Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > احقر بہاری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

احقر بہاری
ARI Id

1676046599977_54337873

Access

Open/Free Access

Pages

91

احقرؔ بہاری مرحوم
(معین الدین اور دائی)
بہار کی سرزمین جس قدر مردم خیز ہے، اسی قدر مردم خوار بھی ہے، خدا جانے کیا بات ہے کہ وہاں کے لوگوں کو شہرت طلبی سے شرم آتی ہے، اہل وطن بھی قدرشناسی نہیں کرتے، اس لئے یہاں کے اچھے اچھے جوہر قابل بلبلہ کی طرح ابھرتے اور دب جاتے ہیں، اگر بہار کے کچھ لوگوں کے نام زندہ ہیں تو یہ وہی ہیں جن کا آوازۂ کمال دوسرے صوبوں تک پہنچا اور وہاں کے لوگوں نے قدرشناسی کرکے ان کو شہرت بخشی، بہار کے ان گمنام اہل کمال میں ایک احقر بہاری مرحوم ہیں، یہ بہار کے ایک پرانے کہنہ مشق استاد سخن تھے، شعر و شاعری کے بڑے بڑے معرکے طے کئے تھے، پچاس ساٹھ برس کے ریاض میں دیوان یادگار چھوڑا ذیل کے صفحات میں ناظرین کو اسی گمنام صاحب کمال سے روشناس کرنا ہے۔
مختصر حالات: بشارت حسین نام، احقر تخلص، ضلع عظیم آباد پٹنہ کے ایک گاؤں بڑا ڈیہہ میں پیدا ہوئے، سال ولادت ۱۲۷۶؁ھ ہے، ان کے والد ماجد شیخ اکبر حسین اس قریہ کے ایک ممتاز متمول اور ذی عزت رئیس تھے، وہ وہیں پیدا ہوئے اور اپنی تمام زندگی وہیں گزار دی۔
احقر مرحوم کی ابتدائی تعلیم اسی گاؤں ہی میں ہوئی، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں وہاں پڑھا کر ان کے والد نے تعلیم کی غرض سے ۱۲۸۸؁ھ میں ان کو پٹنہ بھیجا، مولوی خدابخش صاحب جو اس وقت کے ایک لائق عالم تھے، ان کی تعلیم کے لئے مقرر کئے گئے، کچھ عرصہ ان کے زیر تعلیم رہنے کے بعد وہ بہار چلے آئے اور یہیں متعدد علماء کے زیر سایہ علم کی خوشہ چینی کرتے رہے، باایں ہمہ ان میں عربی کی کوئی ایسی اچھی لیاقت نہ تھی، لیکن فارسی اچھی جانتے تھے۔
۱۲۹۵؁ھ میں ان نکاح قصبہ بہار شریف کے شیرپور محلہ میں میر حیدر حسین صاحب کی چھوٹی صاحبزادی سے ہوا، اس کے بعد انھوں نے بڑا ڈیہہ چھوڑ کر محلہ شیرپوری کی بودوباش اختیار کرلی۔
احقر مرحوم فطری شاعری تھے اور برجستہ کلام موزوں فرماتے، یوں تو بچپن ہی سے ان کو شاعری کا شوق تھا لیکن اٹھارہ انیس برس کے سن میں ان کی شاعری اس زمانہ کے مشہور شعراء کے حلقہ میں عزت اور قدر کی نظر سے دیکھی جانے لگی تھی۔
لکھنؤ کا قیام: شاعری کے بڑھے ہوئے ذوق نے ان کو بہار میں بیٹھنے نہ دیا، ۱۳۰۳؁ھ میں وہ لکھنؤ گئے، وہاں کی ادبی دلچسپیوں نے انھیں بہت محظوظ کیا، اور وہاں کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ اس سے وہ کسی طرح جدا نہیں ہونا چاہتے تھے، لیکن گھر کے تعلقات نے واپسی پر مجبور کیا، اور انھیں لکھنو چھوڑنا پڑا، لکھنو چھوڑنے کا جو صدمہ ان کے دل کو پہنچا وہ ان کی اس رباعی سے ظاہر ہے:
وہ عہدِ شباب وہ جوانی میری

وہ بزمِ سخن وہ شعر خوانی میری
وہ اہل ہنر وہ لکھنو کے جلسے

فسانۂ خواب ہے کہانی میری
ازلؔ لکھنوی سے تلمذ: لکھنؤ کے زمانۂ قیام میں وہ ازل لکھنوی سے اصلاح لیا کرتے تھے، اور انھیں سے ان کا رشتہ تلمذ تھا، چنانچہ ایک شعر میں وہ اپنے لائق استاد پر اس طرح فخر کرتے ہیں،
سب جانتے ہیں احقر شاگرد ہوں ازلؔ کا استاد مانتے ہیں اردو زبان والے
احقر کا سلسلۂ تلمذ یہ ہے: احقرؔ۔ ازلؔ، صباؔ، آتشؔ، مصحفیؔ،․․․․․․
احقر مرحوم کو آتش کے اتباع کا بڑا شوق تھا، اور اس میں ان کو کد تھی، لکھتے ہیں:
آورد میں لذت خاک نہیں آمد کا مزا ہے اے احقرؔ
وہ چال نہ چل جو لوگ کہیں آتشؔ کے چلن کو چھوڑ دیا
دکن کا سفر: احقرؔ مرحوم ایک دفعہ حیدرآباد دکن بھی گئے، وہاں دربار میں بھی ان کو باریابی حاصل ہوئی اور قدرداں سخن کی نظروں میں وہ کافی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے گئے، ریاست میں ایک اچھی جگہ بھی دی گئی، لیکن کسی وجہ سے ناپسند کیا، اور وہاں سے چلے آئے، تاہم ان کو دکن کی یاد آتی رہی کہتے ہیں:
فرقت سے آپ کی ہمیں غربت وطن میں ہے
یاں کا لبد ہے، روح ہماری دکن میں ہے
کانپور میں قیام اور ترک شاعری: حیدرآباد سے واپس آنے کے بعد وہ زیادہ تر کانپور میں رہنے لگے، ان کے اسی زمانہ قیام میں مسجد کانپور کے شہید ہونے کا ہنگامہ برپا ہوا، جس میں بے گناہ مسلمانوں کی خونریزی اور قید و بند کے مناظر ان کی نگاہوں کے سامنے گزرے، ان کی اسلامی حمیت جوش میں آئی اور بلاخوف و خطر حکومت کے بے جا تشدد کے اظہار میں ستر (۷۰) بند کا ایک مسدس لکھ کر عام جلسہ میں سنایا، جس کا حاضرین پر بے حد اثر ہوا، آخر حکومت کی جانب سے وہ مسلسل ضبط کیا گیا اور ہمیشہ کے لئے وہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا، اس مسدس کے لکھنے پر وہ بغاوت کے الزام میں گرفتار کئے گئے اور مقدمہ چلایا گیا، اس مقدمہ سے تو خیر کسی طرح رہائی ہوگئی، لیکن یہ حکم برقرار رہا کہ وہ آئندہ کسی جلسہ میں کوئی نظم نہ پڑھیں، احقرؔ مرحوم اس واقعہ کے بعد کانپور سے چلے آئے، اس کے بعد ہی ان کے نوجوان ہونہار صاحبزادہ ناظم مرحوم کا عالم شباب میں انتقال ہوگیا، اس حادثہ کا ان کے دل پر بڑا گہرا اثر ہوا اور آخر شاعری کے تفریحی مشاغل سے بالکل کنارہ کش ہوگئے، ان کی آخری غزل یہ ہے:
احقر سے جو پوچھا کیوں تم نے اب شغل سخن کو چھوڑ دیا
بولے کہ گیا جب موسم گل بلبل نے چمن کو چھوڑ دیا
سفر حج: احقر مرحوم نے اپنی زندگی میں دو بار حج کیا تھا، ایک مرتبہ کمسنی میں اپنے برادر معظم کے ساتھ اور دوسری مرتبہ جوانی میں چنانچہ اس رباعی میں اسی کی طرف اشارہ ہے:
کس جانہ تمھیں حضور ہم نے دیکھا

ایمن گئے کوہ طور ہم نے دیکھا
لیکن نہ ملا پتہ یہ قسمت اپنی

ڈھونڈھا تمھیں ، دور دور ہم نے دیکھا
وفات: پچاس ساٹھ برس کی شاعری کے بعد بہتر (۷۲) برس کی عمر میں احقر مرحوم نے ۱۳۴۸؁ھ میں دسویں رمضان المبارک کو شہر پٹنہ محلہ سلطان گنج میں انتقال کیا، اور وہیں سپردخاک کئے گئے۔
کلام کا نمونہ:
چلے ہو گھر سے جوبن سنور کر بتاؤ صحبت کہاں رہیگی

تو ہنس کے بولے تمھیں غرض کیا جہاں رہیگی وہاں رہیگی
بقا ہے ذات خدا کو تنہا فنا ہے ہر چیز کو جہاں میں

نہ یہ رہیگی نہ وہ رہیگی وہی رہیگی جہاں رہیگی

بجا نہیں ہماری پیری میں فکرِ عقبیٰ

تھکتے ہیں جب مسافر منزل کو ڈھونڈھتے ہیں
وحشت تو لے گئی تھی چنوانے خاک بن میں

مٹی ہماری لائی پھر گھیر کر وطن میں
کھلنے نہ پائے پردہ مجھ زار و ناتواں کا

یارو لپیٹ دینا اچھی طرح کفن میں

شیشۂ دل غیر کے لائق نہیں

اس مرقع میں تری تصویر ہو
کثرتِ عصیان نہیں وجہ نجات

جرم بیحد ہوتو کیا تعزیر ہو

وصل میں تم کیا تمھاری ’’ہائیں‘‘ کیا

ج موقع پر اجی ڈر جائیں کیا
عمر کافی بتکدہ میں بیٹھ کر

اٹھکے اب پیری میں کعبہ جائیں کیا

جوہر تو ہے پہ قدر گہر کب وطن میں ہے

نے آبرو عقیق یمانی یمن میں ہے
دونوں کا حال ایک ہے اس گل کے ہجر میں

پہلو میں دل ہے بلبلِ نالاں چمن میں ہے

پھنکا جاتا ہوں مثلِ طورول سینہ میں جلتا ہے

یہ کس کے منھ سے کلمہ لن ترانی کا نکلتا ہے
نہ کہنا پھر کہ کیسا دل مرا بے چین کر ڈالا

جگر کو تھام لو نالہ مرے منھ سے نکلتا ہے
طلب کرتے ہیں وقت نزع اے جان اس لیے تمکو

کہ تم بھی دیکھ لو عاشق کا کیونکر دم نکلتا ہے
چلا جاتا ہے یہ کہہ کر مرے رونے پہ وہ ظالم

یہ طفلِ اشک ہر ہر بات پر یوں ہی مچلتا ہے

ہوتا ہے آرزو سے فقط آدمی ذلیل

حاصل ہو مدعا جو کوئی مدعا نہ ہو
لے تو چلے ہیں داب کے ہم بھی بغل میں دل

دھڑکا ہے یہ پسند بھی ہو ان کو یانہ ہو
قصہ فضول حجت و تکرار نا روا

دل پھیر دیں حضور اگر کام کا نہ ہو
ہم جانتے ہیں لطف شبِ انتظار کا

وعدہ بھی وہ کریں تو الٰہی وفا نہ ہو
پیش خدا بیان کریں سب بتوں کا حال

روز جزا کسی کا اگر سامنا نہ ہو

کیوں نہ ہو سوز جگر اشک رواں سے زائل

خاصیت آگ بجھانے کی ہے ہر پانی میں
مینھ برستے ہیں جو یاد آتا ہے وہ گل احقر

اور ہوتے ہیں مرے داغِ جگر پانی میں
حرم کا زاھدوں کو دردسر ہو

جبین میری ہو تیرا سنگ در ہو
ٹھراے موت جلدی کیا پڑی ہے

مہیا کچھ تو سامانِ سفر ہو
بہت عاصی سہی رندِ سیہ کار

مگر اے واعظو تم بھی بشر ہو
اٹھاؤ سر زرا آنکھیں ملاؤ

اجی کھوئے ہوئے کیوں اسقدر ہو
ہمارے سامنے احقر تعلی

تمھیں ہم جانتے ہیں جس قدر ہو

حاصل اتنا تو ہوا خوگرِ حرماں ہوکر

سختیاں ہم پہ گذرنے لگیں حرمان ہوکر
کیا ملا مائل حسن رخ خوباں ہوکر

رہ گئے کوچۂ کاکل میں پریشان ہوکر
ان سے بھی اپنا شباب اب نہیں دیکھا جاتا

آئینہ ہاتھ سے رکھ دیتے ہیں حیران ہوکر
سچ کہا حضرت منصور نے یا جھوٹ کہا

آدمی دیکھ لے محور رخ جانان ہوکر
بندما دیر کو ترغیب حرم دیتے ہو

واعظو شرک سکھاتے ہو مسلمان ہوکر
طعن ہم رندوں پراے زاہد مغرورنکر

ہوش رہتا نہیں مستِ مئے عرفان ہوکر
نفس امارہ کو کر زور سے زیراے احقر

مور ناچیز سے دبتا ہے سلیمان ہوکر

دلکی آشفتگی تو کیا جانے

ایسی باتیں تری بلا جانے
دیکھ لے اسکو جسکا جی چاہے

شرط یہ ہے کہ دیکھنا جانے
باوفا لوگ جانتے ہیں مجھے

ارے او بے وفا تو کیا جانے
بے خبر ہو جو خانۂ دل سے

کعبۂ و دیر کو وہ کیا جانے
قصہ زلف پوچھئے تو کہوں

اور باتیں مری بلا جانے
نہ رہا لطف زندگی احقر

اب میں جیتا ہوں کیوں خدا جانے

جو یہ کمسن سمندِ ناز کو مہمیز کرتے ہیں

ہمیں پامال کیا کیا سبزۂ نوخیز کرتے ہیں
ہنسی آتی ہے ہم کو واہ رے بیماریٔ الفت

مرض بڑھتا ہے اتنا جس قدر پرہیز کرتے ہیں
لگے آگ اس شفق کو رات گزری یار جاتا ہے

ہم اب جام صبوحی اشک سے لبریز کرتے ہیں
قیامت ہے یہ سرمہ اور بھی ان خوش نگاہوں کا

چٹاکر سنگ چھریوں کو یہ ظالم تیز کرتے ہیں
ثنائے ابروئے خمدار میں لکھتے ہیں شعر احقر

طبیعت کندجب ہوتی ہے یوں ہم تیز کرتے ہیں
íکلام پر رائے: احقر کے کلام کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، (۱)اردو غزلیات، (۲)رباعیات، (۳)واسوخت، (۴)فارسی کلام۔
غزلیات:ـ ہمارے پرانے شاعروں کی طرح احقر کے کلام کا بھی بڑا ذخیرہ غزلیات پر مشتمل ہے، ان کے سوانح زندگی سے آشکارا ہے کہ وہ لکھنؤ کے دلدادہ تھے، وہ طرز شاعری میں بھی بالکل لکھنو کے پیرو اور مقلد تھے، زبان کی صحت کا خیال، محاورہ اور روزمرہ کا لحاظ، لفظی صناعی، مشکل ردیفوں میں سخن آرائی، سب کچھ لکھنؤ کے طرز پر ہے، تاہم میرؔ کے طرز سخن کو بھی ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے اور غالباً یہی ان کی بڑی خصوصیت ہے، ملاحظہ ہو،
احقر سے جو پوچھا کیوں تم نے اب شغل سخن کو چھوڑ دیا

بولے کہ گیا جب موسم گل بلبل نے چمن کو چھوڑ دیا
دل پھنس کے کسی کی زلفوں میں کس طرح الٰہی چھوٹ گیا

معلوم نہیں کیا پیچ پڑا کالے نے جو من کو چھوڑ دیا
آتے ہیں عجیب انداز سے وہ ڈالے ہوئے رخ پر بالوں کو

زلفیں جو ہٹیں اک شور ہوا سورج نے گہن کو چھوڑ دیا
اب آنکھ کسی پر کیا ڈالیں نظروں میں کوئی جچتا ہی نہیں

آنکھوں پہ ترے صدقہ کرکے جنگل میں ہرن کو چھوڑ دیا
چونکے نہ کسی دن خواب سے ہم غفلت میں بسر کی عمر اپنی

اے دائے غضب کب آنکھ کھلی جب روح نے تن کو چھوڑ دیا
تھے آسرے جتنے ٹوٹ گئے یارانِ وطن سب چھوٹ گئے

اے دادیٔ غربت تو نے سنا کیوں ہم نے وطن کو چھوڑ دیا
آورد میں لذت خاک نہیں آمد کا مزا ہے اے احقر
وہ چال نہ چل جو لوگ کہیں آتشؔ کے چلن کو چھوڑ دیا
احقر کے کلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ گو ان کی شاعری کا زیادہ حصہ گل و بلبل کے افسانوں سے بھرا ہوا ہے، پھر بھی تصوف کے آب و نمک سے ان کی شاعری خالی نہیں،
یہ عشق کی ہے سرکار احقر غصہ بھی یہاں ہے پیار بھی ہے

ہر زخم جگر کے پھائے میں کا فور بھی ہے زنگار بھی ہے
کیا مٹی میں ملایا ہے تو نے کیا بات ہے اسمیں اے ساقی

جو رند ہے اس میخانے کا مدہوش بھی ہے ہشیار بھی ہے
یہ راز کی باتیں ہیں اس کو سمجھے تو کوئی کیونکر سمجھے

انسان ہے پتلا حیرت کا مجبور بھی ہے مختار بھی ہے
حیران ہیں تیرے مذہب سے سب گبرو مسلمان اے احقر
اے واہ رے تو سبحان اﷲ تسبیح بھی ہے زنار بھی ہے
ایک شعر میں وحدت شہود کا مسئلہ بیان کیا ہے:
فقط نہ صنعت صانع مری نگاہ میں ہے
عیان گلوں میں ہے کانٹوں میں ہے گیاہ میں ہے
دنیا کی بے ثباتی:
احقر مسافرانہ بسر کررہے ہیں ہم
دنیا میں کیا لگائیں دل اپنا ، سراتو ہے
جناب داغؔ آسمان کو اس طرح دھمکاتے ہیں:
کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں
اگر نہ آگ لگا دوں تو داغؔ نام نہیں
اسی مضمون کو حضرت احقر اس طرح ادا کرتے ہیں:
چار نالوں میں ابھی ڈھادوں تجھے
اے فلک تیری بھی کچھ بنیاد ہے
جناب جلیل اپنی توبہ شکنی کا سبب کالی گھٹا کو ٹھہرا کر خود کو بے قصور ثابت کرنے کی اس طرح کوشش کرتے ہیں،
توبہ تو کرچکا تو مگر کیا کہوں جلیل
کالی گھٹا کو دیکھ کے نیت بدل گئی
مگر اس احقر شاعر کو بھی دیکھئے کہ وہ اپنی توبہ شکنی کا عذر کس طرح پیش کرتا ہے:
توبہ تو کی تھی واعظا تجھ سے مگر کہوں میں کیا
آج ذرا سی پی گیا ابر بہار دیکھ کر
حضرت امیر نے ایک شعر میں اپنی نازک دماغی اس طرح دکھائی ہے:
دوزخ مجھے قبول ہے اے منکر و نکیر
لیکن نہیں دماغ سوال و جواب کا
لیکن احقر بھی کچھ کم بد دماغ نہیں وہ اپنے سنگدل معشوق کے فیصلہ پر رضامندی ظاہر کرتے ہیں، لیکن سوال و جواب اور بحث کرنے کے لئے تیار نہیں:
اس بت سے کون بحث حضور خدا کرے
احقر اسی پہ چھوڑ دو جو فیصلہ کرے
بیگانگی خلق سے تنگ آکر غالبؔ نے اپنے کو اس طرح سمجھایا ہے:
بیگانگی خلق سے بیدل نہ ہو غالبؔ
کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے
لیکن احقر بیگانگی خلق کی پروا ہی نہیں کرتا، اگر کوئی اس سے بے وفائی کرتا ہے تو یہ بجائے رنجیدہ خاطر ہونے کے خود بھی منھ پھرلیتا ہے:
دنیا نے مجھ سے پھیرلی آنکھیں تو کیا ہوا
کچھ غم نہیں ہے کوئی نہیں ہے تو خدا تو ہے
’’عشق بتان‘‘ سے پچھتا کر جناب مومن اپنی شرمندگی اور مذامت کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
عمر ساری تو کٹی عشق بتان میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلمان ہونگے
لیکن ذرا احقر کی شرمندگی کو دیکھئے:
خدا کے سامنے ہم جائیں کیونکر
بتوں پر عمر بھر شیدا رہے ہیں
جناب مومنؔ کے شعر میں افسوس کے ساتھ غصہ بھی ملا ہوا ہے، لیکن احقر کے اس شعر میں ایسی عاجزی ندامت، پیاس اور حسرت پائی جاتی ہے کہ انسان پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
غالب کا ایک بہت مشہور شعر ہے:
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفان کئے ہوئے
احقر کے طوفانِ آب کا منظر یہ ہے:
رو رو کے ہجریار میں طوفان اٹھاؤں گا
بیٹھا ہوں آج ساتھ لئے چشم تر کو میں
جناب ریاض کا شعر ہے:
بڑے صاف ظاہر بڑے پاک باطن
ریاض آپ کو کچھ ہمیں جانتے ہیں
ہمیں کوئی کلام نہیں کہ شعر اپنی سادگی برجستگی اور طرز بیان کے اعتبار سے آپ اپنی نظیر ہے، احقر کا شعر بھی اس سے کم نہیں،
ہمارے سامنے احقرؔ تعلّی
تمھیں ہم جانتے ہیں جس قدر ہو
واعظوں اور شاعروں میں ہمیشہ سے لاگ چلی آتی ہے، لیکن احقر کے طرز بیان میں کچھ ایسی لذت ہے کہ ان کی مذمت میں تلخی نہیں پائی جاتی:
دیکھو احقر سے نہ الجھو واعظو
تم ہو دیوانے تویہ مجذوب ہے
دوسری جگہ غریب زاہد کو باتوں باتوں میں کیسا لیا ہے:
زاہد سے اور تجھ سے احقر ملاپ کیسا
کیسی ذلیل تیری اوقات ہوگئی ہے
رعایت لفظی جو فن شاعری میں ایک قابل قدر چیز سمجھی جاتی ہے، احقر کے یہاں بھی کثرت سے ملتی ہے، چنانچہ ان کی ایک غزل ’’صنعت مرصع‘‘ میں ہے:
مجھ کو فگار دیکھ کر حالت زار دیکھ کر

رودیا یار دیکھ کر، آگیا پیار دیکھ کر
ہجر کی رات الامان ظلمت گورتھی عیاں

قبر کا پھر گیا سماں یہ شب تار دیکھ کر
میں ہوں بلا کا سخت جان آپکی نازکی عیان

دوہری نہ ہوں کلائیاں ، کیجئے وار دیکھ کر
توبہ تو کی تھی واعظا ، تجھ سے مگر کہوں میں کیا

آج ذری سی پی گیا ، ابر بہار دیکھ کر
 احقر مرحوم شعرائے لکھنؤ کی پیروی میں سخت زمین میں اکثر غزل کہتے اور اس بارے میں ان کو کسی حد تک اصرار معلوم ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثر غزلیں سنگلاخ زمینوں میں ملیں گی، مشکل ردیفوں کو نباہنا ان کا خاص کمال ہے، ’’دھوپ‘‘ پر ان کی طبع آزمائی ملاحظہ ہو، حق یہ ہے کہ خوب نباہا ہے اور یہ نہ صرف کوہ کندن وکاہ برآوردن ہے، بلکہ اس غزل کے بعض بعض شعر اپنی بلندی خیال اور جدت مضمون کے لحاظ سے قابل داد ہیں:
کب دشمن رندان قدح نوش ہوئی دھوپ

جب آئی گھٹا جھوم کے روپوش ہوئی دھوپ
ٹھہرا نہ کوئی عکس رخ یار کے آگے

خورشید چھپا شرم سے ، روپوش ہوئی دھوپ
اے ابر کرم یاد جو آئی تری رحمت

میدان قیامت کی فراموش ہوئی دھوپ
وہ آئے دمِ صبح، لبِ بام، چھپا مہر

دن بھرکے بکھیڑوں سے سبکدوش ہوئی دھوپ
پیری میں نہیں جامِ صبوحی کا مزا کچھ
احقرؔ سبب توبہ مئے نوش ہوئی دھوپ
روزانہ کی بول چال میں شعر کہنا جتنا دشوار ہے، اتنا ہی شاعری کا کمال بھی ہے اور جناب احقر کی خصوصیات کلام میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے، وہ یقینا روزمرہ کا استعمال ہے، وہ شعر اس طرح لکھتے ہیں، جیسے کوئی شخص گفتگو کررہا ہو، یہاں ان کے کلام سے چند غزلیں پیش کی جاتی ہیں:
مئے سے انکار کوئی بات ہے یہ

پیجئے پیجئے برسات ہے یہ
شوق سے لیجئے دل حاضر ہے

آپ سے عذر کوئی بات ہے یہ
ھیجئے خلد میں یا دوزخ میں

آپ راضی ہوں بڑی بات ہے یہ
-ہوسِ خلد ہے طاعتِ زاہد

بات بس قبلہ حاجات ہے یہ

ایک دل ہے مانگنے والے ہزار

کسی مصیبت میں ہماری جان ہے
یہ نصیحت اور یہ عہدِ شباب

تو بھی اے ناصح بڑا نادان ہے
دیکھ لو بیمارِ غم کو دیکھ لو

کوئی دن کا اور یہ مہمان ہے
بخشدو احقرؔ کو اے بندہ نواز
ہوگئی اس سے خطا، انسان ہے

گالیاں سن کے چپ رہوں کب تک

میرے منھ میں زبان ہے کہ نہیں
خانۂ دل میں کیوں نہیں آتے

یہ تمھارا مکان ہے کہ نہیں
ہو کرم غیر پر مرے آگے

یہ ستم مہربان ہے کہ نہیں
ان بتوں کو خدا سے کیا نسبت

وہ یقین یہ گمان ہے کہ نہیں
لکھنو کے ذوقؔ اور میرؔ صاحب کے میخانہ کی جرعہ نوشی ملاحظہ ہو:
کچھ بات ہی ایسی ہے جس سے دم بھر بھی اسے آرام نہیں

اب حال تو یہ ہے احقر کا گر صبح رہا تو شام نہیں
کر طعن نہ مجھ پر اے واعظ ناداں یہ اچھا کام نہیں

پہنچے گی کبھی تو آہ مری کچھ عرش بتوں کا نام نہیں
دل خانۂ شادی تھا میرا آباد تھی اک دن یہ بستی

اب دیکھتے کیا ہو سینہ کو اس گھر میں خوشی کا نام نہیں
قربان کروں کیا چیز یہ ہو دل جو پسند اے جاں تمھیں

مفلس کا سمجھ لومال اس کو کیا، دام اس کا کچھ دام نہیں
ہیں عاشق زلف روئے صنم بس عشق ہمارا مذہب ہے

اب رہتے ہیں ہم جس منزل میں و ان کفر نہیں اسلام نہیں
یہ کافر و مومن دیرو حرم اسرار ہیں اس کی حکمت کے

جو واقف ہے وہ واقف ہے، ہیں خاص یہ باتیں عام نہیں
آتی ہیں صدائیں کانوں میں دن رات یہی کہتا ہے کوئی

چلنے کے لئے تیار رہو ہونے کا یہاں کچھ کام نہیں
گھبرائے جو بندے محشر میں رحمت نے صدائیں دیں بڑھکر

لکھے سے ملاکر دیکھا ہے تم لوگوں پر کچھ الزام نہیں

پوچھے جو کوئی احوال مرا کچھ بیچ کی حالت کہہ گزروں

ایسا ہی فسانہ ہے جسکا آغاز نہیں انجام نہیں
کیا دور ہے کیسی گردش ہے اے چرخ کہن یہ بدعت نو

اغیار کو بخشے خم ساقی یاروں کے لئے اک جام نہیں
اے چرخ ستمگر خوب ہمیں رسوائے زمانہ تو کرلے

ہم عشق کے بندے ہیں ہم کو اندیشۂ ننگ و نام نہیں
دن آگئے مرنے کے لیکن دل میں ہے ہوسناکی ابتک
اندھیر یہ کیسا ہے، احقر کچھ فکر چراغ شام نہیں
رباعیات: احقر نے رباعیان بھی بہت کم کہی ہیں، سب کو معلوم ہے کہ رباعی کا کمال یہ ہے کہ چار مصرعوں کے کوزے میں، وسیع و عمیق معانی کا دریا بند کردیا جائے اور طرز اور ایسا ہوکہ سننے والا متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔
اخلاص عمل کے متعلق اکثر شعرا نے بہت کچھ کہا ہے، اور بہت خوب کہا ہے، لیکن احقر کا انداز ملاحظہ ہو:
یوں لاکھ زبان پر ہو جاری توبہ

ہوکام تو کام کی ہے ساری توبہ
اخلاص اگر نہیں تو طاعت بے سود

بگڑی کو بنائے کیا ہماری توبہ
اختلاف مذاہب کی صوفیانہ حقیقت یوں واضح کرتے ہیں:
گیسو تیرے ہیں روئے زیبا تیرا

کعبہ تیرا صنم، کلیسا تیرا
کچھ مومن و برہمن جو سوچیں احقرؔ

ہوجائے دلوں سے دور میرا تیرا
 جوانی دیوانی کس کی نہیں ہوتی، اس وادی سے احقر بھی گزرے تھے، شباب نے جہاں گم کردہ راہ کیا تھا، پیری نے واماندہ راہ کردیا ہے، لیکن جوانی کی یاد اس عہد میں بھی جوش و ولولہ سے خالی نہیں، کس مزہ سے کہتے ہیں، سب کچھ کہہ دیا اور کچھ نہیں کہا،
احقر عہد شباب توبہ توبہ

وہ ضبط وہ اضطراب، توبہ توبہ
کچھ ہم سے نہ پوچھئے جوانی کا حال

توبہ توبہ جناب توبہ توبہ
ان سیہ کاریوں کے بعد طلب مغفرت بھی شعراء کا عام مضمون ہے، احقر کی طلب عفو کا رنگ یہ ہے،
احقر اف رے سیاہ کاری تیری

بے جا نہیں یار بے قراری تیری
ہو طالبِ عفو دیکھ مایوس نہ ہو

سن لے شاید جناب باری تیری
ایک رباعی میں اپنے خالق سے تقسیم و تقدیر کا گلہ اس پیرایہ میں کرتے ہیں:
گل رویوں کو عیش باغ بخشا تو نے

مجھ کو دلِ داغ داغ بخشا تو نے
کیا ضد تھی کہ پھوکنے کو گھر بار مرا

جلتا ہوا اک چراغ بخشا تو نے
شراب رباعیات کا خاص مضمون ہے، احقر کے میخانہ سخن میں دیکھئے کہ یہ شراب کس کس رنگ میں آتی ہے:
کیونکر رہے غم سے میرا سینہ خالی

گھنگور گھٹا ہو اور مینا خالی
ساقی اک جام، میکدہ کا صدقہ

برسات کا جاتا ہے مہینا خالی

لا مجھ کو شرابِ ناب ساقی دیدے

اس ابر میں آفتاب ساقی دیدے

کل روز حساب خیر دیدینگے حساب

لے آج تو بے حساب ساقی دیدے
عاشقانہ رنگ کی رباعیوں کا اندازہ یہ ہے:
ہے ہے اسی درد سر نے مارا مجھ کو

کافر تری نظر نے مارا مجھ کو
موت آگئی عشق زلف و رخ میں احقرؔ

آخر شام و سحر نے مارا مجھ کو
اپنے محبوب کے زلف و رخ کو شام و سحر سے تشبیہ دینا مشہور عام ہے، لیکن اس شام و سحر کی تشبیہ اور ابہام سے موت کا ثبوت بہم پہنچانا شاعرانہ جدت ہے۔
شاعری کی ایک مقبول صنف منظرکشی بھی ہے، احقر کے کلام میں اس کی مثالیں کم ملتی ہیں، تاہم ایک رباعی میں موسم بہار کا منظر کس دلکش طریقہ سے کھینچا ہے:
کیا بن کے نئی دلہن بہار آئی ہے

پھولوں کا گلے میں دیکے ہار آئی ہے
غنچے کیا کیا چٹک رہے ہیں احقر

جوبن پہ صبا جو ہاتھ مارا آئی ہے
شراب کے متعلق ان کی ایک رباعی ہے اور واقعی خوب ہے اور کیا عجب کہ یہ وہی رباعی ہو جس کو کہ انھوں نے حیدرآباد کے کسی بزم مشاعرہ میں پڑھ کر حضرت برترؔ جیسے ممتاز شاعر سے خراج تحسین وصول کیا تھا، رباعی یہ ہے:
کیا بزم میں بے حجاب آئی ہے

بدلی ہے توبن کے آفتاب آئی ہے
انگور میں چھپ رہی تھی ظالم جاکر

اب کہ کھنچکے میرے سامنے شراب آئی ہے
یورشین و اسوخت: ان کے کلام میں ایک چیز جو آج سے پچیس سال قبل یقینا بڑی انوکھی ہوگی، ’’یوریشن و اسوخت‘‘ ۱؂ ہے، جس میں اردو زبان میں انگریزی الفاظ کھپائے ہیں، احقر جیسے پیرانہ سال اور کہنہ خیال شاعر کے لئے نظم میں انگریزی کے پورے پورے لفظ کو اس بے تکلفی اور استادی سے کھپا دینا کہ انگریزی اور اردو کے اندر کوئی فرق نہ معلوم ہو، اعجاز ہے، شاعر نے ہر ایک شعر میں انگریزی کے ایک دو لفظ کو ایسے عمدہ موقع اور محل پر استعمال کیا ہے کہ اس سے شاعر کے متعلق بجاطور پر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ نہ صرف فن شاعری کا ایک باکمال استاد ہے بلکہ انگریزی زبان پر بھی قدرتِ تام رکھتا ہے، اس واسوخت کے سلسلہ میں ایک دلچسپ نقل بیان کی جاتی ہے، ایک روز احقر کے ایک گریجویٹ دوست ملنے آئے، سلسلۂ گفتگو میں انگریزی کا کوئی لفظ احقر کے صحیح ادا نہ کرنے پر ان کے ایک دوست کو ہنسی آگئی، احقر کو اس کا بڑا صدمہ ہوا، اور اسی وقت سے انگریزی پڑھنی شروع کردی، اور تھوڑے ہی عرصہ میں انگریزی زبان پر کامل عبور حاصل کرلیا، یہ یورشین واسوخت ان کی اسی کوشش کا ایک کرشمہ ہے، یہاں اس کے تین شعر نقل کئے جاتے ہیں:
نیم سے عشق کے میں تو کبھی آگاہ نہ تھی

خبر شادی و سورو مجھے واﷲ نہ تھی
لو ہے کیا چیز، فکشن کسے کہتے ہیں بشر

بلوڈ ورڈ ہے کیا، کہتے ہیں کس شی کو لور
سرپرائز مجھے اس بات کا ہے حدسے سوا

ایک ہی لُک میں مراہاٹ پہ پاور نہ رہا
فارسی کلام: ان کے فارسی کے کلام کا بہت کم ذخیرہ ہے، مگر جو کچھ ہے اس سے ان کی فارسی پر قادرالکلامی کا پتہ چلتا ہے، یہاں ان کی صرف ایک فارسی نعت بدیہ ناظرین ہے:
اے اول پیشینیاں اے آخرِ پیغمبران

ہستی عجب سرّنہاں گاہے چنین گاہے چنان
صدجان چرمن قربان ترا روحی فداک اے خوش ادا

نازیست این بامعجزہ دل می بری از بیدلان
محمود احمد نام تو عرش معلی بامِ تو

مستیم ما از جامِ تواے ساقیِ کوثر نشان
درجسم چون جان آمدی بادرد و درمان آمدی

خورشید تابان آمدی کردی زمین آسمان
آکے المناکم کنی از رانج و غم پاکم کنی

سربستہ فتراکم کنی اے شہسوار لامکان
خورشید اذدویت خجل مویت کمندہ مرغِ دل

خویت بہ قرآن متصل، اے پیشوائے مرسلان
وجان پاکان آمدی محبوبِ سبحان آمدی

باعہد و پیمان آمدی پشت و پناہ امتان
اے احقر اندوہگین، تاچند باشی این چنین
یا صبرکن ازنازنبن، یا جان بدہ برآستان
(نومبر ۱۹۳۱ء)

۱؂ امید ہے کہ یہ یورشین واسوخت جو اس وقت تک غیر مطبوعہ ہے عنقریب ان کے مجموعہ کلام کے ساتھ شایع ہوکر ہدیہ ناظرین ہو۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...