Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا حمید الدین

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا حمید الدین
ARI Id

1676046599977_54337855

Access

Open/Free Access

آہ! مولانا حمیدالدین
الصلوٰۃ علیٰ ترجمان القرآن (مفسر قرآن کی نماز جنازہ) وہ صدا ہے جو آج سے ساڑے چھ سو برس پیشتر مصرو شام سے چین کی دیواروں تک ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ کی نماز جنازہ کے لیے بلند ہوئی تھی، حق یہ ہے کہ یہ صدا آج پھر بلند ہو اور کم از کم ہندوستان سے مصر و شام تک پھیل جائے کہ اس عہد کا ابن تیمیہ ۱۱؍ نومبر ۱۹۳۰؁ء (۱۹؍ جمادی الثانیہ ۱۳۴۹؁ھ) کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا، وہ جس کے فضل و کمال کی مثال آئندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں، جس کی مشرقی و مغربی جامعیت عہد حاضر کا معجزہ تھی، عربی کا فاضل یگانہ اور انگریزی کا گریجویٹ، زہد و ورع کی تصویر، فضل و کمال کا مجسمہ، فارسی کا بلبل شیراز، عربی کا سوقِ عکاظ، ایک شخصیت مفرد، لیکن ایک جہانِ دانش، ایک دنیا ئے معرفت! ایک کائنات علم! ایک گوشہ نشین مجمعِ کمال، ایک بینواسلطان ہنر، علوم ادبیہ کا یگانہ، علوم عربیہ کا خزانہ، علوم عقلیہ کا ناقد، علوم دینیہ کا ماہر، علوم القرآن کا واقف اسرار، قرآن پاک کا دانائے رموز، دنیا کی دولت سے بے نیاز، اہل دنیا سے مستغنی، انسانوں کے ردوقبول اور عالم کے داد و تحسین سے بے پروا، گوشہ علم کا معتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ، وہ ہستی جو تیس برس کامل قرآن پاک اور صرف قرآن پاک کے فہم و تدبر اور درس و تعلیم میں محو، ہر شے سے بے گانہ، اور ہر شغل سے ناآشنا تھی، افسوس کہ ان کا علم ان کے سینہ سے سفینہ میں بہت کم منتقل ہوسکا، مسودات کا دفتر چھوڑا ہے، مگر افسوس کہ اس کے سمجھنے اور ربط و نظام دینے کا دماغ اب کہاں، جو چند رسالے چھپے وہ عربی میں ہیں، جن کے عوام کیا علماء تک ناقدرشناس، ان کی زندگی ہمارے لیے سرمایہ اعتماد تھا، اور ان کا وجود دارالمصنفین کے لیے سہارا تھا، افسوس کہ یہ اعتماد اور یہ سہارا جاتا رہا، اور صرف اسی کا اعتماد اور سہارا رہ گیا، جس کے سوا کسی کا اعتماد اور سہارا نہیں، اس سے زیادہ افسوس یہ ہے کہ یہ ہستی آئی اور چلی گئی، لیکن دنیا ان کی قدر و منزلت کو نہ پہچان سکی اور ان کے فضل و کمال کی معرفت سے ناآشنا رہی،
تو نظیریؔ ز فلک آمدہ بودی چو مسیح
بازپس رفتی وکس قدرِ تو نشناخت دریغ
زندگی گمنامی میں گزاری، مرنے کے بعد بھی گمنامی کا گوشہ تلاش کیا، متھرامیں جہاں اپنے ایک ہموطن ڈاکٹر سے جو دس برس سے ان کے معالج خاص تھے، علاج کرانے تشریف لے گئے تھے، وہیں انتقال فرمایا، عمرشریف سرسٹھ (۶۷) برس کے قریب تھی، مگر دائمی دردِ سر کی شکایت کے سوا قویٰ بہت اچھے تھے۔
ہم گنہگار اور ان کی مغفرت کی دعا کیا مانگیں کہ ان کے انفاس متبرکہ ہمہ تن یادِ خدا، صبر و رضا، شکرو تسلیم میں صرف ہوتے تھے، ان کی نماز ہمہ تن لطف محویت ہوتی تھی، ان کو دیکھ کر خدا یاد آتا تھا، اپنی زندگی ہی میں اپنی مغفرت کے کئی خواب دیکھے تھے۔
خداوندا! ہمیں توفیق دے کہ ان کے نقش قدم پر چل کر ہم بھی تیری مغفرت کے سزاوار و مستحق ٹھہریں اور مرنے والے کو اپنی رضا و محبت کی بہشت عطا فرما کہ وہ اسی کا طالب تھا۔
اواخر عمر میں مرحوم کی سب سے بڑی کوشش یہ تھی کہ وہ چند مستعد طلبہ کو اپنے مذاق کے مطابق تیار کریں، چنانچہ کم از کم دو طالب العلموں کی خاص طور سے انھوں نے دماغی تربیت کی، ہم سب کی دعا ہے کہ وہ مدرسہ اصلاح المسلمین کو سنبھال لیں۔ جو مرحوم کی سب سے بڑی مادی یادگار ہے، تفسیر کے اجزاء جو مکمل ہوں گے، ان کی اشاعت کی فکر کی جائے گی، مگر آہ! کہ اس ناقدر شناس دنیا میں ان جواہر ریزوں کی کون قدر کرے گا، اور کون سرمایہ بہم پہنچائے گا۔
رحمۃ اﷲ علی ذاک الجسد (سید سلیمان ندوی، نومبر ۱۹۳۰ء)

مولانا حمید الدینؒ
ولادت ۱۲۸۰؁ھ ؍ ۱۸۶۲؁ء ۔ وفات ۱۳۴۹؁ھ ؍ ۱۹۳۰؁ء
فغان کہ گشت نیوشندۂ سخن خاموش
وگرچہ گونہ تسلی کنم من این لب و گوش
اس سے پہلے ہندوستان کے جن اکابر علماء کا ماتم کیا گیا ہے وہ کل وہ تھے، جن کی ولادت اور نشوونما انقلاب زمانہ سے پہلے ہوئی تھی، آج سب سے پہلی دفعہ ہم نئے عہد کے سب سے پہلے عالم کی وفات کے ماتم میں مصروف ہیں ہم ایک ایسے گریجویٹ عالم کا ماتم کرتے ہیں جو اپنے علم و فضل، زہدو ورع، اور اخلاق و فضائل میں قدیم تہذیب کا نمونہ تھا، لیکن جو اپنی روشن خیالی، جدید علوم و فنون کی اطلاع و داقفیت اور مقتضیات زمانہ کے علم و فہم میں عہد حاضر کی سب سے بہتر مثال تھا، اس سے پہلے ان تمام علماء نے جو نئے علم کلام کا اپنے کو بانی کہتے اور سمجھتے ہیں، جو کچھ کہا اور لکھا، وہ دوسروں سے سنی سنائی باتیں تھیں لیکن اس جماعت میں یہ پہلی ہستی تھی، جس نے فلسفہ حال کے متعلق نفیاً یا اثباتاً جو کچھ کہا اور لکھا وہ اپنی ذاتی تحقیق اور ذاتی علم و مطالعہ سے!
آج ہمارے سامنے ایسے متعدد علماء کی مثالیں ہیں جنھوں نے عربی علوم کی تکمیل کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی، اور بی۔اے اور ایم۔اے اور پی۔ایچ۔ڈی کی سندیں حاصل کیں، لیکن اس طرح کہ
جو پڑھا لکھا تھا نیاز نے اسے صاف دل سے بھلا دیا
نئے رنگ نے پرانے کو اتنا پھیکا کردیا کہ ان پر اس کا نشان بھی نظر نہیں آتا، لیکن آج ہم جس ہستی کا تذکرہ کررہے ہیں، اس کا یہ حال تھا کہ اس کے نئے رنگ کی شوخی سے اس کے پرانے رنگ کا گہرا پن اور بڑھ گیا تھا اور اس کو دیکھ کر یہ سمجھنا بھی مشکل تھا کہ یہ علی گڑھ کالج اور الہ آباد یونیورسٹی کا گریجویٹ ہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ اس کی سادگی کو دیکھ کر عوام بظاہر اس کو عالم بھی بمشکل ہی باور کرسکتے تھے، مگر وہ تھی، جو ابناے زمانہ میں کوئی نہیں۔
ولادت: اعظم گڑھ سے دو اسٹیشن پہلے پھریہاؔ ایک گاؤں ہے وہی مولانا کا پدری وطن تھا، اسی پھریہاؔ کو عربی شکل دے کر مولانا اپنے نام کے ساتھ کبھی کبھی فراہی لکھا کرتے تھے، مولانا شبلی مرحوم اور مولانا حمیدالدین ممیرے پھپھیرے بھائی تھے مولانا حمیدالدین کے والد مولوی عبدالکریم صاحب مولانا شبلی کے ماموں تھے، دونوں بھائیوں کی پیدائش چھ برس آگے پیچھے ہوئی، مولانا شبلی ۱۲۷۵؁ھ؍ ۱۸۵۷؁ء میں پیدا ہوئے، اور مولانا حمید الدین صاحب ۱۲۸۰؁ھ؍ ۱۸۶۲؁ء میں، مولانا حمیدالدین کے حقیقی چھوٹے بھائی شیخ حاجی رشید الدین صاحب ہیں، جو علی گڑھ کالج کے پرانے تعلیم یافتوں میں ہیں اور سرسید کے عہد کے طالب العلم اُن سے اچھی طرح واقف ہیں۔
مولانا کا اصلی نام تو حمیدالدین تھا مگر وہ اس نام کو جو درحقیقت عربی قاعدہ سے لقب ہے، اپنے لیے معنوی حیثیت سے بلند سمجھتے تھے، اس لیے وہ عربی تصانیف میں اپنا نام عبدالحمید لکھتے تھے، اور تمام بڑے بڑے عالمانہ آداب و القاب کو چھوڑ کر صرف معلم کہلانا اپنے کو پسند فرماتے تھے، بنابرین، وہ اپنا نام المعلم عبدالحمید الفراہی کتابوں کی لوحون پر لکھا کرتے تھے۔
تعلیم: مولانا نے پہلے حفظ شروع کیا، اور قرآن مجید کے حافظ ہوئے، اور فارسی کی ابتدائی کتابیں اس ضلع کے ایک دیہات چتارا کے باشندہ مولوی مہدی حسین صاحب سے پڑھیں، اس زمانہ میں شرفا کی تعلیم کا فارسی ادب سب سے اہم جزو تھا، مولانا کو ادبیات سے فطری لگاؤ تھا، چنانچہ فارسی زبان اور فارسی ادب کا ذوق بچپن سے اُن میں نمایاں تھا، اس وقت مولانا شبلی مرحوم عربی کی اعلیٰ کتابیں اعظم گڑھ میں مولانا فاروق صاحب چریا کوٹی سے پڑھ رہے تھے، مولانا فاروق صاحب اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم ہونے کے ساتھ فارسی کے بھی بہت بڑے ادیب اور استاد تھے، مولانا حمید الدین صاحب کی آمدورفت یہاں بھی رہا کرتی تھی، اور یہ عالمانہ صحبتیں ان کو ملا کرتی تھیں۔
ابھی مولانا کی عمر سولہ برس کی تھی کہ فارسی کے سب سے مشکل گو شاعرخاقانی شروانی کے تبتع میں ایک قصیدہ لکھا جس کی ردیف آئینہ اور قافیہ جو ہر کیفر وغیرہ ہے، سلطان عبدالحمید خان کی مدح میں ہے، مطلع ہے۔
بے جلوۂ رخِ تو بود مضطر آئینہ
خار افگند بہ پیرہن از جوہر آئینہ
بعد کے شعر ہیں:
گیسوے ہمچو شب تو بیار اے وہم بصبح
فرماے تو بیادر واز خاور آئینہ
گستاخ دیدہ است بروے تو لاجرم
چشمِ سپید یافت بدیں کیفر آئینہ
آئینہ واگذار دبیادر دو دیدہ ام،
چشمِ بودز آئینہ بہتر ہر آئینہ
دربزم انس خویش چراجاے دادہ
تامی شود برابر تو اکثر آئینہ
کے باضمیر شاہ شود ہمسر آفتاب
کے روے ہمچو ماہ ترا ہمسر آئینہ
۲۸ شعروں کا قصیدہ تھا، لوگوں کو پڑھ کر بڑی حیرت ہوئی یہ فارسی یہ لطف زبان، یہ شیرینی، اور یہ شکوہ دیکھ کر سب کو تعجب تھا، مولانا شبلیؔ فرماتے تھے، کہ میں نے اس کو لیجاکر مولانا فاروقؔ صاحب کو دکھایا، اور پوچھا کہ آپ کے نزدیک یہ کس کا کلام ہے، انھوں نے فرمایا یہ تو نہیں بتاسکتا، مگر قد مامیں سے کسی کا معلوم ہوتا ہے، مولانا شبلیؔ نے فرمایا یہ حمیدؔ کا ہے، حیرت ہوگئی۔
مولانا حمید الدین صاحب فطرۃً نہایت ذہین نہایت طباع، اور نہایت دقیقہ رس تھے، ان کا ذہن نہایت صاف تھا، وہ اول ہی وہلہ میں بے کج و پیچ حقیقت کی منزل مقصود تک پہنچ جاتے تھے، ان کا تیر نظر مسائل کی تشریح اور مشکلات کے حل میں ہمیشہ نشانہ پر بیٹھتا تھا، دماغ اتنا سلجھا تھا، کہ کتنا ہی پیچیدہ مسئلہ ہو وہ اس کی اصل تہہ تک پہنچ جاتے تھے، اور اگر وہ مناظرہ پر اتر آتے تو کیسی ہی غلط بات ہو وہ اس کی ایسی عمدہ عمدہ دلیلیں پیش کرتے تھے کہ حریف ساکت ہوجاتا تھا، اور سمجھ لیتا تھا کہ یہ مولانا کی اصلی رائے ہے، مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ مسکرا کر فرماتے کہ یہ غلط تھا اصلیت یہ ہے۔
فارسی کے بعد مولانا نے عربی کی تعلیم شروع کی اور بھائی (مولانا شبلیؔ) سے عربی پڑھنے لگے، چنانچہ متوسطات تک مولانا شبلی ہی سے تعلیم پائی، مولانا شبلی جب یہاں سے باہر نکلے تو یہ بھی گئے، لکھنؤ جا کر مولانا حمید الدین صاحب نے فرنگی محل میں مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محل سے کچھ پڑھا، اس زمانہ میں لکھنؤ میں خواجہ عزیزالدین صاحب عزیز لکھنؤی (پروفیسر فارسی کیننگ کالج لکھنؤ و مصنف قیصر نامہ) لکھنؤ میں فارسی کے نہایت مستند استاد اور شاعر تھے انہی کی صحبتوں میں شرکت کا اتفاق ہوتا رہا، اور ان دونوں بھائیوں سے خواجہ صاحب کے اسی فارسی کے رشتہ سے تعلقات محبت عزیزانہ حیثیت تک پہنچ گئے تھے، لکھنؤ کے بعد مولانا نے لاہور جاکر مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری سے عربی ادب کی کتابیں پڑھیں، اس زمانہ میں یہاں نیا نیا اورینٹل کالج کھلا تھا، مولانا فیض الحسن صاحب اپنے عہد کے مشہور ادیب اس میں مدرس تھے، ان کا نام سن کر دور دور سے طلبہ پڑھنے آتے تھے، لیکن مولانا حمیدالدین صاحب نے مولانا فیض الحسن صاحب سے خارج میں پڑھا اور یہیں ان کی ملاقات مولوی وحید الدین صاحب سلیم پانی پتی سے ہوئی، اور وہ دوستی تک پہنچی، جو آخر تک قائم رہی اور اسی دوستی کی کشش تھی کہ مولوی وحید الدین صاحب سلیم جامعۂ عثمانیہ حیدرآباد تک پہنچے۔
مولانا بیس برس کی عمر میں ۱۳۰۰؁ھ؍ ۱۸۸۴؁ء میں عربی تعلیم سے فارغ ہوگئے، اور عربی ادب میں بھی وہ کمال حاصل کیا کہ سچ یہ ہے کہ وہ اس میں اپنے استادوں سے بھی گوئے سبقت لے گئے، ان کا عربی دیوان اس بیان کا شاہد ہے۔
انگریزی تعلیم: اس زمانہ میں انگریزی پڑھنا کفر سمجھا جاتا تھا، مگر یہ کفر مولانا نے توڑا، نج کے طور پر انگریزی کچھ پڑھ لینے کے بعد کرنل گنج اسکول الہ آباد میں داخل ہوگئے، انٹرنس کا امتحان پرائیویٹ طور پر دے کر ایم۔اے۔ او کالج علی گڑھ میں داخل ہوئے، یہ علی گڑھ کالج کے اوجِ شباب کا زمانہ تھا، سر سید اس کے ناظم اعلیٰ مسٹر آرنلڈ اوربک وغیرہ اس کے پرنسپل اور پروفیسر، اور مولانا شبلی اس کے مدرس، مولانا حالی وہاں کے مقیم و ساکن تھے ہر وقت علمی مسائل و تحقیقات کے چہچہے رہتے تھے، اور ان بزرگوں کی صحبتیں حاصل تھیں جنھیں ہر ہونہار طالب العلم کے فطری جوہر کے چمکنے کا موقع حاصل تھا، مسٹر آرنلڈ فلسفہ پڑھاتے تھے مولانا کو فلسفہ جدید کا ذوق انھیں کی تعلیم سے ہوا۔
اس زمانہ میں کالج کے ہر طالب العلم کو عربی و فارسی بھی لازماً پڑھنی پڑتی تھی، مگر سرسیدؔ نے ان کے متعلق مسٹر بک کو لکھ کر بھیجا کہ حمید الدین عربی و فارسی کے ایسے ہی فاضل ہیں جیسے آپ کے کالج کے استاد اور پروفیسر ہیں، اس لیے ان کو مشرقی علوم کے گھنٹوں سے مستثنیٰ کردیا جائے چنانچہ وہ مستثنیٰ کئے گئے۔
مولانا حمیدالدین صاحب کی تالیف و تصنیف کا عہد طالب العلمی ہی سے شروع ہوگیا تھا اور خود بزرگوں نے فرمایش کر کے شروع کرایا، اسی زمانہ میں علی گڑھ کالج کے دینیات کے لیے سرسید نے مولانا شبلی مرحوم سے عربی میں سیرۃ نبوی پر ایک مختصر رسالہ لکھوایا تھا، جس کا نام ’’تاریخ بدرالاسلام‘‘ ہے، پھر مولانا حمیدالدین صاحب سے اس کا فارسی میں ترجمہ کرایا استاد و شاگرد کے یہ دونوں عربی و فارسی رسالے اسی وقت چھپ گئے تھے۔
سر سید کو طبقات ابن سعد کا ایک ٹکڑا وفود نبوی کے متعلق کہیں سے ہاتھ آیا تھا، اس وقت تک یہ چھپی نہیں تھی، سر سید نے مولانا حمید الدین سے اس کا فارسی ترجمہ کراکے چھپوایا، اس کی زبان ایسی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ عہد سامانی کا کوئی نثر نویس فارسی لکھ رہا ہے۔
غالباً ۱۸۹۲؁ء میں یا اس کے پس و پیش الہ آباد یونیورسٹی سے بی۔اے کی سند حاصل کی۔
۱۸۹۵؁ء میں عربی میں ایم۔اے کا امتحان دینا چاہا تھا، مگر نہیں دے سکے، ۱؂ ۱۸۹۶؁ء میں مدرستہ الاسلام کراچی میں مدرسی کی کوشش کی، سرسید نے سرٹیفیکٹ دیا، ۲؂ اسی زمانہ میں مسٹر آرنلڈ انگریزی میں عربی کی ایک مختصر کتاب کا ترجمہ کرانا چاہتے تھے، اس کے لیے مولانا ہی کا نام ان کے ذہن میں تھا۔ ۳؂
ملازمت: بہر حال مولانا کا تعلیمی عہد ختم ہوگیا، ۱۸۹۷؁ء وہ مدرستہ الاسلام کراچی میں مدرس مقرر ہوگئے یہ مسلمانوں کا ایک انگریزی کا بہت پرانا اسکول ہے، اس کی عمارت بہت شاندار، اور اسٹاف اعلیٰ ہے، اور سندھ میں اس کو کافی شہرت حاصل ہے مولانا اس میں ۱۹۰۶؁ء تک رہے، ۱۹۰۰؁ء میں امیر عبدالرحمان خان والی کابل ایک ترجمہ کا محکمہ قائم کرنا چاہتے تھے، اس میں ابن خلدون کا ترجمہ بھی پیش نظر تھا، اس کے لیے مولانا شبلی نے ان کا انتخاب کیا، مگر کسی وجہ سے یہ تجویز عمل میں نہ آسکی، اور وہ کراچی میں بدستور رہے اور درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کا شغل جاری رکھا یہیں کے قیام کے زمانہ میں ۱۹۰۳؁ء میں انکا فارسی دیوان شایع ہوا، اور شبلی مرحوم کے بار بار کے تقاضے سے جیسا کہ مکاتیب شبلی جلد دوم میں ان کے خطوط سے ظاہر ہے، علمی مباحث پر نقد و نظر کی طرف توجہ فرمائی، اور خصوصیت کے ساتھ قرآن پاک کے نظم و بلاغت میں انہماک پیدا ہوا اور جمہرۃ البلاغت نام کا رسالہ لکھا جس کا خلاصہ مولانا شبلی مرحوم نے خود اپنے قلم سے الندوہ کے دسمبر ۱۹۰۵؁ء میں شایع کیا۔
اسی زمانہ میں (غالباً ۱۹۰۴؁ء میں) جب اُس وقت کے وائسرائے لارڈ کرزن نے سواحل عرب خلیجِ فارس کا سیاسی بحری سفر کیا تھا، اور سواحل کے عرب شیوخ اور امراء کو اپنی ملاقات کے لیے جمع کیا تھا، تو مولانا ہی کا انتخاب ترجمان کی حیثیت سے ہوا تھا، وہ اس سفر میں لارڈ کرزن کے ساتھ تھے عرب سرداروں کے سامنے لارڈ کرزن کی طرف سے جو عربی تقریر پڑھی گئی تھی، وہ انھیں کی لکھی ہے۔
۱۹۰۶؁ء میں گورنمنٹ نے علی گڑھ کالج کو ایک معتدبہ عطیہ عربی تعلیم کے لیے دیا تھا جس کے لیے شرط یہ تھی کہ اس کا پروفیسر کوئی یورپین ہو، چنانچہ جرمن فاضل یوسف ہارویز کا اس کے لیے انتخاب ہواساتھ ہی مولانا کا انتخاب مددگار پروفیسر کی حیثیت سے ہوا، اور وہ علی گڑھ چلے آئے علی گڑھ میں بھی وہ زیادہ دن نہیں رہے بہر حال جتنے دن بھی رہے، اپنے علمی کاروبار میں مصروف رہے، ہارویز صاحب مولانا سے اپنی عربی کی تکمیل کرتے تھے، اور مولانا ان سے عبرانی سیکھتے تھے، اور ساتھ ہی قرآن پاک کی تفسیر اور تفسیر کے مقدمہ کے اجزاء کی تالیف کا کام جاری تھا۔
مولانا شبلی مرحوم کے تعلق کے سبب سے، پھر خود مولانا حمید الدین صاحب کے ذاتی فضل و کمال کے باعث علی گڑھ کے علمی حلقہ سے ان کے روابط قائم ہوگئے تھے، خصوصاً نواب صدریار جنگ مولانا حبیب الرحمن خان شروانی رئیس حبیب گنج کی ذوق آشنا اور قدر شناس نگاہوں سے وہ کہاں بچ سکتے تھے، چنانچہ اکثر آمدورفت رہتی تھی، نواب صاحب ممدوح نے مولانا کی وفات کے بعد جو والانامہ مجھے لکھا ہے اس میں رقم فرماتے ہیں:
’’مجھ کو مولانا سے دیرینہ نیاز حاصل تھا، ابتدائی ملاقات کا ذریعہ علامہ شبلی مرحوم تھے، علی گڑھ کی پروفیسری کے زمانہ میں ملا، پھر حیدر آباد میں علی گڑھ کے دور میں بھی تدبر قرآنی کا شغف جاری تھا روزانہ ۳ بجے شب سے صبح کے نو بجے تک اس میں وقت صرف کرتے تھے، ملاقات کے وقت نتائج تحقیق بیان فرماتے، اس زمانہ میں دیگر کتب سماوی کا مطالعہ اور اس کی مدد سے مطالب قرآنیہ کا حل خاص کر پیش نظر تھا اس حالت میں علی گڑھ چھوڑا‘‘۔
اجزا جو لکھتے جاتے تھے وہ مولانا شبلی مرحوم کی خدمت میں بھیجتے رہتے تھے، اور مولانا اس کے متعلق اپنی رائے خطوط میں اور زبانی ظاہر فرماتے تھے، شروع شروع میں استاد کو اپنے شاگرد کے اس نظریہ سے اختلاف تھا کہ قرآن پاک کے مطالب و معانی مرتب و منظم ہیں، اور وہ مولانا حمید الدین صاحب کی اس کوشش کو رائگاں سمجھتے تھے لیکن جب انھوں نے ان کی تفسیر کے متعدد اجزا دیکھے تو قائل ہوتے چلے گئے اور آخر داد دینے لگے، اور حوصلہ افزائی کرنے لگے، اور آخر آخر میں تو وہ مولانا حمیدالدین کی نکتہ دانی کے اس درجہ قائل ہوگئے تھے کہ قرآنی مشکلات کے حل میں وہ ان سے مشورہ لینے لگے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’تفسیرابی لہب اور جمہرۃ البلاغہ کے اجزا بغور دیکھے، تفسیر پر تم کو مبارکباد دیتا ہوں، تمام مسلمانوں کو تمھارا ممنون ہونا چاہئے، بلاغت کے بعض اجزاء معمولی اور سرسری ہیں، ارسطوؔ کا رد البتہ قابل قدر ہے‘‘۔ (جون ۱۹۰۵ء)
علی گڑھ کے قیام ہی کے زمانہ میں انھوں نے اقسام القرآن لکھی یعنی اس مشکل کا حل فرمایا کہ خدا نے قرآن مجید میں قسمیں کیوں کھائی ہیں، اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے امام رازی نے تفسیر کبیر میں جستہ جستہ فقرے لکھے تھے، پھر ابن القیم نے التبیان فی اقسام القرآن لکھی، مگر مولانا حمید الدین صاحب کی تحقیقات نے اپنی الگ شاہراہ نکالی، اور حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں انھوں نے ایسی داد تحقیق دی کہ تیرہ سو برس میں اسلام میں کسی نے نہیں دی، مولانا شبلی مرحوم نے اُن کے اس رسالہ کا خلاصہ نہایت مسرت اور خوشی کے ساتھ الندوہ اپریل ۱۹۰۶؁ء میں شایع کیا، اور عربی رسالہ اقسام القرآن کے نام سے الگ شایع ہوا اس کے بعد اس رسالہ کو مزید تحقیقات سے موید کرکے امعان فی اقسام القرآن کے نام سے علی گڑھ میں چھپوایا اس وقت ۴؂ سے لے کر آج تک مختلف مدعیان تحقیق نے اقسام القران پر جو کچھ کہا ہے وہ تمام تر مولانا کے خوانِ علم کی زلہ ربائی ہے۔
اس کے بعد اگست ۱۹۰۶؁ء میں اقسام القرآن کے علاوہ سورہ ابی لہب اور سورہ قیامت کی تفسیریں چھپیں اور اہل علم نے ان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا علامہ سید رشید رضا صاحب المنار مصر جو خود تفسیر لکھ رہے تھے، انھوں نے ان پر مداحانہ اور معترفانہ تفریظ لکھی اور تحسین کی۔
۱۹۰۴؁ء کے بعد جب مولانا حمید الدین صاحب کراچی یا علی گڑھ سے وطن آتے جاتے تو لکھنؤ میں بھائی کے پاس کچھ دن ٹھہر کر آتے جاتے، اور ۱۹۰۵؁ء سے مولانا خاص طور سے تقاضا کر کے بلواتے اور اپنے پاس ٹھہراتے، مقصود یہ تھا کہ ندوہ کے طلبہ ان سے فائدہ اٹھائیں، چنانچہ انھیں کے اصرار سے کئی دفعہ وہ ندوہ میں آکر رہے اور طلبہ کو کبھی فلسفہ جدیدہ اور کبھی قرآن کے سبق پڑھائے میں بھی اس زمانہ میں ندوہ کا طالب العلم تھا، مولانا کے ان درسوں سے مستفید ہوا۔
اس زمانہ میں مولانا ابوالکلام صاحب، مولانا شبلی مرحوم کے پاس ندوہ میں مقیم تھے اور الندوہ کے مددگار اڈیٹر تھے، وہ مولانا حمیدالدین صاحب کی ان صحبتوں سے مستفید ہوتے رہے، اور قرآن پاک کے درس و نظر کے نئے راستوں کے نشان پانے لگے، اور بالآخر الہلال کے صفحات میں اس جادہ پیمائی کے مختلف مناظر سب کی نظروں کے سامنے آئے، اسی زمانہ میں، ندوۃ العلماء نے ان کو اپنی مجلس انتظامی کارکن بنایا، اور آخر زمانہ تک وہ برابر رکن رہے۔
مولانا حمیدالدین صاحب علی گڑھ میں دو سال کے قریب رہے، اس کے بعد ۱۹۰۸؁ء میں الہ آباد یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے، کالج کے درس کے علاوہ بقیہ اوقات وہ تالیف و تصنیف میں صرف کرتے تھے، یہیں سے انھوں نے سورۂ تحریم کی تفسیر شایع کی، اور خالص فارسی میں یعنی عربی الفاظ کی آمیزش کے بغیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے مواعظ کا عبرانی سے فارسی نظم (مثنوی) میں ترجمہ شروع کیا تھا، مولانا کا الہ آباد ہی میں قیام تھا کہ ان کے اہل برادری میں ایک نئے عربی مدرسہ کے قیام کی تحریک پیدا ہوئی، مولانا شبلی اور مولانا حمید الدین صاحب مرحوم نے اس تحریک کی عنان اپنے ہاتھ میں لی اور ۱۹۱۰؁ء اعظم گڑھ میں مولانا حمیدالدین صاحب کے قریہ بہا سے ایک اسٹیشن بعد سر اے میر نام کے مقام میں آبادی سے باہر ایک باغ میں اس مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی،مولانا شبلی نے اس کی نظامت کا بارمولانا حمیدالدین صاحب کے کندھے پر رکھنا چاہا، ۱۹؍ اپریل ۱۹۱۰؁ء کے ایک مکتوب میں وہ لکھتے ہیں:
’’کیا تم چند روز سرائمیر کے مدرسہ میں قیام کرسکتے ہو، میں بھی شاید آؤں، اور اس کا نظم و نسق درست کردیا جائے، اس کو گروکل کے طور پر خالص مذہبی مدرسہ بنانا چاہئے، یعنی سادہ زندگی اور قناعت اور مذہبی خدمت مطمع زندگی ہو‘‘۔
اس مدرسہ نے رفتہ رفتہ ان دونوں بزرگوں کے زیر ہدایت ترقی شروع کی، اور یہ لوگ کبھی کبھی اس کو دیکھتے رہے۔
مولانا ۱۹۱۳؁ء تک الہ آباد میں رہے۔
حیدر آباد دکن میں دارالعلوم کے نام سے ایک قدیم عربی مدرسہ تھا، جس نے حیدرآباد کی علمی و تعلیمی ترقی میں کار نمایاں انجام دیا تھا، اس کا الحاق مدراس یونیورسٹی کے شعبۂ مشرقیات سے تھا، غالباً ۱۹۰۸؁ء میں مدراس یونیورسٹی نے اس الحاق کو توڑ دیا، اب ریاست کے تعلیمی محکمہ کے ذمہ دار افسروں کو اس قدیم مدرسہ کے جدید انتظامات و تغیرات کی فکر لاحق ہوئی اور اس کے لیے نواب عماد الملک مرحوم سابق ناظم تعلیمات حیدرآباد دکن، اور مسٹر المالطیفی آئی۔سی۔ایس جو اس وقت ناظم تعلیمات تھے، اور مسٹر حیدری وغیرہ نے اہل فن کی مجلس بنائی جس کے ایک ممبر مولانا شبلی مرحوم تھے، مولانا نے اس کے لیے ایک اسکیم مرتب کی، اور ایک مشرقی یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے کی تجویز پیش کی، یہ تجویز اسی وقت الندوہ میں مولانا نے شایع بھی کردی تھی، مولانا شبلی مرحوم کا اس وقت کا تخیل یہ تھا کہ عربی زبان کی یہ ایک یونیورسٹی ہوگی جس میں جدید علوم کی بقدر ضرورت آمیزش ہوگی، یہ اسکیم مدت تک زیر بحث رہی، اس اسکیم کے مطابق دارالعلوم کو چلانے کے لیے مولانا حمید الدین صاحب کا انتخاب ہوا، اور وہ اس کے صدر (پرنسپل) بنائے گئے، اور ۱۹۱۴؁ء کے اوائل میں الہ آباد سے حیدرآباد چلے گئے۔
حیدرآباد جا کر اس نئی مشرقی یونیورسٹی کے خاکہ بنانے میں مصروف ہوئے، درس و تدریس کے علاوہ مدرسہ کی انتطامی نگرانی بھی ان کو کرنی پڑتی تھی، انھوں نے رفتہ رفتہ مدرسہ کی ظاہری و باطنی ترقیوں کی کوششیں شروع کیں، مسٹر المالطیفی سے ان کے خیالات کا اتحاد نہ ہوا، بالآخر ایک دو سال کے بعد مسٹر المالطیفی کی جگہ راس مسعود صاحب نے لی، اور انھوں نے ان کے ساتھ مل کر کام شروع کیا۔
مولانا شبلی مرحوم کی فرمائش سے نواب عماد الملک مرحوم نے قرآن پاک کے انگریزی ترجمہ کا جو کام شروع کیا تھا، وہ نصف کے قریب انجام پاچکا تھا، مگر اس میں جابجا نقائص تھے، نواب صاحب نے مولانا حمیدالدین صاحب کی موجودگی سے فائدہ اٹھایا، اور مدت تک یہ شغل جاری رہا کہ مولانا روزانہ صبح کو نواب صاحب کے یہاں جاتے، اور نواب صاحب باایں ہمہ ضعف پیری انگریزی ترجمہ پر مل کر غور کرتے اور مناسب مشورہ ملنے پر اصلاح و ترمیم کرتے، اس طرح اُن کے ترجمہ کے کئی پاروں پر نظر ثانی ہوئی، پھر یہ کام رک گیا، لیکن یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ نواب صاحب مرحوم کی وفات کے بعد یہ اصلاح شدہ اجزاء اس طرح کاغذات میں مل گئے کہ پھر ان کا پتہ نہ چلا، میں نے نواب صاحب مرحوم کے خلف الرشید نواب مہدی یارجنگ بہادر کو تحریری وزبانی کئی دفعہ ان کی تلاش کی طرف توجہ دلائی، مگر انھوں نے ان کے ملنے سے مایوسی ہی ظاہر کی۔
مولانا شبلی مرحوم اس وقت سیرۃ نبویﷺ کی پہلی جلد لکھ رہے تھے، یہود و نصاریٰ اور اہل کتاب کے مناظرانہ مسائل اور قرآن پاک کے استدلالات میں وہ برابر اپنے بھائی سے مشورے لیتے رہتے تھے، جو مکاتیب (۵۷۔ ۷۳) سے ظاہر ہیں، سیرت جلد اول کے مقدمہ میں حضرت اسمٰعیلؑ کی سکونت اور قربانی کے متعلق جو باب ہے، اس کا مواد مولانا حمیدالدین ہی نے بہم پہنچایا تھا، جس کو آئندہ چل کر مولانا حمید الدین صاحب مرحوم نے بڑھا کر اور پھر اور زیادہ استقصاء کر کے الرای الصحیح فی من ھوالذیح کے نام سے الگ شائع کردیا۔ (سید سلیمان ندوی، جنوری ۱۹۳۱ء)

۱؂
sمکاتیب شبلی جلد دوم بنام مولانا حمیدالدین صاحب خط نمبر: ۱
۲؂
Nایضاً، خط نمبر: ۲ ۳؂ ایضاً، خط نمبر: ۳
۴؂
Éابھی حال میں دارالمصنفین نے مولانا کے اس رسالہ کو خوبصورت ٹائپ میں چھپوایا ہے۔ (یادِ رفتگان، ص: ۱۱۹)
(۲)
پچھلے نمبر میں مولانا حمید الدین صاحب مرحوم کے قیام حیدرآباد کے عہد تک کے وقعات گذر چکے ہیں، ۱؂ اب اس کے بعد کے حالات لکھے جاتے ہیں۔
مولانا حمید الدین صاحب فطرۃً نہایت تنہائی پسند، گوشہ نشین، اور بڑے لوگوں سے ملنے جلنے سے وہ عمداً بہت بچتے تھے، اس لیے حیدرآباد دکن جا کر بھی جو ایک عالم کا مرکز، اور خوش قسمتیوں کا عجائب خانہ ہے، اُن کی حالت میں کوئی تغیر نہیں ہوا، سوا اپنے حلقہ کے خاص لوگوں کے جن سے ان کو اتحاد ذوق تھا، اور کہیں آتے جاتے نہیں تھے، اب وہ زمانہ ہے جب مولانا شبلی مرحوم اور ندوۃ العلماء کے دوسرے ارکان کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی تھی، جس کا سبب سوائے اس کے کچھ نہ تھا کہ یہ کنزریٹو اور لبرل کی پرانی جنگ تھی۔
اواخر ۱۹۱۳؁ء میں مولانا شبلی نے دارالعلوم ندوہ کی معتمدی سے استعفا دیا، تو اپنی پرانی تجویز یعنی ایک دارالمصنفین اور دارلتکمیل کی بنا ڈالنے کا خیال آیا، مگر یہ خیال ہنوز دل میں تھا یا کاغذ کے صفحہ پر تھا، اس کے لیے کبھی لکھنؤ کبھی کسی اور مقام کی فکر تھی، اسی اثنا میں اگست ۱۹۱۴؁ء میں مولانا کے عزیز بھائی مولوی اسحٰق صاحب وکیل ہائیکورٹ الہ آباد کے انتقال نے ان کو بالکل سرد کردیا اور لوٹ کر اعظم گڑھ کو اپنا ٹھکانا بنایا، اور اس کے لیے زمین و بنگلہ وقف کیا، اور چاہا کہ مدرسہ سرا ئے میر اور اپنے نیشنل ہائی اسکول (جس کو ۱۸۸۴؁ء میں یہیں قائم کیا تھا) اور دارالمصنفین کو ملا کر ایک علمی و تعلیمی ادارہ بنالیں، اس عزم ویاس کے عالمِ کشمکش میں مولانا حمید الدین صاحب کو لکھا:
’’بھائی! اچھا ہونا کیا، ولن یصلح العطار ما افسد الدھر دو دن اچھا رہا تو چار دن بیمار رہتا ہوں لیکن بات چیت کرتا ہوں، لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی شکایت نہیں، نظام جسم برہم ہوچکا ابھی ابھی سردی لگی حالانکہ دوپہر کا وقت ہے۔
افسوس یہ ہے کہ سیرت پوری نہ ہوسکی، اور کوئی نظر نہیں آتا کہ اس کام کو پورا کرسکے․․․․․․ اور اگر دارالمصنفین قایم ہوا تو تمھارے سوائے کون چلائے گا‘‘۔
یہ اکتوبر ۱۹۱۴؁ء کا خط ہے۔ ۲۸ اکتوبر کو لکھا:
’’برادرم، وقت تو یہ تھا کہ ہم چند لوگ یکجا ہوتے اور کچھ کام کرتے لیکن میری دنیا طلبی کا یہ حال ہے کہ خود بے نیاز ہوگیا ہوں، لیکن عزیزوں کی بے تعلقی شاق ہوتی ہے، سید سلیمان بھی تعلق موجودہ ۲؂ پر راضی نہیں ذرا اشارہ ہو تو میرے پاس آجائیں میں خود روک رہا ہوں‘‘۔
مرا گر تو بگذاری اے نفسِ طامع
بے بادشاہی کنم در گدائی
اس کے تین ہی ہفتہ کے بعد مولانا شبلی نے ۱۸؍ نومبر ۱۹۱۴؁ء کو انتقال کیا، مولانا حمید الدین صاحب وفات سے ایک دن اور میں دو دن پہلے پہنچا تھا، مجھے حکم دیا کہ ’’سب چھوڑ کر سیرت‘‘ مولانا حمیدالدین صاحب جب پہنچے تو مصنفِ سیرت کی مقدس زبان خاموش ہوچکی تھی، آنکھیں کھول کر بھائی کی طرف دیکھا اور چپ ہوگئے، اس خاموش نگاہ حسرت میں وصیتوں اور فرمائشوں کے ہزاروں معنی پوشیدہ تھے جن کو اہل نظر ہی سمجھ سکتے ہیں۔
اس موقع پر ہم جان نثاروں میں صاحب ہوش وہی تھے، ماتم کے آنسو بھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ انھوں نے تیسرے دن اس وقت مولانا شبلی مرحوم کے جو چند تلامذہ جمع ہوگئے تھے، اُن کی ایک مختصر سی جماعت نعمانیہ بنائی جس نے اپنا یہ مقصد قرار دیا کہ وہ مولانا شبلی کے ادھورے کاموں کی تکمیل کرے گی، مدرسہ سرائمیر کی صدارت مدرسین مولانا شبلی صاحب متکلم ندویؔ کے سپرد ہوئی، اس کی نظامت مولانا مسعود علی ندوی نے اپنے سرلی، دارالمصنفین کی تشکیل اور تاسیس کے لیے اسی جماعت کے ارکان نے ماہوار چندے لکھوائے اور اس کا اہتمام بھی مولانا مسعود علی صاحب ندوی نے اپنے ذمہ لیا، اور سب سے زیادہ یہ کہ شبلی منزل میں ان کاموں کی انجام دہی کی خاطر تنہا قیام گوارا کیا۔
اس کے بعد میں اور وہ دونوں مل کر سرکار عالیہ نواب سلطان جہاں بیگم مرحومہ و الیہ عالیہ بھوپال کی طلبی پر بھوپال گئے، سرکار عالیہ نے تسلی دی اور سیرۃ کی تصنیف کی رقم کو بدستور ہم دونوں کے نام جاری فرما دیا، اور یہی دارالمصنفین کے وجود و نشوونما کے لیے ابرکرم کی پہلی بارش تھی۔
حیدرآباد جا کر مولانا نے کوشش فرمائی اور نواب عمادالملک کی تائید سے وہ کوشش کامیاب ہوئی، اور مولانا کا تین سو ماہوار کا وظیفہ دارالمصنفین کے نام منتقل ہوا، یہ دارالمصنفین کی بقا کی بہترین ضمانت بنی، اس کے بعد گو باقاعدہ مجلس انتخاب نہیں ہوا تھا، تاہم ان کی حیثیت صدر مجلس کی اور میری ناظم کی تھی، بعد کو باقاعدہ تاسیس اور وضعِ دستور العمل کے بعد یہی قانونی شکل بن گئی اور وہ آخر تک دارلمصنفین کی مجلس عاملہ کے صدر نشین رہے۔
مولانا شبلی مرحوم نے اپنے دو مذکورہ بالا آخری خطوط میں جو کچھ لکھا تھا وہ مولانا حمیدالدین مرحوم کی آیندہ زندگی کا نصب العین بن گیا، دارالعلوم حیدرآباد کے تغیر اور جامعہ عثمانیہ کے مفید و مبارک تخیل کی سود مندی کی خاطر انھوں نے چندے حیدرآباد کا قیام گوارا کیا، مگر ان کا دل اور کاموں میں لگا تھا۔
مولانا حمیدالدین صاحب کے تصور نے مجوزہ دارالعلوم کی شکل ہی بدل دی، مسلم یونیورسٹی اور ہندو یونیورسٹی کے وجود نے ’’کنزرویٹو آیڈیا‘‘ میں بھی انقلاب پیدا کردیا، مولانا حمیدالدین صاحب ہی تھے جنھوں نے عصری علوم و فنون کی اردو زبان میں تعلیم کی تجویز پیش کی، اور اس کا خاکہ تیار کیا، ان کا تخیل یہ تھا کہ دینیات کی تعلیم عربی میں ہو، اور باقی تمام علوم یہاں تک کہ اصول فقہ بھی اردو میں پڑھایا جائے، لیکن راس مسعود صاحب اور نواب سرحیدر نواز جنگ حیدری صاحب نے ان کے اس تخیل کو کہ علوم کی تعلیم کی زبان اردو ہو، قبول کیا، مگر یہ کہ تمام لڑکوں کو دراصل دینیات کی عربی تعلیم دی جائے قبول نہیں کیا، اور یہی درحقیقت حیدرآباد سے اُن کی دل برداشتگی کا سبب ہوا ۱۹۱۷؁ء سے جامعہ عثمانیہ کی تیاری اور کتابوں کے ترجمہ کا اور اصطلاحات کے وضع کرنے کا کام شروع ہوا، وہ اس مجلس کے رکن تھے، اور وضع اصطلاحات میں مفید مشورے دیتے تھے، اور جامعہ کے نقشِ تخیل کی رنگ آمیزی میں مصروف تھے، تا آنکہ اگست ۱۹۱۹؁ء میں باقاعدہ اس کی افتتاح کے نوبت آئی۔
نواب صدیار جنگ مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی جو اس زمانہ میں صدر الصدور ہوکر حیدرآباد پہنچ چکے تھے، اور وہ جامعہ عثمانیہ کے سب سے پہلے وائس چانسلر مقرر ہوئے تھے، وہ اپنے والا نامہ مذکور میں فرماتے ہیں:
’’جامعہ عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والوں میں مولانا کے ہاتھ بھی تھے‘‘۔
مگر بعض وجوہ کے باعث یہ ہاتھ فوراً اپنی جگہ سے ہٹ گیا، گو ظاہری سبب یہ بھی تھا کہ حیدرآباد کی آب و ہوا مرحوم کو راس نہیں آئی، اُن کے درد سر کی عارضی بیماری نے دائمی صورت اختیار کرلی، اس درد کے دورہ سے وہ بے چین ہوجاتے تھے، اور پھر کسی کام کے قابل نہیں رہتے تھے، باایں ہمہ یہاں کے قیام کے دوران میں خردنامہ یعنی مواعظ سلیمانی کی تکمیل کی، اور چھپوائی، پھراسباق النحو کے نام سے عربی صرف و نحو کے آسان صورت میں نئے اصول پر اردو میں دو رسالے مرتب کئے اور انجمن ترقی اردو کی طرف سے وہ چھپے، اپنے استاد ادب مولانا فیض الحسن صاحب مرحوم کا عربی دیوان تصیح کرکے چھپوایا، الرای الصحیح تصنیف کی، اور تفسیر کے بعض مقدمات لکھے، اسی کے ساتھ درس قرآن کا ایک حلقہ قائم کیا، مغرب کے بعد یہ مجلس جمع ہوتی تھی، مولانا تقریر فرماتے تھے، لوگ شکوک پیش کرتے تھے، وہ جواب دیتے تھے، تھوڑی دیر کے بعد مجلس ختم ہوجاتی تھی، ہمارے فاضل دوست مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی جو اس وقت جامعہ عثمانیہ میں پروفیسر ہیں، وہ اس مجلس کے خاص لوگوں میں تھے، ایک دو دفعہ مجھے بھی شرکت کا اتفاق ہوا، کبھی کبھی مولوی وحیدالدین صاحب سلیم مرحوم بھی اس میں بیٹھتے تھے۔
مولانا حیدرآباد میں ۱۹۱۹؁ء تک رہے، اور عین اس وقت جب جامعہ عثمانیہ کا ہیولیٰ صورت قبول کررہا تھا انھوں نے استعفا دے دیا، ذمہ دار ارکان حکومت چاہتے تھے کہ مولانا قیام کریں، مگر وہ اپنی طبعی بے نیازی اور استغنا کو راہ دے کر متوکلاً علی اﷲ ایک ہزار ماہوار کی جگہ چھوڑ کر وطن چلے آئے، حیدرآباد میں جب تک وہ رہے بے ہمہ اور باہمہ ہے، علم کی قدر و منزلت اور بے نیازی کو انھوں نے پوری طرح نباہا اور جو لوگ ان سے ذاتی طور سے واقف تھے، اور ان کا حلقہ بہت محدود تھا، اُن پر مولانا کی جدائی بڑی شاق گذری باایں ہمہ وہ ان کے رنگ طبع کو دیکھ کر ان کو مجبور نہ کرسکے مولانا کو حیدرآباد سے نہ کوئی پنشن مل سکی، اور نہ کوئی وظیفہ ہوا نہ کسی اور قسم کی مالی امداد کے پانے کی انھوں نے کوشش کی، چونکہ وہ الہ آباد یونیورسٹی سے حیدرآباد بھیجے گئے تھے اس لیے الہ آباد یونیورسٹی کی طرف سے کل بتیس تینتیس روپے کی ان کو پنشن ملی۔
اعظم گڑھ واپس آکر مولانا نے اپنے وطن پھریہا میں قیام فرمایا، خاندانی موروثی زمینداری کا کچھ کام کبھی کبھی دیکھ لیتے تھے ایک دو لڑکوں کو کچھ پڑھا دیتے تھے، ور نہ زیادہ تر وقت یاد الٰہی، نماز، تلاوت، اور قرآن پاک کے غور و فکر میں بسر ہوتا تھا، اب وقت آیا کہ مولانا مدرستہ الاصلاح سرائمیر کی طرف توجہ فرمائیں۔
مدرستہ الاصلاح سرائمیر:
دنیا کا قاعد ہ ہے کہ جب تک کسی چیز کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا لوگ اس کو حقیقت باور نہیں کرتے تھوڑے کو بہت کرکے دکھانا اس عالم فریب کا خاصہ ہے، مگر مولانا کی طبیعت کا رنگ الگ تھا، وہ اعلان و تعلی سے بہت دور بھاگتے تھے، اور بہت کو تھوڑا کہہ کر بھی وہ دکھانا نہیں چاہتے تھے۔
مدرستہ الاصلاح سرائمیر کی بنیاد میں گو بہتوں کا ہاتھ شریک ہوا لیکن اُس کے تخیل کی تعیین اور اس تخیل کے مطابق مدرسہ کو چلانا اس کا نصاب درس بنانا مدرسوں کو اپنے انوکھے خیال سے متفق کرنا خاص طلبہ کو اپنے مذاق کی تعلیم دینا اور پورے مدرسہ کو اپنے نہج کے مطابق لے چلنا خاص انھیں کا کام تھا ۔
مدرستہ الاصلاح کیا ہے؟ آج جب کہ ہر بڑے شہر کی گلی گلی میں، بلکہ قصبوں اور دیہاتوں تک میں عربی کے مدرسے قائم ہیں، اور ہر سال اُ ن کی تعداد بڑھتی رہی جارہی ہے، مولانا کا ایک نئے مدرسہ کے قیام پر اپنی زندگی وقف کردینا، اور اپنی عمر کے آخری پورے بارہ برس اس پر تصدق کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ اس کے جواب میں بجائے اس کے کہ ہم خود کچھ کہیں مدرسہ کی مطبوعہ روداد سے ایک اقتباس نقل کردیتے ہیں، اور یہ وہ تحریر ہے، جو خود مولانا نے لکھی تھی، یا ان کی فرمایش سے لکھی گئی اور ان کی نظر سے گذر کر اصلاح پاچکی تھی:
’’مسلمانوں کی موجودہ پستی جو اُن کی زندگی کے ہر شعبہ پر طاری ہے، زیادہ تر نتیجہ ہے اس خرابی کا جو ان کی مذہبی تعلیم میں صدیوں سے پیدا ہوگئی ہے، جب تک مسلمانوں کی مذہبی تعلیم اپنے صحیح نہج پر قائم رہی وہ برابر دین و دنیا کے تمام شعبوں میں ترقی کرتے رہے، لیکن جب سے یہ شاہراہ کج ہوئی، دینی مدارس اور مذہبی پیشواؤں کی کثرت کے باوجود مسلمانوں کا زوال شروع ہوا، اور برابر بڑھتا گیا․․․․․․‘‘۔
ان حالات میں خدا نے ایک جماعت کو اپنی توفیق بخشی سے سر فراز کیا، اور اس نے طے کرلیا کہ جس اسلوب پر علوم دینیہ کی تعلیم ہورہی ہے، وہ قطعی ناقص اور غیر منتج ہے، جب اسلام ہماری دینی و دنیاوی فلاح کا جامع ہے تو اسلامی تعلیم کے یہی معنی ہوں گے، کہ وہ نہ صرف ہماری عبادات کا دستور العمل ہو، بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں وہ ہمارے لیے مشعل ہدایت ہو، اب ہمارے درد کا اگر کوئی علاج ہے تو وہ محض رسمی تعلیم اور نصاب مروج کو ختم کرنا نہیں بلکہ مذہبی تعلیم کو اس کے صحیح معنوں میں جاری کرنا ہے، یعنی وہ وسعت و جامعیت جو اسلام کا مفہوم ہے، اور ’’تفقہ فی الدین‘‘ اسی سے عبارت ہے، اس جماعت نے اس بلند معیار تعلیم کو پیش نظر رکھ کر ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جس کا نام ’’مدرستہ الاصلاح‘‘ ہے۔
مدرستہ الاصلاح کا دعویٰ ہے کہ اس نے مذہبی تعلیم کی مستقیم کو پالیا ہے اس نے اسے اپنا مقصد اساسی قرار دیا ہے․․․․․․ وہ مقصد اساسی اور وہ صراط مستقیم کیا ہے، وہ وہی ہے جس پر آنحضرتﷺ نے اپنی امت کو چھوڑا تھا، اور جس کی آخری خطبہ میں وصیت فرمائی تھی، کہ میں تمھارے لیے کتاب اﷲ چھوڑے جاتا ہوں، جب تک اسے مضبوط پکڑے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے مدرستہ الاصلاح کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کے انحطاط و تنزل کا اصلی سبب یہی ہے کہ وہ قرآن مجید کی تعلیم کو آہستہ آہستہ کم کرتے گئے، اور وہ علوم جو قرآن مجید کے لیے آلہ اور وسیلہ ہوسکتے تھے، ان کی تحصیل میں اس قدر مصروف ہوگئے کہ وہ خود مقصود بالذات بن گئے، یہاں تک کہ ہوتے ہوئے قرآن مجید کے درس و تدریس کے لیے انھوں نے بالکل جگہ نہ چھوڑی اور اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ محض تلاوت و حفظ الفاظ پر اکتفا کرلیا گیا اور ہم پر رسولِ خداؐ کی یہ شکایت منطبق ہونے لگی یارب ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا[الفرقان:۳۰] (اے میرے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو ایک چھوڑی ہوئی چیز سمجھ لیا ہے) لیکن اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے مدرستہ الاصلاح نے یہ راز پالیا اور قرآن مجید کو سرچشمہ ہدایت و ترقی تسلیم کر کے جملہ علوم کی تعلیم اس کی تعلیم کے ماتحت کردی وہ ادب، فقہ، حدیث، تاریخ، سیر، منطق و حکمت کی تعلیم دیتا ہے لیکن اس طور پر کہ جس علم کی طرف قدم بڑھے، قرآن کی روشنی میں اور جو دروازہ کھلے قرآن ہی کے اندر سے کھلے۔
اس تشریح کے بعد آپ نے سمجھا ہوگا کہ مدرستہ الاصلاح کیا ہے؟ اور مولانا نے اس مدرسہ کو ترقی دے کر ملت کی کیا اصلاح کی؟ اور انھوں نے گراں بہا معاوضہ، اعلیٰ اعزاز دنیاوی منصب اور شہروں کی لذت بخش زندگی کو چھوڑ کر، سادگی، قناعت اور گمنامی کے ساتھ اپنی عمر کا ایک جگ کیوں ایک دیہات میں بیٹھ کر عربی کے ایک مدرسہ کی خدمت گذاری میں بسر کردیا۔
یہ مدرسہ مولانا کے گھر سے ایک اسٹیشن کے فاصلہ پر ہے، مولانا ہر ہفتہ میں تین دن شب و روز مدرسہ میں بسر فرماتے تھے، اور سن کر تعجب ہوگا کہ اس اہتمام کے ساتھ آتے تھے کہ اپنے قیام تک کے لیے کھانا پکوا کر ساتھ لاتے تھے، یا بعد کو پک کر آجاتا تھا، اسی مدرسہ میں مولانا کی ایک چھوٹی سی کوٹھری تھی، جس میں وہ قیام فرماتے تھے۔
اس مدرسہ کی بنیاد محض توکل پر ہے، اور مولانا کو اپنے خدا پر یہ اعتماد تھا کہ کبھی مدرسہ کے متعلق ایک دفعہ بھی یہ تصور اپنے دل میں نہیں لائے کہ کل کیا ہوگا، وہ کہتے تھے اور برملا کہتے تھے کہ ’’خدا دیگا‘‘ اور یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ ان کا خدا ان کو دیتا تھا انھوں نے کبھی اپنے مدرسہ کے لیے کسی سے چندہ نہیں مانگا، اور کبھی علم اور قوم کے لیے بھی غیر کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا ایک دفعہ مدرسہ ہی کی خاطر کلکتہ کی راہ سے رنگون گئے اور مقصد مدرسہ کا سرمایہ ہی تھا، مگر اپنی زبان سے کسی تاجر و سوداگر سے مدرسہ کے لیے تحریک نہیں کی، مگر بہرحال کامیاب آئے۔
انھوں نے سب سے پہلے اپنے مدرسہ کے لیے ایک اچھی خاصی وسیع مسجد بنوائی، اس کے بعد درسگاہ کے لیے ایک چھوٹا سا بنگلہ بنایا، پھر ایک دارلاقامہ بنوایا جس کی تین سمتیں بن چکی ہیں ایک باقی ہے کتب خانہ کے لیے ایک مکان بنوایا، مسجد کے علاوہ تمام عمارتوں کی چھتیں کچی، یعنی کھپروں کی ہیں، کتب خانہ زمین کچھ کتابیں اوروں کی دی ہوئی ہیں، مگر زیادہ خود اپنا ذاتی کتب خانہ مدرسہ کو عنایت فرمادیا تھا، اور جو ان کی وفات کے بعد مدرسہ کے اندر آبھی گیاہے۔
مدرسہ کا ماہانہ خرچ تعمیرات کے علاوہ پانچ چھ سو ہے، بعض مخلصین نے کچھ جائداد دیں، اعظم گڑھ، رنگون اور کلکتہ میں مدرسہ کے نام وقف کی ہیں، کچھ مدرسہ نے رنگون میں خود خریدا ہے، مگر ہنوز آمد و خرچ برابر نہیں ضلع کے مسلمان سالانہ عشر اور قربانی کی کھالوں اور نقد چندوں سے امداد بھی فرماتے ہیں، تاہم یہ تمام سرمایہ مدرسہ کی روز افزوں ضرورتوں کے لیے کافی نہیں۔
یہ مدرسہ اسٹیشن سرائمیر کے پاس ایک میدان میں واقع ہے، ادھر ادھر دور تک آبادی سے خالی ہے، چاروں طرف دور ہٹ کر مسلمانوں کے دیہات ہیں یہیں کے باشندے اس کے ممبر، خادم اور کارکن ہیں، جو موقع پر جمع ہو کر کام کو انجام دیتے ہیں، اور چلے جاتے ہیں، انتہائی سادگی اور صفائی اس مدرسہ کا جزو اعظم ہے۔ مدرسین میں بعض پرانے مدرسوں کے تعلیم یافتہ ہیں چند دارالعلوم ندوۃ العلما کے فارغ التحصیل ہیں اور بعض خود مدرسہ کے پڑھے ہوئے ہیں، مدرسہ کے سب سے پرانے خادم ایک سادہ وضع بزرگ مولانا محمد شفیع صاحب ہیں، جو نہایت اخلاص کے ساتھ شروع سے آج تک مدرسہ کی نگرانی اور مالی انتظام کررہے ہیں۔
مدرسہ کے یہ مدرسین جس سادگی، اخلاص اور ایثار کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں، اس کی مثال ہم کو کسی اسلامی درسگاہ میں نہیں معلوم سب سے بڑی تنخواہ اعلیٰ مدرس مولانا شبلی صاحب ندوی کی ہے پینتیس ۳۵ روپے درآنحالیکہ ان کے پڑھائے شاگرد اور ان کے ساتھی اس سے دوگنی چوگنی زیادہ تنخواہ پارہے ہیں۔
مولانا علماء کی گداگرانہ خصلت سے سخت نفرت رکھتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ مولویوں کے مدرسہ سے بھی گداگری ہی کی لعنت دور ہوجائے، چنانچہ مدرسہ کے لیے بھی انھوں نے جائداد خریدی جس کا سال بسال منافع آتا ہے، اور صرف اپنی کوشش سے تمام عربی مدارس کے برخلاف اس مدرسہ میں تجارتی و صنعتی آمدنیوں کے ذرائع پیدا کئے، خود اپنی طرف اور مدرسہ کے بعض مخلص ہمدردوں کی طرف سے کچھ سرمایہ لگا کر مدرسہ میں آٹا پیسنے کی مشین مع انجن کے لگائی اور اس سے مدرسہ کو روزانہ کی آمدنی ہوجاتی ہے، مدرسہ کے اندر جوتا بنانے کا ایک شعبہ قائم کیا جہاں اچھے جوتے پمپ اور شو وغیرہ بنتے ہیں۔
مدرسہ کی تعلیمی کیفیت یہ ہے کہ تمام مدرسین مولانا کے زہد و تقویٰ اور فضل و کمال سے ان کے گرویدہ تھے، سب سے پہلے مدرسین کو اپنا ہم خیال بنایا، ان سے قرآن مجید کے مباحث اور علوم عالیہ کے مسائل میں اپنی تحقیقات بیان فرماتے رہتے تھے، ان کو اپنا طریقہ تعلیم سمجھا تے اور بتاتے تھے، عربی میں صرف ونحو کی تعلیم میں سب سے زیادہ وقت برباد ہوتا تھا خود مولانا نے صرف ونحو کے دو رسالے لکھے جن کا مدار تمامتر مشق پر ہے، وہ دونوں رسالے وہاں پڑھائے جاتے ہیں، اور وہ کافی ہوتے ہیں، نصاب تعلیم سے تمام غیر ضروری علوم نکال دیئے ہیں، قدیم منطق و فلسفہ کی ایک ایک دو دو کتابیں رہنے دی ہیں، ادب عربی پر خاص زور دیا، فقہ کی تعلیم فقہ اسلامی کی حیثیت سے دیجاتی ہے، حدیث کسی عصبیت کے بغیر پڑھائی جاتی ہے، اور تعلیم کا اصلی مرکز و محور قرآن مجید کو رکھا گیا ہے۔
مولانا جب تک زندہ رہے خود مدرسین اور اعلیٰ طلبہ کا ایک حلقہ بنا کر اس کو پورے قرآن مجید کا درس کئی دفعہ مختلف نقطہ ہائے نظر سے دیا، ساتھ ساتھ جدید فلسفہ کی بعض شاخیں بھی ان طلبہ کو خود پڑھائیں چنانچہ بعض مستعد طلبہ نے مولانا کے اس درس سے پورا فائدہ اٹھایا جن میں قابل ذکر مولوی امین احسن صاحب اصلاحی ہیں، ہماری آئندہ توقعات ان سے بہت کچھ وابستہ ہیں۔
مولانا اخیر عمر میں تصنیف و تالیف کے بجائے اپنا تمامتر وقت انھیں طلبہ کے غور و پرداخت اور تعلیم و تربیت پر صرف فرماتے تھے، اور انھیں کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتے تھے۔ (سید سلیمان ندوی، فروری ۱۹۳۱ء)

۱؂
معارف کے پچھلے نمبر (جنوری ۱۹۳۱؁ء میں لکھا گیا تھا کہ دارالعلوم حیدرآباد کا تعلق مدراس یونیورسٹی کے شعبہ مشرقیات سے تھا، مگر حیدرآباد سے ایک دوست مطلع کرتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ مشرقیات سے اس کا الحاق تھا، انڈین یونیورسٹیز ایکٹ کے بعد یہ الحاق ٹوٹ گیا۔
۲؂
Aدکن کالج پونہ کی اسسٹنٹ پروفیسری

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...