Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ایم ۔مہدی حسن

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ایم ۔مہدی حسن
ARI Id

1676046599977_54337799

Access

Open/Free Access

Pages

45

ایم مہدی حسن افادی الاقتصادی

            ماہ گزشتہ میں ایم مہدی حسن (افادی الاقتصادی) کا انتقال ادبیات اردو کے لئے ایک سخت حادثہ ہوا، مرحوم ایک سحرنگار ادیب اور ایک خاص طرزِ انشاء (اسٹائل) کے موجد تھے، معارف کے افق پر یہ برق ایک سے زائد بار چمکی اور یقین ہے کہ ناظرین کے دلوں میں ’’شبلی سوسائٹی اور معاصرانہ چشمک‘‘ کے لکھنے والے کی یاد ابھی بالکل تازہ ہوگی، مرحوم کو مولانا شبلی کی ذات سے گہرا تعلق تھا، اسی لئے وہ معارف کو بھی بہت عزیز رکھتے تھے اور دارالمصنفین کی مجلس انتظامی کے رکن تھے، ادب و انشاء کا ایسا ذوقِ سلیم رکھنے والے افراد مدتوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ۲۲؍ نومبر کو یہ ماہتاب کمال پیوند خاک ہوگیا۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

            گورگھ پور وطن تھا، مشرقی تعلیم کے ساتھ انگریزی تعلیم حاصل کی تھی۔ قرق امینی سے تحصیلداری تک بتدریج ترقی کی تھی۔ نہایت مہذب اور سنجیدہ تھے، مزاج میں نفاست اور لطافت حد درجہ تھی۔ (سید سليمان ندوی، دسمبر ۱۹۲۱ء)

 

            اردو کے لطیف انشا پرداز ایم مہدی حسن مرحوم (افادی الاقتصادی) کی یاد اب تک ان کے قدردانوں کے دلوں میں باقی ہوگی، مرحوم کی زندگی کی خالص خصوصیت لطافت پسندی تھی، جس سے ان کی زندگی کا کوئی شعبہ خالی نہ تھا، رہنا سہنا، پہنا اوڑھنا، پڑھنا لکھنا، سفر اور قیام، خیال اور تصور، تحریر اور تقریر ہر شے میں ان کی یہ خصوصیت نمایاں تھی، مولانا شبلی مرحوم کے لٹریچر کے وہ شیدا تھے، وہ ڈھونڈھ کر عمدہ سے عمدہ لفافے اور کاغذ مولانا کے پاس بھیجتے تھے کہ وہ ان پر ان کو خط لکھیں، جب دارالمصنفین سے کتابیں منگواتے تھے تو فرمائش ہوتی تھی کہ کتاب کی ایک ایک فرد دیکھ لی جائے کہ وہ داغدار نہ ہو، پیکٹ بھدا نہ بندھے، وہ شے لطیف اور جنس لطیف کے سچے ناقد، عاشق اور قدردان تھے، ان کی تحریر کا طرز بھی اسی انداز کا تھا، وہ ایک نہایت ہی لطیف طریقہ انشا کے اردو میں موجد تھے، جو پستی و اتبذال سے پاک اور شگفتگی اور رنگینی سے معمور ہوتا تھا، ان کے رنج کے خطوط بھی اسی عطر میں ڈوبے ہوتے تھے اور اپنے مراسلت رکھنے والوں سے بھی اسی اہتمام اور توجہ کے طالب رہتے تھے، ان کے مضامین ۱۸۹۸؁ء سے ۱۹۲۱؁ء تک متعدد رسائل میں طبع ہوتے رہے۔

            اﷲ تعالیٰ نے ان کو ایک رفیقۂ زندگی (بیوی) بھی انھیں کے خیال کے مطابق عطا کیا تھا اور یہ سب سے بڑی دولت ہے، جو ایک شوہر کو میسر آسکتی ہے، مرحوم نے ان کی تعلیم و تربیت اپنے ہی اصول پر کی تھی کہ وہ بالکل ان کا عکس آئینہ بن گئیں، انتہا یہ ہے کہ طریقۂ تحریر اور خط میں بھی اپنے شوہر مرحوم کی پوری تقلید انھوں نے کی، اب جب کبھی ان کا خط آتا ہے، دل کانپ جاتا ہے کہ الٰہی! مہدی مرحوم کی تحریر!

            مہدی بیگم نے اپنے شوہر کی زندگی میں ان کی بہترین خدمت کی ہوگی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے مرنے کے بعد جو خدمت انھوں نے اپنے شوہر کی انجام دی، وہ گذشتہ سے بدرجہا بہتر اور گران تر ہے، انھوں نے اپنے شوہر کے متفرق مضامین اور تحریروں کو اخبارات اور رسائل کے پرانے فائلوں سے نکال کر یکجا جمع کیا اور ان کا ایک مجموعہ نہایت صفائی، عمدگی اور حسن سلیقہ کے ساتھ بہترین کاغذ پر چھپوا کر شائع کیا ہے اور اس کا نام افادات مہدی رکھا ہے، مہدی مرحوم کی جسمانی اولادیں متعدد ہیں، مگر ان کی یہ روحانی اولاد ہمیشہ یادگار رہے گی۔

(سید سليمان ندوی، اکتوبر ۱۹۲۳ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...