسوم رواج پر عمل، خدا پر یقین کیے بغیر کرتے ہیں۔ اس فرقے کی ابتدا کو مشہور اصلاحی ربی شیرون تھیوڈر وائن(1928-2007) سے منسوب کیا جاتا ہے۔

سیاہ یہودیت

          سیا ہ یہودیت کی اصطلاح افریقی یہودیوں کے لیے مستعمل ہے۔ ان میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو یا تو پیدائشی یہودی تھے یا بعد میں اس مذہب سے منسلک ہوئے۔ یہ دیگر یہودیوں کے ساتھ اپنی شناخت قائم کرنا پسند نہیں کرتے اور زیادہ تر خود کو یہودی کہنے کی بجائے عبرانی اسرائیلی کہتے ہیں۔ ان کی ابتدا کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا دشوار ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیاہ یہودی ربیائی یہودیت کے فروغ سے پہلے ہی دیگر یہودیوں سے جدا ہو گئے تھے یا رومیوں کے دور میں مظالم سے تنگ آکر انہوں نے افریقہ میں پناہ لی تھی۔ لمبے عرصے تک دیگر یہودیوں سے دور رہنے کی وجہ سے مذہبی اعتبار سے یہ دیگر یہودیوں سے مختلف سمجھے جاتے ہیں۔

مشقی سوالات

مختصر سوالات

  1. سامری کون ہیں؟
  1. سامری کن کتابوں کو مانتے ہیں؟
  1. سامریوں میں جبلِ جرزیم کی کیا اہمیت ہے؟
  1. کتابِ عزرا سامریوں کے متعلق کیا بتاتی ہے؟
  1. حسیدی کون تھے؟
  1. فریسی کون تھے؟
  1. فلاویس یوسفیس کون تھا؟
  1. فریسیوں کے عقائد کیا تھے؟
  1. صدوقی کون تھے؟
  1. صدوقیوں کے عقائد کیا تھے؟
  1. اسینی کون تھے؟
  1. اسینیوں کے عقائد کیا تھے؟
  1. اسینی کن پیشوں سے منسلک تھے؟
  1. اسینی کھانے کی کیا اہمیت تھی؟
  1. زیلوٹ کون تھے؟
  1. سیکاری کون تھے؟
  1. زیلوٹ کا کیا انجام ہوا؟
  1. تھراپیٹی کون تھے؟
  1. تھراپیٹیوں کے عقائد کیا تھے؟
  1. تھراپیٹی کھانے کی کیا اہمیت تھی؟
  1. قرائٹ کون ہیں؟
  1. قرائٹ کے عقائد کیا ہیں ؟
  1. قرائٹ کا بانی کسے سمجھا جاتا ہے؟
  1. توبیاس بن موسی کون تھا؟
  1. قرائٹ کی توریت کے متعلق کیا رائے ہے؟
  1. عصر حاضر کے یہودی فرقے کیسے وجود میں آئے؟
  1. اصلاح شدہ یہودی کون ہیں؟
  1. اصلاحی یہودیوں کے عقائد کیا ہیں؟
  1. نو اصلاحی یہودی کون ہیں؟
  1. اصلاح شدہ یہودیوں کی توریت کے متعلق کیا رائے ہے؟
  1. اصلاح شدہ یہودیوں کی وحی کے متعلق کیا رائے ہے؟
  1. اصلاح شدہ یہودیوں کی خدا کے متعلق کیا رائے ہے؟
  1. اصلاح شدہ یہودیوں کی حیات بعد الموت کے متعلق کیا رائے ہے؟
  1. رجعت پسند یہودیوں کے عقائد کیا ہیں؟
  1. رجعت پسند یہودی کون ہیں؟
  1. مسورتی یہودی کون ہیں؟
  1. رجعت پسند یہودیت کا بانی کسے مانا جاتا ہے؟
  1. سیلمان شختر نے رجعت پسندیت کو کیسے فروغ دیا؟
  1. رجعت پسند یہودیوں کی وحی کے متعلق کیا رائے ہے؟
  1. رجعت پسند یہودیوں کی خدا کے متعلق کیا رائے ہے؟
  1. رجعت پسند یہودیوں کی توریت کے متعلق کیا رائے ہے؟
  1. رجعت پسند یہودیوں کی ہلاخا کے متعلق کیا رائے ہے؟
  1. کلال یسرائیل کیا ہے؟
  1. راسخ العقیدہ یہودی کون ہیں؟
  1. راسخ العقیدہ یہودیوں کے عقائد کیا ہیں؟
  1. امریکہ میں راسخ العقیدہ یہودی کہاں سے آئے؟
  1. انتہائی راسخ العقیدہ یہودی کون ہیں؟
  1. جدید راسخ العقیدہ یہودی کون ہیں؟
  1. حریدی کون ہیں؟
  1. یشیوش کون ہیں؟
  1. تورا اُمداع کیا ہے؟
  1. متفاہم راسخ العقیدہ کون ہیں؟
  1. تفیلین کسے کہتے ہیں؟
  1. کوشر کسے کہتے ہیں؟
  1. مذہبی صہیونی کون ہیں؟
  1. ربی اعظم اسرائیل کیا ہے؟
  1. نواشتراکی یہودی کون ہیں؟
  1. نواشتراکیوں کے عقائد کیا ہیں؟
  1. مردخائی کپلن کون ہے؟
  1. جوڈیتھ کپلن کون ہے؟
  1. انسانیت پسند یہودی کون ہیں؟
  1. سیاہ یہودی کون ہیں؟

تفصیلی سوالات

  1. سامریوں اور حسیدیوں پر نوٹ لکھیں۔
  1. فریسیوں اور صدوقیوں کا تقابل کریں۔
  1. صدوقیوں پر نوٹ لکھیں۔
  1. فریسیوں پر نوٹ لکھیں۔
  1. اسینیوں پر نوٹ لکھیں۔
  1. زیلوٹ پر نوٹ لکھیں۔
  1. تھراپیٹیوں پر نوٹ لکھیں۔
  1. اسینیوں اور تھراپیٹیوں کا تقابل کریں۔
  1. قرائٹ پر نوٹ لکھیں۔
  1. اصلاحی یہودیوں پر نوٹ لکھیں۔
  1. رجعت پسند یہودیوں پر نوٹ لکھیں۔
  1. راسخ العقیدہ یہودیوں پر نوٹ لکھیں۔
  1. اصلاحی اور رجعت پسند یہودیوں کا تقابل کریں۔
  1. اصلاحی اور راسخ العقیدہ یہودیوں کا تقابل کریں۔
  1. اصلاحی اور نو اشترکی یہودیوں کا تقابل کریں۔
  1. رجعت پسند اور راسخ العقیدہ یہودیوں کا تقابل کریں۔
  1. رجعت پسند اور نو اشتراکی یہودیوں کا تقابل کریں۔
  1. راسخ العقیدہ اور نو اشتراکی یہودیوں کا تقابل کریں۔


[1] اول سلاطین 12: 28-31

[2] Frederick J. Murphy, Early Judaism from the Exile to the Time of Jesus (Peabody: Hendrickson Publishers, Inc, 2002), 285.

[3] Eliezer Segal, Judaism: The Ebook (JBE Online Books, 2009), 15.

[5] دوم سلاطین 17: 32

[6] عزرا 4

[7] Sandgren, Vines Intertwined: A History of Jews and Christians from the Babylonian Exile to the Advent of Islam, 181.

[8] اول مکابیین 2: 42

[9] Martin Hengel, Judaism and Hellenism: Studies in their Encounter in Palestine during the Early Hellenistic Period, trans. John Bowden (Philadelphia: Fortress Press, 1981), 178.

[10] Mansoor, Jewish History and Thought: An Introduction, 87.

[11] Flavius Josephus, The Jewish War of Flavius Josephus : With His Autobiography, ed. Isaac Taylor (London: Houlston and Stoneman, 1847), 205.

[12] Cohn-Sherbok and Cohn-Sherbok, A Short History of Judaism, 37.

[13] Étienne Nodet, "Asidaioi and Essenes," in Flores Florentino: Dead Sea Scrolls and Other Early Jewish Studies in Honour of Florentino García Martínez, ed. Anthony Hilhorst, Émile Puech, and Eibert Tigchelaar (Boston: Brill, 2007), 82.

[14] Mansoor, Jewish History and Thought: An Introduction, 90.

[15] Grabbe, An Introduction to Second Temple Judaism: History and Religion of the Jews in the Time of Nehemiah, the Maccabees, Hillel and Jesus 59.

[16] Lupovitch, Jews and Judaism in World History, 37.

[17] Mansoor, Jewish History and Thought: An Introduction, 92.

[18] Murphy, Early Judaism from the Exile to the Time of Jesus, 173.

[19] Segal, Judaism: The Ebook, 24.

[20] Mansoor, Jewish History and Thought: An Introduction, 91.

[21] Lupovitch, Jews and Judaism in World History, 40.

[22] Dennis E. Smith, From Symposium to Eucharist: The Banquet in the Early Christian World (Minneapolis: Fortress Press, 2003), 159.

[23] Emil Schurer, The History of the Jewish People in the Age of Jesus Christ (175 B.C.-A.D. 135), 2nd ed. (Edinburgh: T. & T. Clark Ltd., 1979), 2:591.

[24] Ibid., 592.

[25] Moshe Gil, "The Origins of the Karaites," in Karaite Judaism: A Guide to its History and Literary Sources ed. Meira Poluack (Boston: Brill, 2003), 114.

[26] Efron, Weitzman, and Lehmann, The Jews: A History, 159.

[27] خروج 23: 19

[28] Azriela Jaffe Two Jews Can Still Be a Mixed Marriage: Reconciling Differences Over Judaism in Your Marriage (New Jersey: Career Press, 2000), 21.

[29] Dan Cohn-Sherbok, Modern Judaism (London: Macmillan, 1996), 90.

[30] Lance J. Sussman, "Reform Judaism," in Encyclopedia of American Jewish History, ed. Stephen H. Norwood and Eunice G. Pollack (Santa Barbara: ABC-CLIO, Inc., 2008), 74.

[31] Cohn-Sherbok, Modern Judaism, 89.

[32] Ibid., 92.

[33] Ibid., 102.

[34] Azriela Jaffe Two Jews Can Still Be a Mixed Marriage: Reconciling Differences Over Judaism in Your Marriage, 19.

[35] Segal, Judaism: The Ebook, 121.

[37] Azriela Jaffe Two Jews Can Still Be a Mixed Marriage: Reconciling Differences Over Judaism in Your Marriage, 18.

[38] خروج 13: 16

[39] Cohn-Sherbok, Modern Judaism, 131.

Loading...
Table of Contents of Book
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Loading...
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...