1676046516391_54335580
Open/Free Access
223
یہودی روحانیت کے ابتدائی مظاہر
باب ہشتم کے اہم نکات
|
- بائیبل کا دور جس میں روحانی نظریات اور تحریکیں تو دکھائی نہیں دیتیں لیکن اس دور کے مذہبی تجربات نے بعد میں آنے والے صوفیا کو روحانیت سے روشناس کروایا۔
- ہیکل کی دوسری تباہی کا دور جس میں ایسے روحانی نظریات وجود پانے لگے تھے جن کی بنیاد مذہب پر رکھنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
- قبالہ کا دور جس میں منظم انداز میں روحانی تعلیمات کو بحیثیتِ مجموعی بیان کیا جا رہا تھا۔
- حسیدی دور جس میں روحانیت سے نئے مذہبی محسوسات نے جنم لیا۔[1]
یہودی روحانیت میں زیادہ تر مذہبی تجربات کی کوئی عقلی توجیہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان تجربات تک عقل کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ یہ تجربات عقلیت کی مخالفت کرتے ہیں، مثلاً کچھ ایسے صوفیا بھی گزرے ہیں جنہوں نے باقاعدہ عقلیت پسندی کو رواج دیا ہے۔ ان میں ابن میمون خاصے مشہور ہیں جنہیں ان کے فلسفیانہ طرز بیان کی وجہ سے "عقلی صوفی" کہا جاتا ہے۔ ابتدائی ربی ادب جسے اگادہ بھی کہا جاتا ہے، میں ان مذہبی تجربات کو جس طرح بیان کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان تجربات میں سریت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ ان کو بیان سرگوشیوں میں کیا جاتا ہے تاکہ بات صرف مخصوص لوگوں تک پہنچے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ یہ خدا کا ذکر ہے تو اس ذکر کو صرف ان لوگوں تک پہنچنا چاہیے جو حلیم اور خاموش الطبع ہوں، جو جلدی غصے میں نہ آتے ہوں، معتدل مزاج ہوں اور بدلہ لینے کی چاہت دبائے رکھنے پر قادر ہوں۔[2] اس لیے تمام یہودی روحانیت کو نہیں اپناتے۔ کچھ کو علمی طور پراس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ وہ روحانی علوم کو سمجھ سکیں اور کچھ ایسے ہیں جو ان علوم کی مخالفت کی وجہ سے ان سے دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔
ابراہیمؑ کے روحانی تجربات
یہودی صوفیا روحانیت کو عبرانی بائیبل ہی کے ذریعے بیان کرنا پسند کرتے ہیں جس میں متعدد ایسے واقعات درج ہیں جو خدا اور انسان کے براہ راست تعلق پر دلالت کرتے ہیں۔ یہودیت کی ابتدا کی طرح یہودی روحانیت کے رسمی ابتدا کو بھی ابراہیمؑ سے جوڑا جاتا ہے جن کو دنیا میں خدا کا دیدار نصیب ہوتا رہا۔ اسحاقؑ کی قربانی کا واقعہ اس ضمن میں خاصا اہم ہے کیونکہ جہاں یہ واقعہ ابراہیمؑ و اسحاقؑ کے لیے آزمائش، صبر اور اعتماد خداوندی کی نوید تھا وہیں روحانی لحاظ سے بھی ان کے لیے برکات کا سبب تھا۔ اس واقعے کے متعلق عبرانی بائیبل میں بیان ہے کہ جب ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو قربان کرنے لگے اور چھری ہاتھ میں پکڑ لی تو اس وقت جنت سے ایک فرشتے نے آواز دے کر انہیں روکا کہ وہ اپنے بیٹے کو قربان نہ کریں۔ آپؑ نے اسحاقؑ کی بجائے اسی جگہ ایک مینڈھے کو ذبح کیا۔ قربانی کے اس واقعے کی وجہ سے اس جگہ کا نام "یہوہ یری" پڑ گیا جس کا مطلب ہے کہ وہ جگہ جہاں خدا دیکھتا ہے۔ کتاب پیدائش اس حوالے سے بتاتی ہے کہ خدا کو اس جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔[3] خدا کا دیدار، اس کی محبت اور برکات کا حصول، یہودی روحانیت کا مقصد اولی ہے لہذا روحانی اعتبار سے نہ صرف یہ واقعہ بلکہ قربانی کا مقام بھی یہودیوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ عبرانی بائیبل کے مطابق اس مقام کو خود خدا نے قربانی کے لیے منتخب کیا تھا۔
حزقی ایل کے روحانی تجربات
ابراہیمؑ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور دیگر انبیا، مثلاً یعقوبؑ، ایوبؑ اور موسیؑ کو بھی دنیا میں خدا کا دیدار ہوتا رہا۔ مختلف مذہبی تجربات جو اپنی نوعیت میں خاص تھے انبیا کے رہنما تھے۔ ان میں حزقی ایلؑ کا واقعہ یہودی صوفیا کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ آپؑ نے ایک دن شمال سے آندھی اور بادل اٹھتے دیکھے جن میں جانداروں کے ہیولے نظر آ رہے تھے جو تعداد میں چار تھے۔ رفتہ رفتہ جب منظر واضح ہوا تو آپ نے دیکھا کہ ان جانداروں کے چار پر اور چار چہرے تھے۔ ان کے پیچھے چار پہیے تھے جن کے حلقوں میں آنکھیں تھیں۔ جانداروں کے اوپر الٹے کٹورے جیسی کوئی چیز تھی جس پر ایک تخت رکھا ہوا تھا۔ اس تخت پر انسان کی مانند کوئی سوار تھا جس کے چاروں طرف روشنی پھوٹ رہی تھی۔ اس سوار کا جلوہ خدا کے جلوے کی طرح تھا اور آواز میں خدا کی آواز جیسی گرج تھی[4] حزقی ایلؑ نے انہیں خدا کے طور پر پہچانا۔ خدا نے انہیں ایک طومار کھانے کو دیا اور بنی اسرائیل کو تنبیہ کا حکم دیا کہ اگر وہ توبہ نہیں کریں گے اور خدا کی بات نہیں مانیں گے تو ہزیمت اٹھائیں گے۔
مرکبہ روحانیت
حزقی ایل کے روحانی تجربے میں جن مخصوص جانداروں اور پہیوں کا ذکر ہے انہیں بیان کرنے کے لیے مرکبہ/مرکوہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب رتھ یا تاج ہے۔ اس وجہ سے یہودی یہ خیال کرتے ہیں کہ حزقی ایلؑ نے جو رتھ دیکھا تھا وہ خدا کا رتھ تھا اور اس کا سوار خدا خود تھا۔ اسی قسم کا ایک واقعہ ابراہیمؑ کی نسبت سے بھی بیان کیا جاتا ہے کہ انہیں بھی اسی قسم کا رتھ اور تاج نظر آیا تھا۔[5] ان واقعات کو بنیاد بنا کر پہلی صدی عیسوی کے یہودیوں میں مرکبہ روحانیت کی تحریک مستحکم ہونے لگی جو زیادہ تر فلسطین، بابل اور مصر میں پھیلی۔ جیسا کے ساتویں باب میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اسینی اور تھراپیٹی یہودی فرقے اس دور میں اس قدر منظم ہو چکے تھے کہ مؤرخین کو ان کا باقاعدہ ذکر کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس دور کے فریسیوں میں بھی روحانی موضوعات پر خفیہ گفتگو ہوتی تھی جس میں زیادہ تر تخلیقِ کائنات اور حزقی ایلؑ کے روحانی تجربہ کے واقعات زیر بحث ہوتے۔[6] اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے پہلی صدی عیسوی کا یہ دور یہودی روحانیت کو نئے معنی عطا کر رہا تھا۔ تلمود بھی اس دور کے متعلق روحانیت سے وابستہ بحثیں تخلیق کرتی رہی جو کبھی اس کے حق میں ہوتی ہیں اور کبھی مخالف۔ بعض مصنفین اس کی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ روحانیت کی مخالفت اس لیے کی جاتی تھی کہ ان امور کو مخفی رکھا جانا مقصود تھا۔[7] اس معاملے میں مشنا بتاتی ہے:
کسی کو ممنوعہ جنسی تعلقات کے موضوعات تین یا تین سے زائد افراد کے سامنے بیان نہیں کرنے چاہیں؛ نہ ہی کسی کو تخلیق کا معاملہ اور دنیا کی ابتدا کے رازوں سے دو یا دو سے زائد افراد کو آگاہ کرنا چاہیے؛ نہ ہی کسی فرد ِواحد کو خدائی رتھ کی نوعیت سے آگاہ کرنا ہے جو کہ خدا کے دنیا کو چلانے سے متعلق روحانی علم ہے، یہاں تک کہ وہ خود دانا ہو اور بیشتر امور خود ہی سمجھ لے۔[8]
اس دور کے یہودی صوفیا کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ مرکبہ کی تلاش اور سواری کر کے جنتوں تک پہنچ سکیں۔ پہلی اور دوسری صدی عیسوی کے ایسے صوفیا کے متعلق بیان کیا جاتا ہے جن کی روحیں عارضی طور پر دنیا چھوڑ کر جنتوں کا سفر کرتیں۔ ایسے لوگوں کو "مرکبہ کے سوار "کہا جاتا تھا۔ یہ سوار جنتوں میں بنے مختلف قصروں یا محلوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کا مخصوص ہدف خدا کا تاج ہوتا جو کہ قصر ِہفتم کی زینت تھا۔ اس تاج تک پہنچنے کے لیے مرکبہ کے سواروں کو مختلف قصروں تک رسائی حاصل کرنی ہوتی جس کے لیے مخصوص روحانی قوتیں درکار ہوتیں۔ ایک قصر سے دوسرے قصر کا سفر پہلے سفر سے پُرخطر اور مشکل ہوتا۔ اس خطرے کو ان قصروں کے محافظ فرشتوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے جو اس تاک میں ہوتے کہ ایسے انسانوں کو ان قصروں میں جانے سے روکے رکھیں جو روحانی طور پر ابھی اس قابل نہیں ہوئے۔ ہر قصر میں داخل ہونے کے لیے تصدیق کا عمل ضروری تھا۔ عموماً تصدیق کا عمل اس قصر کے نگران فرشتے کا نام لینے سے مکمل ہو جاتا۔ تصدیق مکمل ہونے کے بعد وہ فرشتہ، سوار کا اتحادی بن جاتا اور اگلے قصر تک اس کی رسائی کے لیے مدد فراہم کرتا تاکہ وہ خدا کے تاج تک پہنچ سکے۔[9] اس تاج کی چاہت کی نسبت سے یہودیت کے ابتدائی روحانی نظام کو "تاج پر مبنی روحانیت" کہا گیا اور قصروں کی نسبت سے اس موضوع پر لکھی جانے والی کتب کو "ادب القصور" کا نام دیا گیا۔ یہودی صوفیا کو مرکبہ کی صورت میں ایک ایسا راستہ ہاتھ آگیا تھا جو ان کے لیے خدا کی قربت کا سبب تھا۔ یہ لوگ اخلاقی اقدار کی پیروی اور مخصوص عبادات جیسے روزہ اور طہارت وغیرہ کا اہتمام کرتے، خدا کے ناموں کا ورد کرتے یا مذہبی گیتوں کے ذریعے اپنی منزل کے حصول میں مگن رہتے۔[10]
تخلیق اور صفروت
صفر عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب فیض لیا جا سکتا ہے۔ یہودی روحانیت میں صفِروت سے مراد وہ دس نورانی صفات ہیں جن کے ذریعے خدا اپنا ظہور کرتا ہے اور روحانی و مادی دنیا کو تخلیق کرتا ہے۔ مرکبہ ہی کی طرح کا ایک اور گروہ بھی موجود تھا جو تخلیقِ کائنات کے روحانی عوامل کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اس موضوع پر ایک مشہور تصنیف صفر یتزیرا یعنی کتابِ تخلیق ہے جو غالباً دوسری صدی عیسوی میں لکھی گئی۔ اس کی ایک خاصیت اس کا اختصار ہے۔ یہاں تک کہ اس کے جامع ترین نسخوں میں بھی سولہ سو سے زائد الفاظ نہیں ہیں۔ اس کا طرزِ تحریر اور اصطلاحات کا استعمال اس بات کا شاہد ہے کہ اس کتاب کا تعلق مرکبہ سے بھی ہے۔[11] نویں صدی عیسوی میں بھی یہ کتاب خاصی مشہور تھی کیونکہ اس دور کے مشہور یہودی فلسفی، سعدیا گاون کی لکھی اس کتاب کی ایک شرح بھی دریافت ہوئی ہے۔ کتابِ تخلیق کے مطابق خدا نے دنیا کی تخلیق، حکمت کے بتیس پوشیدہ راستوں کے ذریعے کی جن میں سے بائیس عبرانی حروف تہجی ہیں جبکہ دس صفروت ہیں۔ ان درج ذیل حروف کی تین قسمیں ہیں جن کی مختلف ترتیبوں کے ذریعے دنیا کی ہر چیز کی تخلیق کی گئی:
- ا، م اور ش کو امہات حروف سمجھا جاتا ہے جن سے بالترتیب تین عناصر اصلیہ ہوا، پانی اور آگ کی تخلیق کی گئی۔ انسانی جسم میں سر کو آگ ، سینے کو ہوا اور پیٹ کو پانی سے بنایا گیا۔
- اس کے علاوہ عبرانی میں سات دوہرے حروف ہیں جن میں ب، ج، د، ک، ف، ر اور ط شامل ہیں۔ یہ دوہرے حروف ایسی چیزوں کو ظاہر کرتے ہیں جو ایک دوسرے کے عکس ہیں جیسے دو آنکھیں یا دوکان وغیرہ۔
- تیسری قسم میں بارہ حروف ہیں جن میں ہ، و، ز، خ، ت، ی، ل، ن، س(اردو میں اس حرف کا متبادل موجود نہیں۔ قریب ترین حرف" س" ہے)، ع، ص اور ق شامل ہیں۔ یہ حروف انسانی حواس و احساسات کا اظہار ہیں جن میں دیکھنا، سننا، سونگھنا، بولنا، کھانے کی طلب، تولید کی خواہش، حرکت، غصہ، خوشی، سوچ، نیند اور کام شامل ہیں۔ یہ بارہ حروف راس چکر یا منطقۃ البروج کے بارہ آثار، بارہ مہینوں اور انسانی ڈھانچے کے بارہ حصوں کا بھی اظہار ہیں۔
یہودیوں کا ماننا ہے کہ خدا نے ہر حرف کے تین طرح کے معنی ظاہر کیے جن میں سے ایک انسانوں کی دنیا، دوسرا ستاروں اور سیاروں کی دنیا اور تیسرا وقت کے متعلق ہے جس کا اظہار سال کے گزرنے کے ذریعے ہوتا ہے۔
دس صفروت میں سب سے پہلا صفر خدا کی روح، دوسرا ہوا، تیسرا پانی اور چوتھا آگ کو ظاہر کرتا ہے۔ بقیہ بچ جانے والے چھ صفروت چھ سمتوں کو ظاہر کرتے ہیں جن میں شمال، جنوب، مشرق، مغرب، بلندی اور گہرائی شامل ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق یہ دس صفروت وہ قالب ہیں جن میں تمام مخلوقات ابتدا میں ڈھالی گئیں۔ اس لیے یہ مادی جسم نہیں بلکہ ہئیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ جو ظاہری دنیا ہمارے سامنے ہے یہ صفروت کے اظہار کا نتیجہ ہے جبکہ مادے کی تشکیل بائیس حروف کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس نظریہ کے تحت کائنات کی ہر شے پر خدا چھایا ہوا ہے۔ وہ مادے اور ہئیت کی اصل یا حقیقی وجہ ہے۔ کچھ بھی اس سے باہر نہیں ہے۔[12]یہودیت میں روایتی طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ کائنات کی تخلیق لفظ "خدا" کے ذریعے ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے روحانیت کی یہ تحریک اسی تصور کی وضاحت ہے۔ چونکہ یہودیت میں عبرانی مقدس زبان ہے اس لیے تخلیق کی زبان بھی اسے ہی مانا گیا ہے۔ ان تخلیقی عناصر اور اعداد ہی کے ذریعے نئے روحانی معنی اور راستوں کی تلاش متاخرین صوفیا کا بھی مقصد بن گیا۔ عصر حاضر کی مروجہ روحانی تحریکوں میں بھی انہیں کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ قبالہ جیسی مشہور روحانی تحریک میں تو صفروت کے ذریعے ہی خدا کی صفات کی تجسیم کی توقع کی جاتی ہے۔
حسیدی اشکناز
حسیدی اشنکاز یعنی "جرمنی کے نیک لوگ" وہ یہودی تھے جو بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں روحانیت کے فروغ کا سبب بنے۔ یہ لوگ ادب القصور، کتاب تخلیق اور سعدیا گون جیسے فلسفیوں اور نو افلاطونی مصنفین کی کتب کا مطالعہ کر کے یورپ میں یہودی روحانیت کے علمبردار بنے۔ تیرہویں صدی کے دوسرے حصے میں اس تحریک نے اس قدر قبولیت حاصل کی کہ سپینی قبالہ کو بھی اس کا گہرا اثر قبول کرنا پڑا۔ خود ان کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مرکبہ روحانیت سے متاثر تھے۔[13] یہ ضرور ہے کہ ان میں تصورات کی وسعت مرکبہ سے زیادہ تھی، مثلاً مرکبہ میں جو تاجِ خدا کا تصور فروغ پایا یہ اس سے بھی آگے نکلتے ہوئے خدا کے ساتھ ایک ہونے کی کوشش کرتے۔ اس طرح یہ نہ صرف مرکبہ کے تصورات کو اپنا لیتے بلکہ ان تصورات میں نئی جدت بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ اس تحریک کے تین بڑوں کا تعلق اٹلی کے مشہور کلونیمس خاندان سے تھا جو بعد ازاں جرمنی میں آباد ہوا۔ ان بڑوں کا مختصر تعارف ذیل میں درج ہے:
- سموئیل بن کلونیمس(1120-1175) جنہیں سموئیل حسیدی بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بطور مفسرِ تلمود، شاعر اور فلسفی شہرت پائی۔ انہیں پہلا حسیدی اشکناز سمجھا جاتا ہے۔
- یہودا بن سموئیل(1150-1217) جو سموئیل حسیدی کے بیٹے تھے۔ انہیں یہودا حسیدی یا یہودا بن کلونیمس بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے صفر حسیدم یعنی نیکو کاروں کی کتاب لکھی جو حسیدی اشکناز کی بنیادی کتاب ہے۔
- علیزر بن یہودا (1176-1238)جنہوں نے کتاب سر الاسرار مرتب کی۔ یہ یہودا بن سموئیل کے بیٹے یا رشتہ دار تھے۔ انہیں حسیدی اشکناز کا آخری اہم رکن تصور کیا جاتا ہے۔
حسیدی اشکناز خدا کی مرضی کے سامنے سر جھکانے والے تھے جس کا بنیادی اظہار ان کی عبادات سے ہوتا جن میں علم الاعداد اور سحر کا استعمال بھی کیا جاتا رہا۔ ان کا خیال تھا کہ عبادات خدا کی رفاقت کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یہ انسان اور خدا کے درمیان فاصلے ختم کر دیتی ہیں۔ توریت میں یعقوبؑ کے حوالے سے ایک واقعہ درج ہے کہ جب وہ حاران جا رہے تھے تو راستے میں رات ہو گئی۔ وہ رات گزارنے کے لیے کسی نامعلوم جگہ پر چلے گئے اور ایک پتھر پر سر رکھ کر سو گئے۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک سیڑھی زمین سے آسمان کی طرف لگی ہوئی ہے جس کے ذریعے فرشتے اوپر نیچے آ جا رہے ہیں۔ سیڑھی کے ایک سرے پر خدا موجود ہے۔[14] اس واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے حسیدی اشکناز یہ سمجھتے ہیں کہ عبادت بھی یعقوبؑ کے خواب کی سیڑھی ہے جو اپنے کرنے والے کو خدا کے قریب لے جاتی ہیں۔
ان کے نزدیک خدا کو عقل کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس وجہ سے توریت یا دیگر یہودی مقدس کتب میں خدا کا جو جسمانی تصور بیان کیا گیا ہے وہ "کوود" یعنی نور الہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ توریت میں خدا کے چہرے، ہاتھ یا انگلیوں کا جو ذکر ہے اس سے خدا کا نورانی پیکر مراد ہے۔ خدا کا جو ظہور نبیوں یا ولیوں کے سامنے مختلف انداز میں ہوا وہ بھی اس کا نور تھا نہ کہ جسم۔ اس لیے خدا کے نور کا دیدار اور قربت کسی یہودی صوفی کا مقصدِ اول ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ مختلف عبادات کرتے، عاجزی اختیار کرتے، بے عزتی اور خجالت کو فخر سمجھتے، خود کو تکالیف دیتے اور جذبہ ایثار کو فروغ دینے کی کوشش کرتے۔ ان کے نزدیک شہادت خدا کی رفاقت کا اہم ترین ذریعہ تھا۔[15] جس دور میں یہ زندگی گزار رہے تھے وہاں شہادت کے مواقع بھی بہت تھے۔ اسفاردی یہودیوں کے برعکس اشکنازیوں کا یہ خیال تھا کہ اگر کسی یہودی کا مذہب زبردستی تبدیل کروایا جا رہا ہو تو اسے خودکشی کر لینی چاہیے۔ یہ خودکشی اس کی شہادت ہو گی۔ جیسا کہ تیسرے باب میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یورپ اور بطور خاص جرمنی میں یہودیوں کو سامی مخالفت کا بہت زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ زبردستی ان کے مذہب تبدیل کروانا ایک عام بات تھی۔ لہذا حسیدیوں کے لیے شہادت کے وافر مواقع موجود تھے۔
قبالہ
قبالہ کا مطلب "حاصل شدہ" یا "روایت" ہے۔ بارہویں صدی عیسوی میں رواج پانے والی اس روحانی تحریک کو اس قدر قبولیت حاصل ہوئی کہ قبالہ کا بیان ہی یہودی روحانیت کا بیان سمجھا جانے لگا۔ وسیع تر معنوں میں اگر کہا جائے تو ہیکل کی دوسری تباہی کے بعد معرض وجود میں آنے والی مختلف یہودی روحانی تحریکوں کی نمائندگی بھی قبالہ ہی کے ذریعہ ہوتی رہی ہے۔[16] سریت، باطنیت، تخلیق اور خدا تک بلا واسطہ رسائی کے عناصر پر مبنی اس تحریک کی تعلیمات، ابتدا میں استاد سے شاگرد تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں۔ تیرہویں صدی کے آغاز میں جنوبی فرانس اور شمالی سپین میں حسیدی اشکناز اور اسلامی تصوف سے متاثر ہو کر قبالہ کے مختلف مکاتب فکر بنے جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں قبالہ کی تعلیمات کو فروغ دیا جن پر دیگر مذاہب، مثلاً اسلام اور ہندومت وغیرہ کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ ان مکاتبِ فکر نے باطنی اور تھیوصوفیانہ طرز کی روایات کو فروغ دیا۔ بہت سے قبالیین اس تاریخی ارتقا کی تردید کرتے ہیں۔ وہ قبالہ کی ابتدا کو تخلیق آدم کے ذریعے بیان کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ روحانی تعلیمات وحی الہی کے ذریعے ان تک پہنچیں۔ موسیؑ سے جو زبانی قانون سینہ بہ سینہ منتقل ہوا، قبالہ کی تعلیمات اسی قانون کا ایک حصہ تھیں۔ یہ تعلیمات اپنی نوعیت میں مکمل ہیں جن کو کسی قسم کے ارتقا کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ضرورت کے تحت خدا بار بار انہیں وحی کے ذریعے نازل کرتا رہا ہے۔
بہیر اور قبالہ کی ترویج
صفر ہا بہیر یعنی کتاب تجلی کی اشاعت نے قبالہ کی مختلف تشریحات کو رواج دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ساٹھ پیراگرافوں پر مبنی یہ تصنیف، کتاب پیدائش کی ایک روحانی یا علامتی شرح ہے جو اپنی نوعیت میں استاد اور شاگرد کے مکالمات ہیں۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد عبرانی حروف کی ساخت اور صوتیات کی وضاحت ہے۔ اس کے مصنف یا مصنفین کے بارے میں معلومات مفقود ہیں۔ قبالیین یہ سمجھتے ہیں کہ پہلی صدی عیسوی سے یہ کتاب زبانی، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی یہاں تک بارہویں صدی عیسوی میں اسے کتابی شکل دے دی گئی۔ بہیر نے کتاب تخلیق میں بیان کردہ صفروت کے نئے تصورات پیش کیے۔ اس کے مطابق، صفروت وہ تاج یا الفاظ ہیں جن سے الہی قلمرو کی ساخت تشکیل پاتی ہے۔ بعض محققین کے مطابق مشہور فرانسیسی ربی، اسحاق سگی نہور (1160-1235) جنہیں اسحاق نابینا بھی کہا جاتا ہے، نے بہیر سے متاثر ہو کر یہ خیال پیش کیا کہ صفروت، ربوبیت کی مخفی جہت کا اظہار ہیں۔[17] قبالیین میں "عین سوف" یعنی "لا محدود" کی ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اسے خدا کی بنیادی حالت سمجھا جاتا ہے یعنی خدا کی وہ روحانی حالت جو مخلوقات سے تعلق سے پہلے تھی۔ عین یعنی "لا" تخلیق سے پہلے تھا۔ اس کو بطور "کُل" اپنی قدرت کا اس وقت پتہ چلا جب اس نے حادث یا "محدود" دنیاؤں کو تخلیق کیا۔ اسحاق نابینا نے یہ استدلال کیا کہ عین سوف کے پہلے صفر کا اظہار " فکر الہی " کی صورت میں ہوا جس سے بعد میں بقیہ صفروت تشکیل پائے۔ یہ ایک طرح سے کائنات کی تخلیق کی وضاحت بھی تھی اور یہودی صوفیا کے لیے مقاصد کا تعین بھی۔ بعد میں آنے والے صوفیا نے اس تصور کی ارتقائی شکلیں پیش کیں۔ اس ارتقا نے فکر الہی کے تصور کو "مشیت الہی" سے بدل دیا۔
نبوی قبالہ
نبوی قبالہ کو قبالہ ہی کا ایک ذیلی مکتبہ فکر سمجھا جا سکتا ہے جس کو مشہور ہسپانوی صوفی ابراہیم ابو العفیا (1240-1291)نے رواج دیا۔ اس کے دعوی نبوت، ربیائی ادب سے دوری اور نو افلاطونی فلسفہ کی حمایت کی وجہ سے ربیوں کے حلقوں میں اسے زیادہ پسند نہیں کیا گیا۔ وہ خود ابن میمون کے فلسفہ کا اس قدر شائق تھا کہ اس کی مشہور زمانہ تصنیف دلالۃ الحائرین پر اس نے تین شروحات قلمبند کیں۔ کتابِ تخلیق پر اس کی ایک شرح کو علمی حلقوں میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے قبالہ کے موضوع پر چھبیس کتابیں لکھیں اور مشرق قریب، اٹلی اور سسلی سمیت کئی مقامات کا سفر کیا۔ اس نے یہودی روحانیت اور جادو سے متعلق موضوعات کا عمیق مطالعہ کیا اور "نبوی قبالہ" کے نام سے ایک روحانی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی مقصد انسان کو خدا کا شعور دلانا تھا۔
عبرانی حروف تہجی کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے اس نے ایک نئے طرز کے مراقبہ کو فروغ دیا جس میں اسم خدا پر توجہ کے ذریعے روح کو عالم محسوسات سے آزاد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ سمجھتا تھا جب روح کو آزاد کر دیا جاتا ہے تو وہ اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ روح کچھ رکاوٹوں میں گھری ہوئی ہے جو اس کو فطرتی انسانی حدود یعنی دنیاوی چیزوں تک محدود کرتی ہیں اور الہی عناصر جو اس کے نیچے یا اردگرد موجود ہیں، کی زد میں آنے سے بچاتی ہیں۔ اس وقت انسان اپنے تراشیدہ احساسات اور جذبات تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ اپنے دنیاوی اعمال کی تکمیل تو کر لیتا ہے لیکن خدا کا ادراک نہیں کر پاتا۔ جب تک وہ ان حدود میں ہے اس کی رسائی روحانی موجودات تک نہیں ہو سکتی۔ لہذا کوئی ایسا طریقہ کار تلاش کرنا ہو گا جو اسے فطرتی انسانی حدود سے آگے اس طرح رسائی دے سکے کہ اسے نور خدا کی شدت سے کوئی نقصان بھی نہ پہنچے۔ ایسا صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب انسان خود کو خود سے خالی کر دے۔ اگر وہ خود کو خود سے ہی بھر لے گا تو وہ خدا کے لیے جگہ نہیں بنا پائے گا۔[18] اس کا بتایا ہو مراقبہ جس پر ہندوستانی یوگا کے نمایاں اثرات تھے، اس کے پیروکاروں کے لیے وہ طریقہ کار تھا جس سے ذہن فطرتی اشیا سے منہ موڑ کر اسم الہی میں مستغرق ہونے لگتا ہے۔ اس سے درجہ بہ درجہ اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوتی ہیں اور وہ نور الہی کی شدت سہنے کے قابل ہونے لگتا ہے۔
اس کا خیال تھا اس طرح نبیوں کی سی بصیرت کا حصول ممکن تھا۔ دوسرے لفظوں میں خدا سے محبت کا جو راستہ وہ بیان کرتا ہے وہ انسان کو نبوت کی طرف لے جاتا ہے۔[19]وہ روحانیت میں جادو کی بجائے فلسفیانہ نقطہ نظر اپنانے کا قائل تھا۔ ابن میمون سے بہت متاثر تھا اور سمجھتا تھا کہ جو تشریحات وہ بیان کر رہا ہے وہ ابن میمون کے فلسفے کا تسلسل ہیں۔ اس بنیاد پر وہ کہتا تھا کہ ابن میمون کے فلسفے اور روحانیت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
زوہر و صفروت کی نئی تشریحات
جیسا کہ تیسرے باب میں بیان ہو چکا ہے کہ زوہر عبرانی بائیبل کی ایسی روحانی تشریحات کا مجموعہ ہے جسے یہودی روحانیات یا قبالہ کی بنیاد مانا جاتا ہے۔ زوہر کے مصنف یا مرتب کنندہ کے بارے میں محققین کی رائے میں اختلاف ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا رہا کہ اس کے مصنف دوسری صدی کے ایک یہودی بزرگ شمعون بار یوحائی تھے لیکن عصرِ حاضر کے زیادہ تر محققین یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے مصنف ایک سپینی عالم موسی دے لیون (1240-1305) تھے۔ زوہر توریت کے لفظی معنی کی بجائے روحانی یا علامتی معنی کے ذریعے تفسیر کی کوشش ہے۔ اس موضوع پر لکھی گئی دیگر کتابوں میں اس کی حیثیت ستاروں کے جھرمٹ میں چاند کی مانند ہے۔ جس قدر مقبولیت اس کتاب کو ملی ہے شاید ہی اس موضوع پر لکھی گئی کوئی دوسری کتاب شہرت کی یہ بلندی چھو سکی ہو۔ تلمود کے بعد یہ وہ واحد کتاب ہے جسے یہودی فہرست مسلمہ میں شامل کیا گیا ہے اور ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اسے عبرانی بائیبل اور تلمود کے ہم پلہ سمجھا جاتا تھا۔[20]
کتابِ تخلیق جس نے صفروت کی عددی اہمیت کی طرف توجہ دلائی تھی، کے برعکس زوہر انہیں درجات کے طور پر بیان کرتی ہے۔ یہ درجے تخلیقی طاقت اور الہی مظہر کا اظہار ہیں۔ ربوبیت کی پوشیدہ گہرائیوں سے صفروت کا اظہار شعلے کی مانند ہوتا ہے۔ صفروت اوپر سے نیچے کی طرف پے در پے جاری ہوتے ہیں اور تخلیق کے عمل میں حصہ ڈالتے ہیں۔ ان کو سمجھنا قدرے دشوار ہے کیونکہ ہر ایک صفر کے متعدد معنی اور درجے ہیں جن کی وجہ سے ان کے بیان میں اختلاف ایک عام سی بات ہے، مثلاً یہ کہ صفروت عین سوف کے وہ اسما بھی ہیں جن کے ساتھ اس نے خود کو موسوم کیا، یہ اس کی مخفی طرز زندگی اور انسان کے روبرو اس کے اظہار کے نمائندہ بھی ہیں، یہ دس کے دس مل کر خدا کا عظیم ترین نام یہوہ بھی بناتے ہیں اور انہیں خدا کا چہرہ، اس کی پوشاک اور اس کا درخت بھی کہا جاتا ہے۔ اپنے آپ میں یہ "اتحاد کی دنیا" بھی تخلیق کرتے ہیں جو ان چار ان دیکھی دنیاؤں میں سے ایک ہے جو عین سوف اور "علیحدگی کی دنیا " کے مابین ہیں۔ علیحدگی کی دنیا وہ جگہ ہے جہاں انسان رہتا ہے۔[21] زیادہ تر صفروت کے ساتھ بائیبل میں مذکور کسی شخصیت کو منسلک کیا جاتا ہے۔ ان شخصیات کے ذریعہ صفروت اور صفروت کے ذریعہ ان شخصیات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ صفروت اس بات کا اظہار ہیں کہ کس طرح ایک غیر منقسم، لامحدود اور ناقابل فہم خدا ایک محدود دنیا کے تمام عوامل میں کارفرما ہے۔ ان صفروت کے نام، عمومی ترتیب اور مختصر تعارف ذیل میں درج کیا جا رہا ہے:
- کیتیر یعنی تاج جس کو عین سوف سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نقطہ آغاز ہے جس کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی جا سکتی۔ یہ مشیت الہی اور ہر مسرت و شادمانی کا ماخذ ہے۔ اس میں وہ تمام طاقتیں موجود ہیں جو روح کو متحرک کرتی ہیں۔
- خوخمہ یعنی حکمت جس میں تمام اشیا کا بنیادی اور حقیقی تصور موجود ہے۔ یہ تخلیقی قوت سے مالا مال ہے۔
- بیناہ یعنی فہم یا ذکاوت۔ یہ ذہن کی تجزیاتی اور ترکیبی طاقت ہے جو منطقی تجزیے میں مددگار ہے۔ اسے ان ہئیتوں کا مجموعہ بھی کہا جاتا ہے جو خدا کے ذہن میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اسے نسوانیت کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے اور ایسی طاقت کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے جس سے توبہ کی توفیق ملتی ہے۔
- خیسید یعنی محبت۔ اس کے ذریعے خدا کے رحم کا اظہار ہوتا ہے۔ اسے محبت کا ماخذ بھی سمجھا جاتا ہے۔ خیسید کے ساتھ ابراہیمؑ کی شخصیت منسلک کی جاتی ہے۔
- دِن یعنی قوت خداوندی جس کے ذریعے وہ سزا یا جزا دیتا ہے۔ اس لحاظ سے دن کو عدل کی طاقت بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس صفر کے ساتھ اسحاقؑ کی شخصیت منسلک ہے۔
- رحمیم یعنی رحمت جسے قوت جاذبہ و دافعہ کا توازن سمجھا جاتا ہے۔ اس کی جگہ "تیفیریت" یعنی خوبصورتی کو بھی بطور صفر بیان کیا جاتا ہے۔ اس صفر کے ساتھ یعقوبؑ کی شخصیت منسلک کی جاتی ہے۔
- نیتسَخ یعنی غیر متزلزل استقلال جو فتح اور غلبہ کا ماخذ ہے۔ یہ کام کی تکمیل کا حوصلہ بھی ہے۔ اس صفر کے ساتھ موسیؑ کی شخصیت منسلک کی جاتی ہے۔
- ہود یعنی عظمت خداوندی جو عاجزی کا ماخذ ہے۔ اس صفر کے ساتھ ہودؑ اور ہارونؑ کی شخصیت منسلک کی جاتی ہے۔
- يسود یعنی بنیاد جو کہ خدا کی تمام طاقتوں کی اساس ہے۔ یہ کائنات کو استحکام بخشتی ہے، ایک چیز سے دوسری چیز یا ایک حالت سے دوسری حالت میں جانے کا ذریعہ ہے اور دوسروں کے ساتھ تعلق اور پہچان کا سبب ہے۔ اس صفر کے ساتھ یوسفؑ کی شخصیت منسلک ہے۔
ملکوت یعنی مملکت جو تمام صفروت کو ہم آہنگ اور جوڑے رکھتا ہے۔ اس صفر کے ساتھ داؤدؑ کی شخصیت منسلک ہے۔ اسے سکینہ بھی کہا جاتا ہے جو کہ خدا کی دنیا میں موجودگی کا اظہار ہے۔ زوہر میں سکینہ ایک نسوانی ذات ہے جسے خدا کی بیٹی یا دلہن کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تمام صفروت خدا اور سکینہ کے ملاپ سے وجود میں آئے اور یہی تمام اسرائیلیوں کی ماں ہے۔[22]
ان صفروت کی تین تین کی تین تکڑیاں بنائی گئیں ہیں۔ پہلی تکڑی میں پہلے تین صفروت شامل ہیں جو خدا کی اندرونی ساخت کا فکری دائرہ تشکیل دیتے ہیں۔ دوسری تکڑی میں اگلے تین صفروت شامل ہیں جو ربوبیت کی نفسیاتی یا اخلاقی سطح سے ہیں۔ آخری تکڑی میں اگلے تین صفروت شامل ہیں جو خاص فطری یا قدرتی طاقتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آخری صفر یعنی ملکوت، اعلی اور ادنی دنیاؤں میں واسطے کا کام دیتا ہے۔ ان تمام صفروت کو ایک درخت کے اعتبار سے بھی بیان کیا جاتا ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف آ رہا ہے۔ اس کی جڑ پہلا صفر، کتیر ہے جس سے دیگر صفروت نکلتے ہیں جو اس درخت کے تنے اور شاخوں کو تشکیل دیتے ہیں۔[23]اس کے علاوہ اسے آدم قدمون کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے جو کہ یہودی روایات میں "ابتدائی انسان" کو کہتے ہیں۔ اپنی صفا ت میں یہ انسان کامل ہے لیکن یہ آدمؑ نہیں ہے۔ آدم قدمون کی ایک شبیہ جس میں مختلف صفروت کی اہمیت واضح کی گئی ہے تصویر نمبر 1 میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ابو العفیا نے مراقبہ کو رواج دے کر قبالیین میں وجد کو فروغ دیا تھا جبکہ زوہر میں زیادہ تر خدا کے ساتھ ایک ہو جانےپر زوردیا گیا ہے۔ خدا کے ساتھ ایک ہو جانے سے انسان اور خدا کے درمیان فاصلے ختم نہیں ہوتےبلکہ اس سے روح اور اس کے ماخذ کی یکتائی کا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے عبرانی اصطلاح "ذوَیکوت" استعمال کی جاتی۔ یہودی صوفیا اس اصطلاح کے متعدد معانی بیان کرتے ہیں۔ کبھی اسے قرب خداوندی کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور کبھی اس سے ایک ایسی حالت مراد لی گئی ہے جس میں انسان کسی وقت بھی خدا کے ذکر اور اس کی محبت سے غافل نہیں ہوتا۔ خدا سے محبت کا عملی اظہار اس کی عبادت ہے۔ لہذا زوہر میں عبادت کا شوق دلانے کا یہ عالم ہے کہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جب عبادت محبت سے کرتا ہے تو اس کے اور خدا کے درمیان پردے اٹھ جاتے ہیں۔ زوہر نے روح کے تناسخ کے ایک عقیدے "گِلگُل" کو بھی یہودیوں میں فروغ دیا۔ ہیکل کی دوسری تباہی کے دور کے بعد تک یہ عقیدہ یہودیوں میں موجود نہیں تھا۔ تلمود میں بھی اس کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ شاید بہیر اور زوہر کے ذریعے ہی اس عقیدے کو یہودیوں میں رواج ملا ہے۔ اس عقیدے کے مطابق گلگل ایک ایسی منزل ہے جس کے لیے روح مختلف مدارج کا سفر کرتی ہے۔
تصویر 1 آدم قدمون اور صفروت کا بیان
روح کی بھی تین حالتیں ہیں جو درج ذیل مختلف صفروت سے منسلک ہیں:
- نفس یعنی وہ کثیف حالت جو تمام حرکات اور جسمانی خواہشات کا سبب ہے۔ اس کا تعلق بنیاد کے صفروت سے ہے۔
- روح جو اخلاقیات کی تشکیل ہے۔ اس کا تعلق خوبصورتی کے صفروت کے ساتھ ہے۔
- نشاماح جو کہ روح کی اعلی ترین شکل اور عقلی استعداد ہے۔ یہ توریت کی تلاوت اور خدا کے ادراک میں مدد دیتی ہے۔ اس کا تعلق حکمت کے صفروت کے ساتھ ہے۔
انسان کی موت کے بعد ہی روح، نشاماح سے آگاہ ہوتی ہے۔ روح اگر پاکیزہ اور ہر لحاظ سے مکمل ہو گی تو یہ "لامحدود، " جس سے یہ جاری ہوئی ہے، مل سکے گی۔ اس طرح روح کا ان درجوں میں سفر کرنا گلگل کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے جو کے بعد کے قبالیوں میں ایک اہم عقیدہ بن گیا۔
قبالیوں میں "تیکون " یعنی "تقویم/اصلاح" کے ایک نظریے نے بھی فروغ پایا۔ اس نظریے کے مطابق کائنات میں "گناہ آدمؑ" کے ذریعے ایک قسم کی غیر آہنگی اور ناسازی پیدا ہو چکی ہے جس کی درستی تیکون کے ذریعہ ہوتی ہے۔ دنیا میں جو بھی اعمال کیے جاتے ہیں وہ نہ صرف اس جہان پر بلکہ اعلی جہانوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جو ہم آہنگی یا غیر آہنگی کا سبب بنتے ہیں۔ انسان کا درجہ چونکہ فرشتوں سے اعلی ہے۔ لہذا بنی اسرائیل دنیا میں جو اعمال کرتے ہیں اس کا اثر تمام جہانوں پر پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے کائنات کی تقویم یا بگاڑ کا ذمہ اسرائیلوں کے سر پر ہے۔ اگر وہ اچھے اعمال کر رہے ہوں گے تو کائنات میں تقویم ہو گی اور اگر برے اعمال کر رہے ہوں گے تو اس میں بگاڑ پیدا ہو گا۔
لوری قبالہ
جیسا کہ دوسرے باب میں بیان ہو چکا ہے کہ جب سپین پر صلیبیوں کی حکومت مستحکم ہو گئی تو یہ جگہ یہودیوں کے لیے تنگ ہوتی چلی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ یہودیوں کو اپنے دورِزریں کی اس یادگار کو خیر آباد کہنا پڑا۔ سپین سے نکلنے والے زیادہ تر یہودی، سلطنت عثمانیہ میں بستے چلے گئے۔ اس دور کے یہودی صوفیا میں مسیح موعود کا تصور شدت سے رواج پانے لگا۔ وہ لوگ یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح مسیح کی آمد میں جلدی ہو جائے تاکہ دنیا میں امن و سکون قائم ہو سکے۔ اس ضمن میں صفد نے خصوصی کردار ادا کیا۔ اسحاق لوریا، یوسف کارو اور موسی بن یعقوب قرطبی جیسے یہودی صوفیا کو صفد ہی نے جائے پناہ مہیا کی۔ اس شہر نے یہودی روحانیات کا علمبردار بن کر بہت سے صوفیا کی قبروں سے خود کو آراستہ کیا۔ قرطبی نے زوہر کی تعلیمات کو عام کیا جو اس سے پہلے مخصوص حلقوں تک محدود تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ صفروت "کلیم" یا برتن ہیں جن میں عین سوف کا نور بھرا ہوتا ہے جو مختلف شکلوں میں منعکس ہو سکتا ہے۔ یہ انعکاس خدا کی ربوبیت کے دنیا میں اظہار کا سبب ہے۔
قرطبی کے علاوہ صفد کا ایک اور بڑا نام اسحاق لوریا کا ہے جس کا تعلق مصر سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے سات قیمتی سال دریائے نیل کے کنارے زوہر کو سمجھنے میں صرف کیے۔ بعد ازاں، جب وہ صفد آیا تو یہاں اس نے زوہر ہی کو بنیاد بناتے ہوئے قبالہ کی نئی تشریحات کا نظام متعارف کروایا جس نے نہ صرف اس وقت کی یہودی روحانیت کو جلا بخشی بلکہ اٹھارویں صدی کی حسیدیت کے لیے بھی بنیادیں فراہم کیں۔ اب یہ ایک باطنی تحریک نہیں رہ گئی بلکہ ایک عقیدے کے طور پر رواج پانے لگی۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ قبالہ کو یہودیت کا اہم ترین جزو سمجھا جانے لگا۔ اس میں نفس کشی کے ذریعے گوہر مقصود تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
دیگر قبالیین کی طرح اس نے عین سوف ہی کے اردگرد اپنا تھیوصوفیائی نظام ترتیب دیا۔ اس کے ہاں بھی بائیس عبرانی حروف تہجی اور صفروت کا تصور تقریبا دیگر صوفیا سے ملتا جلتا تھا۔ البتہ دیگر صوفیا، تخلیق کو ایک مثبت عمل جبکہ وہ اسے ایک منفی عمل تصور کرتا تھا۔ اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مخلوقات کی تخلیق سے پہلے عین سوف کا نور ہر چیز پر حاوی تھا۔ یہ اپنی نوعیت میں لا محدود تھا جس کی وجہ سے کسی قسم کی تخلیق کے لیے جگہ کی گنجائش نہیں تھی۔ تخلیق کو ممکن بنانے کے لیے عین سوف نے اپنے نور کو دبایا جس سے محدود کائنات کی تخلیق کے لیے جگہ بنی۔ تخلیق کے اس عمل کی وضاحت کے لیے اس نے " تَسیم تسوم " کی اصطلاح استعمال کی ہے جس کا مطلب "سکڑنا" یا "دبنا" ہے۔ تَسیم تسوم منفی اس لحاظ سے ہے کہ اس نے عین سوف کو "الہی جلا وطنی" میں مبتلا کر دیا تاکہ مخلوقات کی تخلیق کے لیے گنجائش بن سکے۔
وہ سمجھتا تھا کہ کائنات کی ابتدائی تشکیل آدم قدمون کے طور پر ہوئی۔ بعد ازاں اسی کے اندر صفروت ترتیب پائے جن سے دیگر محدود چیزیں اور انسانی روح وجود میں آئی۔ صفروت آدم قدمون کی آنکھوں، کان، ناک اور کانوں کے ذریعے جاری ہوئے۔[24] کلیم ان صفروت کی اوپری تہہ تھی جس میں نور بھرا ہوا تھا۔ کلیم اس قدر طاقتور نہ ثابت ہو سکے کہ تخلیق کے عمل کو پوری طرح سہار سکیں جس کی وجہ سے "شفیروت ہاکلیم " یعنی ان کے ریزہ ریزہ ہونے کا عمل وقوع پذیر ہوا۔ یہ خدا کی قدرت کے منافی ہے کہ اس کی بنائی ہوئی چیز کمزور ثابت ہو۔ شفیروت ہاکلیم درحقیقت تخلیق کی مخالفت تھی۔ یہ خدا سے بغاوت سمجھی گئی جو کہ تخلیق کے حق میں تھا۔ اسی بغاوت نے برائی کو جنم دیا۔ اب کائنات دو حصوں میں منقسم ہو گئی: نور کی دنیا جو اوپر تھی اور برائی کی دنیا جو نیچے تھی۔[25] انسان برائی اور اچھائی کے لیے میدان جنگ کی سی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس کی فطرت میں علامتی دوئی پیدا ہوئی۔ اس دوئی کی وجہ سے اس کا جسم برائی کی طاقتوں کا محور بنا اور روح مقدس عناصر کی محافظ قرار پائی۔ تخلیقِ آدمؑ سے خدا کا مقصد تھا کہ آدمؑ برائی کی طاقتوں پر قابو پا لیں گے لیکن ان کی ناکامی نے برائی کی قوتوں کو مزید طاقتور بنا دیا۔ اب خدا نے ایک انسان کے ذمہ یہ کام لگانے کی بجائے ایک پوری قوم یعنی بنی اسرائیل کو برائی سے نبرد آزما ہونے کے لیے منتخب کیا۔ بنی اسرائیل کا ہر برا کام مثلاً دیگر خداؤں کی عبادت، توریت کی طرف بے توجہی یا اخلاقی اقدار کی پامالی، برائی کو طاقتور کرتی ہے اور ہر اچھا کام برائی کو کمزور کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بنی اسرائیل اچھے کام کر کے خدا کی قربت اور برائی کے خاتمے کی کوشش کرے۔
قبالہ کو فروغ دینے میں سباتائی زیوی (1662-1676) کا کردار خاصی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ وہ ایک سفاردی ربی تھا جس کی تعلیمات سے متاثر ہو کر سلطنت عثمانیہ میں بسنے والے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد اس کی معتقد ہو گئی تھی۔ بعد ازاں اس نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا مقدمہ جب عثمانیوں کے سامنے پیش ہوا تو اس نے اسلام قبول کر لیا یا اس کو زبردستی مسلمان بنا دیا گیا۔ تاہم اس کے بہت سے عقیدت مند اس سے متنفر ہونے کی بجائے اس کو بھی اس کی کوئی حکمت عملی سمجھتے رہے۔ ایسا باور کروانے میں غزہ کے ناتھن (1643-1680)کا کردار بھی اہم ہے جس نے اپنی باتوں کے ذریعے زیوی کے لیے دیگر یہودیوں کے دل سے کدورت دور کی۔
حسیدیت
حسیدیت اٹھارویں صدی کے پالینڈ میں فروغ پانے والی ایک یہودی روحانی تحریک تھی جس کے مختلف ذیلی گروہ یا سلاسل بھی تھے۔ یہ لوگ قبالہ کے بیشتر نظریات کو اپنائے ہوئے تھے۔ اسرائیل بن العیزر (1700-1760)جنہیں بعل شیم توو بھی کہا جاتا ہے، حسیدیت کے بانی تھے۔ بعل شیم توو کو مختصرا "بیشت " یعنی اچھا استاد بھی کہا جاتا ہے۔ اٹھارویں صدی میں فروغ پانے والی یہ تحریک ابتدائی حسیدیوں اور مشہور یہودی روحانی تحریک، حسید ی اشکناز سے مختلف تھی۔ جیسا کہ تیسرے باب میں گزر چکا ہے کہ جدید یوکرائن کی تشکیل نے یہودیوں کو مشکلات سے دوچار کر دیا۔ الیعزر کے دور کا پالینڈ یہودیوں کے لیے نسبتاً پرسکون تھا۔ اس نے مختلف مقامات کا سفر کر کے اپنے نظریات کی تبلیغ کی جس سے اسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ 1740 میں اس کے شاگردوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی جنہوں نے بعد میں اس کے نظریات کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اگرچہ حسیدیوں کو راسخ العقیدہ یہودیوں کی طرح مذہبی لوگ سمجھا جاتا ہے تاہم ربیائی یہودیت کے نام لیواؤں اور حسیدیوں میں عداوت نے فروغ پایا جس کی وجہ سے ان پر کفر کے فتاوی بھی لگائے گئے۔ ان کے مخالفین کا کہنا تھا کہ یہ لوگ قدامت پرست ہیں، توریت کی تلاوت میں سستی کرتے ہیں، عبادات میں تجاوز کرتے ہیں اور اشنکنازی سیدور استعمال نہیں کرتے۔ اس مخالفت میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب یعقوب یوسف نامی ایک حسیدی صوفی نے اپنی تصانیف میں ربیائی یہودیت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ نتیجتا راسخ العقیدہ یہودیوں نے ان کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور یوسف کی کتب کو نذر آتش کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ روسی حکومت سے درخواست کی گئی کہ ان پر پابندی لگائی جائے۔ اس وجہ سے بہت سے حسیدی قائدین پابند سلاسل بھی ہوئے۔ بعد ازاں ان پر پابندیوں کو ختم کر دیا گیا۔
حسیدیت نے ایک طرف تو لوری قبالہ کے بعض نظریات کو اپنایا اور دوسری طرف نفس کشی جیسے تصوارات کا رد کیا ۔ تَسیم تسوم کو یہ ایک ظاہری عمل کے طور پر دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چونکہ خدا ہر جگہ موجود ہے لہذا اس کا نور ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ اس کی قربت ہر کسی کو، ہر جگہ، ہر وقت اور ہر حالت میں دستیاب ہے۔ لازمی نہیں ہے کہ عبادات ہی خدا کی قربت کا ذریعہ ہوں۔ روزمرہ کے کاموں میں بھی انسان خدا کی قربت حاصل کر سکتا ہے۔ ان نظریات کو فروغ دے کر حسیدیوں نے یہ تصور دیا کہ روحانیت خاص لوگوں تک محدود نہیں ہے بلکہ عام یہودی بھی اپنے روزمرہ کے کاموں میں اس کے حصول کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے حسیدی، رقص، خوشی اور گانے کو بھی عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے ہاں یہ نظریہ بھی موجود ہے کہ جب کوئی نیک شخص(صدیق/ربی) روحانیت کا اعلی مقام حاصل کر لیتا ہے تو وہ دیگر لوگوں کے لیے بھی اس مقام کے حصول میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
تمت بالخیر
مشقی سوالات
مختصر سوالات |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
سباتائی زیوی کون ہے؟ |
تفصیلی سوالات |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
[1] Ernst Muller, History of Jewish Mysticism (Oxford: East and West Library, 1946), 10-11.
[2] Dan Cohn-Sherbok, Jewish Mysticism: An Anthology (Oxford: Oneworld Publications, 1995), 15-16.
[3] پیدائش 22
[4] حزقی ایل 1
[5] Sidney Spencer, Mysticism in World Religions (Baltimore: Penguin Books, 1963), 176.
[6] Gershom G. Scholem, Major Trends in Jewish Mysticism (New York: Schocken Books, 1971), 42.
[7] Muller, History of Jewish Mysticism, 43.
[8] Mishnah Chagigah 2
[9] Segal, Judaism: The Ebook, 184.
[10] Spencer, Mysticism in World Religions, 178.
[11] Scholem, Major Trends in Jewish Mysticism, 75.
[12] Cohn-Sherbok, Jewish Mysticism: An Anthology, 16-18.
[13] Scholem, Major Trends in Jewish Mysticism, 84.
[14] پیدائش 28
[15] Cohn-Sherbok, Jewish Mysticism: An Anthology, 19.
[16] Gershom Scholem, Kabblah (New York: Meridian, 1978), 3.
[17] Cohn-Sherbok, Jewish Mysticism: An Anthology, 22.
[18] Scholem, Major Trends in Jewish Mysticism, 131-32.
[19] Spencer, Mysticism in World Religions, 188.
[20] Scholem, Major Trends in Jewish Mysticism, 156.
[21] Spencer, Mysticism in World Religions, 190-91.
[22] Ibid., 192.
[23] Cohn-Sherbok, Jewish Mysticism: An Anthology, 25.
[24] Sanford L. Drob, Kabbalah and Postmodernism: A Dialogue, ed. Yudit Kornberg Greenberg, Studies in Judaism (New York: Peter Lang, 2009), 26.
[25] Cohn-Sherbok, Jewish Mysticism: An Anthology, 34-35.
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
کتاب کے ابواب | |||
ح | مصنف کی جانب سے مقدمہ | ||
1 | یہودیت اور یہودیوں کا تعارف اور ابتدائی تاریخ | ||
3 | |||
3 | |||
3 | |||
4 | |||
4 | |||
5 | |||
5 | |||
7 | |||
9 | |||
12 | |||
13 | |||
14 | |||
17 | |||
17 | |||
18 | |||
22 | سیدنا موسی علیہ اسلام کے دور سے لے کر ربیائی یہودیت کے فروغ تک کا دور | ||
24 | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |