Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر مختار احمد انصاری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر مختار احمد انصاری
ARI Id

1676046599977_54337882

Access

Open/Free Access

Pages

101

ڈاکٹر مختار احمدانصاری مرحوم
۹؍ مئی ۱۹۳۶؁ء کی شام کو سات بجے کے قریب میں ڈیرہ دون کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا کہ پیچھے سے ایک موٹر تیزی سے آئی اور نکل گئی، میں نے دیکھا کہ اس پر ڈاکٹر انصاری بیٹھے ہیں، سرکھلا تھا اور چہرہ سے بے حد تکان معلوم ہوتا تھا، رات گزر گئی اور صبح کو ان کی قیام گاہ کی تلاش کی، معلوم ہوا کہ وہ رات ہی دلّی چلے گئے، لیکن جب شام ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ رات دلّی نہیں گئے، راستہ سے سیدھے جنت کو سدھارے، دل دھڑکا آنکھیں پرنم ہوئیں اور سینہ سے آہ کا ایک شعلہ اٹھا، جس نے صبر و تمکین کی متاع کو جلا کر خاکستر بنادیا۔
ڈاکٹر مختار احمد انصاری گو نسب و وطن کے لحاظ سے ضلع غازی پور کے ایک ممتاز قصبہ یوسف پور کے ایک نہایت شریف خاندان سے تھے، مگر در حقیقت ان کا تعلق پورے ہندوستان سے تھا، اس یوسف کا کنعان، وہ محدود مقام نہ تھا، جس کو یوسف پور کہتے ہیں، بلکہ پورا ہندوستان تھا، اسی لئے آج پورے ہندوستان نے ان کی موت کا ماتم کیا، کیا مسلمان، کیا ہندو، کیا سکھ، کیا عیسائی سب نے یہی جانا کہ آج ان کا حقیقی بھائی اس دنیا سے چل بسا۔
میں نے ڈاکٹر انصاری کو سب سے پہلے ۱۹۱۲؁ء میں اس وقت دیکھا جب وہ بلقان کی جنگ میں طبی وفد لے کر ترکی جارہے تھے اور اس تقریب سے لکھنؤ اسٹیشن سے گزر رہے تھے، مولانا شبلی اور بہت سے لوگ لکھنؤ اسٹیشن پر ڈاکٹر صاحب کو الوداع کہنے گئے تھے، اس وقت ڈاکٹر صاحب کی عمر ۳۰، ۳۲ برس کی تھی، کھلتا ہوا رنگ، دُبلا پتلا چھریرا بدن کشیدہ قامت، ہنستا چہرہ، انوری یا قیصری مونچھیں، جسم پر چست خاکی وردی، ڈاکٹر صاحب کمپارٹمنٹ کا دروازہ کھولے کھڑے تھے، گاڑی نے جیسے ہی سیٹی دی، لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں اور مولانا شبلی مرحوم نے اسی جوش میں جھک کر ڈاکٹر صاحب کے بوٹ کو بوسہ دیا اور رخصت کیا، وہ بھی عجیب منظر تھا۔
ڈاکٹر صاحب کا سب سے پہلا شجاعانہ اسلامی کارنامہ ۱۹۱۸؁ء میں مسلم لیگ دہلی کے صدر کی حیثیت سے وہ یادگار خطبہ ہے جس میں سب سے پہلے خلافت اور مقامات مقدسہ کی نسبت مسلمانوں کے جذبات کا بے خوفی سے اظہار کیا گیا اور مذہبی کتابوں کے حوالہ سے مسلمانوں کے دعوؤں کے دلائل پیش کئے گئے تھے، اس کے بعد تو ان کا یہ جنون بڑھتا ہی رہا اور خلافت کانگریس اور ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں میں انہوں نے وہ کچھ کیا جو ہندوستان کے کسی مسلمان نے نہیں کیا۔
وہ ہندو مسلم اتحاد کے مناّد، عالم اسلامی کے سفیر اور آزادی وطن کے مبلغ تھے، وہ جلسوں میں بہت کم بولتے تھے، مگر جب بولتے تھے تو وہ کہتے تھے جس کی صداقت دلوں میں گھر کر جاتی تھی، صداقت اور شرافت ان کا خمیر تھا، صداقت کی خاطر ان کو کبھی کبھی اپنے عزیز ترین دوستوں کا ساتھ چھوڑنا پڑتا تھا اور شرافت کے سبب سے ان دوستوں کے غیظ و غضب اور جفاکشی کو پوری متانت اور سنجیدگی کے ساتھ برداشت کرتے تھے، اس قسم کے کتنے مناظر خود میری آنکھوں کے سامنے گزرے ہیں۔
ان کا گھر مہمانوں کے لئے، ان کی جان دوستوں کے لئے اور ان کا مال ضرورت مندوں کے لئے وقف تھا، ناواقف ان کو دولت مند سمجھتے تھے، مگر جاننے والوں کو معلوم ہے کہ کبھی ان پر ایسے دن بھی گزرے کہ قرض لے کر مہمانداری کا فرض انجام دیا جاتا تھا اور اس حالت میں بھی قومی جلسوں کا پورا بار اپنے کندھوں پر اٹھائے اور سینکڑوں اپنے جاننے والوں اور نہ جاننے والوں کو اپنا مہمان بنائے ہوئے تھے۔
وہ فیاضی کا مجسمہ، لطف و محبت کا پیکر اور حسن اخلاق کا فرشتہ تھا، متانت اور سنجیدگی ان کی طینت اور غوروفکر ان کی عادت تھی، وہ وطن کے خدمت گار، انسانیت کے غمخوار اور اسلام کے پرستار تھے، وہ دنیا میں اتحاد اسلامی کے پیغامبر اور ملک میں ہندو مسلم اتحاد کے مبلغ تھے، ان کی پالیٹکس کے سولہ برسوں میں طوفان سیاست کے سینکڑوں جھونکے اٹھے اور سیاسی انقلاب خیال کے بیسیوں حادثے پیش آئے، مگر صداقت اور راست بازی کا یہ پہاڑ جوں کا توں اپنی جگہ پر جما رہا۔
نہرو رپورٹ کے سلسلہ میں وہ وقت آیا جب اپنوں نے ان کو غیر بنایا آشناؤں نے ان کو بیگانہ سمجھا اور دوستوں نے دشمن قرار دیا، بلکہ کلکتہ خلافت اور آل پارٹیز کانفرنس میں وہ وقت بھی آیا جب ان کے اپنے دست و بازو نے ان کو دھکے دیئے اور مسلمانوں نے ان پر حملہ کی نیت کی، تاہم یہ شرافت و متامت کا مجسمہ خاموش رہا اور اپنوں کی بدسلوکی کے ذکر اور دوستوں کی جائز شکایت سے کبھی اپنے لب کو آلودہ نہیں کیا۔
اب زمین کا یہ فرشتہ ہمارے شوروشرر کی سرزمین سے بہت دور امن و راحت کے آسمان پر چلا گیا، اس کا جسم خاکی دلی کے ایک کھنڈر میں ہزاروں من مٹی کے نیچے دبا ہے، اب زمانہ کے حوادث اس کو رنجیدہ، عالم اسلامی کی زبوں حالی اس کو آلودہ اور وطن کی غلامی اس کو افسردہ نہیں بنائے گی، اس کا تن خاکی اب ایک تھکے ہوئے مسافر کی طرح زمین کے بھچونے پر ابدی نیند سورہا ہے اور اس کی روح ہماری مدح و ستائش سے بے پروا اور ہمارے نوحہ و ماتم سے بے خبر اپنے نیک اعمال کا محضر لئے خدا کے سامنے ہے، امید ہے کہ مغفرت کا نورانی خلعت اس کے جسم پر اور نوازش کا تاج اس کے سرپر ہوگا۔
آہ! کیسا دل دوز منظر ہے، وہ حاذق جس سے دردِ دل کے ہزاروں مریضوں کو شفا ہوئی، جس نے اپنے تیس برس کے معالجہ میں ہزاروں کو موت کے خطرہ سے بچایا ہو، وہ ایک ریلوے سفر میں گاڑی کے ایک ڈبہ میں ڈبہ کے ایک تختہ پر موت کے پنجہ کو آہستہ آہستہ اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھتاہے اور اس بے کسی اور بے بسی کے عالم میں اپنے کو مجبور پاتا ہے اور چالیس منٹ کے اندر ستاون برس کی عمر میں اس کی ہستی کا چراغ گل ہوجاتا ہے۔
دہلی کے اسٹیشن نے بیسوں دفعہ اس کے جلوس و استقبال کے رنگین منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں گے، ۱۰؍ مئی ۱۹۳۶؁ء کی صبح کو اسی اسٹیشن نے اسکی بے روح لاش کو گاڑی سے اترتے دیکھا، استقبال کرنے والوں کا ہجوم اب بھی تھا، مگر چہروں پر مسکراہٹ کے بجائے رنج و غم، آنکھوں میں نورکی جگہ آنسوؤں کے قطرے دل میں خوشی و مسرت کے بدلہ غم و الم کا اضطراب۔
طرابلس اور بلقان کے ہنگاموں نے ہمارے چند جدید تعلیمیافتہ نوجوانوں کو سوتے سے بیدار کردیا تھا، محمد علی مرحوم اس قافلہ کے رہبر اور ڈاکٹر انصاری اس قافلہ کے سب سے پرجوش رہرو تھے۔ افسوس کہ ان دونوں درمندوں نے دل ہی کی آزار میں وفات پائی۔ دل کا درد مجاز بن کر نمودار ہوا اور ان کی قومی زندگی کا باعث ہوا اور وہی حقیقت بن کر ان کی موت کا سبب ہوا، محمد علی مرحوم نے پہلے داغ مفارقت دیا اور اب،
داغِ فراق صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اِک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
(سید سلیمان ندوی، جون ۱۹۳۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...