Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > حکیم حافظ اجمل خان

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

حکیم حافظ اجمل خان
ARI Id

1676046599977_54337833

Access

Open/Free Access

Pages

63

مسیح الملک مرحوم
حکیم اجمل خاں
ہمارے شمسی سال کے خاتمہ کو تین راتیں باقی تھیں کہ نصف شب کو ہمارے ملک کا آفتاب غروب ہوگیا، مسیح الملک حکیم اجمل خاں کی اچانک وفات درد دل سے ہوئی، ہائے یہی ’’درد دل‘‘ ان کی زندگی کا سرمایہ تھا اور یہی ان کی وفات کا بہانہ بن گیا، وہ جس کی مسیحائی سے لاکھوں نے زندگی پائی تھی، خود اس کی زندگی کسی کی مسیحائی کی ممنونِ احسان نہ بنی، حکیم صاحب کی وفات خاندان کا ماتم نہیں، دلّی کا ماتم نہیں، قوم کا ماتم ہے، فضل و کمال کا ماتم ہے، اخلاق و شرافت کا ماتم ہے، سنجیدگی و متانت کا ماتم ہے، اخلاق و ایثار کا ماتم ہے، عقل و رزانت کا ماتم ہے، فکر و اصابت کا ماتم ہے، آزادی و حریت کا ماتم ہے کہ ہندوستان اور مسلمانانِ ہند کے طالع و بخت کا ماتم ہے۔
مرثیہ ہے ایک کا اور نوحہ ساری قوم کا
ہندوستان کا وہ کونسا شریف انسان ہے جس کی گردن اس شریف خانی یادگار کی شخصی یا قومی منت سے گراں نہیں، وہ کونسی قومی مجلس ہے جو ان کے احسانات کے بوجھ سے دبی نہیں ہے، مسلمانوں کا وہ کونسا کام ہے جو ان کی مشکل کشائی کا ممنون نہیں، علی گڑھ ہوکہ ندوہ، دیوبند ہوکہ جمعیۃ العلماء، مسلم لیگ ہو کہ کانگریس، خلافت ہوکہ طبیہ کانفرنس، ہندوستان دواخانہ ہوکہ طبیہ کالج سب ان کے خوان منت کے برابر کے ریزہ چین تھے، جامعہ ملیہ یعنی قوم کے خواب حریت کی تعبیر حسّی، اس کا وجود مستقل اگر تھا، تو صرف حکیم صاحب کے دستِ بازو سے۔
ایک روشن دماغ تھا ، نہ رہا

ملک کا جو چراغ تھا ، نہ رہا
, حکیم صاحب کی وفات سے یوں ہر قومی درس گاہ اور ہر قومی مجلس، جو ان کی رائے و مشورہ و اعانت و سفارش سے، یا ان کے بذل و عطا اور جو دو کرم سے مستفید تھی، متاثر ہوئی، لیکن جامعہ ملیہ جس کی ہستی صرف ان کی ذات سے قائم تھی اور جس کی امارت صرف اسی ایک ستون پر کھڑی تھی، وہ مترلزل ہوکر رہ گئی، یہ تسکین ہے کہ حکیم صاحب کی یادگار کے نام سے اس کو پکارا جارہا ہے اور قوم میں ان کی اس یادگار کی بقا و قیام کا کافی احساس نظر آتا ہے، اگر اس یادگار کے لئے قوم میں عملاً بھی یہی سرگرمی رہی تو اس قوم محسن اعظم کی موت جامعہ کی زندگی کا سبب بن جائے گی، ہمیں یقین ہے کہ منت پذیر قوم اور احساس شناس ملک اس علمی و تعلیمی یادگار کی مالی اعانت و امداد میں اپنے فرض کا پورا احساس کرے گا۔
جامعہ کے کارکنوں نے اس یادگار کی بقا و قیام کے لئے ملک و قوم سے آٹھ لاکھ روپے کی اپیل کی ہے، ملک کے بڑے بڑے رہنماؤں نے اس اپیل کی تائید کی ہے، ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی مسابقت الی الخیر کا علمی ثبوت دیں، تاکہ جامعہ جو کم سے کم احسان اوروں کا اٹھاسکتی ہے وہ اٹھائے، عنقریب جامعہ کی طرف سے مختلف وفود صوبوں میں دورہ کرنے کے لئے نکلیں گے، اس وقت ہر صوبہ کے مسلمانوں کو اس کارخیر اور صدقہ جاریہ میں شرکت کرنی چاہئے۔
مرحوم سے میری ملاقات ۱۹۱۰؁ء میں ندوہ کے جلسہ کی تقریب سے مولانا شبلی مرحوم کے ذریعے سے ہوئی، یہ تعلق قومی کاموں کے سلسلہ میں بڑھتا ہی گیا اور خلافت، جمعیۃ العلماء اور کانگریس کی تحریکوں کے ساتھ عہدبہ ترقی پذیر رہا، سیاسیات میں میرا شمار انہیں کی جماعت کے ساتھ ہمیشہ رہا۔ (سید سلیمان ندوی، جنوری ۱۹۲۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...