1676046599977_54337845
Open/Free Access
67
صاحبزادہ آفتاب احمد خان
صاحبزادہ آفتاب احمد خان مرحوم جو مفلوج ہو کر دو سال پہلے سے خاموش ہوچکے تھے، اب وہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئے، علی گڑھ کالج نے قومی خدمت گذاروں کی سب سے پہلی جو جماعت پیدا کی تھی، اُس میں صاحبزادہ مرحوم سب سے پیش پیش تھے، وہ سرسید کی پالیسی کے سخت ترین مقلد تھے، وہ مسلمانوں کی سیاسی علمی، تعلیمی، تجارتی، دینی دنیاوی غرض ہر قسم کی ترقی کا ذریعہ جدید تعلیم کو سمجھتے تھے، یہی اُن کا عقیدہ تھا، اسی عقیدہ پر وہ جئے اور اسی پر مرے اُن کے قومی کاموں کاآغاز علی گڑھ کالج اور مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے ہوا، اور اسی پر خاتمہ ہوا، وہ جس مسلک پر تھے، اس پر پوری مضبوطی سے قائم رہے، اُن میں مسلمانوں کی تعلیمی خدمت گذاری کا مخلصانہ ولولہ تھا، اور مسلم یونیورسٹی کی خدمت کا بھی پورا ارادہ رکھتے تھے، مگر افسوس کہ علی گڑھ کی مکدر فضا اُن کی خدمات کو راس نہ آئی، اور یونیورسٹی کو اُن کی کوششوں سے کوئی فیض نہ پہنچ سکا، مرحوم کا دل پسند فلسفہ یہ تھا کہ مسلمان عبدیت اور نیابت الٰہی دونوں کے درمیان تطبیق دیں، یعنی یہ کہ ایک طرف تو وہ خدا کے آگے سرجھکائیں اور اپنے کو اس کا لاچار بندہ سمجھیں، دوسری طرف خدا کی خلافت و نیابت سے سرفراز ہو کر عالم اور کل قوائے عالم پر اپنے علم کے زور سے حکمرانی کریں۔
مرحوم ۴؍ مئی ۱۸۶۷ء میں پیدا ہوئے تھے، ۱۸۷۸ء میں علی گڑھ کالج میں داخل ہوئے تھے، ۱۸۹۱ء میں بیرسٹری کی تعلیم کے لئے ولایت گئے، ۱۸۹۴ء میں کامیاب ہوکر واپس آئے، اور علمی گڑھ میں پریکٹس شروع کی، اور ساتھ ہی کالج اور کانفرنس کی خدمت بھی، ۱۹۱۷ء میں انڈیا کونسل کے ممبر ہو کر انگلینڈ گئے، اور ۱۹۲۴ء میں اس عہدہ سے مستعفی ہو کر ہندوستان آئے، مرحوم کو درحقیقت انگلینڈ کی صحت بخش آب و ہوا ہی نے کھالیا، وہاں کی آب و ہوا ان کو بالکل راس نہ آئی، واپسی کے بعد وہ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوگئے، مگر ان کی ناتندرستی نے ان کو فرصت نہ دی، ۱۹۲۶ء میں اس عہدہ کی میعادِ انتخاب کے خاتمہ پر جنوری ۱۹۲۷ء میں مسلم یونیورسٹی پر جو نوٹ لکھا، وہ مرحوم کی زندگی کا آخری تحریری کارنامہ اور مسلم یونیورسٹی میں طبی شعبہ کا قیام ان کا آخری عملی کارنامہ ہے، کیونکہ اس کے چند روز بعد جنوری ۱۹۲۷ء میں ان پر فالج کا پہلا حملہ ہوا، اور تین برس اسی امید و بیم کی حالت میں بسر کیا، اور آخر ۱۸؍ جنوری ۱۹۳۰ء (شعبان ۱۳۴۸ھ) میں فالج کا دوسرا حملہ ہوا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے مرحوم مرنج و مرنجان، خوش اخلاق، متواضع اور خاکسار تھے، مگر اپنی رائے کے سختی سے پابند تھے، مسلمانوں کی ترقی کے اسباب و علل و نتائج اور ذرائع و وسائل کے جو سبق انھوں نے سرسید مرحوم سے شروع میں پڑھے تھے وہ آخر تک ان کو یاد رہے، ایسے پختہ ایمان لوگ حقیقت میں قدر کے لائق ہیں، اور بعض خاص حیثیات سے وہ اپنی قوم کی تعمیر کے لیے بے حد ضروری اجزا ہیں۔
مرحوم نے اپنے زمانہ میں ایجوکیشنل کانفرنس کو بیحد ترقی دی، اُس کو مالی حیثیت سے بہت حد تک مستغنی اور بے پروا کردیا، اس کی علیحدہ عمارت بنوائی، اس میں تعلیمی کتب خانہ جمع کیا، جو گویا تعلیم، فلسفہ، تعلیم اور طریقۂ تعلیم کے بہترین ذخیرہ کا اعلیٰ ترین نمائش خانہ ہے، وظائف کے شعبہ کو ترقی دی، ریاستوں سے کانفرنس کے لیے ماہوار امدادی رقمیں مقرر کرائیں، مگر ان سب کے باوجود افسوس یہ ہے کہ ان کی زندگی کا ہر کارنامہ ناتمام سارہا، خدا مغفرت فرمائے۔ (سید سلیمان ندوی، فروری ۱۹۳۰ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |