1676046599977_54337827
Open/Free Access
62
جناب میر علی محمد شادؔ مرحوم عظیم آبادی
ابھی نثر اردو کے ماتم سے ہم فارغ نہیں ہوئے تھے کہ نظم اردو کے پرانے استاد عظیم آباد کے مشہور باکمال شاعر میر علی محمد شاد کی موت کی خبر آئی، ۸؍ جنوری ۱۹۲۷ء کو غالباً ۸۲ برس کی عمر میں اپنے وطن عظیم آباد پٹنہ میں وفات پائی، ساٹھ برس سے زیادہ کی مشق سخن تھی، لاکھوں شعر ان کے نتائج فکر ہیں، میرؔ اور انیسؔ کے مقلد اور متبع تھے، اس دور میں وہ یورپ میں زبان اردو کے تنہا استاد رہ گئے تھے، ہموطنی کے باوجود کبھی ان کی ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکا، البتہ تحریری نیاز ایک مدت سے جاری تھا، کچھ دنوں سے ہوش و حواس بھی بجانہ تھے، تاہم شعر برابر وردِ زبان تھا:
آخر ہے عمر ، ضیق میں ، دل بھی ہے جان بھی
مردانہ باش! ختم ہے یہ امتحان بھی!!
مرحوم کی تصنیفات میں دیوان اور کلام منظوم کے علاوہ نوائے وطن وغیرہ نثر کی کتابیں بھی ہیں، مرحوم کا ایک طویل والا نامہ بھی میرے پاس رکھا ہے، جس میں اپنی تصنیفات کی پوری کیفیت لکھی ہے، افسوس کہ ان کا پورا کلام کوششوں کے باوجود بھی یک جاہوکر طبع نہ ہوسکا، جو کام کہ ان کی غایت احتیاط کی بناء پر ان کی زندگی میں نہ ہوسکا، شاید اب ان کے مرنے کے بعد انجام کو پہنچ جائے، اپنے طرز کے وہ تنہا مالک تھے اور زمانہ کا رنگ دیکھ کر توقع نہیں کہ اس طرز کا سخن ور پھر پیدا ہوسکے۔
(سید سليمان ندوی، جنوری ۱۹۲۷ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |