Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > شیخ عبدالعزیز شادیش

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

شیخ عبدالعزیز شادیش
ARI Id

1676046599977_54337842

Access

Open/Free Access

Pages

66

شیخ عبدالعزیز شادیش
افسوس ہے کہ اس مہینہ شیخ عبدالعزیز شادیش نے مصر میں وفات پائی، یہ مفتی محمد عبدہ کے شاگردوں میں تھے اور طبعاً نہایت پرجوش تھے، نوجوان ترکوں کی انجمن اتحاد و ترقی کے زمانہ میں یہ اس کے سرگرم حامی تھے، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ یہ اس کی مذہبی روح تھے، انور پاشا مرحوم کے دست و بازو تھے، بلقان کے بعد انہوں نے قسطنطنیہ سے ’’الہدایہ‘‘ نام کا ایک علمی، مذہبی، اصلاحی رسالہ عربی میں نکالا تھا، جنگ عظیم میں یہ اتحادیوں کے خلاف عرب میں جہاد کے واعظ اور مبلغ تھے، ترکی کے موجودہ انقلاب میں بھی شریک ہوئے اور چاہتے تھے کہ اس انقلاب کے ہاتھ سے معتدل مذہبی اصلاحات اور اتحاد اسلامی کا سررشتہ نہ چھوٹے، اس لئے انگورہ میں دنیائے اسلام کی ایک علمی و ادبی انجمن بنائی، جس کے کتب خانہ میں تمام اسلامی زبانوں کی کتابیں جمع کی جائیں تاکہ ایک نظر میں تمام اسلامی دنیا کی مختلف دماغی سطح معلوم ہوجائے اور اتحاد اسلامی کی مجسم شکل سامنے آجائے، مگر مصطفی کمال پاشا کی سرعت رفتار کا وہ ساتھ نہ دے سکے، ناچار مصطفی کمال نے جب خلافت کی قبا اتار پھینکی اور اپنے کو جیسے وہ تھے سب کے سامنے ظاہر کردیا، تو شیخ نے انگورہ چھوڑ کر مصر میں قدم رکھا اور سیاسیات سے یکسر تائب ہوکر اپنے استاد کے نقشِ قدم پر چلے، یعنی مصر کے تعلیمی محکمہ میں وہ ابتدائی تعلیم کے انسپکٹر مقرر ہوگئے۔
اس خدمت کے ساتھ ساتھ انہوں نے چند ہی سال کے اندر مصری طلبہ کو خطرناک قومیت کے جذبات سے بچانے کا کام اصلاحی حیثیت سے شروع کردیا، پہلے ان کے لئے مکارم الاخلاق کے نام سے ایک انجمن قائم کی، جس نے اپنے چند ہی اجلاسوں میں طلبہ کو مغربی اخلاق و تمدن کی پیروی سے ہٹا کر اسلامی اخلاق و تمدن کی طرف یک گونہ متوجہ کرنا شروع کردیا، پھر اس کے بعد نوجوان مسلمانوں کی انجمن ینگ کرسچن مینس ایسوسی ایشن کی طرز پر انجمن شبان المسلمین قائم کی اور طلبہ میں اسلامیت کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی، یہ کام ابھی یہیں تک پہنچا تھا کہ موت نے ان کو ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا کر دیا، درحقیقت ان عام حالات کی بناء پر جن کے سیلاب میں مصر بہتا جاتا ہے، مرحوم کا وجود بہت مفید ہورہا تھا، امید ہے کہ مرحوم کے رفقاء ان کاموں کو ان کے بعد بھی باقی رکھیں گے۔ (سید سلیمان ندوی، فروری ۱۹۲۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...