Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالرحمن نگرامی ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالرحمن نگرامی ندوی
ARI Id

1676046599977_54337823

Access

Open/Free Access

Pages

56

ندوی، عبدالرحمان نگرامی، مولانا
ہماری جماعت کا لعل شبِ چراغ گم ہوگیا
آہ! عبدالرحمانؔ
اس دو سال کے عرصہ میں ندوۃ العلماء نے اپنے کیا کیا گوہر آبدار کھوئے! ابوالحسنات مرحوم، مفتی یوسف مرحوم اور آہ کس زبان سے کہیں عبدالرحمان مرحوم! دارالعلوم ندوہ نے اپنی تیس برس کی مدت میں جتنے کارآمد اور علم دین کے خادم پیدا کئے، یقین کے ساتھ کہتاہوں کہ عبدالرحمان ان سب سے بہتر تھا، اﷲ تعالیٰ نے اس کی ذات میں علم و عمل کی ساری خوبیاں جمع کردیں تھیں۔
لیْسَ مِنَ اﷲ بمُسْتَنکر

اَنْ یَجْمَعَ الْعَالَمَ فِی وَاحد
خدا سے یہ محال نہیں، کہ دنیا کو ایک ذات میں جمع کردے۔
مرحوم کا وطن نگرام تھا، جو ضلع لکھنؤ کا ایک مردم خیز قصبہ ہے یہاں کے انصاریوں کا خاندان مدت سے اپنے آس پاس اور اطراف اودھ میں علم و ارشاد کی مسند ہے، مرحوم اسی خاندان کے فرزند تھے، وفات کے وقت ستائیس سال کی عمر تھی، گویا ۱۹۰۷؁ء کی پیدائش ہوگی، ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے اعزہ سے حاصل کی غالباً ۱۹۰۷؁ء میں وہ دارالعلوم میں داخل ہوئے، اسوقت میں مدرسہ میں ادبیات کا معلم تھا اور مرحوم نے کچھ ابتدائی کتابیں مجھ سے پڑھیں تھیں، مرحوم کا بچپن آنکھوں کے سامنے ہے، اسی زمانہ سے جب وہ مدرسہ میں بہت چھوٹے سے تھے، وہ اچھی صاف اور سلجھی ہوئی تقریر کرتے تھے، چھوٹی سی عمر اور چھوٹے سے قد میں ان کی یہ اداسی دل فریب تھی کہ وہ جلسوں میں تماشہ بن جاتے تھے۔ مولانا شبلی مرحوم جو اچھی استعداد اور قابل جوہر کے ہمیشہ جویاں رہتے تھے وہ خاص طور سے مرحوم کی تربیت سے دلچسپی رکھتے تھے، ایک دو دفعہ جلسوں میں وہ اپنے ساتھ ان کو لے کر گئے، مدرسہ سرائے میر (اعظم گڑھ) کے پہلے یا دوسرے اجلاس میں مولانا جب ان کے ساتھ لائے تو اس بچہ کی زبان سے ایسے اچھے خیالات اور ایسی سنجیدہ تقریر سن کر لوگ حیرت میں آگئے۔
۱۹۰۸؁ء میں آریوں نے شدھی کا پہلا فتنہ اٹھایا تھا، مولانا شبلی مرحوم اس سے بے حد متاثر ہوئے تھے، گروکل کے اصول پر مولانا نے خدام الدین کی ایک جماعت بنائی تھی، جس میں ان طلبہ کو داخل کیا تھا، جن کے والدین یا اولیاء اپنے بچہ کو صرف مذہب کی خدمت کے لیے وقف کرسکیں، یہ بچے سادہ پہننے، سادہ کھانے اور سادہ رہنے کا عہد کرتے تھے اور زمین پر سوتے تھے، اس جماعت میں جو طلبہ داخل ہوئے ان میں ایک یہ مرحوم بھی تھے، یہ جماعت مٹ گئی، اس کا بانی رخصت ہوگیا، حالات بدل گئے، مگر عبدالرحمن مرحوم نے اس حیثیت سے جو عہد کیا تھا، اس کو اخیر تک پورا کیا۔
مرحوم نے سات آٹھ برس دارالعلوم میں تعلیم حاصل کی، غالباً ۱۹۱۵؁ء میں انہوں نے مدرسہ سے تعلیم کی فراغت حاصل کی ،اس سے ایک سال پہلے دیوبند جاکر مولانا محمود حسن صاحب سے بیعت کی اور اجازت حاصل کی، ۱۹۱۴؁ء میں مولانا شبلی مرحوم نے جو کام چھوڑے تھے ان کے متوسلین اور شاگردوں نے ان کا بار اپنے ناآزمودہ کار کندھوں پر اٹھالیا، ان میں ایک دارالمصنفین کا قیام اور دوسرا مدرسۃ الاصلاح سرائے میر کا چلانا تھا، میرے ساتھ مولانا مسعود علی اور مولانا عبدالسلام ندوی نے دارالمصنفین کا کام سنبھالا اور دوسری طرف مولانا حمید الدین صاحب کے زیر ہدایت مولانا شبلی متکلم ندوی نے مدرسہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا، تعلیم سے فارغ ہوکر مرحوم بھی وابستگانِ شبلی کی جماعت میں داخل ہوگئے اور چار برس تک مدرسہ سرائے میر میں رہ کر درس و تدریس کا فرض انجام دیا اور مدرسہ میں زیر تربیت چند اچھے لڑکے ۱؂ پیدا کئے، اس اثناء میں اضلاع مشرقی میں جونپور سے گورکھ پور تک ان کی اصلاحی تقریریں مقبول ہورہی تھیں، اسی زمانہ میں حضرت مولانا حمیدالدین صاحب کے زیرسایہ قرآن پاک کا فیض حاصل کیا۔
ترک موالات کے شباب میں جب سرکاری مدارس توڑے جارہے تھے، مدرسہ عالیہ کلکتہ پر چھاپا مارا گیا اور اس کی جگہ مولانا ابوالکلام صاحب نے مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد کلکتہ قائم کیا، اس وقت مرحوم سرائے میر سے کلکتہ گئے اور مدرسۂ اسلامیہ جامع کلکتہ کی صدری مدرسی کا عہدہ قبول کیا، مولانا ابوالکلام قید ہوئے، مدرسہ کی مالی حالت جیسی تھی وہ ظاہر ہے، اس مدرسہ کو مرحوم نے چند سال تک جس ایثار، جس محنت، جس جفاکشی سے چلایا وہ حد درجہ حیرت انگیز ہے، مدرسین کو سنبھالنا، لڑکوں کو تسکین دینا اور پھر شہر میں اس کا اثر قائم رکھنا معمولی بات نہ تھی، اس تمام مدت میں شاید ہی ان کو اپنے ذاتی معاوضہ کی فکر ہوئی یا ان کو وہ ہر ماہ مل سکا ہو، اس راہ میں کئی کئی وقت ان پر ایسے گزرے کہ فاقوں تک نوبت پہنچ گئی، لیکن پیشانی پربل تک نہ پڑنے دیا۔
کلکتہ میں اس زمانہ میں شہر خلافت کمیٹی کے وہ صدر منتخب ہوئے اور پورے شہر کو اپنے اخلاص، ایثار و محبت سے گرویدہ بنالیا، خلافت کانفرنس کلکتہ میں وہ صدر استقبالیہ بنائے گئے اور کامیاب خدمات انجام دیں، جن کی یاد اب تک اہل کلکتہ کے دل میں ہے۔ ۱۰، مارچ کو جب میری زبانی کلکتہ میں ان کی وفات کی خبر پہنچی تو وہاں کے قومی کارکنوں کو سخت صدمہ ہوا وہ متوقع تھے کہ اجلاس جمعیۃ العلماء کے موقع پر میرے ساتھ وہ مرحوم بھی ہوں گے اور جب ان کو معلوم ہوا کہ میرے ساتھ وہ نہیں بلکہ ان کی حسرتوں کی نعش آئی ہے توچہروں پر ایک عجیب عالم طاری ہوگیا۔
مدرسۂ اسلامیہ کلکتہ کے بانیوں نے جب مدرسہ کو بند کرنے کا تہیّہ کرلیا، تو ان کے دوستوں نے ان کو وہاں سے ہٹالینا مناسب سمجھا، چنانچہ وہ میرے اصرار پر کلکتہ سے لکھنؤ آئے اور ۱۹۲۳؁ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ادب و تفسیر کی خدمت ان کے سپرد کی گئی، جس کو انہوں نے آخر تک انجام دیا۔
ان کو وجع مفاصل کی اکثر شکایت رہتی تھی، مئی ۱۹۲۵؁ء میں وہ اس عارضہ میں بیمار تھے اور نقیہ ہوگئے تھے، اس وقت سے جو ان کی علالت کا سلسلہ شروع ہوا وہ ۶؍ مارچ ۱۹۲۶؁ء کو ختم ہوا، بیچ بیچ میں تندرست بھی ہوگئے، مگر مسلسل صحت قائم نہیں رہی، ستمبر ۱۹۲۵؁ء میں ان کو معدہ و جگر کی خرابی کی بیماری ہوئی اور یہ ممتد رہی نومبر میں کچھ افاقہ ہوا تو وہ انبالہ ندوۃ العلماء کے جلسہ میں گئے، وہاں سے واپس آکر پھر طبعیت خراب ہوئی، مدرسہ سے رخصت لے کر مکان گئے اور اس کے بعد وہ اکثر رخصت ہی پر رہے، بہرانچ میں ان کے بعض اعزہ مطب کرتے ہیں، ان کے اصرار پر وہ بغرض علاج بہرانچ گئے اور وہاں اصل مرض میں افاقہ ہوتا رہا کہ وفعتہ ان کے داہنے پاؤں میں سرطانی پھوڑا نمودار ہوا۔ جس پر ۵؍ مارچ ۱۹۲۶؁ء کو عمل جراحی کیا گیا، جو بظاہر کامیاب ہوا، یہ پھوڑا اس قدر کم اہم سمجھاگیا کہ ان کے وطن میں بھی اطلاع کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
۵؍ مارچ ۱۹۲۶؁ء کا دن گزر کر رات کو کچھ گھبراہٹ کے آثار ظاہر ہوئے، مگر صبر و استقلال کے اس مجسمہ نے تیمارداروں کو خود مطمئن کردیا، ۶؍ مارچ ۱۹۲۶؁ء کو صبح کو نماز فجر کے وقت نبض جب غیر منتظم پائی گئی، تو ان کے طبیب و معالج و رفیق و عزیز حکیم صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اس وقت انہوں نے جو جوابات دیئے وہ ایسے شخص کی زبان سے جس کی حالت باکل غیر ہورہی ہو، حد درجہ حیرت انگیز تھے، اس کے بعد خود وضو کیا اور نماز فجر ادا کی، ادھر سلام پھیرا اور ادھر ایک ہچکی کے ساتھ عبدالرحمان، رحمان کے پاس پہنچ گیا، اس دن کو شام کو بعد مغرب لکھنؤ سے دارالمصنفین خبر پہنچی، یہ تار برقی نہ تھی ایک بجلی تھی جو دل پر گری اور تمناؤں کے خرمن کو خاک و سیاہ کرگئی۔
مرحوم کی وفات سے نوجوان طبقۂ علماء میں جس رکن کی کمی ہوئی اور ہندوستان میں مذہبی، اصلاحی تحریک کو جو صدمہ پہنچا، اس کا یقین ان کو کس طرح دلائیں جو اس سے واقف نہ تھے، وہ ان لوگوں میں نہ تھا، جو مسائل مذہبی اور ضروریات زمانہ میں تطبیق دیتے وقت مذہب کا پلہ ہلکا کر دیتے ہیں، وہ ہمیشہ سے ایک خاموش مذہبی آدمی تھا، تقویٰ اور دینداری اسکے فضل و کمال کا زیور تھا، اکثر وہ لوگ جو اصلاحی خیالات رکھتے ہیں عملاً مذہب میں کمزور ہوتے ہیں مگر اس کی ذات خشک و ترکا مجموعہ تھی، وہ حددرجہ مذہبی اور حد درجہ مصلحانہ تھا۔
اس کی تحریر و تقریر کا ایک ایک حرف مذہبی و اخلاقی اصلاحات کا دفتر ہے۔
اس کے قلمی خیالات کا پہلا عکس مقالہ خواتین اسلام ہے، اس کو رسالہ کی صورت میں ہرہانئس سرکار عالیہ بھوپال کے اعلان پر غالباً ۱۹۱۸؁ء میں مرحوم نے لکھا تھا، یہ رسالہ ۵۷ صفحوں کا اپنے موضوع میں منفرد ہے، اس میں آیات و احادیث کی روشنی میں عورتوں کے فضائل، مناقب، حقوق، فرائض اور اولیات بیان کئے ہیں، اتفاق سے میرا بھوپال جانا ہوا، تو معلوم ہوا کہ ہرہائنس نے اس کو پسند فرمایا اور دیکھا کہ اپنے دستِ خاص سے جابجا اس پر بعض مباحث کے متعلق مزید تفصیل چاہی ہے، میں اس رسالہ کو بھوپال سے اپنے ساتھ لیتا آیا اور جون جولائی ۱۹۲۱؁ء کے معارف میں تھوڑی تمہید کے ساتھ شائع کیا۔
سرائے میر کے قیام کے زمانہ میں مدرسہ کے طلبہ کے لئے حدیث و ادب کی تعلیم کے لئے لآلیٰ الحکم نام سے مرحوم نے ایک رسالہ لکھا اور وہ چھپا، اس میں وہ حدیثیں یکجاکی گئی ہیں جو معنوی تعلیم کے علاوہ لفظی حیثیت سے بھی ادب عرب کی جان ہیں، انہی دنوں میں میری تالیف لغات جدیدہ کو جس کی ترتیب عربی سے اردو ہے، انہوں نے بدل کر اردو سے عربی کرکے میرے پاس بھیجا، وہ مسودہ اب تک غیر مطبوع ہے، اسی زمانہ میں عیداضحی کا ایک عربی اردو خطبہ لکھا تھا۔
قیام کلکتہ کے زمانے میں سیاسی مضامین مختلف مذہبی اور فرضی افسانوں کی صورت میں لکھے، اور اخبارات میں شائع ہوتے رہے، اس قسم کے مضامین کا ایک مجموعہ ’’درس آزادی‘‘ کے نام سے لاہور کے ایک تاجر کتب نے شائع کیا ہے، ’’عدم تشدد کی فتح‘‘ ایک اور سیاسی رسالہ کا عنوان ہے، جو کلکتہ میں لکھا گیا تھا، خلافت کانفرنس کلکتہ کا استقبالیہ خطبۂ صدارت بھی مطبوع ہے، انجمن تبلیغ الاسلام نگرام کے صدر کی حیثیت سے یہ سن کر کہ آریہ سیتارتھ پرکاش کو عراق عرب میں شائع کرنا چاہتے ہیں، مرحوم نے مولانا ثناء اﷲ امرتسری کی حق پرکاش کا حشو وزواید نکال کر عربی میں ترجمہ کیا۔ اور اس کا نام نورالحق رکھا اور وہ زیر طبع ہے، ندوہ میں میری فرمائش سے عربی میں منطق پر ابتدائی رسالہ لکھا، عزیز مرحوم کے اصلاحی خیالات کا سب سے بڑا مظہر سچ لکھنؤ تھا، جس کے وہ شریک انشاء تھے، دو سال سے ہر ہفتہ وہ کسی نہ کسی مفید عنوان پر نہایت سادہ عبارت اور پرتاثیر انداز میں مضامین لکھا کرتے تھے۔
مرحوم نے ندوہ میں انگریزی بھی پڑھی تھی اور اس میں تھوڑی استعداد بھی پیدا کی تھی، قدیم عربی تصنیفات کا مطالعہ کا بھی شوق تھا اور اس میں بڑی وسعت نظر پیدا ہوگئی تھی، مرحوم کا اصل فن ادب نہ تھا، تاہم وہ اس فن کی مشکل کتابیں پڑھاتے تھے، عربی میں برجستہ انشاء پردازانہ مضامین لکھتے تھے، چنانچہ رسالہ الجامعہ کلکتہ میں دو تین مضامین ان کے نکلے تھے، عربی میں بلاتکلف گفتگو کرتے تھے اور اسی طرح فلسفہ و کلام کی کتابیں بھی وہ دیکھتے تھے، مگر اصلی ذوق ان کا اصلاحی و تجدید ہی تھا، اسی لئے علامہ ابن تیمیہ کی تصانیف کے وہ بے حد شائق تھے، سرائے میر کے قیام کے زمانہ میں حضرت مولانا حمید الدین سے تفسیر کا جو فیض اٹھایا، وہ اثر ان پر مستقل قائم ہوگیا، مشہورکتب احادیث پر بھی ان کی خاصی نظر تھی۔
یہ فضل و کمال، تقریر و تحریر، مطالعہ، و وسعت نظر تو الگ چیزیں ہیں، مرحوم کی زندگی کا اصلی جوہر اس کے اخلاق تھے، سرتا پا انکسار، سرتا پا تواضع، حددرجہ فروتن، مگر اسی کے ساتھ حددرجہ بے نیاز، غنی نفس، بلند حوصلہ، اپنے اساتذہ اور بزرگوں کا حددرجہ لحاظ رکھنے والا مطیع و فرمانبردار مگر اسی کے ساتھ خدا کے سوا ہر بڑائی سے نڈر اور ہر کبریائی سے بے خوف، ترک مولات کے زمانہ میں اعظم گڑھ اور کلکتہ میں ان کی سیاسی تقریریں حددرجہ بلا انگیز ہوتی تھیں مگر اس کا دل کبھی خوف سے آشنا نہیں ہوا، بڑوں بڑوں کے سامنے اظہار حق میں خاکساری و تواضع کے اس پیکر کی آنکھ نہیں جھپکی، اس کا پورا عہد جوانی و شباب اس زہد و سادگی سے گزرا کہ زہدو سادگی کو بھی اس کی جوانی پر رحم آگیا ہوگا، گاڑھے کا لمبا کرتا، سادی دوپلی ٹوپی اور اسی کا پائجامہ جو پہلے پہنا، وہ اخیر تک جسم پر رہا، ترک موالات سے اس کی وفاداری بہتیروں کی طرح صرف دکھاوے کی نہ تھی، بلکہ وہ جلوت میں جس طرح ظاہر کرتا تھا، خلوت میں بھی اسی طرح تھا، میں نے شیروانی پہننے کے لئے بہت اصرار کیا، مگر غریبانہ تبسم کے سوا جو اس کے چہرے کا نور تھا اور کبھی کچھ جواب نہ دیا، جاڑوں میں کبھی ایک دو کمبل سے زیادہ نہیں اوڑھا، وہی بچھونا وہی اوڑھنا۔
وہ انسان کی صورت میں ایک فرشتہ تھا، اس نے نوجوان ہوکر اپنے اخلاق اور دینداری سے بوڑھوں کو شرمایا، ایک دفعہ ایک تقریب سے جس میں ہم سب شریک تھے، وہ صرف اس لئے اٹھ آئے کہ اس میں انگریزی باجہ بجے گا، عبدالرحمن! تو گیا اور ہمیشہ کے لئے گیا، تو نے علماء اور مسلمانوں کے سامنے اپنی زندگی کا نمونہ پیش کیا، اہل ایمان کی شہادت ہے کہ تیری زندگی خدا کے حضور معتبر ٹھہری، تو رحمت الٰہی کی گود میں مسرور ہوگا، لیکن ہم تیری جدائی میں اشک بار ہیں، تیرا جسم لحد خاکی میں ہے، مگر تیری یاد تیرے دوستوں کے دلوں میں ہے، تیری روحانی آرزو پوری ہوچکی، لیکن تیری ذات سے ہماری مادی آرزوئیں نا تمام رہیں اور شاید اب وہ ہمیشہ کے لئے ناتمام ہیں، مرنا ایک دن سب کو ہے، افسوس اس کا ہے کہ تو آیا اور گیا، مگر لوگ تجھے پہچاننے نہ پائے۔
(سید سليمان ندوی، مارچ ۱۹۲۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...