Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > اکبر الہ آبادی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

اکبر الہ آبادی
ARI Id

1676046599977_54337798

Access

Open/Free Access

Pages

45

اکبر الٰہ آبادی

غمِ اکبر!

            محرم ۱۳۴۰؁ھ میں ہماری زبان کا زندہ دل شاعر اس دنیا سے چل بسا۔ اس گلستان نما خزاں آباد کی بہتر (۷۲) بہاریں اس کی آنکھوں نے دیکھیں، وہ اس وقت عالم وجود میں آیا تھا، جب ہندوستان انقلاب کی کروٹیں لے رہا تھا، اس لئے لامحالہ اس کی زبان سے وہی نالے بلند ہوئے جو قوموں کے انقلاب اور ملکوں کے تغیرات کی خبر دیتے ہیں۔ اس کے ضخیم دیوان کے اوراق ہماری سیاسی، اخلاقی، معاشرتی، تخیلی اور تعلیمی انقلابات کی تاریخ ہے۔ آئندہ نسلیں اس کے صفحات کو پڑھیں گی اور انیسویں بیسویں صدی کے اسلامی ہندوستان کی تصویر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گی۔ اس کی زندگی میں شاید ہی کوئی ایسا اہم واقعہ گزرا ہو جس کو اس نے اپنے کاشانۂ خیال میں جگہ نہ دی ہو۔ زبان خلق نے اس کو لسان العصر کا خطاب دیا اور اس سے بہتر لقب اس کے لئے دوسرا نہیں ہوسکتا تھا۔ اس میں تین صفتیں ایک ساتھ جمع تھیں، وہ فطری فلسفی، پاک مشرب صوفی اور زندہ دل شاعر تھا، اس کا نمک ظرافت ہمارے عیوب کے زخموں پر کسی قدر تیز چرکا لگاتا ہو، تاہم اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ درحقیقت نمک نہیں مرہم تھا۔ سرسید کے زمانہ سے لے کر اب تک تمام ہندوستان تمدن جدید کے حسن منظر پر والہ و شیدا تھا، لیکن صرف ایک اکبر کی زبان تھی جوبرملا اس کے عیوب و نقائص و اشگاف کرتی رہتی تھی۔

            وہ مکروہات عالم سے آزردہ اور حیات دنیا سے بیزار تھا۔ اشعار کے علاوہ اس کا شاید ہی کوئی خط اس بیان سے خالی ہو۔

            وہ اکثر اپنے خطوط میں مجھے لکھا کرتے تھے:

اوّلیت ناشدہ ختم است من آخر شدہ ام

آخر اس شکوہ سنج حیات کی حیات بھی آخر ہوگئی۔

            موحوم کو سب سے پہلے میں نے شاید ۱۹۰۹؁ء یا ۱۹۱۰؁ء میں مولانا شبلیؒ کے پاس دیکھا تھا، دُبلا پتلا بدن، چہرہ پر جھریاں، گال سُکڑے ہوئے، چشم گریاں، مگر دل خنداں، اس کے بعد لکھنؤ اور الہ آباد میں بار بار ملاقاتیں ہوئیں، جیسے جیسے ملتا گیا، ہنسوڑ شاعر کے بجائے دانائے فطرت حکیم کے رنگ میں وہ مجھ پر ظاہر ہوتا گیا۔ ایک دفعہ ایک خط میں مجھے لکھا تھا۔

اپنے غم خانہ کا دروازہ کرو بند اکبرؔ

اب نہیں کوئی سوا موت کے آنے والا

            اب اس کے غمِ خانہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا اور وہ موت جس کے آنے کی وہ راہ دیکھا کرتا تھا، آگئی۔

     بوڑھے اکبر! مبارک ہوکہ تیرے دل کی مراد پوری ہوگئی اور تجھے مسرت جاوید نصیب ہوئی۔ (سید سليمان ندوی، ستمبر ۱۹۲۱ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...