Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسرٹومس آرنلڈ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسرٹومس آرنلڈ
ARI Id

1676046599977_54337850

Access

Open/Free Access

Pages

69

پروفیسر آرنلڈ
پچھلے مہینے کی علمی سوانح میں دو فاضلوں کی وفات کا سانحہ خاص طور سے اہم ہے، ان میں سے ایک مغرب نژاد اور دوسرا مشرقی تھا، پہلے کو ہندوستان اور ہندوستان کے مسلمان پروفیسر آرنلڈ کے نام سے جانتے ہیں، یہ فلسفہ کے عالم ہونے کے ساتھ عربی اور اسلامیات کے بھی ماہر تھے، یہ ہندوستان آکر پہلے اسلامیہ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے، اور پھر بعد کو محمڈن کالج علی گڑھ میں پروفیسر ہوکر آئے اور یہیں ان کی شہرت کا ستارہ چمکا، ان کی خاص خصوصیت علم کے ساتھ ان کا حسن اخلاق تھا، وہ مشرقی علماء کے ساتھ ہمیشہ گھل مل کر رہتے، اور لاہور ہو یا علی گڑھ ہر جگہ انھوں نے اپنے رفیق علماء سے کچھ سیکھا اور ان کو کچھ سکھایا، اور خصوصیت کے ساتھ لاہور میں قاضی ظفرالدین صاحب مرحوم اور علی گڑھ میں مولانا شبلی نعمانی مرحوم کے ساتھ ان کے دوستانہ اور علمی تعلقات رہے، اور ان واقعات کا نتیجہ لاہور میں ان کی تالیف السواء السبیل فی معرفۃ العرب والدخیل اور علی گڑھ میں ان کی مشہور تصنیف دعوت اسلام ہے۔
مولانا شبلی مرحوم اور ان میں تعلقات ٹھیک استاد اور شاگرد کے تھے، مگر یہ فیصلہ مشکل ہے کہ ان میں استاد کون اور شاگرد کون تھا، مولانا نے ان سے کچھ فرنچ سیکھی تھی، اور انھوں نے ان سے عربی ، مولانا مرحوم کے سفرترکی میں سمرناتک وہی رفیقِ سفر تھے، مولانا نے اپنے سفرنامہ میں اس کا حال لکھا ہے، سفر روم والے فارسی قصیدہ میں لکھتے ہیں،
آرنلڈ آنکہ رفیق است وہم استاد مرا
استاد کے استاد سے ۱۹۲۰؁ء میں لندن میں میری ملاقات ہوئی تھی، وہ اس وقت انڈیا آفس سے متعلق تھے، مولانا مرحوم کے تعلق کے سبب سے مجھ سے بڑی محبت سے پیش آئے، اکثر وہ میرے پاس اور میں ان کے پاس انڈیا آفس میں آیا جایا کرتے تھے اور گھنٹوں وہ اپنی پرانی صحبتوں کا تذکرہ لطف و مسرت کے ساتھ کیا کرتے تھے، میں نے دیکھا کہ علی گڑھ کی صحبتوں کے پرانے نقوش ان کے لوحِ دل پر ہنوز تازہ تھے۔
اسی زمانہ میں وہ انڈیا آفس سے نکل کر اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز لندن میں چلے آئے تھے اور اس تعلق سے ہندوستان کے مسلمان طلبہ جو اس اسکول میں جاتے تھے، ان کے ذریعہ سے نامہ و پیام بھی باہم قائم تھا، ابھی ان کے ایک شاگرد کا خط آیا تھا کہ وہ دعوت اسلام (پریچنگ آف اسلام) کا دوسرا اڈیشن کثیر اضافوں کے ساتھ چھپوانا چاہتے ہیں، ہندوستان کے متعلق تم سے کیا مدد مل سکتی ہے، میں نے مذاقاً جواب دیا تھا کہ جب ڈاکٹر صاحب خود لکھیں گے تو اس شرط کے ساتھ میں مدد دوں گا کہ طبع اول کے دیباچہ میں جہاں مولانا شبلی مرحوم کی امداد کا شکریہ ہے، وہاں طبع ثانی کے دیباچہ کے حاشیہ پر میرا ذکر خیر بھی کردیا جائے، کہ میں بھی اس بزم عالی کے حاشیہ نشینوں میں شامل ہوسکوں، مگر افسوس،
آن قدح بشکست و آں ساقی نماند
ہندوستان سے جاکر ان کا سب سے بڑا علمی کام تو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کی تالیف میں شرکت ہے کہ اس کے متعدد ایڈیٹروں میں سے ایک وہ بھی تھے اور سب سے آخری کام مسلمانوں کے فن مصوری کی تاریخ ہے، ابھی کچھ مہینے ہوئے تھے کہ وہ مصر کی قومی یونیورسٹی میں لیکچر دینے آئے تھے، اور ان کا خیال تھا کہ اس میں ہندوستان کی اسلامی تاریخ اور سلاطینِ ہند کے تمدنی کارناموں کی پوری تفصیل کریں گے، معلوم نہیں یہ کارنامہ کہاں تک پہنچا۔
آرنلڈ علی گڑھ کالج میں دس برس رہے اور اس طرح رہے کہ اس وقت ان کو کامل مسلمان نہ سہی تو نیم مسلمان توضرور ہی ماننا پڑے گا، مسلمانوں کی صورت، مسلمانوں کی وضع، مسلمانوں کا تمدن، مسلمانوں کے عالموں کی صحبت، ہر چیز مسلمان نما تھی، اور کہا جاسکتا ہے کہ آرنلڈ نے اپنے زمانہ کے کالج میں وہ روح پیدا کردی تھی کہ اس کی مثال کالج کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔
فروری ۱۸۹۸؁ء میں جب انھوں نے دس برس کے بعد کالج چھوڑاتھا، اس وقت الوداعی پارٹی کے موقع پر مولانا شبلی مرحوم نے یہ دو شعر موزوں کرکے پڑھے تھے:
آرنلڈ آنکہ دریں شہر و دیار آمد و رفت
دلبرے بود کہ مارا بہ کنار آمد و رفت
آمد از ان گونہ بکالج کہ بہ گلزار نسیم
رفت ز انساں کہ تو گوئی کہ بہار آمد و رفت
یہی دو شعر اس وقت ان کی دائمی وداع کے موقع پر پڑھے جاسکتے ہیں۔
(سید سلیمان ندوی،جولائی ۱۹۳۰ء)

آہ آرنلڈ!
( شیخ عنایت اﷲ)
ابھی ہم فقیدالعلم پروفیسر براؤن کے نوحہ سے فارغ نہیں ہوئے تھے، اور ان کے ماتم کی صدائیں ابھی قصر علم کے ہردرودیوار سے آرہی تھیں کہ ہمیں ایک اور محب الاسلام و المسلمین یعنی پروفیسر ٹومس آرنلڈ کا ماتم کرنا پڑا، ان کے سفر مصر اختیار کرنے اور جامعہ مصریہ میں خطبات دینے کا ذکر ناظرین نے معارف کے شذرات میں پڑھا ہوگا، مصر سے براہ قسطنطنیہ مراجعت کئے ابھی ہفتہ عشرہ گذرا تھا کہ اچانک ۹؍ جون (۱۹۳۰؁ء) کو صرف ایک دو دن کی علالت کے بعد بعارضہ قلب اس جہاں فانی سے رخصت ہوگئے، جس کسی نے اس المناک خبر کو سنا، حیران و ششدر رہ گیا، کیونکہ انتقال سے ایک دو دن پہلے ہر کسی نے ان کو اسکول میں اپنے فرائض میں مشغول اور ملاقاتیوں سے حسب معمول بہ جبین خندان ملتے دیکھا تھا، واپسی پر نہایت ہشاش بشاش تھے، جس کسی سے ملتے اس کے مناسب حال اپنے تاثرات اور تجارب سفر میں سے چیدہ چیدہ حالات سنا کر خود بھی مسرور ہوتے اور دوسروں کو بھی محظوظ کرتے پہلی ہی ملاقات میں مجھ سے اپنے قیام قسطنطنیہ کا خوشی خوشی ذکر فرمایا، اور کہنے لگے ’’عنایت اﷲ تم نے قسطنطنیہ دیکھا ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’نہیں‘‘ فرمانے لگے کہ ’’میں وہا ں پورے نو دن رہا، اور ہرایک قابل دید شے کی خوب سیر کی، بے شمار لائق دید عمارات اور مقامات میں سے قصر سلطانی خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے، جو اب ایک موزیم کی صورت میں تبدیل کردیا گیا ہے، صرف خاص خاص زائروں کو داخلہ کی اجازت ملتی ہے، میں وہاں ایک عرصہ تک رہا، اور تم سے کیا بیان کروں کہ وہاں ارض و سماء کے کیا کیا خزانے جمع ہیں، ترکوں نے بیسیوں ملکوں کو تہ و بالا کیا، اور اپنے گھر کو سجایا، مصر کو لوٹا، ایرانیوں پر کئی دفعہ فتحیاب ہوئے، غرض صدیوں تک دنیا و جہاں کے نوادرو تحائف سے اپنے پایہ تخت اور قصور و محلات کو مالامال کرتے رہے، علاوہ دیگر لاتعداد نفائس کتب کے میں نے وہاں ایک مصور نسخہ دیکھا جو خود شاہ طہماسپ کے لیے تیار ہو اتھا، اور اس کے ذاتی شاہی کتب خانہ میں رہ چکا تھا العرج اور بہت سے آثار و یادگارِ زمانہ اشیاء کا ذکر بڑے لطف سے کرتے تھے، انہیں کیا معلوم تھا کہ عنقریب وہ خود ایک افسانہ روزگار بن جانے والے ہیں۔
ان کی ذات مستجمع الصفات اس بات کی محتاج نہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں سے ان کا ازسرنو تعارف کرایا جائے، ہند یعنی اسلامی ہند کے ساتھ ان کا پرانا اورگہرا تعلق تھا، سرسید مرحوم کے زمانہ میں علی گڑھکالج میں دس سال درس دیتے رہے، پھر لاہور گورنمنٹ کالج میں فلسفہ کے پروفیسر اور پنجاب یونی ورسٹی کی اورینٹل فیکلٹی کے ڈین کی حیثیت سے چھ سال گذارے، غرض اپنی عمر کے سولہ سال ہندوستان کی نذر کئے، اپنی مشہورِ عالم تصنیف پریچنگ آف اسلام (Preaching of Islam) (دعوت اسلام) نوسال کی مسلسل محنت کے بعد یہیں بزمانہ قیام علی گڑھ لکھی جس کا ایڈیشن اولین جو ۱۸۹۶؁ء میں شائع ہوا، سرسید مرحوم کی وصیت کے مطابق میرے ایک بزرگ ہمنام کے قلم سے اردو میں ترجمہ ہوکر ’’دعوت اسلام‘‘ کے عنوان سے اردو دان اصحاب سے روشناس ہوچکا ہے، ۱۹۰۴؁ء میں انڈیا آفس (لندن) میں اسسٹنٹ لائبریرین مقرر ہوئے، اور ۱۹۰۹؁ء سے ۱۹۲۰؁ء تک گورنمنٹ کی طرف سے ہندوستانی طلباء مقیمانِ انگلستان کے تعلیمی مشیر اور نگران کار مقرر رہے، اور ۱۹۲۰؁ء سے تاآخر حیات اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز (لندن یونی ورسٹی) میں عربی کی مسند دراست کو زینت بخشی، ہندوستان سے اسکول مذکور میں ہندوستانی طالب علموں کو عربی اسلامی مضامین کے مطالعہ کے لیے جو چیز کھینچ لاتی تھی، وہ آپ ہی کی ذات بابرکات تھی۔
مولانا شبلی مرحوم و مغفور کے ساتھ ان کی جو مخلصانہ دوستی تھی، وہ ہر ایک کو معلوم ہے، اور ایک کلاسیکل (Classical) چیز بن کر ہمارے ہاں ایک ادبی روایت کی حیثیت اختیار کرچکی ہے، فی الواقع یہ دونوں بزرگ ایک دوسرے کے قدر شناس تھے، اور مشرقی عالم نے مغربی فاضل کے دل پر اپنی شخصیت اور اخلاص و مودت کا جو گہرا نقش چھوڑا تھا، وہ اس ایک واقعہ سے ظاہر ہے، کہ جب ایک دفعہ مجھے ان کے دولت خانہ پر شرف ملاقات حاصل ہوا، اور دوران گفتگو میں مولانا شبلی کا ذکر خیرآگیاتو فرمانے لگے کہ میں انہیں ایک برادر عزیز کی طرح چاہتا تھا، اور مجھے یقین ہے کہ وہ بھی میری محبت کا جواب محبت سے دیتے تھے، پھر گرمجوشی کے ساتھ اس فارسی قطعہ کی طرف اشارہ کیا جو مولانا مرحوم نے ان کے علی گڑھ سے رخصت ہونے کے موقع پر لکھا ، اور جواب بھی ان کے کتب خانہ کی دیوار پر آویزان تھا، غرض مولانا کی زندہ دلی، بذلہ سنجی اور ان کے شگفتہ ظریفانہ لطائف کی یاد میں بے اختیار ہنستے تھے، اور فرماتے تھے کہ اگر ان سے مجھے کوئی شکایت تھی تو یہ کہ وہ میرے ساتھ عربی کی تعلیم کے خشک کام میں سرکھپائی کرنے سے گریز کرتے تھے، جب میں ان سے کہتا کہ مجھے عربی پڑھاؤ، تو جواب دیتے کہ ’’نہیں، نہیں تم پہلے ہی سے بہت کچھ جانتے ہو، میں کچھ اپنے لیے بھی تو رکھوں‘‘۔
ہندوستان کے ساتھ ان کا تعلق خاطر آخر وقت تک قائم رہا، چنانچہ جامعہ مصریہ میں پچھلے سال جو خطبات دیئے، ان میں عام اسلامی تاریخ کے علاوہ، ان کا دوسرا موضوع خاندان تیموریہ کی تاریخ تھا، ان کے مصر سدھار نے سے قبل جب میں نے پوچھا کہ آپ وہاں کس مضمون پر لکچر دینگے تو جواب دیا کہ خاندان تیموریہ مغلیہ پر، کیونکہ مجھے مصری طلبہ اور دیگر اشخاص سے گفتگو کر کے معلوم ہوا کہ وہ لوگ ہندوستانی مسلمانوں کو حقیر جانتے ہیں، بدین وجہ کہ ان کی نظر ہند کے موجودہ انحطاط پر ہے، مگر وہ اسلامی ہند کی گذشتہ عظمت و شان (Glory) سے ناواقف ہیں، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں، کہ اسلامی ہند ایک وقت میں کیا تھا، اور اب بھی اقوام اسلامیہ میں اس کا کیا درجہ ہے؟
کیا بلحاظ وسعتِ علم اور کیا بلحاظ وست اخلاق، پروفیسر آرنلڈ جیسے عالم کا صفحہ ہنستی سے اٹھ جانا ہر حالت میں ماتم خیز تھا مگر ایسے وقت میں جب کہ انگلستان میں پہلے ہی سے دوسرے یورپی ممالک کی نسبت عامہ مستشرقین کا بالعموم اور اسلامی روایات سے ہمدردی رکھنے والے علماء کا بالخصوص قحط ہے، ان کی موت اور بھی زیادہ المناک اور تاسف انگیز ہے، اور جہاں تک اسلامی تاریخ اور علوم و فنون کی تحقیق و تفتیش کا تعلق ہے، ان کا انتقال فی الواقع ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، اسلامی السنہ اور اسلامی تاریخ و تمدن کے درس و مطالعہ کے مدعی توکئی ایک ہیں، مگر روح اسلام اور اسلامی روایات کے کماحقہا سمجھنے کی جو توفیق قدرت کی طرف سے انہیں عطا ہوئی تھی، وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آئی ہے، اسلامی تعلیم اور اصول کی تشریح و توضیح میں وہ جس سلامت روی، جس بصیرت اور جس ہمدردانہ خوش فہمی کا ثبوت دیتے، اس سے اگر ایک طرف اعتدال پسند اور منصف مزاج فرقہ علمائے سے خراج تحسین وصول کرتے تھے، تو دوسری طرف پادری زویمر و امثالہ ان پر پاسداری اور بے جا سرگرمی کا الزام لگاتے اور ان کی تحریروں پر نہایت تلخ لہجہ میں معترض ہوتے تھے۔
ان کی بے بدل کتاب پریچنگ آف اسلام (Preaching of Islam) نہ صرف فن تاریخ نویسی کا ایک اعلی نمونہ اور اسلامی تاریخی ادب میں ایک بیش بہا اضافہ تھا، بلکہ اس کی تحریر سے انہوں نے اسلام کے بے داغ چہرے سے جو داغ مٹایا، وہ عامہ مسلمین کی ایک بہت بڑی خدمت تھی، جو انہوں نے سرانجام دی اور جس کے احسان گرانبار سے کافہ مسلمین کی گردن کبھی ہلکی نہیں ہوسکتی، چونکہ وہ کتاب ایک غیر مسلم محقق کے قلم سے نکلی تھی، اس لیے رائے عامہ پر اس کے نتائج تحقیق کا بہت اچھا اثر پڑا اور مخالفین نے ازراہ تعصب اور جہالت اسلام کے بزور شمشیر پھیلائے جانے کی جو رٹ لگا رکھی تھی، اس کا بہت حد تک سدباب ہوگیا، اگر آج اسلام کی پر امن اشاعت معتدل علمائے مستشرقین کے درمیان مسلمات میں سے ہے، تو یقینا ہوا کا رخ پلٹنے اور اس صحیح رائے کے پیدا کرنے میں ڈاکٹر صاحب کی پرزور اور ناقابل تردید تحقیق کا بہت سا حصہ ہے، اگرچہ انہوں نے ’’دعوت اسلام‘‘ میں صرف بے لوث علمی تحقیق کی داد دی تھی، مگر بلحاظ نتیجہ کے اس میں اسلام کی مدافعت اور حمایت کا جو پہلو پیدا ہوگیا تھا، اس کی بنا پر بعض اچھے پڑھے لکھے آدمیوں کو یہ گمان بلکہ یقین ہوتا تھا کہ اس کا مصنف مسلمان ہے، اگر چہ ڈاکٹر صاحب عقیدۃً مسلمان نہ تھے، لیکن اگر مکارمِ اخلاق، انسانی ہمدردی، اخلاص و صداقت، تلطف و ملائمت اور فرض شناسی کا نام اسلام ہے، تو بلاشبہ وہ نہ صرف مسلمان تھے، بلکہ ہمارے آج کل کے مردم شماری کے اکثر مسلمانوں سے بہتر تھے۔
ان کی اس معرکۃ الآرا تصنیف کی خاص کر جرمنی میں ہمیشہ سے بہت قدر و منزلت رہی ہے اور ان کی یہ وقعت اور قبولیت بدین لحاظ کوئی معمولی بات نہیں کہ جرمن علماء بالعموم انگریز مصنفوں کو خاطر میں نہیں لاتے، اور یہ امر باعث تعجب نہیں، کیونکہ جیسا کہ اہل خبر سے پوشیدہ نہ ہوگا، نہ صرف انگریزی زبان میں مشرقیات کا ذخیرہ مقابلۃً کم ہے، بلکہ تاحال انگریز مصنفین باتشناء چند یورپی اور خصوصاً جرمن مستشرقین کے خوشہ چین رہے ہیں، لیکن اگر کسی انگریز مستشرقین کی کوئی تصنیف جرمن معیار تحقیق پر پوری اتری ہے تو وہ ڈاکٹر صاحب کی ’’دعوت اسلام‘‘ ہے، خصوصاً پروفیسر گولڈ زیہر (Gold Ziher) متوفی ۱۹۲۳؁ء ان کے بہت مداح اور قدر شناس تھے، اسی طرح دیگر علماء بھی احترام کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیں، آرنلڈ صاحب مجھ سے ایک دفعہ بیان فرماتے تھے کہ میں نے ڈاکٹر بیکر (Becker) (مشہور و ممتاز جرمن مستشرق) سے ایک دفعہ سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ تم جرمن عالم لوگ باوجود اپنے بے مثال تبحر علمی اور شوق تحقیق کے اشاعت اسلام کی تاریخ کے مسئلہ پر توجہ نہیں کرتے، اور اس ضروری موضوع پر اپنی زبان میں کوئی کتاب تیار نہیں کرتے، تو (جوہر شناس) ڈاکٹر نے جواب دیا کہ ’’اس کی یہ وجہ ہے کہ ہم لوگ آپ کی کتاب پڑھتے ہیں‘‘۔
ٍ فی الواقع مشرق و مغرب میں وہ اپنے موضوع پر ایک واحد اور بے بدل کتاب ہے، اگرچہ فرانسیسی محققین نے افریقہ میں اشاعت اسلام کے متعلق حال میں بہت کچھ لکھا ہے، اور دیگر اقطاع و ممالک اسلامی کے متعلق بھی مزید معلومات جمع ہوتی جارہی ہیں، مگر تمام عالم اسلامی کا اس لحاظ سے سوائے پروفیسر صاحب کے کسی نے احاطہ نہیں کیا، اس کا دوسرا ایڈیشن جو ۱۹۱۳؁ء میں شائع ہوا، چند سال سے ختم ہوچکا ہے، اور ایسا کمیاب ہوتا جارہاہے کہ جن دو ایک مصری صاحبوں نے اس کے عربی ترجمہ کرنے کی اجازت لے رکھی ہے، وہ اصل کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کچھ مدت سے اس کے تیسرے ایڈیشن کی فکر میں تھے، اور نئے مواد کی جمع و ترتیب میں مشغول تھے، مگر افسوس کہ اجل نے مہلت نہ دی، جب میں نے ایک دفعہ اس کے اردو ترجمہ کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے نہ صرف میرے ارادے کو بنظرِ استحسان دیکھتے ہوئے شرف قبولیت بخشا تھا بلکہ اپنے چند ایک دیگر مقالات کا حوالہ دیا تھا، جو انہوں نے ایک انسائیکلوپیڈیا کے لیے لکھے تھے، اور فرماتے تھے، کہ جب تم کسی آیندہ وقت ترجمہ کرو تو ان مقالات کا ترجمہ بھی شامل کرلینا جو بلحاظ اپنے مضمون کے ضمیمہ یا تتمۂ کتاب کا کام دیں گے۔
ایک مدت سے انہیں اسلامی آرٹ (Art) کے مطالعہ و تحقیق کی طرف خاص رغبت ہوگئی تھی، اور اپنی عمر کے کم از کم آخری دس سال انہوں نے زیادہ تر اسی موضوع کے مطالعہ میں صرف کئے، Mr.Binyon کی معیت میں شاہان مغلیہ کے درباری مصوروں پر انہوں نے جو کتاب لکھی وہ اپنے موضوع پر ایک نہایت دلچسپ بلکہ دلفریب کتاب ہے، مگر اسلامی فن تصویر پر ان کی جامع تصنیف التصویر فی الاسلام ہے، جو ۱۹۲۸؁ء میں شائع ہوئی مجھ سے ایک دفعہ ازراہ شکایت اور افسوس ذکرکرتے تھے کہ انگلستان میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اس موضوع پر کام کرتے ہوں، اور جن کے ساتھ میں اس مضمون پر تبادلہ خیالات کر سکوں چنانچہ ان کی آخری کتاب ’’اسلامک بک‘‘ پروفیسر Grohmann کی شرکت میں لکھی گئی، سنہ رواں (۱۹۳۱؁ء) کے آغاز میں لندن میں ایرانی (Art) فنون کی جو عظیم الشان بین الاقوامی نمائش اور کانگریس منعقد ہورہی ہے، یہ انہیں کی اولین تجویز و تحریک کا نتیجہ ہے، مگر افسوس وہ خود اس میں حصہ لینے کے لیے اس وقت زندہ نہیں ہیں، Art پر ان کی تصانیف کے عنوانات حسب ذیل ہیں:
