1676046599977_54337841
Open/Free Access
65
مولانا حافظ احمد ؍ مفتی عزیز الرحمن صاحب
یہ مہینہ بھی آہ ماتم کی صدا سے خالی نہیں، شکر کا مقام تھا کہ اب تک دیوبند میں اکابر کی صحبت یافتہ اور اکابر کی زندہ یادگاریں موجود تھیں، مگر افسوس کہ یہ بھی یکے بعد دیگرے ہم سے رخصت ہورہی ہیں، مولانا حافظ احمد صاحب مہتمم مدرسہ عالیہ دیوبند خلف الصدق حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اﷲ علیہ گزشتہ مہینہ حیدرآباد میں سپردخاک ہوئے اور اب اس مہینہ ۱۸؍ جمادی الثانی ۱۳۴۷ھ کو دائرہ قاسمیہ کے مفتی اعظم حضرت مولانا عزیز الرحمن نے ۷۲ برس کی عمر میں دیوبند میں بمرض فالج انتقال کیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحوم نے مولانا مملوک العلی صاحب اور مولانا فضل رحمان صاحب گنج مراد آبادی، اور مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی سے ظاہر و باطن کا فیض اٹھایا تھا، کم سخن، متین، حلیم اور سادہ مزاج تھے، تقویٰ اور دینداری، ان کے چہرہ کمال کا خط و خال تھی، حدیث کی درس و تدریس کے ساتھ کتب فقہ کی جزئیات پر ان کی وسعت نظر بدرجہ اتم تھی، فتاویٰ کے جوابات مختصر لیکن قل و دل دیتے تھے اور بیالیس برس تک اس خدمت کو انجام دیا۔ ایسے متقی اور محتاط فقیہ اور محدث آئندہ کہاں پیدا ہوں گے۔
زمانہ کا رنگ پلٹ رہا ہے، انقلاب کی لہریں دیواروں تک پہنچ گئی ہیں، جن کے رہنے والے زمانہ کے اس سیلاب سے اپنے گوشۂ عافیت کو محفوظ سمجھتے تھے، علماء کے خیالات بھی بدل رہے ہیں، اختلاط، میل جول اور مبادلہ آرا سے ان کے نقطۂ نظر میں بھی فرق آرہا ہے، یہ زمانہ علمائے اسلام کے لئے حد درجہ نازک ہے، ایک طرف تو تقویٰ، دینداری، اسلام کی اصلی روح کی حفاظت اور دوسری طرف نئے نئے مسئلے، نئے نئے فتوے اور نئے نئے سوال سامنے آرہے ہیں، مغربی تمدنی قوانین اور اسلامی فقہ اور احکام کے درمیان تطبیق، اگر ممکن ہو اور قانون اسلامی کی ترجیح، اگر تطبیق ناممکن ہو حددرجہ نازک، لیکن ساتھ ہی حددرجہ ضروری کام ہے، خوشی ہوتی اگر مرحوم اور ان کے رفقاء کے زمانہ کے لوگ اس کام کو کرجاتے کہ آئندہ ایسے وسیع النظر علماء کا پیدا ہونا توممکن ہے، مگر دنیا کا رنگ دیکھتے ہوئے ایسے محتاط، متقی اور دیندار علماء کے پیدا ہونے کی توقع کم ہے۔
(سید سلیمان ندوی، دسمبر ۱۹۲۸ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |