1676046599977_54337764
Open/Free Access
34
مولانا لطف اﷲ صاحب کی وفات
در روزگار عشق تو ماہم فدا شدیم افسوس کز قبیلۂ مجنون کسے نماند
قدیم عربی مدارس کے در و دیوار اگرچہ ظاہری شان و شوکت کے لحاظ سے روز بروز بلند ہوتے جاتے ہیں، لیکن جھک کے دیکھتے ہیں تو سنگ بنیاد متزلزل نظر آتا ہے، ہماری قدیم تعلیم و تربیت کی جو یادگاریں، ان مدارس کا اساس تھیں، ایک ایک کرکے مٹ گئیں، ایک مولوی لطف اﷲ صاحب مرحوم رہ گئے تھے لیکن ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۱۶ء کو صرصرفنانے ہماری علمی انجمن کے اس چراغ کو بھی گل کردیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
مولوی لطف اﷲ صاحب مرحوم میں قدیم تعلیم و تربیت کی تمام خصوصیات باکمل وجوہ موجود تھیں، علم اخلاق، اور مذہب قدیم تعلیم و تربیت کا مایہ خمیر تھا، اور انہی محاسن کی بناء پر ہمارے علماء قوم میں عزت، رسوخ اور اثر پیدا کرتے تھے، مولوی لطف اﷲ صاحب مرحوم کی ذات میں نہ صرف یہ محاسن جمع ہوگئے تھے، بلکہ وہ ان اوصاف میں عموماً اپنے اقران و اماثل میں ممتاز کیے جاتے تھے۔
اشاعت علم خالصۃً لوجہ اﷲ ہمیشہ ہمارے علماء کا تمغۂ امتیاز رہا ہے اور مولوی لطف اﷲ صاحب مرحوم نے اپنی عمر کا ایک کافی حصہ اس نیک کام میں صرف کیا، ہندوستان میں آج جس قدر علمی سلسلے قائم ہیں، اور جو علماء آج مسندنشین درس و تدریس ہیں، ان میں اکثر ایسے ہیں جنھوں نے مولوی لطف اﷲ صاحب مرحوم کے خرمن فیض کی خوشہ چینی کی ہے۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے دولت دنیا سے بھی مولوی صاحب مرحوم کو کافی حصہ عطا فرمایا تھا، وہ ریاست حیدرآباد میں بمشاہرہ ایک ہزار مدتوں افتاء کی خدمت انجام دیتے رہے، لیکن اخیر میں جب آنکھوں سے معذور ہوگئے، تو مستعفی ہوکر اپنے وطن علی گڑھ میں گوشہ نشین ہوگئے اور وہاں سے مرکر اٹھے۔ (’’سید سیلمان ندوی‘‘، اکتوبر ۱۹۱۶ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |