1676046599977_54337826
Open/Free Access
61
مولانا شررؒ
عین اس وقت جب ہم اردو رسالوں کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈال رہے ہیں، اردو کا وہ سب سے پرانا رسالہ اور اس کا وہ اڈیٹر یاد آتا ہے جس نے سال کے آخری مہینہ کی آخری تاریخوں میں ہماری دنیا کو الوداع کہا، یعنی مولانا عبدالحلیمؔ شرر صاحب لکھنوی، اڈیٹر دل گداز، مولانا ہمارے انشاء پردازوں میں سب سے پرانے انشاء پرداز تھے، اکہتر (۷۱) برس کی عمر میں بعارضۂ فالج وفات پائی، مرحوم نے اپنی عزت اور شہرت تنہا خود اپنے قلم سے حاصل کی تھی، وہ اپنی شہرت کے لئے کسی نامور ہستی سے انتساب کے ممنون نہ تھے، انہوں نے اپنے تمام معاصرین میں سب سے زیادہ اپنی زبان کی خدمت کی فرصت پائی، ہمارے خیال میں ۱۸۸۲ء سے انہوں نے اپنے کام کا آغاز کیا اور جو اخیر زمانۂ وفات دسمبر ۱۹۲۶ء تک قائم رہا، بیچ بیچ میں کبھی کبھی حیدرآباد کے قیام کی مصروفیتیں پیش آجاتی تھیں، تاہم ان کا تسلسل کبھی ٹوٹنے نہیں پایا، ۴۶ برس کا عہد خدمت ان کے کسی معاصر کو میسر نہیں آیا، پھر ان کی ادبی اور علمی خدمات کی گوناگونی اور کثرت بھی ان کا خاص امتیاز ہے اور یہ کہنا بھی سچ ہے کہ انہیں کی تصنیفات نے اردو میں سینکڑوں انشاء پرداز پیدا کئے اور ملک میں تاریخ کا مذاق پیدا کیا اور سنجیدہ تصنیفات کے لئے حسن قبول کا راستہ صاف کیا۔
خاکسار کو مولانا کا پہلا شرف نیاز ۱۹۰۴ء میں حاصل ہوا اور یاد آتا ہے کہ وہ اس وقت حیدرآباد سے واپس آئے تھے اور اتحاد اور پردۂ عصمت نکالنا شروع کیا تھا، وہ عربی زبان کے مستند عالم تھے، بچپن میں وہ اپنے نانا کے ساتھ واجد علی شاہ کے مٹیابرج میں رہے تھے اور اس طرح جب ہوش سنبھالا، تو اپنے کو سخنورانِ اردو کی آغوش میں پایا، لکھنؤ آکر عربی علوم کی باقاعدہ تعلیم مولانا عبدالحئی صاحب مرحوم فرنگی محلی کے حلقۂ درس میں پائی تھی اور حدیث کی تعلیم دہلی میں جاکر مولانا سید نذیر حسین محدث سے حاصل کی تھی، اسی لئے مولانا کا میلان زیادہ تر اہل حدیث کے مسئلہ کی طرف تھا اور عقائد میں وہ سخت اور غالی اشعری تھے، امام ابوالحسن اشعری سے ان کو خاص عقیدت تھی، عربی کے ساتھ ان کو انگریزی سے بھی واقفیت تھی اور کسی قدر فرنچ سے بھی آشنا تھے، یورپ کی بھی سیر کر آئے تھے، واپسی میں جب وہ جبرالٹر (جبل طارق) سے گزرے ہیں تو مسلمان مورخ کی آنکھوں کے سامنے اندلس (اسپین) کی تصویر کھنچ گئی، وطن پہنچ کرسب سے پہلے اس کی یاد میں آنسو گرائے اور اسپین پر ایک پردرد مضمون لکھا جو اس زمانہ میں بہت مقبول ہوا تھا۔
بظاہر وہ صرف ایک ناولسٹ یا فسانہ نگار تھے اور اسی حیثیت سے لوگ ان کو زیادہ تر جانتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ عربی علم و ادب، محاضرات و تاریخ کے بھی ماہر تھے، ان کے مضامین کا بڑا ماخذ آغانی کی ضخیم جلدیں ہوتی تھیں اور وہ ان کو نہایت پسند تھیں، وہ روایتوں میں تنقید اور جانچ پڑتال نہیں کیا کرتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کو اپنے موضوع کے لحاظ سے اس کی ضرورت بھی نہ تھی، ان کی تصنیفات میں منصور موہنا، درگیش نندنی، فتح اسپین، مقدس نازنین، ملک العزیز ورجنا، فردوسِ بریں اور فلورا فلورنڈا مشہور ناول ہیں، تاریخوں میں تاریخ سندھ اور تاریخ سسلی اور سوانح عمریوں میں خاتم المرسلین، ابوبکر شبلی، جنید بغدادی ان کی مشہور تالیفات ہیں، مرحوم گو شاعر تھے، شررؔ تخلص تھا مگر غیر مقفی اشعار کے نمونوں کے علاوہ آغاز شباب کے بعد کبھی انہوں نے اپنا کوئی کلام شائع نہیں کیا، ان کا آخری علمی کارنامہ تاریخ اسلام ہے۔ جس کو وہ جامعہ عثمانیہ کی فرمائش سے لکھ رہے تھے اور کچھ حصے اس کے لکھ بھی چکے تھے۔
مرحوم اخلاق کے لحاظ سے باوضع، خاکسار، پابند اوقات اور ملنسار تھے، چھوٹوں سے ملنے میں ان کی عزت اور تعظیم اور ان کے کارناموں کی قدرشناسی میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے تھے، چوک میں منشی نثار حسین صاحب اڈیٹر پیامؔ یارا اور خواجہ عشرتؔ کی دکان پر ان کی شام کی نشست ان کی وضعداری کی دلیل تھی، ان کی کتابوں کی بڑی مانگ تھی اور تمام مطبع والے بے پوچھے گھچے ان کی کتابیں چھاپتے رہے، مگر انہوں نے کبھی کوئی بازپرس نہ کی، مرحوم رات کو جاگ کر کام کرنے کے عادی تھے، چنانچہ وہ رات کا کھانا ایک بجے کھا کر سوتے تھے، ان کی موت نے ۵۷ھ سے شروع ہونے والے عہد علمی کا خاتمہ کردیا۔
’’دل گداز‘‘ جو ان کا خاص رسالہ تھا، جس میں وہ زیادہ تر تاریخی مضامین اور قصص شائع کیا کرتے تھے، اس کا آخری نمبر جو ان کے قلم سے نکلا، وہ دسمبر ۱۹۲۶ء کا ہے، یہ ’’دلگداز‘‘ کی چھبیسویں جلد کا آخری نمبر ہے، لیکن اس کی اشاعت کا زمانہ چھبیس برس سے یقینا زیادہ ہے، حیدرآباد کی اقامت کے زمانہ میں اس کی اشاعت میں ناغہ ہوجاتا تھا، ’’دلگداز‘‘ کے علاوہ تین اور رسالے بھی اپنے نام سے نکالے ہیں، موجودہ پردہ کے خلاف پردہ عصمت انہوں نے نکالا، سب سے پہلے انہیں نے مسلمانوں میں ہندومسلم اتحاد کی باقاعدہ تحریک کی اور اس کے لئے اتحاد نکلا، کچھ دنوں کے لئے تصوف کا بھی ایک رسالہ نکالا تھا جس کا نام اس وقت یاد نہیں آتا، مہذب نام ایک اور صحیفہ نکالا تھا، بہرحال وہ جو کچھ تھے، ہماری زبان کے نامور مصنف، ہندوستان کا فخر اور لکھنؤ کی آبرو تھے، ان کے فانی جسم نے مفارقت کی، مگر ان کی ابدی زندگی انشاء اﷲ ہمیشہ قائم اور باقی رہے گی۔ (سید سليمان ندوی، جنوری ۱۹۲۷ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |