Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > اہلیہ مرحومہ سید سلیمان ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

اہلیہ مرحومہ سید سلیمان ندوی
ARI Id

1676046599977_54337766

Access

Open/Free Access

Pages

35

اہلیہ مرحومہ سید سلیمان ندوی

          آخر خدا کی مرضی پوری ہوئی، دو ماہ شدید علالت کے بعد میری رفیقۂ زندگی نے ۲۷ سال کی عمر میں اس عالم کو الوداع کہا، استاد مرحوم کی وفات کے بعد یہ دوسرا سانحہ ہے، جس نے میرے سکون خاطر کو درہم کردیا، اپنے یکسالہ صغیر السن بچہ کو چھوڑ کر بڑی بے کسی میں جان دے دی۔ یہ ۱۲؍ اپریل ۱۹۱۷؁ء کا واقعہ ہے، لیکن اب تک حواس بجا نہیں ہوئے۔ میری حیات منزلی کی اس بربادی کے غم میں جن احباب نے تعزیت ناموں کے ذریعہ سے شرکت کی ہے، ان کا ممنون ہوں، لیکن بہتر ہوتا کہ میرے بجائے دعائے خیر سے اس مرحومہ کو یاد کرتے کہ اب میری قلبی تسلی اسی کی روحانی تسلی میں ہے، خدا عفت و وفا کے اس پیکر کو جوارِ رحمت میں جگہ دے۔

          مرحومہ نے تیرہ سال تک میری زندگی کی رفاقت کی، دس برس سے صحت خراب تھی، اور کبھی کامل صحت اس عرصہ میں اس کے تن زار کو میسر نہ آئی، علاج کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ ہوا، پچھلے دس برس میں اس انتشار حال اور پراگندگی خاطر کے باوجود مجھ سے جو کچھ قوم و ملت کی خدمتیں انجام پاسکیں وہ بجائے خود تعجب انگیز ہیں کہ اس طویل عرصہ میں کبھی میرے دل و دماغ نے فراغ خاطر نہ پایا۔

          میں مرحومہ کی زندگی میں غالب مغفور کا یہ شعر پڑھا کرتا تھا:

میں بھی تمہیں بتاؤں کہ مجنوں نے کیا کیا

فرصت کشاکشِ غم پنہاں سے گرملے

       اس پیکر وفا نے اپنی جان دے کر بھی علم و ملت کی خدمت گزاری کے لئے کشاکش غم پنہاں سے فرصت عطا کی، لیکن ایک ایسا کانٹا دل میں چبھ کر رہ گیا جو شاید عمر بھر نہ نکلے۔

عمر بھر کا تونے پیمانِ وفا باندھا تو کیا

عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے

تیرے دل میں گرنہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ

تونے پھر کیوں کی تھی میری غمگساری ہائے ہائے

گوش محروم پیام و چشم محروم جمال

ایک دل تسپریہ ناامیدواری ہائے ہائے

 

مرگ یار

وارداتِ حالیہ

ہم سفر وادیٔ ہستی میں وہ دلبر نہ ہوا

شمع اس راہ میں اس کا رخ انور نہ ہوا

ہجر کا خوف کبھی اور کبھی ہجر کا رنج

چین گا ہے دل مضطر کو میسر نہ ہوا

تیر جو آئے فلک سے ہدف ان کا میں تھا

ظلم کہئے نہ کبھی اس کو جو مجھ پر نہ ہوا

درد اُٹھ اٹھ کر میرے دل میں ٹھہر جاتا ہے

کیوں رگ دل کی جگہ سینہ میں نشتر نہ ہوا

یہ تماشائے جہان خواب ہے میں مانتا ہوں

پر یہ کیوں خواب میرے واسطے شب بھر نہ ہوا

کس سے کیجئے دل شیدا گلۂ تنہائی

مسند آرا مرے پہلو میں جو دلبر نہ ہوا

نازبیجا تو اٹھایا ہے، پہ مرنے والے

میں ترے نازبجا کا کبھی خوگر نہ ہوا

تیرے جانے پہ گمان تھا کہ ہو محشر برپا

تو گیا اور بپادہر میں محشر نہ ہوا

دل کو کیوں مرود احساس بنایا یا رب

حسرت اس کی ہے کہ یہ دل ہوا پتھر نہ ہوا

حیف اس خون کی قسمت جو مژہ سے ٹپکے

قطرۂ اشک ہوا ، بادۂ احمَر نہ ہوا

گر قضایائے جہاں قابلِ تغییر نہیں

کیوں نہ کہئے کہ مرے واسطے داورنہ ہوا

دل میں بیٹھا ہو کوئی اس سے تسلی تو نہیں

پردۂ دل میں جو ہے برسرِ منظر نہ ہوا

قہر آلود نظر میں نگہ لطف بھی تھی

لطف فرمانہ رہا جب وہ ستم گرنہ ہوا

باعثِ رنج ہے اس امید کا پیدا ہونا

یارب اس خرمنِ امید میں اخگر نہ ہوا

          غمزدہ

          سلیمان

(سید سليمان ندوی، اپریل ۱۹۱۷ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...