Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانامحمد علی جوہرؔ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانامحمد علی جوہرؔ
ARI Id

1676046599977_54337856

Access

Open/Free Access

Pages

85

مولانا محمد علی
ماتم یہ زمانہ میں بپا ’’تیرے‘‘ لیے ہے
مولانا محمد علی نے ۱۴؍ شعبان ۱۳۴۹؁ھ مطابق ۴؍ جنوری ۱۹۳۱؁ء کو تریپن ۵۳ برس کی عمر میں لندن میں وفات پائی، اس مسافر نے غالبؔ کے اس مصرع کو اپنے شعر میں دہرا کر اپنی مسافرانہ موت کی آپ پیش گوئی کی تھی۔
مارا دیارِ غیر میں مجھ کو وطن سے دور
افسوس وہ پر درد آواز جو ۱۹۱۱؁ء سے ۱۹۳۰؁ء تک ہندوستان اور دنیائے اسلام کے ہر قیامت آفرین سانحہ میں صدائے صور بن کر بلند ہوتی رہی، ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی، وہ بیقرار دل جو اسلام اور مسلمانوں کی ہر مصیبت کے وقت بیتاب ہوجاتا تھا، اور اوروں کو بیتاب کرتا تھا، دریغا کہ قیامت تک کے لیے ساکن ہوگیا، وہ اشک آلود آنکھیں جو دین و ملت کے ہر ماتم میں آنسوؤں کا دریا بن جاتی تھیں، حسرتاکہ ان کی روانی ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی، وہ مترنم لب جوہر بزم میں خوشنوا بلبل بن کر چہکتے تھے، ان کے ترانے اب ہمارے کان نہ سنیں گے، وہ آتشیں زبان جو ہر رزم میں تیغ برّاں بن کر چمکتی تھی اس کی تابش اب کسی معرکہ میں ہماری آنکھوں کو نظر نہ آئے گی، وہ پرجوش سینہ جو ہمارے مصائب کے پہاڑوں کو سیلاب بن کر بہالے جاتا تھا، اس کا تلاطم ہمیشہ کے لیے تھم گیا، وہ پرزوردست و بازو جو شب و روز کی خدمت گذاری اور نبرد آزمائی میں مصروف تھے، وہ اب ایسے تھکے کہ پھر نہ اٹھیں گے، اور افسوس کہ شکست خوردہ فوج کا وہ آخری سپاہی جو اعدا کے نرغہ میں تنہا لڑرہا تھا، آخر زخموں سے چور ہوکر ایسا گرا کہ پھر کھڑا نہ ہوگا، الوداع! محمدعلی! الوداع! والسلامَ الیٰ یوم القیام۔
تو ملت کا عزادار تھا، حق ہے کہ ساری ملت تیری عزادارہو، تو امت محمدیہؐ کا سوگوار تھا، فرض ہے کہ پوری امت محمدیؐ تیرا سوگ کرے، تو نے دنیائے اسلام کا ماتم کیا تھا سزاوار ہے کہ دنیائے اسلام تیر ا ماتم کرے، ہندوستان کا ماتم دار، طرابلس کا سوگوار، عراق کے لئے غمزدہ، بلقان کے لئے اشکبار، شام پرگریاں، انگورہ پر مرثیہ خواں، حجاز کا سوختہ غم اور بیت المقدس کے لیے وقف الم، اے ہند کے آوارہ گرد مسافر! تیر احق سرزمین اسلام کے چپہ چپہ پر تھا، مناسب یہ تھا کہ تیری لیے اولین قبلہ اسلام کا سینہ پھٹ جائے اور تو اس میں سما جائے۔
وہ مشرق کی زمین میں پیدا ہوا لیکن مغرب کی آب و ہوا میں نشوونما پائی، مشرق کی مٹی سے اس کا جنم بنا لیکن مغرب کے ہتھیاروں سے اس نے اپنا جسم سجایا، اس کا دماغ مغربی، مگر دل مشرقی تھا، وہ مشرق کی حمایت میں بار بار مغرب سے مغرب کے ہتھیاروں سے لڑا، اور اس نے اس کا لوہا مانا، وہ مشرق کا آفتاب تھا، یہ آفتاب بھی اگر مشرق میں طلوع ہوکر مغرب میں ڈوبا، تو دنیا کا کوئی نیا واقعہ نہ ہوا، اور اسی لیے حق تھا کہ مشرق و مغرب کا متحدہ مرکز (بیت المقدس) اس کا مدفن بنے، اے مشرق و مغرب کے مالک! تو اپنی رضا مندیوں کے پھول سے اس کا دامن بھردے۔
محمد علی کے کارناموں میں اس کی غزل خوانی کوئی بڑا درجہ نہیں رکھتی، لیکن جس طرح اس کی آخری پیشنگوئی کی صداقت کو دنیا نے دیکھا اور تسلیم کیا کہ وہ آزاد غلام ہندوستان کو واپس نہ آیا، اسی طرح اس کے مرنے پر معلوم ہوا کہ اس نے زنداں خانہ میں بیٹھ کر اپنے جن وردات کو نظم کیا تھا، وہ سرتا سرصداقت تھے، اور پیشگوئیوں کی عجیب و غریب مثالیں، اس نے کہا تھا،
اﷲ ہی کے رستہ میں جو موت آئے تو اچھا
اکسیر یہی ایک دعا میرے لیے ہے
محمد علی! مبارک کہ یہ تیری پرتاثیر دعا، اکسیر بنی، اور تیرے حق میں قبول ہوئی۔
مولانا محمد علی کا ماتم جس طرح دنیا میں ہوا مشرق و مغرب میں ہوا، یورپ اور ہندوستان میں ہوا، مصر اور شام میں ہوا،فلسطین اور اس کے بیت القدس میں ہوا، وہ شاید ہی کسی کے لیے ہوا ہو، صاحب دل شاعر کی اس پیشگوئی کی صداقت سے آج کس کو انکار ہے؟
’’ماتم یہ زمانہ میں بپا میرے لیے ہے‘‘
(سید سلیمان ندوی، جنوری ۱۹۳۱ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...