Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > نواب میر نورالحسن خان کلیمؔ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

نواب میر نورالحسن خان کلیمؔ
ARI Id

1676046599977_54337770

Access

Open/Free Access

Pages

37

رضی الدولہ نظام الملک نواب میر نورالحسن خان کلیم مرحوم

ولادت ۔ ۲۱ ؍ رجب ۱۲۷۸؁ء ۔ وفات ۔ ۸ ؍ محرم ۱۳۳۶؁ھ

            ترک اور مغل بادشاہوں کے عہد میں جو سادات عجم وقتاً فوقتاً ہندوستان آتے گئے، ان میں سادات بخاری کا خاندان بھی امتیاز خاص رکھتا ہے۔ سید جلال بخاری پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے بخارا چھوڑ کر سب سے پہلے سرزمین ہند میں قدم رکھا اور شہر ملتان میں اقامت اختیار کی، اس کے بعد چھہ پشتیں یہیں رشد و ہدایت اور تزکیہ و تعلیم میں گزریں، بہلول لودی کے عہد میں اس خاندان کے ایک اور بزرگ سید جلال نامی دلّی آئے، بادشاہ نے قنوج میں ان کو جاگیر عطا کی اور اس تقریب سے یہ خاندان دلی سے قنوج کو منتقل ہوگیا۔     قنوج میں پانچ پشتیں گزری تھیں کہ دلّی کا آفتاب اقبال لب بام آگیا، سید لطف علی، سید عریز اور سید اولاد علی خان انور جنگ، تین پشتیں حیدرآباد کے زمرۃ متوسلین میں داخل ہوکر حیدرآباد منتقل ہوگئیں، سید اولاد علی خان نے یہاں بڑا اقتدار حاصل کیا، ۵ لاکھ کے جاگیردار تھے، انورجنگ کے خطاب سے مخاطب تھے، آخر یہیں ۱۲۱۸؁ھ میں وفات پاکر مدفون ہوئے۔

            انورجنگ کے صاحبزادہ سید اولاد حسن صاحب ایک مستند فاضل اور جید عالم تھے، شاہ عبدالعزیز صاحب اور جناب شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی کے شاگرد اور جناب مولانا سید احمد صاحب بریلوی کے مرید تھے، حیدرآباد کی طلب کے باوجود دائرہ قناعت سے باہر نکلنا مناسب نہ سمجھا اور تمام عمر علم و دین کی خدمت میں فقیرانہ بسر کردی۔

            مولانا سید اولاد حسن صاحب قنوجی کا خلف الرشید وہ بزرگوار ہے، جس کو امیرالملک والا جاہ نواب سید صدیق حسن خان بھوپال کے نام سے ہم جانتے ہیں، جن کے فضل و کمال نے ہندوستان کی آبرو نہ صرف ہند بلکہ مصر و شام و قسطنطنیہ میں رکھ لی، نواب صاحب موصوف کے فرزند اکبر، نواب سید نورالحسن خان مرحوم تھے، جن کا تذکرہ ان صفحوں میں لکھنا ہے، نواب مرحوم کے نانا منشی جمال الدین خان مدارلمہام ریاست بھوپال تھے، ان کی مدارالمہامی کا زمانہ متعدد وجوہ کی بنا پر بھوپال کی تاریخ میں یادگار رہے گا، منشی صاحب موصوف کے دیگر احسانات کے علاوہ ہندوستان کے ارباب علم ان کی اس علم پروری کو بھول نہیں سکے کہ انھوں نے امام الہند حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی کے فضل و کمال کے اصلی خط و خال کو انہیں کی دی ہوئی عینک سے پہچانا، یعنی شاہ صاحب کی خیرالکتب (ماسٹرپیس) حجۃ اﷲ البالغۃ منشی صاحب موصوف ہی کے دست کرم سے پہلی بار ۱۲۸۶؁ھ میں مطبوع ہوکر شائع ہوئی۔

حالات: سید نورالحسن خان بتاریخ ۲۱؍ رجب ۱۲۷۸؁ھمیں بھوپال میں پیدا ہوئے، ابتدائی کتابیں اور دیگر علوم معقول و منقول کی تعلیم مختلف اساتذہ وقت سے حاصل کی، فن حدیث کا درس خود اپنے والد ماجد سے لیا، وہ طبعاً نہایت ذہین اور طباع تھے، عربی زبان کے فاضل اور ادب فارسی کے ماہر تھے، شعر و سخن سے طبعی ذوق تھا، عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں دادِ سخن دیتے تھے اور کلیم تخلص کرتے تھے، تصوف کی چاشنی ان کی طبیعت میں غالب تھی، شیخ وقت مولانا فضل رحمان صاحب گنج مراد آبادی سے وہ بیعت تھے اور خلافت کی اجازت بھی ان کو حاصل تھی، یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ایک شخص جو امارت اور دولت کے آغوش میں پل کر جوان ہوا تھا، کیونکر علم و معرفت کے فیضان کو وہ برقرار رکھ سکا۔

            منشی جمال الدین خان مرحوم کے انتقال کے بعد نواب شاہجہان بیگم والیہ بھوپال نے نانا کی جگہ نواسہ کی عنایت کرنی چاہی، لیکن ان کی بیباک اور لاابالی طبیعت نے اس قید کو گوارا نہ کیا، بھوپال کے گزشتہ عہد میں ان کی حیثیت ایک شاہزادہ کی تھی، سرکار بھوپال سے بارہ ہزار کی جاگیر عنایت تھی، بتقریب جشن تاج محل فرزند وحید رضی الدولہ نظام الملک میر محمد نورالحسن خان بہادر کا خطاب عطا فرما کر مہر طلائی عنایت کی، دربار میں ان کی چوتھی کرسی تھی اور اکثر وایسرائے و گورنر جنرل اور ایجنٹ گورنر جنرل کی مشایعت اور مزاج پرسی کی عزت ان کو دی جاتی تھی، شاہ اڈورڈ ہفتم، پرنس آف ویلز کی حیثیت سے جب کلکتہ میں رونق افروز ہوئے تھے تو ۲۴؍ دسمبر ۱۸۷۵؁ء کے دربار دارالحکومت میں یہ بھی بزمرۂ امراے ریاست شریک تھے ۱۸۷۷؁ء کے دربار قیصری کے موقع پر بھی درباری امراء کی حیثیت میں فرمانرواے بھوپال کے عقب میں ان کی کرسی تھی۔

            نواب شاہجہاں بیگم کی وفات کے بعد بھوپال ترک کرکے لکھنو میں اقامت، اختیار کرلی تھی، یہاں نہایت سادہ، اور خاموش زندگی بسر کرتے تھے، وہ ایک مدت سے مراق کے عارضہ میں مبتلا تھے، چند مہینوں سے ان کی ایک انگلی میں زخم نکل آیا تھا، ضعف بدرجہ غایت ہوگیا تھا، پچھلی دفعہ ستمبر ۱۷؁ء میں جب میں نے ان کو دیکھا تو ان کی ہئیت اس قدر بدل گئی تھی کہ میں ان کو پہچان نہ سکا، دو قدم چلنے میں ان کے پاؤں کو لغزش ہوتی تھی، آخر ۸؍ محرم ۱۳۳۶؁ھ کے شور ماتم میں اس عالم کو الوداع کہا، لیکن جیسا کہ انھوں نے خود کہا ہے، دنیاوی شمع حیات کے بجھ جانے سے شعلۂ حقیقت مردہ نہیں ہوتا۔

جلسہ تھا رات بھر کا کھلا کچھ نہ صبحدم

پروانے کیا ہوئے ہیں ، گیا ہے کدہر چراغ

روشن ہے اک چراغ دل عاشقان مدام

ہوتا ہے گل جہاں میں ، وقت سحر چراغ

         نواب مرحوم صورۃً نہایت وجیہ، خوش اندام، بالاقامت، سرخ رنگ، آفتابی چہرہ اور کشادہ چشم تھے، اخلاقاً نہایت سادہ، خاموش، منکسر المزاج، درویش دل اور فیاض طبع تھے، طمطراق اور نمائش ان کی طبیعت میں نہ تھی، تصوف کا مذاق ہر علم و فن پر غالب آگیا تھا، والد مرحوم کی وراثت میں ان کو جو کتب خانہ ملا، کتب تصوف کے علاوہ اس کی تمام تر نادر کتابیں جس نے مانگیں اس کے حوالہ کردیں، بداحتیاطی کے بعد جو کچھ بچ رہیں وہ ندوہ کے حصہ میں آئیں۔

تصنیفات: اپنے والد مرحوم کی طرح وہ بھی کثیر التصنیفات، عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں ان کی تصنیفات موجود ہیں، آخر میں تصوف کا رنگ تصنیفات میں بھی غالب آگیا تھا، تذکرۂ طور کلیم فارسی میں شعراء کا تذکرہ اچھا لکھا ہے، صرف تصوف میں ان کے ۶۰ رسالے ہیں، جن میں سے اکثر چھپ چکے ہیں۔

            اشعار فی البدیہہ نظم کرتے تھے، کلام برجستہ ہوتا تھا، چونکہ طبیعت لااُبالی اور بے پرواہ تھی کچھ کہا محفوظ نہ رکھا، ان کے ایک عزیز نے ان کے اردو اور فارسی کلام کا مجموعہ ’’عالم خیال‘‘ اور ’’واردات دل‘‘ کے نام سے جو ان کے پاس محفوظ رہ گیا تھا، زبردستی شائع کردیا ہے، اس مجموعہ میں اکثر غزلیں بڑے بڑے اساتذہ کی طرحون پر لکھی ہیں اور نہایت عمدگی سے کامیابی حاصل کی ہے، ایک مشہور طرح ہے، نظر آج اور ادہر آج، اس پر داغؔ و امیرؔ کی غزلیں ہیں، نواب مرحوم اس طرح میں کہتے ہیں اور صرف ایک قافیہ نظر کی پابندی کے ساتھ،

بیخود ہوں کچھ ایسا نہیں اپنی خبر آج

بیڈھب کسی بدمست نے پھینکی ہے نظر آج

منظور لبہانا ہے ، ستم کا ہے بہانہ

کچھ صلح کا پہلو ہے جو لڑتی ہے نظر آج

بسمل ہے ادہر شیخ ادہر رند قدح خوار

بے پر کی اڑاتا ہے ترا تیر نظر آج

اس شعر کو پڑھیئے:

اے جذبۂ دل کوئی تو آتا ہے وگرنہ

کیوں جانب درجاتی ہے پھرپھر کے نظر آج

یہ دو شعر کس قدر پر کیف ہیں،

دل میں بھی روشنی اسی کے جمال کی

ممنون جلوہ ، دیدۂ بیدار ہی نہیں

تعبیر کے ہزار طریقے ہیں عشق میں

ظالم سے یاں مراد ستمگار ہی نہیں                                

مرید ہوتے ہیں سب رند و پارسا اُسکے

بھری ہوئی شراب طہور آنکھوں میں                                  

دیوانگی بھی اپنی ہے تجویز عقل سے

دانائیوں سے پھنستے ہیں ، نادانیوں میں ہم

جا اے خیال غیر کہ فرصت یہاں نہیں

ہیں جلوہ نگاہ کی مہمانیوں میں ہم

یہ پوری غزل مرصع ہے، ردیف و قافیہ کو کتنا اچھا نباہا ہے،

حواس و ہوش دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ

چلا آتا ہے وہ مست شراب آہستہ آہستہ

ہوے نشہ میں آخر بے جاب آہستہ آہستہ

کہاں تک لے گیا دور شراب آہستہ آہستہ

غرض کیا تھی ترے جلوہ کو میرے دیدہ و دل سے

لگا لاتے ہیں یہ خانہ خراب آہستہ آہستہ

نہ پوچھو باز پرس عاشقان میدان محشر میں

سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ

پسینا بھی جو مدہوشی میں آیا تو یہی سمجھے

چھڑکتا ہے وہی گویا گلاب آہستہ آہستہ

ہمارا جذبۂ دل جب اسے بے تاب لاتا ہے

شکوہ حسن کہتا ہے ، جناب آہستہ آہستہ

ایک دو فارسی شعر بھی مرحوم کے سن لینے چاہئیں کہ یہی ان کی زندگی کی یادگاریں ہیں،

حسن بتاں ہو شر بامی کشد مرا

بے اختیار سوے خدامی کشد مرا

نیرنگ دلربائی اور انگہ کیند

گا ہے نباز ، گہ بادامی کشد مرا

وہ خانقاہ دمیکدہ بریک طریقہ ام

اُو بسکہ سوے خود ہمہ جامی کشد مرا                                 

نگار من بنگا ہے تو ان ادا کر دن

ہزار نکتہ کہ آمد بگفتگو محتاج

بشوق روے توصد گل شیندہ ام ایچمن

بذوق چشم تو گشتم بصد سبو محتاج                                  

زننگ و نام گزشتم بشوق محل تو

کہ بارقیب ندیمم بپاسبان گستاخ

فغان جوش بیانی کہ دراو بگہ دوست

ہمہ خموش نشستند ومن ہماں گستاخ                                  

گرفتہ آہم ازینجا بخاک افتادن

ادب زسایہ دیوار یارمی خیزد

سرور نشہ صدساغرِ شراب طہور

زگردشِ نگہ چشم یارمی خیزد                                  

اے در ہواے نگہت زلف دوتاے تو

آوارہ بوے مشک زتاتا آمدہ

اے ترجمان جنبش لبہاے لعل تو

بانگ رباب و زمزمۂ تار آمدہ

ای دل خنک مباش کہ اندر جہانِ عشق

سوزوگداز ، گرمیٔ بازار آمدہ

                                   

رباعی ہے:

ہمہ رابستۂ گیسوے پریشان داری

غمزۂ خاص بہرگبرو مسلمان داری

مثلے ہست کر الجنس الی الجنس یمیل

بہردل بردنِ ماصورت انسان داری

رحمہ اﷲ تعالےٰ و تعمذہ

( نومبر ۱۹۱۷ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...