Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > نواب وقار الملک

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

نواب وقار الملک
ARI Id

1676046599977_54337765

Access

Open/Free Access

Pages

34

قافلہ کا آخری مُسافر

نواب وقارالملک مرحوم

علم والے علم کا دریا بہا کر چل دیئے

واعظانِ قوم سوتوں کو جگا کر چل دیئے

کچھ سخنور تھے کہ سحر اپنا دکھا کر چل دیئے

 کچھ مسیحا تھے کہ مردوں کو جلا کر چل دیئے

.         نواب محسن الملک کی وفات پر ہم نے تدبر و سیاست کا ماتم کیا، مولانا نذیر احمد کے مرنے پر سحر نگاری اور بزم آرائی کا مرثیہ پڑھا، مولانا شبلی کی موت پر ہم نے علم کے فقدان پر نوحہ کیا، لیکن نواب وقارالملک کی رحلت پر ہم قوم کا ماتم کرتے ہیں اور الوالعزمانہ اخلاق کی گم شدگی پر فریاد۔

          یہ ہستی گراں مایہ جس نے ہماری دنیا کو ۲۷، جنوری ۱۹۱۷؁ء میں الوداع کہا، ہمارے کارفرما قافلہ کا آخری مسافر تھا، اس کے بعد وہ دور جو انقلاب ہند کے بعد شروع ہوا تھا ختم ہوگیا، وہ دور جو انگریزی کالجوں کی کائنات نہیں، بلکہ بوریا نشین مدارس کا نتیجہ تھی، گزرگیا، وہ دور جو قدیم تعلیم اور قدیم اخلاق کے دنوں کو پیش کرتا تھا، منقطع ہوگیا، یعنی آئندہ ہماری قسمت کے مالک عربی مدارس کے شملے نہ ہونگے، بلکہ انگریزی درسگاہوں کے ہیٹ ہونگے، اب مشرق، مشرق کی قومیت پر حکومت نہیں کرے گا، بلکہ مغرب، اب لیڈری اور رہبریٔ جمہور کے لئے جوش دل اور اخلاص عمل ضروری نہ ہوگا بلکہ صرف ایک کامیاب عہدہ اور ایک عمدہ سوٹ فیا ویلاہ علی فقید الاسلام ویا خیباہ للمسلمین۔

          مرحوم کو سب سے پہلے میں نے دارالعلوم ندوہ میں دیکھا، غالباً ۱۹۰۳؁ء یا ۱۹۰۴؁ء میں، پست قد، فربہ جسم، چھوٹی گردن، کچی پکی لمبی داڑھی، سرگھٹا ہوا اور سر پر ایک ترکی ٹوپی منڈھی ہوئی، ساتھ ایک ملازم اور اس کے کندھے پر جانماز۔

          ۱۹۰۶؁ء میں دارالعلوم کی طرف سے مولانا شبلی مرحوم کے زیر ہدایت طالبعلموں کا ایک وفد بریلی و مراد آباد و رامپور و امروہہ میں مدرسہ کے لئے چندہ کی فراہمی کے لئے گیا تھا، اس وفد میں راقم الحروف بھی تھا، یہ وفد امروہہ میں دارالعلوم کے ایک مدرس مولانا سید علی زینبی کے مکان پر ٹھہرا تھا اور من جملہ دوسرے ممتازاصحاب کے نواب صاحب کی خدمت میں بھی حاضر ہوا، موصوف کی جس چیز نے ہم کو گرویدہ کیا وہ انکی بے مثال خاکساری اور تواضع تھی، چند گم نام و بے نشان طالب علموں کی ایسی قدر و منزلت فرمائی جو بیان سے باہر ہے، مرحوم کا مکان گلی کے اندر تھا۔ اﷲ اکبر! مسلمانوں کا یہ مسلم لیڈر چند بے مایہ طالب علموں کی مشایعت میں گھر سے گلی اور گلی سے سڑک تک چلا آیا اور یکّہ پر ان کو سوار کرکے واپس گیا اور دوسری دفعہ اصرار کرکے اپنے گھر پر مدعو کیا۔

          مولانا شبلی مرحوم نے جب ندوہ میں قدم رکھا تو اپنے قدیم احباب کو ندوہ کی مالی اعانت کی طرف متوجہ فرمایا، مرحوم کا جو جواب آیا وہ کچھ اب بھی یاد ہے، ان کو غالباً چھ سو کے قریب حیدرآباد سے پنشن ملتی تھی، نصف علی گڑھ کی نذر، پھر نصف کا سالانہ حساب لکھا تھا، جس میں غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کے سلسلۂ امداد کے بعد چند روپے رہ جاتے تھے جو ان کے ذاتی صرف میں کام آتے تھے، آخر میں لکھا تھا کہ آپ فرمائیں تو اسی میں سے کاٹ کر کچھ حاضر کروں۔

          مولانا شبلی مرحوم، نواب وقارالملک کے سچے اور پکے کیرکٹر کے ثبوت میں دو واقعے بیان فرماتے تھے، ایک طرف تو اس واقعہ کا کہ وہ کبھی سرسید کی ماتحتی میں ملازم رہے تھے، ان کو سرکار کہتے تھے، حیدرآباد کے وفد میں سرسید کے ساتھ مولانا شبلی بھی گئے تھے، انہوں نے خود اپنا دیکھا ہوا واقعہ بیان کیا کہ ایک مجلس میں سرسید اور سروقار الامراء دونوں تشریف فرما تھے، نواب صاحب ہاتھ جوڑ کر سرکار ایک طرف سروقار الامراء کو کہہ رہے تھے، تو دوسری طرف حسب دستور اسی طرح سرسید کو بھی، حالانکہ وہ حیدرآباد میں اس وقت بہت بڑی شخصیت بن چکے تھے۔

           لیکن سرسید نے جب زبردستی سید محمود کو اپنا جانشین بنایا تو نواب صاحب نے نہایت صفائی سے انہیں لکھا کہ اسلام میں دو ہی شخص گزرے ہیں، ایک معاویہ جنہوں نے یزید کو اپنا جانشین بنایا اور ایک آپ جو محمود کو اپنا جانشین بنارہے ہیں، اور اس پر بس نہیں کی بلکہ اس زمانہ میں روزانہ ’’پیسہ‘‘ اخبار میں سرسید کے خلاف ایک نہایت پر زور مضمون لکھ کر بھیجا، لیکن اس واقعہ کے چند ہی روز بعد سرسید نے وفات پائی، مرحوم نے تار بھیج کر اس مضمون کو رکوا دیا، غالباً ۱۹۱۰؁ء تھا، یوپی کے کوئی لیفٹیننٹ گورنر ولایت واپس جارہے تھے، ان کی مشایعت کے لئے معززین اسٹیشن جارہے تھے، مولانا شبلی مرحوم عالمانہ شان سے ایک سبز عبا پہن کر تشریف لے گئے، جب واپس آئے تو فرمایا کہ مجھ کو نواب وقارالملک کو معمولی سادہ کپڑوں میں دیکھ کر بڑی شرم آئی۔ ان چند واقعات سے مرحوم کے پورے کیرکٹر کا اندازہ ہوسکتا ہے۔

(سید سليمان ندوی، فروری ۱۹۱۷ء)

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...