Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > نواب عماد الملک مولانا سید حسین بلگرامی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

نواب عماد الملک مولانا سید حسین بلگرامی
ARI Id

1676046599977_54337825

Access

Open/Free Access

Pages

59

بلگرامی، سید حسین، نواب عماد الملک مولانا
آہ! عمادالملک مرحوم
نواب محسن الملک، نواب وقارالملک اور مولانا شبلی کی وفات کے بعد ہماری بزم علم میں ادب صرف ایک چراغ سے روشن تھی، لیکن افسوس کہ ۳؍ جون ۱۹۲۶؁ء کو باد حوادث کے جھونکوں نے اس کو بھی گل کردیا، نواب عمادالملک بہادر مولوی سید حسین بلگرامی کی وفات ایک ایسا جاں گداز حادثہ ہے، جس پر قدیم و جدید دونوں گروہ یکساں رنج و الم کے ساتھ ماتم کریں گے، ایک طرف تو وہ انگریزی زبان کے بہت بڑے عالم اور انشاء پرداز تھے، دوسری طرف قدیم مشرقی علوم و فنون میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے اور ان کے بقا و قیام اور اشاعت میں نہایت دلچسپی اور ہمدردی کے ساتھ ہر ممکن اعانت کے لئے آمادہ رہتے تھے، دائرۃ المعارف، دارالمصنفین، ندوہ، مسلم یونیورسٹی، غرض اس وقت قدیم و جدید علوم و فنون کے جس مرکز قدر ہندوستان میں قائم ہیں سب کے سب ان کی علمی دلچسپی، علمی اعانت اور علمی سرپرستی کے ممنون تھے، اب انکے در و دیوار سے ایک مدت تک ان کے ماتم کی صدائے بازگشت آتی رہے گی کہ:
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عَالم دوام ما
نواب صاحب مرحوم کا خاندان اودھ کے مشہور مردم خیز قصبہ بلگرام سے تعلق رکھتا ہے، لیکن ان کے دادا ماجد چونکہ اعلیٰ انگریزی سرکاری ملازمت کے سلسلہ سے بہار، بنگال میں رہتے تھے، اس لئے ان کی پیدائش اور ابتدائی نشوونما کا دور بہار اور بنگال میں گزرا، وہ ضلع گیامیں ۱۸۴۴؁ء میں پیدا ہوئے اور چودہ پندرہ سال کی عمر تک خانگی طور سے مقامی علماء سے عربی و فارسی کی تحصیل کی، اس طرح عربی کی متوسطات تک تعلیم کے بعد انگریزی کی طرف توجہ کی، پہلے بھاگلپور میں، پھر پٹنہ میں اور اس کے بعد کلکتہ کے انگریزی اسکولوں میں تعلیم پاکر ۱۸۶۱؁ء میں آنر کے ساتھ درجۂ اول میں بی۔اے پاس کیا، تعلیم سے فارغ ہوکر اپنے علمی ذوق کی مناسبت سے ملازمت کے لئے سررشتۂ تعلیم کو پسند کیا اور کیننگ کالج لکھنؤ میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے، لیکن قدرت کو ان سے بلند کام لینا تھا، وہ انگریزی زبان کے بہت بڑے ادیب تھے، ۱۸۷۲؁ء میں سرسالار جنگ اعظم جو اس وقت دولت آصفیہ کے مدارالمہام تھے، بطریق سیر و سیاحت لکھنؤ آئے، ان کو انگریزی کے اچھے پرائیویٹ سکریٹری کی ضرورت تھی، جو انگریزی مراسلات کے کاموں کو انجام دے سکے، لکھنؤ میں جنرل بارو نے اس کے لئے ان کا انتخاب کیا اور ان کو پسند کیا اور حیدرآباد طلب فرمایا، چنانچہ وہ ۱۸۷۳؁ء میں حیدرآباد پہنچ کر سرسالار جنگ کے پرسنل اسسٹنٹ مقرر ہوئے اور ۱۸۷۴؁ء تک اس خدمت کو انجام دیتے رہے، اس کے بعد سرسالار جنگ یورپ کے سفر سے جب واپس آئے تو ان کو اپنا پرائیویٹ سکریٹری اور صیغۂ متفرقات کا معتمد مقرر کیا، جس میں سرشتۂ تعلیم اور متعدد چھوٹے چھوٹے محکمے شامل تھے۔ اس کے جب اعلیٰ حضرت نواب میر محبوب علی خان بہادر مسند آراء سلطنت ہوئے تو نواب صاحب کو اپنا پرائیویٹ سکریٹری مقرر فرما کر علی یار خان موتمن جنگ بہادر کا خطاب عطا فرمایا اور چند سال کے بعد ان کو عماد الدولہ اور پھر عمادالملک کے خطابات عطا ہوئے، تھوڑے زمانہ کے بعد وہ ریاست کے محکمۂ تعلیمات کے ناظم یعنی ڈائریکٹر اور شہزادہ ولی عہد میر عثمان علی خان بہادر کی تعلیم و تربیت کے نگران مقرر ہوئے، انہوں نے اپنی مقوضہ سرکاری خدمات کو جس خوبی سے ادا کیا اس کا اعتراف انگریزی گورنمنٹ نے بھی کیا، گورنمنٹ انگریزی نے ۱۹۰۳؁ء میں ان کو اپنی مجلس وضع قوانین کارکن نامزد کیا، پھر چند سال کے بعد جب اصلاحات مارلے نافذ ہوئیں، تو وہ وزیر ہند کی مجلس کے رکن ہوکر انگلستان چلے گئے اور ۱۹۰۸؁ء سے ۱۹۰۹؁ء تک اس معزز منصب پر وہاں رہے، وہاں ان کی صحت اچھی نہیں رہی، اس لئے مستعفی ہوکر ہندوستان واپس آگئے، اب اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خان کی جگہ پر حیدرآباد کی مسند پر اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان جلوہ فرما تھے، نواب سالار جنگ ثالث جو اب بھی نوجوان ہی تھے، مدارالمہام مقرر ہوئے تھے، اعلیٰ حضرت عثمان علی خان نے نواب عمادالملک کو ان کی مدد کے لئے مشیرالمہام مقرر کیا، لیکن یہ زمانہ جلد ختم ہوگیا اور نواب صاحب گوشہ نشین ہوکر صرف علمی مشاغل میں مصروف ہوگئے۔
نواب صاحب کو حقیقت میں صرف علمی ہی ذوق تھا اور وہ اسی لئے بنے تھے، ان کا سارا دن کتابوں کے مطالعہ میں گزر جاتا تھا، دقیق علمی کتابوں سے تھک جاتے تھے تو انگریزی افسانوں کی کتابیں پڑھا کرتے تھے، عربی کی الف لیلہ سے ان کو بڑی دلچسپی تھی، اخیر زمانہ میں ان سے جب ملاقات ہوئی، اس کی تعریف ضرور فرمائی، ان کا ذاتی کتب خانہ بہت اعلیٰ درجہ کا تھا، جس میں عربی، فارسی، انگریزی فرنچ کی عمدہ عمدہ کتابیں تھیں، کچھ خاندانی قلمی کتابیں تھیں، مگر اکثر خود انکے ذاتی ذوق و شوق کا نتیجہ تھیں، میں نے ۱۹۰۸؁ء میں اس کتب خانہ کو دیکھا تھا، عربی شعراء کے سادہ اشعار کو نہایت پسند کرتے تھے، انگریزی نہایت سادہ اور سہل ممتنع لکھتے تھے اور نہ صرف انگریزی نثر میں کمال رکھتے تھے، بلکہ انگریزی کے بہت بڑے شاعر بھی تھے، مگر اس کے باوجود ان کو یہ بڑا کمال حاصل تھا کہ اردو گفتگو اور تحریر میں کوئی انگریزی لفظ نہیں بولتے تھے، بلکہ ہندوستانیوں سے وہ انگریزی میں بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے اور اس کے عجیب عجیب واقعے سننے میں آئے ہیں، اخیر عمر میں مولانا شبلی مرحوم کی تحریک سے انہوں نے قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ شروع کیا تھا جو سولہ پاروں تک ہوکر ضعفِ بصارت و علالت کی وجہ سے رک گیا، اس ترجمہ میں بالکل بائیبل کی زبان اختیار کی ہے، انگریزی کے علاوہ فرانسیسی زبان کے بھی ماہر تھے اور اس سے بے تکلف ترجمہ کرسکتے تھے، بنگالہ میں نشوونما ہونے کی وجہ سے بنگالی زبان بھی بے تکلف بولتے تھے، ان کو اردو شاعری سے بھی ویسی ہی دلچسپی تھی، چنانچہ میرؔ کے کلام کا انتخاب بھی انہوں نے کیا تھا جو چھپ گیا ہے، ان کی اردو تحریر بالکل سادہ لیکن رواں ہوتی تھی اور انہوں نے بہت سے علمی، ادبی، فلسفیانہ اور تاریخی مضامین لکھے، جن کا مجموعہ رسائل عمادالملک کے نام سے ابھی چھپا ہے، وہ ہمیشہ علماء و فضلاء کے قدردان رہے، ان کو ایک عالم یا طالب العلم کی صحبت میں چاہے وہ کتنی ہی کم حیثیت کیوں نہ ہو، بڑا لطف آتا تھا۔
مولانا شبلی مرحوم سے ان کا تعلق سرسید کے زمانہ سے اور انہیں کے واسطہ سے ہوا تھا، چنانچہ مرحوم ان کی بڑی قدر فرماتے تھے، ’’الفاروق‘‘ کی تالیف میں ان کی حوصلہ افزائی کو بھی دخل ہے، جامعہ عثمانیہ جس کا پہلا نام حیدرآباد کی مشرقی یونیورسٹی پڑا ہوا تھا، اس کے نصاب اور خاکہ کی تیاری کے لئے مولانا شبلی مرحوم کا انتخاب انہیں کے اشارہ سے ہوا تھا اور ۱۹۱۴؁ء میں مولانا شبلی مرحوم کی ماہانہ تنخواہ میں دوسو ماہوار کا اضافہ نواب صاحب ہی کی تحریک سے اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان نے منظور فرمایا۔
مولانا شبلی مرحوم سے اسی تعلق اور دارالعلوم ندوہ کی تعلیم میں مشرقی و مغربی علوم و فنون کی جامعیت کی بناء پر اس سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے، چنانچہ ۱۹۰۸؁ء میں انہوں نے ندوہ کو اپنا قیمتی کتب خانہ عطا فرمایا اور ہر موقع پر طلباء ندوہ کی سرپرستی و قدردانی کرتے رہے، آج دائرۃ المعارف حیدرآباد میں ندوہ کے جو فارغ التحصیل طلبہ کام کررہے ہیں، وہ ان کی اس قدردانی و سرپرستی کے مشکور و معترف ہیں اور ندوہ سے اپنی اس دلچسپی کو حیدرآباد کی تعلیمی کانفرنس کی صدارتی تقریر میں ظاہر بھی کردیا ہے۔
مولانا شبلی کی نسبت اور ایک علمی مرکز ہونے کی حیثیت سے انہوں نے دارالمصنفین کے ساتھ ابتدا ہی سے اپنا شغف ظاہر فرمایا اور جس کو اخیر زندگی تک قائم رکھا، چنانچہ جب دارالمصنفین قائم ہوا تو انہیں کی سفارش سے مولانا شبلی مرحوم کی تین سو ماہوار سرکار آصفیہ نے دارالمصنفین کے نام منتقل کردی، اس کے ساتھ خاص اپنی جیب سے انہوں نے اس کے لئے سالانہ سو روپے کی رقم مقرر فرمائی اور مجھے لکھا کہ دارالمصنفین پہلا انسٹیٹیوشن ہے جس کے لئے میں یہ مستقل رقم مقرر کرتا ہوں، لیکن یہ رقم ان کے حوصلہ کے مطابق نہ تھی، اس لئے اس پر ہمیشہ تاسف و ندامت کا اظہار کرتے رہے، وہ دارالمصنفین کی مجلس منتظمہ کے پہلے صدرنشین تھے اور اخیر تک اس تعلق کو قائم رکھا، معارف کا بالاستیعاب ہمیشہ مطالعہ فرماتے تھے اور جو مضمون پسند آتا اس پر خوشی ظاہر کرتے اور اس کے لکھنے والے کے حالات دریافت فرماتے، مولانا عبدالباری ندوی سے ان کا تعارف اسی طرح ہوا، دارالمصنفین کی تصنیفات جب ان کی خدمت میں بھیجی جاتی تھیں تو ان کو لازمی طور پر پڑھتے تھے اور اگر ضعف و علالت کی وجہ سے خود نہیں پڑھ سکتے تھے تو دوسروں سے پڑھوا کر سنتے تھے اور ان تصنیفات پر مجھے جو خط لکھتے تھے، اس میں ان کی داد دیتے تھے، اور اپنی مسرت کا اظہار کرتے تھے، علمی حیثیت سے ان کی سب سے بڑی یادگار مجلس دائرۃ المعارف حیدرآباد ہے، جو ہندوستان میں اپنے قسم کی پہلی یادگار ہے، آج ہندوستان میں عربی زبان کی قدیم و نادر کتابوں کی طبع و اشاعت کا کوئی سامان نہیں ہے، جدید تعلیم یافتہ گروہ کو تو اس کی پروا ہی نہیں، لیکن قدیم تعلیم یافتہ جماعت نے بھی اس کی طرف توجہ نہیں کی، نواب صاحب مرحوم پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور حیدرآباد میں اس غرض کے لئے ایک مستقل انجمن دائرۃ المعارف کے نام سے قائم کی، جو ہر سال عربی کی نادر الوجود کتابوں کو اڈٹ کرکے شائع کرتی ہے، چنانچہ ابھی حال میں قائم کی، مستدرک اور امام رازی کی مباحث شرقیہ جیسی اہم اور نادر الوجود کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور متعدد نادر الوجود قلمی کتابوں کی تصحیح ہورہی ہے، نواب صاحب مرحوم کی یہ ایک ایسی یادگار ہے جو اگر مستقل طور پر قائم رہی تو ہمیشہ علماء و فضلاء کو اپنا گرویدۂ احسان رکھے گی اور اس سے ریاست حیدرآباد کے علمی وقار میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا۔
خاکسار کی ملاقات ان سے پہلے پہل حیدرآباد میں ہوئی، جس کی صورت یہ ہوئی کہ مرحوم نے مولانا شبلی کی تحریک سے اپنا جو کتب خانہ ندوہ کو دے دیا تھا، اس کتب خانہ کو حیدرآباد سے لانے کے لئے مولانا مرحوم نے میرا انتخاب کیا، چنانچہ سب سے پہلی دفعہ میں حیدرآباد روانہ ہوا، جناب مولوی عبدالغنی صاحب وارثی کے یہاں جو میرے وطن کے قریب کے اور عزیز بھی تھے اور مولانا کے دوست تھے، قیام ہوا اور انہوں نے مولانا شبلی مرحوم کی خواہش کے مطابق نواب صاحب سے جاکر ملایا اور اس سلسلہ سے تقریباً ایک مہینہ تک نواب صاحب کے پاس روزانہ آنے جانے کا کام جاری رہا، وہ ایک ایک کتاب نکال کر مجھے دیتے تھے اور میں اس کو علیحدہ رکھتا جاتا تھا، اس کے بعد سے آخر عمر تک نواب صاحب کے علمی تعلقات کا سلسلہ برابر جاری رہا، خصوصاً حضرت الاستاذ رحمہ اﷲ کی وفات کے بعد جو نومبر ۱۹۱۴؁ء میں ہوئی، ان کی شفقتِ بزرگانہ سے یہ تعلقات برابر بڑھتے رہے، خط و کتابت کا آغاز اس طرح ہوا کہ استاذ مرحوم کی وفات پر جو اردو مرثیہ میں نے لکھا تھا وہ ان کے پاس بھیجا، جواب میں ایک ایسا نکتہ حوالۂ قلم فرمایا جو ہمیشہ میرے لئے رہنما ثابت ہوا، فرمایا، عرض ہنراس اس وقت تک نہیں کرنا چاہئے جب تک یہ معلوم نہ ہوکہ اب اس ہنر میں میرا کوئی حریف نہ ہوسکے گا، حیدرآباد جب جانا ہوتا تو شفقت سے ملتے، دیر تک باتیں کرتے رہتے تھے، اسلامی علوم وفنون و تمدن و تاریخ گفتگو کا موضوع ہوتا، ہمیشہ اپنے مکتوبات سے ممنون فرماتے، افسوس کہ دست اجل نے اس سلسلہ کو بند کردیا، ان کی تصنیفات میں اردو کا ایک مجموعۂ مضامین اور انتخاب دیوان میر ہے، ایک زمانہ میں عربی کا بھی ایک رسالہ جاری کیا تھا، ان کا انگریزی ترجمۂ قرآن جو پندرہ سولہ پاروں تک پہنچا تھا وہ ہنوز مسودہ کی صورت میں ہے، اخیر زندگی میں سہو غالب ہوگیا تھا اس لئے وہ ایک ہی قسم کی بات باربار کرتے رہتے تھے، اخیر زمانہ میں جب ان سے ملاقات ہوئی، عربی کی الف لیلہٰ کے ذریعہ سے مسلمانوں کے تمدن پر ایک کتاب لکھنے کی برابر فرمائش کرتے تھے، افسوس کہ یہ جلیل القدر ہمیشہ کے لئے اٹھ گیا اور اب کوئی اس کی جگہ لینے والا نہیں۔
(سید سليمان ندوی،جون ۱۹۲۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...