Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > نواب سید محمد علی حسن خان

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

نواب سید محمد علی حسن خان
ARI Id

1676046599977_54337890

Access

Open/Free Access

Pages

104

ایک نواب عالم کی وفات
ہندوستان کے ان پرانے مسلمان خاندانوں میں سے جو شرافت نسب کے ساتھ علم اور دولت دونوں کے جامع ہیں، اب خال خال گھرانے رہ گئے ہیں، انہیں میں سے ایک والا جاہ نواب سید صدیق حسن خان مرحوم کا خاندان تھا، جن کے چھوٹے صاحبزادہ صفی الدولہ حسام الملک شمس العلماء نواب سید محمد علی حسن خان مرحوم نے ۱۹؍ نومبر ۱۹۳۶؁ء مطابق، ۳؍ رمضان المبارک ۱۳۵۵؁ھ کی صبح کو اپنی کوٹھی بھوپال ہاؤ س لال باغ لکھنؤ میں بہتر برس کی عمر میں وفات پائی، افسوس ہے کہ ایک پرانے خاندان کے فضل و کمال اور جاہ و جلال کی یادگار آج مٹ گئی۔
مرحوم ان لوگوں میں تھے جن کی آنکھوں نے مسلمانوں کے علمی و تعلیمی، سیاسی و تمدنی انقلاب کے مناظر دیکھے، وہ پیدا تو ایک ’’کنزرویٹو‘‘ گھرانے میں ہوئے اور اسی ماحول میں تعلیم و تربیت پائی، لیکن فطرت کی طرف سے وہ ایک اثر پذیر اور حساس دل لائے تھے، باوجود اس کے کہ وہ بھوپال میں پیدا ہوئے جہاں حددرجہ قدامت کی حکومت اور سطوت تھی اور ممکن نہ تھا کہ نورمحل میں نئی روشنی کی ایک کرن بھی پہنچ سکے، مگر استعداد طبع دیکھئے کہ کہ خود بخود ادھر طبیعت کا میلان ہوا، سرسید کی جدید تعلیمی تحریک میں اور پھر ندوۃ العلماء کی مذہبی تحریک میں شریک ہوئے اور ہر قسم کی جانی و مالی خدمتیں انجام دیں، مدت تک ندوہ کے اعزازی ناظم رہے، دارالمصنفین کے اساسی ارکان میں تھے اور لکھنؤ کی ہر سنجیدہ تحریک میں ان کا نام سرفہرست رہتا تھا۔
وہ عربی زبان کے عالم، فارسی زبان کے ماہر اور اردو کے مشّاق اہل قلم تھے، فارسی شعر و سخن اور محاورات پر ان کو عبور کامل حاصل تھا، فارسی کا مشکل سے کوئی اچھا شعر ہوگا جو ان کو یاد نہ ہو، خود بھی فارسی میں اکثر اور اردو میں کمتر شعر کہتے تھے، انہوں نے اپنے والد ماجد کے زمانۂ عروج میں دنیا بھر کے مشرقی علماء و فضلاء کی صحبتیں اٹھائی تھیں اور سوائے علمی و ادبی چرچوں کے ان کے کانوں میں کوئی بات پڑی بھی نہ تھی، ان کے لئے ان کے والد نے ہر فن کے باکمال استاد مقرر کئے تھے جن کے سایۂ تربیت میں وہ پل کر جوان ہوئے۔
وہ ہماری زبان کے مصنف تھے، متعدد مذہبی اور تاریخی کتابیں ان کے قلم سے نکلیں، شعراء کے تذکرے ان کی جوانی کی یادگار ہیں، فطرۃ اسلام اور مآثر صدیقی ان کی بہترین کتابیں ہیں، آخر میں ’’مردم دیدہ‘‘ کے نام سے ان باکمالوں کے حالات لکھ رہے تھے، جن سے ان کو ملنے کا اتفاق ہوا اور ان کی تعداد کچھ کم نہیں، ان میں بڑا حصہ شعراء کا تھا۔
وہ مولانا شبلی مرحوم کے بے تکلف دوستوں میں تھے اور ایک دوسرے کے سچے قدردان تھے، یہی وراثت منتقل ہوکر ہم تک پہنچی، موصوف کو ہم لوگوں سے اس درجہ محبت اور شفقت تھی جو خاندانی محبت سے کسی طرح کم نہ تھی اور اس کو اس وضعداری سے نباہا کہ تیس برس کے عرصہ میں ایک دفعہ بھی اس میں فرق نہ آیا، وہ مجسم اخلاق، حددرجہ پاک باطن اور نیک طینت تھے، شروفساد سے طبعی نفور اور ہنگامہ آرائیوں سے کوسوں دور تھے، تمول کے باوجود خاکسار اور علم و فضل کے باوجود ملنسار تھے۔
مذہبی خیالات میں گو وہ عقلیت کی طرف مائل تھے، لیکن اسی کے ساتھ مذہبی پابندی ان میں اتنی سخت تھی کہ ان کی ایک نماز بھی ان کے مقررہ وقت سے ٹلنے نہیں پاتی تھی، رسم و رواج، بدعات کا ان کے گھر میں نشان نہ تھا اور اس بارے میں وہ نہایت سخت تھے، ان کی محفل میں علم و فن، شعر و سخن اور قومی مسئلوں کے سوا کوئی اور مذکور نہ تھا، عربی کتابیں ان کو پڑھے ہوئے مدت ہوچکی تھی اور پھر ان کا کوئی مشغلہ نہ رہا، تاہم جب ذکر آجاتا تو ان کو بھولے ہوئے خواب کی طرح بہت سی باتیں یاد آجاتیں۔
نورمحل کے رہنے والے! تو بڑے باپ کا چشم و چراغ اور ایک پرانے خاندان کا چراغ سحر تھا، ۵؍ نومبر ۱۹۳۶؁ء کو تیرا آخری دیدار نصیب ہوا، خیال نہ تھا کہ علم و فضل کا یہ ٹمٹماتا ہوا دیا اتنا جلد بجھ جانے والا ہے، اب تو وہاں ہوگا جہاں خدا چاہے نور کے سوا ظلمت کا گذر نہیں، صفی الدولہ! حسام الملک! اب تو وہاں ہے جہاں کسی کی دولت ہے اور نہ کسی کا ملک ہے، تیرے اعمالِ نیک کی دولت اور تیرے کارخیر کی مملکت تیرے ساتھ ہے، دعا ہے کہ وہ شہنشاہ علی الاطلاق اپنے ملک لازوال کی دولت جاوید سے تجھ کو سرفراز فرمائے۔ (سید سلیمان ندوی، دسمبر ۱۹۳۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...