1676046599977_54337899
Open/Free Access
108
مولانا شوکت علی
ہندوستان کی اسلامی دنیا گزشتہ مہینہ ایک اور صدمۂ عظیم سے دوچار ہوئی، یہ مولانا شوکت علی صاحب کی ناگہانی موت کا سانحہ ہے، یہ وہ شخصیت ہے جس نے تیس برس تک مسلمانوں کی خدمت کی، وہ نہ عالم تھے، نہ مقرر تھے، وہ جیسا کہ خود کہا کرتے تھے سپاہی تھے، ان تھک کام کرنے والے، نڈر، پردل اور پرامید، وہ کبھی کسی حال میں ناامید نہیں ہوتے تھے، ان کی تقریر چند فقروں کی ہوتی تھی، مگر وہ فقرے لوگوں میں روح پھونک دیتے تھے، وہ اپنے ساتھیوں کو بھی کبھی مایوس نہیں ہونے دیتے تھے، یہ انہیں کا کام تھا کہ ۱۹۲۰ء سے مرتے دم تک سارے ہندوستان کو چھان مارا تھا، تیس برس کی جانکاہ محنت کے بعد موت نے سپاہی کی کمر کھول دی اور وہ ابدی آرام کے لئے دائمی نیند سوگیا، جامع مسجد دلّی کی سیڑھیاں ان کی خواب گاہ بنیں چشم اعتبار اس کے لوح مزار پر یہ شعر کندہ پائے گی:
زباں دانِ محبّت بودہ ام دیگر نمید انم
ہمی دانم کہ گوش ازدوست پیغامے شنید اینجا
حزیں ازپائے رہ پیمابسے سرگشتگی دیدم
سر شوریدہ بربالین آسائش رسید اینجا
میری ان کی سب سے پہلی ملاقات ۱۹۱۲ء میں ہوئی، بنگلور میں اسلامی تعلیمی کانفرنس تھی، وہ لکھنؤ کی سمت سے اور مجھے مولانا شبلی مرحوم نے بمبئی سے بھیجا تھا، ہم دونوں کا ساتھ اس گاڑی میں ہوگیا، جو دونوں سمتوں کے مسافروں کو لے کر بنگلور جاتی تھی، رات کا وقت تھا، وہ اس زمانہ میں نوکری سے الگ آغا خان کے سیکریٹری کی حیثیت سے مسلم یونیورسٹی کے لئے چندہ جمع کررہے تھے، وہ پہلے بھی صاحب تھے اور اس وقت بھی پورے صاحب تھے۔
اس وقت ایک واقعہ یاد آگیا، تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد میں نے عشاء کی نماز کی تیاری کی، مرحوم نے اس وقت کہا مولانا! میرا بھی جی نماز پڑھنے کو بہت چاہتا ہے، مگر کیا کروں، وضو کے پانی سے قمیض کے کف اور کالر خراب ہوجاتے ہیں، بات آئی گئی ہوگئی چند ہی سال کے بعد خدام کعبہ اور خلافت کی تحریک میں وہ اٹھے، تو پھر دیکھا کہ نہ وہ کوٹ ہے، نہ پتلون ہے، نہ کف ہے، نہ کالر، موٹے کپڑے کا کُرتا اور پائجامہ ہے۔ وضو بھی ہوتا ہے، نمازیں بھی ہوتی ہیں، جسم کی ضخامت کے سبب سے سجدہ میں جھک نہیں سکتے تھے، چارزانو بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے، جھک کر سجدہ کرتے تھے، اﷲ مغفرت فرمائے۔ (سید سلیمان ندوی، دسمبر ۱۹۳۸ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |