Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > نواب سر مزمل اﷲ خاں بہادر

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

نواب سر مزمل اﷲ خاں بہادر
ARI Id

1676046599977_54337895

Access

Open/Free Access

Pages

106

نواب سر مزمل اﷲ خاں بہادر
حاتم یو پی کی وفات
ہمارے صوبہ کے حاتم نواب سر مزمل اﷲ خاں بہادر نے ستمبر کی آخری تاریکوں میں اپنے وطن بھیکم پور ضلع علی گڑھ میں وفات پائی، مرحوم کئی سال سے لگاتار بیمار تھے، بخار اور کھانسی کی تکلیف تھی، ضعف کبھی بڑھ جاتا کبھی گھٹ جاتا، اور آخر اتنا بڑھا کہ پھر نہ گھٹا، چوہتر (۷۴) برس کی عمر میں دنیا کے ہر اُتار چڑھاؤ کو دیکھ کر اور ہر سرد و گرم کو آزما کر دین و دنیا دونوں کی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہو کر ۲۸؍ ستمبر ۱۹۳۸؁ء کو اس ہری بھری دنیا کو الوداع کہا۔
مرحوم شروانی خاندان کے چشم و چراغ تھے، اور جیسا کہ وہ فرمایا کرتے تھے، سرسیدؔ کی گودوں میں کھیل کر جوان ہوئے تھے، عربی و فارسی کی تعلیم پائی تھی، اور انگریزی اتنی جانتے تھے کہ اخبار پڑھ اور گفتگو سمجھ لیتے تھے، فارسی کے شاعر تھے، مرزا سنجر طہرانی سے اصلاحیں لی تھیں، فارسی کا پورا دیوان مرتب تھا، ان کی غزلیں اور نظمیں کئی دفعہ ان کی زبان سے سنیں اور شاید ایک دو دفعہ معارف میں بھی چھپیں، تقریر شگفتہ اور پر مذاق کرتے تھے۔
مولانا شبلی مرحوم کے دوستوں میں تھے، اسی کا اثر یہ تھا کہ وہ مولانا کے کاموں اور تحریکوں سے دلچسپی رکھتے تھے، ندوہ کی طرف ان کا التفات مولانا ہی کے دم قدم اور قلم کے اشاروں سے ہوا، اور دارلمصنفین کی طرف ان کی چشم کرم بھی اسی نسبت کی مرہون ہے، دارالمصنفین اپنی چوبیس برس کی عمر میں حیدرآباد و بھوپال کی سرکاروں کے علاوہ اگر کسی محسن کے فیض سے مستفید ہوا ہے تو وہ بھیکم پور کے رئیس کی ذات تھی، مرحوم نے دارالمصنفین کی مسجد پانچ ہزار کے خرچ سے بنوائی، اور اس کے لیے دری کا فرش اور پردے بنوا کر بھیجے۔
علی گڑھ کالج ایجوکیشنل کانفرنس، مسلم یونیورسٹی، اسلامیہ اسکول اٹاوہ، الٰہ آباد یونیورسٹی، ہندو یونیورسٹی، دارالعلوم ندوۃ العلماء اور دارلعلوم دیوبند غرض اس صوبہ کا کوئی علمی و تعلیمی ادارہ ایسا نہیں جو ان کے چشمہ فیض سے سیراب نہیں، بلکہ سن کر حیرت ہوگی کہ جمعیۃ العلماء اور کانگریس تک ان کے خوانِ نعمت سے مستفید تھے، وہ ہر قوم اور ہر فرقہ کے نیک کاموں کی امداد میں حصہ لیتے تھے، مسلمان ہندو، عیسائی پارسی کی کوئی تخصیص نہ تھی، غرض جو آیا وہ اپنے نصیب کا حصہ پاگیا۔
ہر کجا چشمۂ بود شیریں
مردم و مور و مرغ گرد آیند
مرحوم اپنی ذاتی دولت مندی کے باوجود بیحد سادہ زندگی بسر کرتے تھے، ایک دفعہ انھوں نے اپنے ململ کے کُرتے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ تین آنے گز کا ہے اور انہی کے گاؤں کا بنا ہوا ہے لیکن اس ذاتی کفایت شعاری سے بچایا ہوا سرمایہ بے تکلف سال دو سال میں قوم و ملک کے کسی کام کے نذر کردیتے تھے، وہ اکثر ایسے موقع پر شعر پڑھا کرتے تھے۔
نہ کس می دہاند نہ کسی می دہد
خدامی دہاند خدامی دہد
مرحوم سے آخری ملاقات پچھلے جاڑوں میں بھیکم پور میں ہوئی، وہ خود بھی اپنی زندگی سے مایوس تھے اور ایسے ہی کلمات اُن کی زبان پر تھے، دیر تک حج کے واقعات اور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے حالات بیان فرماتے رہے، زندگی کے اختتام اور کسی نیک عمل کے قبول کی حسرت ظاہر کی، میں نے تسلی دی کہ حاتم کی بیٹی دربارِ رسالت میں اپنے باپ کی فیاضی کی بدولت عزت کی مستحق ٹھہری، پھر کوئی سبب نہیں کہ آپ کی تمام عمر کی فیاضی کے کام دربار الٰہی میں قبولیت کے مستحق نہ ٹھہریں۔
افسوس کہ ہمارے صوبہ کا یہ حاتم ہم سے رخصت ہوگیا ہر نیک تحریک کا مددگار، ہر اچھے کاموں کا معاون ہر ضرورت پر ہر ایک کے کام آنے والا جاتا رہا، خداوند رحیم و کریم کی بارگاہ بے نیاز میں دعا ہے کہ وہ مرحوم کے اعمال نیک کو قبول فرما کر اس کو اپنی مغفرت کی دولت سے مالا مال کرے اور مرحوم کے خورد سال جانشین کو عمر و اقبال اور توفیقِ خیر سے بہرہ مند فرمائے۔ (سید سلیمان ندوی ، اکتوبر ۱۹۳۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...