1676046599977_54337815
Open/Free Access
50
آہ! ابو الحسنات ندوی
ہمارے لئے یہ کتنا غم ناک سانحہ ہے کہ آج ہمارا قلم اس کا ماتم کرے جس کا قلم کل تک قوم و ملت کا ماتم گسار تھا، ۱۲؍ ربیع الثانی ۱۳۴۳ھ کا واقعہ ہے کہ مولوی ابوالحسنات ندوی نے اس عالم آب و گل کو خیرباد کہا، وہ ہماری کوششوں اور ندوہ اور دارالمصنفین کی تعلیم و تربیت کی سب سے بڑی کمائی تھے، ان کی موت نے ہماری علمی مجلس کو وہ صدمہ پہنچایا ہے جس کی تلافی شاید آخر وقت تک نہ ہوسکے، اب جب دن آئے تھے کہ وہ ملک و قوم کی دماغی و ذہنی رہبری کرسکیں تو یک بیک دستِ قضانے ہم سے وہ ہمارا بڑا سرمایہ چھین لیا، جس سے ہم بڑی توقع رکھتے تھے۔
مولوی ابوالحسنات ایک نہایت ہی ذہین، طباع اور بلند حوصلہ نوجوان تھے، (پٹنہ کے ضلع میں اشرف پوران کا وطن تھا، ابتدائی تعلیم اپنے وطن ہی میں حاصل کی، مجھ سے ان کی ملاقات ۱۹۱۲ء میں الہلالؔ کلکتہ میں ہوئی، میں نے ان کو جوہر قابل پاکر خود پڑھانا شروع کیا، جب کلکتہ چھوڑا تو انہیں لکھنؤ ندوہ میں بھجوا دیا۔ جہاں انہوں نے چند سال تعلیم پائی) ندوہ کی تعلیم کے بعد ۱۹۱۸ء میں وہ دارالمصنفین آئے اور آخر دم تک ان کا رشتہ اس علمی مجلس سے بندھا رہا۔ یہاں رہ کہ انہوں نے جو علمی مضامین لکھے ہیں وہ تاریخی حیثیت سے ہمیشہ یادگار اور قابل مطالعہ رہیں گے، تحریک خلافت کے سلسلہ میں ان کے مضامین نے خاص اہمیت حاصل کرلی تھی اور وہ ’’ترک و خلافت‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوگئے تھے، اس کے علاوہ ہندوستان کے اسلامی مدارس پر ایک پُراز معلومات مبسوط مضمون لکھا تھا، جسے وکیل امرتسر شائع کرنے والا ہے، اس کے ساتھ ہی اورنگ زیب کے خطوط کی ترتیب کا کام شروع کررہے تھے، لیکن پانچ سال کی مسلسل علالت نے ان کی امیدوں کے بر آنے کا موقع نہ دیا اور وہ اپنے خیالات اپنے ساتھ لے گئے، زمانۂ علالت ہی میں انہوں نے جمال الدین افغانی کی سوانح عمری کا مواد بھی جمع کرنا شروع کیا تھا، مگر افسوس کہ زمانہ نے ان کو کچھ کرنے کی مہلت نہ دی، انہوں نے شاعرانہ طبیعت پائی تھی، فارسی کے ساتھ خاص ذوق تھا اور ان کی فارسی و اردو کی غزلیں قصائد و ترکیب بند عرصہ تک پڑھنے والوں کو گرم رکھیں گے۔ مرحوم نے اپنی طالب علمی کے زمانہ میں اپنے بعض فارسی قصیدے حضرۃ الاستاذ کی خدمت میں بھیجے تھے، جن کو دیکھ کر مولانا نے مرحوم کی استعداد کی تعریف کی تھی، جن کا ذکر مکاتب شبلی میں ہے۔
مرحوم پانچ سال سے مسلسل بیمار تھے، ابتداء میں پاؤں میں درد ہوا، وہ درد زخم ہوا اور زخم نے ناسور کی صورت اختیار کرلی۔ اس کے ساتھ ہی بخار رہنے لگا۔ علاج کے لئے انہوں نے کلکتہ، لکھنؤ وغیرہ کے طویل سفر کئے، اسی سلسلہ میں وہ راجگیر (بہار) کے پہاڑی مقام پر گئے ہوئے تھے کہ وہاں کی خاک نے اس قیمتی گوہر کو ۱۲، ربیع الثانی کو ہمیشہ کے لئے اپنی آغوش میں لے لیا، ان کا وطن بہار تھا، وہیں پیدا ہوئے اور وہیں سپرد خاک بھی، خاندان میں صرف ایک بھائی ہیں، خداوند تعالیٰ مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے کہ ہمارے پاس اس دعا کے سوا اور کیا ہے۔ (سید سليمان ندوی، نومبر ۱۹۲۴ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |