Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > سید جالب دہلوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

سید جالب دہلوی
ARI Id

1676046599977_54337852

Access

Open/Free Access

Pages

74

سیّد جالبؔ دہلوی
اس مہینہ اردو صحافت کو اپنے ایک دیرینہ اہل قلم کی خدمات سے ہمیشہ کے لئے محرومی ہوئی، سید جالب دہلوی جو نہ صرف بحیثیت ایک کہنہ مشق اخبارنویس کے قابل ذکر ہیں، بلکہ مرحوم علم کے ایک سچے طالب اور عاشق تھے، ان کی کہنہ مشقی، اخباری وسعت اطلاع، عام معلومات کی آگاہی، تاریخی ذوق، کتب نادرہ سے سچا عشق ان کی زندگی کی خصوصیات تھیں، ہر ہفتہ نخاس جاکر معمولی دوکانوں پر بیٹھ کر قلمی کتابوں کے منتشر و پراگندہ اوراق چن کر بقیمت اٹھا لاتے تھے، گھر لاکر ان کی خدمت کرتے، ترک دیکھتے، ہندسے جوڑتے، عبارتیں ملاتے اور اوراق کو جوڑ کر کتاب کو درست کرتے، مرحوم نے کبھی فارغ البالی کی زندگی نہیں بسر کی، مگر اسی عالم میں انہوں نے لاہور، دہلی اور لکھنؤ کے بازاروں سے سات آٹھ ہزار کتابوں کا ذخیرہ فراہم کیا، جن میں بعض بعض بہت نادر کتابیں تھیں، ان کا ارادہ تھا کہ ان کتابوں کے لئے وہ کوئی خاص مکان بنوائیں، یا کسی قومی درسگاہ کے حوالہ کردیں، خدا جانے مرحوم کی وفات کے بعد ان پسماندوں کا کیا حشر ہوا، ۱؂ مرحوم ساکہنہ مشق اخبار نویس اور اخبار نویسی کے ایک ایک فن کا واقف کار شاید ہی مسلمانوں میں کوئی دوسرا ہو، اﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائے، ان کا سب سے بڑا کمال ان کا حافظہ تھا، جو ادنیٰ ادنیٰ چیزوں سے لے کر بڑے بڑے اشخاص سے متعلق معلومات ان کے خزانہ میں محفوظ رہتے تھے۔
سید جالب مرحوم پیسہ اخبار کے بعد غالباً سب سے پہلے ہمدرد میں ظاہر ہوئے، ہمدرد کے بند ہونے پر لکھنؤ آکرہمدم کی ادارت کا فرض انجام دیا اور ابھی دوسال ہوئے ہمدم سے علیحدگی کی صورت میں روزنامہ ہمت جاری کیا، سیدجالب کا وجود اگر لکھنؤ میں نہ ہوتا تو بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ اخباری حیثیت سے لکھنؤ کا کوئی وزن نہ ہوتا، سید جالب مرحوم کا قلم نہایت محتاط، مرنج و مرنجان اور طرزِ ادا نہایت صاف، سہل اور رواں تھا، ان کی عام معلومات اس قدر وسیع تھیں کہ جس مسئلے پر کچھ لکھتے تھے اس کے ہر پہلو کو نمایاں کردیتے تھے، ان کی خاص بات یہ تھی کہ ۱۹۲۰؁ء سے لے کر ۱۹۳۰؁ء تک ہندوستان کی سیاسیات میں لمحہ بہ لمحہ طوفانی انقلابات پیدا ہوتے رہے، نشیب و فراز، جوش و سکون ہر ایک دور آیا اور گزر گیا، مگر اپنے محتاط اظہار خیال اور متین طریقۂ تعبیر کی وجہ سے وہ ہر ایک طوفان سے اپنی کشتی ہمیشہ سلامت لے گئے، ہمت گو اب بھی اسی طرح نکل رہا ہے، مگر اس صوبہ کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی قدر شناسی کا ثبوت دیں، مالی سرمایہ کے بغیر یہ کام چل نہیں سکتا، صرف ہمت سے ہمتؔ کب تک نکلتا رہے گا۔
(سید سلیمان ندوی، جولائی ۱۹۳۰ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...