1676046599977_54337814
Open/Free Access
49
مولانا شاہ بدرالدین
ابھی گزشتہ مہینہ کے معارف میں ہم نے حضرت امیر شریعت صوبہ بہار اور امارت شرعیہ صوبہ بہار کا تذکرہ کیا تھا، خیال میں بھی نہ تھا کہ اس کے ایک ہی مہینہ کے بعد ہم کو حضرت ممدوح کی دائمی مفارقت کا ماتم کرنا پڑے گا، حضرت مولانا شاہ بدرالدین سجادہ پھلواری اس عہد کے جنید و شبلیؒ تھے، ان کا زہد و ورع، نزاعت و ارتقاء، علم و عمل، صورت و سیرت، ہر چیز نمونۂ سلف تھی، کم و بیش چالیس برس تک یہ علم و عرفان کی شمع صوبۂ بہار میں روشن رہی اور اس کی روشنی دور دور تک پھیلتی رہی، ان کے شب و روز کے چوبیس گھنٹے ذکر و فکر اور مطالعۂ کتب کے سوا اور مشاغل میں کمتر صرف ہوتے تھے، ان کی نشست گاہ ایک کتب خانہ تھی، ان کے چاروں طرف کتابوں کا انبار لگا رہتا تھا اور اس کے بیچ میں یہ زندہ کتب خانہ جلوہ فرما رہتا تھا، اس عہد میں یہی ایک ہستی تھی جو ظاہر و باطن، علم و معرفت، حقیقت و شریعت کا مجمع البحرین تھی اور جس سے ہزاروں اور لاکھوں علم و معرفت کے پیاسے سیراب ہوتے رہتے ہیں، پھلواری کا سجادہ اس بزرگ ذات کی رونق افروزی سے چشمۂ خورشید تھا، افسوس کہ یہ آفتاب اب ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا۔
وہ میرے والد مرحوم کے پیر بھائی تھے، دونوں مولانا شاہ علی حبیب صاحب قدس سرہ، سجادہ نشین پھلواری سے مستفید تھے، خاکسار کو آغاز عمر میں ۱۸۹۸ء میں پھلواری کی خانقاہ میں چند ماہ بسلسلۂ طلب علم والد ماجد مرحوم کے حسب ہدایت رہنے کا اتفاق ہوا تھا، اس وقت سے اخیر عمر تک اس ہیچمدان پر خاص نظر عنایت تھی، کبھی کبھی مکرمت ناموں سے سرفراز فرماتے، تو ’’اعزا خواں‘‘ کے الفاظ سے خطاب فرماتے، دارالمصنفین کی کتابوں کو پسند فرما کر قیمتاً منگواتے تھے اور معارف کو بھی اپنے مطالعہ سے سرفراز فرماتے تھے۔ (سید سليمان ندوی،ستمبر ۱۹۲۴ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |