Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناعبدالماجد بدایونی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناعبدالماجد بدایونی
ARI Id

1676046599977_54337859

Access

Open/Free Access

Pages

87

مولانا عبدالماجد بدایونی
افسوس ہے کہ اس سال کا خاتمہ بھی ماتم پر ہوتا ہے، خطیب الامت مولانا عبدالماجد بدایونی رحمۃ اﷲ علیہ کا ناگہانی سانحۂ ارتحال ہمارے لئے ذاتی اور قومی دونوں حیثیتوں سے وہ غم ہے جو بھلائے نہیں بھولتا۔
۱۴؍ دسمبر ۱۹۳۱؁ء کی نصف شب کو یہ واقعہ لکھنؤ صدر میں پیش آیا تو میں وہاں اس صبح کو موجود تھا، ۸ بجے صبح کو خبر ہوئی جب ۹ بجے کے بعد وہاں پہنچا تو مرحوم کی زندہ روح خدا کے پاس اور مردہ لاش بدایوں کو منتقل ہوچکی تھی۔
مولانا عبدالماجد بدایونی کون تھے؟ لکھنے والے ان کے محامد و اوصاف صفحوں میں لکھیں گے اور بیان کرنے والے گھنٹوں بیان کریں گے، لیکن اس سارے دفتر کو صرف ایک لفظ میں اگر ادا کرنا چاہیں تو کہہ سکتے کہ وہ ہستی جو سرتاپا محبت تھی، خدا سے محبت رسول سے محبت، آل رسول سے محبت، اکابر سے محبت، دوستوں سے محبت، کارکنوں سے محبت، عزیزوں سے محبت۔
حضرات علماء کے طبقہ میں ان کی ذات ہر حیثیت سے قابل فخر تھی، ان تمام لوگوں پر جنھوں نے طرابلس کے زمانہ سے اسلامی جدوجہد میں شرکت کی، ان بیس برسوں میں مختلف دور گزرے، یعنی کچھ آرام و سکون، پھر کچھ سعی و محنت، کچھ عزلت گزینی اور پھر ہنگامہ آرائی، کچھ توقف، پھر تیزرفتاری، اس طرح ان کی زندگی کے ایام وقتاًفوقتاً گزرتے رہے، مگر جماعت علماء میں یہی ایک ہستی تھی جس کی زندگی کے ایک لمحہ کو بھی اس وقت سے چین نصیب نہ ہوا، ہر وقت و ہر نفس ان کو کام کی ایک دھن لگی ہوئی تھی، جس کے پیچھے ان کا آرام چین خانگی سکون، اہل و عیال اور جان و مال ہر چیز قربان تھی، یہ بھی سماں گزرا ہے کہ ان کے گھر میں کفن دفن کا سامان ہورہا ہے اور وہ مردہ قوم کی مسیحائی کے لئے کانپور و لکھنؤ کی تگ و دو میں مصروف ہیں، خدام کعبہ، طرابلس، بلقان، کانپور خلافت، کانگریس، تبلیغ، تنظیم، مسلم کانفرنس، یہ تمام وہ مجالس ہیں جو ان کی خدمات سے گراں بار ہیں، ان مشغولیتوں میں اپنے مدرسہ ’’شمس العلوم‘‘ کو جس کی خود انہوں نے بنیاد ڈالی تھی، ناتمام چھوڑا، اس کے لئے کتب خانہ کی عمارت بنوائی، کتابیں جمع کیں، وہ بھی نامکمل رہا، یہاں تک کہ ان کی منزلیں دفعتہ پوری ہوگئیں۔
مرحوم کی قوتِ خطابت غیرمعمولی تھی، ان کی تقریر جذبات اسلامی کی ترجمان ہوتی تھی، ان کی شاعری و سخنوری گو محنتی تھی، مگر شاندار تھی، ان کی عالمانہ شان اور معقول و منقول سے پرانی دل آویزی اس عالم میں بھی نمایاں تھی، ان کا دراز قد، بڑی داڑھی، سیاہ عمامہ، بڑا کرتہ، اس پر جبہ، گلے میں بڑا کالا رومال یا چادر، مست چال جھوم جھوم کر متانت سے چلنا، اب تک نگاہوں کے سامنے ان کی تصویر بناکر کھڑی کردیتا ہے۔
مرحوم نے عراق کا سفر اپنے بزرگوں کے ساتھ کیا تھا اور حجاز و مصر کا سفر میرے ساتھ ۱۹۲۴؁ء میں کیا، بے گوش تو وہ تھے ہی، مگر ان جیسا بے زبان رفیق سفر ملنا بھی ممکن نہیں۔ وہ بہت کچھ تھے، مگر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے ہر دوست، ہر ہمعصر ہر رفیق کے محبوب و حبیب تھے، ان کا ہر ملنے والا یہی سمجھتا تھا کہ وہ اسی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں، ان کی ہستی محبت کا آئینہ خانہ تھی، ہر آئینہ دل میں وہی ہرطرف چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ سال کا آغاز تھا کہ میں نے اپنے رفیق یورپ (محمد علی مرحوم) کا ماتم کیا تھا، آج سال کا اختتام ہے کہ اپنے رفیق حجاز و مصر کا ماتم کرتا ہوں، رفیقو! رخصت، اب تم وہاں ہو جہاں تمہارے رفیق ملائکۃ اﷲ اور عبادالرحمن ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ رفیق اعلیٰ ہے جس کی رفاقت سب رفاقتوں سے بڑھ کر ہے، عربی کے یہ چند شعر بے اختیار نظم ہوگئے۔
رحمۃ اﷲ علیک

!خیر اخلاف الکرام
نم قریرالعین فی

قبرک الٰی یَوم القیَام
کنت فی الدنیا سلامًا

صِرتَ فی دارالسّلام
امسکت الموتُ خطیب

القوم حسَّانَ الکلام

بزرگوں کے بہترین خلف

تم پر اﷲ کی رحمت ہو،
قیامت تک اپنی قبر میں

میٹھی نیند سوتے رہو،
تم دنیا میں باعث سلامتی تھے

اب تم دارالسلام میں پہنچ گئے،
افسوس، موت نے قوم کے خطیب

اور حسان زمانہ کو خاموش کردیا،
(سید سلیمان ندوی،جنوری ۱۹۳۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...