Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > احمد تیمور پاشا

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

احمد تیمور پاشا
ARI Id

1676046599977_54337853

Access

Open/Free Access

Pages

75

مرحوم احمد تیمور پاشا
مصر کے ان جدید تعلیم یافتہ اصحاب میں، جنھوں نے گزشتہ ربع صدی میں عربی علم ادب اور اسلامی علوم و فنون کی بیش ازبیش خدمت انجام دی، ایک ہستی احمد تیمور پاشا کی ہے، افسوس ہے کہ انھوں نے گزشتہ ماہ اپریل میں وفات پائی، ان کی مفید تالیفات کے علاوہ وقیع علمی مقالات مصروشام کے ممتاز رسالوں میں شائع ہوتے رہتے تھے اور معارف نے بھی ان کے مضامین ایک سے زیادہ مرتبہ اپنے صفحات میں پیش کئے۔
احمد تیمور پاشا نومبر ۱۸۷۱؁ء میں مصر کے ایک متمول کرد خاندان میں پیدا ہوئے، یہ خاندان محمد علی پاشا کے عہد میں موصل سے مصر میں آکر آباد ہوا اور اس کے مورث اعلیٰ تیمور بن محمد بن اسمٰعیل بن کرد محمد علی پاشا کے دورِ حکومت مصر میں کے دست راست تھے۔
احمد تیمور پاشا ابھی چند ہی دن کے تھے کہ ان کے والد اسمٰعیل تیمور پاشا کا انتقال ہوگیا اور ان کی تربیت ان کی شاعرہ و ادیبہ بہن عائشہ نے کی، انھوں نے ان کو بچپن ہی میں ایک فرانسیسی مدرسہ ’’مارسیل‘‘ میں داخل کردیا، چند سال کی تعلیم و تربیت کے بعد جب انھیں عربی علم و ادب سے زیادہ شغف ہوا تو فرانسیسی مدرسہ سے نکل کر گھر ہی پر عربی علوم و آداب کی باقاعدہ تحصیل شروع کی اور اس عہد کے مشہور اساتذۂ مصر کے سامنے زانوے ادب تہ کیا، چنانچہ ان کے اساتذہ کی فہرست میں مصر کے ممتاز فاضل شیخ رضوان بن محمد مغلاتی، شیخ حسن طویل، شیخ محمد محمود ترکزی شنقیطی، شیخ محمد عبدہ اور علامہ طاہر جزائری وغیرہ ہیں، انھیں اساتذہ سے علوم عربیہ صرف و نحو، فقہ، منطق، حدیث اور علوم قرآن میں مہارت حاصل کی اور ان علوم کے ماسوا فرانسیسی زبان میں خاص دستگاہ پہلے حاصل ہوچکی تھی۔
تحصیلِ علوم کے بعد انھیں دنیاوی اعزازواکرام کا نمایاں حصہ عطا ہوا، انھیں خاندانی وجاہت جو کچھ حاصل تھی، اس کی بنا پر ’’پاشا‘‘ کے خطاب سے سرفراز کرکے امورِ مملکت میں شریک کیا گیا، اور ’’مجلس الشیوخ‘‘ کے رکن منتخب کیے گئے، لیکن انھیں ان امور سے فطرۃً دلچسپی نہیں تھی، اس لیے مجلس الشیوخ سے مستعفی ہوکر دیگر علمی و اصلاحی مشاغل میں مصروف ہوگئے، چونکہ موصوف نے شیخ محمد عبدہ کا فیضِ صحبت اٹھایا تھا، اس لیے اصلاحی کاموں سے ان کو زیادہ دلچسپی تھی، چنانچہ اپنے عہدہ سے مستعفی ہوکر اپنا کافی وقت ’’جمعیۃ الہدایۃ الاسلامیہ‘‘ کی خدمت میں صرف کرنے لگے، پھر ’’جمعیۃ الشبان المسلمین‘‘ کے نام سے ملک کے مختلف اہل علم کی معیت میں ایک انجمن کی بنیاد ڈالی، اور اس کے سرگرم رکن رہے۔
اور اپنے علمی مذاق کے لحاظ سے مصر و شام کی اہم علمی انجمنوں ’’دار الآثار العربیہ‘‘، ’’المجمع العلمی المصری‘‘ اور ’’المجمع العلمی العربی دمشق‘‘ وغیرہ کے بھی رکن تھے، اور ان اداروں کی طرف سے عربی علم و ادب کی جو کتابیں شایع ہوتی رہتیں، ان کی تصیح و مقابلہ و تحشیہ میں معاونت کرتے، چنانچہ عربی علم ادب کی مشہور کتاب ’’کتاب الاغانی‘‘ کا معتد بہ حصہ انھیں کی زیر نگرانی شایع ہوا ہے، اور ان انجمنوں کی طرف سے مصر و شام کے جو ممتاز رسائل المقتبس، المنار، الزہرا، اور المجمع العلمی العربی وغیرہ بطور آرگن شایع ہوتے ہیں، ان میں ان کے علمی مضامین برابر شایع ہوتے رہتے۔
موصوف کا سب سے زیادہ علمی کارنامہ ان کا مشہور کتب خانہ ’’کتب خانۂ احمد تیمور پاشا‘‘ ہے، انھیں کتابوں کے جمع و ترتیب کا خاص ذوق تھا، اپنے عہدِ شباب ہی سے انھوں نے نفیس اور نادر کتابوں کا ذخیرہ جمع کرنا شروع کیا جس کا سلسلہ زندگی کے آخری لمحوں تک قایم رہا۔
کتب خانہ احمد تیمور پاشا، میں کتابوں کی تعداد اگرچہ ۱۵ ہزار سے زیادہ نہیں ہے، لیکن جس قدر کتابیں ہیں ان کا معتدبہ حصہ نادر قلمی کتابوں پر مشتمل ہے، جو اولاً مصر، شام، شمالی افریقہ اور دیگر مقالات کے مختلف گوشوں سے بے دریغ روپیہ صرف کرکے حاصل کی گئیں، علاوہ ازیں مشرق و مغرب کے مشہور کتب خانوں میں جو نادر قلمی نسخے تھے، ان کی نقل منگائی گئی اور جن کی نقل نہ کی جاسکی، ان کے فوٹو حاصل کئے گئے، چنانچہ اس طریقہ سے اس کتب خانہ میں شمالی افریقہ، عراق، شام، یمن اور حجاز کے کتب خانوں کے نادر نسخوں کی نقل حاصل کرنے کے علاوہ یورپ کے کتب خانوں میں سے قسطنطنیہ، پیرس اور روما وغیرہ سے نسخوں کی نقلیں حاصل کی گئیں، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کتب خانہ میں ایسا ذخیرہ جمع ہوگیا کہ مصر کے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ کتب خانہ احمد تیمور پاشا، مصر و شام کے دوسرے کتب خانوں، ’’دارالکتب مصریہ قاہرہ‘‘ اور ’’مکتبہ ظاہریہ دمشق‘‘، وغیرہ سے زیادہ بہتر ہے۔
احمد تیمور پاشا نے اپنی زندگی ہی میں اس کتب خانہ کے لئے ایک شاندار عمارت تعمیر کی اور پورے کتب خانہ کو وقف عام کردیا اور اس کے اخراجات اور کتابوں میں مزید اضافہ کے لئے جائداد کا ایک معقول حصہ الگ کردیا۔
موصوف کو زیادہ تر علم ادب، لغت اور تاریخ عرب و اسلام وغیرہ سے خاص شغف تھا، اس لئے ان کی تالیفات بھی زیادہ تر انھیں علوم کے دائرہ میں ہیں، ہم ذیل میں المنار اور المقتطف وغیرہ سے ان کی تصنیفات و رسائل کا ایک نقشہ پیش کرتے ہیں۔
۱۔ کتاب معجم اللغۃ العامیہ، مصر میں یہ خیال پیدا ہورہا تھا کہ مصر کی عامیانہ زبان کو علمی زبان قرار دیا جائے اور فصیح عربی کے بجائے اسی زبان کو قبول کرلیا جائے، مصنف اس جماعت کے ہم خیال نہ تھے اور انھوں نے پوری کاوش سے مصر کی عامیانہ زبان پر عبور حاصل کیا، اورعامی الفاظ کے عربی وغیر عربی ہونے کی تحقیق کی، اور اس زبان کے غیرعلمی ہونے کے ثبوت بہم پہنچائے، اور اسی سلسلہ میں عامی زبان کا ایک لغت تیار کرلیا اور پھر اس کا ایک ذیل بھی لکھا۔
۲۔ کتاب معجم الفوائد، یہ مصنف کے اثنا ئے مطالعہ کے اقتباسات کا مجموعہ ہے، جو مختلف علمی و ادبی مباحث پر مشتمل ہے، ان تمام مباحث کو یکجا کرکے ان پر حواشی و تعلیقات چڑھائے گئے، اور سب کو ایک مرتب شکل میں جمع کیا گیا ہے۔
۳۔ ترجمہ ابی العلاء المعری، اس میں مشہور عرب شاعر ابوالعلا معری کے سوانح حیات ہیں اور اس کے مختلف فیہ حالات خصوصاً اس کے عقائد پر جامع تنقید کی گئی ہے، علامہ رشید رضا مصری کا خیال ہے کہ ابوالعلا معری پر اس سے بہتر مجموعہ اب تک شائع نہیں ہوا۔
۴۔ کتاب وفیات القرنین الثالث عشروالرابع عشر للھجرۃ، یہ قدیم عرب مورخین کے طرز پر تیرہویں اور چودہویں صدی کے اہل علم کے حالات میں ہے۔
۵۔ مفتاح الخزانہ، یہ بغدادی کی خزانۃ الادب کی جامع فہرست مضامین ہے۔
۶۔ نظرۃ تاریخیہ فی حدوث المذاھب الاربعۃ، یہ فقہ اسلامی کے مذاہب اربعہ کی ابتدا اور عہد بعہد کی تدریجی ترقی اور مختلف ممالک میں ان کے نشر و اشاعت کی ایک مختصر جامع تاریخ ہے، اس رسالہ کا اردو ترجمہ معارف کی کسی گزشتہ جلد میں کئی نمبروں میں شائع ہوچکا ہے۔
۷۔ رسالۃ تاریخ الیزیدیہ، یہ فرقہ یزیدیہ کے حالات میں ہے۔
۸۔ رسالۃ العلم العثمانی، یہ عثمانی پرچم کے اصل، اس کے ماخذ اور اس کی گزشتہ تاریخ اور پھر اس سے مصری پرچم تیار کرنے کے حالات میں ہے۔
۹۔ رسالۃ قبر سیوطی، علامہ سیوطی کی قبر کی تحقیق و حالات میں ہے۔
۱۰۔ رسالہ تنقیح لسان العرب، عربی کی مشہور لغت لسان العرب کی تصحیح و تنفیح۔
۱۱۔ رسالہ تنفیح القاموس المحیط، اس میں عربی کے دوسرے مشہور لغت قاموس کی تنقید و تصحیح کی گئی ہے۔
۱۲۔ ذیل طبقات الاطباء، یہ طبقات الاطباء ابن ابی اصیبعہ کا ذیل ہے، جس میں اطباء اور حکماء کے حالات ہیں۔
۱۳۔ التصویر عندالعرب، اس میں عربوں کے فن مصوری پر بحث کی گئی ہے۔
۱۴۔ الاثار النبویہ، اس میں آنحضرتﷺ کے موئے مبارک اور دیگر متبرک آثار کا تذکرہ ہے، جو مختلف مقامات میں محفوظ ہیں۔
لیکن افسوس ہے کہ بخیر چند مضامین اور رسائل کے ان کی تالیفات کا معتدبہ حصہ ابھی تک قلمی ہے، اگرچہ ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ مرتب ہوچکی ہے، مگر مصنف کا مشغلہ اصلاح، ترمیم و اضافہ کا ایک مستقل سلسلہ جاری تھا، جس کی وجہ سے مصنف کو ایسی تسلی نہ ہوسکی کہ وہ کتابیں پریس کے حوالہ کی جاتیں، اب توقع ہے کہ ان کے صاحبزادے اسمٰعیل بک وغیرہ جو ان کے صحیح جانشین ہیں، ان کی تالیفات کو جلد تر شائع کریں گے۔ (ریاست علی ندوی، اگست ۱۹۳۰ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...