Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالباری فرنگی محلی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالباری فرنگی محلی
ARI Id

1676046599977_54337821

Access

Open/Free Access

Pages

52

فرنگی محلی، عبدالباری، مولانا

فرنگی محل کی آخری شمع بجھ گئی!
آہ! مولانا عبدالباری!
وَمَا کَان قَیْس’‘ ھَلْکُہٗ ھَلْکُ وَاحِدٍ
قیس کا مرنا صرف ایک آدمی کا مرنا نہیں ہے
وَلٰکِنَّہُ بُنْیَانُ قَوْمٍ تَھَدَّمَا
بلکہ پوری قوم کی بنیاد کا گر جانا ہے۔
دریغا! کہ آج قلم کو اس مجسمۂ علم و اخلاص کا ماتم کرنا ہے جس کے وصف و مدح کا فرض اس کو بارہا ادا کرنا پڑا ہے، دارالعلم و العمل فرنگی محل کی کہنہ عمارتوں میں فضل و کمال، ایمان و معرفت اور زہد و ورع کی جو آخری شمع جل رہی تھی وہ ۱۹، ۲۰ کی درمیانی شب میں ہمیشہ کے لئے بجھ گئی۔
فرنگی محل کے متاخرین میں حضرت استاذ استاذی مولانا عبدالحئی کے بعد مولانا عبدالباری کی ذات نمایاں ہوئی تھی، جو بزرگ اجداد کی بہت سی روایایت کی حامل تھی، ارشاد و ہدایت، وعظ و نصیحت، درس و تدریس، درس و تدریس، تلاش و مطالعہ، تحریر و تالیف ان کے روزانہ مشاغل تھے، ان دینی و علمی مناقب کے ساتھ دین و ملت کی راہ میں ان کا جان فروشانہ جذبہ اور مجاہدانہ اغلاص ہمرنگ شہدا تھا۔
ذاتی اخلاق، جو دوسخا، تواضع و انکسار، علم کی عزت، صداقت، حق گوئی ان کے اوصاف گراں مایہ تھے، وہ بے کسوں کے ملجا، مسافروں کے ماویٰ اور تنگدستوں کے دستگیر تھے، عبادت گزار، شب زندہ دار اور حق کے طلبگار تھے۔ ہندوستان میں ان کی ذات ذی اقتدار علماء کی حیثیت سے اس وقت فرد تھی، جدید تعلیم یافتوں کی سیاسی جدوجہد کو مذہبی تحریک بنادینا یقینا انہیں کا کارنامہ شمار کیا جائے گا۔ اس لئے ان کی یہ غیر متوقع موت صرف فرنگی محل کا نہیں بلکہ اسلام کا سانحہ ہے اور بنابریں ان کی جواں مرگی ہمیشہ کے لئے تاریخ اسلام کا ایک اندوہناک واقعہ شمار ہوگا۔
شمع بجھ گئی، مگر اس کے دھویں کی سیاہی سے جریدۂ عالم پر یہ ہمیشہ لکھا نظر آئے گا:ـ
رفتم و ازرفتن من عالمے تاریک شد
من مگر شمعم چورفتم بزم برہم ساختم
مولانامرحوم کا سن غالباً ۴۷ کے قریب ہوگا، مولانا عبدالحئی صاحب کے شاگرد خاص مولانا عین القضاۃ صاحبؒ سے لکھنؤ میں تحصیل کی، پھر حجاز گئے، وہاں حدیث کی سند لی، ملک شام کا سفر کیا، علماء سے فیض اٹھایا، مدینہ منورہ سے ہندوستان واپس آئے اور خدام کعبہ میں پر جوش شرکت کی، پھر مجلس خلافت اور جمعیۃ العلماء کی تاسیس میں حصہ لیا۔ ترک موالات کے علمبردار بنے۔
دوسری طرف فرنگی محل میں مدرسۂ نظامیہ کے نام سے ایک باقاعدہ مدرسۂ عربیہ کی بنیاد ڈالی اور اس کو ایک باقاعدہ مدرسہ بنایا، جس سے متعدد اصحاب فکر اور اہل قلم طلبہ پیدا ہوئے۔
انہوں نے اپنے بعد اپنی تالیفات و تصنیفات کی فہرست یادگار چھوڑی ہے، وہ فقہ حنفی کے پرجوش حامی تھے اور ان کی قلمی و علمی کوششیں زیادہ تر اسی کے متعلق صرف ہوتی رہیں، ان کی چھوٹی بڑی تصنیفات و رسائل کی فہرست ۱۰۰ کے قریب ہوگی، جن میں سب سے زیادہ مفید و کارآمد ان کی اردو تفسیر تھی، جو افسوس کہ ناتمام رہی، امام محمد کی سیرکبیر کا کام بھی ان کے پیش نظر تھا، علم حدیث میں بھی ان کے ایک دو رسالے ہیں۔
افسوس کہ یہ چشمۂ فیض اب ہمیشہ کے لئے خشک ہوگیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحوم کی خدمت میں نیاز مند، ندوہ کے ایک خادم کی حیثیت سے اس وقت سے تھا، جب وہ حجاز سے لوٹ کر آئے تھے اور مولانا شبلی مرحوم سے کبھی کبھی ملنے آیا کرتے تھے، یہ واقعہ ۱۹۰۸؁ء یا اس کے پس و پیش کا ہوگا، اس کے بعد وہ ندوہ کے رکن منتخب ہوئے تو اور تعلق پیدا ہوا․․․․․․ مگر ایک دو سال کے بعد ۱۹۱۴؁ء میں استعفا دے دیا، طرابلس کی جنگ کے زمانہ میں شوکت علی مرحوم نے جب خدام کعبہ کی مجلس کی بنیاد ڈالی اور وہ اس کے صدر ہوئے اور یہیں سے ان کی سیاسیات کا ذوق بڑھنا شروع ہوا تو قرب اور بڑھا، ۱۹۱۳؁ء میں ہنگامۂ مسجد کانپور میں محمد علی و شوکت علی اور راجہ صاحب محمودآباد اور سرعلی امام اور لارڈہارڈنگ کی گفت و شنید میں مسلمانوں کی مذہبی نمائندگی کا فریضہ انہیں نے انجام دیا، اس کے بعد جب گزشتہ بڑی جنگ کے خاتمہ میں ترکی اور ملک شام و عراق و حجاز کے حصے بخرے ہونے لگے تو اس زمانہ میں مشہور پین اسلامی مصنف مشیر حسین قدوائی لندن میں تھے، مولانا سے ان کا سلسلۂ نیاز قدیم تھا، وہ لندن سے مولانا کو اسلامی سیاسیات کی مختلف تجویزیں لکھ لکھ کر بھیجا کرتے تھے اور ادھر محمد علی شوکت علی صاحب نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی، ان دوگونہ تعلقات کی بنا پر مولانا اسلامی سیاسیات میں بیش ازبیش بڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ ۱۹۱۸؁ء میں لکھنؤ میں ترکی اور خلافت کے مسائل پر غور کرنے کے لئے ایک بڑی نمائندہ کانفرس جس میں تمام ہندوستان کے اکابر علماء اور زعماء اور عام مسلمان جمع ہوئے تھے، اس دردناک سانحہ کے وقت بھی اس سے زیادہ دردناک سانحہ یہ تھا کہ لکھنؤ کے رہنما متحد نہ تھے، مولانا عبدالباری ایک طرف اور چودھری خلیق الزماں اور بعض جدید تعلیم یافتہ لیڈر دوسری طرف نبرد آزما تھے، کانفرنس کا وقت آگیا۔ رفاہِ عام میں مجمع ہوگیا، نمائندے اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے، دونوں طرف دو صدر، ایک طرف سے مسٹر فضل الحق صاحب کلکتہ اور دوسری طرف سیٹھ ابراہیم پونہ صدارت کے منتظر تھے، مگر گتھی سلجھتی نہ تھی، یہاں تک کہ کانفرنس شروع ہوگئی، بے مزہ تقریروں اور تفرقہ انداز گفتگوؤں میں صبح سے شام ہوگئی، یہاں تک کہ جلسہ اخیر عصر کو ختم کیا جارہا تھا کہ مولوی سید ظہور احمد صاحب مرحوم وکیل و سکریٹری مسلم لیگ نے مجھ سے کہ اسٹیج پر صدر کے قریب بیٹھا یہ تماشا دیکھ رہا تھا رسمی طور سے پوچھا کہ آپ تو کچھ نہیں کہیں گے، میں نے کہا اگر آپ اجازت دیں۔ صدر سیٹھ ابراہیم صاحب نے جن سے میری پونہ کی ملاقات تھی، خوشی سے اجازت دی، میں کھڑا ہوگیا، اﷲ تعالیٰ کا عجیب فضل و کرم کہ خدا جانے مجھ میں کہاں سے ایسی موثر گویائی آگئی کہ ۱۵ منٹ کی تقریر میں صدر سے پائیں گریہ وبکاکا کا محشر بپا ہوگیا اور بگڑا ہوا جلسہ دم کے دم میں بن گیا، مولانا کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور برملا فرمایا کہ آکر ایک عالم ہی کی سیاست کامیاب ہوئی اور یہی واقعہ مولانا کے اس عاجز کے ساتھ حسن طن کا سبب بن گیا، بڑی نوازش فرمائی، ۱۹۱۹؁ء کے دسمبر میں امرتسر کی خلافت کانفرنس میں جب یورپ کو وفد جانا طے ہوا تو میرا نام علماء کے نمائندہ کی حیثیت سے داخل فرمایا اور انہوں نے اپنی بہت سی تجاویز کے ساتھ یورپ کو روانہ فرمایا، وفد کو پہنچانے بمبئی تک آئے، اس موقع پر بمبئی میں جو شاندار استقبال ہوا وہ بھی یادگار تھا، چند اسٹیشن پہلے سے ٹرین سے اتار کر ہم لوگ اسپیشل سے بمبئی لائے گئے، بہرحال اس سفر میں ہفتہ بھر کی رودادِ سفر مولانا کو لکھتے رہنا میرے سپرد تھا، چنانچہ اس خدمت کو برابر انجام دیتا رہا۔ اور وہ خطوط ہندوستان بھر کے اخباروں میں اس زمانہ میں چھپے تھے، واپسی پر مولانا نے اپنے مدرسۂ نظامیہ کی طرف سے ایک مجمع میں مجھے ایڈریس پیش کردیا، اخباروں میں یہ اعلان کیا کہ اب ان کی واپسی کے بعد ملت کی خدمت ان کے سپرد کرکے سیاسیات سے دست کش ہوتے ہیں، مولانا کی یہ شفقت اور اخلاص وفد حجاز تک قائم رہا۔ حجاز کے مسائل میں ان کی رائے دوسری تھی، اس سلسلہ میں ان سے اختلاف رائے ہوا، تاہم ذاتی تعلق اخیر وقت تک قائم رہے۔ (سید سليمان ندوی، جنوری ۱۹۲۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...