1676046599977_54337863
Open/Free Access
89
مولانا سیّد انور شاہؒ
دین و دانش کی دنیا کا مہرانور ۳؍ صفر ۱۳۵۲ھ (۲۹؍مئی ۱۹۳۳ء) کی صبح کو دیوبند کی خاک میں ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا، یعنی مولانا سید انور شاہ صاحب جانشین شیخ الہند و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند نے دوبرس کی علالتہ بواسیر اور ضعف و نقاہت کے بعد ۵۹ برس کی عمر میں وفات پائی، مرحوم کا وطن گو کشمیر تھا، مگر تعلیم سے فراغت کے بعد ایک مدت تک مدینہ منورہ میں اقامت کی، پھر واپس آکر استاد کی خواہش اور اصرار سے دارالعلوم کی صدارت کی ذمہ داری قبول فرمائی، اور جس کو حضرت شیخ کے زمانۂ جنگ میں ہجرت کے بعد سے ۱۹۲۹ء تک اس طرح انجام دیا کہ چین سے لے کر روم تک ان کے فیضان کا سیلاب موجیں لیتارہا اور ہند اور بیرون ہند کے سینکڑوں تشنگان علم نے اس سے اپنی پیاس بجھائی۔
مرحوم کم سخن لیکن وسیع النظر عالم تھے، ان کی مثال اس سمندر کی سی تھی جس کی اوپر کی سطح ساکن لیکن اندر کی سطح موتیوں کے گراں قیمت خزانوں سے معمور ہوتی ہے، دو وسعت نظر، قوتِ حافظہ اور کثرت حفظ میں اس عہد میں بے مثال تھے، علوم حدیث کے حافظ اور نکتہ شناس، علوم ادب میں بلند پایہ، معقولات میں ماہر، شعر و سخن سے بہرہ مند اور زہدہ و تقویٰ میں کامل تھے، اﷲ تعالیٰ اپنی نوازشوں کی جنت میں ان کا مقام اعلیٰ کرے کہ مرتے دم تک علم و معرفت کے اس شہید نے قال اﷲ و قال الرسول کا نعرہ بلند رکھا۔
مرحوم کو سب سے پہلے ۱۹۰۶ء یا ۱۹۰۷ء میں دیوبند میں دیکھا، جب وہ اور مولانا حسین احمد صاحب مدنی سرزمین عرب سے تازہ وارد ہند تھے، مدرسہ دیوبند میں میری حاضری کی تقریب سے طلبہ اور مدرسین کا ایک جلسہ ترتیب پایا تھا، جس میں انہوں نے میری عربی تقریر کے جواب میں تقریر فرمائی تھی، پھر جب جب حاضری ہوتی رہی یا خلافت اور جمعیۃ کے جلسوں میں باربار ملاقاتیں ہوتی رہیں، ۱۹۲۹ء میں جب وہ پشاور کے اجلاس جمعیۃ العلماء کے صدر تھے، میں بھی حاضر تھا، حضرت مرحوم سے ملاقاتوں میں علمی استفادہ کے موقعے ملتے رہے، ہر سوال کے وقت ان کی خندہ پیشانی سے یہ محسوس ہوتا تھاکہ وہ سوال سے خوش ہوئے، اہل کمال کی یہ بڑی پہچان ہے، کیونکہ وہ مشکلات سے عبور کرچکتا ہے، اب جب اس سے سوال کیا جاتاہے تو وہ شبہ کے اصل منشاء کو سمجھ جاتاہے اور جواب دے کر خوش ہوتا ہے۔
مرحوم معلومات کے دریا، حافظہ کے بادشاہ اور وسعت علمی کی نادر مثال تھے ان کو زندہ کتب خانہ کہنا بجا ہے، شاید ہی کوئی کتاب مطبوعہ ہویا قلمی، ان کے مطالعہ سے بچی، میری تصنیفات میں سے ارض القرآن ان تک پہنچی تھی اور اس پر اپنی رضا ظاہر فرمائی، مرحوم آخری ملاقاتوں میں زیادہ تر قدیم عربی نصاب کی اصلاح پر مجھ سے گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ (سید سلیمان ندوی، جولائی ۱۹۳۳ء)
تصحیح: گزشتہ شذرات میں بعض غلطیاں رہ گئی ہیں، جن کی اصلاح مناسب ہوگی ورنہ آگے چل کر وہ شاید تاریخ کی غلطیاں بن جائیں، مولانا انور شاہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی وفات کے وقت یاد سے ستاون برس لکھ دی گئی تھی، مگر ان کے رفقائے خاص سے معلوم ہوا کہ انسٹھ برس تھی، اسی شذرہ کے آخر میں علم و حرفت چھپ گیا ہے، حالانکہ وہ علم و معرفت ہے، امید ہے کہ ناظرین اس کو قلم سے درست کرلیں گے۔ (سید سلیمان ندوی، اگست ۱۹۳۳ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |