Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > علامہ شبلی نعمانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

علامہ شبلی نعمانی
ARI Id

1676046599977_54337763

Access

Not Available Free

Pages

29

علامہ شبلی نعمانی تعمذہ اﷲ برحمۃ

(اکثر حضرات ہم سے علامہ مرحوم کے حالاتِ زندگی کے طالب ہیں، بہار اسٹوڈنٹس کانفرنس نے علامہ مرحوم پر سب سے بہتر مضمون نگار کے لیے انعام مقرر کیا، سوانح و حالات کے لیے اکثر اشخاص کے خطوط آتے ہیں، مطول لائف تو جب لکھی جائے گی، اس وقت اس مختصر رسالہ پر قناعت کرتے ہیں کہ منتظر احباب کو زحمت انتظار سے کسی قدر نجات مل سکے، اس مضمون سے پنجاب کے ان بعض اخبارات کی تحریروں کی تصیح بھی ہوجائے گی، جو حادثۂ وفات کی تقریب نے مولانا کے مرحوم کے سوانح زندگی کے متعلق انھوں نے لکھی تھیں)

          اسلام کا گہرا بادل ایک ہزار سال سے برابر ہندوستان کی اقلیم پر مصروف بارش ہے، کتنی بار بادل ابرنیساں بن کر برسا اور اس عجائب زار ہند کا دامن لعل و گہر سے بھرگیا لیکن ۱۸۵۷؁ء میں سارے ملک پر ایک خونی بادل نے تراوش کی، جس سے ہر جگہ تو خون برسا، لیکن کہیں کہیں خون کے قطروں کے بجائے سرخ یاقوت کے دانے برسے، جن میں سے ایک کو قدرت نے شبلی کے نام سے موسوم کیا۔

          ہندوستان کی سیر حاصل زمین نے علوم و فنون میں جو بالیدگی پیدا کی، اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، تاہم مختلف دروں میں جو کلام و اسرارِ شریعت میں بحرِؔالعلوم اور شاہ ولی اﷲ، ادب و معانی میں قاضی عبدالمقتدر، ملک العلماء دولت آبادی، اور ملا محمود جونپوری، فلسفہ و منطق میں ملا نظام الدین اور ملا محب اﷲ بہاری، ادب و شاعری میں مسعود سعد سلمان، خسرو اور فیضی، تاریخ و خبر میں ضیا برنی، ابوالفضل اور آزاد بلگرامی کو پیدا کیا، لیکن اس کی آغوش کا آخری فرزند (شبلی) وہ تھا جو ملا محمود بھی تھا اور فیضی بھی، محب اﷲ بھی اور کم از کم وہ یگانہ انفراداً ان میں سے شروع کے دو ایک کو چھوڑ کر اکثر کے برابر اور مجموعاً ان میں سے اکثر سے بہتر تھا۔

          اسلام نے اپنی تیرہ صدیوں میں ہر آن یہ ثبوت دیا ہے کہ اس کی کیاریاں ہر موسم میں نیا پھول کھلا سکتی ہیں، اور اس کے دنگل سے ہر میدان کے لئے نئے پہلوان پیدا ہوسکتے ہیں، عہداول سے اس وقت تک ہرقرن کی تاریخ اس دعوے کی بہترین مثال ہے، اس نے عقل و نقل کی پہلی ٹکر کھائی تو ابن عطاء اور علّاف کو پیدا کیا اور پھر ہر دور میں ابن فورک، غزالی، شیخ الاشراق، ابن حزم، ابن رشد، رازی ابن تیمیہ، ابن قیم، قاضی عضد، احمد سرہندی، شاہ ولی اﷲ اور بحرالعلوم اپنی خاک سے پیدا کئے، ناممکن تھا کہ اس قرن جدید میں اس موسم کے مناسب حال کوئی نخل تازہ بر آور نہ ہوتا اور اس میدان کے لائق کوئی پہلوان دنگل میں نہ اترتا، انیسویں صدی کا مطلع خورشید اسلام کا مغرب ہے، فضل و کمال کے کتنے آفتاب و ماہتاب تھے جو اس تاریکی میں نگاہوں سے اوجھل ہوگئے، لیکن صدی کا نصف شب ۱۸۵۷؁ء تھا کہ مطلعِ سحر سے چند نئے ستارے نمودار ہوئے۔

عصرِ انقلاب : دنیائے اسلام اس گردش ایام میں ایک عجیب انقلاب کے خطرناک دور سے گزر رہی تھی، علم و عمل کے قدیم و جدید نظامات باہم متصادم تھے اور یہ عالم تھا کہ دوسری صدی کی ضروریات جو یونان اور ایران کے تصادم سے پیدا ہوئی تھیں، یورپ کے تصادم سے دفعتہ پیدا ہوگئیں، لیکن اس دورِ ماضی میں اسلام کا خزانہ جس قدر زر و جواہر سے مالا مال تھا، اسی قدر اس جنس کا اس دور میں کال تھا، ناچار گوشہ نشین گداگروں کو جو جوش دین سے لبریز تھے، ان مہمات کے لئے کمربستہ ہونا پڑا، جن کا سرانجام صرف منصور و مہدی و مامون کے بس کی بات تھی، ان فقرائے اسلام کا جیب و دامن گو خزانوں سے خالی تھا، لیکن قلب و سینہ دوسرے قسم کے زر و جواہر کا مخزن تھا۔

          جدید عقل و فلسفہ و تمدن کا حملہ متواتر دنیائے اسلام کے ہر گوشہ پر تھا، لاجرم صدائے ’’وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ‘‘ [ الحجر: ۹ ]کے مطابق ہر گوشہ سے علمائے ملت لبیک کو دوڑے، ترکستان، روس، ایران، قسطنطنیہ، عراق، شام، مصر، تونس، الجزائر، مراکش، ہر جگہ مصلحین و مجددین نے ظہور کیا، ہندوستان کی اسلامی آبادی تمام ممالک اسلام کی آبادی سے تعداد میں بڑی بھی تھی، اس لئے ضروری تھا کہ جو بھی یہاں اس کام کو اٹھائے، اس کی شخصیت بڑی اور اس کی عظمت ہمہ گیر ہو، یہی سبب ہے کہ اصلاح و تجدید کی آواز جس سرعت، نظام اور بلند آہنگی کے ساتھ یہاں اٹھی، دوسرے ملکوں میں نہیں اٹھی اور جو فروغ اور تکمیل اس کو یہاں میسر ہوئی دیگر بلاد اسلامیہ کو نصیب نہیں ہوئی۔

ہندوستان کا دورِ اصلاح : ہندوستان کا دورِ اصلاح جن افراد پر مشتمل تھا، ان میں دو قسم کے لوگ تھے، ایک وہ جنہوں نے زمانہ کی ضرورتوں سے قطعاً چشم پوشی کرلی اور حرفِ قدیم کی حفاظت ہی کو ملت کے لئے ذریعہ نجات سمجھا، اور یقینا ان کا بہت بڑا احسان ہے کہ جو کچھ بزرگوں کے ترکہ میں پایا تھا، اس کو سینوں سے لگائے رکھا اور دشمنوں کے دست بُرو سے محفوظ رکھا، حضرت مولانا قاسم صاحب اور مولانا رشید احمد صاحب اور دوسرے علمائے مقدسین پر اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں کہ انہوں نے اس کام کو خوبی سے انجام دیا اور ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے دلوں کو اپنے فیض سے روشن رکھا۔

          دوسرا گروہ وہ پیدا ہوا جس نے قدیم کو چھوڑ کر صرف جدید کے حصول پر اپنا سارا زور صرف کیا، اس گروہ کا سر عسکر یقینا وہی تھا جس کے بوڑھے غمزوں میں کچھ نہ کچھ بات تھی، اور جس کی ریشِ سفید کی درازی سحر کی چھٹکی ہوئی چاندی ۱؂ تھی، سرسید، محسن الملک، مولوی سید کرامت علی جونپوری (کلکتہ)، مولوی نذیر احمد، مولانا الطاف حسین حالی اس جماعت کے ارکانِ عظام تھے۔

مولانا شبلی نعمانی :

          مولانا شبلی مرحوم اس بزم میں سب سے پیچھے آئے، لیکن سب سے پیچھے نہیں بیٹھے، ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ وہ ان دوگروہوں کے مجمع البحرین تھے، یعنی قدیم علوم سے بہرہ ور تھے اور جدید سے اپنے ہمصروں کی طرح آشنا، پھر قدیم علوم میں بھی اﷲ تعالیٰ نے گونا گونی کے ساتھ مختلف صلاحیتیں اور قابلیتیں ان کی ذات میں دویعت رکھی تھیں، اس لئے تماشا گاہِ عالم میں کمال کا جو جوہر انہوں نے دکھایا یقین ہے کہ دنیا زمانہ تک اس کی مثال پیش نہ کرسکے گی۔

شبلیؔ زخیلِ زمزمہ سنجان چشم گرفت

 

Gبا ایں کہ ہیچ گونہ زخیل و حشم نداشت

          مولانا کے حریف تلوار کا صرف ایک ہی وار جانتے تھے، یا فقیہ و محدث یا متکلم و فلسفی تھے، یا فقط انشا پرداز یا زبان آور خطیب، یا سخن فہم و سخن سنج، لیکن یہ یگانۂ روزگار مجموعہ ہر علم و فن تھا، جس رستہ پر قدم رکھا میدان میں سب سے آگے نظر آیا، علوم دینی و مشرقی میں جو تبحر ان کو نصیب تھا، اس سے یہ جدید ارکان یکسر خالی تھے اور قدیم علماء جدید مسائل سے بے خبر تھے، تاریخ کا وہ اس بازار میں تنہا جوہری تھا، فلسفہ و کلام کا وہ امام تھا، شاعری کا کہنہ مشق استاد تھا، انشاء پردازی کے پامال کوچہ میں بھی اس کی راہ الگ تھی۔انشاء پردازی (تحریر) و زبان آوری (تقریر) ان دونوں کشوروں میں یکساں صرف اسی کا سکہ رواں تھا، سخن سنجی اس کے طائرِ کمال کے شہپر تھے۔

          اس میں دوسری جامعیت یہ تھی کہ وہ صرف دماغ نہ تھا ہاتھ بھی تھا، قومی تحریکوں کے عواقب پر جہاں اس کی نظر پہنچی، حریف اس کے دیکھنے سے قاصر تھے، اس کا دماغ جن دینی و ملی کارناموں کا تماشا دیکھتا تھا، اور دکھانا چاہتا تھا، بہت سی آنکھیں اس کے دیکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی تھیں، قومی، تعلیمی، اجتماعی، سیاسی، ادبی، مذہبی غرض عمل کا کوئی گوشہ نہ تھا، جس کی طرف اس کا ہاتھ نہ بڑھا، باایں ہمہ اس کا مخصوص فن صرف تاریخ اور کلام رہا۔

حالاتِ زندگی : مولانا مرحوم ہندوستان کے آشوبِ ایام اور بحران انقلاب یعنی ۱۸۵۷؁ء میں، صوبہ متحدہ کے ضلع اعظم گڑھ میں، بِندول نامی ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے جس کی نسبت وہ خود فرماتے ہیں۔

فضل بِندول اگر تو نشناسی

آدمی نیستی تونسناسی

  اُن کا خاندان اس ضلع میں ممتاز، متمول اور صاحبِ اعزاز خاندان تھا، ان کے پدر بزر گوار اعظم گڑھ کے کامیاب وکیل تھے۔

          اس زمانہ میں فارسی زبان شرفاء کی تعلیم کی زبان تھی، مولانا نے تمام فارسی نصاب اس اثناء میں مکمل کیا، پھر عربی تعلیم شروع کی، خاندان کے اور بہت سے اعزہ و احباب شریک تعلیم تھے۔ غازی پور میں ایک چشمۂ رحمت ہے، یہ چشمۂ فیض وہاں سے بھی سیراب ہوا ہے، مولانا محمد فاروق صاحب چریا کوٹی جو اس عہد کے فاضلِ اجل اور مولانا عنایت رسول صاحب چریا کوٹی جو تحقیقات مذہبی میں گویا سرسید کے استاد تھے، کے برادر اصغر تھے، وہ ان دنوں مدرسہ غازی پور کے صدر مدرس تھے، مولانا شبلی نے مولانائے ممدوح سے نصاب عربی کی متوسطات سے انتہا تک تعلیم حاصل کی۔

          مولانا فاروق چریا کوٹی، فلسفہ، منطق، ہندسہ، ادب عربی اور ادب فارسی میں خاک ہند کے آخری فرزند تھے، ان کے بعد علماء میں ان تمام فنون کے ایسے جامع شاید ہی اٹھیں، اس ہیچمدان کو بھی فخر رہے گا کہ جس طرح اس نے مولانا شبلی کے دامن تربیت میں پرورش پائی ہے، اسی طرح ندوہ میں مولانا محمد فاروق کے آغوشِ تعلیم میں بھی تین برس تک پلا ہے، اس نسبت سے میرا روحانی باپ، روحانی بھائی بھی تھا۔

          مولانا محمد فاروق کو اپنے شاگرو سے اس قدر اُنس اور محبت تھی کہ وہ خود اپنے کو ’’بیشۂ دانش کا شیر‘‘ اور شاگرد کو ’’بچہ شیر‘‘ کہتے تھے، یعنی استاد نے شاگرد کا سجع کہا تھا ’’اَنَا اَسَد وَاَنْتَ شبِْلِیْ‘‘ ۲؂ (یعنی میں شیر ہوں اور میرا شاگرد بچۂ شیر) مولانا کی تعلیم کے آخر زمانہ میں مولانا فاروق صاحب غازی پور چھوڑ کر خود مولانا کے گھر اعظم گڑھ آگئے تھے۔

          مولانائے مرحوم نے اس ذات والا صفات کے آغوش میں معقولات کی جس حد تک تعلیم پائی تھی تمام ہندوستان میں اس سے زیادہ ہونا نا ممکن تھا۔ اس وقت ہندوستان کے گوشوں میں مستقل درسگاہوں کے مالک لکھنؤ میں مولانا عبدالحئی فرنگی محلی،دہلی میں مولانا نذیر حسین صاحب محدث، لاہور میں مولانا فیض الحسن سہارنپوری ادیب، رامپور میں مولانا عبدالحق خیرآبادی منطقی، مولانا ارشاد حسین صاحب فقیہ اور سہارنپور میں مولانا احمد علی محدث تھے اور دیوبند کا مجمع العلماء ان سب سے الگ تھا۔

          مولانا عبدالحئی کمسن تھے، اس زمانہ کے کہن سال ان کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، اور یہی اثر ان کے شاگردوں میں بھی تھا، مولانا نذیر احمد صاحب طریقۂ اہل حدیث کے پابند تھے اور اس عہد کے عام علمائے احناف کی نگاہوں میں یہ طریقہ ضلالت کے ہم پلہ شمار ہوتا تھا، مولانا فاروق صاحب غالی حنفی تھے اور آخر تک رہے اور یہی اثر مولانا پر بھی ایک مدت تک رہا، اس لئے ان دو درسگاہوں کو چھوڑ کر کم و بیش وہ ہر جگہ گئے، دیوبند میں مولاناکے ایک عزیز حبیب (مولوی محمد عمر صاحب) تعلیم پاتے تھے، ان کے بلاوے پر وہاں تشریف لے گئے، چند روز ٹھہرے، شریک تعلیم نہ ہوئے اور واپس آئے۔

          مولانا کے رفقائے تعلیم کا بیان ہے کہ اس عہد میں مولوی فاروق کی معقولات دانی کا شور تھا، مولانا شبلی جس درسگاہ میں جاتے تھے ’’بچہ شیر‘‘ کو شیر سمجھ کر ہر طرف سے طلبہ مناظرہ و مباحثہ کے لئے ٹوٹ پڑتے تھے اور یہ پہلوان یکہ و تنہا دنگل سے فخر و غرور کے ساتھ کامیاب باہر آتا تھا، سہارنپور اور لاہور میں (اچھی طرح یاد نہیں) مفتی عبداﷲ صاحب ٹونکی سے کہ اس زمانہ میں وہ بھی برابر کے طالب العلم تھے، جامع مسجد میں ایک منطقی بحث پر مناظرہ ہوا اور ہر فریق اپنے کو فتحیاب سمجھ کر اٹھا۔

          اعظم گڑھ سے مولانا رامپور تشریف لے گئے، وہاں مولوی عبدالحق صاحب خیر آبادی کی درسگاہ میں گئے، چند طالب العلم مناظرہ و مباحثہ کے لئے لپٹ پڑے، پھر وہاں نہ گئے، رامپور میں مولوی ارشاد حسین صاحب ایک مشہور عالم دین اور فقیہ تھے، ان کے درس میں جاکر فقہ کی اعلیٰ کتابیں پڑھیں اور جب ان کا ذکر آتا مولانا اپنے استاد کی فقہ دانی و تبحر کی بہت مدح فرماتے تھے رامپور سے ادب کی تکمیل کے لئے لاہور مولوی فیض الحسن صاحب کی خدمت میں پہنچے، مولوی فیض الحسن صاحب اس زمانہ کے اصمعی اور ابو تمام سمجھتے جاتے تھے، ہندوستان کے پورے اسلامی دور میں قاضی عبدالمقتدر کے سوا یہی ایک فرد تھا جو عربی شاعری کا صحیح مذاق رکھتا تھا، ان کی شرح حماسہ اور دیگر ادبی تصنیفات اس کی شاہد عدل ہیں اور اب ان کا عربی دیوان بھی چھپ گیا ہے جو اہل زبان کی ٹکر کا ہے۔

          لاہور میں مولانا صرف چند مہینے رہے، حماسہ شاید یہاں شروع کی تھی، وقت نہ تھا، تو مولوی فیض الحسن صاحب اورینٹل کالج سے آتے جاتے راستہ میں پڑھاتے تھے۔

          لاہور سے مولانا سہارنپور، مولانا احمد علی صاحب کی خدمت میں کہ محدث حنفی تھے، حاضر ہوئے، یہاں علم حدیث کی تحصیل فرمائی، مولانائے مرحوم اپنے تمام اساتذہ میں مولانا احمد علی صاحب کے اخلاق و آداب، سادگی طبع و وضع اور اتباع سلف کے بے حد معترف تھے اور ادب سے ان کو ’’ہمارے مولانا‘‘ کہا کرتے تھے۔

          عمر ۱۹ برس کی تھی، سال ۱۸۷۶؁ء تھا، ترمذی شریف زیر درس تھی کہ خاندان کے بعض اعزہ نے بغرض حج سفر حجاز کا ارادہ کیا، جو حوصلہ مند طالب العلم کے لئے یہ بہترین موقع تھا، چنانچہ استاد محدث سے اجازت لے کر سفر حجاز کے لئے روانہ ہوگئے، فریضۂ حج ادا کیا، مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے، ایک عالم وجد تھا جو عاشقِ رسول پر طاری تھا، اس عالم میں ایک قصیدہ اور ایک قطعہ ۳؂ فارسی زبان میں انشا فرمایا جو سرتاپا شوق اور آرزو ہے۔

          مدینہ منورہ میں بہت سے کتب خانے ہیں، اس وقت مولانا پر حنفیت کا رنگ غالب تھا کہ تمام ہندوستان حنفیت اور وہابیت کی ہنگامہ آرائی میں مشغول تھا، چنانچہ وہاں پہنچ کر اسی قسم کی کتابوں کی جستجو فرمائی، فرماتے تھے کہ فنونِ حدیث کا جو سامان نظر آیا کہیں نہ دیکھا، ابن عبدالبر کی کتاب التمہید گوموطائے امام مالک کی شرح نقد ہے لیکن در حقیقت وہ فنون حدیث کا دائرہ معارف ہے، ایک بار میں نے پوچھا تھا، تو فرماتے تھے کہ مدینہ کے کتب خانوں میں دیکھی تھی۔

          سفرِ حجاز کے بعد عجیب عجیب واقعات بیان فرمایا کرتے تھے، منجملہ ان کے ایک ہندی درویش کا قصہ تھا، جس کے دونوں پاؤں کانٹوں سے چھلنی ہوگئے تھے، موچنے سے کانٹے نکال رہاتھا کہ مولانا جاکر کھڑے ہوگئے، اشارہ کیا کہ تم بھی نکالو، پھر سوزو گداز کی لے میں یہ شعر پڑھا۔

آبلے روتے ہیں خوں، رنج بڑا ہوتا ہے

کوئی کانٹا جو کفِ پاسے جدا ہوتا ہے

عربوں کی فیاض طبعی اور شرافت خلق کے بھی بعض عجیب واقعات بیان فرمایا کرتے تھے۔

          اس سفر سے واپس آکر ’’ظاہری طلبِ علم‘‘ کا دور ختم کردیا، لیکن واقعاً اب سے ’’حقیقی طلبِ علم‘‘ کا دور شروع ہوتا ہے، مولانا فطری شاعر تھے، اکثر اردو اور فارسی میں اور گاہے گاہے عربی میں شعر موزوں فرماتے تھے، کتب بینی کی ابتدا سے عادت تھی، فرماتے تھے کہ اعظم گڑھ میں رہتا تھا تو بازار میں ایک کتب فروش کی دوکان تھی، وہاں جاکر اردو فارسی کے دیوان دیکھا کرتا تھا اور کبھی کبھی گھر بھی لے آتا تھا۔

          اعظم گڑھ کے قیام کے زمانۂ میں لکھنؤ اور اطراف کے بعض معززین وہاں مقیم تھے، ان کے شوق سے مشاعرے ہوتے تھے، طرحیں دی جاتی تھیں، غزلیں پڑھی جاتی تھیں، مولانا میر مشاعرہ بنتے تھے، اس زمانہ کی بعض غزلیں مشکل سے مجھے ملی ہیں، اس زمانۂ میں پیامِ یار اور اودھ پنج کا عنفوان شباب تھا، بڑے شوق سے ان کے نمبر پڑھتے تھے اور زبان کے مزے لیتے تھے۔ اودھ پنج کی بعض طویل نظمیں اب تک یاد تھیں۔

          اس وقت تک فارسی زبان ہندوستان کے شرفاء کی علمی زبان تھی، اس عہد میں بلکہ علی گڑھ پہنچنے تک تمام خط و کتابت فارسی میں کرتے تھے اور قلم برداشتہ لکھتے تھے، اس زمانہ کے اکثر فارسی خطوط میرے پاس ہیں۔ ۴؂

          مشاعروں کے علاوہ ان کا سب سے بڑا شغل اس زمانہ میں غیر مقلدوں کی تردید بلکہ تعذیب تھی، فرماتے تھے کہ ’’انسان عیسائی ہوسکتا ہے لیکن غیر مقلد نہیں ہوسکتا‘‘۔ لیکن عجائبِ روزگار دیکھو کہ یہ تعصب کا دریائے جوش، بے تعصبی کے کس نشان تک اتر آیا، اس زمانہ میں غیر مقلدین کی تردید میں اردو، فارسی اور عربی میں کئی رسالے لکھے، بعض خود ان کے نام سے اور بعض دوسروں کے نام سے چھپے ہوئے ملتے ہیں، اسی عہد کا عربی رسالہ ’’اسکات المعتدی‘‘ ہے جس کے مؤلف کی نادانستہ دادسفر بیت المقدس میں ایک فاضل نے خود مولانا کے سامنے دی تھی اور جب ان کو معلوم ہوا کہ یہی اس کے مؤلف ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے۔

          اس عالم میں درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری تھا، مولوی حمید الدین صاحب اسی زمانہ کے فیض یافتہ ہیں، مولانا اس عہد میں بڑے متقشف اور مذہبی جابر تھے، تارکین و غافلین صلوٰۃ کو سخت تنبیہ فرماتے تھے۔

          گھر کے لوگوں کو فکر تھی کہ اب یہ دنیا کا کوئی کام کریں، گھر کی زمینداری کا کاروبار ان کے سپرد ہوا، لیکن علم و دانش کا رئیس اس سے عہدہ برآ نہ ہوسکا۔

          اکثر فارسی خواں لوگ اس زمانہ میں اردو میں وکالت کا امتحان دے کر وکیل بنتے تھے، خود مولانا کے والد اور نیز استاد مولانا فاروق صاحب اسی قسم کے وکیل تھے۔ ناچار مولانا نے بھی وکالت کا امتحان دیا اور دوسری بار میں کامیابی حاصل کی اور چند مہینے تک اعظم گڑھ اور بستی میں وکالت کی بھی لیکن اس متقشف عالم کے لئے صدق و کذب اور صحت خطا کی تبدیل سخت نفرت انگیز فرض تھا، مولانا ایک مقدمہ کا عجیب و غریب واقعہ فرماتے تھے:

’’کسی ٹھاکر نے اپنی کمسن لڑکی بیاہ دی تھی، داماد جوان ہوکر سُسر کو پسند نہ آیا، ادھر سے رخصتی کا تقاضا تھا اور ادھر سے شدید انکار تھا، ناچار شوہر نے عدالت میں مقدمہ دائر کردیا، لڑکی کا باپ مولانا کے والد کے پاس مقدمہ لے کر آیا، وکیل نے مولانا سے فرمایا کہ جوابِ دعویٰ تم لکھ دو، مولانا نے قصہ پوچھا تو ساری داستان اس نے کہہ سنائی، ہنس کر فرمایا کہ جب تم خود اقرار کرتے ہو کہ لڑکی اس سے بیاہی جاچکی ہے تو اب کیا ہوسکتا ہے، جاؤ لڑکی کو رخصت کردو، وہ ہنستا ہوا وکیل صاحب کے پاس آیا، وکیل صاحب نے مولانا سے فرمایا کہ ’’بس آپ وکیل بن چکے‘‘۔ آخر خود تحریر لکھی اور مقدمہ کی روداد بنائی، مقدمہ لڑا گیا اور جیتا گیا‘‘۔

          وکالت چھوڑ کر کچھ دن امانت کے صیغہ میں نوکر ہوئے، رمضان کے زمانہ میں شدید گرمی میں روزے رکھ کر گھوڑے پر سوار گاؤں گاؤں پھرا کرتے تھے۔ نہ افطار کی فکر نہ سحری کا سامان اور اسی طرح پورا مہینہ گزارے گئے، آخر اس کوچہ میں بھی جی نہ لگا کہ ہادی فطرت پکار رہا تھا کہ شبلی تو اس سے بلند ترکام کے لئے پیدا ہوا ہے، ناچار پھر گھر میں بیٹھ کر مطالعۂ درس و تدریس میں مشغول ہوئے اور قصائد و رسائل لکھنے شروع کئے۔

          یہ وہ عہد ہے کہ سرسید کے شور سے تمام ہندوستان گونج رہا تھا، مولوی محمد حسین آزاد کی ’’سنینِ اسلام‘‘ نئی نئی نکلی تھی، وہ اکثر زیر مطالعہ رہتی تھی، اسلام و عرب کے مفاخر پڑھ پڑھ کے دجد کرتے تھے، یہ پہلی بار تھی کہ ان کے دل نے قوم کا درد محسوس کیا، مولانا کے ایک نوجوان بھائی مہدی مرحوم علی گڑھ میں پڑھتے تھے، ۱۸۸۲؁ء میں قدرت کی اس زنجیر نے مولانا کو کالج میں کھینچا، بھائی سے ملنے گئے تو پیرمیکدہ کو دل دے آئے۔

          پیرکہن سال نے جوہر دانش، ناصیۂ شباب پر نمودار پایا، بے اختیار مصر ہوئے کہ آپ ہمارے مدرسہ میں کیوں نہیں رہتے، مولانا نے قبول فرمایا اور فارسی و عربی کے پروفیسر مقرر ہوگئے اور آخر اتنے انقلابات اور گردشوں کے بعد دائرہ تقدیر کا خط مرکز تک پہنچا۔

          سید صاحب نے خود اپنی کوٹھی میں رہنے کے لئے کمرہ دیا، مولانا حالی بھی قیام فرما تھے، مسٹر آرنلڈ بھی آگئے تھے، شب و روز کچھ عجیب سی صحبت رہتی تھی، قدیم و جدید کی آمیزش اور آویزش کی یہ صورت غیب سے نکل آئی۔ سید صاحب کا کتب خانہ دیکھ کر مولانا فرماتے تھے کہ میں باغ باغ ہوگیا، مصر و یورپ کے تمام جدید و قدیم مطبوعات الماریوں میں بہ ترتیب سجے تھے۔ فرماتے تھے کہ میں کئی کئی گھنٹے الماریوں کے پاس کھڑا رہتا تھا اور کبھی تھک کر انہیں الماریوں کے پاس زمین پر بیٹھ جاتا تھا۔

          سنینِ اسلام کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پہلے سے تھا، تاریخ کی ان نئی کتابوں کو دیکھ کر ان کے اشہب شوق کو نئی مہمیز لگی اور تاریخی تصنیف و تحقیق کا ولولہ پیدا ہوا، پہلے چھوٹے چھوٹے تاریخی رسالے اور قومی نظمیں لکھیں، گذشتہ تعلیم اور مثنوی صبح امید وغیرہ اسی فصل کے میوے ہیں، اول سارے بلادِ اسلامیہ کی تاریخ لکھنے کا خیال آیا، پھر اس کو گھٹا کر تاریخ بنی العباس شروع کی، لیکن جس قدر آگے بڑھتے گئے، میدان زیادہ کشادہ، فراخ اور نتیجہ صبر آزما اور دیر طلب نظر آنے لگا، ناچار ’’نامورانِ اسلام‘‘ کی منزل پر مسافر نے دم لیا اور المامون شروع ہوکر ختم ہوئی، اس کے بعد رفتہ رفتہ اور کتابیں تصنیف ہوئی، بعض بعض اہم مباحث پر کانفرنس میں رسائل لکھ کر پیش کئے اور قبولِ عام کی سند حاصل کی۔

          ۱۸۹۲؁ء میں ’’سیرۃ النعمان‘‘ سے قلم نے فراغت پائی تھی اور ’’الفاروق‘‘ کا تخیل تھا کہ مصر و شام و روم کا سفر پیش آیا، مسٹرآرنلڈ کی معیت میں قسطنطنیہ روانہ ہوئے، وہاں سے مصر ہوتے ہوئے چھ مہینے کے بعد ہندوستان واپس آئے، جدید اسلامی ہندوستان کا یہ پہلا علمی سفر تھا، جو کسی عالم کی ہمت نے قبول کیا، ان مسافرتوں میں انہوں نے کیا کیا تماشے دیکھے، ان کا خامۂ نقاش خود سفرنامہ میں ان کی رنگین تصویریں دکھا چکا ہے۔

          واپس آکر کالج میں وہ قصیدہ پڑھا جس کا مطلع یہ ہے،

قاصدِ خوش خبر امروز نواساز آمد

کزسفر یار سفر کردہ ماباز آمد

ازسفر شبلی آزادہ بہ کالج برسید

یامگر بلبل شیراز بہ شیراز آمد

دوستاں مژدہ کہ آں بلبلِ خوش لہجہ دگر

 

اندریں تازہ چمن زمزمہ پراداز آمد

     سید صاحب اس زمانہ میں کالج کے برائے نام سکریڑی تھے، اصل سید محمود بن گئے تھے، جن کے طرزِ عمل سے ہر شخص نالاں تھا، مولانا نے کئی بار استعفیٰ دیا، مسٹربک نے نامنظور کیا۔ آخر ۱۸۹۸؁ء کی مئی میں کالج سے رخصت لی۔ سید صاحب اور مسٹربک مُصر تھے کہ مولانا یہاں شش ماہ قیام کریں، ابھی وہیں تھے کہ جون ۱۸۹۸؁ء میں سید صاحب نے انتقال کیا۔ ۱۶ سال کی خدمت کے بعد ۱۸۹۸؁ء میں کالج کی پروفیسری سے وہ مستعفی ہوکر اپنے وطن اعظم گڑھ چلے آئے۔ ’’الفاروق‘‘ زیر ترتیب تھی، مولانا نے ۱۸۸۴؁ء میں نیشنل اسکول ایک انگریزی کا مدرسہ یہاں قائم کیا تھا، اب واپسی کے بعد اس کے انتظام و ترقی میں بھی مصروف ہوئے۔ علی گڑھ میں صحت اچھی نہیں رہی تھی، آب و ہوا کی تبدیلی کی غرض سے ۱۸۹۹؁ء میں کشمیر گئے، لیکن وہاں کی آب و ہوا راس نہ آئی، علیل ہوگئے، تاہم ’’الفاروق‘‘ کی تالیف و تحریر جاری تھی، فرماتے تھے کہ ’’الفاروق‘‘ کی آخری سطریں جس دن قلم نے لکھی ہیں سخت بخار تھا، گھنٹوں تک ہوش نہ آیا، اس مرض نے اس قدر طول کھینچا کہ مہینوں تک لکھنا پڑھنا یک قلم متروک ہوگیا اور بمشکل صحت ہوئی، قصیدۂ کشمیریہ میں یہی واقعات منظوم ہوئے ہیں اور اسی مرض سے صحت پر مولانا حالی نے وہ تہنیت لکھی جس کا مطلع یہ ہے،

ﷲالحمد پس ازنا خوشی و رنج دراز

شبلی ما بمراد از سر بالیں برخاست

          یہیں کے قیام کے زمانہ میں ’’الفاروق‘‘ چھپ کر نکلی، یہاں کچھ ہی روز قیام رہا، کہ ان کے والد کے انتقال کے سبب سے کچھ ایسی خانگی الجھنیں پیدا ہوگئیں کہ وہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور سیدھے حیدرآباد کا رخ کیا، وہاں مولوی سید علی بلگرامی نے ان کو اپنا مہمان کیا اور انہی کی تحریک سے حیدرآباد میں علوم و فنون کی نظامت کا عہدہ قبول فرمایا اور پھر یہیں الغزالی، سوانح مولانائے روم، علم الکلام اور الکلام اور موازنہ بہ ترتیب تصنیف ہوئی اور موازنہ کے سوا اور کتابیں یہیں سے چھپ کر شائع ہوئیں۔

          ہم نے اب تک ندوۃ العلماء کی داستان نہیں چھیڑی، ندوۃ العلماء کا تخیل مولانا محمد علی صاحب کانپوریؒ اور دیگر ارباب فہم کی تجویز تھی، مولانا اس قسم کے کاموں کے لئے سراپا انتظار تھے، دوسرے ہی اجلاس سے شریک ہوگئے، مصر و قسطنطنیہ کے سفر نے تعلیم و نصابِ تعلیم و طریقۂ اصلاح تعلیم کے متعلق بہت سے نئے خیالات پیدا کردیئے تھے، چنانچہ اسی جوش میں دارالعلوم کا خاکہ تیار کیا اور اب بھی اس کو کوئی پڑھے گا تو فوراً کہہ دے گا کہ مصنف قسطنطنیہ کی فضا میں کھڑا ہوکر مسلمانانِ ہندوستان کے لئے راہ بتارہا ہے، مولانا مسلمانوں کی ہر قسم کی اصلاح کو علماء کی اصلاح پر منحصر رکھتے تھے، اور علماء کی اصلاح طریقہ تعلیم کی اصلاح پر موقوف جانتے تھے، اس بناء پر دارالعلوم اور ندوہ ہی ان کے نزدیک کام کا اصلی طریقہ تھا، مولوی محمد علی صاحب کے استعفاء کے بعد ندوہ میں جب انحطاط شروع ہوا تو خود لکھنؤ چلے آئے اور دارالعلوم کو تقریباً ۱۹۰۴؁ء میں اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

          اس کے بعد ندوہ کی جو خدمتیں انہوں نے انجام دیں اور جس حد تک اس کو ترقی دی اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، خیرہ چشموں سے کامیابی کی یہ درخشندگی دیکھی نہ گئی، رخنہ اندازی شروع کی، یہاں تک کہ ۱۹۱۳؁ء میں ملول ہوکر علیحدہ ہوگئے۔

          دنیاوی حیثیت سے مولانا نے جو وقار حاصل کیا وہ بھی کم نہ تھا، ۱۸۹۲؁ء میں سلطان ترکی نے تمغۂ مجیدی عنایت کیا، ۱۸۹۴؁ء میں شمس العلماء کا خطاب عطا ہوا، الہ آباد یونیورسٹی کے فیلو مقرر ہوئے، اسی زمانہ میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے ممبر ہوئے۔ ۱۹۰۰؁ء میں امیر عبدالرحمن خان والی کابل نے ترجمہ کا محکمہ قائم کیا، اس کے لئے ہندوستان سے مولانا کا انتخاب کیا لیکن مولانا نے جانے سے انکار کیا، تقریباً ۱۹۰۸؁ء میں اڈنبرا مسلم سوسائٹی کے پریسیڈینٹ ہوئے، ۱۹۱۰؁ء میں شملہ گورنمنٹ اورینٹل کانفرنس میں مدعو ہوئے، ۱۹۱۲؁ء میں الہ آباد کی سرکاری ورنیکلر اسکیم کمیٹی میں شریک ہوئے اور گورنمنٹ نے مولانا ہی کی تجویز پر مسئلہ کا فیصلہ کیا، ڈھاکہ یونیورسٹی کے جلسوں میں بلائے گئے، حکام صوبہ اور والیان ریاست اکثر خلوص سے ملتے تھے، گزشتہ موقع تاج پوشی میں ہزمجسٹی نے شرف ملاقات بخشا، بھوپال، رامپور، جزیرہ اور حیدرآباد کے رؤسا مولانا کے قدردان تھے، انہیں کے ہاتھوں حیدرآباد میں مشرقی یونیورسٹی کی پہلی اینٹ رکھی گئی۔

          مولانا کے مُرغِ شہرت کی پرواز ہندوستان کی فضا سے نکل کر دوسرے ملکوں تک وسیع ہوچکی تھی، ہندوستان، مصر و شام و ترکی و جزائر ملایا، بلکہ انگلینڈ سے پیرس اور برلن سے علمی استفتا اور سوالات ہمیشہ آیا کرتے تھے، مسٹر آرنلڈ انگلینڈ سے، موسیوبوا پیرس سے، ڈاکٹر محمود لبیب برلن سے علمی استفادہ کرتے تھے، ۱۸۹۵؁ء کی اورینٹل کانفرنس میں جو اٹلی میں منعقد ہوئی تھی شرکت کا ارادہ تھا کہ دفعتہ بیمار ہوگئے اور نہ جاسکے، ۱۹۱۳؁ء میں ترکی کی طرف سے مدینہ یونیورسٹی کے قیام کا جو خیال تھا اس کے واضعین نصاب میں مولانا کا بھی نام تھا۔

          ادھر وقفِ اولاد کی مہم اٹھائی اورباحسن وجود اس کو کونسل تک پہنچا کر کامیابی کے ساتھ ختم کیا، اشاعت اسلام کی عظیم الشان اسکیم کئی بار لکھی اور ہر بار قدم آگے بڑھا کر پیچھے ہٹ گئے، ندوہ میں قرآن پاک کا درس جاری کیا۔ آخر میں دارالمصنفین کا ارادہ تھا کہ قوم میں اہل کمال پیدا ہوں، سب سے آخری اور اہم تصنیف ’’سیرۃ نبوی‘‘ زیر تالیف و نظر تھی، کچھ اجزاء تیار ہوچکے تھے، کچھ باقی تھے کہ پندرہ روز کی علالت کے بعد ۱۸؍ نومبر ۱۹۱۴؁ء مطابق ۲۸؍ ذی الحجہ ۱۳۳۲؁ھ کو صبح کے وقت وفات پائی، ۱۸۵۷؁ء میں پیدا ہوئے تھے، اور ۵۷ برس کی عمر پائی، ہنگامۂ مشرق (غدر) میں ظہور کیا اور ہنگامۂ مغرب (جنگ یورپ) میں مخفی ہوئے، ’’بدٔالاسلام‘‘ سیرۃ نبوی میں پہلی تصنیف کی اور سیرۃ نبوی پر آخری دم توڑا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ [البقرۃ: ۱۵۶] اس جاں کاہ حادثہ پر ہندوستان سے مصر اور مصر سے یورپ تک تمام عالم نے ماتم کیا۔

تصنیفات : بہ ترتیب زمانہ حسب ذیل تصنیفات یادگار چھوڑیں، رسالہ گزشتہ تعلیم، الجزیہ، کتب خانہ اسکندریہ، المامون، رسائل شبلی، سیرۃ النعمان، الفاروق، سفرنامہ، الغزالی، علم الکلام اور الکلام، سوانح مولانائے روم، موازنہ انیس و دبیر، شعرالعجم، مقالات شبلی، مضامین عالمگیر، سیرۃ النبی، مجموعۂ کلام اُردو، یہ تمام تصانیف اردو زبان میں ہیں، عربی میں اسکات المعتدی، بدٔالاسلام، الجزیہ، النقد علی التمدن الاسلامی اور بعض مضامین ہیں جو مصری رسالوں میں لکھے، فارسی میں دیوان شبلی، دستۂ گل، بوئے گل اور بعض خطوط۔

          یہ امر قابل افسوس ہے کہ مولانا کا کوئی سلسلہ تصنیف مکمل نہیں ہوا۔ نامورانِ اسلام کے سلسلہ میں صرف المامون اور الفاروق مرتب ہوسکی، علم کلام کے سلسلہ میں علم الکلام اور الکلام، الغزالی اور سوانح مولوی روم تصنیف ہوئی۔ شعرالعجم کی پانچ جلدوں میں سے چار جلد چھپ سکیں، پانچویں جلد کے اجزاء بحالت مسودہ موجود ہیں، سیرۃ النبی کی ناتمامی کا داغ تو اخیر وقت تک ان کے دل میں رہا، اپنی زندگی میں دوستوں سے فرماتے تھے کہ ’’سیرۃ کو تمام ہی کرنا ہے، گوجان دے کر ہی سہی‘‘۔ آخر اسی مقولہ کے مطابق اسی دھن میں اس بزرگ نے جان ہی دی۔ رَحِمَہُ اﷲُ رَحْمَۃً وَاسِعَۃً۔

          آہ! کہ بہت کچھ کہنا ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے سینوں میں جو کچھ وسعت ہے وہ کاغذ کے صفحوں میں نہیں۔

حدیث عشق خوش بوداست و شبلی خوشترک کرداست

شنیدن می تواں زیں حرف رنگین داستانے را

(’’س‘‘،ا گست ۱۹۱۶ء)

۱؂

yمولانا شبلی کی مثنوی صبحِ امید کے بعض اشعار کی طرف تلمیح ہے۔

۲؂

¹اس فقرہ کے لطف کو سمجھنے کے لئے تھوڑی تشریح کی ضرورت ہے، مولانا کا نام شبلی تھا، جو ایک مشہور بزرگ کا نام مشہور ہے مگر حقیقت میں یہ نسبت شبلہ کی طرف ہے جو ان کا وطن تھا، اب ’’میرا شہر کا بچہ‘‘ یہ تلمیح ادھر ہی ہے۔ ’’س‘‘

۳؂

یہ دونوں ’’کلیات شبلی‘‘ میں موجود ہیں۔

۴؂

Gمکاتیب شبلی میں چھپ گئے ہیں۔ ’’س

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...