1676046599977_54337843
Open/Free Access
66
مولانا حبیب الرحمن عثمانی
اس مہینہ کا سب سے بڑا علمی اور تعلیمی حادثہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا حبیب الرحمان عثمانی کی وفات ہے، دیوبند کا مدرسہ عالیہ اگر ہمارے پرانے مذہبی مدارس کی روح ہے تو اس میں شک نہیں کہ اس مدرسہ عالیہ کی روح حضرت مولانا حبیب الرحمان صاحب عثمانی تھے، مرحوم شاید اس مدرسہ کے مقدس بانیوں کی آخری یادگار تھے، وہ ایک مشہور عالم متبحر، اور عربی کے ادیب تھے، دیگر علوم کے علاوہ عربی نظم و نثر پر ان کو یکساں قدرت حاصل تھی، اسلامی تاریخ سے بھی ان کو ذوق کامل تھا، اردو انشاء میں ان کا سلیقہ خاصہ تھا۔ رسالہ القاسم ان کی علمی کوششوں کی پوری تاریخ ہے، ان کی اردو تصانیف ’’اسلامی کی اشاعت کیونکر ہوئی‘‘ ایک ضخیم کتاب ہے، ان سب کے ساتھ جس چیز میں وہ اپنی جماعت میں سب سے زیادہ ممتاز تھے، وہ ان کا تدبر حسن سیاست اور نظم و نسق کی قوت تھی، انہوں نے ۱۳۳۵ھ سے ۱۳۴۸ھ تک جب تک ان کی جان میں جان رہی، مدرسہ دیوبند کے اہتمام اور نظم و نسق کی خدمت انجام دی۔
ان کی محنت، جان کا ہی اور مسلسل خدمات کے ساتھ ساتھ اگر ان کی جسمانی مخافت، کمزوری اور دائم المرضی کو دیکھا جائے تو تعجب ہوتا تھا کہ کیونکر وہ اس بارگراں کو اٹھائے ہوئے ہیں، ان سب سے مافوق ان کا اخلاص، تقویٰ، تواضع اور ہر ایک سے حسن خلق کا برتاؤ تھا، راقم الحروف کو مولانا سے سب سے پہلے اپنے ختم طالب العلمی کے بعد ہی دیوبند میں ۱۹۰۸ء میں ملنے کا اتفاق ہوا، اس وقت سے لے کر آخر تک ان کا یکساں طریق محبت قائم رہا، سب سے آخری دفعہ اسی سال علی گڑھ میں ان کی زیارت ان کے ہم نام نواب صدر یارجنگ مولانا حبیب الرحمان خان شروانی کے دولت کدہ پر ہوئی، دیکھا کہ ضعف ولاغری سے فضل و کمال کا یہ ماہ درخشاں اب ہلال بن کر رہ گیا ہے، اب یہ ہلال بھی محاق ہوکر دنیا کی نگاہوں سے چھپ گیا ہے، اِنالِلّٰہ۔
(سید سلیمان ندوی، دسمبر ۱۹۲۹ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |