Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > علامہ سید رشید رضا

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

علامہ سید رشید رضا
ARI Id

1676046599977_54337877

Access

Open/Free Access

Pages

100

سید رشید رضا مِصری
افسوس ہے کہ ۲۲؍ اگست ۱۹۳۵؁ء (جمادی الاولیٰ ۱۳۵۴؁ھ) کو مصر بلکہ دنیائے اسلام کے سب سے بڑے عالم علامہ سید رشید صاحب المنار نے داعی اجل کو لبیک کہا، یہ مفتی عبدہ مرحوم کے سب سے ممتاز شاگرد اور سید جمال الدین افغانی کے فیوض و برکات سے بیک واسطہ مستفید تھے، شام وطن تھا، لیکن سلطان عبدالمجید خان کی داروگیر سے گھبرا کر چلے آئے تھے اور آخر یہیں کے ہوکر رہ گئے، عمر اس وقت ستر۷۰ سے کم نہ ہوگی، پھر بھی ان کی جسمانی قوت اور کام کی طاقت بہت اچھی تھی، اسلام کے اصلاحی مسائل ان کی تصانیف کا خاص موضوع تھا، المنار جس کی اشاعت دنیائے اسلام کے گوشہ گوشہ میں تھی، ان کی اڈیٹری میں نکلتا تھا، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ پورا رسالہ انہیں کے قلم کا مرہون ہوتا تھا، ان کی سب سے اہم تصنیف تفسیرالمنار تھی، جو افسوس کہ ان کی وفات سے ناتمام رہ گئی، یہ تفسیر زمانۂ حال کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر لکھ رہے تھے۔ وہ عقیدہ میں سلف کے پیرو اور فقہ میں غیر مقلد تھے، ان کی انشاء پردازی قدیم و جدید دونوں خوبیوں کولئے ہوئی تھی، فقہ، تفسیر اور حدیث میں یدِطولیٰ رکھتے تھے، ان کی آخری تصنیف ’’الرمی المحمدی‘‘ ہے، جس کا ہندوستانی ترجمہ کلکتہ سے شائع ہوچکا ہے، قدیم و جدید خیالات کی تطبیق ان کی ہر تحریر میں ہوتی تھی اور وہ اسی کے اس زمانہ میں اسلام کے لئے مفید خدمت سمجھتے تھے۔
اس زمانے میں جب ایسے روشن خیال و روشن ضمیر علماء جو ایک طرف متقی و پرہیزگار اور دوسری طرف زمانۂ حال کی ضرورتوں سے باخبر ہوں، انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، سید رشید رضا کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا آج اسلام کا سب سے بڑا حادثہ ہے، وہ دنیائے اسلام کے کاشانہ میں ہدایت کے چراغ تھے، افسوس کہ یہ چراغ اب ہمیشہ کے لئے بجھ گیا، اور اس سے زیادہ افسوس یہ کہ اس چراغ کے گل ہونے سے المنار کی وہ روشنی بھی بجھ جائے گی جس کی کرنیں ہر ماہ تمام دنیا میں پھیلتی تھیں، ولعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امراً۔
میری ان کی پہلی ملاقات ہندوستان میں ۱۹۱۲؁ء میں ہوئی، جب وہ اس سال مولانا شبلی مرحوم کی تحریک سے ندوۃ العلماء کے اجلاس لکھنؤ میں صدر ہوکر آئے، پھر ۱۹۲۴؁ء میں مصر جاکر ان سے ملا اور مجلس خلافت مصر اور شیوخ ازہر سے میری ملاقات کا ذریعہ بنے، آخر میں ۱۹۲۶؁ء کی موتمر اسلامی میں مکۂ معظمہ میں ملاقاتیں ہوتی رہیں، مکاتبات کا سلسلہ بھی تھا۔ (سید سلیمان ندوی، اکتوبر ۱۹۳۵ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...