1676046599977_54337861
Open/Free Access
88
خواجہ کمال الدین
عیسوی سال کے خاتمہ پر ۲۸؍ دسمبر ۱۹۳۳ء کو عیسوی مذہب کے سب سے بڑے نقاد اور عیسوی ممالک میں اسلام کے مشہور مبلغ خواجہ کمال الدین نے افسوس ہے کہ وفات پائی، وہ کئی برس سے سل کے مرض میں مبتلا تھے اور اس حالت میں بھی وہ تصنیف و تالیف میں ہمیشہ مصروف رہے، احمدی جماعت میں ہمارے نزدیک وہ عام مسلمانوں سے سب سے زیادہ قریب تھے، اس لئے ان کے مشن کا بار اٹھانے میں عام مسلمان اور امراء نے بھی شرکت کی تھی اور شاید یہ راز نہ ہو کہ مسیح الملک حکیم اجمل خان مرحوم اور مولانا شبلی مرحوم نے ان کی امدادی تحریکوں میں سب سے زیادہ دلچسپی لی، مولانا مرحوم نے ایک دفعہ علماء کے بالمقابل نوجوان تعلم یافتوں میں سے خواجہ صاحب کے عزم تبلیغ کو سامنے رکھ کر یہ شعر خود انہیں کے خط میں لکھا تھا:
کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
گوہم کو خواجہ صاحب کے بہت سے خیالات اور تاویلات سے اتفاق نہیں تاہم یہ کہنا اظہار واقعہ ہے کہ انہوں نے ۱۹۱۲ء سے لے کر ۱۹۳۲ء تک اپنی پوری بیس برس کی زندگی اسلام کی تبلیغ اور اس کے محاسن کی اشاعت اور یورپ میں اسلامی لٹریچر کی فراہمی میں صرف کی اور نیز یہ کہ ان تصنیفات کے بڑے حصہ کا موضوع ’’احمدیت‘‘ نہیں ’’محمدیت‘‘ ہے، افسوس کہ ان کی موت سے دنیا کی مذہبی بزم میں ایک اہم جگہ خالی ہوگئی۔ اﷲ تعالیٰ ان کے ان اعمال صالحہ کے صدقہ میں ان کو اپنی مغفرت سے نوازے اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔
میں نے ان کو سب سے پہلے ندوہ کے اس اجلاس لکھنؤ ۱۹۱۲ء میں دیکھا جس میں مصر کے عالم سید رشید رضا صدر تھے اور سب سے پہلی ملاقات اسی ۱۹۱۲ء میں بنگلور کی ایک تعلیمی کانفرنس میں ہوئی، جس میں ایک مکان میں کئی روز ایک جگہ قیام رہا، پھر مولانا شبلی کے تعلق سے یورپ کی تبلیغی اور مذہبی تحریکات کے سلسلہ میں خط و کتابت ہوتی رہی انہیں کی دعوت پر ان کے مسلم ریویو میں کئی مضمون لکھے۔ (سید سلیمان ندوی، جنوری ۱۹۳۳ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |