Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا شاہ سلیمان قادری چشتی پھلواروی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا شاہ سلیمان قادری چشتی پھلواروی
ARI Id

1676046599977_54337875

Access

Open/Free Access

Pages

97

شاہ سلیمان پھلواروی
ہندوستان کے مشہور پرانے عالم و واعظ و خطیب مولانا شاہ سلمان صاحب قادری چشتی پھلواروی نے جن کے نغموں نے ہمارے ملک کے پورے طول و عرض کو کم از کم نصف صدی تک پرشور رکھا تھا، وفات پائی، ۲۷؍صفر ۱۳۵۴؁ھ کی تاریخ جمعہ کے دن اور صبح ۷ بجے کا وقت تھا کہ یہ طوطیِ خوشنوا ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا، پھلواری صوبہ بہار میں عظیم آباد پٹنہ سے ملحق ایک مردم خیز مشہور قصبہ ہے جہاں ڈیڑھ سو برس کے عرصہ میں بہت سے باکمال، اہل علم، علماء، صلحاء، مشایخ اور شعراء پیدا ہوئے، مرحوم بھی یہیں کے رہنے والے اور یہاں کے بزرگوں کے مستند و معتبر خانوادہ کے چشم و چراغ تھے، ستہتر، اٹھتر بر س کی عمر پائی، غالباً ۱۲۷۶؁ھ میں پیدا ہوئے۔
مرحوم کی جوانی کے عہد میں تین باکمالوں کے درس کی مسندیں ہندوستان میں بچھی تھیں، فرنگی محل لکھنؤ میں مولانا عبدالحئی صاحب، سہارنپور میں مولانا احمد علی صاحب اور دلّی میں مولانا سید نذیر حسین صاحب کی، شاہ صاحب مرحوم نے فیض کے ان تینوں سرچشموں سے فائدہ اٹھایا، پہلے فرنگی محل آئے اور یہاں سے فارغ ہوکر سہارنپور اور دہلی گئے، دلّی کے قیام کا زمانہ جس کو ان کی تعلیم کا آخری عہد کہنا چاہئے، ۱۲۹۷؁ھ مطابق ۱۸۸۰؁ء ہے۔
لکھنؤ کے قیام میں درسیات کو ختم کرنے کے بعد انہوں نے طب پڑھی اور اسی طبیب کی حیثیت سے انہوں نے دنیا میں اپنی زندگی کا آغاز کیا، چنانچہ شروع میں حکیم محمد سلیمان کہلائے اور اسی کا اثر تھا کہ شاعری میں جس کا چسکا ان کو بچپن سے تھا اور لکھنؤ کی صحبت میں جس کا چٹخارہ اور بڑھ گیا تھا، اپنا تخلص حاذقؔ رکھا تھا، وہ زیادہ تر اردو اور عربی میں کمتر فارسی میں شعر کہتے تھے، غزلیں بھی کہتے تھے اور لکھنؤ کے مشاعروں میں پڑھتے بھی تھے، صوبہ بہار کے مشہور عالم شاعر شوق نیموی ان کے ہم درس و ہم صحبت و ہم استاد تھے، شاہ صاحب مرحوم کی زبان سے ان کے اس عہد کے ایک دوشعر سنے تھے۔
اس عہد کے نوجوان علماء نے جو زمانہ انقلاب سے متاثر اور قوم وملت کی تباہ حالی کے درد سے بے تاب ہوکر روشِ زمانہ کے مطابق کچھ کام کرنا چاہتے تھے، ندوۃ العلماء کے نام سے پہلے کانپور میں اور پھر لکھنؤ میں ایک انجمن کی بنیاد ڈالی، مولانا سید محمدعلی صاحب، مولانا شبلی صاحب، مولانا عبدالحق صاحب حقانی، مولانا سید ظہور الاسلام صاحب فتح پوری، مولانا ابراہیم صاحب آروی، مولانا شاہ سلیمان صاحب پھلواروی وغیرہ اس جماعت کے ممتاز ارکان تھے، اسی انجمن کا پلیٹ فارم تھا جس میں شاہ صاحب مرحوم کی خطیبانہ قوت بیان و تسخیر قلوب کا شہرہ عام ہوا، ندوۃ العلماء کا کانپور سے لکھنؤ آنا اور وہاں دارالعلوم کی بنیاد پڑنا بھی شاہ صاحب ہی کی تحریک و تجویز کا نتیجہ ہے، ورنہ وہ کھینچ کر کب کا دہلی پہنچا ہوتا۔
ندوہ کی مجلسوں سے مرحوم کی خوش بیانیوں کی داستان اڑ کر ملک کی انجمنوں اور مجلسوں اور کانفرنسوں میں عام ہوئی، سرسید مرحوم نے شاہ صاحب مرحوم کی وہ تقریر جو انہوں نے ندوہ کے ایک سالانہ جلسہ میں کی تھی، اپنے اخبار میں شاہ سلیمان کا ’’نیچریانہ وعظ‘‘ کی سرخی سے چھاپی، سرسید کے بعد نواب محسن الملک مرحوم نے ان کو اپنی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں جو ان دنوں تعلیم یافتہ مسلمانوں کا واحد مجلسی مرکز تھا کھینچا، مرحوم کی خوش بیانی نے ان ’’نیچری مسلمانوں‘‘ کو بھی مسحور کیا، رنگون وغیرہ نواب صاحب کے ساتھ شاہ صاحب بھی کانفرنس کے کاموں میں شریک تھے اور صاحبزادہ آفتاب احمد خاں کے زمانہ تک شریک رہے۔
مرحوم وسیع النظر عالم، بذلہ سنج ادیب، خوش بیان خطیب، پراثر واعظ، موقع شناس مقرر اور بڑے بڑے بزرگوں کے حلقہ سے فیضیاب صوفی تھے، ان کو تاریخ کا شوق اور عربی نظم و نثر کا اچھا ذوق تھا، اچھے کتب خانوں اور کتابوں کی تلاش رہتی تھی اور اس حیثیت سے وہ اپنے ہمعصروں میں پورا امتیاز رکھتے تھے۔
وہ مذہب کے لحاظ سے وسیع المشرب تھے، وہ سب کچھ تھے اور سب کے ساتھ تھے:
باما شراب خورد و بہ زاہد نماز کرد
تاہم دوباتوں میں وہ نہایت سخت تھے، ایک تو اعتزال کے خیالوں سے بہت برہم ہوتے تھے اور دوسرے حضرت علی مرتضیٰ اور اہل بیت کرام رضی اﷲ عنہم کی محبت و تعظیم میں بے حد غلو فرماتے تھے اور اس راہ میں جب جوش میں آتے تھے، تو بڑوں بڑوں پر ہاتھ صاف کردیتے تھے۔ اس قسم کے ان کے دوستانہ مناظروں کے کئی منظر میں نے اپنی طالب علمی میں دیکھے ہیں۔
ان کا خاندان صوفیہ کا مجمع تھا، تصوف کی گودوں میں پیدا ہوئے، پرورش پائی اور پروان چڑھے اور عمر بھر اسی رنگ میں رہے اور یہی رنگ ان پر غالب تھا، قادری بھی تھے اور چشتی بھی تھے، جہاں اپنے گھر سے فیض پایا تھا، حاجی شاہ امداد اﷲ صاحبؒ سے بھی نسبت رکھتے تھے، پنجاب، مدارس، شمالی بہار اور صوبہ متحدہ میں ان کے مریدوں کی بڑی تعداد تھی۔
ان کے وعظوں میں عجب اثر تھا، کبھی رلاتے اور کبھی ہنساتے تھے ان کے سنجیدہ چٹکلے اور ظریفانہ نکتے لوگوں کو بے حد محظوظ کرتے تھے، ان کی آواز بہت بلند، سریلی اور مؤثر تھی، ان کا لحن نہایت دل پذیر تھا، مثنوی خاص انداز سے پڑھتے تھے کہ سننے والے جھوم جھوم جاتے تھے، ان کے وعظوں سے ہر خیال اور ہر قماش کے لوگ یکساں دلچسپی رکھتے تھے، جاہل، عالم، مولوی مشائخ دڑھ منڈے اور بزرگ ریش، نئے پرانے تعلیم یافتہ اور اہل علم سب لذت اندوز ہوتے تھے۔
میرے ساتھ مرحوم کے گوناگوں تعلقات تھے، مجھے اپنے عزیز سے کم نہیں سمجھتے تھے میرے والد مرحوم ان کے ہم پیر اور ان کے خسر کے مسترشد تھے، میرے بھائی مرحوم طب میں ان کے شاگرد تھے، میں نے بچپن میں پھلواری کے قیام کے زمانہ میں ان سے ابتدائی منطق کے دوچار سبق پڑھے تھے، وہ جب ۱۹۰۲؁ء میں ندوہ کے معتمد تعلیمات منتخب ہوئے تھے اور مستقل قیام ندوہ میں اختیار فرمایا تھا تو ان کی بزرگانہ عنایات اور حوصلہ افزائیوں نے میری علمی ترقیوں میں مدد دی،یاد ہے کہ اسی زمانہ میں نواب محسن الملک مرحوم دارالعلوم ندوہ کے معائنہ کے لئے تشریف لائے تھے، شاہ صاحب نے مجھے اور میرے ہم درس مولانا ظہور احمد صاحب وحشی شاہ جہاں پوری کو امتحاناً پیش فرمایا تھا، میں نے نواب صاحب کے خیر مقدم میں عربی میں ایک قصیدہ لکھا تھا، شاہ صاحب نے یہ کہہ کر مجھے پیش کیا کہ یہ میرے عزیز ہیں اور آپ کو قصیدہ سنائیں گے، نواب صاحب نے مزاحاً فرمایا کہ یہ جب آپ کے عزیز ہیں تو میں ان کا امتحان نہیں لوں گا کہ امتحان سے پہلے ہی ان پر ایمان لاچکا، شاہ صاحب نے فرمایا یہ میرے ہم نام بھی ہیں، نواب صاحب نے فرمایا تو اور ابھی یہ امتحان سے بالاتر ہیں۔
میں نے اپنا قصیدہ پڑھا، جو افسوس ہے کہ اب موجود نہیں تو نواب صاحب نے فرمایا کہ میں تو اس پرانی ادب دانی کا قائل نہیں، عرب کا کوئی اخبار منگوالیئے اس کو یہ پڑھیں، تو البتہ، اس زمانہ میں اللواء اور المؤید عربی کے مشہور اخبار تھے، وہ منگوائے گئے اور میں نے ان کو پڑھا اور صحیح ترجمہ کیا، تو بے حد خوش ہوئے، شاہ صاحب بھی بے حد محظوظ ہوئے اور اس زمانہ کے اخبارات وکیل، وطن اورکرزن گزٹ میں نواب صاحب کے اس معائنہ کی جو کیفیت چھپوائی، اس میں میرا ذکر خاص طور سے فرمایا، یہ اخبارات میں میرا پہلا ذکر تھا ان کی اس تحریر میں ایک فقرہ یہ بھی تھاکہ ’’ملک و ملت کی خدمت کے لئے انشاء اﷲ صوبہ بہار ہر دور میں ایک سلیمان پیش کرتا رہے گا‘‘ رحمہ اﷲ۔
بات میں بات یاد آتی ہے، ندوہ کے ایک جلسہ میں جو لکھنؤ میں غالباً ۱۹۱۵؁ء میں تھا چار سلیمان جمع ہوگئے تھے، قاضی محمد سلیمان صاحب منصور پوری مصنف رحمۃ للعالمین، مولانا سلیمان اشرف صاحب بہاری (استاد دینیات مسلم یونیورسٹی) مولانا شاہ سلیمان صاحب پھلواروی اور خاکسار سلیمان، شاہ صاحب نے فرمایا کہ آج کل کئی کئی سلیمان پیدا ہوگئے ہیں، لیکن ان میں سلیمان بن داؤد میں ہوں،
پریاں نئی نئی ہیں سلیمان نئے نئے
(شاہ صاحب کے والد ماجد مرحوم کا نام داؤد تھا اور اسی لئے ان کی مُہر میں وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاؤُدا [النمل:۱۶] کندہ تھا) مجمع بے اختیار ہنس پڑا۔
پھر فرمایا ’’پہلے سلیمان فرد تھا اور اب رباعی ہے، چارچار سلیمان یکجا ہیں‘‘۔ افسوس کہ یہ رباعی قاضی سلیمان کی وفات سے چند سال گزرے کہ مثلث بن چکی تھی اور اب ۷؍صفر کو قطعہ ہوگئی، اب اس رباعی کے صرف دو مصرعے باقی ہیں، خدا جانے یہ بھی کب اس صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جائیں، وَاﷲُ ھُوَالْبَاقِی۔
شاہ صاحب کے چٹکلے اور تقریری دل آویز نکتے اس قدر ہیں کہ ان کو جمع کریں تو رسالہ بن جائے، رنگون میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ تھا، مولوی نے کانفرنس والوں پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا، شاہ صاحب بھی نواب محسن الملک مرحوم کے ساتھ اس جلسہ میں گئے تھے۔ تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو فرمایا یہاں کے مولویوں نے اہل کانفرنس پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ جس میں شاید میں بھی داخل ہوں، مگر غور تو کیجئے کہ نواب محسن الملک تو مہدی ہیں ( نام مہدی علی تھا) ان کو کون مسلمان دجال کہے گا اور مجھ پر تو کفر کا فتویٰ لگ ہی نہیں سکتا کہ خود اﷲ تعالیٰ کی شہادت ہے کہ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا [البقرۃ:۱۰۲] (سُلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا، بلکہ شیطانوں نے کفر کیا) مجمع ان نکتوں سے بے حد محظوط ہوا اور مولویوں کی فتویٰ گری کا بادل شاہ صاحب کے ان دو چٹکلوں سے ہوا ہوگیا۔
پورے پچاس برس تک ہندوستان کا گوشہ گوشہ ان کے پرکیف و پر اثر خطبوں سے معمور رہا ہے، جس جلسہ میں وہ ہوتے تھے، ان کے سوا ہر آواز ماند پڑ جاتی تھی، جلسہ کے اہم موقعوں پر ان کی طوطی گفتاری بڑی بڑی پیچیدگیوں کو حل کردیتی تھی، شاید ۱۹۰۰؁ء میں ندوہ کا عظیم الشان اجلاس پٹنہ میں تھا، شرکاء میں ملک کے مشہور ممتاز ارباب عمائم ایک طرف اور اس عہد کے مشہور تعلیم یافتگان جدید آنریبل جسٹس شرف الدین، سید علی امام، سید حسن امام، نصیر حسین بیرسٹر، شیخ سرعبدالقادر وغیرہ دوسری طرف شریک جلسہ تھے، یہ پہلا موقع تھا، جس میں دستاربند اور ہیٹ پوش ایک جگہ مل کر بیٹھے تھے اور ملک و ملت کے درد کا درماں سوچ رہے تھے، حسن امام صاحب کی تقریر کے ایک بے محل فقرہ پر علماء میں برہمی پیدا ہوئی، شاہ صاحب فوراً کھڑے ہوگئے اور ایسی تقریر کی کہ سب دھل گیا، فرمایا، آج پہلا موقع ہے کہ نئے اور پرانے مل رہے ہیں، ایک دوسرے سے شکوے ہورہے ہیں، بدگمانیاں دور ہورہی ہیں۔ پھر ایک دو فقروں کے بعد حافظ کا یہ شعر اس مزہ سے پڑھا کہ فریقین مسکرا کر رہ گئے۔
ﷲالحمد میانِ من واو صلح فتاد
حوریاں رقص کناں نعرۂ مستانہ زدند
ندوہ کے اسی اجلاس میں نصیر حسین صاحب بیرسٹر پٹنہ نے جواب صوفی صافی ہوچکے ہیں ایک نہایت پرجوش و پراثر تقریر کی تھی، اثر یہ تھا کہ صدر سے لے کر پائیں تک جو تھا رو رہا تھا، بڑے بڑے عمامہ والوں اور ہیٹ پوشوں کو میں نے خود دیکھا (میری عمر اس وقت ۱۵، ۱۶ برس کی ہوگی) کہ وہ ڈھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے، شاہ صاحب کی موقع شناشی ملاحظہ ہو، اسی عالم میں کہ لوہا گرم تھا کہ چندہ کی تحریک شروع کردی، نصیر حسین صاحب نے اپنا کوٹ اور ویسٹ کوٹ اور جو کچھ ان کی جیبوں میں تھا مع گھڑی کے ندوہ کی نذر کردیا، اسی حالت میں شاہ صاحب نے برمحل ایک شعر اپنی مخصوص لے میں ایسا پڑھا کہ سارے مجمع میں جادو کرگیا، مجھے صرف ایک مصرع یاد ہے۔
وقت آں آمد کہ من عریاں شوم
یہ عالم ہوگیا کہ ہر طرف سے روپے، کپڑے، گھڑیاں اور زیورات برسنے لگے، علماء نے جُبّے اور دستاریں اتار اتار کر نذر کردیں، یاد آیا ایک بزرگ اس میں حضرت شاہ امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی کے خلیفہ تھے، ان کے سرپر پیر کی دستار تھی، جوش میں آکر وہ بھی انہوں نے اتار ڈالی، وہ دستارجلسہ میں نیلام ہوئی اور جناب مولانا حبیب الرحمان شروانی جیسے قدر شناس کی قسمت میں آئی۔
بات کہاں سے کہاں جانکلی۔
لذید بود حکایت دراز تر گفتم
معلوم نہیں عہد ماضی کہ یہ کہانیاں حال کے ناظرین کو بھی لذیذ معلوم ہوں یا نہ ہوں، اس لئے اپنے مزہ کے لئے ان کو بے مزہ کر نامناسب نہیں۔
شاہ صاحب کی ذات عجیب جامع ہستی تھی، ایسے لوگ اب پیدا نہ ہوں گے، زمانہ بدل رہا ہے، ہوا کا رخ اور طرف ہے، وہ قدیم و جدید کے درمیان حلقۂ اتصال تھے، اب قدیم بھی جدید ہورہا ہے اور جدید جدید ترین بن رہا ہے۔ دعا ہے کہ ان کے اخلاف برادرم شاہ حسین میاں صاحب اور ان کے بھائی اپنے بزرگ باپ کے سچے جانشین ثابت ہوں۔ (سید سلیمان ندوی،جولائی ۱۹۳۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...