Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > جسٹس مولاناسید کرامت حسین

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

جسٹس مولاناسید کرامت حسین
ARI Id

1676046599977_54337767

Access

Open/Free Access

Pages

36

جسٹس مولانا سیّد کرامت حسین
جسٹس سید کرامت حسین کی ناگہانی موت گو عام دنیائے علم کے لئے کچھ کم باعث حسرت نہیں ہے لیکن ہمارے لئے اس سے زیادہ غم افروز ہے۔ مرحوم ہماری مجلس کے نائب صدر تھے اور ہمیشہ اپنے قیمتی مشوروں سے ہماری اعانت کرتے تھے۔ وہ خود بھی علمی مشاغل میں مصرف رہتے تھے، آخر عمر میں ’’المرآۃ‘‘ نام ایک ضخیم کتاب عورتوں کے حقوق و خصائص پر تصنیف فرما رہے تھے۔ ان کی سادگی اخلاص کار، ایثار اور خالص علمی خدمات ہمیشہ یادگار رہیں گی۔وہ لکھنؤ کے خاندان اجتہاد سے تھے، انہوں نے عربی کی تکمیل کے بعد انگریزی کی طرف توجہ کی اور لندن جاکر بیرسٹر ہوئے، انکو فلسفہ سے خاص ذوق تھا، جدید فلسفہ کے دقائق کو اردو میں لکھنے کی ابتداء انہیں سے ہوئی، سالمات کی اصطلاح انہیں کی بنائی ہوئی ہے، اردو میں افراد کاسیہ کے نام سے ان کا بڑا اچھا رسالہ ہے، وہ ہندوستان واپس آکر علی گڑھ کالج میں پہلے قانون کے پروفیسر ہوئے۔ اسی زمانہ میں مولانا شبلی سے ان کی ملاقات اور راہ و رسم ہوئی۔ عربی فلسفہ یعنی عربی فیلالوجی سے ان کو بڑی مناسبت تھی۔ المقدسہ کے نام سے عربی میں ان کا ایک رسالہ نہایت مفید ہے۔ آخر میں الہ آباد ہائیکورٹ میں جج ہوگئے تھے۔ اس سے الگ ہونے کے بعد لکھنؤ میں قیام کیا تھا۔ مسلم گرلز اسکول انہیں کے وقف سے وجود میں آیا۔
اس زمانہ میں دارالمصنفین نیا نیا قائم ہوا تھا ہمارے ارکان خاص میں سے مولوی عبدالماجد صاحب دریابادی اور مولوی عبدالباری صاحب ندوی، جدید فلسفہ کے عشاق میں تھے اور اس وقت ان کے نزدیک سب سے بڑا کام یہ تھا کہ اردو زبان میں جدید فلسفہ کی اہم کتابوں کو منتقل کیا جائے، اس بناء پر جسٹس سید کرامت حسین صاحب سے اس تجویز کو خاص تعلق تھا اور اسی لئے وہ دارالمصنفین کے نائب صدر منتخب ہوئے اور جب تک جیتے رہے وہ اس راہ میں ہماری رہنمائی کرتے رہے۔ 
ان سے ملنے کا اتفاق اس وقت ہوا جب وہ ہائی کورٹ کی ججی سے پنشن پاکر لکھنؤ میں مہاراجہ صاحب محمود آباد کے مکان قیصر باغ میں مقیم تھے۔ غالباً دو تین بار ملاقات ہوئی، دراز قد، گداز بدن، خشخاشی داڑھی، سانولا رنگ، پورے متین و سنجیدہ اور بھاری بھرکم۔ (سید سليمان ندوی،اپریل ۱۹۱۷ء)
 
اضافہ: جسٹس سید کرامت حسین مرحوم اپنی آخر عمر میں ’’عورت‘‘ کے متعلق ایک جامع و مبسوط تالیف کی تیاری میں مصروف تھے، چنانچہ جس روز کتاب کے آخری مسودات ختم ہوئے، اسی روز روح نے بھی تن سے مفارقت کی، کتاب کا نام المرأۃ ہے، ضخامت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مسودہ چھوٹی تقطیع پر مع اقتباسات و حوالہ جات کے دو ہزار صفحوں سے زاید پر ختم ہوا ہے، کتاب کی تقسیم دو مختلف حصوں میں ہے، حصہ اول کا نام الحجاب ہے، اس میں تمام تر مذہبی حیثیت سے یہ بتایا گیا ہے کہ پردہ کے کیا معنی ہیں، اور اسلام نے پردہ کی کیا تعریف قرار دی ہے، حصہ دوم میں عقلی و سائنٹفک اصول پر مردو عورت کے قواے دماغی و جسمانی میں موازنہ کیا گیا ہے اور دونوں کے حدود عمل کی تعین کی گئی ہے، مصنف مرحوم کے انتقال کے بعد یہ اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ جواہر ریزے ضایع ہوجائیں گے لیکن مقام مسرت یہ ہے کہ کتاب سر راجہ صاحب محمود آباد کے قبضہ میں آگئی ہے، گو یہ ضرور ہے کہ مسودات غیر مرتب حالت میں ہیں، اور اشاعت سے قبل ان کی کافی تصحیح و نظر ثانی کی ضرورت ہے، بلکہ شاید درمیان سے کچھ اجزاء غائب بھی ہیں، راجہ صاحب موصوف کی علم دوستی سے توقع ہے کہ کتاب کی اشاعت صرف اسی صورت میں پسند فرمائیں گے جو مصنف محترم کے پایۂ علمی کے شایانِ شان ہو۔ (سید سليمان ندوی، جون ۱۹۱۹ء)
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...