۱۔ سلاطین مغلیہ کے درباری مصورین ۱۹۲۱؁ء
(The govt. painters of The great Moguls 1921)
۲۔ اسلام میں مصوری ۱۹۲۸؁ء (Painting in Islam 1928)
۳۔ بہزاد اور اس کی تصویریں ظفرنامہ کے قلمی نسخہ میں
(Bihzad and his paintings in the Zafar nama)
۴۔ اسلامی کتاب ۱۹۳۰؁ء (The Islamic Book 1930)
عربی کی تعلیم کے متعلق ان کے چند خاص اصول و قواعد تھے، جن پر وہ ایک مدت العمر کے تجربہ کے بعد پہنچے تھے، اسکول میں ان کی تعلیم انہیں اصول پر مبنی تھی، اور فرماتے تھے کہ ان کی نگہداشت اور استعمال سے ہمیشہ تسلی بخش اور عمدہ نتائج مترتب ہوئے ہیں۔ یہ امر پوشیدہ نہیں، کہ کچھ عرصہ سے وہ انہیں اصول پر ایک عربی گریمر کی ترتیب دینے میں مصروف تھے، مگر افسوس کہ کئی ایک دیگر کاموں کی طرح یہ مفید کام بھی انجام نہ پاسکا، وہ اس بات کے سخت مخالف تھے کہ طالب علموں کے نصاب تعلیم میں، خواہ وہ متبدی ہوں یا منہتمی، مشکل کتابوں کو خواہی نخواہی داخل کیا جائے، وہ کتابیں جن کی سب سے بڑی خصوصیت اور وجہ شہرت محض یہ ہے کہ ان میں مغلق الفاظ کی بھرمار ہے، ایسی کتابوں کو وہ طالب علموں کی ترقی میں سخت حارج سمجھتے تھے، ان کی رائے یہ تھی کہ ہر درجہ میں اس کے مناسب نصاب خواہ لمبا ہو مگر آسان اور بے فائدہ مغلقات سے پاک، تاکہ طالب علم کی نظر سے زیادہ ممکن کتابیں گذر جائیں، اور وہ مختلف قسم کی نثر اور نظم اور لٹریچر کے مختلف اضاف سے نسبۃً قلیل عرصہ میں آشنا ہوسکیں، بجائے اس کے کہ وہ ایک ہی مشکل کتاب پر عرصہ تک بے فائدہ سرپٹکتے رہیں، اسی لیے وہ عربی میں عجائب المقدور (تاریخ تیموری) اور مقامات حریری اور فارسی میں درّہ نادرہ اور تاریخ وصاف وغیرہا قسم کی کتابوں کو درسی نصاب کے لیے بالکل نامناسب خیال کرتے تھے اور کہا کرتے کہ یہ تو قدیم ادبی نوادر (Literary Curissities) ہیں۔ جب طالب علموں کو زبان میں دخل حاصل ہوجائے تو بعد میں اگر وہ چاہیں اور ازراہ شوق بطور خود پڑھ سکتے ہیں، اور افسوس کیا کرتے کہ ہندوستان میں ابھی تک ذمہ دار لوگ نہ قدیم مدارس میں نہ جدید تعلیم گاہوں میں، اس قدیم طرز تعلیم کی غلطی پر متنبہ نہیں ہوئے، اور اسی قسم کے غلط طریقہ ہائے تعلیم کو ہندوستان میں علوم عربیہ کی موجودہ پستی اور کساد بازاری کا ایک قوی سبب جانتے تھے۔
علاوہ ازیں اسلامی ہند کے موجودہ علمی جمودپر افسوس کیا کرتے ، ایک دفعہ مجھ سے فرمانے لگے، کہ جس زمانہ میں میں ہندوستان میں تھا، تمہاری یونیورسٹیوں میں بیش قرار تنخواہوں والے مشرقی پروفیسر مقرر نہ تھے، یہ تبدیلی حالات بہت مبارک اور خوش آیند ہیں، مگر اس سے ابھی تک علمی فضا میں وہ حرکت اور وہ زندگی پیدا نہیں ہوئی، جس کی بجاطور پر توقع کی جاسکتی تھی، تمہاری کرسی ہائے دراست کی علمی پیداوار صفر کے قریب قریب ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ مخصوص حلم و انکسار کے ساتھ کہتے، کہ میں کون ہوں؟ جو اس بارہ میں شکایۃً لب کشائی کروں، مگر حقیقت میں یہ کوئی شکایت نہ تھی، بلکہ ان کی سچی دلسوزی کا اظہار تھا، اور سچ بھی یوں ہے، کہ اس ملک کی حالت پر جتنا نوحہ کیا جائے کم ہے، جہاں کے اکثر حاملان علم اور مدعیان فن کا اولین اور آخرین علمی کارنامہ وہ کتاب ہوتی ہے جو وہ ڈگری حاصل کرنے کے لیے لکھتے ہیں، خصوصاً اسلامی تاریخی تحقیقات کی کس مپرسی اور عام پستی پر افسوس کرتے اور کہتے کہ تمہارے ملک کے اساتذہ کا نام ہم لوگ ہندوستان سے باہر بہت کم سنتے ہیں۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ ہم لوگ خود ہندوستان میں رہ کر نہیں سنتے، آپ ساتھ سمندر پار کیا سنیں گے، اس قسم کی تحقیقات کا باردہ زیادہ عربی اور فارسی کے اساتذہ پر ڈالتے اور کہتے کہ چونکہ تاریخی مصادر و مآخذ جہاں تک قرون اولیٰ کا تعلق ہے، بیشتر عربی میں ہیں اور جہاں تک ہند کی اسلامی تاریخ کا واسطہ ہے، فارسی میں لہٰذا وہ لوگ اس کام کے زیادہ اہل ہیں، مگر وہ اس بات کو فراموش کرجاتے کہ اس کے لیے محض عربی دانی یا فارسی دانی کافی نہیں، بلکہ جوش عمل شرط اولین ہے، اور اس علمی شغف، اس دارافتگی و سرشاری، اس علمی عشق کی ضرورت ہے، جس نے پچھلی صدی میں شبلی پیدا کیا، اور وہ ذاتی شوق، وہ طبعی رجحان، خدمت علم کا وہ سچا جوش و ولولہ اور علم کی پرستاری کا وہ جذبہ جس کو حکومت دریاست کی سرپرستی، نہ سرکاری عہدوں کی پیش قرار تنخواہیں پیدا کرسکتی ہیں اور جو نہ کسی مشرقی یا مغربی یونیورسٹی کی سند سے حاصل ہوسکتا ہے۔
ان کی تمام زندگی جو نہایت سادہ اور ہر قسم کے تکلف سے مبرا تھی، الفقرُفخری کی علمی تفسیر تھی، دوران مکالمہ جب ایک دفعہ میری زبان سے نکل گیا، کہ مجھے لذائذ زندگی (Amenities of Life) سے متمتع ہونے سے احتراز نہیں، تو مارے تعجب کے چونک اٹھے، اور فرمانے لگے، کہ ’’عنایت اﷲ! تمھیں اپنے استاد کے سامنے ایسے بات کہتے شرم نہیں آتی لاحول ولا قوۃ ۱؂ محض دنیاوی آسایش کیا چیز ہے، پھر فرمایا، Inayatullah live the life of a scholar (عنایت اﷲ ایک اسکالر کی زندگی بسرکرو) ان کے یہ پراثر الفاظ جب تک زندہ ہوں میرے کانوں میں گونجتے رہیں گے، کہا کرتے کہ میں غریبوں کے گھر پیدا ہوا اور ساری عمر غربت میں بسر کی، مگر میں نے کبھی اس بات پر افسوس نہیں کیا، اور نہ یہ بات لایق افسوس ہے، کیونکہ مجھے اپنی جگہ اس خیال سے کامل اطمینان اور تسلی ہے، کہ میں نے اپنا وقت حتّی الامکان صرف ایسے کام میں صرف کیا ہے جس کو اپنی رائے میں مفید سمجھتا ہوں، جرمنی جانے سے پہلے ایک دفعہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آیا مجھے وہاں تین ماہ کے لیے ایک سو پونڈ کی رقم کافی ہوگی تو کہنے لگے کہ کیا تم وہاں نوابوں کی طرح رہنا چاہتے ہو، تمہیں کیا معلوم کہ جرمن طالب علم کس طرح رہتے ہیں، اور ان میں سے بعض کسی قدر عسرت زدہ ہوتے ہیں، اور ساتھ ہی ان کے علمی ذوق و شوق پر عش عش کرتے اور کہتے کہ وہ ہزار تکلیف جھیلتے ہیں مگر دامن طلب ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، قیام جرمنی میں مجھے خود کئی ایک ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کا اتفاق ہوا جن سے ان کے قول کی پوری تصدیق ہوتی تھی، مگر ان کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔
اپنے شاگردوں کے لیے وہ سفر و قیام جرمنی ایسا ہی ضروری سمجھتے تھے جیسا کہ ذی استطاعت مسلمان کے لیے سفر حج، جرمن علماء کا ان سے بڑھ کر کون قدر شناس ہوسکتا ہے، اپنے طلبہ کے لیے جرمن زبان کی تحصیل ازبس ضروری جانتے تھے، تاکہ وہ جرمن ذخیرہ مشرقیات سے مستفیدہوسکیں، خود جرمن خوب بولتے تھے اور لکھتے تھے۔
ان کے ستودہ خصال میں زندہ دلی، نرمی، اور حلم و انکسار کے پہلو خاص طور پر نمایاں تھے، جس سے وہ ہرکہ ومہ کے دل میں گھر کرلیتے تھے، خواہ کسی سے چند لمحوں کے لیے ملتے، مگر اس کے دل پر اپنے حسن اخلاق اور شگفتگی طبع کاگہرا نقش چھوڑ جاتے تھے، عام طور پر کہا جاتاہے، کہ ہر شخص کے دوست بھی ہوتے ہیں اور دشمن بھی، مگر جہاں تک مجھے علم ہے ان کے جاننے والوں سے میں نے کبھی ایک حرف ان کے خلاف نہیں سنا جوان کے غیرمعمولی حسن سیرت کی دلیل ہے، خصوصاً اپنے شاگردوں کے ساتھ ان کا برتاؤ نہایت مشفقانہ تھا انکو ہمیشہ تلطف اور مہربانی کے کلمات سے پکارتے مثلاً ’’مائی ڈیر عنایت اﷲ‘‘ یا ’’مائی ڈیر ہمدانی‘‘ ان کا معمولی طرز تخاطب تھا، راقم الحروف کے ساتھ جو کچھ ان کا حسن سلوک اور حسن ظن تھا، اور اس خاکسار پر اس سحابِ کرم کی جانب سے مہربانی و عنایت کی جو مسلسل بارش رہتی، اس کے تذکرہ کو میں خود ستائی کے الزام کے خوف سے عمداً حذف کرتا ہوں ان کی عنایت بے غایت کی یاد سے میرا دل تشکر و امتنان کے جذبات سے ہمیشہ مملور رہے گا۔
باوجود دنیائے علم ودانش میں بلند پایہ رکھنے کے بیحد منکسرالمزاج تھے، اور کوئی ایسی بات نہیں سن سکتے تھے جس میں ان کی تعریف یا توصیف کا ذرا سا بھی پہلو ہو ان میں نہ تو ہمارے بد قسمت ملک کے بعض تنگ ظرف علمائے طرز قدیم کاتبخ تھا، اور نہ بعض جدید تعلیم یافتہ دیسی حضرات ’’دکاترہ‘‘ ۲؂ اور ’’پرافاسرہ‘‘ ۳؂ کا بے محل پر غرور دفتری رعب و ادب اور برگشتہ کی سرد مہری اور بیگانگی تھی۔
آرنلڈ مرحوم کے پسماندگان میں ایک دل شکستہ بیوہ اور ایک شادی شدہ صاحبزادی ہے جن صاحبوں نے ان کی پریچنگ آف اسلام کا پہلا ایڈیشن دیکھا ہے، ان کو یاد ہوگا کہ مصنف نے اس کو اپنی اہلیہ کے نام معنون کیا تھا، اور ساتھ ہی دیباچہ میں ان کی امداد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ان کا حسن قبول میری محنت کا بہترین صلہ ہے، اس ضمن میں ایک چھوٹے سے واقعہ کا ذکر شاید بے محل نہ ہوگا جس سے ان کی خوشگوار خانگی زندگی اور پسندیدہ پُرمحبت ازدواجی تعلقات پر دلچسپ روشنی پڑتی ہے، روانگی مصر سے دو تین دن پہلے جب میں ان کی خاص طلبی پر ان کے دولت خانہ پر حاضر خدمت ہوکر بیٹھا ہم کلام تھا، تو دفعتہ ٹیلیفون پر کسی نے ان کو بلایا، اور دریافت کیا کہ کیا آپ فلاں کام کے لیے آج شام آسکتے ہیں، تو ڈاکٹر مرحوم نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں عنقریب چند ماہ کے لیے مصر جانے والا ہوں، میری بیوی نہیں چاہتی کہ میں ایسی حالت میں بشرط امکان اس سے دور رہوں، اس ناقابل تردید بناء معذرت کو سننا میرے لیے دلچسپی اور لطف سے خالی نہ تھا۔
جہاں تک مجھے علم ہے ان کا انگلستان کے کسی کلیساکے ساتھ مطلق کوئی تعلق نہ تھا، عام عقائد میں وہ ریشنلسٹ (عقلی) (Rationalist) تھے، اور تحقیق مسائل میں ان کا آزاد قدم کسی خاص مذہب کا پابند نہ تھا، ان کا مسلک جو کچھ بھی تھا عقلی اور اخلاقی تھا، ڈاکٹر اسٹینٹن کوائٹ (Dr. Stanton Coit) جویہاں کی ایک ایتھکل سوسائٹی (Ethical Society) کے سکریٹری ہیں، ان کا بیان ہے کہ ڈاکٹر صاحب کبھی کبھی ہمارے جلسوں میں آنکلتے تھے۔ (اپریل ۱۹۳۱ء)

۱؂
çاس قسم کے مشرقی رسمی کلمات ان کی زبان سے بے ساختہ نکل جاتے تھے، علاوہ ازیں بوقت ضرورت اردو صاف بولتے اور پڑھتے تھے۔
۲؂
Mدکتور کی جمع ۳؂ پروفیسر کی مذاقیہ جمع

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...