Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا حکیم سید عبدالحئی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا حکیم سید عبدالحئی
ARI Id

1676046599977_54337807

Access

Open/Free Access

Pages

47

مولانا حکیم سید عبدالحیٔ صاحب

ناظم ندوۃ العلماء

            چند مہینوں سے معارف کا پہلا صفحہ علم و فن کے بزرگوں پر ماتم کے لئے مخصوص ہوگیا ہے، آج ہم دوسروں پر ماتم کرتے ہیں، کل دوسرے ہمارا ماتم کریں گے، دنیا کی یہ بزم ماتم اس فانی کائنات کے وجود کے ساتھ قائم ہے اور اسی کے ساتھ قائم رہے گی۔ یہ حوادث آباد عالم جس کو ہم تم قائم مستمر اور مسلسل جان رہے ہیں، ہر آن و ہر لمحہ اس طرح بدل رہا ہے کہ غور سے دیکھو تو معلوم ہوگا کہ جو نقشہ، جو کیفیت، جو صورت حال اس آن ہے وہ اس آن نہیں، ایک مستمر تغیر اور ایک مسلسل انقلاب جاری ہے اور پردہ دار کُلَّ یَوْمٍ ھُوَفیْ شَاَنٍ [الرحمن: ۲۹](ہر روز ایک نئے رنگ میں جلوہ گر ہے) لیکن باانیں ہمہ انقلاب و تغیر بظاہر اس کے قیام، استمرار اور تسلسل میں فرق نہیں آتا، سمندر کی لہریں ہر آن بدل رہی ہیں، مگر سمندر کی صورت میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا، صورتیں مٹتی جاتی ہیں، شکلیں فنا ہوتی جاتی ہیں، مگر اس آئینہ خانہ کی آبادی اور صورت گری میں کوئی فرق نہیں آتا۔

خدا جانے یہ دنیا جلوہ گاہِ ناز ہے کس کی

ہزاروں اٹھ گئے رونق وہی باقی ہے مجلس کی!

            دوسری فروری ۱۹۲۳؁ء کی شام کو اس مجلس کا جو ممبر اٹھا ہے، اس کا اس دنیا میں مجازی نام عبدالحئی تھا، مولانا حکیم سید عبدالحئی صاحب ناظم ندوۃ العلماء جدید کے اولین علماء تھے سادات رائے بریلی کے مشہور خانوادۂ علم و عمل سے تھے، جس کے بعض افراد سلاطین کے درباروں میں اور بعض فقر و تصوف کی خانقاہوں میں ممتاز تھے، بعض درس و تدریس کی چٹائیوں پر اور بعض تالیف و تصنیف کی مسندوں پر جلوہ آراء تھے، اس خاندان کے آخری رکن مولانا سید احمد صاحب شہید بریلوی تھے، جو سید صاحب کے نام سے عموماً مشہور ہیں اور جو مولانا اسمٰعیل صاحب شہید کے پیر تھے اور وہ اپنے عہد کے اس فرقہ کے جو ہندوستان میں اسلام کی غربت کی چارہ سازی کے لئے اٹھا تھا اور جو دینی اور سیاسی دونوں حیثیتوں سے مسلمانوں کو بیدار کرنا چاہتا تھا، امام اور امیرالمومنین تھے، بنگال سے لے کر پنجاب تک غدر سے پہلے مجاہدین کا جو سیلاب سکھوں کے مقابلہ کے لئے اٹھا تھا، اس کا منبع سید موصوف ہی کی ذات تھی، بالآخر سکھوں کے ایک معرکہ میں پٹھانوں کی بیوفائی سے اپنے رفقائے خاص کے ساتھ بہادری سے شہید ہوئے اور شکست خوردہ جماعت سرحد پار یاغِستان کی پہاڑیوں میں پناہ گزین ہوئی اور مجاہدین کے نام سے اب تک قائم ہے، چمرقند اس کا صدر مقام ہے اورسید صاحب کے دوبارہ ظہور کی منتظر ہے۔

            مولانا عبدالحئی مرحوم کے والد ماجد بھی ایک فاضل یگانہ تھے۔ شعر و سخن، تاریخ و سیر کے ماہر اور داستانِ کہن کی بولتی زبان تھے، ان کا سفینہ ایک یادگار چیز ہے اور ان کا تذکرہ ان کے عہد کا تاریخی سرمایہ ہے، مولانا عبدالحئی مرحوم کو یہ ذوقِ فن باپ ہی سے وراثت میں ملا تھا۔

            مولانا مرحوم نے ابتدائی تعلیم کے بعد لکھنؤ میں مولانا سید امیر علی صاحب ملیح آبادی، مولانا فتح محمد صاحب تائب اور مولانا محمد نعیم صاحب فرنگی محلی سے تعلیم پائی، حدیث شیخ حسین صاحب محدث یمنی سے بھوپال میں پڑھی، پھر کانپور آئے، اس وقت ندوۃ العلماء کا مرکز یہی شہر تھا، مولانا سید محمد علی صاحب ناظم تھے، ان کی نگاہ انتخاب فوراً اس جوہر قابل پر پڑی، وہ دن ہے اور ان کی وفات کا دن ہے کہ ندوہ ان کی خدمات سے کبھی محروم نہ رہا۔ ندوہ پر کیا کیا انقلابات آئے، کتنے ارکان بدلے، کتنے، منتظمین آئے اور کتنے گئے، کتنے معتمد اور ناظم عزل و نصب ہوئے، کتنے فتنے اور حوادث پیدا ہوئے، مگر ان تمام حالات و حوادث کے طوفان میں ثبات و استقلال کی صرف ایک چٹان تھی، جو اپنی جگہ پر تھی اور وہ مولانا سید عبدالحئی صاحب مرحوم کی ذات تھی۔

            باوجود شغلِ مطب فرائض ندوہ اور مذہبی رجوع عام کے وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھا کرتے تھے، اسلامی ہندوستان کے پورے ہزار سالہ عہد میں شعراء و مشائخ اور سلاطین کے سینکڑوں تذکرے اور تاریخیں لکھی گئیں، لیکن آزاد بلگرامی کی تصنیفات کو چھوڑ کر کوئی مختصر سا رسالہ بھی مستقل یہاں کے علماء اور فضلائے فن کے حالات میں نہیں لکھا گیا، مولانا مرحوم نے اس نقص کو محسوس کیا، اور پورے بیس برس اس کام پر انہوں نے صرف کئے اور اس عرصہ میں ہندوستان کی اس سرحد سے سرحد تک کوئی کتب خانہ چھوڑا جہاں ان کو ذوق طلب کھینچ کر نہ لے گیا ہو اور بالآخر تقریباً آٹھ دس جلدوں میں علماء ہند کی پوری سوانح عمریاں جمع کیں، اس کا مقدمہ لکھا، جس میں ہندوستان کے اسلامی علوم و فنون کی تاریخ مرتب کی، عربی میں ہندوستان کی اسلامی تاریخ کا ایک صفحہ بھی نہیں، جو کچھ معلوم ہے وہ انگریزی کی زبانی، مرحوم نے ہندوستان کی اسلامی تاریخ، سلاطین اسلام یہاں کے اسلامی تمدن، مساجد، مدارس، عمارات، شفاخانے اور دیگر خصوصیات پر ایک پوری کتاب تیار کی، جو دارالمصنفین کے اہتمام سے جامعہ ملیہ پریس میں چھپ رہی ہے (افسوس کہ یہ کتاب چھپ نہ سکی)۔

            مرحوم کے تذکرۂ شعرائے اردو کا ذکر اس سے پہلے ہی پرچہ میں آیا تھا اور اس کے چند صفحے بھی ناظرین کے نذر کئے گئے تھے، تذکرہ کا آخری باب یعنی متاخرین کا حصہ انہوں نے ہمارے پاس نہیں بھیجا تھا، معلوم نہیں کہ وہ ترتیب بھی پاسکا تھا یا نہیں، سورت کانفرنس کی خواہش پر انہوں نے گجرات کی علمی تاریخ لکھ کر پیش کی تھی، جو ایجوکیشنل کانفرنس کی طرف سے چھپ کر شائع ہوئی ہے، علاوہ ازیں چند اصلاحی رسائل، نور ایمان، اصلاح وغیرہ چھپے ہیں، طبیب العائلہ (فیملی ڈاکٹر) طب میں بھی ان کا ایک رسالہ اردو میں چھپا ہے۔

            مرحوم نے اپنی معنوی یادگاروں کے ساتھ چند ظاہری اولادیں بھی چھوڑی ہیں، ان کے بڑے صاحبزادے کی عمر ۲۴، ۲۵ کے قریب ہوگی، مگر باپ کو یہ دھن تھی کہ علم و فن کا کوئی شعبہ اس یادگار خاندان کی ملکیت سے باہر نہ چھوٹے، ندوہ میں عربی کتابیں انہیں پڑھوائیں، حدیث دیوبند بھیج کر، طب خود پڑھائی، علوم عربیہ سے فارغ کرکے ان کو انگریزی شروع کرائی، چند سال میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل ہوئی، پھر لکھنؤ میڈیکل کالج میں داخل کیا اور اب دو برس ان کے ختم تعلیم میں باقی ہیں۔ ۱؂ خدا سے دعا ہے کہ برادر عزیز کامیابی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کریں۔ علم و فن اور دین و ملت کی خدمت میں اپنے نامور باپ کے جانشین ثابت ہوں۔ (سید سليمان ندوی، فروری ۱۹۲۳ء)

 

 ۱؂       ان کا نام ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحب ہے، جو باپ کے بعد نواب علی حسن خان کے اخیر زمانہ میں ندوۃ العلماء کے ناظم مقرر ہوئے اور اب تک اسی عہدہ پر قائم ہیں، لکھنؤ میں ڈاکٹری کے پیشہ کے ساتھ صلاح و تقویٰ، زہد و ورع کے ساتھ معروف ہیں اور خاموشی کے ساتھ تبلیغ دین میں مصروف رہتے ہیں۔

            مرحوم کے دوسرے صاحبزادے جو دوسری بیوی سے ہیں اس وقت بالکل ہی کم سن تھے، اس لئے ان کا ذکر اس وقت نہ کیا جاسکا، آج وہ سید ابوالحسن علی ندوی کے نام سے مشہور روزگار ہیں اور تبلیغ دین کے کام میں پورے انہماک کے ساتھ مصروف ہیں۔ وہ تین سال سے حجاز میں دعوت کے کاموں میں لگے ہیں، امسال حجاز اور مصر کی فضائیں ان کی دعوت کے نغموں سے مسحور ہیں اور اسی مناسبت سے وہ ایک سال سے حجاز اور مصر میں مقیم ہیں، اﷲ تعالیٰ نے عربی تقریر و تحریر کی دولت ان کو عنایت فرمائی ہے جس کو وہ بحمداﷲ کہ دین کی راہ میں لٹارہے ہیں۔ (سید سليمان ندوی، یادِ رفتگان،کراچی: مجلس نشریات اسلام، ۱۹۳۸ء ، ص۵۰)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...